Sunday 12 September 2021

شان و مقامِ اولیاۓ کرام علیہم الرّحمہ دوم

0 comments

شان و مقامِ اولیاۓ کرام علیہم الرّحمہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارٸینِ کرام : اللہ تعالیٰ  نے نماز‘ روزہ‘ حج ‘ زکواۃ کے تمام مسائل بیان فرمائے لیکن کہیں لفظ ’’الا‘‘ نہیں فرمایا مگر جس وقت اولیاء کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا ذکر آیا تو لفظ ’’الا‘‘ ابتداء میں لایا کیونکہ ہمارے ظاہراً معاملات رہن سہن میں ہمیں پتہ نہیں چلتا کہ کون اللہ تعالیٰ  کا ولی ہے اور کون نہیں ۔ باوجود اس اختلاط کے ان حضرات کا وہ مرتبہ ہے کہ : لَوْ اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہٗ ۔

ترجمہ : اگر وہ اللہ تعالیٰ  کی ذات پر قسم کھائیں تو اللہ تعالیٰ  انہیں پورا کرتا ہے ۔

اور اللہ تعالیٰ  نے فرمایا : مَنْ عَادٰی لِیْ وَلِیَّا فَقَدْاٰذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ ۔ (بخاری شریف جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر ۹۶۳)

ترجمہ : جس نے میرے ولی کے ساتھ عداوت رکھی اس کے ساتھ میرا اعلان جنگ ہے ۔


معلوم ہوا یہ وہ نفوس قدسیہ ہیں کہ جنکے گستاخوں کیساتھ اللہ تعالیٰ  اعلان جنگ فرمارہاہے اور جنکے ساتھ اللہ تعالیٰ  اعلان جنگ کرے وہ کبھی بھی نجات نہیں پاسکتا۔

اب ہمیں اَلاَ اِنَّ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ لاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلاَ ھُمْ یَحْزَنُوْنَ( یونس آیت۶۲) کا مطلب سمجھنا ضروری ہے۔کیا ان حضرات کو دنیا اور آخرت کا خوف نہیں؟ اگر کہیں کہ دنیا میں خوف نہیں تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ  نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا کہ ’’اَلْقِھَا یٰا مُوْسٰی‘‘ یعنی اے موسی ٰاپنے عصا کو پھینکو۔ جب عصا کو پھینکا تو وہ ایک اژدھا بن گیا۔ جس سے حضرت موسی علیہ السلام ڈر گئے۔(کیونکہ یہ عصا اللہ تعالیٰ  کے جلال کا مظہر تھا) تو اللہ تعالیٰ  نے فرمایا : خُذْھَا وَلاَ تَخَفْ ۔ (سورہ طہ آیت۲۱)

ترجمہ : اے موسی ! خوف مت کرو اسکو پکڑ لو۔

معلوم ہوا دنیا میں انبیاء کو خوف تھا اور وہ بھی مخلوق کا۔ کیونکہ اژدھا مخلوق ہے خالق نہیں۔ جب انبیاء کو اس دنیا میں مخلوق کا خوف ہے تو اولیاء کو بھی ضرور ہوگا کیونکہ انبیاء میں جہاں تک ولایت کا منصب نہ آئے نبوت کی تکمیل نہیں ہوسکتی اگر کہیں کہ آخرت میں خوف نہیں تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ  نے قیامت کے دن کے متعلق فرمایا : یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَاذَا اُجِبْتُمْ ۔ (ماٸدہ آیت۱۰۹)

ترجمہ : جس دن اللہ تعالیٰ  جمع فرمائے گا رسولوں کو پھر فرمائے گا تمہیں کیاجواب ملا ۔

یعنی اللہ تعالیٰ  قیامت کے دن رسولوں کو جمع کرکے فرمائیگا کہ تم اپنی امت سے کیاجواب دیئے گئے تو رسول کہیں گے : قَالُوْا لاَعِلْمَ لَنَا ۔ (سورہ ماٸدہ آیت۱۰۹)

ترجمہ : اے ہمارے مولا! ہمیں کوئی علم نہیں ۔

حالانکہ ان کو علم ہے کہ واقعی ہم نے دنیا میں جاکر دعوت دی پھر بھی کہیں گے ہمیں علم نہیں۔ کیوں؟ وجہ یہ ہے کہ اس دن اللہ تعالیٰ  کے جلال کا ظہور ہوگا اسی طرح عصا اللہ تعالیٰ  کے جلال کا مظہر تھا اور بیبت اور رعب چھا جائے گا۔ تو اس جلال کو دیکھ کررسل کرام علیہم السلام کہیں گئے کہ : لاَ عِلْمَ لَنَا ۔ ترجمہ : ہمیں علم نہیں ۔

یعنی ہمارا علم تیرے علم کے سامنے کالعدم ہے۔ تو جب ’’رسل‘‘ خوف سے یہ کہیں گے تو اولیاء اللہ پر بھی ضرور خوف ہوگا۔ اگر یہ کہیں کہ خالق کا خوف نہیں تو یہ بھی غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے : وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ۔ (سورہ الرحمن آیت۴۶)

ترجمہ : اور جو اپنے رب کے سامنے پیش ہونے کا خوف رکھتا ہو اس کےلیے دو جنتیں ہیں ۔

یعنی جس نے اللہ تعالیٰ  سے خوف کیا اس کیلئے دو جنتیں ہیں معلوم ہوا اللہ تعالیٰ  کا خوف بھی ضروری ہے لہذا معنی یہ ہوگا کہ اولیاء اللہ کو خوف’’ضرر‘‘ نہیں ہوگا بلکہ خوف نفع ہوگا ۔


خوف ضرر اور خوف نفع کا فرق


خوف دو قسم کا ہے ایک خوف ضرر اور دوسرا خوف نفع۔ جو خوف منتج بر ضرر ہے وہ اللہ تعالیٰ  اپنے دشمنوں کو دیتا ہے اور جو خوف منتج برنفع ہے وہ اپنے دوستوں کو دیتا ہے اور یہ خوف(خوف نفع) باری تعالیٰ کے قرب اور معرفت کا نتیجہ ہے اور اللہ تعالیٰ  کی معرفت انسان کا مقصد حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے : وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ ۔  (سورۂ الذاریات) اور معرفت سے کوئی عبادت زائد ہو ہی نہیں سکتی ۔ بلکہ عبادت معرفت کاہی نام ہے ۔ جتنی معرفت زیادہ ہوگی اتنی محبت زیادہ ہوگی اور جتنی محبت زیادہ ہوگی اتنا قرب زیادہ ہوگا اور جتنا قرب زیادہ ہوگا اتنا خوف زیادہ ہوگا ۔ لہذا جتنی معرفت زیادہ ہوگی اتنا خوف زیادہ ہوگا اس لیئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : اِنَّ اَتْقَاکُمْ وَ اَعْلَمَکُمْ بِاللّٰہِ اَنَا ۔ (بخاری صفحہ نمبر ۷)

ترجمہ : میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنیوالا اور اللہ کی معرفت والا ہوں۔

بہرکیف خوف نفع انبیاء و اولیاء کو ضرور ہے اور خوف ضرر۔ ان حضرات کو نہ اس دنیا میں ہے اور نہ آخرت میں۔ اولیاء ولی کی جمع ہے اور ولی صفت مشبہ ہے۔ ولی اللہ تعالیٰ  کا محب ہے اور محبت کے بھی منازل ہوتے ہیں جتنی محبت زیادہ ہوگی اتنا ہی ولایت کا مرتبہ بلند ہوگا۔ ولی خدا کا عبد کامل اور محبوب کامل ہوتا ہے۔ ولی کے حق میں اللہ تعالیٰ  فرماتا ہے۔ حدیث قدسی ہے : لَایَزَاٰنُ عَبْدِ یْ یَتَقَرَّبُ اِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی اَحْبَبْتُہٗ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ فَکُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرَبِہٖ وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِھَا وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِھَا ۔ (بخاری شریف ص ۹۶۲ ج ۲ ، چشتی)

یعنی نوافل سے اتنا قرب حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ  اسکے کان ہوجاتا ہے جس سے وہ سنتا ہے اور وہ اسکی آنکھ ہوجاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے اورہاتھ ہوجاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اور اسکے پائوں ہوجاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ انسان خدا بن جاتا ہے یا خدا انسان میں حلول فرماتا ہے اگر مانیں کہ انسان خدا ہوگیا تو کفر آئیگا اور اگرمانیں کہ انسان میں خدا حلول کرگیا تو شرک آئیگا تو اس حدیث مقدسی کے یہ معنی نہیں بلکہ یہ معنی ہیں کہ وہ مظہر خداہوگیا ہے۔ ایسا ہی جیسا کہ سورج کے سامنے آئینہ رکھ دیں تو وہ سورج آئینہ میں نظر آئیگا تو یہاں نہ سورج آئینہ میں آیا اور نہ سورج آئینہ بنا بلکہ آئینہ مظہر شمس بنا ۔ اسی طرح ہزارہا آئینے سورج کے سامنے رکھ دیں تو سورج تمام میں نظر آئیگا تو وہ تمام آئینے مظہر شمس ہونگے۔ اسطرح بندہ بھی نوافل کے ذریعے اتنا قرب حاصل کرلیتا ہے کہ مظہر خدا بن جاتا ہے بعض لوگوں نے اس حدیث کا مطلب یوں بیان کیا ہے کہ اسکا سننا‘ دیکھنا‘پکڑنا‘ چلنا خدا کی رضا کے بغیر اور خلاف شرع نہیں ہوگا جو کچھ بھی وہ کرتا ہے خدا کی رضا کے مطابق کرتا ہے۔ اسکا یہ مطلب صحیح نہیں اس لیئے کہ حدیث میں ہے : حَتّٰی اَحْبَبْتُہٗ فَاِذَا اَحْبَبْتُہٗ فَکُنْتُ سَمْعَہٗ الخ ۔ اس بندہ کو محبوب بنالیتا ہوں محبوب بنانے کے بعد میں اس کی سمع و بصر وغیرہ ہوتا ہوں ۔ اس کا یہ معنی ہرگز نہیں ہوسکتا کہ محبوب بنانے کے بعد وہ خلاف شرع کام نہیں کرتا۔ قول و فعل خلاف شرع نہ کرنے کے بعد تو وہ محبوب بنتا ہے ۔ پہلے محبوب بنے پھر خلاف شرع کام نہ کرے کیسے ممکن ہے؟ بلکہ وہ پہلے بھی اور بعد میں بھی خلاف شرع کام نہیں کرتا۔ اگر مان لیں کہ وہ بندہ گناہ بھی کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ  کا محبوب بھی ہوجاتا ہے اور پھر وہ خلاف شرع کام نہیں کرتا تو لازم آئۓ گا کہ اللہ معاذ اللہ برائیوں کو پسند کرتا ہے اور جو چیز اللہ تعالیٰ  کی پسند ہو وہ معصیت نہیں ہو سکتی لہٰذا نتیجہ نکلے گا کہ دنیا میں تمام انسان معصیت کرتے رہیں ۔ اگر یہ مطلب لیں تو تمام انبیا و رسل کا تشریف لانا معاذ اللہ عبث ہوگا۔ حالانکہ انبیاء ورسل تو معصیت سے بچانے کےلیے آئے ہیں تو معلوم ہوا معصیت سے کوئی محبوب نہیں ہوتا اسلئے انبیاء و رسل کا تشریف لانا عبث نہیں لہذا ماننا پڑے گا کہ جب تک بندہ برائیوں سے باز نہ آئے خدا کا محبوب ہو ہی نہیں سکتا ۔

اب اس حدیث قدسی کا مطلب یہ ہوگا کہ جسکو امام فخری رازی نے اپنی شہرہ آفاق تفسیر میں ذکر فرمایا ہے امام رازی رحمۃ اللہ علیہ کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ : جب کوئی بندہ نیکیوں پر ہمیشگی اختیار کرلیتا ہے تو اس مقام تک پہنچ جاتا ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ  نے کُنْتُ لَہٗ سَمْعًا وَ بَصَرًا فرمایا ہے جب اللہ تعالیٰ  کے جلال کا نور اسکی سمع و بصر ہوجاتا ہے تووہ دور و نزدیک کی چیزوں کو سن لیتا اور دیکھ لیتا ہے ۔ فیض الباری شرح بخاری دیوبند کے شیخ الحدیث اٹھا کر دیکھ لیں اسمیں بھی یہی مرقوم ہے ۔


اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ لوہے کو آگ میں ڈال دیں وہ لوہا آگ جیسا ہوجائے گا۔ نہ تو لوہا آگ بنا نہ آگ لوہا بنی لیکن آگ کے قرب سے اس میں آگ کے اوصاف ظاہر ہونے لگے اسیطرح بندہ قرب الہی سے مظہر صفات خدا وندی ہوجاتا ہے نہ بندہ خدا بن جاتا ہے نہ خدا بندہ تعالیٰ اللہ عن ذالک علواً کبیرا۔ اب وہ جو کچھ کرتا ہے’’باذن اللہ‘‘ کرتا ہے۔ اور من دون اللہ کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز میں موثر حقیقی اللہ تعالیٰ  کو نہ مانا جائے وہی ’’من دون اللہ ‘‘ اور وہی شرک ہے اور جہاں موثر حقیقی اللہ تعالیٰ  کو مانا جائے وہاں ’’من دون اللہ‘‘ نہیں ہوتا بلکہ باذن اللہ ہوتا ہے۔ لہذا ہم من دون اللہ کی آیات کو مانتے ہیں آپ باذن اللہ کی آیات کو مان لیں۔ علاوہ ازیں’’من دون اللہ‘‘ میں ماتحت الاسباب کی قید لگانا اپنی طرف سے ہے کیونکہ یہ آیت مطلق ہے اور المطلق یجری علی اطلاقہ۔ مطلق اپنے اطلاق پر جاری ہوتا ہے لہذا یہ آیت ماتحت الاسباب اور مافوق الاسباب جمیع کو شامل ہے۔ معلوم ہوا جہاں باری تعالیٰ کا اذن ہوگا وہاں من دون اللہ نہیں ہوگا بلکہ اذن الہی ہوگا جیساکہ عیسی علیہ السلام کے متعلق قرآن نے گواہی دی : وَاُبْرِیُٔ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ ۔ (سورہ آل عمران آیت نمبر ۴۹)

ترجمہ : اور میں شفایاب کرتاہوں مادر زاد اندھے اور برص والے کو اور میں جلاتاہوں مردے اللہ تعالیٰ  کے حکم سے ۔

محترم قارئینِ کرام : معلوم ہوا کہ مادر زاد اندھوں کو بینا کرنا۔ برص والوں کو صحیح کرنا مردوں کو زندہ کرنا۔ باذن اللہ ہوتو ’’من دون اللہ‘‘ میں داخل نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ ’’من دون اللہ‘‘ ہوتا تو یہاں بھی شرک ہوتا ۔ حالانکہ قرآن ہمیں توحید سکھاتا ہے اور شرک سے بچاتا ہے ۔


حدیث بالا میں لفظ ''عادلی'' عدو سے بنا ہے ۔ جس کا معنی ہے ظلم کرنا، دور رہنا، دشمنی رکھنا اور لڑائی کرنا۔ جبکہ لفظ ''ولی'' ولی یا ولایة سے بنا ہے۔ اور ولایة کا معنی ہے : محبت کرنا، قریب ہونا، حاکم ہونا، تصرف کرنا، مدد کرنا، دوستی کرنا اور کوئی کام ذمہ لینا۔ لہٰذا ''ولی'' کا لغوی معنی ہے: قریب، محب، حاکم، مددگار، دوست، متولی امر۔ اور شریعت میں ولی اسے کہتے ہیں جو مومن اور متقی و پرہیزگار ہو اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب محبت سے نواز دے ۔ اور اس بات پر متکلمین کا اتفاق ہے کہ کافر اور فاسق و فاجر کو اللہ تعالیٰ اپنی ولایت (اپنے قرب محبت) سے نہیں نوازتا ۔


حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمة اللہ علیہ تفسیر مظہری میں مرتبہ ولایت پر فائز ہونے کے اسباب ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ''مرتبہ ولایت کے حصول کی یہی صورت ہے کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ آئینہ دل پر آفتاب رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے انوار کا انعکاس ہونے لگے اور پرتو جمال محمدی (علی صاحبہ اجمل الصلوات و اطیب التسلیمات) قلب و روح کو منور کردے اور یہ نعمت انہیں بخشی جاتی ہے جو بارگاہ رسالت میں یا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نائبین یعنی اولیاء امت کی صحبت میں بکثرت حاضررہیں ۔


لفظ ولی کے تمام لغوی معانی مبالغہ کے ساتھ اللہ کے محبوب و مقرب بندوں میں پائے جاتے ہیں ۔ اور اس کے دلائل کتاب و سنت اور سیرت بزرگان دین میں بکثرت موجود ہیں اور اس حدیث پاک میں بھی اس پر مضبوط استدلال موجود ہے ۔


حدیث بالامیں لفظ ''باالحرب'' سے اللہ تعالیٰ کا ولی کے دشمن کے خلاف اعلان جنگ ہے یا پھر دشمن ولی کا اللہ کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کسی کے خلاف اعلان جنگ سے مراد یہ ہے کہ اللہ اسے دنیا میں ہدایت کی توفیق مرحمت نہ فرمائے یا اسے ایمان پر خاتمہ نصیب نہ فرمائے۔ اور آخرت میں اسے عذاب الیم میں مبتلا کردے ۔


بزرگان دین فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے دو گناہوں پر وعید جنگ فرمائی ہے


(1) سود


(2) اللہ کے محبوب بندوں سے عداوت 


امام ملا علی قاری مکی حنفی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : اللہ کے محبوب بندوں کے ساتھ عداوت رکھنا انتہائی خطرناک ہے ، اس کی وجہ سے ایمان کے خلاف خاتمہ ہونے کا خطرہ ہے اور اسی قسم کا مضمون حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے کشف المحجوب میں لکھا ہے ۔ (اعاذنا اللہ من ذالک)


حدیث بالامیں قرب محبت پانے والے شخص کے متعلق لفظ ''عبدی (میرابندہ)'' فرمانے میں اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ عالیہ میں بلند مراتب حاصل کرنے کا اصل سبب خدا تعالیٰ کی بندگی ہے۔ جیسا سورہ اسراء میں آیت اسراء میں حضور سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیے عبد کا لفظ استعمال فرمایا ہے ۔ اور ''مما افرضت علیہ'' فرض سے مراد وہ دینی احکام ہیں جنہیں دلیل قطعی کے ذریعے جن و انس پر لازم کردیا جائے ۔ فرض کا انکار کفرہے، اور فرض کو ادا نہ کرنے والا فاسق و فاجر ہے ۔ بعض مقامات پر فرض کا اطلاق نواہی پر بھی ہوتا ہے کیونکہ نواہی میں بھی کام کو نہ کرنا فرض کر دیا جاتا ہے بلکہ نواہی سے احتراز کرنا، اوامرکی ادائیگی سے زیادہ ضرور ی ہے ۔


حدیث بالامیں ''وما یزال العبد یتقرب الی بالنوافل'' میں نوافل سے مراد وہ عبادات ہیں جو فرض وواجب نہیں۔ جیسے نفلی نماز، نفلی روزہ، تلاوت قرآن، محافل میلاد، محافل ایصال ثواب، درود شریف وغیرہ۔ اور ''فاذا احبببتہ فکنت سمعہ الذی یسمع بہ تا ورجلہ التی یمشی'' میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ محبوب کے کان ہاتھ اور پائوں بن جانے سے مراد یہ ہے کہ جب بندہ مومن فرائض پر پابندی کے بعد نوافل کی کثرت اختیار کرتا ہے اور مجاہدات و ریاضات کے ذریعے وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے انوار و تجلیات اس پر وارد ہوں تو وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے۔ اب اس کا سننا، دیکھنا، پڑھنا اور چلنا عام انسانوں کی طرح نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے دوریاں اور فاصلے ختم کردیئے جاتے ہیں اور وہ جہاں چاہے تصرف کرسکتا ہے ۔


جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا واقعہ موجود ہے کہ ملکہ یمن بلقیس مسلمان ہونے کی غرض سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار کے قریب پہنچ چکی تھی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا : تم میں کون ہے جو بلقیس کا تخت (سینکڑوں میل دور صنعاء یمن سے) اس کے میرے پاس پہنچنے سے پہلے میرے پاس لائے ؟ '' تو قرآن مجید، پارہ نمبر 19، سورہ نمل، آیت نمبر 40 میں ہے : اس شخص نے جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہا: میں آپ کے پاس وہ تحت آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے لاتا ہوں ۔


یہ تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی امت کے ولی تھے ، لیکن حضور سید الانبیاء حضرت محمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی امت کے اولیاء کی شان پہلی امتوں کے اولیاء کرام سے کہیں زیادہ ہے ۔


اس حدیث میں اولیاء کیلئے جن مافوق الاسباب اختیارات کا ذکر ہے وہ اختیارات روحانی ہیں ، لہٰذا اولیاء کرام کو یہ اختیار وفات کے بعد بھی حاصل رہتے ہیں کیونکہ اجماع امت ہے کہ وفات سے روح فنا نہیں ہوتی ، بلکہ علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ مقدمہ ابن خلدون میں فرماتے ہیں کہ وفات کے بعد روح جسم سے آزاد ہونے کی وجہ سے زیادہ طاقتور ہوجاتی ہے ۔


روح کا وفات کے بعد دنیاوی زندگی کی نسبت زیادہ مضبوط ہونا دلائل شرعیہ سے ثابت ہے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ارشاد ہے ، جوکہ صحیح بخاری ، کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال، حدیث نمبر 1252 میں ہے کہ : بیشک میت دفن کرکے لوٹنے والوں کے جوتوں کی آواز سنتی ہے ۔


حالانکہ اگر زندہ آدمی کو قبر میں دفن کر دیا جائے تو وہ باہر سے لاؤڈ اسپیکر کی آواز بھی نہیں سن سکتا ، لیکن میت جوتوں کی آواز سنتی ہے ۔


چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ہمعات نمبر 11میں فرماتے ہیں : حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی اپنی قبر انور میں زندہ اولیاء کی طرح تصرف فرمارہے ہیں ۔


علاوہ ازیں تمام سلاسل روحانیہ قادریہ ، نقشبندیہ ، چشتیہ اور سہروردیہ و غیرہا کے مسلمہ مشائخ کا اہل قبور سے فیض حاصل کرنے اور ان کے روحانی تصرفات پر اجماع ہے ۔


حدیث بالا میں لفظ ''ولان سالنی لاعطینہ یعنی اگر وہ مجھ سے مانگے تو ضرور اسے عطاء کرتا ہوں۔'' سے اولیاء کرام کی دعائوں کا قبول ہونا ثابت ہوتا ہے ۔


یہی وجہ ہے کہ اولیاء کرام سے دعا کروانا ہمیشہ سے مسلمانوں میں مروج ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضرت اویس قرنی رحمة اللہ علیہ کے بارے میں فرمایا ، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ، باب من فضائل اویس قرنی، حدیث: 4612 میں ہے : تم میں سے جس کی بھی ان (اویس قرنی) سے ملاقات ہو ا تو وہ تمہارے لیے استغفار کریں ۔


اور امام بخاری و مسلم علیہما الرّحمہ کے استاذ شیخ ابوبکر ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت نقل فرمائی ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں قحط پیدا ہوا تو صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روضہ نبوی پر حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم آپ اپنی امت کے لیے بارش کی دعاء فرمائیں کیوں کہ وہ ہلاک ہونے والی ہے ۔


چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ جلد نمبر 6 صفحہ نمبر 356 طبع ریاض اور فتح الباری شرح صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے خواب میں فرمایا : عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ انہیں سلام کہو اور بشارت دو کہ بارش ہوگی ۔


حدیث بالا میں لفظ ''ولان استعاذنی لاعیذنہ یعنی اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو ضرور بالضرور پناہ دیتا ہوں'' سے مراد نفس شیطان کے شر سے یا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کی طرف سے سختی یا اس کی بارگاہ سے دوری وغیرہ سے پناہ مانگنا مراد ہے ۔ یہی وجہ ہے جو ہم کہتے ہیں کہ اولیاء کرام گناہوں سے محفوظ ہیں۔ جس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اولیاء کرام کو اپنی پناہ میں رکھتے ہوئے گناہوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔ اور کسی حکمت کے تحت ان سے کوئی لغزش ہوجائے تو فوراً رجوع الی اللہ کی توفیق مرحمت فرماتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اولیائے کرام کا ادب عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔