مجددِ دین و ملت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ حصہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
۔1295ھ/1878ء میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد کے ہمراہ پہلی بار حج بیت اللہ کیلئے گئے۔ قیام مکۃ المکرمہ کے دوران مشہور شافعی عالم شیخ حسین بن صالح آپ سے بے حد متاثر ہوئے اور آپ کی بڑی تحسین و تکریم فرمائی،کیونکہ اعلیٰ حضرت نے صرف دن میں ان کی کتاب ”الجوھرۃالمضیہ“کی شرح نہایت فصیح و بلیغ عربی میں ”النیرۃالوضیہ فی شرح الجوھرۃ المضیہ“کے نام سے لکھ کر دے دی تھی۔بعدازاں آپ نے اس کتاب میں کچھ تعلیقات اور حواشی کا اضافہ کر کے اس کا تاریخی نام”الطرۃ الرضیہ فی النیرۃ الوضیہ “ تجویز فرمایا۔ اسی طرح1322 ھ/1905ء میں آپ دوبارہ زیارت حرمین شریفین کے لیے گئے تو اس بار وہاں کے علماء کبار کیلئے نوٹ (کرنسی) کے ایک مسئلے کا حل ”کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم“کے نام سے تحریر فرمایا۔ اس کے علاوہ ایک اور کتاب “الدولۃ المکیّہ“بھی تحریر فرمائی، جس میں حضورسیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کے اثبات پرعالمانہ اور محققانہ بحث کرکے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کوقرآن حدیث کی روشنی میں ثابت فرمایاہے۔ چنانچہ ان ہی تصانیف جلیلہ کی بناء پر بعض علماءِ حرمین طیبین نے آپ کو”مجدداُمت“کا خطاب دیا ہے۔
1295ھ/1877ء میں حضرت شاہ آل رسول مار ہروی رحمۃ اللہ علیہ سے سلسلۂ قادریہ میں بیعت ہوئے اور دیگر سلاسل مثلاً سلسلۂ چشتیہ ، سہروردیہ اور نقشبندیہ وغیرہ میں دوسرے مشائخ سے خلافت و اجازت حاصل کی۔
اعلی حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ بچپن ہی سے تقویٰ و طہارت ، اتباعِ سنت، پاکیزہ اخلاق اورحسن سیرت کے اوصاف جلیلہ سے مزین ہوچکے تھے۔ آپ کی زندگی کے تمام گوشے اور تمام شعبے اتباع شریعت اور اطاعت و محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے معمور تھے آپ کی حیات مبارکہ ایک ایک لمحہ اور زندگی کا ایک ایک گوشہ کتاب و سنت کی پیروی میں گزرا۔ آپ صرف چودہ برس کی عمر میں ہی عظیم الشان عالم اور عظیم المرتبت فاضل ہوگئے تھے اور پھر تقریباً چون(54) برس تک مسلسل دینی اور علمی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ آپ کے سب کام حب الہٰی اور حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت تھے۔آپ کے خادم خاص بیان کرتے ہیں کہ امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ چوبیس گھنٹوں میں صرف ڈیڑھ یا دوگھنٹے آرام (وہ بھی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پرعمل کی وجہ سے)فرماتے اور باقی تمام وقت تصنیف و تالیف ، درس و تدریس کتب بینی، افتاء اور دیگرخدمات دینیہ میں صرف فرماتے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال آپ کے ہم عصر تھے اور آپ کو بڑی قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ایک موقع پر آپ کو خراج عقیدت اورخراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایاکہ: ”ہندوستان کے دورِ آخر میں امام احمد رضا جیسا طباع اور ذہین فقیہہ پیدا نہیں ہوا، اُن کے فتاویٰ، اُن کی ذہانت و فطانت ، کمال فقاہت اور علوم دینیہ میں تبحر علمی کے شاہد عادل ہیں۔ ان کی طبیعت میں شدت زیادہ تھی، اگر یہ چیز درمیان میں نہ ہوتی تو مولانا احمد رضا خان اپنے دور کے امام ابو حنیفہ ہوتے“۔ (بحوالہ: اسلامی انسا ئیکلوپیڈیا :صفحہ 1138) اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمہ اللہ کی تمام عمر درس و تدریس، وعظ و تقریر ، افتاء اور تالیف و تصنیف میں بسرہوئی، آپ کوآقائے نامدارحضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عشق و محبت تھی۔ ذکر و فکر کی ہر مجلس میں تصورِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ذہن شاداب رہتا تھا۔دین اسلام کے ہر گوشے اور ہر شعبے کو محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سمو دیا۔ عشق و محبت کی پاکیزہ لطافتوں کو جن لوگوں نے بدعت کا نام دیا، آپ نے انہیں سنت و بدعت کا فرق سمجھایا۔ عظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تنقیص وکمی کرنے والوں کا عاشقانہ غیرت سے احتساب کیااور ذکروفکراورعلم و عمل کے ہر پہلو میں عظمت رسول کو اجاگر کیا ۔
تقدیس ِخداوندی اور ناموسِ رسالت اور عظمت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتحریک آپ نے 1878ء سے1921ء تک جاری رکھی اورمحافلِ میلادکے انعقادکی جو مشعلیں آپ نے روشن رکھیں،وہ آج چمکتے ہوئے ستاروں میں تبدیل ہوکرچہار دانگِ عالم میں روشنیاں بکھیررہی ہیں،آپ نے مختصرسی عمرمیں جوکارہائے نمایاں سرانجام دےئے ہیں وہ اس بات کے شاہدعادل ہیں کہ آپ کاوجودآیاتِ خداوندی میں سے ایک آیت کادرجہ رکھتاہے۔ امام احمدرضا!کسی فردِواحدکانام نہیں بلکہ تقدیس ِالوھیت اورناموسِ رسالت اورعظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک کانام ہے۔عامتہ المسلمین کے زندہ ضمیرکانام ہے۔عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوب کردھڑکنے والے مبارک قلب کانام ہے اور جب تک یہ سب چیزیں زندہ رہیں گی،امام احمدرضاخان بریلوی رحمہ اللہ کانام بھی زندہ وتابندہ رہے گااورآج اگرعصمتِ انبیاء اورعظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کاچراغ روشن ہے توامام احمدرضاخان فاضل بریلوی رحمہ اللہ کادامن اس کا فانوس بناہواہے۔
اعلیٰ حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کو پچپن سے زائدعلوم وفنون پرمکمل دسترس اورمہارت حاصل تھی۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کثیر التصانیف عالم دین ہیں۔آپ کی تصانیف ِجلیلہ کی تعدادکم وبیش ایک ہزار(1000)تک ہے۔کثرتِ تصانیف کے لحاظ سے بھی آپ کی شخصیت ایک امتیازی حیثیت کی حامل ہے۔اس قدرتصانیف وتوالیف کے علاوہ آپ نے مختلف علوم وفنون کی تقریباًاسّی(80)کتابوں پرحواشی بھی تحریرفرمائے ہیں۔ وہ علوم وفنون جن میں آ پ کی یاد گار علمی و تحقیقی تصانیف ہیں، مثلاً عقائد ، کلام ، تفسیر ، حدیث ، اصول حدیث، فقہ ، اصول فقہ، تجوید ، تصوف ، فضائل و مناقب، علم جفر، علم ریاضی و ہندسہ، زیجات، توقیت اور علم نجوم و ہیئت وغیرہ شامل ہیں اور ان میں نمایاں ترین تخلیق شانِ اُلوھیت اورناموسِ رسالت، عظمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، احترام اولیاء اورروحِ قرآن کے مطابق قرآنِ مجیدکا سلیس اوربامحاورہ ترجمہ الموسوم ”کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن“ہے،جواسمِ بامسمّٰی ترجمہ ہے یعنی اس کے پڑھنے سے واقعی ایمان وایقان کاخزانہ حاصل ہوتاہے بلکہ اورزیادہ ہوتاہے۔ اوردوسری شہرۂ آفاق تصنیف بارہ ضخیم جلدوں میں شاندار علمی شاہ کار اور تحقیقات ِنادرہ پر مشتمل فقہی انسائیکلوپیڈیا ”فتاویٰ رضویہ“ ہے، جس میں ہزاروں قدیم و جدید شرعی مسائل و احکام اور علمی و فقہی تحقیقی فتاویٰ قلم بند ہیں۔ جس کو جامعہ نظامیہ لاہورکے اساتذہ نے مفتی عبدالقیوم ہزاروی رحمہ اللہ کی سرپرستی میں جدید زبان وبیان اورتسہیل کے ساتھ 33 (تینتیس) جلدوں میں شائع کردیا ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ رضویہ کے کتاب الطہارۃ کے باب التیمم میں ایک نادر فتویٰ تحریر فرمایا، جس میں آپ نے ایک سو اکاسی (181 )ایسی چیزوں کے نام گنوائے ہیں ،جن سے تیمم کیا جاسکتا ہے اس میں 74 منصوصات (یعنی وہ مسائل واحکام جنھیں فقہاءِ متقدمین نے بیان فرمادیا) اور 107 مزیدات(یعنی وہ مسائل واحکام جنھیں آپ نے اپنے اجتہادواستنباط سے بیان فرمایا) ہیں۔ اور پھر ایک سو تیس (130) ایسی اشیاء کے نام تحریر کئے ہیں، جن سے تیمم کرناجائز نہیں ہے، ان میں 58 منصوصات اور72زیادات ہیں۔ اسی طرح امام احمد رضا خان بریلوی نور اللہ مرقدہ نے وضو کیلئے پانی کی اقسام پر بحث کرتے ہوئے ایسے پانی کی ایک سو ساٹھ (160) قسمیں بیان کی ہیں، جس سے وضو کرنا جائز ہے اور وہ پانی جس سے وضو جائز نہیں، اس کی ایک سو چھیالیس (146) اقسام بیان فرمائی ہیں اوراسی طرح پانی کے استعمال سے عجزکی ایک سو پچھتر (175)صورتیں بیان فرمائی ہیں۔ امام اہلسنّت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیزنے ایک سوال کہ ”باپ پر بیٹے کا کس قدر حق ہے “کے تحت احادیث مرفوعہ کی روشنی میں تفصیلی جواب دیتے ہوئے اولاد کے ساٹھ (60) حقوق بیان فرمائے اورفرمایا کہ یہ حقوق پسر اور دختر (بیٹا اوربیٹی) دونوں کے لئے مشترک ہیں اور پھر بیٹے کے خاص پانچ حقوق لکھے اوردختر کے لئے خاص پندرہ حقوق لکھے ۔اس طرح آپ نے اولاد کے کل اسی (80) حقوق تحریر فرمائے ہیں۔ ہم نے صرف یہ تین مثالیں آپ کے سامنے اختصار واجمال کے ساتھ پیش کی ہیں ،ورنہ فتاویٰ رضویہ کے جہازی سائز بارہ ضخیم جلدیں اس قسم کی تحقیقاتِ نادرہ وعجیبہ سے لبریز پڑی ہیں اور جن کا مطالعہ کرنے کے بعد انسان بے ساختہ پکار اٹھتا ہے کہ اعلیٰ حضرت کے قلب و دماغ میں سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی سی مجتہدانہ ذہانت و بصیرت ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ کی جملہ خوبیوں میں ایک بہت بڑی خوبی بلکہ امتیازی شان یہ بھی ہے کہ آپ استفتاء (سوال)کاجواب اسی زبان میں دیتے تھے،جس زبان میں سوال کیاجاتا تھا،مثلاًآپ کے پاس دنیابھرسے سینکڑوں سوالات آتے تھے،اگر سوال عربی زبان میں ہوتاتوآپ جواب بھی عربی زبان میں دیتے تھے،اگر سوال فارسی زبان میں ہوتاتوآپ کا جواب بھی فارسی میں ہوتا تھا،یہاں تک کہ آپ نے انگریزی زبان میں سوال کاجواب بھی انگریزی زبان میں ہی تحریرفرمایااور اگرسوال منظوم شکل میں ہوتاتھاتوآپ کاجواب بھی منظوم ہوتااوراس کے علاوہ اگرسوال میں سائنسی اندازاختیارکیاجاتاتوآپ بھی جواب سائنسی اندازمیں تحریرفرماتے تھے“۔(بحوالہ: علوم سائنس اورامام احمدرضا،چشتی)
عقائد اسلام کے جو ارکان مرجھا چکے تھے،ان کے احیاء کے لئے آپ نے جوکتابیں تصنیف فرمائی ہیں، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں: تمہید ایمان، حُسام الحرمین، سبحان السبوح، خالص الاعتقاد، الکوکبۃ الشہابیہ، انباء المصطفیٰ، تجلی الیقین وغیرہ، اور اعمالِ صالحہ کے احیاء کیلئے فتاویٰ رضویہ کی بارہ ضخیم جلدیں آپ کی مجددانہ بصیرت پرشاہد عادل ہیں ۔ وہ امام احمد رضا ، جو”وعلمناہ من لدنا علما “ کی تعبیر ، ”انما یخشی اللہ من عبادہ العلمٰوء“ کی تفسیر اور”والرّاسخون فی العلم “کی مکمل تصویر تھے۔ وہ امام احمد رضا، جس نے اپنی علمی و فقہی بصیرت سے بے شمار پیچیدہ مسائل پرمستند فتوے ارشاد فرمائے ۔ وہ امام احمد رضا، جس نے عرب و عجم تک علم و حکمت کی قندیلیں روشن کردیں ۔ وہ امام احمد رضا، جسے عرب و عجم کے علماء کرام نے خراج عقیدت پیش کیا ۔ وہ امام احمد رضا، جو ”العلماء ورثۃ الانبیاء “ کے حقیقی مصداق تھے۔ الغرض اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار وہبی اور کسبی خصوصیات سے نوازا تھا۔ جلیل القدر مجدد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ” بے شک اللہ تعالیٰ اس امّت کیلئے ہر سو سال کے سرے پر ایک آدمی بھیجے گا جو اس کیلئے اس کے دین کی تجدید کرے گا۔(سنن ا بوداؤد، مشکوٰۃ المصابیح،چشتی)
مجددکی سب سے بڑی علامت ونشانی یہ بیان کی گئی ہے کہ گزشتہ صدی کے آخرمیں اس کی پیدائش اورشہرت ہوچکی ہواورموجودہ صدی میں بھی وہ مرکزعلوم وفنون سمجھا جاتاہو،یعنی علماءِ کرام کے نزدیک اس کے احیاءِ سنت وازالہ بدعت اوردیگر خدماتِ دینیہ کاخوب چرچااور شہرت ہو۔ علماء کرام کی بیان کردہ علامات کے سوفیصدمصداق اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ثابت ومسلّم ہیں۔ جن کوحدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق عرب وعجم کے ممتازعلماءِ کرام اورمشائخِ عظام نے (چودھویں صدی کے) مجددکے عظیم لقب سے پکارا ہے ۔
علماء اسلام کے بیان کیے فرمودہ اصول کے مطابق اگر اہل حق چودھویں صدی کی فضائے اسلام پر نگاہ ڈالیں تو اُنہیں مجددیت کا ایک درخشاں آفتاب اپنی نورانی شعاعوں سے بدعت و ضلالت اور کفر و شرک کی تاریک و دبیز تہوں کو چیرتا ہوا نظر آئے گا۔جس کی بے مثال تابانی سے ایک عالم چمک و دمک رہا ہے اور وہ فخر روزگار مجدد دین و ملّت اعلیٰ حضرت امام الشاہ احمد رضا خان بریلوی ، حنفی ، قادری ہیں ۔ اس لیے کہ آپ کی ولادت باسعادت10شوال المکرم 1272ھ میں ہوئی اور آپ کا وصال 25صفر المظفر1340ھ میں ہوا ۔ یوں آپ نے تیرھویں صدی میں ستائیس سال، دو مہینے اور بیس دن پائے۔ جس میں آپ کے علوم و فنون، درس و تدریس، تالیف و تصنیف، افتاء اور وعظ و تقریر کا شہرہ ہندوستان سے عرب و عجم تک پہنچا اور چودھویں صدی میں چالیس سال ایک مہینہ اور پچیس دن پائے۔ جس میں حمایت دین، نکایت مفسدین، احقاق حق و ازہاق باطل، اعانت سنّت اور اماتت بدعت کے فرائض منصبی کو کچھ ایسی خوبی اور کمال کے ساتھ آپ نے سرانجام دئیے جو آپ کے جلیل القدرمجدد ہونے پر شاہد عدل ہیں ۔ شاہ کار نعتیہ کلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ علوم دینیہ کے عالم وفاضل ہونے کے ساتھ ساتھ شعروسخن کابھی اعلیٰ ذوق وشوق رکھتے تھے اورآپ فن شاعری میں بھی بڑاکمال رکھتے تھے،لیکن آپ کاذوقِ سلیم حمدوثناء اورنعت ومنقبت کے علاوہ کسی اورصنف سخن کی طرف متوجہ نہیں ہوا۔آپ کے اس شعروسخن کے کلام میں بھی وہی عالمانہ وقارہے۔وہی قرآن وحدیث کی ترجمانی ہے،وہی سوزوساز اور کیف و سرور کا سامان ہے۔اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سر تاپا جذبۂ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سرشاررہتے تھے۔آپ نے جس والہانہ عقیدت سے اورجذبہ عشق ومحبت میں ڈوب کرجوآقائے نامدارحضوررحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نعتیں لکھیں ہیں،اُن کا ایک ایک لفظ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے نکلاہواتھاجوسامع کے قلب ودماغ میں اترکر سامع کے دل میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شمع کو روشن کردیتا ہے۔ آپ کے مشہورِزمانہ ”سلام“کی گونج پورے عالم اسلام میں اوربالخصوص برصغیر پاک وہندکے گوشہ گوشہ میں کہیں بھی اورکسی بھی وقت سنی جاسکتی ہے۔وہ مشہورِزمانہ سلام یہ ہے: مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام شمع بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام! اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی رحمہ اللہ کے نعتیہ دیوان”حدائق بخشش“ کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نے اپنے شاہ کارنعتیہ کلام میں حمدوثناء اورنعت و منقبت کوچار مختلف زبانوں (عربی، فارسی ، اردواورہندی) میں پیش کیاہے اورآپ کے شاہ کارنعتیہ کلام میں وہ مشہورِزمانہ نعت جس میں آ پ نے کمالِ مہارت،برجستگی کلام اورقوتِ تحریرکاایک عظیم شاہ کارکلام پیش فرمایاہے اورایک ہی نعت کے ہرشعرمیں چارمختلف زبانوں(عربی،فارسی،ہندی اور اردو)کو بڑے خوب صورت اوردل نشین اندازمیں یکجاکرکے موتیوں کی مالا کی طرح پرودیاہے،ا س عظیم شاہکارنعت کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں: لم یاتِ نظیرک فی نظر مثل تونہ شد پیدا جانا جگ راج کوتاج تورے سرسوہے تجھ کوشہہ دوسراجانا البحرعلیٰ والموج طغیٰ من بے کس وطوفاں ہوش رُبا منجدھار میں ہوں بگڑی ہے ہوا موری نیّا پار لگا جانا ۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل مدت تک تشنگان علم و معرفت کو اپنے کمالات ظاہری و باطنی سے مستفید کر کے اور عالم اسلام میں روحانیت ، تقرب الہٰی ، علم و حکمت اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عالمگیر ذوق پیدا کرکے 25؍صفر المظفر1340ہجری ،بہ روز جمعۃ المبارک، دو بج کر اڑتیس منٹ (2:38) پر آپ نے داعئی اجل کو لبیک کہا،اُدھر مؤذن نے حی علی الفلاح کی صدا بلند کی اِدھر آپ نے جان! جان آفرین کے سپرد کردی۔ ”سوانح امام احمد رضا“ کی تحقیق اور روایت کے مطابق جس وقت آپ کا وصال ہوا، اسی وقت بیت المقدس کے ایک شامی بزرگ نے خواب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف فرما ہیں اور آثار سے معلوم ہوتا تھا کہ آپ کسی کے انتظار میں ہیں۔انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، کیاکسی کا انتظار ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہاں،احمد رضا انتظار ہے“۔انہوں نے پھر عرض کی، یا رسول اللہ!یہ احمد رضا کون ہیں؟ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’ہندوستان میں بریلی کے باشندے ہیں“۔ چنانچہ بیدار ہونے کے بعد اس شامی بزرگ نے پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ امام احمد رضا خان بریلوی ہندوستان کے بڑے جلیل القدر عالم دین ہیں اور اب تک بہ قید حیات ہیں،چنانچہ وہ شوقِ ملاقات میں ہندوستان کی طرف چل پڑے، جب بریلی شریف پہنچے تو اُنہیں بتایا گیا کہ آپ جس عاشق رسول امام احمد رضا سے ملاقات کرنے تشریف لائے ہیں وہ تو 25 صفرالمظفر کو اس عالمِ فانی سے عالمِ جاوِدانی کی طرف روانہ ہوگئے إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعونَ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment