امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ عظیم المرتبت مفسر ، جلیل القدر محدث اور بلند پایہ فقیہ تھے،آپ کی نابغۂ روزگار شخصیت نے تنہا وہ کام انجام دئے جو ایک انجمن اور تحریک انجام نہيں دے سکتی۔آپ نے اپنی ساری زندگی اسلام کی نشر واشاعت اور دفاع اہل سنت کے لئے وقف کردی تھی ۔
ولادت مبارکہ : آپ کی ولادت مبارکہ 10 شوال المکرم 1272ھ م12 جون1856 ء،بروز اتوار ، ہندوستان کےمشہور شہر بریلی کے محلہ”جسولی“میں ہوئی ۔
اسم گرامی ولقب مبارک : آپ کے جدا مجد حضرت مولانا رضا علی خان رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کا نام”احمد رضا“رکھاجبکہ آپ کا پیدائشی نام "محمد"تھا،اور تاریخی نام " المختار "ہے-
آپ کا لقب مبارک "اعلی حضرت" زبان زد خاص وعام ہے ۔
آپ "رضا" بطور تخلص استعمال فرماتے تھے،آپ نے اپنےاسم گرامی کے ساتھ"عبد المصطفی "کا اضافہ بھی فرمایا،چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
خوف نہ رکھ رضا ذرا تو 'تو ہے عبد مصطفی
تیرے لیے امان ہے تیرے لیے امان ہے
آپ کے والد محترم کا اسم گرامی حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے جد امجد کا نام مبارک حضرت مولانارضا علی خان صاحب رحمۃ اللہ علیہ تھا-
یہ دونوں حضرات اپنے وقت کے جلیل القدر علماءِ کرام میں شمار کئے جاتے تھے۔
آپ کی تربیت ایک علمی گھرانہ میں ہوئی جس کے نتیجہ میں آپ نے صرف چار ، پانچ برس کی عمر میں قرآن مجید ناظرہ ختم کرلیا تھا اور اپنی بے پنا ہ خداداد صلاحیتوں اور حیرت انگیز قوت حافظہ کی بناء پر صرف تیرہ سال اور دس ماہ کی عمر میں علم تفسیر، حدیث، فقہ و اصول فقہ، منطق و فلسفہ علم کلام اور مروجہ علوم دینیہ کی تکمیل کرلی۔
آپ علم وفضل کے اتنے بلندترین مقام پر فائز تھے کہ عرب و عجم کے علماء کرام نے شاندارالفاظ میں آپ کو خراجِ تحسین پیش کیا اورعظیم الشان القاب سےنوازا۔
1295ھ/1878ء میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ اپنے والد کے ہمراہ پہلی بار حج بیت اللہ کیلئے حاضر ہوئے،مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران مشہور شافعی عالم دین حضرت" شیخ حسین بن صالح" آپ سے بے حد متاثر ہوئے اور آپ کی بڑی تحسین و تکریم فرمائی،انہوں نے آپ کا یہ حیرت انگیز کارنامہ دیکھا کہ آپ نے صرف ایک دن میں ان کی کتاب ”الجوھرۃالمضیۃ“کی شرح نہایت فصیح و بلیغ عربی میں ”النیرۃالوضیۃ فی شرح الجوھرۃ المضیۃ“کے نام سےتصنیف فرمائی۔
اس کے بعد آپ نے اس کتاب میں کچھ تعلیقات اور حواشی کا اضافہ فرمایا اور اس کتاب کا تاریخی نام”الطرۃ الرضیۃ فی النیرۃ الوضیۃ “ تجویز فرمایا۔
اسی طرح1322 ھ/1905ء میں آپ دوبارہ زیارت حرمین شریفین کے لیے گئے تو اس بار وہاں کے علماء کبار کیلئے نوٹ (کرنسی) کے ایک مسئلے کا حل ”کفل الفقیہ الفاہم فی احکام قرطاس الدراہم“کے نام سے تحریر فرمایا۔ اس کے علاوہ ایک اور کتاب “الدولۃ المکیّہ“بھی تحریر فرمائی، جس میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم غیب کے اثبات پرعالمانہ اور محققانہ بحث فرمائی اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے علم غیب کوقرآن کریم واحادیث شریفہ کی روشنی میں ثابت فرمایاہے۔
آپ کی تصانیف،مؤلفات ،رسائل اور کلام میں عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رنگارنگ جلوے نظر آتے ہیں،آپ کے نظم ونثر میں محبت رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا عنصر غالب رہا-جس کی چند مثالیں یہ ہیں:
اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ
ان سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ
قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں
ایمان یہ کہتا ہے مِری جان ہیں یہ
دربار سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح معروضہ کرتے ہیں :
اک دل ہمارا کیا ہے آزار اس کا کتنا
تم نے چلے پھرتے مردے جلادئے ہیں
آنے دو یا ڈوبودو اب تو تمہاری جانب
کشتی تم ہی پہ چھوڑی لنگر اٹھادئے ہیں
ایک میں کیا مِرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا
سرورکونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جود وعطا سے متعلق فرماتے ہیں :
واہ کیا جود وکرم ہے شہ بطحاتیرا
"نہيں"سنتا ہی نہیں مانگنے والاتیرا
تیرے ٹکڑوں پہ پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرّہ تیرا
فیض ہے یا شہِ تسنیم نِرالا تیرا
آپ پیاسوں کے تجسس میں ہے دریا تیرا
اغنیا پلتے ہیں در سے وہ ہے باڑا تیرا
اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
رفعت شان مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے متعلق فرماتے ہیں :
فرش والے تری شوکت کا عُلو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیر
حضرات اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم کی شان اس طرح بیان کرتے ہیں :
تیری نسل پاک میں ہےبچہ بچہ نور کا
تو ہے عین نور تیرا سب گھرانہ نور کا
آپ کو بارگاہ غوثیت سے اٹوٹ وابستگی تھی،بارگاہ حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ میں آپ نے اس طرح نذرانۂ عقیدت پیش کیا :
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سَروں سے قدم اعلیٰ تیرا
سر بھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیا ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
تجھ سے در، در سے سگ اور سگ سے ہے مجھ کونسبت
میری گردن میں بھی ہے دور کا ڈورا تیرا
اس نشانی کے جو سگ ہیں نہیں مارے جاتے
حشر تک میرے گلے میں رہے پٹا تیرا
میری قسمت کی قسم کھائیں سگانِ بغداد
ہند میں بھی ہوں تو دیتا رہوں پہرا تیرا
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں حضرت غوث اعظم کا اس طرح وسیلہ پیش کیا :
تیری سرکار میں لاتا ہے رضا اس کو شفیع
جو میرا غوث ہے اور لاڈلا بیٹا تیرا
مذہب و مشرب
اعلی حضرت فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نسبت کے لحاظ سے" پٹھان" تھے،مسلک کے اعتبار سے "حنفی"اور مشرب کے لحاظ سے قادری تھے ۔
شرفِ بیعت وخلافت
1295ھ/1877ء میں حضرت شاہ آل رسول مار ہروی رحمہ اللہ سے سلسلۂ قادریہ میں بیعت ہوئے اور دیگر سلاسل مثلاً سلسلۂ چشتیہ ، سہروردیہ اور نقشبندیہ وغیرہ میں دوسرے مشائخ سے خلافت و اجازت حاصل کی ۔
تصانیف
آپ نے شان رسالت ،فضائل ومناقب اور عقائد پر (62)کتا بیں تحریر فرمائیں،حدیث اور اصول حدیث پرتیرہ(13)کتابیں،علم کلام اور مناظرہ پر(35)فقہ اور اصول فقہ پر 159 کتابیں اور متفرق باطل فرقوں کے رد میں (400) سے زائد کتابیں لکھی ۔
آپ کی تصانیف میں ایک شہرۂ آفاق کتاب"العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ "جو "فتاوی رضویہ"کے نام سے جانی جاتی ہے ۔
آپ نے اردو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی فرمایا،جس کا نام "کنز الایمان" ہے ۔
کرامت
یوں تو آپ سے بے شمار کرامتوں کا صدور ہوا ہے،یہاں بطور نمونہ ایک کرامت لکھنے کی عزت حاصل کی جارہی ہے :
ایک مرتبہ آپ ٹرین میں "پیلی"سے "بریلی" تشریف لارہے تھے،ٹرین "نواب گنج" کے اسٹیشن پر ایک دومنٹ کے لئے رکی،نماز مغرب کا وقت ہوچکاتھا،آپ احباب کے ساتھ پلیٹ فارم پر نماز کی ادائیگي کے لئے اترے ،احباب پریشان ہوئے کہ گاڑی چلی جائے گي-اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:فکر مندہونے کی ضرورت نہیں؛گاڑي ہمیں لے کرہی جائے گي!
چنانچہ اذان دلواکر بڑے خضوع وخشوع سے باجماعت نماز شروع کردی-
ادھر ڈرائیور نے انجن چلایا لیکن وا ایک انچ بھی آگے نہ بڑھا،ڈرائیور نے انجن کو پیچھے کی طرف چلایا تو وہ چل پڑا،اس نے دوبارہ آگے کی طرف چلایا تو نجن پہلے والی جگہ پر آکر بند ہوگيا-
ایک آواز بلند ہوئی کہ دیکھو وہ درویش نماز ادا کررہا ہے،اسی وجہ سے ریل نہیں چلتی،لوگ آپ کے گرد جمع ہوگئے ،انگریز گارڈ جو حیران کھڑا تھا ،بڑے ادب سے آپ کے قریب بیٹھ گیا،جو نہی آپ نماز سے فارغ ہوکر ریل میں سوار ہوئے ریل چل پڑي،انگریز گارڈ آپ سے متعارف ہوااور اپنے بچوں سمیت بریلی شریف حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوگیا ۔
اعلی حضرت بہت بڑے عاشق رسول صلی الله علیہ وسلم عالم فاضل گزرے ہیں جن کو فقہ حنفی اور اس کی جزئیات پر عبورحاصل تھا۔ جس کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ وه بےحد ذہین اور باریک بین عالم دین تھے فقہی بصریت میں انکا مقام بہت بلند تھا۔
ان کے فتاوی کے مطالعے سے اندازه ہوتا ہے کہ وه کس قدر اعلی اجتہادی صلاحتیوں سے بہره ور اور پاک و ہند کے کیسے بابغہ روزگار فقیہ تھے۔ ہندوستان کے اس دور متاخرین میں ان جیسا طباع اور ذہین فقیہ بمشکل ملے گا ۔
(مقالات یوم رضا، حصہ سوم،چشتی)
آپ کا شمار ان بزرگان دین میں ہوتا ہے جن کو حضورپاک صلی الله علیہ وسلم نے ظاہری حالت میں اپنی بیعت نصیب فرمائی۔
اعلی حضرت کے بارے میں اویس رضا قادری کہتے ہیں کہ اعلی حضرت حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی بارگاه میں ان سے ملاقات کی تمنا لیے حاضر ہوۓ اور وہاں جا کر دوردپاک کی کثرت کردی بے حساب درودپاک پڑھا مگر حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے کوئی اشاره معصول نہ ہوا دوسرے دن بھی اسی طرح حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی بارگاه میں حاضر ہوۓ اور درود پاک کی کثرت کردی مگر اس کے باوجود حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی طرف سے کوئی اشاره نہ ہوا تیسرے دن آپ حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی بارگاه میں حاضر ہوۓ اور روتے ہوۓ یہ قیصدے پڑھنے لگے۔
وه سوۓ لالہ زار پھرتے ہیں
تیرے دن اے بہار پھرتے ہیں
جوتیرے درسے یارپھرتے ہیں
دربدریونہی خوار پھرتے ہیں
اور آخر میں اعلی حضرت نے خود کو بالکل مٹا دیا جب دیکھا کہ حضورپاک صلی الله علیہ وسلم اپنا جلوه نہیں دیکھا رہے تو آپ نے اپنی حثیت اور اوقات بالکل مٹا دی اور یوں فرمانے لگے کہ:
کوئی کیا پوچھے تیری بات رضا
تجھ سے کتے ہزار پھرتے ہیں
یہ ہوتا ہے عشق کا مقام کہ خود کو معشوق کے قدموں میں گرا دیتا ہے عاشق خود کو معشوق کے سامنے حقیربنا کر پیش کرتا ہے
یہ بات کہنے کی دیر تھی حضورپاک صلی الله علیہ وسلم بشم خود ظاہری حالت میں تشریف لاۓ اور اعلی حضرت کو اٹھا کر اپنے سینہ مبارک سے لگایا۔
اس کے بعد اعلی حضرت کو حضورپاک کے اتنے جلوے نظر آۓ کہ کبھی کہتے ہیں:
کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
کبھی کہتے ہیں
تو شمع رسالت ہے عالم ہے تیرا پروانہ
کبھی کہتے ہیں
وه کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
غرض یہ کہ اس کے بعد اعلی حضرت کے قلم سے ایسے ایسے الفاظ نکلے کہ جنہیں سن کر بڑے بڑے اہل علم دنگ ہیں اعلی حضرت نے حضورپاک کی شان میں اتنا کچھ لکھ دیا کہ جو آج تک کوئی نہ لکھ سکا اور کمال بات یہ اعلی حضرت نے نہ کبھی حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کی شان کو گھٹایا نہ کبھی بڑھایا بلکہ حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کے حکم کے مطابق آپ کی شان کو بیان کیا اور ایسی بیخودی کے عالم میں بیان کیا کہ اگر اعلی حضرت کو کوئی کلام بھری محفل میں پڑھ دیا جاۓ تو وہاں پر موجود ہر فرد جھوم اٹھتا ہے۔
اعلی حضرت نے سرورکہوں کے مالک و مولا کہوں تجھے کلام لکھ کر اپنی حیرت و بے بسی کی انتہا کر دی آپ صلی الله علیہ وسلم کی جسم مبارک کی تعریف کرتے ہوۓ فرماتے ہیں کہ:
الله رے تیرے جسم منور کی تابشیں
اے جان جاں میں جان تجلا کہوں تجھے
پھر جب اعلی حضرت آپ صلی الله علیہ وسلم کے وصف کا ذکر کرتے ہیں تو یوں فرماتے ہیں:
تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری
حیراں میں میرے شاه میں کیا کیا کہوں تجھے
جب اعلی حضرت کی نظر حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کے وصف پر پڑتی ہے ان کی عقل حیران ره جاتی ہے اگر کوئی ساری زندگی صرف آپ صلی الله علیہ وسلم کی وصف تحریر کرتا رہے تو وه مر جاۓ گا مگر آپ کے وصف کا ایک باب بھی پورا نہ ہوگا
زندگیاں ختم ہوئیں قلم ٹوٹ گۓ مگر آپ کے وصف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا یہاں پر آکراعلی حضرت کا علم اور قلم جواب دے جاتا ہے اور آپ برجستہ فرماتے ہیں:
حیراں ہوں میرے شاه میں کیا کیا کہوں تجھے
پھر فرماتے ہیں
کہہ لے گی سب کچھ تیرا ثنا خوان کی خاموشی
چپ ہو رہا ہے کہہ کہہ کے میں کیا کیا کہوں تجھے
قارئین ذرا سوچیۓ کہ حضورپاک صلی الله علیہ وسلم کتنی بڑی ہستی ہیں کہ آپ کی تعریف کرتے کرتے ثناء خوان بھی خاموش ھوجاتے ہیں مگر آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعریف مکمل نہیں ہوپاتی اور آخر پر اعلی حضرت نے کلام کا ختم سخن کرتے ہوۓ فرماتے ہیں:
لیکن رضا نے ختم سخن اس پہ کر دیا
خالق کا بنده خلق کا آقا کہوں تجھے
حضورپاک تو دور کی بات میں ان کے غلام کی تعریف کرنے کے بھی قابل نہیں اور نہ ہی میرے پاس ایسا علم ہے کہ میں اعلی حضرت کو خراج تحسین پیش کرسکوں میں خود یہ سب لکھنے کیلۓ انہی کے کلام کا سہارا لے رہا ہوں
میں کیا لکھ پاؤں گا اعلی حضرت کے مطلق کہ میرے اعلی حضرت کون تھے بس اتنا سمجھ لیجے وه میری جان ہیں میری دھڑکن ہیں میری روح میں ہلچل بیپاکردینے والے انسان ہیں مجھ جیسوں کو عاشق رسول بنا دینے والے عظیم انسان اور ثناء خوان مصطفی ہیں۔
دنیا کا کوئی کونہ ایسا نہیں جہاں اعلی حضرت کے کلام کی گونج نہ ہو ۔
وصال مبارک
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا وصال مبارک 25،صفر المظفر1340ھ م 28 اکٹوبر 1921،بروز جمعہ ادھر مؤذن صاحب اذان جمعہ میں "حی علی الفلاح" کہا اور ادھر آپ نےکلمۂ طیبہ پڑھا،اور مولانا مصطفی رضا خان صاحب سے فرمایا : سورۂ یسین شریف اور سورۂ رعد شریف تلاوت کرو!اس کے بعد آپ کے چہرۂ مبارک پر ایک نور ظاہر ہوااورآپ اس دنیا ئے فانی سے کوچ فرماگئے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment