Friday 24 September 2021

گانوں کی طرز پر نعت شریف لکھنا اور پڑھنا

0 comments

 گانوں کی طرز پر نعت شریف لکھنا اور پڑھنا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : حدثِ مبارکہ میں ہے کہ : انّ من الشعر حکمۃ ۔ (صحیح بخاری باب مایجوز من الشعر)

ترجمہ : بعض اشعار حکمت سے بھرے ہوتے ہیں ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مدحت اور شمائل و خصائص کو ابتدائے اسلام میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اشعار کی صورت میں بیان کیا اور اس کا سلسلہ ابھی تک جاری و ساری ہے ۔


اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن فرماتے ہیں : حقیقۃً نعت شریف لکھنا نہایت مشکل ہے جس کو لو گ آسان سمجھتے ہیں ، اِس میں تلوار کی دھار پر چلنا ہے، اگر بڑھتا ہے تو اُلوہیت میں پہنچا جاتا ہےاورکمی کرتا ہے توتنقیص (یعنی شان میں کمی یا گستاخی) ہوتی ہے ۔ البتّہ حمد آسان ہے کہ اِس میں راستہ صاف ہے جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے ۔ غرض حمد میں ایک جانب اَصْلاً حد نہیں اورنعت شریف میں دونوں جانب سخت حدبندی ہے ۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت صفحہ نمبر 227)


نعت کہنا دودھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے ۔ ایک جانب فنِ شاعری ، زبان و بیان ، نشست و برخواست ، وسیع مطالعہ ، عقاٸد سے متعلقہ علوم اور عصری شعور ضروری ہیں ۔ تو دوسری جانب اثر انگیز نعت کیلئے حضورِ والا سے ایک نسبتِ خاص کا ہونا اور ان کے ادب و احترام کو ملحوظ رکھنا بدرجہٗ اتم ضروری ہے ۔ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں لہٰذہ ایسے عامیانہ مضامین و لفظیات اور تشبیہات و استعارات جو عام عشق و محبت کی وارداتوں میں رقم ہوتے ہوں ان سے احتراز لازم ہے ۔


بلا اشد ضرورتِ شعری ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تو یا تم سے مخاطب کرنا بھی سوٗ ادب ہے ۔ بے حد اہتمام کرنا چاہئیے کہ شعر چاہے بدلنا یا نکالنا پڑے لیکن خطاب شانِ شایان ہو ۔ ایسے مضامین جن سے شرک کا شبہ ہوتا ہو ، ان سے بھی بچنا چاہئیے ۔ بے جا غلو بھی نازیبا ہے اکثر دیکھا گیا ہے کہ شعرا انبیا علیہم السلام ماسبق کی روایات یا سیرتِ حضورِ صلی اللہ عیہ وآلہ وسلم کے واقعات بطور تلمیح رقم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دو مصارع میں کسی اہم واقعہ کی طرف اشارہ کرنا اور ذاتِ ختمی مرتبت کے مقامِ عالیہ کا تعین بھی کرنا ۔ ایک مشکل امر بن جاتا ہے اور بہت زیادہ مشق و مطالعہ کا متقاضی ہے ۔ جس طرح غزل یانظم کا شاعراپنی ذاتی و اردات ، اپنے زمانے کے واقعات وحادثات اورماضی کی روایات کے آمیزے سے مضامین کسب کرتا ہے ۔ اسی طرح نعت کے شاعر کیلئے بھی ضروری ہے کہ اپنی وارداتِ قلبی رقم کرے ، اپنے گرد و پیش سے بھی واقف رہے اور نعت کی روایت سے بھی جڑا رہے ۔ من گھڑت یا ضعیف روایات و واقعات کو قلمبند کرنے سے احتراز کرنا بھی ضروری ہے ۔ تاریخِ اسلام سے کما حقہ واقفیت اور سیرتِ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا گہرا مطالعہ ، مضامین میں گہرائی کا ضامن ہے ۔ سطحی اور افتادہ پا مضامین سے بچنے کی سعی کرنی چاہئے  ۔


صحابہ کرام میں سے حسان بن ثابت ، اسود بن سریعؓ، عبداللہ بن رواحہ ، عامر بن اکوع ، عباس بن عبد المطلب ، کعب بن زہیر اور نابغہ جحدی رضی اللہ عنہم نعت گو شعراء تھے ۔ علماء میں نعت گو شعرا کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ البتہ جنہیں شہرت دوام نصیب ہوئی ان میں امام ابو حنیفہ ، امام شافعی ، مولانا روم ، امام بوصیری اور امام احمد رضا خان بریلوی علیہم الرحمہ کے نام سر فہرست ہیں ۔ اولیاۓ کرام میں سے جن ہستیوں کو نعت گوئی کا شرف نصیب ہوا ان میں سے شیخ عبدالقادر جیلانی ، بابا فرید الدین گنج شکر ، حضرت سلطان باہو ، خواجہ نظام الدین اولیاء ، امیر خسرو ، خواجہ عثمان ہارونی ، خواجہ محمد یار فریدی اور پیر مہر علی شاہ علیہم الرحمہ کے نام مشہور و معروف ہیں ۔ مدحتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حقیقی مزاج سے آگاہی کےلیے شاعر بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نعتیہ کلام کا مطالعہ از حد ضروری ہے ۔ آپ وہ نعت گو اور نعت خواں صحابی ہیں کہ جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مسجد نبوی کے منبر پر بیٹھ کر دعا دی ’’اللہم ایدہ بروح القدس‘‘ ۔ (المعجم الکبیر باب الحاء، رقم 358،چشتی) کہ (اے اللہ پاک حضرت جبریل امین علیہ السلام کے ذریعے حساب بن ثابت کی مدد فرما) ۔ نعتیہ اشعار سننے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انہیں تعریفی اور دعائیہ کلمات کے ذریعے سند قبول سے بھی نوازتے ۔ جب حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے نعت کا یہ شعر پڑھا کہ ’’فان ابی و والدتی و عرضی ۔۔۔۔ لعرض محمد منکم وقاء‘‘ ۔ (میرے ماں باپ اور عزت و آبرو ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عزت و ناموس پر قربان ہو جائیں) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان الفاظ میں دعا دی ’’وقاک اللہ یا حسان حر النار‘‘ کہ اے حسان تجھے اللہ تعالی جہنم کی گرمی سے بچائے ۔


جب اشعار میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعریف و توصیف کی جا رہی ہو تو از حد ضروری ہوتا ہے کہ اس تقدس کے پیش نظر اشعار کو مکمل اسلامی ڈھانچے میں ڈھال کر پیش کیا جائے ۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ نعت گو شاعر دینی علوم و معارف سے واقفیت اور پاکیزہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کاشوق و شغف رکھتا ہو ۔ آجکل محافل نعت کا اہتمام عام ہے جو کہ خوش آئند ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان محافل نعت کو مزید مؤثر بنانے کےلیے بہت سے پہلو اصلاح طلب بھی ہیں ۔ اصحاب علم کا فرض بنتا ہے کہ جہاں جہاں خامیاں ہوں انہیں فرض منصبی سمجھتے ہوئے دور کریں ۔


بعض اوقات اس انداز میں عشقیہ اشعار پڑھے جاتے ہیں کہ سامعین عش عش کر اٹھیں اور زیادہ سے زیادہ داد و تحسین اور نوٹوں سے نوازیں ۔ العیاذ باللہ آج کل اکثر فلمی گانوں میں رد و بدل کر کے نعتیہ اشعار بنا لیے جاتے ہیں اور اسی فلمی ترنم اور لے میں انہیں پڑھا بھی جاتا ہے ۔ ہے تو یہ قابلِ افسوس صورت حال لیکن تعجب ان اصحاب علم پر بھی ہے جن کی سرپرستی اور زیر سایہ شفقت یہ سارا کچھ ہو رہا ہوتا ہے اور وہ جانتے بوجھتے مصلحتوں کا شکار ہو کر خاموشی اختیار کرتے ہیں ۔ اہلِ علم کی یہ ذمہ داری ہے کہ کہ جشن ولادت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور مشن بعثت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان ایک توازن برقرار رکھیں ۔ جہاں حبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے تذکرے ہوں وہاں اس کے تقاضوں سے بھی لوگوں کو آگاہ کریں ۔ با شرع اور با عمل لوگوں کو نعت پڑھنے کی دعوت دی جائے داڑھی منڈے اور گانوں کی لے میں پڑھنے والے مراثی گوٸیوں کو ہرگز نہ بلایا جاۓ ۔


نعت پاک کو گانوں کے طرز میں پڑھنا اور سننا دونوں ناجائز ہےکیونکہ جب وہ گانے کی طرز پر نعت پاک پڑھے گا جو کہ ذکر رسول ہے تو لا محالہ اسکا ذہن گانے کی طرف جاۓ گا ۔ تو یقیناً یہ ایک غلط فعل ہے بلکہ یہ نعت کی توہین ہے اور فساق کا طریقہ ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : نعت سادہ خوش الحانی کے ساتھ ہو گانوں کی طرز پر نہ پڑھی جاۓ ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد ۲۳ صفحہ نمبر ۳۶۳،چشتی)


نعتِ رسول صلی الله علیہ و آلہ و سلم بلا شبہ لکھنا بھی سعادت ، پڑھنا بھی اور سننا بھی سعادت ہے ۔ مگر آجکل یہ تینوں departments یعنی نعت لکھنا ، پڑھنا اور سننا عجیب بلکہ افسوس ناک صورتِ حال کا شکار ہیں ۔ سستی شہرت حاصل کرنے کےلیے وہ لوگ نعتیہ کلام لکھتے ہیں جنہیں الفاظ و معنیٰ کا سرے سے علم ہی نہیں ، نعت خوان آداب سے نا آشنا ہیں اور  گمشدہ گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھتے ہیں اور  سننے والے عاشقان بھی  عجیب انداز میں داد دیتے ہیں ۔ تینوں میں سب سے زیادہ خراب کا م نعت خوان حضرات نے کیا ہے ۔ کئی تو ایسے ہیں کہ شاعروں سے مخصوص گانوں پر کلام لکھواتے ہیں ۔ جیسے شہباز قمر آفریدی ، شاہد قادری ، وغیرہ ان لوگوں نے انڈین اور پاکستانی گانوں اور غزلوں پر اچھی خاصی ریسرچ کر کے ان کی طرز پر نعتیں پڑھنے کو عادت بنا لیا ہے ذرا غور کیجیے گا مثلاً :


“نوری مکھڑا تے زلفاں نے کالیاں ” کی طرز نور جہاں کے گانے ” تو میرا یار میرا پیار میرے ہاںڑ یاں” پر ہے ۔ ”میرے آقا آؤ کہ مدت ہوئی ہے تیری راہ میں اکھیاں” کی طرز نصرت فتح کی غزل “پھروں ڈھونڈتا مے کدہ توبہ توبہ” پر ہے ۔ “ایک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے” کی طرز نصرت فتح کی غزل “کیا تھا جو گھڑی بھر کو تم لوٹ کے آجاتے” پر ہے ۔ جب ایسے بدبخت لوگوں سے بات کی جاۓ تو اِدھر اُدھر کی باتیں کر کے پہلے پکڑائی نہیں دیتے ، پھر ثبوت مانگنے لگتے ہیں اور آخر میں ساری ذمہ داری audience پر ڈال دیتے کہ لوگ جس طرح کی فرمائش کرتے ہیں ہم اسی طرح سے نعت پڑھتے ہیں ۔ ” آقا میریا ں اکھیاں مدینے وچ رہ گیاں”  اس کی طرز  عنایت حسین بھٹی کے گاۓ ہوۓ گانے “بابل میریا ں گڈیاں تیرے گھر رہ گیاں” پر ہے  آجکل یہی گا نا انڈین لڑکی ھرشدیپ نے بھی گا یا ہوا ہے ۔ شرم اِن کو مگر نہیں آتی ۔


اسی طرح کئ ایک لوگ ہیں جنہوں نے گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھیں اور پڑھتے ہیں ۔ یہ گھٹیا حرکت صرف نعتیہ کلام لکھنے والوں تک ہی  تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ مرثیہ خوانوں اور نوحہ خوانوں نے بھی یہی طریقہ اپنا رکھا ہے ۔ نا صرف گانوں کی طرز اپنائی جاتی ہے بلکہ موسیقی اور چھنکار کا استعمال بھی ہوتا ہے ۔ کیا یہ عجیب معاملہ نہیں ہے کہ مدح سرائی میں سازوں اور گانوں کی طرز کا سہارا لیا جاۓ ؟ واقعہ کربلا کو مرثیہ یا نوحے کی شکل میں  بیان کرنے کےلیے موسیقی استعمال کی جاۓ ؟ یا نعت کےلیے گانوں کی طرز اپنائی جاۓ ؟ اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ اسی محفل میں موجود مفسرِ قرآن بھی نہیں بولیں گے اور نہ ہی ذاکرین اعتراض کریں گے ۔ کیا ان لوگوں کو منصبِ رسالت مآب صلی الله علیہ و آلہ و سلم کی یہ سمجھ آئی ہے کے پوری کائنات کے چیف ایگزیکٹو آفیسر صلی الله علیہ و آلہ و سلم کے حضور گلدستہ عقیدت گانوں کی طرز پر پیش کیا  جاۓ؟  یا خانوادہ رسول علیہ سلام کے ساتھ غم کا اظھار موسیقی کی چھنکار میں کیا جاۓ؟ دیکھنا یہ ہے کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے اور اس کے تدارک کے لئے کیا کرنا چاہیے ۔


آج تک کسی فلمی شاعر نے یہ جرأت نہیں کی ہے کہ اس نے کسی مشہور نعت کی زمین میں کوئی گانا لکھا ہو اور نہ ہی کسی میوزک ڈائریکٹر نے یہ جسارت کی ہے کہ کسی مشہور نعت کی طرز پر کسی گانے کی دھن ترتیب دی ہو ۔ مگر غیر فلمی لوگ مشہور فلمی گانوں کے وزن میں نعتیں مرثیے یا حمدیہ کلام تحریر کرتے ہیں اور پھر ان کو نوے فیصدی بھارتی فلمی گانوں کی طرز میں پڑھا جاتا ہے ۔ اور برِ صغیر کے بہت سے معروف و غیر معروف نعتیہ شعراء حضرات کا جو پہلے سے موجود ذخیرہ کلام ہے تو اس میں سے بھی اکثر کے ساتھ یہی سلوک کیا گیا ہے ۔ اس سے ہوتا کیا ہے کہ جب ہم کوئی ایسی نعت یا مرثیہ وغیرہ سنتے ہیں تو اصل گانے کے بول دماغ میں گونجنے لگتے ہیں ۔ چند ایک بہت سینئر نعت خواں حضرات کو چھوڑ کر آج باقی کے جتنے بھی نعت خواں ہیں ان میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے کسی فلمی گانے کی طرز پر نعت نہ پڑھی ہو بلکہ بعض کا تو اوڑھنا بچھونا ہی بھارتی گانوں کی دھنوں میں ترتیب دی گئی نعتیں پڑھنا ہے ۔ اور پھر ظاہر ہے کہ ہو بہو نقل بنانے کےلیے ان گانوں کو درجنوں بار سننا بھی پڑتا ہو گا اور ایسا کرنے والوں میں بہت بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں تو کیا یہ کوئی بہت اچھی بات ہے ؟ کیا یہ نعت کی توہین نہیں ہے کہ اسے گانے کی طرز پہ پڑھا جائے ؟ کیا عشق رسول میں اتنی محنت بھی نہیں کر سکتے کہ نعت کو اپنے انداز میں پڑھیں کہ وہ سن کر کسی فلمی گانے کا چربہ نہ لگے اور مرثیے کو گانے کی طرز میں پڑھنا تو بجائے خود کتنا بڑا المیہ ہے ۔ آج جتنی محنت اور توجہ رنگ برنگے کامدار خالص زنانہ سٹائل کے کُرتوں اور صافوں پر دی جا رہی ہے بھاری بھر کم معاوضے ساؤنڈ سسٹم سٹیج سیٹ اپ وغیرہ تو نعت خوانی بھی ایک ٹھیک ٹھاک منافع بخش کاروبار کی صورت اختیار کر گئی ہے پھر نعت کے بولوں کے وزن کے مطابق ان پر کسی بھارتی فلمی گانے کی دھن فٹ کر دی جائے تو بغیر محنت کے رنگ اور بھی چوکھا ۔ ان کی مفت میں پبلسٹی اور پبلک بھی راضی ۔


ایک دور تھا جب نعت خواں کا ایک نام تھا اور لوگ نعت سُن کر ایمان تازہ کرتے تھے ۔ ایک محفل کا سچا واقعہ ۔ ایک نعت خواں ایک محفل میں نعت کا ایک مصرعہ پڑھ رہا تھا اور لوگ اُس پر نوٹ نچھاور کر رہے تھے ۔ پیچھے سے ایک بندے نے آواز لگائی ، او مذہبی میراثی ، بس کر ، بہت کمائی ہو گئی ہے ، محفل میں سب کو سانپ سونگھ گیا ۔ ایک نے اُٹھ کر کہا کہ ”نعت“ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ پڑھتے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اُن کو اپنے منبر پر بٹھاتے ، تو کہا کہ اُس وقت کافر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ”ہجو“ کرتے تھے اور حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ اُن کا شاعری میں جواب دیتے، جس پر خوش ہو کر آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اُن کو اپنی چادر مبارک بھی دی ۔ البتہ یہ نعت خواں تو کمائی کر رہے ہیں ۔


آج کل اکثر نوٹ خوان اب نعتوں میں کُفریہ کلام بول جاتے ہیں ، اس لیے اہلِ اسلام کو چاہیے کہ علماۓ کرام کو بُلایا کیں ، ان مذہبی میراثیوں کو بُلانا بند کر دیں ۔ تاکہ ایمان کی حفاظت ہو سکے ۔


امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :


سوال : منکراتِ شرعیہ پر مشتمل میلاد کیسا ہے ؟

جواب : وہ پڑھناسننا جو منکراتِ شرعیہ پر مشتمل ہو، ناجائز ہے جیسے روایات باطلہ و حکایاتِ موضوعہ و اشعار خلاف شرع خصوصاََ جن میں توہینِ انبیاء و ملائکہ علیھم الصلٰوۃ و السلام ہوکہ آجکل کے جاہل نعت گویوں کے کلام میں یہ بلائے عظیم بکثرت ہے حالانکہ وہ صریح کلمہ کفر ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر 23 صفحہ نمبر 722)


آج کل نعت کے رُوپ میں کُفر بھی بَک کر گناہ کمایا جا رہا ہے اورعوام کےلیے یہ فرق کرنا مشکل ہے کہ کونسی نعت کے اشعار کُفر پر مبنی ہیں کیونکہ عوام حقیقی اور مجازی معنوں کو نہیں سمجھتی اوربہت سی جگہوں پر علماء کرام موجود ہی نہیں ہوتے اور نہ ہی زیادہ ترعوام نے علماء کرام سے پوچھنا ہوتا ہے ۔ اور سازش کے تحت علماۓ کرام کو ایسی محافل میں بلایا ہی نہیں جاتا ۔


سوال : مخالفِ شرع مثلاََ ڈاڑھی کترواتا یا منڈواتا ہو ، تارکِ صلوۃ ہو اس سے میلاد (نعت ) پڑھوانا کیسا ہے ؟ فرمایا ’’افعال مذکورہ سخت کبائر ہیں اور ان کا مرتکب اشد فاسق و فاجر مستحق عذاب یزداں و غضب رحمٰن اور دنیا میں مستوجب ہزاراں ذلت و ہوان ، خوش آوازی خواہ کسی علتِ نفسانی کے باعث اسے منبرو مسند پر کہ حقیقتہََ مسندِ حضور پُر نور سید عالم امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ ہے تعظیماََ بٹھانا اس سے مجلس مبارک پڑھو انا حرام ہے ، فاسق (گندے) کو آگے کرنے میں اس کی تعظیم ہے حالانکہ بوجہ فسق (گناہ) لوگوں پر شرعاََ اس کی توہین (ذلیل) کرنا واجب اور ضرور ی ہے ۔ (جلد نمبر 23 صفحہ نمبر 734)


ہماری عوام ، جہلا پیر اور اِن کے اجہل مرید اِن معروف و مشہور نوٹ خوانوں کی آوازوں پر جھومتے اور نوٹ نچھاور کرتے ہیں ہے اور کسی کو اُس کی نماز یا داڑھی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا جیسے جناب مرغوب احمد ہمدانی ، قاری وحید ظفر قاسمی ، شہباز قمر فریدی ، شاہد قادری اور ہزاروں ایسے ہیں جنہوں نے داڑھی نہیں رکھی ہوئی ، کیا کوئی سوچے گا اس بارے میں ۔


سوال : میلاد شریف جس کے یہاں ہو وہ پڑھنے والے کی دعوت کرے تو پڑھنے والے کو (کھانا) چاہیے یا نہیں ؟ اور اگر کھایا تو پڑھنے والے کو کچھ ثواب ملے گا یا نہیں ؟‘‘ تو آپ نے فرمایا ’’پڑھنے کے عوض کھانا کھلاتا ہے تو یہ کھانا نہ کھلانا چاہیے ، نہ کھانا چاہیے اور اگر کھائے گا تو یہی کھانا اس کا ثواب ہو گیا اور ثواب کیا چاہتا ہے بلکہ جاہلوں میں جو یہ دستور ہے کہ پڑھنے والوں کو عام حصوں سے دو نا دیتے ہیں اور بعض احمق پڑھنے والے اگر ان کو اوروں سے دو نانہ دیا جائے تو اس پر جھگڑتے ہیں یہ زیادہ لینا دینا بھی منع ہے اور یہی اسکا ثواب ہوگیا‘‘۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر 21 صفحہ نمبر 662)


نعت عبادت سمجھ کے پڑھی جائے نہ کہ پیشہ ورانہ انداز میں فقط حصول دولت کےلیے ۔ اس دوران شعائر اسلام کی پاسداری کا خیال رکھا جائے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان محافل کو دین اسلام کی روح کے مطابق بامقصد اور فائدہ مند بنایا جائے ۔ ان مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سامعین کو نماز کی پابندی اور فکر آخرت کی تلقین کی جائے ۔ اپنے ارد گرد کے ماحول کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے نسل نو کے ذہنوں میں اٹھنے والے شکوک و شبہات کے موثر جوابات دے کر ان کےلیے باعمل مسلمان بننے کی راہ ہموار کی جائے ۔ رات کو دیر تک محافل نعت کا انعقاد اور اسی وجہ سے نماز فجر میں اگر کوتاہی ہوگی تو گویا ہم نے جشن تو منایا لیکن مشنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذرا بھر پرواہ نہ کی ۔ اس سے اللہ اور اس کے رسول کی کتنی خوشنودی نصیب ہوگی ہم بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔


اکثر نعت خواں تو لکھی ہوئی نعتیں ہی پڑھتے ہیں لہٰذا جب نعت کا انتخاب کرنے لگیں تو کسی عالم با عمل سے مشورہ کر لیں تاکہ علمی حوالے سے کوئی کمزوری ہو تو اصلاح ہو سکے ۔ نعت گو شعراء بھی جب قلم اٹھائیں تو مدحتِ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ساتھ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی دعوت بھی دیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اخلاق عالیہ اور بابرکت معمولاتِ حیات کو اس انداز میں پیش کیا جائے کہ سامعین مجلس برخاست ہونے سے پہلے پہلے سیرتِ طیبہ کے ان محاسن سے اپنے آپ کو آراستہ کرنے کا عزم مصمم کر لیں ۔ اللہ پاک ہمیں ہر قسم کے فتنوں سے بچاۓ آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔