Saturday 4 September 2021

کیا عالم کے لیے سند یافتہ ہونا ضروری ہے ؟

0 comments

 کیا عالم کے لیے سند یافتہ ہونا ضروری ہے ؟

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : یہ نکتہ قابلِ غور ہے کہ کیا عالمِ دین وہی ہے جس کے پاس ایک کاغذ کا ٹکرا جس کو عام مفہوم میں سند سے تعبیر کرتے ہیں موجود ہو ؟ اگر ایسا ہی ہے تو آج کے جدید دور میں پرنٹنگ پریس کی سہولت موجود ہے جس کو عالم بننے کا جذبہ جاں گزیں ہو وہ پریس سے رابطہ کر کے ایک کیا سینکڑوں اسناد ترتیب دے لے ۔ یہ امر اہلِ نظر پر خوب عیاں ہے کہ میدانِ علم میں سند کی کوئی حیثیت نہیں ہے علم وہ ہے جو دل و دماغ میں ہو اور اس کا احساس اس صاحب کے قول و فعل سے ہوتا ہے ۔ عالم ہونے کےلیے نہ درسِ نظامی شرط ہے نہ اس کی محض سند کافی بلکہ علم چاہئے ۔


امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عالم کی تعریف یہ ہے کہ عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو اور مُستقِل ہو اور اپنی ضَروریات کو کتاب سے نکال سکے بِغیر کسی کی مدد کے ۔  علم کتابوں کےمُطالَعَہ سے اور عُلَماء سے سُن سُن کر بھی حاصِل ہو تا ہے  ۔ (اَحکامِ شریعت حصّہ ۲ صفحہ ۲۳۱)


معلوم ہوا عالم ہونے کےلیے درسِ نظامی کی تکمیل کی سند ضَروری ہے نہ ہی کافی نہ ہی عَرَبی فارسی وغیرہ کا جاننا شرط ،   بلکہ علم درکار ہے ۔


امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں  : سند کوئی چیز نہیں بُہتیَرے سَنَد یافتہ مَحض بے بَہرہ (یعنی علْمِ دین سے خالی) ہوتے ہیں اور جنہوں نے سند نہ لی اِن کی شاگردی کی لیاقت بھی اُن سَنَد یافتوں میں نہیں ہوتی ، عِلْم ہونا چاہئے ۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۲۳ ص۶۸۳)


امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ سے جب اس قسم کا سوال ہوا تو آپ نے اس کا جواب ارشاد فرمایا : مسئلہ کیا فرماتے ہیں علماء دین اس باب میں کہ اگر کوئی شخص جس نے سوائے کتب فارسی اور اردو کے جو کہ معمولی درس میں پڑھی ہوں اور اوس نے کس مدرسہ اسلامیہ یا علماء گرامی سے کوئی سند تحصیل علم نہ حاصل کی ہو اگروہ شخص مفتی بنے یا بننے کا دعویٰ کرے اور آیات قرآنی اور احادیث کو پڑھکر اوس کا ترجمہ بیان کرے اور لوگوں کو باورکراوے کہ وہ مولوی ہے تو ایسے شحص کا حکم یافتوی اور اقوال قابل تعمیل ہیں یا نہیں اور ایسے شخص کا کوئی دوسرا شخص حکم نہ مانے تو اسکے لئے شریعت میں کیا حکم ہے ۔

الجواب : سند کوئی چیز نہیں بہتیرے سند یافتہ محض بے بہرہ ہوتے ہیں اور جنہوں نے سند نہ لی اون کی شاگردی کی لیاقت بھی ان سند یافتو ں میں نہیں ہوتی ۔ علم ہونا چاہیے اور علم الفتویٰ پڑھنے سے نہیں آتا جب تک مدتہا کسی طبیب حاذق کا مطب نہ کیا ہو ۔ مفتیان کامل کے بعض صحبت یافتہ کہ ظاہری درس تدریس میں پورے نہ تھے مگر خدمت علماء کرام میں اکثر حاضر رہتے اور تحقیق مسائل کاشغل اون کا وظیفہ تھا فقیر نے دیکھا ہے کہ وہ مسائل میں آجکل کے صد ہا فارغ التحصیلوں بلکہ مدرسوں بلکہ نام کے مفتیوں سے بدرجہا زائد تھے پس اگر شخص مذکورفی السوال خواہ بذات خود خواہ بفیض صحبت علماء کاملین علم کافی رکھتاہے جو بیان کرتاہے غالباً صحیح ہوتا ہے اس کی خطا سے اس کا صواب زیادہ ہے تو حرج نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ قدیم١٠/٢٣١،چشتی)


مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : علم حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طالب علم بن کر کسی مدرسہ میں اپنا نام لکھائے اور پڑھے جیسا کہ رائج ہے بلکہ اس کا مطلب یہ کہ علمائے اہلسنت سے ملاقات کرکے شریعت کا حکم ان سے معلوم کرے یا معتبر اور مستند کتابوں کے ذریعہ حلال وحرام اور جائز وناجائز کی جانکاری حاصل کرے ۔ (علم اور علماء از مفتی جلال الدین امجدی ص٢٤)


علم کی اقسام


حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ علم کی اقسام بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : علم دین کی دو اقسام ہیں ایک وہ کہ جس پر قرآن و حدیث کے سمجھنے کا دارو مدار ہے جیسے لغت ، نحو اور صرف وغیرہ کا علم ، دوسرے وہ جو عقیدے ،عمل اور اخلاق سے تعلق رکھتا ہے ان کے علاوہ ایک علم وہ ہے جو نور ہے اِس سے خدائے تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اِس کو علمِ حقیقت کہتے ہیں قرآن و حدیث میں جس علم کی فضیلت بیان کی گئی ہے وہ حسب درجہ علم کی ان تمام قسموں کو شامل ہے ۔ (اشعۃ اللمعات)


اعلحٰضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : ہاں آیات و احادیث دیگر کہ فضیلت ِعلماء و ترغیب علم میں وارد ، وہاں ان کے سوا اور علومِ کثیرہ بھی مراد ہیں جن کا تعلم فرض کفایہ یاواجب یا مسنون یامستحب ، اس کے آگے کوئی درجہ فضیلت و تر غیب اور جوان سے خارج ہو ہر گز آیات و احادیث میں مراد نہیں ہو سکتا اوران کاضابطہ یہ ہے کہ وہ علوم جو آدمی کو اس کے دین میں نافع ہوں خواہ اصالۃًجیسے فقہ وحدیث وتصوف بے تخلیط و تفسیر قرآن بے افراط وتفریط خواہ وساطۃً مثلا ً نحو و صرف و معانی و بیان کہ فی حد ذاتہاامر دینی نہیں مگر فہم قرآن وحدیث کے لئے وسیلہ ہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید ٢٣/٦٢٦،چشتی)


خلاصہ بحث یہ ہے کہ وہ علوم جن سے قرآن وحدیث سمجھ میں آجائے اور اس سے مسائلِ فقہیہ واضح ہو جائیں وہ تمام علوم علمِ دین کی اقسام سے ہیں ۔


علم کی تعریف میں علماء کا اختلاف


علم ایک ایسی چیز ہے کہ اس میں علماء ِاسلاف کا قدیم اختلاف پایا جاتارہا ہے اسی اختلاف کی طرف شارح بخاری بھی گئے ہیں ۔ شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحیح یہ ہے کہ علم اجلیٰ بدیہات سے ہے ہر خاص و عام جانتا ہے کہ علم کیا چیز ہے اسلئے یہ اصطلاحی تعریف سے مستغنی ہے نیز اسکی تعریف بہت زیادہ مشکل ہے ہزار ہاسال غور و خوض بحث و تمحیص کے بعد بھی آج تک منقح نہ ہو سکی ہمارے حضرات ماتریدیہ نے علم کی تعریف یہ کی ہے ،علم ایک ایسا نور ہے جو اللہل نے انسان کے قلب میں پیدا فرمایا ہے کہ اس سے جس چیز کا تعلق ہوتا ہے وہ منکشف ہو جاتی ہے جیسے آنکھ میں دیکھنے کی قوت ہے ۔ (نزھۃ القاری شرح البخاری ١/٣٤٨)


عالِم چونکہ علم کی صفت سے موصو ف ہوتاہے اس لیے یاد رکھناچاہیے کہ علم دین کی بھی کچھ اقسام ہیں جیسے صرف ، نحو ، بلاغت ، ادب ، فقہ ، اصو لِ فقہ ، تفسیر ، اصولِ تفسیر ، حدیث اصولِ حدیث ، فلسفہ ، منطق ، وغیر فنون کاعلم ۔ اب علماءِ اسلاف میں اس چیز کا اختلاف پایا جاتا تھا کہ کن فنون کا ماہر عالم کہلاتا ہے آئیے ہم کچھ علماء کرام کی تصریحات بیان کرتے ہیں ۔


اعلٰحضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : علمِ دین فقہ و حدیث ہے منطق و فلسفہ کے جاننے والے علماء نہیں ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید ١٠ /٤٥٥)

ایک اور جگہ فرماتے ہیں : بس ہر علم میں اسی قدر دیکھ لینا کافی کہ آیا یہ وہی عظیم دولت نفیس مال ہے جو انبیاء علیھم الصلاۃ والسلام نے اپنے ترکہ میں چھوڑا جب تک تو بیشک محمود اور فضائل جلیلہ موعودہ کا مصداق ، اور اس کے جاننے و الے کو لقب عالم و مولوی کااستحقاق ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید٢٣/٦٢٧،چشتی)


یہ علم کا اختلاف وہی ہے جس کو آ ج تک کوئی نہیں سلجھا سکا جس کی رائے میں جو تعریف اچھی ہوتی ہے وہ اس کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عالم کی بھی تعریف کرتاہے کیونکہ عالم کی تعریف معلق ہے علم کی تعریف پر جب علم کی تعریف میں ہی اختلاف ہوگا تو عالم کی تعریف کرنے میں دشواری ہوگی ۔


معیارِ علم


علم کی تعریف و قیودات جاننے کے بعد اب دیکھتے ہیں کہ شریعت نے کس علم کو علم کہا ہے اور کس کی نفی کی ہے ۔


علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا : عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ انہ قال لیس العلم عن کثرۃالحدیث ولکن العلم من کثرۃالخشیۃ ، ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ فرماتے ہیں کہ علم کثیر مباحثہ کا نام نہیں بلکہ علم اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے کا نام ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر ٣/٥٥٥)


امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ علم کی تعریف کے بارے رقم طراز ہیں : قال احمد بن صالح المصری عن ابن وھب عن مالک قال ان العلم لیس بکثرۃ الروایۃ وانماالعلم نور یجعلہ اللہ فی القلب ، احمد بن صالح مصری ، ابن وھب کی روایت سے بیان کرتے ہیں کہ امام مالک فرماتے ہیں علم کثیر روایات کرنے کا نام نہیں اور بیشک علم تو ایک ایسا نور ہے جس کو اللہ دل میں نقش کرتا ہے ۔ (تفسیر قرطبی ١٤/ ٣٤٣)


کسی شے کے بارے میں گہرائی سے جاننا ، اُس شے کا علم کہلاتا ہے ، اور جاننے والے کو عالم کہتے ہیں ۔ آئمہ لغت نے علم کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ : العلمُ اِدراکُ الشئ بحقيقة 

ترمہ : کسی شے کو حقیقت کے ساتھ جان لینا علم کہلاتا ہے ۔ (المفردات فی غريب القرآن، 1: 343، لبنان، دارالمعرفه)(تاج العروس، 33: 127، دارالهداية،چشتی)(المعجم الوسيط، 2: 624، دارالدعوة)


علمائے کرام کے نزدیک علم کسی شے کی ماہیت کو جاننے کا نام ہے : المعرفة المعلوم علیٰ ما هو به ۔

ترجمہ : کسی شے کو اس کی ماہیت (جس پر وہ قائم ہو) کے ساتھ جاننا علم کہلاتا ہے ۔ (المستصفی، 1:21، بيروت، لبنان، دارالکتب العلميه)(البرھان فی اصول الفقه، 1: 99)(الجامع الاحکام القرآن، 1: 206، القاهره، دارالشعب)


آئمہ لغت ، علمائے کرام، فقہاء اور محدثین نے کم و پیش علم کی یہی تعریف کی ہے جس میں گہرائی سے جاننے کا مفہوم پایا جاتا ہے ۔ اس لیے ’عالمِ دین ‘ وہی کہلائے گا جو دینی علوم کا فہم رکھتا ہو ۔ قرآنِ مجید نے علماء کے طبقے کےلیے جاننے کے ساتھ ساتھ کردار کا بھی ایک معیار تجویز کیا ہے ۔ ارشادِ ربانی ہے : إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ۔

ترجمہ : بس ﷲ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں ۔ (سورہ فَاطِر، 35: 28)


لہٰذا عالم اس شخص کو کہا جائے گا جو قرآن وحدیث اور علومِ اسلامیہ کو گہرائی سے سمجھتا ہو، اس کا کردار اس کے علم کی گواہی دیتا ہو اور وہ احسن انداز میں ترویج و اشاعتِ دین کا کام کر رہا ہوں ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ علم چاہے جتنا بھی ہو بے فائدہ و وبالِ جان ہے جب تک یہ کہ علم کے ساتھ عمل ، خشیت الٰہی ، عجز و انکساری وغیرہ امور لازمہ کا ارتکاب نہ کیا جائے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔