Tuesday, 21 September 2021

آلِ رسول اور سید کون کون ہیں حصہ اول

 آلِ رسول اور سید کون کون ہیں حصہ اول

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : سید کے مصداق وہ لوگ ہیں جو حضرت علی، حضرت جعفر ، حضرت عباس اورحضرت عقیل اور حضرت حارث  رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی اولاد میں سے ہیں ، ان سب پر صدقہ حرام ہے ۔ اور اہلِ بیت سے مراد  ازواجِ مطہرات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی آل و اولاد اور داماد یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں ۔ اور آلِ رسول کے مصداق میں متعدد اقوال ہیں ، بعض محقیقن نے اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد مراد لی ہے، اور اکثر  نے قرابت دار مراد لیے ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، اور بعض نے مجازاً اسے تمام امتِ مسلمہ مراد لی ہے ۔ آل محمد سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبعین اور آل ابراہیم سے مراد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متبعین ہیں ۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے مروی ہے کہ آل محمد سے مراد ان کی امت ہے : آل محمد أمته ۔ (السنن الکبری للبیھقی، جلد ۲ صفحہ نمبر ۱۵۲)


شریف کا لفظ جو عرب میں سید کے معنی میں بولا جاتا ہے پہلے زمانہ میں علوی ، جعفری اور عباسی وغیرہ پر بھی بولا جاتا تھا مگر جب مصر پر فاطمی حکومت کا قبضہ ہوا تو یہ لفظ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما کی اولاد کے ساتھ خاص ہو گیا اور یہی عرف اب تک چلا آرہا ہے اسی لیے ہندوستان میں بھی سید سے اولاد حسنین ہی مراد لیتے ہیں ۔

فتاوی حدیثیہ میں ہے "واعلم ان اسم الشریف کان یطلق علی من کان اھل البیت ولو عباسیا او عقیلیا ومنہ قول المؤرخین الشریف العباسی الشریف الزینبی فلما ولی الفاطمیون بمصر قصروا الشریف علی ذریۃ الحسن والحسین فقط واستمر ذالک الی الآن اھ ۔ (فتاوی فیض الرسول جلد دوم صفحہ ۵۸۴،چشتی)


فتاوی رضویہ میں ہے کہ : حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ تعالی عنہما کی اولاد کو سید کہتے ہیں " عام اہل سنت کا طریقہ بھی یہی ہے کہ وہ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی اولاد کو سید کہتے ہیں مگر بعض لغات مثلا لغات سعیدی وغیرہ میں ہے کہ علویان گروہ سادات سے ہیں ۔ اور اہل ہند تخصیص عرفی کی بنیاد پر سید بول کر اولاد حسنین رضی اللہ عنما مراد لیتے ہیں لہٰذا اس کی وجہ سے علوی وغیرہ حضرات سید ہونے سے خارج نہ ہوں گے ۔


آل کے تین معنی ہیں اول فرزند دوم اہل خانہ سوم متبعین جیساکہ غیاث اللغات میں ہے "آل در عربی بمعنی فرزندان واہل خانہ وپیروں آمدہ است "

پس اس طرح آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تین قسمیں ہوتی ہیں اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ تعالی عنہما قسم اول سے ہیں ۔ (فتاوی فیض الرسول جلد دوم صفحہ نمبر ۶۵۲،چشتی)


 آل کا اطلاق کبھی متبعین پر ہوتا ہے (جیساکہ اوپر بتایا گیا) اوراسی معنی کے اعتبار سے قوم فرعون کو آل فرعون کہا جاتا ہے مگر اس سے یہ لازم نہیں کہ سادات کرام کو آل رسول نہ کہا جائے وہ یقینا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل میں ہیں بخاری و مسلم میں کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالی عنہ مروی انہوں نے فرمایا : سألنا رسول صلی اللہ علیہ وسلم فقلنا یا رسول اللہ کیف الصلوۃ علیکم اھل البیت فان اللہ قد علمنا کیف علیک ؟ قال قولوا الھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید الھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید ۔ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ پر یعنی آپ کی اھل بیت پر کس طرح درود بھیجیں ؟ ارشاد فرمایا کہ یوں کہو "الھم صل علی محمد وعلی آل محمد " اس سے معلوم ہوا کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اھل بیت کو آل کہا جائے گا ۔


دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا : انما الصدقات اوساخ الناس لا تحل لمحمد ولآل محمد" یعنی صدقہ آل محمد کے لیے حلال نہیں ۔


ظاہر ہے کہ آل سے صرف وہی لوگ مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے نہ کہ تمام امت کیوں کہ امت پر صدقہ جائز ہے جب کہ وہ شخص فقیر ہو ۔ اور اگر آل بمعنی متبع ہو جب بھی سادات کو شامل ۔ جیسا کہ علامہ طیبی علیہ الرحمہ نے شرح مشکوۃ میں فرمایا : اختلفوا فی الآل من ھم قیل من حرمت علیہ الزکوۃ کبنی ھاشم وبنی المطلب والفاطمۃ والحسن والحسین وعلی اخویہ جعفر وعقیل واعمامہ صلی اللہ علیہ وسلم العباس والحارث وحمزہ واولادھم وقیل کل تقی آلہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔


حضرت شیخ محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے فرمایا ان ازواجہ صلی اللہ علیہ وسلم داخلۃ فی ھذا الخطاب والآل ایضا یجئ بمعنی الاتباع وبھذا المعنی ورد الی کل مومن ۔

 جو کچھ یہاں کہا جا سکتا ہے صرف اتنا کہ کبھی امت اور متبعین پر بھی لفظ آل کا اطلاق ہوتا ہے نہ یہ کہ اولاد پر اطلاق نہیں ہوتا ۔ (فتاوی امجدیہ جلد چہارم ص ۵۲۵، ۵۲۶)


معنوی اعتبار سے سید اور آل رسول میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے آل رسول عام ہے اور سید خاص ہےیعنی ہر سید آل رسول ہے مگر ہر آل رسول کا ہر فرد سید نہیں ۔


پس اس معنیٰ کے اعتبار سے سید کو آل رسول پر فضیلت حاصل ہوگی اس لیے کہ ہر سید تو آل رسول ہے مگر ہر آل رسول سید نہیں کہ علی الاطلاق متبعین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی آل رسول کہا جاتا ہے جیسا کہ اوپرگزرا ۔


نیز سید کا فضل ذاتی ہے جو فسق بلکہ بد مذہبی سے بھی نہیں جاتا جب تک کہ معاذ اللہ حدِ کفر تک نہ پہنچے اور متبع رسول کا فضل عملی و وصفی ہے لہٰذا آل رسول بمعنی متبع معاذ اللہ اگر بد مذہب ہو اس کی تعظیم و توقیر حرام ۔ اور سید کی تعظیم سبب جزئیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اور جزئیت تا بقائے اسلام باقی ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۱۱ ،صفحہ ۲۳،چشتی)


البتہ دور موجودہ کے عرف کا خیال رکھتے ہوئے اس بارے میں فقیر چشتی کی راۓ یہ ہے کہ  برِ صغیر پاک و ہند میں سید اور آل رسول میں نہ کوئی فرق ہوگا اور نہ سید کو آل رسول پر کوئی فضیلت حاصل ہوگی ۔ اس لیے کہ برِ صغیر پاک و ہند میں جس طرح سید کا لفظ اولاد حسنین رضی اللہ عنہما کے لیے خاص ہو گیا ہے ٹھیک اسی طرح آج ہند میں آل رسول کا لفظ بھی حضرات حسنین رضی اللہ عنہما ہی کی اولاد کے لیےعرفا خاص ہو گیا ہے ۔ لہٰذا ان دونوں میں اب کوئی فرق قرار نہ دیا جائے گا اور نہ ایک دوسرے پر کوئی فضیلت قرار دی جائے گی ۔


سیادت کی بنیاد کسی سند پر نہیں ہوتی بلکہ ہر وہ شخص جس کے آبا و اجداد میں ہر ہر فرد صحیح النسل سید ہوں وہ شرعا مصدقہ سید قرار دیا جائے گا خواہ اس کے پاس کوئی سند یا شجرہ ہو یا نہ ہو ، ورنہ صدہا سادات کرام ایسے ہیں جن کے پاس نہ کوئی سند ہے اور نہ ہی کوئی نسبی شجرہ وہ سبھی حضرات خارج از سیادت قرار پائیں گے ۔ اب اگر کچھ لوگ واقعی سید نہیں ہیں مگر اپنے آپ کو سید کہتے اور لکھتے ہیں تو ایسے لوگوں پر اللہ و رسول تمام فرشتوں اور سارے انسانوں کی لعنت ہے اللہ تعالی ان لوگوں کا نہ کوئی فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے : من ادعی الی غیر ابیہ فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللہ منہ یوم القیامۃ صرفا ولا عدلا ۔ یعنی جو اپنے باپ کے علاوہ دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرے اس پر اللہ تعالی کی سب فرشتوں اور آدمیوں کی لعنت ہے اللہ قیامت کے دن اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔ (بخاری و مسلم)


لہٰذا جو لوگ سید نہیں ہیں اور اپنے آپ کو سید کہتے اور لکھتے ہیں وہ لوگ سخت گنہگار اور مستحق عذاب نار ہیں ۔ اسی طرح وہ لوگ بھی گنہگار اور وعید کے مستحق ہیں جو ایسے افراد کو سید مانتے ہیں جو فی الواقع سید نہیں اس لیے کہ جب اپنے باپ کے سوا دوسرے کی طرف اپنی نسبت کرنے والے پر یہ وعید ہے تو جو شخص کسی کو اس کے باپ کے سوا دوسرے کی طرف منسوب کرے وہ بدرجہ اولی اس وعید کا مستحق ہے ۔


اب رہی بات یہ کہ جو لوگ اپنے آپ کو سید کہتے اور لکھتے ہیں مگر اس کے بارے کسی کو تحقیق کے ساتھ یہ معلوم نہیں کہ یہ لوگ واقعی سید ہیں یا نہیں تو ایسے لوگوں کو سید ماننا اور بولنا چاہیے کہ نہیں ؟ تو اس بارے امام اہل سنت اعلی حضرت امام احمد رضا خاں قادری رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : اور یہ فقیر بار ہا فتوی دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنی ذاتی علم سے اسے سید جاننا ضروری نہیں جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں ۔ نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے ۔ اور خواہی نخواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھا ئیں تو برا کہنا ، مطعون کرنا ہرگز جائز نہیں "الناس امنا علی انسابھم" (لوگ اپنے نسب پر امین ہیں) ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہو کہ یہ سید نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کریں گے نہ اسے سید کہیں گے ۔ اور مناسب ہو گا کہ نا واقفوں کو اس سے مطلع کر دیا جائے ۔ میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پر میرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سید سے الجھا ، انہوں نے فرمایا میں سید ہوں ۔ کہا کیا سند ہے تمہارے سید ہونے کی ۔ رات کو زیارتِ اقدس سے مشرف ہوا کہ معرکہ حشر ہے یہ شفاعت خواہ ہوا ۔ اعراض فرمایا ۔ اس نے عرض کی میں بھی حضور کا امتی ہوں فرمایا کیا سند ہے تیرے امتی ہونے کی ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر ۱۱،چشتی)


آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے اگر کوئی شخص سواد اعظم یا عقیدہ صحیحہ سے باہر ہو جائے یا کسی بھی باطل عقائد رکھنے والی جماعت کے ساتھ شامل ہو جائے تو اس صورت میں وہ آل رسول نہیں کہلائے گا ۔

آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مراد جس کا عقیدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ماتحت ہو ، جو نبی کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنے والا ہو ۔ لہٰذا جس کا عقیدہ خراب ہو وہ آل رسول نہیں ہو سکتا ۔ آل سے مراد اولاد نہیں ہے بلکہ پیروی کرنے والا ہے ۔ لہٰذا ہر وہ مسلمان جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتا ہے ، اطاعت کرتا ہے ۔ اس کا عقیدہ درست ہے وہ آل رسول ہے ۔ آل سے مراد پیروی واتباع کرنے والا ہونا قرآن مجید سے ثابت ہے ۔ اللہ تعالی نے بے شمار مقامات پر فرمایا : (آل فرعون) لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو فرعون کی کوئی اولاد ہی نہ تھی اس سے مراد یہ ہے کہ وہ لوگ جو فرعون کی پیروی کرتے ہیں ۔ اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کی مثال دی کہ وہ آپ کی آل میں سے نہیں ہے وہ ابن رسول تو تھا لیکن آل رسول نہ تھا کیونکہ اس نے حضرت نوح علیہ السلام کی پیروی نہ کی ۔ ان کے عقیدہ کو چھوڑ دیا ۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا : قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۔ (سورہ هُوْد ، 11 : 46)

ترجمہ : اے نوح علیہ السلام بے شک تیرا گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے ۔


لہذا آل رسول وہی ہو گا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے ہوئے راستے پر چلے گا ۔ جس کا عقیدہ درست ہو گا ۔ جس نے عقیدہ صحیحہ چھوڑ دیا اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھوڑ دی وہ آل رسول میں سے نہیں ہو گا ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...