خاتم النبین کا معنی و مفہوم حصہ اول
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : عقیدہ ختمِ نُبُوَّت دینِ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے ۔ یہ ایک حساس ترين عقیدہ ہے ۔ ختم نبوت کا انکار قراٰن کا انکار ہے ۔ ختمِ نبوت کا انکار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کا انکار ہے ۔ ختمِ نبوت کا انکار ساری امتِ محمدیہ کے علما و فقہا و اَسلاف کے اجماع کا انکار ہے ۔ ختمِ نبوت کو نہ ماننا نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ظاہری زمانہ مبارک سے لے کر آج تک کے ہر ہر مسلمان کے عقیدے کو جھوٹا کہنے کے مترادف ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠ ۔
ترجمہ : محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے ۔ (پ22، سورہ الاحزاب:40)
ختمِ نُبُوَّت کے منکر اس آیتِ مبارکہ کے الفاظ “ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ “ کے معنی میں طرح طرح کی بے بنیاد ، جھوٹی اور دھوکا پر مبنی تاوِیلاتِ فاسدہ کرتے ہیں جو کہ قراٰن ، احادیث ، فرامین و اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم اور مفسرین ، محدثین ، محققین ، متکلمین اور ساری اُمّتِ محمّدیّہ کے خلاف ہیں ۔ تفاسیر اور اقوال مفسرین کی روشنی میں خاتم النبیین کا معنیٰ آخری نبی ہی ہے : ⬇
مُفسّرِ قراٰن ابو جعفر محمد بن جریر طبری (وفات : 310ھ) ، ابوالحسن علی بن محمد بغدادی ماوردی (وفات : 450ھ) ، ابو الحسن علی بن احمد واحدی نیشاپوری شافعی (وفات : 468ھ) ، ابوالمظفر منصور بن محمد المروزی سمعانی شافعی (وفات : 489ھ) ، محیُّ السُّنّۃ ابومحمد حسین بن مسعود بغوی (وفات : 510ھ) ، ابو محمد عبدُالحق بن غالب اندلسی محاربی (وفات : 542ھ) ، سلطانُ العلماء ابومحمد عز الدين عبدالعزيز بن عبد السلام سلمی دمشقی (وفات : 660ھ) ، ناصرُ الدّين ابوسعيد عبدُالله بن عمر شیرازی بیضاوی (وفات : 685ھ) ، ابوالبركات عبدُالله بن احمد نسفی (وفات : 710ھ) ، ابوالقاسم محمد بن احمد بن محمد الکلبی غرناطی (وفات : 741ھ) ، ابوعبدُالله محمد بن محمد بن عرفہ ورغمی مالکی (وفات : 803ھ) ، جلال الدّين محمد بن احمد محلی (وفات : 864ھ) اور ابوالسعود العمادی محمد بن محمد بن مصطفىٰ (وفات : 982ھ) علیہم الرحمہ سمیت دیگر کثیر مفسرینِ کرام نے اس آیت کی تفسیر میں حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آخری نبی ہونے کی تصریح و تاکید فرمائی ہے :
امامِ اہلِ سنّت ابو منصور ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ (وفات : 333ھ) اپنی تفسیر “ تاویلات اہل السنۃ “ میں لکھتے ہیں : جو کوئی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد نبی کے آنے کا دعویٰ کرے تو اس سے کوئی حجت و دلیل طلب نہیں کی جائے گی بلکہ اسے جھٹلایا جائے گا کیونکہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرما چکے ہیں : لَا نَبِیَّ بَعْدِي یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (تاویلات اہل السنۃ،8/396 :40)
صاحبِ زادُالمسیر ابوالفرج عبدُالرّحمٰن بن علی جوزی رحمۃ اللہ علیہ (وفات : 597ھ) لکھتے ہیں : خاتم النبیین کے معنی آخِرُالنّبیین ہیں ، حضرت عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : اس سے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ کریم محمّدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذریعے سلسلۂ نُبُوَّت ختم نہ فرماتا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بیٹا حیات رہتا جو ان کے بعد نبی ہوتا ۔ (زاد المسیر،6/393 : 40)
الجامع لاحكامِ القراٰن میں امام ابوعبدُالله محمد بن احمد قُرطبی رحمۃ اللہ علیہ (وفات : 671ھ) لکھتے ہیں : خاتم النبیین کے یہ الفاظ تمام قدیم و جدید علمائے اُمّت کے نزدیک مکمل طور پر عُموم (یعنی ظاہری معنیٰ) پر ہیں جو بطورِ نَصِ قطعی تقاضا کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں ۔ اور خاتم النبیین کے ختم نبوت کے خلاف دوسرے معنیٰ نکالنے اور تاویلیں کرنے والوں کا رَد کرتے ہوئے امام قُرطبی لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک یہ اِلْحاد یعنی بے دینی ہے اور ختمِ نُبُوَّت کے بارے میں مسلمانوں کے عقیدہ کو تشویش میں ڈالنے کی خبیث حرکت ہے ، پس ان سے بچو اور بچو اور اللہ ہی اپنی رحمت سے ہدایت دینے والا ہے ۔ (تفسیر قرطبی،جز14، 7/144 :40،چشتی)
تفسیر لُبابُ التاویل میں حضرت علاءُالدّین علی بن محمد خازِن رحمۃ اللہ علیہ (وفات : 741ھ) لکھتے ہیں : خاتم النبیین کے معنی ہیں کہ اللہ کریم نے ان پر سلسلۂ نُبُوَّت ختم کر دیا پس ان کے بعد کوئی نبوت نہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئی اور نبی ہے ۔ حضرت عبدُالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : کیونکہ اللہ کریم جانتا تھا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہیں اسی لیے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کوئی ایسی مذکر اولاد عطا نہ فرمائی جو جوانی کی عمر کو پہنچی ہو اور رہا حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کا تشریف لانا تو وہ تو ان انبیا میں سے ہیں جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے دنیا میں تشریف لاچکے اور جب آخر زمانہ میں تشریف لائیں گے تو شریعتِ محمدیہ پر عمل کریں گے اور انہی کے قِبلہ کی جانب منہ کرکے نماز پڑھیں گے گویا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اُمّت سے بھی ہوں گے ۔ (تفسیر خازن،3/503، تحت الآیۃ:40)
مشہور تفسیر اللباب فی علوم الكتاب میں ابوحفص سراج الدين عمر بن علی حنبلی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ (وفات : 775ھ) حضرت عبدُالله بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول “ اللہ کریم کا فیصلہ تھا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی نہ ہو اسی لیے ان کی کوئی مذکر اولاد سن رجولیت (یعنی جوان آدمی کی عمر) کو نہ پہنچی “ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : کہا گیا ہے کہ جن کے بعد کوئی نبی نہیں ، وہ اپنی اُمّت پر بہت زیادہ شفیق اور ان کی ہدایت کے بہت زیادہ خواہاں ہوں گے گویا کہ وہ اُمّت کے لئے اس والد کی طرح ہوں گے جس کی اور کوئی اولاد نہ ہو ۔ (اللباب فی علوم الکتاب،15/558، تحت الآیۃ: 40،چشتی)
اس تفسیر کے مطابق دیکھا جائے تو اللہ ربُّ العزّت کے بعد اس اُمّت پر سب سے زیادہ شفیق و مہربان حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ہیں ، جس پر آیتِ قراٰنی (عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ۔ تَرجَمہ : جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان ۔ (پ11، التوبۃ:128) سمیت کثیر آیات واضح دلیل ہیں ۔
تفسیر نظم الدرر میں حضرت ابراہیم بن عمر بقاعی رحمۃ اللہ علیہ (وفات : 885ھ) لکھتے ہیں : کیونکہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رسالت اور نبوت سارے جہان کےلیے عام ہے اور یہ اعجازِ قراٰنی بھی ہے (کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہونے والی یہ کتاب بھی سارے جہاں کے لئےہدایت ہے) ، پس اب کسی نبی و رسول کے بھیجنے کی حاجت نہیں ، لہٰذا اب رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی بھی پیدا نہ ہوگا ، اسی بات کا تقاضا ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کوئی شہزادہ سنِ بلوغت کو نہ پہنچا اور اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی نبی کا آنا علمِ الٰہی میں طے ہوتا تو محمدِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِکرام و عزت کےلیے ضرور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک نسل ہی سے ہوتا کیونکہ آپ سب نبیوں سے اعلیٰ رتبے اور شرف والے ہیں لیکن اللہ کریم نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اکرام اور اعزاز کےلیے یہ فیصلہ فرمادیا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نبی ہی نہیں آئے گا ۔ (تفسیر نظم الدرر،6/112،تحت الآیۃ:40)
تفسیر الفواتح الالٰہیہ میں شیخ علوان نعمتُ الله بن محمود رحمۃ اللہ علیہ (وفات : 920ھ) فرماتے ہیں : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ کی جانب سے اللہ کے بندوں کی ہدایت کےلیے تشریف لائے ، اللہ کریم نے تمہیں راہِ رُشد و ہدایت دکھانے کےلیے تمہاری طرف اُمَمِ سابقہ کی طرح رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھیجا ، لیکن ان کی شان یہ ہے کہ یہ خاتم النبیین اور ختم المرسلین ہیں کیونکہ ان کے تشریف لانے کے بعد دائرہ نبوت مکمل ہوگیا اور پیغامِ رسالت تمام ہوگیا جیسا کہ خود رسالت مآب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کےلیے بھیجا گیا ہوں اور اللہ کریم نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان میں فرمایا ہے : ( اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ ) ۔ تَرجَمہ : آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا ۔ (الفواتح الالٰہیہ،2/158، تحت الآیۃ:40)
صاحبِ تفسیرِ فتح الرحمن مجير الدين بن محمد علیمی مقدسی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ (وفات : 927ھ) فرماتے ہیں : خاتم النبیین کے معنیٰ ہیں نبیوں میں سے آخری یعنی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد ہمیشہ کے لئے دروازۂ نبوت بند ہوگیا اور کسی کو بھی نبوت نہیں دی جائے گی اور رہا حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کا تشریف لانا تو وہ تو ان انبیا میں سے ہیں جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے دنیامیں تشریف لاچکے ۔ (فتح الرحمٰن،5/370، تحت الآیۃ:40،چشتی)
اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے خاتم النبیین کہہ کر اپنے محبوب حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ختمِ نبوت کا اعلان فرمایا ہے ۔ ختم نبوت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ رب العزت نے جس سلسلہ نبوت کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا تھا وہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بعثت کے ساتھ اپنے اختتام اور درجہ کمال کو پہنچ گیا ۔
خاتم النبیین کا جو معنی خود نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے متعین فرمایا وہ متعدد احادیثِ متواترہ سے مطلقاً ثابت ہے ، جیسے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : سَیَکُوْنُ فِي أُمَّتِي ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّھُمْ یَزْعَمُ أَنهُ نَبِيٌّ، وَأَنـَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَانَبِيَّ بَعْدِي ۔
ترجمہ : میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعوی ہوگا کہ وہ نبی ہے۔ سن لو! میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ (ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء لا تقوم الساعۃ حتی یخرج کذابون، 4: 499، رقم: 2219)(أبو داؤد، السنن، کتاب الفتن و الملاحم، باب ذکر الفتن و دلائلھا، 4: 97، رقم: 4252)(ابن ماجۃ، السنن، کتاب الفتن، باب ما یکون من الفتن، 2: 130، رقم: 3952)(حاکم، المستدرک، 4: 496، رقم: 8390)(ابن أبی شیبۃ، المصنف، 7: 503، رقم: 3565،چشتی)(طبراني، المعجم الأوسط، 8: 200، رقم : 397)(شیباني، الآحاد والمثانی، 1: 332، رقم: 456)(شیباني، الآحاد والمثانی، 3: 24، رقم: 1309)(سیوطي، الدر المنثور، 6: 618)
احادیث مبارکہ کی رُو سے خاتم النبیین کے معنی ’’نبیوں کو ختم کرنے والا‘‘ کے ہیں۔ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لانبی بعدی (میرے بعد کوئی نبی نہیں) کے الفاظ سے اس معنی کی وضاحت فرمادی ہے ۔ تقریباً دو سو سے زائد احادیث مبارکہ ختم نبوت کے مذکورہ معنی کی تائید میں آئی ہیں ۔ اس کے بعد اب خاتم النبیین کے معنی ومفہوم میں کسی قسم کا نہ تو کوئی ابہام باقی رہتا ہے او نہ ہی مزید کسی لغوی تحقیق کی گنجائش یا ضرورت رہتی ہے ۔ ختم نبوت اور اس کی تائید میں آنے والی احادیث مبارکہ ہم الگ لکھ کے ہیں ۔ اس مضمون میں ختم اور خاتم کے معنی و مفہوم کی بحث اس لیے دی جارہی ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکار وں نے مذکورہ الفاظ کی من گھڑت تعبیرات و تشریحات اور تاویلات کے ذریعے اپنے دعویٰ باطل کو سچ ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کی ۔ جیسا کہ مفسرین علیہم الرحمہ کی تفاسیر سے ہم نے اس کا معنیٰ و مفہوم پیش کیا ہے اس مضمون میں ائمہ لغت کے اقوال اور تصریحات کی روشنی میں لفظ ختم اور خاتم کا معنی و مفہوم عرض کریں گے تاکہ یہ بات اظہر من الشمس ہو جائے کہ امتِ مسلمہ کے اہلِ علم کے درمیان خاتم النبیین کے معنی و مفہوم کے تعین میں کوئی ابہام و التباس نہیں اور جمیع امت کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے کہ اس سے مراد آخری نبی ہی ہے ۔ اللہ کریم ہمیں عقیدہ ختمِ نُبُوّت کی حفاظت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔
لفظِ خاتم کی دو قرأتیں مذکور ہیں : ایک خاتِم (بکسر التاء) اور دوسری خاتَم (بفتح التاء) ۔ امام ابن جریر طبری اور جمہور مفسرین علیہم الرحمہ کے نزدیک پہلی قراءت مختار ہے جبکہ دوسری قراء ت صرف امام حسن رحمۃ اللہ علیہ اور امام عاصم رحمۃ اللہ علیہ کی ہے ۔
واختلفت القراء في قراء ۃ قولہ {وخاتم النبیین}، فقرأ ذلک قراء الأمصار سوی الحسن وعاصم بکسر التاء من خاتم النبیین بمعنی أنہ ختم النبیین ۔ (جامع البیان فی تفسیر القرآن، 22: 16)
ترجمہ : فرمان الٰہی {وَخَاتم النبیین} کی قراءت میں قراء کا اختلاف ہے ۔ حسن اور عاصم کے علاوہ دورِ حاضر کے قراء نے اسے تاء کی زیر کے ساتھ پڑھا ہے، اس معنی میں کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انبیاء (کے سلسلہ) کو ختم فرما دیا ۔
لفظ خاتم کا ان دونوں قراء توں کی روشنی میں لغوی تجزیہ کیا جائے تو مذکورہ آیت کے حوالے سے اس کی درج ذیل تین صورتیں سامنے آتی ہیں :
(1) خاتِم (بکسر التاء) اسم فاعل بمعنی ختم کرنے والا ۔
(2) خاتَِم (بکسر التاء اور بفتح التاء)اسم بمعنی آخرِ قوم ۔
(3) خاتَم (بفتح التاء) اسم آلہ بمعنی مُہریعنی آخری ۔
ان دونوں قرأتوں میں سے چاہے کسی کو بھی لیا جائے ان کا لغوی معنی یہی ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیاء کرام علیھم السلام کے آخر میں ہیں اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔ ائمہ لغت کے نزدیک لفظِ خاتم کا معنی درج ذیل ہے :
امام ابو منصور محمد بن احمدالازھری رحمۃ اللہ علیہ (282۔ 370ھ) التھذیب فی اللّغۃ میں لفظِ ختم کے معنی کی وضاحت میں لکھتے ہیں : قال أبو اسحاق النحوي معنی طبع فی اللغۃ وختم واحد، وھو التغطیۃ علی الشیٔ والاستیثاق من أن یدخلہ شیئ ، کما قال: {اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا} ۔ (التھذیب فی اللّغۃ، 1: 240)
ترجمہ : ابو اسحاق نحوی نے کہا : لغت میں طبع اور ختم کے معنی ایک ہیں اور وہ ہیں: کسی شے کو ڈھانپ دینا اور مضبوطی سے باندھ دینا تاکہ اس میں کوئی شے داخل نہ ہو سکے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’یا ان کے دلوں پر تالے پڑ گئے ہیں ۔
امام ابو منصور محمد بن احمدالازھری رحمۃ اللہ علیہ یہی معنی امام زجاج کے حوالے سے یوں بیان کرتے ہیں : قال الزَّجَّاج في قولہ ل {خَتَمَ اللهُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ}: معنی ختم في اللغۃ و ’’طبع‘‘ واحد وھوالتغطیۃ علی الشیء والاستیثاق منہ لئلا یدخلہ شیئ ۔ (التھذیب فی اللغۃ، 1: 1113)
ترجمہ : زجاج نے ارشاد باری تعالیٰ {خَتَمَ اللهُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ} کے حوالے سے کہا ہے: لغت میں ختم اور طبع کے معنی ایک ہیں اور وہ ہیں : کسی شے کو ڈھانپ دینا اور مضبوطی سے باندھ دینا تاکہ اس میں کوئی شے داخل نہ ہو سکے ۔
امام ابو منصور محمد بن احمدالازھری رحمۃ اللہ علیہ لفظ خاتم کامعنی درج ذیل بیان کرتے ہیں : وخاتم کل شیء آخرہ ۔ (التھذیب فی اللغۃ، 1: 1113)
ترجمہ : اور ہر شے کا خاتم اس کا آخر ہے ۔
امام ابو منصور محمد بن احمدالازھری رحمۃ اللہ علیہ آیتِ مبارکہ کا مفہوم اس طرح بیان کرتے ہیں : وقولہ ل {مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ} معناہ آخر النبیین ومن أسمائہ ’’العاقب‘‘ أیضاً معناہ آخرالأنبیاء ۔ (التھذیب فی اللغۃ، 1: 1114)
ترجمہ : اور ارشاد باری تعالیٰ {محمد ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں} کا معنی ’’تمام نبیوں کا فرد آخر‘‘ ہے۔ اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسمائے گرامی میں سے ایک ’’عاقب‘‘ ہے جس کے معنی بھی ’’سب انبیاء کے آخری فرد‘‘ کے ہیں ۔
امام اسماعیل بن عباد رحمۃ اللہ علیہ (326۔ 385ھ) ۔ المُحیط فی اللّغۃ میں لفظ ختم اور خاتم کے حوالے سے لکھتے ہیں : وختام الوادی : أقصاہ وخاتمۃ السورۃ آخرھا۔ وکذلک خاتم کل شیئ ۔ (المحیط فی اللغۃ، 4: 315)
ترجمہ : اور وادی کے ختام سے مراد اس کاآخری کناراہے اور سورت کے خاتمہ سے مراد اس کا آخر ہے اور یہی معنی ہر شے کے خاتم کا ہے ۔
اس معنی کے مطابق خاتم النبیین کا معنی ہو ا: ’’نبیوں کاآخر ۔ (مزید حصہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment