Saturday 18 September 2021

عورت اور مرد کی نماز میں فرق حصہ دوم

0 comments

 عورت اور مرد کی نماز میں فرق حصہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : مردوں اور عورتوں کی نماز میں یہ ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانے میں دونوں کا طریقہ الگ ہے ، روایات سے مردوں کا طریقہ ہاتھ اٹھانے کا یہ ثابت ہے کہ وہ دونوں ہاتھ کانوں کی لو تک اٹھائیں گے لیکن عورتیں مردوں کی طرح کانوں کی تک ہاتھ نہیں اٹھائیں گی بلکہ وہ اپنے کندھوں کے برابر اس طرح اپنے ہاتھ اٹھائیں گی کہ ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے کندھے تک ہو جائیں اور گٹے سینے کے برابر ہوں ، جیسا کہ ان روایات میں عورتوں کے بارے میں یہ طریقہ بتایا گیا ہے : عَنْ وَائِلِ بن حُجْرٍ، قَالَ: جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ... فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:يَا وَائِلُ بن حُجْرٍ، إِذَا صَلَّيْتَ فَاجْعَلْ يَدَيْكَ حِذَاءَ أُذُنَيْكَ، وَالْمَرْأَةُ تَجْعَلُ يَدَيْهَا حِذَاءَ ثَدْيَيْهَا. (المعجم الکبیر للطبرانی  جلد 9 صفحہ 144رقم17497، مجمع الزوائد: ج9 ص624 رقم الحدیث1605)(البدر المنير لابن الملقن:ج3ص463)

ترجمہ : حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا (درمیان میں طویل عبارت ہے، اس میں ہے کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا: اے وائل! جب تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے ۔


حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، قَالَ : أَخْبَرَنَا شَيْخٌ لَنَا ، قَالَ : سَمِعْتُ عَطَاءً؛ سُئِلَ عَنِ الْمَرْأَةِ كَيْفَ تَرْفَعُ يَدَيْهَا فِي الصَّلاَةِ ؟ قَالَ : حَذْوَ ثَدْيَيْهَا ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج1ص270باب في المرأة إذَا افْتَتَحَتِ الصَّلاَةَ ، إلَى أَيْنَ تَرْفَعُ يَدَيْهَا)

ترجمہ : حضرت عطاء بن ابی رباح رحم اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ عورت نماز میں ہاتھ کہاں تک اٹھائے ؟ فرمایا : اپنے سینے تک ۔


عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ زَيْتُونَ ، قَالَ : رَأَيْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ تَرْفَعُ يَدَيْهَا حَذْوَ مَنْكِبَيْهَا حِينَ تَفْتَتِحُ الصَّلاَةَ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ: ج2ص421باب فی المرءۃ اذا افتتحت الصلوۃ الی این ترفع یدیہا؟)

ترجمہ : عبد ربہ بن زیتون سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ نماز شروع کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر اٹھاتی تھیں ۔ (تہذیب التہذیب ج7 ص715 رقم الترجمۃ 12193 تحت ترجمہ ام الدرداء)

ان تینوں روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں اس عمل میں مردوں کے جیسا عمل نہیں کریں گی ان کو پردہ کی رعایت میں یہ خاص طریقہ بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ اس طرح اٹھائیں گی کہ ہاتھوں کی انگلیاں کندھوں تک اور ہتھیلیاں سینہ کے برابر آ جائیں ۔


مردوں کے ہاتھ باندھنے کا طریقہ جو احادیث سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ مرد دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر رکھ کر، انگوٹھے اور چھنگلیا سے بائیں ہاتھ کے گٹے کو پکڑتے ہوئے تین انگلیاں کلائی پر بچھا کر ہاتھ ناف کے نیچے رکھتے ہیں ۔ لیکن عورتوں کےلیے اس سے زیادہ پردہ والا طریقہ بتایا گیا کہ وہ قیام کے وقت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھیں گی، فقہاء اور محدثین کی تصریحات سے اس مسئلہ کی وضاحت ہوتی ہے ۔


امام ابو القاسم ابراہیم بن محمد القاری الحنفی السمر قندی علیہ الرحمہ (المتوفیٰ بعد907ھ) لکھتے ہیں : وَ الْمَرْاَۃُ تَضَعُ [یَدَیْھَا]عَلٰی صَدْرِھَا بِالْاِتِّفَاقِ ۔ (مستخلص الحقائق شرح کنز الدقائق: ص153)

ترجمہ : عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی ، اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے ۔


سلطان المحدثین امام ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ (م1014ھ) فرماتے ہیں : وَ الْمَرْاَۃُ تَضَعُ [یَدَیْھَا] عَلٰی صَدْرِھَا اِتِّفَاقًا لِاَنَّ مَبْنٰی حَالِھَا عَلَی السَّتْرِ ۔ (فتح باب العنایۃ: ج1 ص243 سنن الصلوۃ،چشتی)

ترجمہ : عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی،اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے، کیونکہ عورت کی حالت کا دارو مدار پردے پر ہے ۔


علامہ عبد الحی فرنگی محلی لکھتے ہیں :

اتفقو علی ان السنة لهن وضع الیدین علی الصدر ۔ (السعایہ:۲؍۱۵۶)

ترجمہ : فقہا ء کا اتفاق ہے کہ عورتوں کے لئے سینہ پر ہاتھ باندھنا مسنون ہے ۔

 

عورتیں مردو کی طرح رکوع نہیں کریں گی بلکہ ان کی رکوع کا طریقہ پردہ کے پیش نظر یہ ہے کہ عورتیں رکوع میں مرد کی بنسبت کم جھکیں گی ، اپنے ہاتھ بغیر کشاد کیے ہوئے گھٹنوں پر رکھیں گی اور کہنیوں کو پہلو سے ملا کر رکھیں گی ۔


عَنْ اِبْنِ عَبَّاسِ رضی اللہ عنہما َانَّہٗ سُئِلَ عَنْ صَلاَۃِ الْمَرْأۃِ فَقَالَ: تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ:۱؍۳۷۰ مصنف عبد الرزاق:۲؍۱۳۷)

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ وہ سمٹ کر اورچپک کر نماز پڑھے ۔


صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس حکم سے جو کہ تعلیم نبوت کی روشنی میں ہے ، عورتوں کے بارے میں یہ حکم معلوم ہوتا ہے کہ وہ نماز میں پردہ کے پیش نظر جہاں تک ممکن ہو اپنے جسم کو سمیٹ کر ہی رکھیں ، اس لیے اس روایت کی روشنی میں عورتوں کے رکوع اور سجدہ کی کیفیت مردوں سے جداگانہ معلوم ہوتی ہے ، چناں چہ اس روایت کی روشنی میں عورتیں رکوع میں زیادہ نہ جھکیں گی ، بلکہ تھوڑا جھکیں گی ، کیونکہ پیٹھ کو بالکل سیدھا رکھنے کا حکم مردوں کےلیے ہے ، عورتوں کےلیے اصل حکم اپنے جسم کو سمیٹنا ہے ، نیز اپنی کہنیوں کو اپنے پہلو سے ملا کر رکھیں گی اور اپنے ہاتھ کو گھٹنوں پر رکھیں گی ، البتہ مردوں کی طرح انگلیوں کو پھیلانے کے بجائے ملا کر گھٹنوں پر رکھیں گی ۔ تاکہ سمٹنے کے حکم پر عمل ہو سکے اور زیادہ سے زیادہ پردہ ہو سکے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں بھی عورتوں اسی کا حکم دیا گیا ہے : اِذَا صَلَّتِ الْمَرْأَ ۃُ فَلْتَحْتَفِزْ اِذَا جَلَسَتْ وَاِذَا سَجَدَتْ وَلاَ تُخْوِیْ اَیْ تَنْضَمُّ وَتَجْتَمِعُ ۔ (مجمع البحار:۱؍۲۷۹)

ترجمہ : جب عورت نماز پڑھے گی تو بیٹھنے میں اور سجدہ کرنے میں اپنے آپ کو سمیٹ کر رکھے گی اور اپنے اعضاء کو نہ پھیلائے گی ، بلکہ سمیٹ کراور ملا کر رکھے گی ۔


مرد سجدہ میں اپنا پیٹ رانوں سے دور رکھیں گے ، اپنی کہنیوں کو زمین سے بلند رکھتے ہوئے پہلو سے جدا رکھیں گے اور سرین کو اونچا کریں گے ۔ لیکن یہ عورتیں اس طرح سجدہ نہیں کریں گی بلکہ وہ پیٹ کو رانوں سے ملائیں گی ، بازؤوں کو پہلو سے ملا کر رکھیں گی اور کہنیاں زمین پر بچھا دیں گی ؛ کیونکہ ان کو اس خاص طریقہ کی تعلیم دی گئی ہے جیسا کہ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے :


 عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ آلہ وَسَلَّم وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى امْرَأَتَيْنِ تُصَلِّيَانِ ، فَقَالَ : إِذَا سَجَدْتُمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ إِلَى الأَرْضِ ، فَإِنَّ الْمَرْأَةَ لَيْسَتْ فِي ذَلِكَ كَالرَّجُلِ ۔  (مراسیل ابی داؤد: ص103 باب مِنَ الصَّلاةِ، السنن الکبری للبیہقی: ج2ص223, جُمَّاعُ أَبْوَابِ الاسْتِطَابَۃ،چشتی)

ترجمہ : حضرت یزید بن ابی حبیب سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں ۔ آپ نے فرمایا : جب تم سجدہ کرو تو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو کیونکہ عورت (کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے ۔


 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاجَلَسَتِ الْمَرْاَۃُ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَتْ فَخِذَھَا عَلٰی فَخِذِھَا الْاُخْریٰ فَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخِذِھَاکَاَسْتَرِمَا یَکُوْنُ لَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ یَا مَلَائِکَتِیْ اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْغَفَرْتُ لَھَا ۔ (الکامل لابن عدی ج 2ص501، رقم الترجمۃ 399 ،السنن الکبری للبیہقی ج2 ص223 باب ما یستحب للمراۃالخ)(جامع الاحادیث للسیوطی ج 3ص43 رقم الحدیث 1759)

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کے لئے زیادہ پردے کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں : اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا ۔


 عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍالْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ... کَانَ یَاْمُرُالرِّجَالَ اَنْ یَّتَجَافُوْا فِیْ سُجُوْدِھِمْ وَ یَاْمُرُالنِّسَائَ اَنْ یَّتَخَفَّضْنَ ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی: ج 2ص222.223 باب ما یستحب للمراۃالخ)

ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ سجدے میں (اپنی رانوں کو پیٹ سے) جدا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ خوب سمٹ کر (یعنی رانوں کو پیٹ سے ملا کر) سجدہ کریں ۔


 عن الحسن وقتادة قالا إذا سجدت المرأة فإنها تنضم ما استطاعت ولا تتجافى لكي لا ترفع عجيزتها ۔ (مصنف عبدالرزاق ج 3ص49 باب تکبیرۃ المراءۃ بیدیہا وقیام المراءۃ ورکوعہا وسجودہا)

ترجمہ : حضرت حسن بصری اور حضرت قتادہ رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ جب عورت سجدہ کرے تو جہاں تک ہو سکے سکڑ جائے اور اپنی کہنیاں پیٹ سے جدا نہ کرے تاکہ اس کی پشت اونچی نہ ہو ۔


 عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ بَطْنَهُ عَلَى فَخِذَيْهِ إِذَا سَجَدَ كَمَا تَصْنَعُ الْمَرْأَةُ ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ: رقم الحديث 2704)

ترجمہ : حضرت مجاہد رحمة ﷲ علیہ اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں پر رکھے جیسا کہ عورت رکھتی ہے ۔


عن عطاء قال... إذا سجدت فلتضم يديها إليها وتضم بطنها وصدرها إلى فخذيها وتجتمع ما استطاعت ۔ (مصنف عبدالرزاق ج3ص50رقم5983)

ترجمہ : حضرت عطاء علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنے بازو اپنے جسم کے ساتھ ملا لے، اپنا پیٹ اور سینہ اپنی رانوں سے ملا لے اور جتنا ہو سکے خوب سمٹ کر سجدہ کرے ۔


قعدہ اولی اور قعدہ اخیرہ میں مردوں کے بیٹھنے کا طریقہ احادیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مرد دائیں پاؤں کو انگلیوں کے بل کھڑا کر لیں اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھ جائیں ، لیکن عورت کے بیٹھنے کا طریقہ یہ ہے کہ دونوں پاؤں دائیں جانب نکال کر سرین کے بل اس طرح بیٹھے کہ دائیں ران بائیں ران کے ساتھ ملا دے ؛ کیونکہ اس طرح سمٹ کر اور زمین سے لگ کر بیٹھنے میں مردوں کی طرح بیٹھنے کی بنسبت زیادہ پردہ ہے ، اس سلسلہ میں ان روایات سے عورت کے خاص طریقہ کا علم ہوتا ہے :


عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاجَلَسَتِ الْمَرْاَۃُ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَتْ فَخِذَھَا عَلٰی فَخِذِھَا الْاُخْریٰ فَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخِذِھَاکَاَسْتَرِمَا یَکُوْنُ لَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ یَا مَلَائِکَتِیْ اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْغَفَرْتُ لَھَا۔(الکامل لابن عدی ج 2ص501، رقم الترجمۃ 399 ،السنن الکبری للبیہقی ج2 ص223 باب ما یستحب للمراۃالخ،چشتی)(جامع الاحادیث للسیوطی ج 3ص43 رقم الحدیث 1759)

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کےلیے زیادہ پردے کی حالت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں:اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا ۔


 عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍالْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ... وَکَانَ یَاْمُرُالرِّجَالَ اَنْ یَّفْرِشُوْا الْیُسْریٰ وَیَنْصَبُوْا الْیُمْنٰی فِی التَّشَھُّدِ وَ یَاْمُرُالنِّسَائَ اَنْ یَّتَرَبَّعْنَ ۔ (السنن الکبری للبیہقی ج 2ص222.223 باب ما یستحب للمراۃالخ)(التبویب الموضوعی للاحادیث ص2639)

ترجمہ : حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھیں اور دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ چہار زانو بیٹھیں ۔


 عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا ، أَنَّهُ سُئِلَ: كَيْفَ كُنَّ النِّسَاءُ يُصَلِّينَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ كُنَّ يَتَرَبَّعْنَ ، ثُمَّ أُمِرْنَ أَنْ يَحْتَفِزْنَ ۔ (جامع المسانید از محمد بن محمود خوارزمی ج1ص400)(مسند ابی حنیفۃ روایۃ الحصكفی: رقم الحديث 114)

ترجمہ : حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں نماز کس طرح ادا کرتی تھیں ۔ انہوں نے فرمایا پہلے توچہار زانوں ہو بیٹھتی تھیں پھر ان کو حکم دیا گیا کہ دونوں پاؤں ایک طرف نکال کر سرین کے بل بیٹھیں ۔


 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ صَلٰوۃِ الْمَرْاَۃِ فَقَالَ تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ ج 2ص505، المرا ۃ کیف تکون فی سجودھا، رقم الحدیث2794)

ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عورت کی نماز سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : خوب سمٹ کر نماز پڑھے اور بیٹھنے کی حالت میں سرین کے بل بیٹھے ۔


چہار زانو بیٹھنے کا حکم شروع شروع میں تھا لیکن بعد میں یہ حکم تبدیل ہو گیا ۔ اب حکم ”اِحْتِفَاز“ کا ہے یعنی ”کمر کو زمین سے لگا کر بیٹھنا ۔

ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اوپر نماز کے جن اعمال کا ذکر کیا گیا ہے ان میں عورتوں کا طریقہ مردوں سے مختلف ہے اور ان کے علاوہ دیگر اعمال ومسائل میں مردو عورت کا حکم اور طریقہ یکساں ہے ، اس لیے تمام ائمہ علیہم الرحمہ اس بات کے قائل ہیں کہ چند اعمال میں جن میں عورتوں کے لئے خاص طریقہ مذکور ہے ان میں عورتوں کا طریقہ مردو سے مختلف ہے اور عورتیں انہیں خاص طریقوں کے مطابق اپنی نمازیں ادا کریں گی ۔


 فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں تحریر ہے : قَالَ الْاِمَامُ الْاَعْظَمُ فِی الْفُقَھَائِ اَبُوْحَنِیْفَۃَ : وَالْمَرْاَۃُ تَرْفَعُ یَدَیْھَاحِذَائَ مَنْکَبَیْھَا ھُوَ الصَّحِیْحُ لِاَنَّہٗ اَسْتَرُ لَھَا ۔ (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص84 باب صفۃ الصلوۃ،چشتی)

ترجمہ : امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عورت اپنے ہاتھوں کو اپنے کندھوں تک اٹھائے کیونکہ اس میں پردہ زیادہ ہے ۔

وَقَالَ اَیْضاً : وَالْمَرْاَۃُ تَنْخَفِضُ فِیْ سُجُوْدِھَاوَتَلْزَقُ بَطْنَھَا بِفَخْذَیْھَا لِاَنَّ ذٰلِکَ اَسْتَرُ لَھَا ۔ (الھدایۃ فی الفقہ الحنفی ج1 ص92)

ترجمہ : مزید فرمایا : عورت سجدوں میں اپنے جسم کو پست کرے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملائے کیونکہ اس کے جسم کو زیادہ چھپانے والا ہے ۔


 قَالَ الْاِمَامُ مَالِکُ بْنُ اَنَسٍ:وَالْمَرْاَۃُ دُوْنَ الرَّجُلِ فِی الْجَھْرِ وَھِیَ فِیْ ھَیْاَۃِ الصَّلاَۃِ مِثْلَہٗ غَیْرَ اَنَّھَا تَنْضَمُّ وَ لاَ تُفَرِّجُ فَخْذَیْھَا وَلاَ عَضُدَیْھَاوَتَکُوْنُ مُنْضَمَّۃً مُتَرَوِّیَۃً فِیْ جُلُوْسِھَا وَسُجُوْدِھَا وَاَمْرِھَا کُلِّہ ۔ (رسالۃ ابن ابی زید القیروانی المالکی: صفحہ 34)

ترجمہ: اما م مالک بن انس رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : عورت کی نماز کی کیفیت مرد کی نماز کی طرح ہے مگر یہ کہ عورت سمٹ کر نماز پڑھے ‘ اپنی رانوں اور بازؤوں کے درمیان کشادگی نہ کرے اپنے قعود‘ سجود اور نماز کے تمام احوال میں ۔


قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافَعِیّ:وَقَدْ اَدَّبَ اللّٰہُ النِّسَائَ بِالْاِسْتِتَارِ وَاَدَّبَھُنَّ بِذَالِکَ رَسُوْلُہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاُحِبُّ لِلْمَرْاَۃِ فِی السُّجُوْدِ اَنْ تَنْضَمَّ بَعْضَھَااِلٰی بَعْضٍ وَتَلْصَقُ بَطَنَھَا بِفَخِذَیْھَا وَتَسْجُدُ کَاَسْتَرِمَایَکُوْنُ لَھَاوَھٰکَذَا اُحِبُّ لَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَ الْجُلُوْسِ وَجَمِیْعِ الصَّلَاۃِ اَنْ تَکُوْنَ فِیْھَا کَاَسْتَرِ َمایَکُوْنُ لَھَا ۔ (کتاب الام للشافعی ج 1ص 286ص 287باب التجافی فی السجود)

ترجمہ : امام محمد بن ادریس الشافعی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : اللہ تعالی نے عورت کو پردہ پوشی کا ادب سکھایا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی یہی ادب سکھایا ہے۔ اس ادب کی بنیاد پر میں عورت کےلیے یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ سجدہ میں اپنے بعض اعضاء کو بعض کے ساتھ ملائے اور اپنے پیٹ کو رانوں کے ساتھ ملا کر سجدہ کرے‘ اس میں اس کے لیے زیادہ ستر پوشی ہے۔ اسی طرح میں عورت کے لیے رکوع ،قعدہ اور تمام نماز میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ نماز میں ایسی کیفیات اختیار کرے جس میں اس کے لیے پردہ پوشی زیادہ ہو ۔


قَالَ الْاِمَامَ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ:وَالْمَرْاَۃُ کَالرَّجُلِ فِیْ ذٰلِکَ کُلِّہٖ اَنَّھَا تَجْمَعُ نَفْسَھَا فِی الرُّکُوْعِ وَالسُّجُوْدِ وَتَجْلِسُ مُتَرَبِّعَۃً اَوْتَسْدُلُ رِجْلَیْھَافَتَجْعَلُھُمَا فِیْ جَانِبِ یَمِیْنِھَا۔۔۔۔۔ قَالَ اَحْمَدُ:اَلسَّدْلُ اَعْجَبُ اِلَیَّ ۔  (الشرح الکبیر لابن قدامۃ ج1 ص599 ‘ المغنی لابن قدامۃ ج1 ص635،چشتی)

ترجمہ: امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : سب احکام میں مرد کی طرح ہے مگر رکوع و سجود میں اپنے جسم کو سکیڑ کر رکھے اور آلتی پالتی مار کر بیٹھے یا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھے ۔ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : عورت کا اپنے دونوں پاؤں اپنی دائیں جانب نکال کر بیٹھنا میرے ہاں پسندیدہ عمل ہے ۔


المرأة ترفع يديها حذاء منکبيها، وهو الصحيح لأنه أسترلها ۔ (ابن همام، فتح القدير، 1 : 246)

’’تکبیر تحریمہ کے وقت، عورت کندھوں کے برابر اپنے ہاتھ اٹھائے یہ صحیح تر ہے کیونکہ اس میں اس کی زیادہ پردہ پوشی ہے۔‘‘


فإن کانت إمرأة جلست علی إليتهاالأيسری و أخرجت رجليها من الجانب الأيمن لأنه أسترلها.

(ابن همام، فتح القدير، 1 : 274)

’’اگر عورت نماز ادا کر رہی ہے تو اپنے بائیں سرین پر بیٹھے اور دونوں پاؤں دائیں طرف باہر نکالے کہ اس میں اس کا ستر زیادہ ہے۔‘‘


والمرأة تنخفض فی سجودها و تلزق بطنها بفخذ يها لأن ذلک أسترلها.(مرغينانی، هدايه،1 : 50) ’’عورت اپنے سجدے میں بازو بند رکھے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں سے ملا دے کیونکہ یہ صورت اس کے لئے زیادہ پردہ والی ہے۔‘‘


علامہ کاسانی حنفی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں : فأما المرأة فينبغی أن تفترش زرا عيها و تنخفض ولا تنتصب کإنتصاب الرجل و تلزق بطنها بفخذيها لأن ذلک أسترلها.(الکاسانی، بدائع الصنائع، 1 : 210) ’’عورت کو چاہیے اپنے بازو بچھا دے اور سکڑ جائے اور مردوں کی طرح کھل کر نہ رہے اور اپنا پیٹ اپنے رانوں سے چمٹائے رکھے کہ یہ اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے۔‘‘


علامہ شامی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ : انها تخالف الرجل فی مسائل کثيرة.’’عورت کئ مسائل(چند) میں مرد کے خلاف ہے۔‘‘


عورت تکبیر تحریمہ کے وقت کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھائے گی۔

آستینوں سے باہر ہاتھ نہیں نکالے گی۔

سینے کے نیچے ہاتھ پہ ہاتھ باندھے گی۔

رکوع میں مرد کی نسبت کم جھکے گی۔

انگلیوں کو گرہ نہیں دے گی نہ انگلیاں زیادہ پھیلائے گی بلکہ ملا کر رکھے گی۔

ہاتھ گھٹنوں کے اوپر رکھے گی۔

گھٹنوں میں خم نہیں کرے گی۔

رکوع و سجود میں گھٹنوں کو ملائے گی۔

سجدے میں بازو زمین پر پھیلائے گی۔

التحیات کے وقت دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر بیٹھے گی۔

مرد کی امامت نہیں کر سکتی۔

 نماز میں کوئی بات ہو جائے تو امام کو بتانے کے لئے تالی بجائے گی۔ سبحان اللہ نہیں کہے گی۔

بیٹھتے وقت ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے گھٹنوں سے ملائے گی / انگلیاں ملائے گی۔

عورتوں کی جماعت مکروہ ہے مگر پڑھیں تو ان کی امام درمیان میں کھڑی ہو گی آگے نہیں۔

عورت کا جماعت میں حاضر ہونا مکروہ ہے (ہم اس سے متفق نہیں)

مردوں کے ہمراہ باجماعت نماز ادا کریں تو مردوں سے پیچھے کھڑی ہوں۔

عورت پر جمعہ کی نماز فرض نہیں ادا کرے گی تو ادا ہو جائے گی۔

عورت پر نماز عید واجب نہیں پڑھے گی تو ہو جائے گی۔

عورت پر تکبیرات تشریق نہیں۔

صبح کی نماز روشن کر کے پڑھنا عورت کے لئے مستحب نہیں۔

جہری نمازوں میں جہری قراءت نہیں کریں گی۔

عورت نماز میں سجدہ وقعدہ میں پاؤں کی انگلیاں کھڑی نہ کرے۔ یہ تمام تفصیل نماز کے حوالہ سے ہے ورنہ عورت اور مرد میں دیگر احکام میں بہت اختلاف ہے۔(شامی، ردالمختار، 1 : 506)


والمرأة الاتجافی رکوعها وسجودها وتقعد علی رجليها وفی السجده تفترش بطنها علی فخذيها.

(شيخ نظام الدين وجماعة علماء هند، عالمگيری، 1 : 75)’’عورت رکوع اور سجدہ میں اعضاء کھول کر نہ رکھے، پاؤں پر بیٹھے، سجدہ میں اپنا پیٹ رانوں پر رکھے۔‘‘


والمرأة تنحنی فی الرکوع يسيرا ولا تعتمد ولا تفرج أصابعها ولکن تضم يديها وتضع علي رکبتيها وضعا وتنحنی رکبتيها ولا تجافی عضد تيها.(شيخ نظام الدين وجماعة علماء هند، عالمگيری، 1 : 74) ’’عورت رکوع میں کم جھکے، ٹیک نہ لگائے نہ انگلیاں کھلی رکھے، ہاتھوں کو بند رکھے اور گھٹنوں پر ہاتھ جما کر رکھے، گھٹنوں کو ٹیڑھا رکھے اور بازو دور نہ رکھے۔


عن علی رضی الله عنه قال اذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتضم فخذيها.(ابن ابي شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2777)

’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ کر کرے اور اپنی ران (پیٹ اور پنڈلیوں) سے ملائے رکھے۔‘‘


عن ابن عباس أنه سئل عن صلاة المرأة فقال تجتمع وتحتفر.(ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 241، الرقم : 2778)

’’ابن عباس سے عورت کی نماز کے بارے میں پوچھا گیا، انہوں نے فرمایا جسم کوسکیٹر کر اور سمٹا کر نماز ادا کرے۔‘‘


عن مغيرة عن ابراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها والتضع بطنها عليها.(ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2779)

’’جب عورت سجدہ کرتے تو اپنے ران جوڑ کر اپنا پیٹ ان پر رکھے۔‘‘


عن مجاهد أنه کان يکره أن يضع الرجل بطنه علی فخذيه إذا سجد کما تضع المرأة.(ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2780)

’’(ابن عباس کے شاگرد) مجاہد کہتے ہیں مرد سجدہ میں اپنا پیٹ عورتوں کی طرح رانوں پر رکھے، یہ مکروہ ہے۔‘‘


عن الحسن (البصری) قال المرأة تضم فی السجود.(ابن ابی شيبه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2781)

’’عورت سجدہ میں سمٹ جڑ کر رہے۔‘‘


عن إبراهيم قال إذا سجدت المرأة فلتلزق بطنها بفخذيها ولا ترفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجافی الرجل.(ابن ابی شيبه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2782)

’’جب عورت سجدہ کرے تو پیٹ اپنے زانوؤں سے ملائے اور اپنی پیٹھ (سرین) مرد کی طرح بلند نہ کرے۔‘‘


عن خالد بن اللجلاج قال کن النسآء يؤمرن أن يتربعن إذا جلسن فی الصلوة ولا يجلسن جلوس الرجل علی أور اکهن يتقی علی ذلک علی المرأة مخافة أن يکون منها الشی…(ابن ابی شبيه، المصنف، 1 : 242، الرقم : 2783،چشتی)

’’عورتوں کو نماز میں چوکڑی بھر کر (مربع شکل میں) بیٹھنے کا حکم تھا اور یہ کہ وہ مردوں کی طرح سرینوں کے بل نہ بیٹھیں تاکہ اس میں ان کی پردہ پوشی کھلنے کا ڈر نہ رہے۔‘‘


عن نافع ان صفية کانت تصلی وهی متربعة.(ابن ابی شبيه، المصنف،1 : 242، الرقم : 2784)’’نافع سے روایت ہے حضرت سیدہ صفیہ نماز میں مربع شکل میں بیٹھا کرتی تھیں۔‘‘


قال إبراهيم النخعی کانت المرأة تؤمر إذا سجدت أن تلزق بطنها بفخذيها کيلا ترتفع عجيزتها ولا تجا فی کما يجا فی الرجل.(بيهقی، السنن الکبری، 2 : 223)

’’ابراہیم نخعی رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں عورت کو حکم تھا یہ سجدہ کرتے وقت اپنا پیٹ رانوں سے ملائے رکھے تاکہ اس کی پیٹھ بلند نہ ہو۔ اس طرح بازو اور ران نہ کھولے جیسے مرد۔‘‘


قال علی رضی الله عنه إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها.(بيهقی، السنن الکبری، 2 : 222، الرقم : 3014)’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا عورت سجدہ میں سکڑ کر رہے اعضاء کو ملا کر رکھے۔‘‘


عن ابی سعيد الخدری صاحب رسول ﷲ عن رسول ﷲ صلی الله عليه وآله وسلم  أنه قال خير صفوف الرجال الاول و خير صفوف النساء الصف الأخر وکان يامر الرجال أن يتجا فوا فی سجودهم يأمر النسآء أن ينخفضن فی سجود هن وکان يأمر الرجال أن يفر شوا اليسریٰ وينصبوا اليمنی فی التشهدو يأمر النسآء أن يتربعن وقال يا معشر النسآء لا ترفعن أبصار کن فی صلاتکن تنظرن إلی عورات الرجال.(بيهقی، السنن الکبری،2 : 222، الرقم : 3014)

’’ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا نماز میں مردوں کی سب سے بہتر صف پہلی عورتوں کی سب سے بہتر صف آخری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سرکار مردوں کو نماز میں سجدہ کے دوران کھل کھلا کر رہنے کی تلقین فرماتے اور عورتوں کو سجدوں میں سمٹ سمٹا کر رہنے کی۔ مردوں کو حکم فرماتے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھائیں اور دایاں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو مربع شکل میں بیٹھنے کا حکم دیتے اور فرمایا عورتو! نماز کے دوران نظریں اٹھا کر مردوں کے ستر نہ دیکھنا۔‘‘


حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا : إذا جلست المرأة فی الصلاة وضعت فخذها علی فخذها الاخریٰ و إذا سجدت الصقت بطنها فی فخذيها کأستر مايکون لها وإن ﷲ تعالی ينظر إليها ويقول يا ملآ ئکتی أشهد کم إنی قد غفرت لها.(بيهقی، السنن الکبری، 2 : 222، الرقم : 3014)

’’جب عورت نماز میں اپنا ایک ران دوسرے ران پر رکھ کر بیٹھتی ہے اور دوران سجدہ اپنا پیٹ رانوں سے جوڑ لیتی ہے جیسے اس کے لئے زیادہ ستر والی صورت ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھ کر فرماتا ہے میرے فرشتو! میں تمہیں گواہ بنا کر اس کی بخشش کا اعلان کرتا ہوں۔‘‘


عن يزيد بن أبی حبيب أن رسول ﷲ  صلی الله عليه وآله وسلم  مر علی إمرأتين تصليان فقال إذا سجدتما فضمّا بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأة ليست فی ذلک کالر جل.(بيهقی، السنن الکبری، 2 : 223، الرقم : 3016)

’’یزید بن ابی حبیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نماز پڑھنے والی دو عورتوں کے پاس سے گزرے۔ فرمایا جب تم سجدہ میں جاؤ تو گوشت کا کچھ حصہ زمین سے ملا کر رکھا کرو! عورت مرد کی طرح نہیں۔‘‘


قلت لعطاء التشير المرأة بيديها کالر جال بالتکبير؟ قال لا ترفع بذلک يديها کالر جال وأشار أفخفض يديه جدا وجمعهما إليه وقال إن للمرأة هية ليست للرجل.(عبدالرزاق، المصنف، 3 : 137، الرقم : 5066)

’’میں نے عطا سے پوچھا کہ عورت تکبیر کہتے وقت مردوں کی طرح ہاتھوں سے اشارہ کرے گی؟ انہوں نے کہا عورت تکبیر تحریمہ کے وقت مردوں کی طرح ہاتھ نہیں اٹھائے گی، اشارہ سے بتایا عطاء نے اپنے ہاتھ بہت نیچے کئے اور اپنے ساتھ ملائے اور فرمایا عورت کی صورت مرد جیسی نہیں۔‘‘


عطا کہتے ہیں : تجمع المراة يديها فی قيامهاما استطاعت . ’’عورت کھڑے ہوتے وقت نماز میں جہاں تک ہوسکے ہاتھ جسم سے ملا کر رکھے ۔ (عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 137، الرقم : 5067)


حسن بصری اور قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : إذا سجدت المرأة فأنها تنفم ما استطاعت ولا تتجافی لکی لا ترفع عجيز تها.(عبدالرزاق، المصنف،3 : 137، الرقم : 5068)

جب عورت سجدہ کرے تو جتنا ہو سکے سمٹ جائے اعضاء کو جدا نہ کرے مبادا جسم کا پچھلا حصّہ بلند ہو جائے۔


کانت تؤمر المرأة ان تضع زراعيها بطنها علی فخذيها إذا سجدت ولا تتجا فی کما يتجا فی الرجل. لکی لا ترفع عجيز تها.(عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5071)

’’عورت کو حکم دیا گیا ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنے بازو اور پیٹ رانوں پر رکھے اور مرد کی طرح کھلا نہ رکھے تاکہ اس کا پچھلا حصہ بلند نہ ہو۔‘‘


عن علی قال إذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتلصق فخذ يها ببطنها.(عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5072)

’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ جائے اور اپنے ران اپنے پیٹ سے ملائے۔‘‘


جلوس المراءۃ (عورت کا بیٹھنا)

عن نافع قال کانت صفية بنت أبی عبيد إذا جلست فی مثنی أوأربع تربعت.(عبدالرزاق، المصنفً، 3 : 138، الرقم : 5074،چشتی)

صفیہ بنت ابوعبید جب دو یا چار رکعت والی نماز میںبیٹھتیں مربع ہو کر بیٹھیتں۔


عن قتاده قال جلوس المرأة بين السجدتين متورکة علی شقها الأيسر وجلوسها تشهد متربعة.(عبدالرزاق، المصنف، 3 : 139، الرقم : 5075)

’’عورت دو سجدوں کے درمیان بائیں طرف سرینوں کے بل بیٹھے اور تشہد کے لئے مربع صورت میں۔‘‘


معلوم ہوا عورت اور مرد مسلمان کی نماز کی ادائیگی میں کھڑا ہونے ، رکوع و سجود اور بیٹھنے میں شرعاً فرق ہے ۔ ہر چند کہ ایسا کرنا فرض و واجب میں شامل نہیں ۔ تاہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور صحابہ کرام و تابعین رضی اللہ عنہم ، محدثین ، فقہائے امت سے جب معتبر کتابوں کے حوالہ سے یہ فرق ثابت ہے اور امام بخاری و مسلم اور دیگر محدثین کے استاذ امام الحدثین حضرت امام عبد الرزاق اور دوسرے اکابر محدثین و فقہائے امت علیہم الرحمہ کی تصریحات ، روایات تحقیقات سے بھی یہ فرق ثابت ہو رہا ہے ۔ عقل و نقل کی رو سے یہ فرق ثابت ہے تو اس پر عمل کرتے رہیں ۔ یہی راہ مستقیم و ہدایت حق ہے ۔ شریعت کا منشاء یہی ہے اور یہ عورت کے وقار ، عزت ، احترام اور سترکا تقاضا بھی ہے ۔ یہی اسلامی طریقہ ہے ، مرد اور عورت کی نماز میں یہ فرق نہایت مناسب اور معنوی ہے ۔ اسلام نے عورت اور مرد کی خصوصیات کا ہر جگہ خیال و لحاظ رکھا ہے ۔ ان کی خلاف ورزی اور وہ بھی بلا دلیل شرعی مسلمان کا کام نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراط مستقیم دکھائے ، سمجھائے اور اس پر چلائے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔