Tuesday, 30 April 2019

ترجمہ قرآن کا شوق اور بغیر سوچے سمجھے ترجمہ پڑھنے کے نتائج

ترجمہ قرآن کا شوق اور بغیر سوچے سمجھے ترجمہ پڑھنے کے نتائج

آج سے تقریبا سو ڈیڑھ سو سال پہلے مسلمانوں کا یہ طریقہ تھا کہ عام مسلمان قرآن کریم کی تلاوت محض ثواب کی غرض سے کرتے تھے اور روزانہ کے ضروری مسائل پاکی پلیدی ، روزہ نمازکے احکام میں بہت محنت اورکوشش کرتے تھے ۔ عام مسلمان قرآن شریف کا ترجمہ کرتے ہوئے ڈرتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ یہ دریا ناپیدا کنارہے ۔ اس میں غوطہ وہی لگائے جو اس کا شنا ور ہو ،بے جانے بوجھے دریا میں کودنا جان سے ہاتھ دھونا ہے اور بے علم وفہم کے قرآن شریف کے ترجمہ کو ہاتھ لگانا اپنے ایمان کو بر باد کرنا ہے نیز ہر مسلمان کا خیال تھا کہ قرآن شریف کے ترجمہ کا سوال ہم سے نہ قبر میں ہوگا نہ حشر میں۔ ہم سے سوال عبادات ، معاملات کا ہوگا اسے کوشش سے حاصل کرو یہ تو عوام کی روش تھی رہے علماء کرام اور فضلائے عظام ، ان کا طریقہ یہ تھا کہ قرآن کریم کے ترجمہ کے لئے قریباً اکیس علوم میں محنت کرتے تھے مثلا صرف ، نحو ، معانی، بیان ، بدیع ، ادب ، لغت، منطق ، فلسفہ ، حساب ، جیومیڑی ، فقہ ،تفسیر ، حدیث ، کلام ، جغرافیہ ، تواریخ اور تصوف ، اصول وغیرہ ۔ ان علوم میں اپنی عمر کا کافی حصہ صرف کرتے تھے ۔ جب نہا یت جانفشانی اور عرق ریزی سے ان علوم میں پوری مہارت حاصل کرلیتے تب قرآن شریف کے ترجمہ کی طرف تو جہ کرتے پھر بھی اتنی احتیاط سے کہ آیات متشابہات کو ہاتھ نہ لگاتے تھے کیونکہ اس قسم کی آیتیں رب تعالیٰ اور اس کے محبو ب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان راز ونیاز ہیں، اغیار کو یا ر کے معاملہ میں دخل دینا روا نہیں ۔

میان طالب و مطلوب رمز یست
کراما کاتبیں راہم خبر نیست

رہیں آیات محکمات ان کے ترجمہ میں کو شش تو کرتے مگر گزشتہ سارے علوم کا لحاظ رکھتے ہوئے مفسرین ، محدثین ، فقہا کے فرمان پر نظر کرتے ہوئے پھر بھی پوری کوشش کرنے کے باوجود قرآن کریم کے سامنے اپنےکو طفل مکتب جانتےتھے ۔

اس طریقہ کار کافائدہ یہ تھا کہ مسلمان بد مذہبی ، لا دینی کا شکار نہ ہوتے تھے وہ جانتے بھی نہ تھے کہ قادیانی کس بلا کانام ہے او ردیوبندی کہا ں کا بھوت ہے ۔ غیر مقلدیت ، نیچریت کس آفت کو کہتے ہیں ۔ چکڑالوی کس جانور کا نام ہے ۔ علماء کے وعظ خوف خدا عظمت و ہیبت حضور محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ، مسائل دینیہ اور علمی معلومات سے بھرے ہوتے تھے وعظ سننے والے وعظ سن کر مسائل ایسے یاد کرتے تھے جیسے آج طالب علم سبق پڑھکر تکرار کرتے ہیں کہ آج مولوی صاحب نے فلاں فلاں مسئلہ بیان فرمایا ہے غرضیکہ عجیب نوری زمانہ تھا اور عجب نورانی لوگ تھے ۔

اچانک زمانہ کا رنگ بدلا، ہوا کے رخ میں تبدیلی ہوئی بعض نادان دوستوں اور دوست نما دشمنوں نے عام مسلمانوں میں ترجمہ قرآن کرنے اور سیکھنے کا جذبہ پیدا کیا اور عوام کو سمجھا یا کہ قرآن عوام ہی کی ہدایت کے لئے آیا ہے اس کا سمجھنا بہت سہل ہے ۔ ہر شخص اپنی عقل وسمجھ سے ترجمہ کرے اور احکام نکالے اس کے لئے کسی علم کی ضرورت نہیں ۔ عوام میں یہ خیال یہاں تک پھیلایا کہ لوگو ں نے قرآن کو معمولی کتاب اور قرآن والے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو معمولی بشر سمجھ کر قرآن کے ترجمے بے دھڑک شرو ع کردیئے اور نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات کاانکار بلکہ اس ذات کریم سے برابر ی کا دعوی شرو ع کردیا ۔

اب عوام جہلا یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ خواندہ ، ناخواندہ ، انگریزی تعلیم یافتہ لغت کی تھوڑی باتیں یاد کر کے بڑے دعوے سے قرآن کا ترجمہ کر رہا ہے اور جو کچھ اس کی ناقص سمجھ میں آتا ہے اسے وحی الٰہی سمجھتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہو اکہ مسلمانوں میں روزانہ نئے نئے فرقے پیدا ہورہے ہیں جو ایک دوسرے کو کافر، مشرک، مرتد اور خارج از اسلام سمجھتے ہیں ۔
لطیفہ : ایک اردوا سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے دوران تقریر کہا کہ جس کو قرآن کا ترجمہ نہ آتا ہو وہ نماز ہی نہ پڑھے کہ جب عرضی دینے والے کو یہ خبر ہی نہیں کہ درخواست میں کیا لکھا ہے تو درخواست ہی بیکار ہے میں نے کہا کہ پھر عربی زبان میں نماز پڑھنے کی کیا ضرورت ہے موجودہ انجیلوں کی طر ح قرآن کے اردوترجمے اور اردو خلاصے بنالو ، اس میں نماز پڑھ لیا کر و ، رب تعالیٰ اردو جانتا ہے ۔ اس پر وہ خاموش ہوگئے ۔

آج ہربد مذہب ہر شخص کو قرآن کی طر ف بلا رہا ہے کہ آؤ میرا دین قرآن سے ثابت ہے اسی پر فتن زمانہ کی خبر حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دی تھی ۔ اور ایسے دجالوں کا ذکر سر کار نے فرمایا تھا: یَدْعُوْنَ اِلٰی کِتَابِ اللہِ وہ گمراہ گر وہ ہر ایک کو قرآن کی طرف بلائے گا ۔ (سنن ابی داود،کتاب السنۃ،باب فی قتال الخوارج،الحدیث۴۷۶۵،ج۴،ص۳۲۰، دار احیاء التراث العربی بیروت،چشتی)

رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : وَالَّذِیۡنَ اِذَا ذُکِّرُوۡا بِاٰیٰتِ رَبِّہِمْ لَمْ یَخِرُّوۡا عَلَیۡہَا صُمًّا وَّ عُمْیَانًا ۔ ترجمہ : مسلمان اللہ تعالیٰ کی آیتو ں پر گو نگے اندھے ہو کر نہیں گر پڑتے ۔ (پ19،الفرقان:73)

کانپور میں ایک بد مذہب پیدا ہوا، مسمی عزیز احمد حسرت شاہ جس نے ماہوار رسالہ'' شحنہ شریعت''جاری کیا ۔ اس میں بالا لتزام لکھتا تھا کہ سارے نبی پہلے مشرک تھے، گناہ گار تھے ، معا ذ اللہ بدکر دار تھے ، پھر تو بہ کر کے اچھے بنے اور حسب ذیل آیات سے دلیل پکڑتا تھا کہ رب تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا : وَعَصٰۤی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰی ﴿۱۲۱﴾ آدم علیہ السلام نے رب کی نافرمانی کی لہٰذا گمراہ ہوگئے ۔ (پ۱۶،طٰہٰ:۱۲۱) ۔ حضور علیہ السلام کے بارے میں فرمایا : وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَہَدٰی ۪﴿۷﴾ یعنی رب نے تمہیں گمراہ پایا تو ہدایت دی ۔ (پ۳۰،الضحی:۷) ۔ حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے چاند ، ستارے، سورج کو اپنا رب کہا ،یہ شرک ہے ۔ فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَۃً قَالَ ہٰذَا رَبِّیْ (پ 7،الانعام78) حضرت آدم وحوا کے بارے میں فرمایا : جَعَا لَہ، شُرَکَآءَ فِیْمَآ اٰتٰہُمَا ان دونوں نے اپنے بچہ میں رب کا شریک ٹھہرایا۔ (پ۹،الاعراف:۱۹۰) ۔ یوسف علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: وَلَقَدْ ہَمَّتْ بِہٖ ۚ وَہَمَّ بِہَا لَوْلَاۤ اَنۡ رَّاٰبُرْہَانَ رَبِّہٖ ؕ (پ 12، یوسف :24) یقینا زلیخا نے یوسف اور یوسف نے زلیخا کا قصد کرلیا اگر رب کی بر ہان نہ دیکھتے تو زنا کر بیٹھتے پھر لکھا کہ غیر عورت کو نظر بد سے دیکھنا اور برا ارادہ کرنا کتنا بر اکام ہے جو یوسف علیہ السلام سے سرزد ہو ا۔داؤد علیہ السلام نے اوریا کی بیوی پر نظر کی اور اوریا کو قتل کروا دیا ۔ یہا ں تک بکواس کی کہ آدم علیہ السلام اور ابلیس دونوں سے گناہ بھی ایک ہی طر ح کا ہوا اور سزا بھی یکساں ملی کہ ابلیس سے کہا گیا: فَاخْرُجْ مِنْہَا فَاِنَّکَ رَجِیۡمٌ ﴿ۙ۳۴﴾ تو جنت سے نکل جا تو مردود ہے ۔(پ۱۴،الحجر:۳۴) آدم علیہ السلام سے کہا گیا : قُلْنَا اہۡبِطُوۡا مِنْہَا جَمِیۡعًا ۚ ہم نے کہا کہ تم یہاں سے نکل جاؤ۔ (پ۱،البقرۃ:۳۸) غرضیکہ دو نوں کو دیس نکالے کی سزادی ہاں پھر آدم علیہ السلام نے تو بہ کرلی اور ابلیس نے توبہ نہ کی ۔ میں نے اس مرتد کو بہت سے جوابات دیئے مگر وہ یہ ہی کہتا رہا کہ میں قرآن پیش کر رہا ہوں کسی بزرگ ، عالم ،صوفی کے قول یا حدیث ماننے کو تیار نہیں ۔ آخر کار میں نے اسے کہا کہ بتا رب تعالیٰ بھی بے عیب ہے کہ نہیں؟بولا:ہاں!وہ بالکل بے عیب ہے،میں نے کہا کہ قرآن مجید میں ہے کہ خدا میں عیب بھی ہیں اور خدا چند ہیں۔خدا کے دادا بھی ہیں ۔ چنانچہ فرمایا ہے: وَمَکَرُوۡا وَمَکَرَ اللہُ ؕ وَاللہُ خَیۡرُ الْمٰکِرِیۡنَ ﴿٪۵۴﴾ کفار نے فریب کیا اور خدا نے فریب کیا خدا اچھا فریب کرنے والا ہے ۔(پ۳،اٰل عمرٰن:۵۴) معا ذ اللہ ! دو سرے مقام پر فرماتا ہے: یُخٰدِعُوۡنَ اللہَ وَہُوَ خَادِعُہُمْ ۚ یہ خدا کو دھوکا دیتے ہیں اور خدا انہیں دھوکادیتا ہے (پ۵،النساء:۱۴۲)۔ دیکھو دھوکا ، فریب دہی، نمبر ۱۰ کے عیب ہیں مگر قرآن میں خدا کے لئے ثابت ہیں۔ اور فرماتا ہے : وَاَنَّہ، تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا ہمارے رب کا دادا بڑا خاندانی ہے ۔ (پ۲۹،الجن:۳) خدا کا دادا ثابت ہوا ۔اور فرماتا ہے: فَتَبٰرَکَ اللہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیۡنَ ﴿ؕ۱۴﴾ اللہ برکت والا ہے جو تمام خالقوں سے اچھا ہے۔ (پ۱۸،المؤمنون:۱۴) معلوم ہوا کہ خالق بہت سے ہیں ۔ جب ترجمہ لفظی پر ہی معاملہ ہے تو اب رب کے لئے کیا کہے گا ؟ تب وہ خاموش ہوا ۔ دیکھا آپ نے ان اندھا دھند ترجموں کا یہ نتیجہ ہے ۔

مرزا غلام احمد قادیانی نے دعوی نبوت کیا او راپنی نبوت کے ثبوت میں قرآن ہی کو پیش کیا ، کہا کہ قرآن کہتا ہے : اَللہُ یَصْطَفِیۡ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ۔
ترجمہ : اللہ تعالیٰ فرشتو ں اور انسانوں میں سے رسول پیغمبر چنتارہے گا ۔ (پ۱۷،الحج:۷۵) ۔
معلوم ہوا کہ پیغمبر ، رسول آتے ہی رہیں گے وغیرہ وغیر ہ ۔ غرضیکہ اندھا دھند ترجمے بے ایمانی کی جڑ ہیں ۔ آنکھوں پر پٹی باندھ لو جوچاہو بکواس کرو اور قرآن سے ثابت کر دو ۔ ایک کتاب میری نظر سے گزری ہے '' جواہر القرآن''جو کسی ملحد غلام اللہ خاں (اللہ کے غلام) نے لکھی ہے اس میں بھی اندھا دھند ترجمہ کیا گیا ہے بتوں کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات پیغمبر وں پر ، کفار کی مذمت میں نازل ہونے والی آیتیں مسلمانوں پر بے دھڑک چسپاں کر کے مصنف نے یہ ثابت کرنے کی کو شش کی ہے کہ دنیا بھر کے علماء ، صوفیاء ، مومنین اور صالحین مشرک تھے اور مسلمان موحد صرف میں ہی ہوں یا میری ذریت ۔ بخاری شریف جلد دوم میں باب باندھا ہے ۔ بَابُ الْخَوَارِجِ وَالْمُلْحِدِیْنَ خارجیوں اور بے دینوں کا باب وہاں ترجمہ باب میں فرمایا وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ یَرَا ھُمْ شِرَارُخَلْقِ اللہِ وَقَالَ اِنَّہُمْ اِنْطَلَقُوْا اِلٰی اٰیَاتٍ نُزِلَتْ فِی الْکُفَّارِفَجَعَلُوْھَا عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما ان خارجیوں،ملحدوں کو اللہ کی مخلوق میں بد تر سمجھتے تھے اور فرماتے تھے کہ ان بے دینوں نے ان آیتو ں کو جو کفار کے حق میں نازل ہوئیں مسلمانوں پر چسپاں کیا ۔ (صحیح ا لبخاری،کتاب استتا بۃ المرتدین...ا لخ،تحت الباب قتل الخوارج والملحدین...الخ، ج۴،ص۳۸۰،دار الکتب العلمیۃ بیروت) یہ ہی طریقہ اس ملحد نے اختیار کیا ہے ۔ غرضیکہ ترجمہ قرآن بے دھڑک کرنا ہی ایسی بڑی بیماری ہے جس کا انجام ایمان کا صفایا ہے ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میر ے صحابہ ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں

فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میر ے صحابہ ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں

محترم قارئین : نبی کریم کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو سفینۂ نجات اور سلامتی کا ذریعہ قراردیا اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت کے درخشاں ستارے قرار دیا ارشاد فرمایا : حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ ، وَأَبُو الْفَضْلِ ، قَالا : حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ ، حَدَّثَنَا التِّرْمِذِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اقْتَدُوا بِاللَّذِينَ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ” ، وَقَال : أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ ۔
ترجمہ : ترجمہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میرے بعد ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی پیروی کرنا اور کہا کہ میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ستاروں کے مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے ۔ (مشکوۃ المصابیح صفحہ نمبر 554 ، زجاجۃ المصابیح جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 334،چشتی)،(الشفا بأحوال المصطفى للقاضي عياض الْقَسَمَ الثاني : فِيمَا يجب عَلَى الأنام من حقوقه الْبَابِ الثالث : فِي تعظيم أمره ووجوب توقيره وبره رقم الحديث: 61, الحكم: إسناده حسن)

مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح میں حضرت امام ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے رقمطراز ہیں :نحن معاشر اهل السنة بحمد الله رکبنا سفينة محبة اهل البيت واهتدينا بنجم هدی اصحاب النبی صلی الله عليه وسلم فنرجوا النجاة من اهوال القيامة ودرکات الجحيم والهداية الی مايوجب درجات الجنان والنعيم المقيم ۔
ترجمہ : الحمد للہ ہم اہل سنت وجماعت ، اللہ کے فضل و کرم سے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت کی کشتی میں سوار ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہدایت کے ستاروں سے رہبری پا رہے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ قیامت کی ہولناکیوں سے اورجہنم کے طبقات سے نجات عطا فرمائے گا ، ہمیشہ رہنے والی اور نعمتوں والی جنت کے اونچے مقاما ت پر پہونچائیگا ۔ (حاشیہ زجاجۃ المصابیح جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 315، باب مناقب اہل بیت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،مرقاۃالمفاتیح جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 610،چشتی)

حدیث : أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ کے تمام راوی ثقہ ہیں

تخریج حدیث امام قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ
اس حدیث کے رجال تمام کے تمام ثقہ ہیں
الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ الحسين بن محمد الصدفي
ان کے بارے میں امام ذہبی کا کہنا ہے کہ لإمام العلامة الحافظ، برع في الحديث متنا وإسنادا مع حسن امام علامہ الحافظ جن کی حدیث متن و سند کے لحاظ سے حسن ہوتی ہے
أَبُو الْحُسَيْنِ المبارك بن عبد الجبار الطيوري
ان کے بارے میں ابن حجر اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ثبت ہیں
وَأَبُو الْفَضْلِ أحمد بن الحسن البغدادي
ان کے بارے میں یحی بن معین السمعانی اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ ثقہ حافظ تھے
أَبُو يَعْلَى أحمد بن عبد الواحد البغدادى
خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں حسن تھے
أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ الحسن بن محمد السنجي
خطیب بغدادی کہتے ہیں یہ بڑے شیخ تھے اور ثقہ تھے
مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ محمد بن أحمد المحبوبی
یہ امام ترمذی کے شاگرد ہیں ان کے بارے میں امام حاکم صاحب مستدرک اور امام ذہبی کا کہنا ہے کہ یہ ثقہ حافظ تھے
لتِّرْمِذِيُّ محمد بن عيسى الترمذی
یہ امام ترمذی ہیں صاحب السنن الترمزی جن کے حفظ ع ثقات میں کوئی شک نہین ہے
الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الواسطی
ان کے بارے میں امام احمد کہتے ہیں کہ ثقہ ہیں سنت کے پیرو ہیں اور ابو حاتم و ابن حجر کہتے ہیں صدوق ہیں
سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ
یہ ثقہ و امام ہیں
زائدة بن قدامة الثقفي
ابو حاتم ، امام نسائی ، ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں
عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ
امام ذہبی ، ابو حاتم ، ابن حجر نے اس کی توثیق کی ہے
رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ
ابن سعد ، ذہبی ، ابن حجر نے اسے ثقہ کہا ہے
حُذَيْفَةَ رضی اللہ عنہ
یہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی عدالت پر شق کرنا ہی نقص ایمان کی نشانی ہے۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

قرآن واہل بیت رضی اللہ عنہم سے وابستگی ہدایت کی ضمانت

قرآن واہل بیت رضی اللہ عنہم سے وابستگی ہدایت کی ضمانت

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے تعلق و وابستگی کو باعث نجات اور گمراہی وضلالت سے حفاظت کا ذریعہ قرار دیا جو ان حضرات سے وابستہ ہوجاتا ہے وہ کبھی گمراہ نہیں ہوتا توغور کرنا چاہئے ! کیا وہ نفوس قدسیہ بے راہ روی ودنیا طلبی کا شکار ہوسکتے ہیں ۔ العیاذباللہ ۔

چنانچہ حجۃ الوادع کے موقع پر جہا ں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ساری دنیا کو پیغام امن وسلامتی دیا اوراتمام دین کا اعلان فرمایا وہیں قرآن کریم اور حضرات اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم سے وابستگی کا حکم فرمایا جن سے تعلقِ غلامی ابدی سعادتوں کا ذریعہ ہے اور بے دینی وبدمذہبی اور بداعتقادی وگمراہی سے بچنے کیلئے مضبوط قلعہ ہے ۔

سنن بیہقی وجامع ترمذی شریف کی روایت ہے : عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِى حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ يَخْطُبُ فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّى قَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِى أَهْلَ بَيْتِى ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات میں دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی مبارک اونٹنی قصواء پرجلوہ گر ہیں اورخطاب فرما رہے ہیں ، میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو بیشک میں تم کو دوعظیم نعمتیں دے کر جا رہا ہوں جب تک تم انہیں تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہو گے وہ کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت ہیں ۔ (جامع ترمذی شریف جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 219 حدیث نمبر 3718)

محترم قارئین : یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ارشاد مبارک کے مطابق اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم گمراہی سے بچانے والے ہوئے جن سے وابستہ ہونے والا غلط راہ پر نہیں ہوسکتا تو کیا ان پاکباز ومقدس ہستیوں کے متعلق غلط باتیں منسوب کرنا یا ان پر دنیا داری کا الزام لگانا یا ان کے کیئے گئے اقدام کو سیاسی اقدام کہنا درست ہوسکتا ہے ؟ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مبارک میں ان کی پاکیز گی کے متعلق فرمایا : إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ۔
ترجمہ : یقینااللہ تعالیٰ تویہی چاہتا ہے اے نبی کے گھروالوکہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے او رتمہیں پاک کرکے خوب ستھراکردے ۔ (سورۃالاحزاب ۔33)

اور جن کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے دعافرمائی : اللهم هؤلاء اهل بيتی فاذهب عنهم الرجس وطهرهم تطهيرا ۔
ترجمہ :اے اللہ یہ میرے اہل بیت رضی اللہ عنہم ہیں تو ان سے رجس و گندگی کو دور فرما اور انہیں مکمل پاکیزگی عطافرما ۔ (ترمذی شریف ، ج 2ص 219 حدیث نمبر:3129)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

صحابہ رضی اللہ عنہم کی اذیت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اذیت کاباعث

صحابہ رضی اللہ عنہم کی اذیت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اذیت کاباعث

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلۃم نے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے متعلق تاکیدی حکم فرمایا کہ ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی تاکیدی امر فرمایا جیسا کہ ارشاد مقدس ہے : عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى،اللَّهَ اللَّهَ فِى أَصْحَابِى لاَ تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِى فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّى أَحَبَّهُمْ وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِى أَبْغَضَهُمْ وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِى وَمَنْ آذَانِى فَقَدْ آذَى اللَّهَ وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ ۔
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو ، اللہ سے ڈرتے رہو ، میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بناؤ ، پس جس کسی نے ان سے محبت کی توبالیقین اس نے میری محبت کی خاطر ان سے محبت کی ہے اور جس کسی نے ان سے بغض رکھا تواس نے مجھ سے بغض کی بناء پر ان سے بغض رکھاہے اور جس کسی نے ان کو اذیت پہونچائی یقینااس نے مجھ کو اذیت دی ہے اور جس نے مجھ کو اذیت دی یقینا اس نے اللہ کو اذیت دی ہے اور جس نے اللہ کو اذیت دی قریب ہے کہ اللہ اس کی گرفت فرمائے ۔ (جامع ترمذی شریف ج 2 ص 225 ابواب المناقب)۔(طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

میں تم میں دوعظیم ترین نعمتیں چھوڑے جارہا ہوں

میں تم میں دوعظیم ترین نعمتیں چھوڑے جارہا ہوں

عَنْ زَيْدِ بْنِ اَرْقَمَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ وَوَعَظَ وَذَكَّرَ ثُمَّ قَالَ « أَمَّا بَعْدُ أَلاَ أَيُّهَا النَّاسُ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِىَ رَسُولُ رَبِّى فَأُجِيبَ وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ». فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ ثُمَّ قَالَ « وَأَهْلُ بَيْتِى أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِى أَهْلِ بَيْتِى أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِى أَهْلِ بَيْتِى أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِى أَهْلِ بَيْتِى ۔
ترجمہ : حضرت سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں : حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ایک روز مقام غدیر خم میں خطبہ ارشادفرمانے کے لئے جلوہ گرہوئے جو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان ہے۔پس آپ نے اللہ تعالیٰ کاشکر بجالایا ، تعریف بیان کی اور وعظ فرمایا ، نصیحتیں فرمائیں اورآخرت کی یاد دلائی پھر ارشادرفرمایا : امابعد : اے لوگو !بیشک میں جامۂ بشری میں جلوہ گرہوا ہوں عنقریب میرے رب کا قاصد میرے پاس آئے گا اورمیں اس کی دعوت کو قبول کرونگا ، اور میں تم میں دوعظیم ترین نعمتیں چھوڑے جارہا ہوں ان میں سے ایک کتاب اللہ ہے؛ جس میں ہدایت اور نور ہے ۔ تو تم اللہ کی کتاب کو تھام لو اور مضبوطی سے پکڑے رہو،اس کے بعدآپ نے قرآن کریم کے بارے میں تلقین فرمائی اوراس کی طرف ترغیب دلائی پھر ارشاد فرمایا : (دوسری نعمت ) اہل بیت کرامرضی اللہ عنہم ہے ۔ میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں میرے اہل بیت کے بارے میں ، میں تمھیں اللہ کی یاد دلاتا ہوں میرے اہل بیت کے بارے میں ۔ (صحیح مسلم شریف جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 279 حدیث نمبر:2408-مشکوۃ المصابیح ص68- زجاجۃ المصابیح ج 5 ص317/318/319)

اذکرکم اللہ : میرے اہل بیت کرام کے بارے میں،میں تمہیں اللہ کی یاد دلاتاہوں ۔

یہ اس لئے فرمایاکہ اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم سے محبت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کےلیئے ہے او رآپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے محبت اللہ عزّ و جل کے لیئے ہے، لہذا اہل بیت کرام کی محبت اللہ تک پہنچانے والی ہے تو ان کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو کہ کبھی تمہاری زبان سے ان کے خلاف کوئی نامناسب لفظ نہ نکلے ۔
اس حدیث شریف کی شرح میں حضرت امام ملاعلی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں : کرر الجملةلافادةمبالغة ولايبعد ان يکون اراد باحدهما اٰله وبالاخری ازواجه لماسبق من اهل البيت يطلق عليهما ۔ (مرقاۃالمفاتیح جلد 5 صفحہ 594)
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے "اذکرکم"دومرتبہ فرمایا ، اس میں حکمت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ جوفرمایا اس سے مراد آل پاک رضی اللہ عنہم ہیں اوردوسرے سے مراد امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن ہیں ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Monday, 29 April 2019

نادانو شرفِ صحابیت کا لحاظ تو کرو

نادانو شرفِ صحابیت کا لحاظ تو کرو

محترم قارئین : شرفِ صحابیت کا لحاظ لازم ہے خوب یاد رکھئے صحابیت کا عظیم اعزاز کسی بھی عبادت و ریاضت سے حاصل نہیں ہوسکتا لہٰذا اگر ہمیں کسی مخصوص صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی فضیلت کے بارے میں کوئی روایت نہ بھی ملے تب بھی بلاشک و شبہ وہ صحابی محترم و مکرم اورعظمت و فضیلت کے بلند مرتبے پر فائز ہیں کیونکہ کائنات میں مرتبۂ نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ مقام و مرتبہ صحابی ہونا ہے اور اس شرفِ صحابیت میں اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں انہیں اس شرف سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔

صاحبِِ نبراس علّامہ عبدالعزیز پرہاروی چشتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یاد رہے حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابَۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کى تعداد سابقہ انبىائے کرام علیہم السّلام کى تعداد کے موافق ( کم و بىش) اىک لاکھ چوبىس ہزار ہے مگر جن کے فضائل مىں احادىث موجود ہىں وہ چند حضرات ہىں اور باقى صحابَۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کى فضىلت مىں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صحابی ہونا ہی کافی ہے کیونکہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبتِ مبارکہ کی فضیلت عظیمہ کے بارے میں قراٰنِ مجید کی آیات اوراحادیثِ مبارکہ ناطِق ہیں ، پس اگر کسى صحابى کے فضائل مىں احادىث نہ بھی ہوں ىا کم ہوں تو ىہ ان کى فضىلت و عظمت مىں کمى کى دلىل نہىں ہے ۔ (الناھیۃ،ص38)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بُرا کہنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بُرا کہنے والوں پر اللہ کی لعنت ہو

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ رضي ﷲ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ النَّاسَ يَکْثُرُوْنَ، وَإِنَّ أَصْحَابِي يَقِلُّوْنَ، فَـلَا تَسُبُّوْهُمْ لَعَنَ ﷲُ مَنْ سَبَّهُمْ. رَوَاهُ أَبُوْ يَعْلٰی وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ ۔
ترجمہ ؛ حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : بے شک لوگ کثیر تعداد میں ہیں اور میرے صحابہ رضی ﷲ عنہم قلیل ہیں . سو میرے صحابہ رضی ﷲ عنہم کو برا بھلا مت کہو اور اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو جو ان کو برا بھلا کہے ۔ (أخرجه أبو يعلی في المسند، 4 / 133، الرقم : 2184، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 47، الرقم : 1203، وأيضًا في الدعائ / 581، الرقم : 2109، وأبو نعيم في حلية الأوليائ، 3 / 350، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 3 / 149)

وفي رواية : عَنْ عَطَائٍ يَعْنِي بْنَ أَبِي رِبَاحٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ حَفِظَنِي فِي أَصْحَابِي کُنْتُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَافِظًا وَمَنْ سَبَّ أَصْحَابِي فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ ﷲِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ ۔
ترجمہ : ایک روایت میں (تابعی) حضرت عطا بن ابی رباح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ رضی ﷲ عنہم کے معاملے میں مجھے یاد رکھا (یعنی میرا لحاظ کیا) تو قیامت کے دن میں اسے یاد رکھوں گا اور جس نے میرے صحابہ رضی ﷲ عنہم کو گالی دی تو اس پر خدا کی لعنت ہو ۔ (اخرجه أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 54، الرقم : 10،چشتی)


عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي ﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِيْنَ يَسُبُّوْنَ أَصْحَابِي، فَقُوْلُوْا : لَعْنَةُ ﷲِ عَلٰی شَرِّکُمْ. وفي رواية : فَالْعَنُوْهُمْ ۔
ترجمہ : حضرت عبد ﷲ بن عمر رضی ﷲ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہتے ہیں تو تم کہو : تم پر اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر کی وجہ سے . ایک روایت میں ہے : انہیں لعنت (و ملامت) کرو ۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب ما جاء في فضل من رای النّبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 697، الرقم : 3866، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 397، الرقم : 606، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 190.191، الرقم : 8366)

وفي رواية : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِي ، فَإِنَّهُ يَجِيءُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ يَسُبُّوْنَ أَصْحَابِي ، فَإِنْ مَرِضُوْا فَـلَا تَعُوْدُوْهُمْ ، وَإِنْ مَاتُوْا فَـلَا تَشْهَدُوْهُمْ ، وَلَا تُنَاکِحُوْهُمْ، وَلَا تُوَارِثُوْهُمْ ، وَلَا تُسَلِّمُوْا عَلَيْهِمْ، وَلَا تُصَلُّوْا عَلَيْهِمْ ۔
ترجمہ : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی مت دو یقینا آخری زمانہ میں ایک ایسی قوم آئے گی جو میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہے گی. سو (یہ لوگ) اگر بیمار پڑ جائیں تو ان کی عیادت نہ کرنا اور اگر مر جائیں تو ان کی نمازِ جنازہ میں شریک مت ہونا، اور ان سے نکاح (وغیرہ کے معاملات) مت کرو، اور انہیں وارث مت بنانا، اور انہیں سلام مت کرنا، اور ان کے لیے دعا (مغفرت) بھی مت کرنا ۔ (أخرجه الخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 8 / 143، الرقم : 4240، والمزي في تهذيب الکمال، 6 / 499، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 14 / 344، وابن الخلال في السنة، 2 / 483، الرقم : 769،چشتی)


بانی منہاج القرآن اور شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کی خطاء اجتہادی تھی اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہونے کے ناطے ان پر ملامت ،طعن یا تنقید کرناحرام ہے اور ان کے معاملے میں خاموشی سکوت واجب ہے ۔ (اسلامن دین امن و رحمت صفحہ 432)

مجتہد کی غلطی پر بھی اجر ہے ڈاکٹر محمد طاہر القادری

بانی منہاج القرآن اور شیخ الاسلام منہاج القرآن جناب ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب لکھتے ہیں : یہ صرف مجتہد کی شان کہ اجتہاد صحیح تھا مگر نتیجہ غلط نکلا تو اس کےلیئے بھی اجر ہے ۔ (اقسام بدعت احادیث واقوال ائمہ کی روشنی میں صفحہ 92)
مجتہد اگر غلطی کر بیٹھے تو اس کےلیئے اجر ہے کیونکہ مومنِ مجتہد کا ہر فیصلہ ہر صورت باعث اجر ہے ۔ (اقسام بدعت احادیث و اقوال ائمہ کی روشنی میں صفحہ 93)

مفتی منہاج القرآن مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی صاحب لکھتے ہیں : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عظیم المرتبت صحابی، کاتب اور ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی ہیں۔ قرآنِ مجید صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑنے والے گرد و غبار کی قسمیں کھاتا ہے : وَالْعٰدِيٰتِ ضَبْحًاo فَالْمُوْرِيٰتِ قَدْحًاo فَالْمُغِيْرٰتِ صُبْحًاo فَاَثَرْنَ بِهِ نَقْعًاo
ترجمہ : (میدانِ جہاد میں) تیز دوڑنے والے گھوڑوں کی قَسم جو ہانپتے ہیں۔ پھر جو پتھروں پر سم مار کر چنگاریاں نکالتے ہیں۔ پھر جو صبح ہوتے ہی (دشمن پر) اچانک حملہ کر ڈالتے ہیں۔ پھر وہ اس (حملے والی) جگہ سے گرد و غبار اڑاتے ہیں۔ (العاديت، 100: 4)(آن لائن فتویٰ سوال نمبر 3990)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ :

فرق مراتب بے شمار
اور حق بدست حیدر کرار

مگر معاویہ بھی ہمارے سردار
طعن ان پر بھی کارِ فجار

جو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں عیاذ باﷲ حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کے سبقت و اوّلیت و عظمت واکملیت سے آنکھ پھیر لے وہ ناصبی یزیدی اور جو حضرت علی اسد ﷲ رضی اللہ عنہ کی محبت میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی صحابیت و نسبت بارگاہ حضرت رسالت بھلا دے وہ شیعی زیدی یہی روش آداب بحمد ﷲ تعالٰی ہم اہل توسط و اعتدال کو ہر جگہ ملحوظ رہتی ہے ـ (فتاویٰ رضویہ، جلد10، صفحہ199، مطبوعہ رضا فاؤبڈیشن لاھور،چشتی)

اعلیٰ حضرت امام اہلسنّت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ فرما رہے ہیں کہ مولا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان مرتبہ کا فرق شمار سے باھر ہے ۔ اگر کوئی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت میں حضرت امام المسلمین مولا علی مشکل کُشاء رضی اللہ عنہ کی شان و عظمت کو گرائے وہ ناصبی یزیدی ہے ۔ اور جو مولا علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ کی محبت کی آڑ میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں تنقیص کرے وہ زیدی شیعہ ہے ۔ الحمد لله ہمارا اھلسنت کا مسلک مسلکِ اعتدال ہے جو ہر صاحبِ فضل کو بغیر کسی دوسرے کی تنقیص و توھین کے مانتا ہے ۔ آج کے جاھلوں نے محبتِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کیلئے بُغضِ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ شرط بنا لیا ہے ۔

آخر میں منہاج قرآن سے وابسطہ وہ حضرات جو رافضیوں کے گندے میں لتھڑ کر صحابی رسول حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں بغض رکھتے اور لعن طعن کرتے ہیں انہیں دعوت فکر دیتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی ہمیں آل و اصحاب کی محبت میں مودت عطا فرمائے آمین ۔ (دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)



Sunday, 28 April 2019

جس کو بھی فیض و ہدایت پہنچی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذریعے پہنچی


جس کو بھی فیض و ہدایت پہنچی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذریعے پہنچی
محترم قارئین : حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی وہ ذات گرامی ہیں جو بہت سے کمال وخوبیوں کے جامع ہے ۔ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ شیر خدا ہیں ، داماد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ، صاحب ذوالفقار ہیں ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں سخاوت ، شجاعت ، عبادت ، ریاضت ، فصاحت ، بلاغت ، اور میدان خطابت کے شہسوار ہیں حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ میں جہاں یہ تمام خوبیاں ہیں وہیں آپ ہر ایک میں ممتاز ویگانۂ روزگا ہیں شیر خدا مشکل رضی اللہ تعالی عنہ ۔

مرتضٰی شیرِ حق اشجع الاشجعین
بابِ فضل و ولایت پہ لاکھوں سلام

شیرِ شمشیر زن شاہِ خیبر شکن
پَر توِ دستِ قدرت پہ لاکھوں سلام

حضرت امامِ ربّانی مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوبات شریف فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ تک پہنچانے والے راستوں میں سے ایک راستہ قربِ ولایت سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کے پیشوا سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی جسمانی پیدائش سے پہلے اس مقام کے ملجاء و ماویٰ تھے ۔ جیسا کہ آپ جسمانی پیدائش کے بعد ہیں ۔ ۔ ۔ اور جس کو بھی فیض و ہدایت پہنچی اس راہ سے پہنچی اور ان ہی کے ذریعے سے پہنچی کیونکہ وہ اس راہ کے آخری نکتہ کے قریب ہیں ۔ (مکتوب 123، دفتر سوم ، حصہ دوم صفحہ 1425،چشتی)

ہو چشتی قادری یا نقشبندی سہروردی ہو
ملا سب کو ولایت کا انہی کے ہاتھ سے ٹکڑا

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوب دفتر اول میں فرماتے ہیں : حضرت امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) فرماتے ہیں کہ ’’میں اس لئے آیا ہوں کہ تمہیں آسمانوں کا علم سکھاؤں‘‘۔ جب میں اچھی طرح متوجہ ہوا تو تمام خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان اس مقام کو حضرت امیر (سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ مخصوص پایا ۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوب 251 دفتر اول میں فرماتے ہیں : چونکہ امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ ) ولایت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بوجھ اٹھانے والے ہیں اس لئے اقطاب ، ابدال، اوتاد جو اولیائے عزلت میں سے ہیں ۔  قطب مدار کا سر حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کے قدم کے نیچے ہے ۔ قطب مدار ان ہی کی حمایت و رعایت (نگرانی) سے اپنے ضروری امور کو سرانجام دیتا ہے اور مداریت سے عہدہ برآ ہوتا ہے ۔ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اور امامین رضی اللہ عنہما بھی اس مقام میں حضرت امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) کے ساتھ شریک ہیں ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ برصغیر کے ان اکابر جید علماء ربانیین اور صاحب کمال ہستیوں میں سے ہیں جن کی تمام مسالک (اہل سنت ، اہل حدیث اور دیوبندی) عزت و تکریم کرتے ہیں اور ان کے علم و فضل کے معترف ہیں ۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک روز مقام قرب میں غور کی نگاہ کی گئی تو ہر چند نظر دور دور تک گئی لیکن جہت خاص جو حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں تھی اس سے زائد کسی میں نہ دیکھی گئی اور اس جہت میں کسی دوسرے کی ان پر فضیلت نہیں دکھائی دی۔ آپ اس جہت یعنی مقام قرب کے اعلیٰ مرکز کے اوپر ہیں اور اسی لئے آپ ہی مبداء عرفان ہوئے ہیں ۔ (القول الجلی فی ذکر آثار ولی صفحہ نمبر 522،چشتی)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب الفاس العارفین میں اپنے چچا حضرت ابو الرضا محمد کی روایت درج کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا :آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری بار بچشم حقیقت زیارت ہوئی، میں نے عرض کی : یاسیدی میری خواہش ہے کہ آپ کے طریقہ عالیہ کے فیض یافتہ کسی مردِ حق سے بیعت کروں تاکہ ان سے حقائق کی تفصیل پوچھ سکوں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حاصل ہوئے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تیری بیعت امیرالمومنین علی کرم اللہ وجہہ سے ہوگی ۔ کچھ دنوں بعد دیکھا کہ گویا کسی راستے پر جارہا ہوں ۔ آس پاس کوئی شخص نظر نہیں آرہا۔ لیکن راستے پر گذرنے والوں کے نقوش موجود ہیں۔ تھوڑی دور راستے کے درمیان ایک شخص کو بیٹھا ہوا دیکھا۔ میں نے اس سے راستہ پوچھا، اس نے ہاتھ کے اشارہ سے کہا ادھر آؤ۔ اس سے مجھے انشراحِ قلب حاصل ہوا۔ انہوں نے فرمایا : اے سست رفتار، میں علی ہوں اور مجھے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں ان کی بارگاہ میں لے چلوں۔ میں ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا یہاں تک کہ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں دے کر کہا : يا رسول الله هذا يدی الرضا محمد یہ سن کر حضور نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیعت لی ۔ اس موقع پر میرے دل میں ایک بات کھٹکی ، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر مطلع ہو کر فرمایا کہ میں اسی طرح اولیاء اللہ کے حق میں وسیلہ بیعت رہتا ہوں ورنہ اصل میں تمام سلاسل کی بیعتوں کا مرکز اور مرجع حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دست مبارک ہوتا ہے۔ اس کے بعد آپ نے مجھے اشغال اور اذکار کی تلقین فرمائی اور علوم و اسرار سے نوازا ۔ حقیقت یہ ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی ذات اقدس تمام علوم ظاہری و باطنی کا محزن ہے۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ کی اس شان سے آگاہ اور معترف تھے اور شیخین کریمین مختلف مواقع پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے تبحر علمی اور اصابت رائے سے استفادہ بھی کرتے رہتے تھے۔ اس سلسلے میں کتب مناقب میں بڑے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات منقول ہیں ۔ (طالبِ دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Friday, 26 April 2019

حدیث انا مدينۃ العلم و علي بابھا پرناصبیوں اور خارجیوں کے اعتراض کا جواب

حدیث انا مدينۃ العلم و علي بابھا پرناصبیوں اور خارجیوں کے اعتراض کا جواب

وہ بابِ علم فاتحِ بدر و حنین ہے
ہر قلبِ مطمئنہ کی ٹھندک ہے چین ہے

محترم قارئین : حدیث مبارکہ انا مدينۃ العلم و علي بابھا فمن اراد العلم فلياته من بابه پر فقیر نے بعض جگہوں پر ناصبیوں اور خارجیوں کے اعتراضات دیکھے سَرِ دست فقیر کو مختصر وقت میں جتنا مواد میسر آیا ناصبیوں اور خارجیوں کے اعتراض کے جواب میں پیشِ خدمت ہے مزید کام جاری ہے ان شاء اللہ جلد پیش کیا جائے گا آیئے تحقیقی جواب پڑھتے ہیں يه حديث متعدد صحابه كرام رضی اللہ عنہم سے مروي هے جس كي تفصيل حسب ذيل هے :


(1) حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما كي روايت : حدثنا ابو الصلت عبد السلام بن صلاح الھروي حدثنا ابو معاويه الضرير عن الاعمش عن مجاهد عن عبد الله بن عباس رضي الله عنه قال قال رسول الله صله الله عليه وسلم انا مدينۃ العلم و علي بابھا فمن اراد العلم فلياته من بابه ۔
ترجمہ : 
ابو ا لصلت از ابو معاويه از اعمش از مجاهد از عبد الله بن عباس رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا ، ميں علم كا شهر هوں، اور علي اس كا دروازه، جو علم چاهے وه دروازه سے آئے ۔ ﴿معجم كبير طبراني،ج:11،ص:66 مستدرك حاكم، ج:3، ص:126 اتحاف الساده زبيدي، ج:6،ص:244 اسرار مرفوعه ملا علي قاري، ص:118 مجمع الزوائد هيثمي، ج:9، ص:114﴾


(2) حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہما كي روايت : عن احمد بن عبد الله الحراني عن عبد الرزاق حدثنا سفيان الثوري عن عبد الله بن عثمان بن خثيم عن عبد الرحمٰن بن بھمان التيمي سمعت جابر بن عبد الله رضي الله عنه سمعت رسول الله صلي الله عليه وسلم يوم الحديبيۃ وھو آخذ بيد علي، ھذا امير البررۃ قاتل الفجرۃ منصور من نصر مخذول من خذله ثم مدبھا صوته انا مدينۃ العلم و علي بابھا فمن اراد العلم فليات الباب ۔
ترجمہ : 
احمد حراني از عبد الرزاق از سفيان ثوري از عبد الله از عبد الرحمن حضرت جابر رضي الله عنه نے كها ميں نے سنا رسول الله صلي الله عليه وسلم نے حديبيه كے دن حضرت علي كا هاتھ پكڑ كر ارشاد فرمايا، يه اچھوں كے امير، كافروں كو قتل كرنے والے هيں وه منصور هيں جس نے مدد كي وه رسوا هے جس نے انھيں شرمنده كيا ، پھر آپ نے به آواز بلند فرمايا: ميں علم كا شهر هوں اور علي اس كا دروازه تو طالب علم كو دروازے پر آنا چاهيے ۔ ﴿المجروحين للحبان، ج:اول، ص:152-53 الكامل لابن عدي، ج:اول، ص:192 تاريخ بغداد للخطيب، ج:2، ص:377 و ج:4، ص:218 موضوعات ابن جوزي ج:1،ص:353،چشتی)


(3) حضرت انس بن مالك رضی اللہ عنہ كي روايت : قال محمد بن جعفر الشاشي نا ابو صالح احمد بن مزيد نا منصور بن سليمان اليمامي، نا ابراهيم بن سابق نا عاصم بن علي حدثني ابي عن حميد الطويل عن انس بن مالك رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم انا مدينۃ العلم و علي بابھا و حلقتھا معاويۃ ۔
ترجمہ : 
حضرت انس بن مالك رضي الله عنه سے مروي هے رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا ميں علم كا شهر هوںاور علي اس كا دروازه اور معاويه دروازه كا حلقه هيں ۔ ﴿مسند الفردوس ديلمي،ج:اول، ص:-44 مقاصد حسنه سخاوي، ص:189﴾


(4) حضرت ابو سعيد الخدري رضی اللہ عنہ كي روايت : حدثنا محمد بن البهلول الموالي حدثني محمد بن الحسين حدثني عيسيٰ بن مهران حدثني عبيد الله بن موسيٰ حدثني خالد بن طهمان الخفاف سمعت سعيد بن جنادۃ العوفي يذكر انه سمع زيد بن ارقم يقول انه سمع ابا سعيد الخدري يقول انه سمع النبي صلي الله عليه وسلم يقول علي بن ابي طالب سيد العرب فقيل ليس انت سيد العرب قال انا سيد ولد آدم و علي سيد العرب من احبه و تولاه احبه الله و ھداه و من بغضه و عاداه اصمه الله و اعماه علي حقه كحقي و طاعته كطاعتي غير انه لا نبي بعدي من فارقه فارقني ومن فارقني فارق الله انا مدينۃ الحكمۃ و ھي الجنۃ و علي بابھا ۔

ترجمہ : حضرت ابو سعيد خدري رضي الله عنه نے فرمايا كه رسول الله صلي الله عليه وسلم كو فرماتے هوئے سنا كه علي ابن ابي طالب سيد العرب هيں ۔ كها گيا، يا رسول الله كيا آپ سيد العرب نهيں هيں ؟ فرمايا ميں اولادِ آدم كا سردار هوں اور علي عربوں كے سردار هيں ، جو علي سے محبت و پيار كرے ، الله تعاليٰ اسے پسند و محبو ب ركھے اور اسے هدايت دے اور جو علي سے بغض و دشمني ركھے الله اسے گونگا اور اندھا كر دے۔ علي كا حق ميرے حق كي طرح هے ۔ اس كي طاعت ميري طاعت هے سواے اس كے كه ميرے بعد كوئي نبي نهيں ۔ جس نے علي سے جدائي اختيار كي اس نے مجھ سے جدائي كي اور جس نے مجھ سے جدائي اختيار كي وه الله تعاليٰ سے جدا هوا۔ ميں شهرِ حكمت و جنت هوں اور علي اس كا دروازه هيں ۔ ﴿مائۃ منقبۃ،ص:94﴾


(5) حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ كي روايت : انب نا ابو الفرج غيث بن علي الخطيب حدثني ابو الفرج الاسفرائيني بلفظۃ غير مرۃ قال كان ابن المثنيٰ يعظ بدمشق فقام اليه رجل فقال ايھا الشيخ ما تقول في قول النبي صلي الله عليه وسلم انا مدينۃ العلم و علي بابھا فقال فاطرق لحظۃ ثم رفع راسه و قال نعم لا يعرف ھذا الحديث علي التمام الامن كان صدرا في الاسلام انما قال النبي صلي الله عليه وسلم انا مدينۃ العلم و ابو بكر اساسھا و عمر حيطانھا و عثمان سقفھا و علي بابھا ۔
ترجمہ :
 غيث بن علي خطيب نے كها مجھ سے ابو الفرج اسفرائني نے كئي مرتبه بيان كيا كه ابن مثني دمشق ميںوعظ فرما رهے تھے۔ ايك شخص اٹھا اور كها اے شخص رسولِ پاك كے اس قول انا مدينۃ العلم و علي بابھا كے بارے ميں آپ كيا كهتے هيں؟ آپ تھوڑي دير خاموش رهے ، پھر سر اٹھايا اور فرمايا اس حديث كو مكمل طور پر نهيں جانتاهے مگر جو صدر اسلام ميں تھا ، بلا شبهه سركار نے فرمايا ميں شهر علم هوں ، ابو بكر اس كي بنياد ، عمر اس كي ديوار ، عثمان اس كي چھت اور علي اس كا دروازه هيں ۔ ﴿تاريخ دمشق ابن عساكر،ج:9، ص:20 مسند الفردوس ديلمي ج:1،ص: 43-44 مقاصد حسنه سخاوي ،ص:189،چشتی﴾
اس حديث كو امام ديلمي رحمۃ اللہ علیہ نے بلا سند كے حضرت عبد الله بن مسعود رضي الله عنه سے اپني كتاب ميں درج فرمايا هے ليكن امام ابن عساكر رحمۃ اللہ علیہ نے اس كو مذكوره سند كے ساتھ بيان كيا هے ۔


(6) حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ كي روايت : حدثنا اسماعيل بن موسيٰ نا محمد بن عمر الرومي نا شريك عن سلمۃ بن كهيل عن سويد بن غفلۃ عن الصنابجي عن علي رضي الله عنه قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم انا دار الحكمۃ وعلي بابھا ۔
ترجمہ : 
حضرت علي رضي الله عنه نے روايت كي رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا ميں حكمت كا گھر هوں اور علي اس كا دروازه هيں ۔ ﴿سنن ترمذي، ج:2،ص: 214،چشتی)


(1) امام ابن حجر عسقلاني رحمۃ اللہ علیہ نے اس حديث كو موضوع كهنے والوں كا تعاقب كرتے هوئے فرمايا : ھذا الحديث له طرق كثيرۃ في مستدرك الحاكم اقل احوالھا ان يكون للحديث اصل، فلا ينبغي ان يطلق القول عليه بالوضع ۔
ترجمہ : امام حاكم رحمۃ اللہ علیہ كي مستدرك ميں اس حديث كي كثير طرق هيں ۔ كم از كم اس حديث كے ليے اصل موجود هے لهذا اس پر موضوع هونے كا حكم لگانا صحيح نهيں ۔ ﴿اللسان، ج:2،ص:123﴾


(2) امام زكريا انصاري رحمۃ اللہ علیہ نے فرمايا : ان الحديث من قسم الحسن لا يرتقي الي الصحۃ ولا يخط الي الكذب ۔
ترجمہ : 
يه حديث حسن كي قسموں ميں سے هے ، نه تو درجه صحت پر فائز هے ، نه تو كذب تك پهنچي هوئي هے ۔ ﴿اللآ لي المصنوعۃ، ج:1،ص:334﴾


(3) امام سيوطي رحمۃ اللہ علیہ نے فرمايا : ھذا حديث حسن علي الصواب ۔
ترجمہ : 
درست يه هے كه يه حديث حسن هے ۔ ﴿تاريخ الخلفائ،ص:170﴾


(4) امام سخاوي رحمۃ اللہ علیہ نے فرمايا : احسنھا حديث ابن عباس بل هو حسن ٬٬

ترجمہ : اس معنيٰ كي حديثوں ميں ابن عباس كي حديث سب سے اچھي هے بلكه حسن هے ۔ 
﴿مقاصد حسنه سخاوي،ص:189﴾


(5) ناصبیوں اور خارجیوں کے امام قاضي شوكاني نے كها : ھذا الحديث حسن لغيره نظراً لكثرۃ طرقه 
او كما قال ۔
ترجمہ : 
يه حديث كثرت طرق كے سبب حسن لغيره هے ۔ ﴿الفوائد المجموعۃ،ص:349﴾


(6) امام يحييٰ بن معين سے قاسم بن عبد الرحمن انباري نے اس حديث كے بارے ميں پوچھا تو انھوں نے فرمايا : ھذا الحديث صحيح ۔ ﴿تاريخ بغداد، ج:11، ص:48﴾

يه حديث صحيح هے ۔


(7) ناصبیوں اور خارجیوں کے امام شيخ ابن تيميه سے ابن عطاء الله نے ايك مرتبه پوچھا حضرت علي رضي الله عنه كے بارے ميں آپ كي كيا راے هے؟ آپ نے كها : في الحديث الصحيح ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال انا مدينۃ العلم و علي بابھا ٬٬

﴿مناظرات ابن تيميه مع فقهائ عصره، ص:14﴾

صحيح حديث ميں هے كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا، ميں شهرِ علم هوں اور علي بابِ علم هيں۔


(8) امام حاكم نيشاپوري نے اس حديث كو نقل كر كے فرمايا : ھذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه ٬٬ ﴿المستدرك للحاكم، ج:3،ص:126﴾

يه حديث صحيح الاسناد هے ، مگر امام بخاري و مسلم نے اس كي تخريج نهيں كي۔


(9) حافظ صلاح الدين ابو سعيد خليل العلائي دمشقي رحمۃ اللہ علیہ نے فرمايا : اي استحالۃ في ان يقول النبي صلي الله تعاليٰ عليه وسلم مثل ھذا في حق علي رضي الله تعاليٰ عنه ؟ ولم ي ت كل من تكلم في ھذا الحديث وجزم بوضعه بجواب عن ھذه الروايات الصحيحۃ عن ابن معين و مع ذالك فله شاهد رواه الترمذي في جامعه ٬٬ ﴿اللآلي المصنوعۃ، ج:1،ص:333﴾

نبيِ كريم صلي الله عليه و آلہ وسلّم كے حضرت علي رضی اللہ عنہ كے بارے ميں اس طرح قول كرنے ميںكيا استحاله هے اور جن لوگوں نے اس حديث پر كلام كيا اور موضوع كها وه امام ابن معين سے مروي روايات صحيحه كا جواب نه لا سكے۔ اس كے باوجود اس حديث كے ليے شاهد موجود هے جس كو امام ترمذي رحمۃ اللہ علیہ نے اپني جامع ميں روايت كي هے۔


(10) حافظ ابو عبد الله محمد بن يوسف كنجي شافعي متوفي 658ھ رحمۃ اللہ علیہ نے اس حديث كي تخريج اپني كتاب ميں كر كے فرمايا :قلت هذا حديث حسن عال و مع ھذا فقد قال العلمائ من الصحابۃ و التابعين و اهل بيته بتفضيل علي رضي الله عنه و زيادۃ علمه و غزارته وحدۃ فھمه و وفور حكمته و حسن قضاياه و صحۃ فتواه و قد كان ابو بكر و عمر و عثمان وغيرهم من علمائ الصحابۃ يشاورونه في الاحكام ياخذون بقوله في النقض والابرام اعترافا منھم بعلمه ووفور فضله و رجاجۃ عقله و صحۃ حكمه و ليس ھذا الحديث في حقه كثير لان رتبته عند الله و عند رسوله و عند المومنين من عباده اجل و اعلي من ذالك ۔
 ﴿كفايت الطالب، ص:198-202،چشتی)

ميں كهتا هوں يه حديث اعليٰ درجه كي حسن هے اس كے ساتھ علماے صحابه، تابعين اور اهلِ بيت حضرت علي رضی اللہ عنہم كي افضليت، ان كے علم كي زيادت و جامعيت ، فهم كي حدت، وفورِ حكمت، فيصله حسن، فتويٰ كي صحت كے قائل هيں۔ حضرت ابو بكر ، عمر، عثمان غني وغيرهم علما ے صحابه احكام ميں آپ سے مشوره كرتے تھے ۔ نقض و ابرام ميں آپ كا قول قبول كرتے تھے ۔ آپ كے علم، وفورفضل و عقل اور حكم كي صحت كے معترف تھے اور يه حديث ان كے حق ميں صداقت سے متجاوز نهيں هے اس ليے كه ان كا رتبه الله و رسول اور جمله مومنين كے نزديك دوسرے بندوں سے بزرگ و اعليٰ هے۔


(11) شيخ بدر الدين زركشي مصري شافعي متوفي 794ھ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمايا : الحديث ينتهي الي درجۃ الحسن لمحتج به ولا يكون ضعيفا فضلا عن ان يكون موضوعاً ۔ ﴿فيض القدير، ج:3،ص:47﴾

يه حديث قابلِ احتجاج حسن كے درجے كو پهنچي هے اور ضعيف نهيں هے ، چه جائے كه موضوع هے ۔


(12) شيخ جمال الدين محمد طاهر هندي رحمۃ اللہ علیہ متوفي986ھ نے فرمايا : فمن حكم بكذبه فقد اخط ۔ ﴿كتاب الموضوعات﴾

جس نے اس حديث كو موضوع كها، اس نے خطا كي۔


(13) شيخ محمد بن حجر هيثمي مكي متوفي 974ھ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمايا : ھو حديث حسن بل قال الحاكم صحيح ٬٬ ﴿فتاويٰ حديثيه،ص:197﴾

يه حديث حسن هے بلكه حاكم نے اسے صحيح كها هے۔


(14) علامه عبد الرو ف مناوي رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : انا مدينۃ العلم و علي بابھا فمن اراد العلم فليات الباب۔ فان المصطفي صلي الله عليه وسلم المدينۃ الجامعۃ لمعاني الديانات كلھا ولا بد للمدينۃ من باب فاخبر ان بابھا ھو علي كرم الله وجهه فمن اخذ طريقه دخل المدينۃ و من اخطاه اخط طريق الهديٰ و قد شهد له بالاعلميه الموافق و المخالف و المعادي و المحالف خرج الكلا باذي ان رجلا س ل معاويۃ عن مس لۃ فقال سل عليا ھو اعلم منّي فقال اريد جوابك قال ويحك كرھت رجلا كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يفره بالعلم عزا و قد كان اكابر الصحب يعترفون له بذالك و كان عمر يس له عما اشكل عليه جائ ه رجل فساله فقال ھنا علي فساله فقال اريد اسمع منك يا امير المومنين قال قم لا اقام الله رجليك و محي اسمه من الديوان و صح عنه من طرق ۔ 
﴿فيض القدير شرح جامع صغير ، ج:3،ص:46-47،چشتی)

ميں شهرِ علم هوں اورعلي اس كا دروازه ،تو جو علم چاهے دروازه تك آئے۔ حضرت مصطفي صلي الله عليه وسلم تمام معانيِ دينيات كے ليے شهرِ جامع هيں اور هر شهر كے ليے دروازه دركار ، تو خبر ديا كه علي اس كا دروازه هيں ، تو جس نے اس راه كو پكڑا ، شهر ميں داخل هوا اور جس نے ترك كيا اس نے راهِ هدايت ميں خطا كي اور حضرت علي كے اعلم هونے كي شهادت موافق، مخالف ، معادي، محالف، سب نے دي۔ كلا باذي نے تخريج كي كه ايك آدمي نے حضرت معاويه سے ايك مسئله پوچھا آپ نے كها علي سے دريافت كر لو ، وه مجھ سے زياده جاننے والے هيں ۔ اس نے كها، ميں آپ كا جواب چاهتا هوں ۔ فرمايا افسوس تجھ پر تم ايسے شخص كو ناپسند كرتے هو جس كے علم و فضل كي تعريف سركارِ دوعالم صلي الله عليه وسلم نے فرمائي اور اكابر صحابه جن كے علم كا اعتراف كرتے هيں اور حضرت عمر رضي الله عنه مشكل مسائل ميں آپ كي طرف رجوع فرماتے تھے ۔ حكومت كے ايك ملازم نے حضرت عمر سے ايك مسئله پوچھا تو آپ نے فرمايا، وهاں علي هيں، ان سے پوچھ لو ۔ اس نے كها ، اے امير المومنين ميں آپ سے سننا چاهتا هوں ۔ فرمايا، يهاں سے اٹھو، الله تعاليٰ تجھے پاے استقلال نه دے اور اپنے رجسٹر سے اس كا نام خارج كر ديا۔


محترم قارئین : ائمه فن كے مختلف اقوال كي روشني ميں معلوم هوا كه زيرِ بحث حديث نه تو تمام علما كے نزديك موضوع و باطل هے اور نه هي سب كے نزديك حسن و صحيح بلكه اختلاف هے ۔ هاں اكثر محققين كے نزديك موضوع و باطل نهيں هے اور يهي حق و درست هے ۔

جن لوگوں نے اس حديث كي سندوں پر كلام كيا اور بعض راويوں كو كذاب ، متروك اور منكر كها تو اس كا تقاضا صرف اتنا هے كه يه سند ضعيف يا موضوع هے نه كه نفسِ عبارت موضوع هے كيوں كه نفسِ عبارت كے موضوع هونے كي جو علامتيں و شرائط بيان كي جاتي هيں يه حديث ان سے بالكل پاك و صاف هے ۔ تو پھر عبارت پر موضوع هونے كا حكم كيسے لگ سكتا هے ۔ نيز اگر يه حديث صحيح نه بھي هواور اسے ضعيف هي تسليم كيا جائے ، جب بھي كوئي حرج نهيں كيوں كه يه بابِ فضائل سے هے اور معلوم هے كه فضائل كے باب ميں عند المحدثین احاديث ضعاف قابلِ قبول هيں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Thursday, 25 April 2019

حضرت امیر معاویہ پر شراب پینے کے الزام کا جواب

حضرت امیر معاویہ پر شراب پینے کے الزام کا جواب

محترم قارئین : رافضیوں اور منہاج القرآن والوں کی طرف سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر شراب پینے کا الزام لگایا جاتا ہے جس کا جواب ہم پہلے تفصیل سے دے چکے ہیں اس وقت منہاج القرآن چک چھٹہ والوں کی طرف سے لگائے گئے اس الزام کا جواب پیش کر رہے ہیں منہاج القرآن والوں کا سکرین شارٹ ساتھ دیا جا رہا ہے تاکہ مسلمانان اہلسنّت سنیوں کے لبادے میں چھپے رافضیوں کو پہچان سکیں :

رافضیوں اور منہاج القرآن والوں اعتراض : معاویه شرابی تھا اور صحابہ کو بھی اپنے ساتھ پلانا چاہتا تھا احمد نے اپنی مسند میں با سند صحیح روایت کیا ہے
ﻣﺴﻨﺪ ﺃﺣﻤﺪ - ﺑﺎﻗﻲ ﻣﺴﻨﺪ ﺍﻷﻧﺼﺎﺭ - ﺣﺪﻳﺚ ﺑﺮﻳﺪﺓ ﺍﻷﺳﻠﻤﻲ ( ﺭ )
22432 - ﺣﺪﺛﻨﺎ : ﺯﻳﺪ ﺑﻦ ﺍﻟﺤﺒﺎﺏ ، ﺣﺪﺛﻨﻲ : ﺣﺴﻴﻦ ، ﺣﺪﺛﻨﺎ : ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﺓ ﻗﺎﻝ : ﺩﺧﻠﺖ ﺃﻧﺎ ﻭﺃﺑﻲ ﻋﻠﻰ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻓﺄﺟﻠﺴﻨﺎ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﻔﺮﺵ ﺛﻢ ﺃﺗﻴﻨﺎ ﺑﺎﻟﻄﻌﺎﻡ ﻓﺄﻛﻠﻨﺎ ، ﺛﻢ ﺃﺗﻴﻨﺎ ﺑﺎﻟﺸﺮﺍﺏ ﻓﺸﺮﺏ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ، ﺛﻢ ﻧﺎﻭﻝ ﺃﺑﻲ ، ﺛﻢ ﻗﺎﻝ : ﻣﺎ ﺷﺮﺑﺘﻪ ﻣﻨﺬ ﺣﺮﻣﻪ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﻪ ( ﺹ ) ، ﻗﺎﻝ : ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻛﻨﺖ ﺃﺟﻤﻞ ﺷﺒﺎﺏ ﻗﺮﻳﺶ ﻭﺃﺟﻮﺩﻩ ﺛﻐﺮﺍً ﻭﻣﺎ ﺷﻲﺀ ﻛﻨﺖ ﺃﺟﺪ ﻟﻪ ﻟﺬﺓ ﻛﻤﺎ ﻛﻨﺖ ﺃﺟﺪﻩ ﻭﺃﻧﺎ ﺷﺎﺏ ﻏﻴﺮ ﺍﻟﻠﺒﻦ ﺃﻭﺇﻧﺴﺎﻥ ﺣﺴﻦ ﺍﻟﺤﺪﻳﺚ ﻳﺤﺪﺛﻨﻲ .

پیش خدمت ہے اس جھوٹے الزام کا جواب
سب سے پہلے یہ روایت مع تخریج ملاحظہ ہو : حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى مُعَاوِيَةَ فَأَجْلَسَنَا عَلَى الْفُرُشِ، ثُمَّ أُتِينَا بِالطَّعَامِ فَأَكَلْنَا، ثُمَّ " أُتِينَا بِالشَّرَابِ فَشَرِبَ مُعَاوِيَةُ، ثُمَّ نَاوَلَ أَبِي، ثُمَّ قَالَ: مَا شَرِبْتُهُ مُنْذُ حَرَّمَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " ثُمَّ قَالَ مُعَاوِيَةُ: كُنْتُ أَجْمَلَ شَبَابِ قُرَيْشٍ وَأَجْوَدَهُ ثَغْرًا، وَمَا شَيْءٌ كُنْتُ أَجِدُ لَهُ لَذَّةً كَمَا كُنْتُ أَجِدُهُ وَأَنَا شَابٌّ غَيْرُ اللَّبَنِ، أَوْ إِنْسَانٍ حَسَنِ الْحَدِيثِ يُحَدِّثُنِي ۔ (مسند أحمد ط الرسالة 38/ 26 واخرجہ ایضا أبو زرعة الدمشقي في تاريخه١/ ١٠٢، وعنہ ابن عساكر٢٧/١٢٧من طريق احمدبہ)
ترجمہ : صحابی رسول عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اورمیرے والد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں بسترپربٹھایا ، پھر ہمارے سامنے کھانا حاضر کیا جسے ہم نے کھایا ، پھرمشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا اورپھر میرے والد کو پیش کیا ، اوراس کے بعد کہا : میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں قریش کے نوجوانوں میں سب سے خوبصورت تھا اورسب سے عمدہ دانتوں والا تھا ، جوانی میں مجھے دودھ یا اچھی باتیں کرنے والے انسان کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں‌ لذت نہیں محسوس ہوتی تھی ۔

محترم قارئین : مذکورہ روایت ان الفاظ کے ساتھ منکر وضعیف ہے کیونکہ اس کے راوی زیدبن حباب صدوق و حسن الحدیث ہونے کے ساتھ ساتھ صاحب اوہام واخطاء تھے جیسا کہ متعدد محدثین نے صراحت کی ہے ، مثلا امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : كَانَ رجل صَالح مَا نفذ فِي الحَدِيث إِلَّا بالصلاح لِأَنَّهُ كَانَ كثير الْخَطَأ قلت لَهُ من هُوَ قَالَ زيد بن الْحباب[العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله 2/ 96]۔

امام أبوداؤد رحمه الله (المتوفى275)نقل کرتے ہیں : سمعت أحمد قال زيد بن الحباب كان صدوقا وكان يضبط الألفاظ عن معاوية بن صالح ولكن كان كثير الخطأ [سؤالات أبي داود لأحمد ص: 319]۔

معلوم ہوا کہ زیدبن حباب کے صدوق وحسن الحدیث ہونے کے باوجود بھی ان سے اوہام و اخطاء کا صدور ہوتا تھا ، لہذا عام حالات میں ان کی مرویات حسن ہوں گی لیکن اگرکسی خاص روایت کے بارے میں محدثین کی صراحت یا قرائن وشواہد مل جائیں کہ یہاں موصوف سے چوک ہوئی ہے تو وہ خاص روایت ضعیف ہوگی ۔
اورمذکورہ روایت کا بھی یہی حال ہے کیونکہ زید بن حباب نے ابن ابی شیبہ سے اسی روایت کو اس طرح بیان کیا ہے :
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى 235)نے کہا : حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ قَالَ: قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَأَجْلَسَ أَبِي عَلَى السَّرِيرِ وَأَتَى بِالطَّعَامِ فَأَطْعَمَنَا، وَأَتَى بِشَرَابٍ فَشَرِبَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: «مَا شَيْءٌ كُنْتُ أَسْتَلِذُّهُ وَأَنَا شَابٌّ فَآخُذُهُ الْيَوْمَ إِلَّا اللَّبَنَ، فَإِنِّي آخُذُهُ كَمَا كُنْتُ آخُذُهُ قَبْلَ الْيَوْمِ وَالْحَدِيثُ الْحَسَنُ ۔ [مصنف ابن أبي شيبة: 6/ 188]
ترجمہ : صحابی رسول عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اورمیرے والد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں چارپائی پربٹھایا ، پھرہمارے سامنے کھانا لائے جسے ہم نے کھایا ، پھرمشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا ، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جوانی میں مجھے دودھ یا اچھی باتوں کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں‌ لذت نہیں محسوس ہوتی تھی،اورآج بھی میرا یہی حال ہے ۔

غورکریں یہ روایت بھی ’’زید بن حباب ‘‘ ہی کی بیان کردہ ہے لیکن اس میں وہ منکرجملہ قطعا نہیں ہے جو امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے ، معلوم ہوا کہ زیدبن حباب نے کبھی اس روایت کو صحیح طورسے بیان کیا ہے جیسا کہ ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے ، اورکبھی ان سے چوک ہوگئی ہے جیساکہ مسند احمد کی روایت میں ہے ۔ اورچونکہ مسنداحمد کی روایت میں ایک بے جوڑ اوربے موقع ومحل جملہ ہے اس لئے یہی روایت منکرقرار پائے گی ۔

چنانچہ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی جب اس روایت کومجمع الزوائدمیں درج کیا تو منکرجملہ کو چھوڑدیا، امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے لکھا:عن عبد الله بن بريدة قال: دخلت مع أبي على معاوية فأجلسنا على الفراش ثم أتينا بالطعام فأكلنا ثم أتينا بالشراب فشرب معاوية ثم ناول أبي ثم قال معاوية: كنت أجمل شباب قريش وأجوده ثغراً وما من شيء أجد له لذة كما كنت أجده وأنا شاب غير اللبن وإنسان حسن الحديث يحدثني.رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح وفي كلام معاوية شيء تركته، [مجمع الزوائد للهيثمي: 5/ 55]۔
فائدہ:اس روایت کی تخریج کرنے والے امام احمدرحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو منکرقراردیاہے،چنانچہ:امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:حسين بن واقد , له أشياء مناكير. [سؤالات المیمونی:444،چشتی]۔
ایک اورموقع پرکہا:ما أنكر حديث حسين بن واقد وأبي المنيب عن بن بريدة [العلل ومعرفة الرجال 1/ 301]۔
نیز فرمایا:عبد الله بن بريدة الذي روى عنه حسين بن واقد ما أنكرها وأبو المنيب أيضا يقولون كأنها من قبل هؤلاء [العلل ومعرفة الرجال 2/ 22]۔

عرض ہے کہ حسین بن واقد ثقہ راوی ہیں اوران کی مذکورہ روایت ابن ابی شیبہ کے یہاں جن الفاظ میں ہے اس میں کوئی نکارت نہیں ہے لہٰذا وہ روایت صحیح ہے جب کہ مسند احمد کی زیربحث روایت ضعیف ہے کیونکہ اسے امام احمدنے روایت کیا ہے اورآپ نے حسین بن واقد کی مرویات کو منکرقراردیاہے۔

ہمارے نزدیک راجح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ زیربحث روایت میں نکارت کا ذمہ دار حسین بن واقد نہیں بلکہ زید بن الحباب ہے کمامضٰی۔

متن روایت کا مفہوم

اس حدیث کے منکر و ضعیف ہونے کے باوجود بھی گرچہ اس میں ایک بے جوڑ اور بے موقع و محل جملہ ہے، پھربھی اس جملہ سے امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا شراب پینا قطعا ثابت نہیں ہوتا ۔ واضح رہے کہ معترضین نے زیربحث روایت کا جو ترجمہ پیش کرتے ہیں وہ قطعا درست نہیں ، اس میں درج ذیل غلطیاں ہیں :

پہلی غلطی : متن حدیث میں مذکور ’’شراب‘‘ کا ترجمہ اردو والے شراب سے کرنا غلط ہے کیونکہ اردو میں جسے شراب کہتے ہیں اس کے لئے عربی میں ’’خمر‘‘ کالفظ استعمال ہوتا ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ ’’شراب‘‘ کا ترجمہ ’’مشروب‘‘ سے کیا جائے یعنی پینے کی کوئی چیز۔

دوسری غلطی : متن کا یہ جملہ ’’جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے، میں نے اسے نہیں پیا‘‘ صحابی رسول بریدہ رضی اللہ عنہ کا مقولہ نہیں ہے جیساکہ سائل کے پیش کردہ ترجمہ میں ہے بلکہ یہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کا مقولہ ہے جیساکہ سیاق سے صاف ظاہر ہے ۔

ان دونوں غلطیوں کی اصلاح کے بعد حدیث مذکور کا صحیح ترجمہ اس طرح ہوگا : صحابی رسول عبد اللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اورمیرے والد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں بسترپربٹھایا ، پھرہمارے سامنے کھاناحاضرکیا جسے ہم نے کھایا ، پھرمشروب لائے جسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا اورپھر میرے والد کو پیش کیا ، اوراس کے بعد کہا : میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ، اس کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں قریش کے نوجوانوں میں سب سے خوبصورت تھا اورسب سے عمدہ دانتوں والا تھا ، جوانی میں مجھے دودھ یا اچھی باتیں کرنے والے انسان کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی اور چیز میں‌ لذت نہیں محسوس ہوتی تھی ۔

مشروب یعنی پینے والی چیز کیا تھی ؟

مذکورہ روایت میں ’’شراب‘‘ سے مراد کوئی حلال مشروب یعنی پینے والی چیز تھی اس سے اردو والا شراب یعنی ’’خمر‘‘ مراد لینا کسی بھی صورت میں درست نہیں ، نہ سیاق وسباق کے لحاظ سے اس کی گنجائش ہے اورنہ ہی امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ سے اس کی امید ہے ۔
بلکہ اردو والا شراب یعنی ’’خمر‘‘ مراد لینے سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ بریدہ رضی اللہ عنہ پربھی حرف آتاہے کہ انہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہا تھوں ایسے مشروب کو کیوں لیا جو حرام تھا ، بلکہ ایسے دسترخوان پر بیٹھنا بھی کیونکرگوارا کیا جس پرشراب (خمر) کا دور چلتاہو، کیونکہ ایسے دسترخوان پربیٹھنا کسی عام مسلمان کے شایان شان نہیں چہ جائے کہ ایک صحابی اسے گوارکریں ۔
مزیدیہ کہ ایسے دسترخوان پربیٹھنے کی ممانعت بھی واردہوئی ہے اس سلسلے کی مرفوع حدیث (ترمذی2801 وغیرہ) گرچہ ضعیف ہے لیکن خلیفہ دوم عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے موقوفا یہ ممانعت بسندصحیح منقول ہے ، چنانچہ :
امام عبد الرزاق رحمه الله (المتوفى211 ) نے کہا : أخبرنا معمر عن زيد بن رفيع عن حرام بن معاوية قال كتب إلينا عمر بن الخطاب لا يجاورنكم خنزير ولا يرفع فيكم صليب ولا تأكلوا على مائدة يشرب عليها الخمر وأدبوا الخيل وامشوا بين الغرضين ۔ [مصنف عبد الرزاق: 6/ 61 واسنادہ صحیح]۔

معلوم ہواکہ مذکورہ روایت میں مشروب سے خمر مراد لینا کسی بھی صورت میں درست نہیں ۔ اسی طرح اس سے نبیذ مراد لینا بھی درست نہیں بہرحال ’’شراب‘‘ُ کاترجمہ نبیذ سے کرنا غلط ہے کیونکہ اول شراب کا معنی نبیذ نہیں ہوتا ، دوم روایت کے سیاق وسباق میں بھی ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ یہ پینے والی چیز نبیذ تھی ۔ بلکہ روایت کے اخیر میں دودھ کا ذکر ہے اورامیرمعایہ رضی اللہ عنہ نے دودھ اپنا پسندیدہ مشروب بتلایا ہے اس سے یہی اشارہ ملتا ہے کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے دودھ ہی پیا تھا یعنی شراب سے مراد دودھ ہی ہے۔
چنانچہ امام ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو نقل کرکے اس پر یہ باب قائم کیا ہے : باب ما جاء في اللبن [مجمع الزوائد للهيثمي: 5/ 55،چشتی]۔

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ وضاحت کیوں کی؟

مذکورہ روایت کی بیچ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی جو یہ وضاحت ہے کی کہ :
میں نے آج تک اسے نہیں پیا جب سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ۔

اس وضاحت میں جس چیز کے پینے کی بات ہورہی ہے وہ خمر یعنی شراب ہی ہوسکتی ہے کیونکہ اسے ہی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قراردیا ہے۔
اور’’ما شربته ‘‘ میں جو ضمیر ہے اس کا مرجع محذوف ہے اور وہ خمر ہے ، اہل عرب کبھی کبھی ضمیر کے مرجع کو حذف کردیتے ہیں ، بلاغت کی اصطلاح میں اسے ’’ الإِضمار في مقام الإِظهار ‘‘ کہتے ہیں یعنی جس ضمیرکا مرجع معلوم ہو اس مرجع کو بعض مقاصد کے تحت حذف کردینا ، اورمعاویہ رضی اللہ عنہ نے یہاں ضمیرکے مرجع خمرکو حذف کیا ہے ، اورمقصد خمر کی قباحت و شناعت کا بیان ہے یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو خمر سے اتنی نفرت تھی کہ آپ نے اس کانام تک نہیں لیا ۔ اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت اورشراب سے ان کی نفرت ظاہر ہوتی ہے ۔ اورشراب سے نفرت کا اظہار کرکے معاویہ رضی اللہ عنہ نے دودھ کواپنا پسندیدہ مشروب قرار دیا،اس سے بھی معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ بلکہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ بھی وضاحت کہ قبل ازاسلام بھی ان کے نزدیک دودھ ہی سب سے پسندیدہ مشروب تھا ، اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے شراب کو ہاتھ نہیں لگایا ، بلکہ اس کے بجائے وہ دودھ ہی نوش فرماتے تھے ۔

یاد رہے کہ شبِ معراج میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شراب اور دودھ پیش کیا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کو منتخب کیا ، بخاری کے الفاظ ہیں : ثُمَّ أُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ: فِي أَحَدِهِمَا لَبَنٌ وَفِي الآخَرِ خَمْرٌ، فَقَالَ: اشْرَبْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ، فَقِيلَ: أَخَذْتَ الفِطْرَةَ أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ [بخاری رقم 3394].
معلوم ہواکہ دودھ کو پسند کرنے میں معاویہ رضی اللہ عنہ فطرت پر تھے یہ چیز بھی ان کے فضائل میں سے ہے ۔
اب سوال یہ ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مذکورہ وضاحت کیوں کی ؟؟؟
تو عرض ہے کہ مذکورہ روایت میں اس کا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے اسی لئے ہم نے شروع میں کہا کہ یہ وضاحت محمود ہونے کے باوجود بھی بے موقع و محل ہے ۔

عربی متن میں یہ بات موجود نہیں ہے کہ سیدنا بریدہ نے یہ کہا تھا : ’’جب سے اس مشروب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے، تب سے میں نے کبھی اسے نوش نہیں کیا ۔‘‘ عربی متن میں صرف یہ موجود ہے کہ ’’اُس‘‘ نے یہ کہا اور یہ ’’اُس‘‘ سے مراد امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ تو حدیث کا صحیح ترجمہ یہ ہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے مشروب پینے کے بعد برتن سیدنا بریدہ کو پکڑاتے ہوئے کہا کہ ’’جب سے اُس مشروب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ، تب سے میں نے کبھی اُسے نوش نہیں کیا ۔‘‘ اور یہاں ’’اس‘‘ سے مراد ’’اُس‘‘ ہے ۔

اب اس حدیث کو سمجھیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر جس برتن سے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے پیا تھا ، اس میں شراب ہوتی تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کبھی یہ نہ کہتے کہ ’’جب سے اُس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا‘‘ کیونکہ شراب کو قرآن مجید نے حرام کیا ہے ، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے شربت کی بعض صورتوں سے منع کیا تھا کہ جسے ’’نبیذ‘‘ کہتے ہیں۔ تو اس حدیث میں مشروب سے مراد ’’نبیذ‘‘ یعنی کھجور کا مشروب ہے کہ جس میں کچھ خمار آ چکا ہو ۔ تو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر ان کے مخالفین نے الزام لگایا تھا ، شراب نوشی کا نہیں ، اتنی جرات نہیں تھی کسی میں ، بلکہ نبیذ پینے کا الزام تھا ۔ اور نبیذ اصلا جائز تھی جیسا کہ آگے روایت آ رہی ہے کہ عرب پانی میں کھجور یا انگور ڈال کر رکھ لیتے تھے تا کہ میٹھا شربت بن جائے لیکن بعض اوقات ایک خاص وقت کے بعد اس مشروب میں سکر یعنی مدہوشی آ جاتی تو اسے پینے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کر دیا تھا ۔

امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جس مشروب کو پیا، وہ دودھ تھا جیسا کہ اسی روایت کے آخر میں دودھ کا لفظوں میں ذکر موجود ہے ۔ اور اسی دودھ کے برتن کو سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھاتے ہوئے یہ بات کہی کہ ’’جب سے اس مشروب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے، تب سے میں نے کبھی اسے نوش نہیں کیا۔‘‘ یعنی اے بریدہ، یہ دیکھ لیں کہ میرے گھر میں میرے دستر خوان پر وہ چیز نہیں پی جاتی کہ جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے اور میرے بارے یہ باتیں درست نہیں ہیں جو بعض لوگ پھیلا رہے ہیں کہ میں مدہوش کر دینے والی نبیذ پیتا ہوں۔ تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ اپنی صفائی میں کہا ہے ۔ یہ جملہ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کا نہیں ہے ۔ اسے بلاغت میں اصطلاحا استطراد کہتے ہیں ۔

روایت کا آخری حصہ بتلاتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ میں تو دور جاہلیت میں بھی دودھ کا شوقین تھا تو اے بریدہ ، اسلام لانے کے بعد نبیذ میرا پسندیدہ مشروب کیسے ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے : فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: «مَا شَيْءٌ كُنْتُ أَسْتَلِذُّهُ وَأَنَا شَابٌّ فَآخُذُهُ الْيَوْمَ إِلَّا اللَّبَنَ، فَإِنِّي آخُذُهُ كَمَا كُنْتُ آخُذُهُ قَبْلَ الْيَوْمِ» [مصنف ابن أبي شيبة (6/ 188)،چشتی]
ترجمہ: امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے جوانی میں بھی دودھ سے زیادہ کچھ پسند نہ تھا اور آج بھی میں، دودھ ہی لے رہا ہوں جیسا کہ آج سے پہلے بھی میں دودھ ہی لیتا تھا ۔ تو مصنف ابن ابی شیبہ کی اس روایت میں اس مشروب کے لیے ’’دودھ‘‘ کے الفاظ واضح طور موجود ہیں۔ تو اتنے واضح الفاظ کے بعد کہ میں آج کے دن دودھ پی رہا ہوں، صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسا طعن کہ وہ شراب پیتے تھے، معاذ اللہ، ثم معاذ اللہ، اور دلیل کیا ہے کہ اس روایت میں ’’شراب‘‘ کا لفظ ہے۔

اور عربی زبان میں شراب کے لیے ’’خمر‘‘ کا لفظ آتا ہے نہ کہ ’’شراب‘‘ کا ۔ اردو میں شراب کے لیے ’’شراب‘‘ کا لفظ ہے۔ عربی میں شراب کسے کہتے ہیں؟ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: "لَقَدْ سَقَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحِي هَذَا الشَّرَابَ كُلَّهُ: الْعَسَلَ وَالنَّبِيذَ، وَالْمَاءَ وَاللَّبَنَ"۔ [صحيح مسلم (3/ 1591)]
ترجمہ : میں نے اپنے اس برتن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی شراب یعنی مشروب پلایا ہے ؛ شہد بھی ، نبیذ بھی، پانی بھی اور دودھ بھی ۔ یہ تو اس روایت کا صحیح مفہوم ہوا ۔ اور جہاں تک اس کی سند کی بات ہے تو اس کی صحت میں بھی اختلاف ہے جیسا کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو ’’منکر‘‘ کہا ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)





حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...