Wednesday, 30 August 2023

مزارات پر گنبد اور پکی قبر بنانے پر نجدیوں کے اعتراض کا مدلّل جواب

مزارات پر گنبد اور پکی قبر بنانے پر نجدیوں کے اعتراض کا مدلّل جواب
محترم قارئینِ کرام : مشائخ کرام اور اولیائے عظام علیہم الرحمہ کے مزارات کے اِرد گِرد یا اس کے قریب کوئی عمارت بنانا جائز ہے ۔ اس کا ثبوت قرآن کریم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و عامۃ المسلمین کے عمل اور علماء کے اقوال سے ہے ۔ قرآن کریم نے اصحاب کہف کا قصہ بیان فرماتے ہوئے کہا ۔ قال الذین غلبو علی امرھم لتخذن علیھم مسجدًا وہ بولے جو اس کام میں غالب رہے کہ ہم تو ان اصحاب کہف پر مسجد بنائیں گے ۔ (پارہ 15 سورہ کہف آیت 21)

تفسیر روح البیان مین اس آیت میں بنیاناً کی تفسیر میں فرمایا ۔ دیوارے کہ از چشم مردم پوشیدہ سومذ یعنی لایعلم احد تربتھم وتکون محفوظتۃ من تطرق الناس کما حفظت تربت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بالحظیرۃ ۔ (تفسیر روح البیان جلد 5 صفحہ 274 ، 275 داراحیاء التراث العربی،چشتی)
ترجمہ :  انہوں نے کہا کہ اصحاب کہف پر ایسی دیوار بناؤ جو ان کی قبر کو گھیرے اور ان کے مزارات لوگوں کے جانے سے محفوظ ہوجائیں ۔ جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر شریف چاردیواری سے گھیر دی گئی ہے ۔ مگر یہ بات نامنظور ہوئی تب مسجد بنائی گئی ۔ مسجداً کی تفسیر روح البیان میں ہے ،،یصلی فیہ المسلمون و یتبرکون بمکانھم،، لوگ اس میں نماز پڑھیں اور ان سے برکت لیں ۔ قرآن کریم نے ان لوگوں کی باتوں کا ذکر فرمایا ایک تو اصحاب کہف کے گرد قبہ و مقبرہ بنانے کا مشورہ کرنا اور دوسرے ان کے قریب مسجد بنانا اور کسی باب کا انکار نہ فرمایا جس سے معلوم ہوا کہ دونوں فعل جب بھی جائز تھے اور اب بھی جائیز ہیں جیسا کہ کتب اصول سے ثابت ہے کہ شرائع قبلنا یلزمنا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت عاٸشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں دفن کیا گیا ۔ اگر یہ ناجائز تھا تو پہلے صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم اس کو گرا دیتے پھر دفن کرتے ۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانہ خلافت میں اس کے گرد کچی اینٹوں کی گول دیوار کھچا دی ۔ پھر ولید ابن عبدالملک کے زمانہ میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں اس عمارت کو نہایت مضبوط بنایا اور اس میں پتھر لگوائے ۔ چنانچہ خلاصۃ الوفا باخبار دارالمصطفیٰ مصنفہ سید سمہودی دسویں فصل ۔ فیما یتعلق بلحجرہ المنیفتہ 196 میں ہے : عن عمر ابن دینار و عبیداللہ ابن ابی زید قالا لم یکن علی عھد النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حائط فکان اول من بنی علیہ جدارا عمر ابن الخطاب۔ قال عبیداللہ ابن ابی زید کان جدار قصیرا ثم بناہ عبداللہ ابن الزبیر الخ وقال الحسن بصری کنت ادخل بیوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وانا غلام مراھق اذا نال السقف بیدی وکان لکل بیت حجرۃ وکانت حجرہ من العکستہ من سعیر مربوطتہ فی حشب عرعرۃ ۔ ترجمہ وہی جو اوپر بیان ہو چکا ۔ (خلاصۃ الوفا باخبار دار المصطفیٰ دسویں فصل فیما یتعلق بالحجرہ المنیفۃ صفحہ 196،چشتی)

بخاری جلد اول کتاب الجنائز اور مشکوۃ باب البکا علی المیت میں ہے کہ حضرت حسن ابن حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا : ضربت امراتہ القبۃ علی قبرہ سنۃ ۔
ترجمہ : تو ان کی بیوی نے ان کی قبر پر ایک سال تک قبہ ڈالے رکھا ۔ (صحیح بخاری کتاب الجنائز باب الجرید علی القبر جلد 1 صفحہ 442 ابن کثیر بیروت و فی نسخہ جلد 1 صفحہ 177 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی)

یہ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں ہوا ان سب کی موجودگی میں ہوا ۔ کسی نے انکار نہ کیا۔ نیز ان کی بیوی ایک سال تک وہاں رہیں ۔ پھر گھر واپس آئیں ۔ جیسا کہ اسی حدیث میں ہے ۔ اس سے بزرگوں کی قبروں پر مجاوروں کا بیٹھنا بھی ثابت ہوتا ہے ۔

روح البیان جلد 3 پارہ از زیر آیت (پارہ 10 سورہ 9 آیت 18) انما یعمر مسجد اللہ من امن باللہ میں ہے : فبناء قباب علی قبور العلماء والاولیاء والصلحاء امر جائز اذان کان القصد بذلک التعظیم فی این العآمۃ حتی لا یحتقروا صاحب ھذا القبر ۔
ترجمہ : علماء اور اولیاء صالحین کی قبروں پر عمارت بنانا جائز کام ہے جبکہ اس سے مقصود ہو لوگوں کی نگاہوں میں عظمت پیدا کرنا تاکہ لوگ اس قبر والے کو حقیر نہ جانیں ۔ (تفسیر روح البیان جلد 3 صفحہ 510 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی،چشتی)

یعنی پارہ 15 سورہ کہف آیت نمبر 21 کی تصدیق میں صحیح حدیث بھی پیش کردی اور سلف کا قول اور عمل بھی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور یعنی خیر القرون سے ثبوت بھی ۔

خوارج اکثر عوام کو ایک حدیث کے ذریعے مغالطے میں مبتلا کرتے ہیں کہ دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فلاں صحابی کو قبروں کو ہموار کرنے کا حکم دیا تھا ۔ یعنی توڑنے کا ۔ تو اس میں دو اہم باتیں ہیں وہ یہ کہ وہ کفار اور مشرکین کی ان قبور کا حکم تھا جو اس زمانے میں مدینہ کی اولین اسلامی ریاست کے حدود میں تھیں اور دوسرا یہ کہ یہ جو تصاویر میں جیسے بت بنائے گئے ہیں اس طرح کی قبور کے بارے میں حکم ہے نا کہ مسلمانوں کے قبرستان کی یا اولیائے کرام علیہم الرحمہ کی قبور پر گنبدوں کا ذکر ۔

تاریخ مدینۃ الدمشق ابن عساکر ، تاریخ ابن خلدون اور تمام تر کتب اسلامی میں باقاعدہ احادیث کے مطابق اور قرآن کی تعلیمات کے مطابق ہی مزارات جو شعارِ اسلام ہیں بنائے گئے ۔ خوارج اپنی گمراہی میں عوام کو دھوکہ دینے پر معافی نہیں مانگتے لیکن کافروں کےلیے نازل کیے گئے احکامات کو مسلمانوں پر لگا کر ان کے قتال کو جائز کرتے ہیں یہی تو ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث کا مفہوم تھا اور ہے ۔

اعتراض کرنے والے امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فتویٰ بیان کرتے ہیں : وَعَنْ اَبِیْ حَنِیْفَۃ یَکْرَہُ اَنْ یُّبْنٰی عَلَیْہِ بِنَا٫مِنْ بَیْتٍ اَوْقُبَّۃٍ وَّنَحْوَ ذَالِکَ لِمَا رَوَی جَابِرٌ نَھِیِ رَسُوْلِ ﷲِ عَنْ تَجْصِیْصِ الْقُبُوْرِ وَاَنْ یُّکْتَبَ عَلَیْھَا وَاَنْ یُّبْنٰی عَلَیْھَا(شامی جلد1 صفحہ 839 مطبوعہ استنبول،چشتی)
ترجمہ : امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر پر کوئی عمارت مثلاً گھر ، قبہ وغیرہ بنانے سے منع کیا ہے کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس کی ممانعت آئی ہے کہ قبر کو پختہ بنایا جائے، اس پر کتبہ لگایا جائے یا اس پر عمارت تعمیر کی جائے ۔ یہ درالمحتار کی عبارت ہے جو کتاب الجنائز سے لی گئی ہے ۔

قبر کو ایک ہاتھ سے اونچا کرنا منع ہے کیونکہ مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے قبر کو پختہ کرنے اور اس پر کچھ بنانے سے منع فرمایا ۔

درمختار کے اسی باب میں ہے وتکرہ الزیادۃ علیہ من التراب لانہ بمنزلۃ البنآء قبر پر مٹی زیادہ ڈالنا منع ہے کیونکہ یہ عمارت بنانے کے درجہ میں ہے  ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قبر پر یہ بنایا یہ ہے کہ قبر دیوار میں آجائے اور گنبد بنانا یہ حول القبر یعنی قبر کے اردگرد بنانا ہے یہ ممنوع نہیں ہے۔ دوسرے یہ حکم عامۃ المسلمین کی قبروں کے لیئے ہے۔ تیسرا جواب یہ کہ اس بنانے کی تفسیر خود دوسری حدیث نے کردی جو کہ مشکوٰۃ باب المساجد میں ہے : اللھم لاتجعل قبری ۔
ترجمہ : اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی پوجا کی جائے اس قوم پر خدا کا سخت غضب ہے جس نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد بنا لیا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح فصل اول صفحہ 72 نور محمد کتب خانہ کراچی)

اس سے معلوم ہوا کہ کسی قبر کو مسجد بنانا اس پر عمارت بنا کر اس کی طرف نماز پڑھنا حرام ہے یہ ہی اس حدیث سے مراد ہے قبروں پر کیا نہ بناؤ مسجد ۔ قبر کو مسجد بنانے کے معنی یہ ہیں کہ اس کی عبادت کی جائے ۔ یا کم از کم اس کو قبلہ بنا کر اس کی طرف سجدہ کیا جائے  ۔

علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فتح الباری میں فرماتے ہیں : بیضاوی نے فرمایا کہ جبکہ یہود و نصاریٰ پیغمبروں کی قبروں کو تعظیماً سجدہ کرتے تھے اور اس کو قبلہ بنا کر اس کی طرف نماز پڑھتے تھے اور ان کقبور کو انہوں نے بت بنا رکھا تھا لہٰذا اس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے لعنت فرمائی اور مسلمانوں کو اس سے منع فرمایا گیا ۔

یہ حدیث اعتراض کرنے والوں کی پیش کردہ حدیث کی تفسیر ہو گئی ۔

معلوم ہوا کہ قبہ بنانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا چوتھے یہ کہ یہ ممانعت حکم شرعی نہیں ہے ۔ بلکہ زہد و تقویٰ کی تعلیم ہے جیسے کہ رہنے کے پختہ مکانات سے بھی روکا گیا ہے بلکہ گرا دیے گئے ۔ پانچواں جواب یہ ہے کہ جب بنانے والے کا یہ اعتقاد ہو کہ اس عمارت سے میت کو راحت یا فائدہ پہنچتا ہے تو منع ہے کہ غلط خیال ہے اور اگر زائرین کی آسائش کی وجہ سے عمارت بنائی جائے تو جائز ہے ۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خاص خاص قبروں پر عمارت بنائی ہیں یہ فعل سنتِ صحابہ رضی اللہ عنہم ہے چنانچہ حضرت امام حسن مثنی رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر کی قبر پر قبہ ڈالہ جو کہ مشکوٰۃ باب البکاء میں موجود ہے۔ زوجہ حسن مثنی کے اس فعل کے ماتحت امام ملا علی قاری الحنفی مرقاۃ شرح مشکوۃ باب البکاء میں فرماتے ہیں : الظاھر انہ لاجتماع الاحباب للذکر والقراءۃ و حضور الاصاحب للدعا بالمغفرۃ والرحمۃ اما حمل فعلھا علی العبث المکروہ فغیر لائق لصنیع اھل البیت ۔
ترجمہ : ظاہر یہ ہے کہ یہ قبور دوستوں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے جمع ہونے کےلیے تھا تاکہ ذکر اللہ اور تلاوت قرآن کریں اور دعائے مغفرت کریں لیکن ان بی بی کے اس کام کو محض بے فائدہ بنانا جو کہ مکروہ ہے یہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کی شان کے خلاف ہے ۔ (مرقاۃ المفاتیح کتاب الجنائز البکاء علی المیت الفصل الثانی تحت رقم الحدیث 1749 ص 237 مطبوعہ رشیدیہ کوئٹہ،چشتی)

صاف معلوم ہوا کہ بِلا فائدہ عمارت بنانا منع اور زائرین کے آرام کےلیے جائز ہے ۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت زینت بن جحش رضی اللہ عنہا کی قبر پر قبہ یعنی گنبد بنوایا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن کی قبر پر اور حضرت محمد ابن حنیفہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کی قبر پر قبہ بنایا ۔ متقیٰ شرح موطا امام مالک میں ابوعبد سلیمان علیہما الرحمہ فرماتے ہیں : وضربہ عمر علی قبر زینب بن جحش و ضربتہ عائشۃ علی قبر اخیھا عبدالرحمٰن وضربہ محمد ابن الحنفیۃ علی قبر ابن عباس وانما کرھہ لمن ضربہ علی وجہ السمعۃ والمباھات ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت زینب بنت حجش کی قبر پر قبہ بنایا ۔ حضرت عائشہ نے اپنے بھائی عبدالرحمٰن کی قبر پر قبہ بنایا محمد ابن حنیفہ (ابن علی رضی اللہ عنہما) نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قبر پر قبہ بنایا ۔ اور جس نے قبہ بنانا مکروہ کہا ہے تو اس کے لیئے کہا جو کہ اس کو فخر دریا کےلیے بنائے ۔ ایسے ہی بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع جلد ۲ صفحہ ۳۵۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت از امام ابی بکر کاسانی الحنفی رحمة اللہ علیہ میں بھی روایات موجود ہیں  ۔

خوارجی طبقات یعنی (وہابی دیوبندی) کے بطلان کا مکمل رد

خوارج یہ حدیث اپنے حق میں بطور دلیل اور جواز کے پیش کرتے ہیں اور اسی کو بنیاد بنا کر انبیائے کرام علیہم السلام اور صالحین علیہم الرحمہ کی قبور مزارات کو شہید کرتے ہیں آج اس کا بھی جواب ان کو دیا جا رہا ہے وہ بھی ان کی چھاپی کتاب سے اور سلف صالح سے : ⬇

وہابی دلیل : مشکوٰۃ باب الدفن میں لکھا ہے و عن ابی ھیاج ن الاسدی قال قال لی علی الا ابعثک علی ما بعثنی رسول اللہ علیہ السلام ان لا تدع تمثالا ال طمستہ ولا قبراً مشرفاً الا سویتہ ۔
ترجمہ : ابوہیاج اسدی سے مروی ہے کہ مجھ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھ کو حضور علیہ السلام نے بھیجا تھا وہ یہ کہ تم کوئی تصویر نہ چھوڑو مگر مٹادو اور نہ کوئی اونچی قبر مگر اس کو برابر کردو ۔ (مشکوۃ المصابیح باب الدفن فصل اول صفحہ 148 نورمحمد کتبخانہ کراچی،چشتی)

بخاری جلد اول کتاب الجنائز الجرید علی القبر میں ہے : روای ابن عمر قسطاطا علی قبر عبدالرحمٰن فقال انزعہ یا غلام قائما یظلہ عملہ ۔
ترجمہ : ابن عمر رضی اللہ عنہما نے عبدالرحمٰن کی قبر پر قبہ خیمہ دیکھا پس آپ نے فرمایا کہ اے لڑکے اس کو علیحدہ کردو کیونکہ ان پر ان کے عمل سایہ کررہے ہیں ۔ (صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 181 مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ اگر کسی قبر پر عمارت بنی ہو یا قبر اونچی ہو تو اس کو گرا دینا چاہیے ۔

جواب : اس حدیث کو آڑ بنا کر خوارج نے صحابہ کرام اور اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے مزارات کو گرا کر شہید کر کے زمین کے ہموار کر دیا ۔ دیکھیے جنت البقیع کا موجودہ منظر ۔

اب یہ رہا اس کا مفصل جواب : جن قبروں کو گرادینے کا سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حکم دیا ہے وہ کفار کی قبریں تھیں نہ کہ مسلمین کی ۔ اس کی چند وجوہات ہیں : ⬇

اولاً تو یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم کو اس کام کے لیے بھیجتا ہوں ۔ جس کےلیے مجھے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھیجا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ میں جن قبروں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گرایا وہ مسلمانوں کی قبریں نہیں ہو سکتیں ۔

دوئم کیونکہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ کے دفن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شرکت فرماتے تھے ۔ نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوئی کام بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بغیر مشورہ کے نہ کرتے تھے لہٰذا اس وقت جس قدر قبور مسلمین بنیں ۔ وہ یا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی موجودگی یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اجازت سے بنی تو وہ کون سے مسلمانوں کی قبریں تھیں جو کہ ناجائز بن گئیں ؟ ۔ اور ان کو مٹانا پڑا ؟

عیسائیوں کی قبور اونچی ہوتی تھیں ۔ جیسا کہ آج کل بھی کوئی گوگل کو سرچ کر کے دیکھ سکتا ہے کہ ان کی قبروں پر تصاویر ، بت اور یا پھر صلیب کے ایک ہاتھ سے اونچے نشانات ہوتے ہیں اور جن کو مسمار کرنے کا حکم دیا ہے وہ آپ سرچ کر کے دیکھ لیں کہ کیسی قبور تھیں سمجھ آ جائے گی بات آسانی سے ۔

بخاری شریف صفحہ 61 مسجد نبوی کی تعمیر کے بیان مین ہے : امر النبی علیہ السلام بقبور المشرکین فبثبت ۔ (صحیح بخاری باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ جلد 1 صفحہ 61 قدیمی کتب خانہ)
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مشرکین کی قبروں کا حکم دیا پس اکھیڑ دی گئیں ۔

بخاری شریف میں باقائدہ ایک باب باندھا گیا ۔ کہ مشرکین کی زمانہ جاہلیت کی قبریں اکھیڑ دی جائیں اسی کی شرح میں امام ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ فتح الباری شرح صحیح البخاری شریف جلد دوم میں فرماتے ہیں شرح کرتے ہوئے کہ : ای دون غیرھا من قبور الانبیاء واتباعھم لما فی ذلک اھانۃ لھم ۔
ترجمہ : یعنی ماسوا انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے متبعین کے کیونکہ ان کی قبریں ڈھانے میں ان کی اہانت (یعنی توہین) ہے ۔ (فتح الباری جلد ۲ کتاب الصلاۃ باب ھل تنبش صفحہ ۶۲۴ حدیث ۴۲۲ (۳۲۸) طبع سلطان بن عبدالعزیز آل سعود)

دوسری جگہ فرماتے ہیں : وفی الحدیث جواز تصرف فی المقبرۃ المملوکۃ وجواز تنبش قبور الدارسۃ اذا لم یکن محرمۃ ۔
ترجمہ : اس حدیث میں اس پر دلیل ہے کہ جو قبرستان ملک میں آگیا اس میں تصرف کرنا جائز ہے اور پرانی قبریں اکھاڑ دی جائیں بشرطیکہ محترمہ نہ ہوں ۔ (فتح الباری شرح بخاری  جلد ۲ صفحہ ۶۳۷ (۴۲۸)

لہٰذا اس حدیث اور اس کی شرح نے مخالف کی پیش کردہ حدیثِ علی رضی اللہ عنہ کی تفسیر کردی ۔ کہ مشرک کی قبریں گرائی جائیں ۔ دوسرے اس لیے کہ اس میں قبر کے ساتھ فوٹو کا ذکر کیوں ہے ۔ مسلمان کی قبر پر فوٹو کہاں ہوتا ہے ؟ تصویر کہاں ہوتی ہے ؟ معلوم ہوا کہ کفار کی قبریں ہی مراد ہیں ۔ کیونکہ ان کی قبروں پر میت کا فوٹو بھی ہوتا ہے ۔

تیسرے اس لیے کہ فرماتے ہیں کہ اونچی قبروں کو زمین کے برابر کردو اور مسلمان کی قبر کےلیے سنت ہے کہ زمین سے ایک ہاتھ اونچی رہے ۔ اس کو بالکل پیوند زمین کرنا خلافِ سنت ہے ۔ ماننا پڑے گا کہ یہ قبور کفار کی تھیں ورنہ تعجب ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ تو اونچی قبریں اکھڑوائیں اور ان کے فرزند محمد ابن حنفیہ و ابن عباس رضی اللہ عنہم کی قبر پر گنبد بنائیں ۔ اگر کسی مسلمان کی قبر اونچی بن بھی گئی تب بھی اس کو نہیں اکھیڑ سکتے کیونکہ اس میں مسلمان کی توہین ہے ۔ اولاً اونچی نہ بناو ۔ مگر جب بن جائے تو نہ مٹاؤ ۔

قرآن پاک چھوٹا سائز کا بھی چھپانا منع ہے دیکھو شامی کتاب الکراہیت ۔ مگر جب چھپ گیا تو اس کو پھینکو نہیں اور نہ ہی جلاؤ ۔ کیونکہ اس میں قرآن کی بے ادبی ہے احادیث میں وارد ہے کہ مسلمان کی قبر پر بیٹھنا وہاں پاخانہ کرنا ۔ وہاں جوتے سے چلنا ویسے بھی اس پر چلنا پھرنا منع ہے مگر افسوس کہ نجدیوں وہابیوں نے صحابہ کرام و اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم کے مزارات شہید کیے اور معلوم ہوا ہے کہ اب جدہ میں انگریز عیسائیوں کی اونچی اونچی قبریں برابر بن رہی ہیں ۔ صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اھل الاسلام ویترکون اھل الاصنام ۔ ہر ایک کو اپنی جنس سے محبت ہوتی ہے ۔ یعنی اہلِ اسلام کو قتل کرتے ہیں اور اہلِ اصنام کو تحفظ دیتے ہیں ۔

لہٰذا خوارج کا اس جہالت بھرے استدلال پر عمل کر کے مزارات و صالحین علیہم الرحمہ کی قبور کو شہید کرنا بھی ان کی صیہونیت کی ایک عمدہ دلیل سے زیادہ کچھ نہیں نا اس کا اسلام سے کوئی تعلق ہے نہ قرآن و سنت سے اور نہ ہی سلف الصالحین علیہم الرحمہ کے عمل سے ۔ یہ ان کی ذاتی خواہشات ہیں اور ان ہی غلط گمراہی بھرے جواز بنا کر انہوں نے اپنے دھرم کی اسلام کے نام پر اشاعت کی ہے اور ہمارے ہاں کے جہلاء بھی اس حرامکاری میں شریک رہے ۔

مزارات پر عمارت اور قبے بنانا وہابیوں کے گھر سے گواہی

انبیاء کرام علیہم السّلام کی قبور پر حضرت سلیمان علیہ السّلام نےقبہ نما چھت بنادی ۔ (اطلس القرآن صفحہ نمبر 38 مطبوعہ غیر مقلد وہابی حضرات)

انبیاء کرام علیہم السّلام کی قبروں پر وحی الٰہی کے مطابق سلیمان علیہ السّلام نے قبے یعنی ، گنبد بنائے ۔ (اطلس القرآن صفحہ 85 وہابی حضرات)

نجدی گمراہ کے پیروکار قرآن و حدیث کا خود ساختہ من گھڑت مفہوم بیان کر کے مزارات اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے روضہ اقدس کے توہین کرنے والو مزارات پر قبہ عمارت بنانا سلیمان علیہ السّلام کی سنّت اور وحی الٰہی کے مطابق ہے او نجدی گمراہ کے پیروکارو خود تو گمراہ ہوئے ہو سادہ لوح مسلمانوں کو کیوں گمراہ کرتے ہو ؟ کیوں مزارات کی توہین کرتے ہو شرم تم کو مگر آتی نہیں شرم آئے تو کہاں سے تم لوگوں میں کہیں شرم و حیاء اور دیانت باقی ہو تو آئے نا ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مزارات اولیاء اللہ علیہم الرحمہ پر حاضری و دُعا کا جواز اور خرافات کا رد

مزارات اولیاء اللہ علیہم الرحمہ پر حاضری و دُعا کا جواز اور خرافات کا رد

محترم قارئینِ کرام : اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے مزارات شعائر اللہ ہیں‘ ان کا احترام و ادب ہر مسلمان پر لازم ہے‘ خاصان خدا ہر دور میں مزارات اولیاء پر حاضر ہو کر فیض حاصل کرتے رہے ہیں ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار پر حاضر ہو کر سے فیض حاصل کیا کرتے تھے ۔ پھر تابعین کرام صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ پھر تبع تابعین‘ تابعین کرام کے مزارات پر حاضر ہوکر فیض حاصل کیا کرتے تھے‘ تبع تابعین اور اولیاء کرام کے مزارات پر آج تک عوام وخواص حاضر ہوکر فیض حاصل کرتے ہیں اور ان شاء اللہ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔ اولیاء اللہ کے مزارات پر حاضری اور دُعا سے متعلق بعض طبقات کی سوچ اور طرزِ عمل افراط و تفریط کا شکار ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو سرے سے اِس کے جواز کا ہی قائل نہیں بلکہ اِسے صریح شرک و بدعت گردانتا ہے ۔ اِس کے برعکس ایک طبقہ عوام الناس کا ہے جسے اہلِ علم کی سند حاصل نہیں وہ بھی اِس سلسلہ میں جہالت اور تفریط میں مبتلا ہے ۔ جمہور مسلمانوں کا مزارات پر طریقِ حاضری و دُعا نہایت معقول اور حزم و احتیاط کا آئینہ دار ہے ۔ قاضی الحاجات ، فریاد رس اور حقیقی مشکل کشا اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ لیکن مقربینِ بارگاہِ الٰہی انبیاء و اولیاء کا دُعا میں توسل جائز ہے اور اِن کے توسل سے دُعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ اِس سلسلہ میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : واز جملہ آدابِ زیارت است کہ روئے بجانب قبر و پشت بجانب قبلہ مقابل روئے میت بایستد و سلام دہد و مسح نکند قبر را بدست و بوسہ ندہد آنرا و منحنی نشود و روئے بخاک نمالد کہ ایں عادتِ نصاریٰ است۔ وقرات نزد قبر مکروہ است نزدِ ابی حنیفہ و نزدِ محمد مکروہ نیست۔ و صدر الشہید کہ یکے از مشائخ حنفیہ است بقولِ محمد اخز کرد و فتویٰ ہم بریں است۔ و شیخ امام محمد بن الفضل گفتہ کہ مکروہ قراتِ قرآن بہ جہر است واما مخافت لا باس بہ است اگرچہ ختم کند ۔
ترجمہ : قبورِ اولیاء کی زیارات کے آداب میں سے ہے کہ زائر قبر کی طرف منہ اور قبلہ کی جانب پیٹھ کر کے صاحبِ قبر کے منہ کے برابر کھڑا ہو جائے، اُسے سلام کہے، ہاتھ سے قبر کو نہ چھوئے اور نہ قبر کو بوسہ دے اور نہ قبر کے سامنے جھکے اور قبر کے سامنے مٹی پر اپنا منہ نہ ملے کیونکہ یہ طریقہ نصاریٰ کا ہے۔ قبر کے پاس قرآن حکیم کی تلاوت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک (بآوازِ بلند) مکروہ ہے، مگر امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مکروہ نہیں ہے۔ علمائِ احناف میں سے صدر الشہید نے امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو اختیار کیا ہے اور اِسی پر فتویٰ ہے۔ شیخ امام محمد بن الفضل نے کہا ہے کہ قبر کے نزدیک اُونچی آواز میں قرآن خوانی مکروہ ہے، لیکن اگر دھیمی آواز میں ہو تو سارا قرآن مجید پڑھ لینے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ (اشعة اللمعات باب زيارة القبور صفحہ 763)

یہ بات ذہن نشین رہے کہ صالحینِ اُمت کے مزارات کو بوسہ دینا ضروری اُمور میں سے نہیں ہے لہٰذا اس عمل کو منکرین و مخالفین کے ردِعمل میں بے ادبی اور گستاخی سمجھنا اچھا نہیں ہے۔ اکابر مشائخ کے ملفوظات اور اُن کے معمولات میں احتیاط پسندی کی خاطر بوسہ دینے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ پیر سید مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ اِس سلسلہ میں لکھتے ہیں : پس اقربِ بصواب می نماید کہ کسے از ثقات و مقتدایان تقبیلِ مزارات متبرکہ ہم ننماید، تاکہ عوام کالانعام در ورطۂ ضلال نیفتند۔ چہ بہ سبب جہل فرق میانِ سجود و تقبیل کردن نمی توانند ۔
ترجمہ : بہتر یہی ہے کہ اربابِ علم اور رہنمایانِ قوم میں سے کوئی آدمی مزارات کا بوسہ نہ لے تاکہ دیکھا دیکھی میں بے علم اور عام اَن پڑھ لوگ گمراہی کے بھنور میں نہ پھنس جائیں۔ کیونکہ وہ جہالت کی وجہ سے بوسہ اور سجدہ میں تمیز نہیں کر سکتے ۔ (تحقيق الحق صفحہ 159)

تعظیماً بوسہ دینا فی نفسہ منع اور ناجائز نہیں ہے ۔ اکابر علماء و مشائخ نے صرف احتیاط کی خاطر بوسہ دینے سے منع کیا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواص کا عمل عامۃ الناس کےلیے دلیل و حجت ہوتا ہے اِس لیے خواص کو بطورِ خاص احتیاط کا دامن تھامنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے ۔ خواص تو بوسہ اور سجدہ کا فرق بخوبی سمجھتے ہیں لیکن عوام یہ فرق نہیں سمجھتے اِس لیے عوام کی خاطر انہیں بھی منع کیا گیا ہے ۔

مزاراتِ اولیاء پر جانا جائز اور مستحب کام ہے ۔ جیسا کہ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیاتھا ۔ اب زیارت کیا کرو ۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز حدیث نمبر 2260 مطبوعہ دارالسلام ریاض سعودی عرب)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی مزارات پر تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وہاں گریہ فرمایا اور جو صحابہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھے وہ بھی روئے ۔ (صحیح مسلم کتاب الجنائز حدیث 2258 مطبوعہ دارالسلام، ریاض سعودی عرب،چشتی)

فقہ حنفی کی مایہ ناز کتاب رد المحتار میں حضور خاتم المحققین ابن عابدین شامی علیہ الرحمہ (وصال1252ھ) فرماتے ہیں : امام بخاری علیہ الرحمہ کے استاد امام ابن ابی شیبہ علیہ الرحمہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے تھے ۔ (رد المحتار باب مطلب فی زیارۃ القبور مطبوعہ دارالفکر بیروت)

امام فخر الدین رازی علیہ الرحمہ (سن وصال606ھ) اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہر سال شہداء احد کے مزارات پر تشریف لے جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد چاروں خلفاء کرام علیہم الرضوان بھی ایسا ہی کرتے تھے ۔ (تفسیر کبیر، زیر تحت آیت نمبر 20، سورہ الرعد)

صحابہ کرام علیہم الرضوان حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار اقدس پر حاضری دیا کرتے تھے ۔ جیسا کہ حضرت مالک دار رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے ۔ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی قبر اطہر پر آئے اور عرض کیا ۔ یارسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آپ اپنی امت کے لئے بارش مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہوگئی ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الفضائل حدیث نمبر 32002 مکتبہ الرشد ریاض سعودی عرب،چشتی)
اس سے ملوم ہوا کہ زیارت مزار کے ساتھ، صاحبِ مزار سے مدد طلب کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے ۔

حضرت داؤد بن صالح سے مروی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز مروان آیا اور اس نے دیکھا کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزارِ انور پر اپنا منہ رکھے ہوئے ، تو اس (مروان) نے کہا : کیا تو جانتا ہے کہ توکیا کر رہا ہے ؟ جب مروان اس کی طرف بڑھا تو دیکھا وہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ تھے ۔ اور انہوں نے جواب دیا۔ ہاں میں جانتا ہوں ۔ میں رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آیا ہوں ’’لم ات الحجر‘‘ میں کسی پتھر کے پاس نہیں آیا ۔ (مسند امام احمد بن حنبل،حدیث نمبر 23646، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت،چشتی)

ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ : حدیث شریف میں ہے کہ تین مسجدوں (مسجد حرام ، مسجد اقصیٰ اور مسجد نبوی شریف) کے سوا کسی جگہ کا سفر نہ کیا جائے ۔ پھر لوگ مزارات اولیاء پر حاضری کی نیت سے سفر کیوں کرتے ہیں ؟
جواب : اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ان تینوں مسجدوں میں نماز کا ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ لہٰذا ان مساجد میں یہ نیت کرکے دور سے آنا چونکہ فائدہ مند ہے ، جائز ہے ۔ لیکن کسی اور مسجد کی طرف سفر کرنا ’’یہ سمجھ کر‘‘ کہ وہاں ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ یہ ناجائز ہے کیونکہ ہر جگہ کی مسجد میں ثواب یکساں ہے اور حدیث میں اسی نیت سے سفر کو منع فرمایا ہے ۔ آج لوگ تجارت کے لئے سفر کرتے ہیں ۔ علم دین کے لئے سفر کرتے ہیں۔ تبلیغ کے لئے سفر کرتے ہیں اور بے شمار دنیاوی کاموں کےلیے مختلف قسم کے سفر کئے جاتے ہیں ۔ کیا یہ سب سفر حرام ہوں گے ؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ سارے سفر جائز ہیں اور ان کا انکار کوئی بھی نہیں کر سکتا ۔ تو پھر مزارات اولیاء کے لئے سفر کرنا ناجائز کیوں ہوگا بلکہ لاکھوں شافعیوں کے پیشوا امام شافعی علیہ الرحمہ (سن وصال 204ھ) فرماتے ہیں : میں امام ابو حنیفہ رضی ﷲ عنہ سے برکت حاصل کرتا اور ان کے مزار پر آتا ہوں ۔ اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تو دو رکعتیں پڑھتا ہوں اور ان کے مزار کے پاس جاکر ﷲ سے دعا کرتا ہوں تو حاجت جلد پوری ہوجاتی ہے ۔ (رد المحتار، مقدمہ، مطبوعہ دارالفکر ، بیروت،چشتی)

امام شافعی علیہ الرحمہ اپنے وطن فلسطین سے عراق کا سفر کرکے امام صاحب رضی اللہ عنہ کے مزار پر تشریف لاتے تھے اور مزار سے برکتیں بھی حاصل کرتے تھے ۔ کیا ان کا یہ سفر کرنا بھی ناجائز تھا ؟

محمد بن معمر سے روایت ہے کہ کہتے ہیں : امام المحدثین ابوبکر بن خذیمہ علیہ الرحمہ ، شیخ المحدثین ابو علی ثقفی علیہ الرحمہ اور ان کے ساتھ کئی مشائخ امام علی رضا بن موسیٰ رضی ﷲ تعالیٰ عنہما کے مزار پر حاضر ہوئے اور مزار کی خوب تعظیم فرمائی ۔ (تہذیب التہذیب حروف العین المہملہ مطبوعہ دارالفکر بیروت،چشتی)

اگر مزاراتِ اولیاء اللہ پر جانا شرک ہوتا تو ؟

کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنی والدہ ماجدہ اور شہداء احد کے مزاروں پر تشریف لے جاتے ؟

کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار پر انوار پر حاضری دیتے ؟ کیا تابعین ، محدثین ، مفسرین ، مجتہدین مزارات اولیاء پر حاضری کے لئے سفر کرتے ؟

پتہ چلا مزارات پر حاضری حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم اور امت کے مجتہدین، محدثین اور مفسرین کی سنت ہے اور یہی اہلِ اسلام کا طریقہ رہا ہے اور اس مبارک عمل پر شرک کے فتویٰ دینے والے صراط ِمستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔ ان کی اسی روش نے ان کے ہم خیال دھشت گرد گروە کو تشدد کی راە دی اور آج مزارات اولیاء کو وھابی دھشت گرد بموں سے شھید کر رہے ہیں ۔ جبکہ وھابیوں نے حرمین کے قبرستانوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و اکابرین کے مزارات کو زمین بوس کر دیا ۔

مزاراتِ اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ پر ہونے والی خرافات

اکثر مخالفین مزاراتِ اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ پر ہونے والی خرافات کو امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مزارات اولیاء پر ہونے والی خرافات کا اہلسنت و جماعت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ نے اپنی تصانیف میں ان کا رد بلیغ فرمایا ہے ۔ لادینی قوتوں کا یہ ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے کہ وہ مقدس مقامات کو بدنام کرنے کےلیے وہاں خرافات و منکرات کا بازار گرم کرواتے ہیں تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے مقدس مقامات اور شعائرﷲ کی تعظیم و ادب ختم کیا جا سکے ۔ یہ سلسلہ سب سے پہلے بیت المقدس سے شروع کیا گیا ۔ وہاں فحاشی و عریانی کے اڈے قائم کیے گئے‘ شرابیں فروخت کی جانے لگیں اور دنیا بھر سے لوگ صرف عیاشی کرنے کے لئے بیت المقدس آتے تھے ۔ (معاذ ﷲ) ۔ اسی طرح آج بھی مزارات اولیاء پر خرافات‘ منکرات‘ چرس و بھنگ‘ ڈھول تماشے‘ ناچ گانے اور رقص و سرور کی محافلیں سجائی جاتی ہیں تاکہ مسلمان ان مقدس ہستیوں سے بدظن ہوکر یہاں کا رخ نہ کریں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بعض لوگ یہ تمام خرافات اہلسنت اور امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کے کھاتے میں ڈالتے ہیں جوکہ بہت سخت قسم کی خیانت ہے ۔ اس بات کو بھی مشہور کیا جاتا ہے کہ یہ سارے کام جو غلط ہیں‘ یہ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کی تعلیمات ہیں ۔ پھر اس طرح عوام الناس کو اہلسنت اور امامِ اہلسنت علیہ الرحمہ سے برگشتہ کیا جاتا ہے ۔ اگر ہم لوگ امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ کی کتابوں اور آپ کے فرامین کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ بدعات و منکرات کے قاطع یعنی ختم کرنے والے تھے ۔ اب مزارات پر ہونے والے خرافات کے متعلق آپ ہی کے فرامین اور کتابوں سے اصل حقیقت ملاحظہ کریں اور اپنی بدگمانی کو دور کریں ۔

مزار شریف کو بوسہ دینا اور طواف کرنا

امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزار کا طواف کہ محض بہ نیت تعظیم کیا جائے ناجائز ہے کہ تعظیم بالطواف مخصوص خانہ کعبہ ہے۔ مزار شریف کو بوسہ نہیں دینا چاہیے ۔ علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے مگر بوسہ دینے سے بچنا بہتر ہے اور اسی میں ادب زیادہ ہے ۔ آستانہ بوسی میں حرج نہیں اور آنکھوں سے لگانا بھی جائز کہ اس سے شرع میں ممانعت نہ آئی اور جس چیز کو شرح نے منع نہ فرمایا وہ منع نہیں ہو سکتی ۔ ﷲ تعالیٰ کا فرمان ’’ان الحکم الا ﷲ‘‘ ہاتھ باندھے الٹے پاٶں آنا ایک طرز ادب ہے اور جس ادب سے شرح نے منع نہ فرمایا اس میں حرج نہیں ۔ ہاں اگر اس میں اپنی یا دوسرے کی ایذا کا اندیشہ ہو تو اس سے احتراز (بچا) کیا جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 8‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی،چشتی)

روضہ انور پر حاضری کا صحیح طریقہ

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں کہ : خبردار جالی شریف (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مزار شریف کی سنہری جالیوں) کو بوسہ دینے یا ہاتھ لگانے سے بچو کہ خلافِ ادب ہے بلکہ (جالی شریف) سے چار ہاتھ فاصلہ سے زیادہ قریب نہ جاٶ ۔ یہ ان کی رحمت کیا کم ہے کہ تم کو اپنے حضور بلایا‘ اپنے مواجہ اقدس میں جگہ بخشی‘ ان کی نگاہ کرم اگرچہ ہر جگہ تمہاری طرف تھی اب خصوصیت اور اس درجہ قرب کے ساتھ ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 10 صفحہ 765 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

روضہ انور پر طواف و سجدہ منع ہے

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں : روضہ انور کا طواف نہ کرو‘ نہ سجدہ کرو‘ نہ اتنا جھکنا کہ رکوع کے برابر ہو ۔ حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تعظیم ان کی اطاعت میں ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ شریف جدید جلد 10ص 769 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور،چشتی)

معلوم ہوا کہ مزارات پر سجدہ کرنے والے لوگ جہلا میں سے ہیں اور جہلاء کی حرکت کو تمام اہلسنت پر ڈالنا سراسر خیانت ہے‘ اور امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔

مزارات پر چادر چڑھانا

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے مزارات پر چادر چڑھانے کے متعلق دریافت کیا تو جواب دیا جب چادر موجود ہو اور ہنوز پرانی یا خراب نہ ہوئی کہ بدلنے کی حاجت ہو تو بیکار چادر چڑھانا فضول ہے بلکہ جو دام اس میں صرف کریں ﷲ تعالیٰ کے ولی کی روح مبارک کو ایصال ثواب کےلیے محتاج کو دیں ۔ (احکام شریعت حصہ اول صفحہ 42)

عرس کا دن خاص کیوں کیا جاتا ہے

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے پوچھا گیا کہ بزرگان دین کے اعراس کی تعین (یعنی عرس کا دن مقرر کرنے) میں بھی کوئی مصلحت ہے ؟
آپ سے جواباً ارشاد فرمایا ہاں اولیائے کرام کی ارواحِ طیبہ کو ان کے وصال کے دن قبور کریمہ کی طرف توجہ زیادہ ہوتی ہے چنانچہ وہ وقت جو خاص وصال کا ہے ۔ اخذ برکات کےلیے زیادہ مناسب ہوتا ہے ۔ (ملفوظات صفحہ 383 مطبوعہ مکتبتہ المدینہ کراچی،چشتی)

عرس میں آتش بازی اور نیاز کا کھانا لٹانا حرام ہے

سوال : بزرگان دین کے عرس میں شب کو آتش بازی جلانا اور روشنی بکثرت کرنا بلا حاجت اور جو کھانا بغرض ایصال ثواب پکایا گیا ہو ۔ اس کو لٹانا کہ جو لوٹنے والوں کے پیروں میں کئی من خراب ہوکر مٹی میں مل گیا ہو‘ اس فعل کو بانیان عرس موجب فخر اور باعث برکت قیاس کرتے ہیں ۔ شریعت عالی میں اس کا کیا حکم ہے ؟
جواب : آتش بازی اسراف ہے اور اسراف حرام ہے ‘ کھانے کا ایسا لٹانا بے ادبی ہے اور بے ادبی محرومی ہے‘ تصنیع مال ہے اور تصنیع حرام ۔ روشنی اگر مصالح شرعیہ سے خالی ہو تو وہ بھی اسراف ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 24 صفحہ 112‘ مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)

عرس میں رنڈیوں کا ناچ حرام ہے

سوال : تقویۃ الایمان مولوی اسمعیل کی فخر المطابع لکھنؤ کی چھپی ہوئی کہ صفحہ نمب 329 پر جو عرس شریف کی تردید میں کچھ نظم ہے اور رنڈی وغیرہ کا حوالہ دیا ہے‘ اسے جو پڑھا تو جہاں تک عقل نے کام کیا سچا معلوم ہوا کیونکہ اکثر عرس میں رنڈیاں ناچتی ہیں اور بہت بہت گناہ ہوتے ہیں اور رنڈیوں کے ساتھ ان کے یار آشنا بھی نظر آتے ہیں اور آنکھوں سے سب آدمی دیکھے ہیں اور طرح طرح کے خیال آتے ہیں ۔ کیونکہ خیال بد و نیک اپنے قبضہ میں نہیں‘ ایسی اور بہت ساری باتیں لکھی ہیں جن کو دیکھ کر تسلی بخش جواب دیجئے ؟
جواب : رنڈیوں کا ناچ بے شک حرام ہے‘ اولیائے کرام کے عرسوں میں بے قید جاہلوں نے یہ معصیت پھیلائی ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 29 صفحہ 92 مطبوعہ رضا فائونڈیشن لاہور)

وجد کا شرعی حکم

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ مجلس سماع میں اگر مزامیر نہ ہوں (اور) سماع جائز ہو تو وجد والوں کا رقص جائز ہے یا نہیں ؟
آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ اگر وجد صادق (یعنی سچا) ہے اور حال غالب اور عقل مستور (یعنی زائل اور اس عالم سے دور تو اس پر تو قلم ہی جاری نہیں ۔ اور اگر بہ تکلف وجد کرتا ہے تو ’’تشنی اور تکسر‘‘ یعنی لچکے توڑنے کے ساتھ حرام ہے اور بغیر اس کے ریا و اظہار کےلیے ہے تو جہنم کا مستحق ہے اور اگر صادقین کے ساتھ تشبہ بہ نیت خالصہ مقصود ہے کہ بنتے بنتے بھی حقیقت بن جاتی ہے تو حسن و محمود ہے حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے ۔ (ملفوظات صفحہ نمبر 231 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

حرمتِ مزامیر

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مزامیر یعنی آلات لہو و لعب بروجہ لہو و لعب بلاشبہ حرام ہیں جن کی حرمت اولیاء و علماء دونوں فریق مقتداء کے کلمات عالیہ میں مصرح‘ ان کے سننے سنانے کے گناہ ہونے میں شک نہیں کہ بعد اصرار کبیرہ ہے اور حضرات علیہ سادات بہشت کبرائے سلسلہ عالیہ چشت کی طرف اس کی نسبت محض باطل و افتراء ہے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد دہم صفحہ 54)

نشہ و بھنگ و چرس

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نشہ بذاتہ حرام ہے ۔ نشہ کی چیزیں پینا جس سے نشہ بازوں کی مناسبت ہو اگرچہ حد نشہ تک نہ پہنچے یہ بھی گناہ ہے ہاں اگر دوا کے لئے کسی مرکب میں افیون یا بھنگ یا چرس کا اتنا جز ڈالا جائے جس کا عقل پر اصلا اثر نہ ہو حرج نہیں ۔ بلکہ افیون میں اس سے بھی بچنا چاہئے کہ اس خبیث کا اثر ہے کہ معدے میں سوراخ کر دیتی ہے ۔ (احکام شریعت جلد دوم)

غیر ﷲ کو سجدہ تعظیمی حرام اور سجدہ عبادت کفر ہے

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ مسلمان اے مسلمان ! اے شریعت مصطفوی کے تابع فرمان ! جان اور یقین جان کہ سجدہ حضرت عزت عز جلالہ (رب تعالیٰ) کے سوا کسی کےلیے نہیں غیر ﷲ کو سجدہ عبادت تو یقینا اجماعاً شرک مہین و کفر مبین اور سجدہ تحیت (تعظیمی) حرام و گناہ کبیرہ بالیقین ۔ (الزبدۃ الزکیہ لتحریم سجود التحیہ صفحہ 5 مطبوعہ بریلی ہندوستان،چشتی)

چراغ جلانا

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے قبروں پر چراغ جلانے کے بارے میں سوال کیا گیا تو شیخ عبدالغنی نابلسی علیہ الرحمہ کی تصنیف حدیقہ ندیہ کے حوالے سے تحریر فرمایا کہ : قبروں کی طرف شمع لے جانا بدعت اور مال کا ضائع کرنا ہے (اگرچہ قبر کے قریب تلاوت قرآن کےلیے موم بتی جلانے میں حرج نہیں مگر قبر سے ہٹ کر ہو) ۔ (البریق المنار بشموع المزار صفحہ 9 مطبوعہ لاہور)
اس کے بعد محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں یہ سب اس صورت میں ہے کہ بالکل فائدے سے خالی ہو اور اگر شمع روشن کرنے میں فائدہ ہو کہ موقع قبور میں مسجد ہے یا قبور سر راہ ہیں‘ وہاں کوئی شخص بیٹھا ہے تو یہ امر جائز ہے ۔ (البریق المنار بشموع المزار صفحہ 9 مطبوعہ لاہور)
ایک اور جگہ اسی قسم کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں اصل یہ کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور جو کام دینی فائدے اور دنیوی نفع جائز دونوں سے خالی ہو عبث ہے اور عبث خود مکروہ ہے اور اس میں مال صرف کرنا اسراف ہے اور اسراف حرام ہے ۔ قال ﷲ تعالیٰ ولا تسرفوا ان ﷲ لا یحب المسرفین ، اور مسلمانوں کو نفع پہنچانا بلاشبہ محبوب شارع ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم میں جس سے ہوسکے کہ اپنے بھائی کو نفع پہنچائے تو پہنچائے ۔ (احکام شریعت حصہ اول صفحہ 38 مطبوعہ آگرہ ہندوستان)

اگر بتی اور لوبان جلانا

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ سے قبر پر لوبان وغیرہ جلانے کے متعلق دریافت کیا گیا تو جواب دیا گیا عود‘ لوبان وغیرہ کوئی چیز نفس قبر پر رکھ کر جلانے سے احتراز کرنا چاہئے (بچنا چاہئے) اگرچہ کسی برتن میں ہو اور قبر کے قریب سلگانا (اگر نہ کسی تالی یا ذاکر یا زائر حاضر خواہ عنقریب آنے والے کے واسطے ہو) بلکہ یوں کہ صرف قبر کے لئے جلا کر چلا آئے تو ظاہر منع ہے اسراف (حرام) اور اضاعیت مال (مال کو ضائع کرنا ہے) میت صالح اس عرضے کے سبب جو اس قبر میں جنت سے کھولا جاتا ہے اور بہشتی نسیمیں (جنتی ہوائیں) بہشتی پھولوں کی خوشبوئیں لاتی ہیں۔ دنیا کے اگر اور لوبان سے غنی ہے ۔ (السنیۃ الانیقہ صفحہ 70 مطبوعہ بریلی ہندوستان،چشتی)

فرضی مزار بنانا اور اس پر چادر چڑھانا

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی بارگاہ میں سوال کیا گیا : ⬇

مسئلہ : کسی ولی کا مزار شریف فرضی بنانا اور اس پر چادر وغیرہ چڑھانا اور اس پر فاتحہ پڑھنا اور اصل مزار کا سا ادب و لحاظ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ اور اگر کوئی مرشد اپنے مریدوں کے واسطے بنانے اپنے فرضی مزار کے خواب میں اجازت دے تو وہ قول مقبول ہوگا یا نہیں ؟
الجواب : فرضی مزار بنانا اور اس کے ساتھ اصل کا سا معاملہ کرنا ناجائز و بدعت ہے اور خواب کی باتیں خلاف شرع امور میں مسموع نہیں ہوسکتی  (فتاویٰ رضویہ جدید جلد 9ص 425‘ مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور)

عورتوں کا مزارات پر جانا ناجائز ہے

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : غنیہ میں ہے یہ نہ پوچھو کہ عورتوں کا مزاروں پر جانا جائز ہے یا نہیں ؟ بلکہ یہ پوچھو کہ اس عورت پر کس قدر لعنت ہوتی ہے ﷲ تعالیٰ کی طرف سے اور کس قدر صاحب قبر کی جانب سے ۔ جس وقت وہ گھر سے ارادہ کرتی ہے لعنت شروع ہو جاتی ہے اور جب تک واپسی آتی ہے ملائکہ لعنت کرتے رہتے ہیں ۔ سوائے روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کسی مزار پر جانے کی اجازت نہیں ۔ وہاں کی حاضری البتہ سنت جلیلہ عظیمہ قریب بواجبات ہے اور قرآن کریم نے اسے مغفرت کا ذریعہ بتایا ۔ (ملفوظات شریف صفحہ نمبر 240‘ ملخصاً رضوی کتاب گھر دہلی،چشتی)

مزارات اولیاء پر خرافات

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ اولیاء کرام کے مزارات پر ہر سال مسلمانوں کا جمع ہوکر قرآن مجید کی تلاوت اور مجالس کرنا اور اس کا ثواب ارواح طیبہ کو پہنچانا جائز ہے کہ منکرات شرعیہ مثل رقص و مزامیر وغیرھا سے خالی ہو‘ عورتوں کو قبور پر ویسے جانا چاہئے نہ کہ مجمع میں بے حجانہ اور تماشے کا میلاد کرنا اور فوٹو وغیرہ کھنچوانا یہ سب گناہ و ناجائز ہیں جو شخص ایسی باتوں کا مرتکب ہو‘ اسے امام نہ بنایا جائے ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد چہارم صفحہ نمبر 216‘ مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی)

مزارات پر حاضری کا طریقہ

امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ کی کتاب فتاویٰ رضویہ سے ملاحظہ ہو :

مسئلہ : حضرت کی خدمت میں عرض یہ ہے کہ بزرگوں کے مزار پر جائیں تو فاتحہ کس طرح سے پڑھا کریں اور فاتحہ میں کون کون سی چیز پڑھا کریں ؟
الجواب : مزارات شریفہ پر حاضر ہونے میں پائنتی قدموں کی طرف سے جائے اور کم از کم چار ہاتھ کے فاصلے پر مواجہہ میں کھڑا ہو اور متوسط آواز باادب سلام عرض کرے السلام علیک یا سیدی و رحمة اللہ و برکاتہ ‘ پھر درود غوثیہ ‘ تین بار‘ الحمد شریف ایک‘ آیتہ الکرسی ایک بار ‘ سورہ اخلاص سات بار‘ پھر درود غوثیہ سات بار اور وقت فرصت دے تو سورہ یٰس اور سورہ ملک بھی پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ الٰہی ! اس قرات پر مجھے اتنا ثواب دے جو تیرے کرم کے قابل ہے‘ نہ اتنا جو میرے عمل کے قابل ہے اور اسے میری طرف سے اس بندہ مقبول کی نذر پہنچا ۔ پھر اپنا جو مطلب جائز شرعی ہو‘ اس کےلیے دعا کرے اور صاحب مزار کی روح کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا وسیلہ قرار دے‘ پھر اسی طرح سلام کرکے واپس آئے ۔ مزار کو نہ ہاتھ لگائے نہ بوسہ دے (ادب اسی میں ہے) اور طواف بالاتفاق ناجائز ہے اور سجدہ حرام ۔ واللہ تعالی اعلم ۔ (فتاویٰ رضویہ جدید جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 522 مطبوعہ جامعہ نظامیہ لاہور) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

مزارات اور قبور پر عمارت بنانے پر آلِ نجد کے اعتراضات کا جواب

مزارات اور قبور پر عمارت بنانے پر آلِ نجد کے اعتراضات کا جواب
محترم قارئینِ کرام : آلِ نجد کے اِس مسئلہ پر صرف دو ہی اعتراض ہیں اول تو یہ کہ مشکوٰۃ باب الدفن میں بروایت مسلم ہے : نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان یجصص القبور وان یبنی علیہ وان یقعد علیہ ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے منع فرمایا اس سے کہ قبروں پر گچ کی جاوے اور اس سے کہ اس پر عمارت بنائی جاوے اور اس سے کہ اس پر بیٹھا جاوے۔نیز عام فقہاء فرماتے ہیں کہ یکرۃ البناء علی القبور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تین کام حرام ہیں قبر کو پختہ بنانا۔ قبر پر عمارت بنانا، اور قبر پر مجاور بن کر بیٹھنا ۔

جواب : ⬇

(1) قبر کو پختہ کرنے سے منع ہونے کی تین صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ قبر کا اندرونی حصہ جو کہ میت کی طرف ہے اس کو پختہ کیا جاوے ۔ اسی لیئے حدیث میں فرمایا گیا ۔ ان یجصص القبور یہ نہ فرمایا گیا علی القبور ۔
(2) یہ کہ عامۃ المسلمین کی قبور پختہ کی جاویں کیونکہ یہ بے فائدہ ہے تو معنٰی یہ ہوئے کہ ہر قطر کو پختہ بنانے سے منع فرمایا ۔

(3) یہ کہ قبر کی سجاوٹ ، تکلف یا فخر کے لیے پختہ کیا ۔ یہ تینوں صورتیں منع ہیں اور اگر نشان باقی رکھنے کے لیئے کسی ولی اللہ کی قبر پختہ کی جاوے تو جائز ہے ۔ کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے عثمان ابن مغلعون کی قبر پختہ پتھر کی بنائی ۔ لمعات میں اسی ان یخصص القبور کے ماتحت ہے لما فیہ من الزینۃ والتکلف کیونکہ اس میں محض سجاوٹ اور تکلف ہے ۔ جس سے معلوم ہوا کہ اگر اس لیئے نہ ہو تو جائز ہے ان ینی علیہ یعنی قبر پر عمارت بنانا منع فرمایا ۔ اس کے بھی چند معنٰی ہیں اولاً تو یہ کہ خود قبر پر عمارت بنائی جاوے اس طرح کہ قیر دیوار میں شامل ہو جاوے ۔

چنانچہ شامی باب الدفن میں ہے : وتکرہ الزیادۃ علیہ لما فی المسلم نھی رسول اللہ علیہ السلام ان یجصص القبر وان یبنی علیہ ۔(چشتی)
ترجمہ : قبر کو ایک ہاتھ سے اونچا کرنا منع ہے کیونکہ مسلم میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے قبر کو پختہ کرنے اور اس پر کچھ بنانے سے منع فرمایا ۔(چشتی)

درمختار اسی باب میں ہے : وتکرہ الزیادۃ علیہ من التراب لانہ بمنزلۃ البناء ۔
ترجمہ : قبر پر مٹی زیادہ کرنا منع ہے کیونکہ یہ عمارت بنانے کی درجہ میں ہے ۔

اس سے معلوم ہوا کہ قبر پر بنانا یہ ہے کہ قبر دیوار میں آجاوے اور گنبد نانا یہ حول القبر یعنی قبر کے اردگرد بنانا ہے یہ ممنوع نہیں ۔ دوسرے یہ کہ یہ حکم عامۃ المسلمین کے لیے قبروں کے لیے ہے ۔ تیسرے یہ کہ اس بنانے کی تفسیر خود دوسری حدیث نے کردی جوکہ مشکوٰۃ باب المساجد میں ہے : اللھم لا تجعل قبری ووثنا یعبد اشتد غضب اللہ علی قوم ن اتخذوا قبور انبیاءھم مسجد ۔
ترجمہ : اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی پوجا کی جاوے اس قوم پر خدا کا سخت غضب ہے جس نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد بنا لیا ۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی قبر کو مسجد بنانا اس پر عمارت بنا کر اس طرف نماز پڑھنا حرام ہے یہ ہی اس حدیث سے مراد ہے ۔ قبروں پر کیا نہ بناؤ مسجد ۔ قبر کو مسجد بنانے کے یہ معنٰی ہیں کہ اس کی عبادت کی جاوے ۔ یا کم از کم اس کو قبلہ بناکر اس کی طرف سجدہ کیا جاوے ۔

علامہ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ فتح الباری شرح بخاری میں فرماتے ہیں : قال البیضاویلما کانت الیھود والنصری یسجدون لقبور الانبیاء تعظیما لشانھم ویجعلونھا قبلۃ یتوجھون فی الصلوٰۃ ونحوھا واتخذوھا اوثانا لعنھم ومنع المسلمون عن مثل ذلک ۔(چشتی)
ترجمہ : امام بیضاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہود و نصارٰی پیغمبروں علیہم السّلام کی قبروں کو تعظیماً سجدہ کرتے تھے اور اس کو قبلہ بناکر اس کی طرف نماز پڑھتے تھے اور ان قبور کر انہوں نے بت بنا کر رکھا تھا لہٰذا اس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے لعنت فرمائی اور مسلمانوں کو اس سے منع فرمایا گیا ۔

یہ حدیث آلِ نجد کی پیش کردہ حدیث کی تفسیر ہوگئی ۔ معلوم ہوگیا کہ قبہ بنانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا ۔ چوتھا یہ کہ یہ ممانعت حکم شرعی نہیں ہے ۔ بلکہ زہد و تقوٰی کی تعلیم ہے جیسے کہ ہم پہلے عرض کرچکے کہ رہنے کے مکانات کو پختہ کرنے سے بھی روکا گیا ۔ بلکہ گرا دئیے گئے پانچویں یہ کہ جب بنانے والے کا یہ اعتقاد ہو کہ اس عمارت سے میت کو راحت یا فائدہ پہنچتا ہے تو منع ہے کہ غلط خیال ہے اور اگر زائرین کی آسائش کے لیے عمارت بنائی جاوے تو جائز ہے ۔

ہم نے توجہیں اس لیئے کیں کہ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خاص خاص قبروں پر عمارت بنائی ہیں یہ فعل سنت صحابہ ہے چنانچہ حضرت فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر انور کے گرد عمارت بنائی ۔ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس پر خوبصورت عمارت بنائی ۔ حضرت امام حسن مثنی رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اپنے شوہر کی قبر پر قبہ ڈالا جس کو ہم بحوالہ مشکوٰۃ باب البکاء سے بیان کر چکے ۔ زوجہ حسن مثنی رضی اللہ عنہما کے اس فعل کے ماتحت امام ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح مشکوٰۃ باب البکاء میں فرماتے ہیں : الظاھر انہ لاجتماع الاحباب للذکر والقراءۃ وحضور بالمغفرۃ اما حمل فعلھا علی العبث المکروہ فغیر لائق لصنیع اھل البیت ۔
ترجمہ : ظاہر یہ ہے کہ یہ قبہ دوستوں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے جمع ہونے کے لیئے تھا تاکہ ذکر اللہ اور تلاوت قراٰن کریں اور دعائے مغفرت کریں ۔ لیکن ان بی بی کے اس کام کو معض بے فائدہ بنانا جو کہ مکروہ ہے یہ اہل بیت رضی اللہ عنہم کی شان کے خلاف ہے ۔

صاف معلوم ہوا کہ بلا فائدہ عمارت بنانا منع اور زائرین کے آرام کے لیئے جائز ہے ۔ نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی قبر پر قبہ بنایا ۔ متقٰے شرح مؤطاء امام مالک میں ابو عبد سلیمان علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں : وضربہ عمر علی قبر زینب جحش وضربۃ عائشۃ علے قبر اخیھا عبدالرحمٰن وضربہ محمد ابن الحنیفۃ علی قبر ابن عباس وانما کرھہ لمن ضربہ علی وجہ السمعۃ والمباھات ۔
ترجمہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی قبر پر قبہ بنایا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی حضرت عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کی قبر پر قبہ بنایا محمد ابن حنیفہ (ابن حضرت علی رضی اللہ عنہما) نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قبر پر قبہ بنایا اور جس نے قبہ بنانا مکروہ کہا ہے تو اس کے لیے جو کہ اس کو فخر دریا کے لیے بنائے ۔

بدائع الصنائع جلد اول 320 میں ہے : روی ان عباس لما مات بالطائف صلے علیہ محمد ابن الحنیفۃ وجعل قبرہ مسنما وضرب علیہ فساطا ۔
ترجمہ : جبکہ طائف میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا انتقال ہوا تو ان پر محمد ابن حنیفہ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی اور ان کی قبر ٍڈھلوان بنائی اور قبر پر قبہ بنایا ۔

عینی شرح بخاری میں ہے ضربہ محمد ابن الحنیفۃ علی قبر ابن عباس ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ فعل کیئے اور ساری اُمت روضۃ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر جاتی رہی ۔ کسی محدث کسی فقیہ کسی عالم نے اس روضہ پر اعتراض نہ کیا لہٰذا اس حدیث کہ وہ ہی توجہیں کی جاویں جو کہ ہم نے کیں ۔ قبر پر بیٹھنے کے معنٰے ہیں قبر پر چڑھ کر یہ منع ہے نہ کہ وہاں مجاور بننا ۔ مجاور بننا تو جائز ہے ۔ مجاور اسی کو تو کہتے ہیں جو قبر کا انتظام رکھے کھولنے بند کرنے کی چابی اپنے پاس رکھے وغیرہ وغیرہ یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مسلمانوں کی والدہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی قبر انور کی منتظمہ اور چابی والی تھیں ۔ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو زیارت کرنی ہوتی تو ان سے ہی کھلوا کر زیارت کرتے ۔ دیکھو مشکوٰۃ باب الدفن ۔ آج تک روضہ مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پر مجاور رہتے ہیں کسی نے ان کو ناجائز نہ کہا ۔

اعتراض نمبر 2 : مشکوٰۃ باب الدفن میں ہے : وعن ابی ھیاج ن الا سدی قال قال لی علی الا ابعثک علی ما بعثی رسول اللہ علیہ السلام ان لا تدع تمثالا الا طمسۃ ولا قبرا مشرفا الا سؤیتہ ۔
ترجمہ : ابو ہیاج اسدی سے مروی ہے کہ مجھ سے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو اس کام پر نہ بھیجوں جس پر مجھ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھیجا تھا وہ یہ کہ تم کوئی تصویر نہ چھوڑو مگر مٹادو اور نہ کوئی اونچی قبر مگر اس کو برابر کردو ۔
بخاری جلد اول کتاب الجنائز باب الجریر علی البقر میں ہے : ورای ابن قسطاطا علی قبر عبدالرحمٰن فقال انرعہ یا غلام فانما یظللہ عملہ ۔(چشتی)
ترجمہ : ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عبدالرحمٰن کی قبر پر قبہ خیمہ دیکھا پس آپ نے فرمایا کہ اے لڑکے اس کو علیحدہ کردو کیونکہ ان پر ان کے عمل سایہ کر رہے ہیں ۔
ان دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ اگر کسی قبر پر عمارت بنی ہو یا قبر اونچی ہو تو اس کو گرا دینا چاہئیے ۔

ضروری نوٹ : اس حدیث کو آڑ بنا کر نجدی وہابیوں خارجیوں نے صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے مزارات کو گرا کر زمین کے ہموار کر دیا ۔

اعتراض نمبر 2 کا جواب : جن قبروں کو گرا دینے کا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا ہے وہ کفار کی قبریں تھیں ۔ نہ کہ مسلمین کی ۔ اس کی چند وجوہ ہیں ۔ اولاً تو یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم کو اس کام کے لیئے بھیجتا ہوں ۔ جس کے لیئے مجھے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بھیجا ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانہ میں جن قبروں کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گرایا وہ مسلمانوں کی قبریں نہیں ہو سکتیں ۔
کیونکہ ہر صحابی رضی اللہ عنہ کے دفن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شرکت فرماتے تھے ۔ نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوئی کام بھی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے بغیر مشورہ کے نہ کرتے تھے لہٰذا اس وقت جس قدر قبور مسلمین بنیں ۔ وہ یا تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی موجودگی میں یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اجازت سے تو وہ کون سے مسلمانوں کی قبریں تھیں جو کہ ناجائز بن گئیں اور ان کو مٹانا پڑا ۔ ہاں عیسائیوں کی قبور اونچی ہوتی تھیں ۔

بخاری شریف صفحہ61 مسجد نبوی کی تعمیر کے بیان میں ہے : امر النبی علیہ السلام بقبور المشرکین فنبشت ۔
ترجمہ : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مشرکین کی قبروں کا حکم دیا پس اکھیڑ دی گئیں ۔
بخاری شریف جلد اولصفحہ61 میں ایک باب باندھا ھل ینبش قبور مشرکی الجاھلیۃ کیا مشرکین زمانہ جاہلیت کی قبریں اکھیڑ دی جاویں اسی کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ فتح الباری شرح بخاری جلد دوم صفحہ26 میں فرماتے ہیں : ای دون غیرھا من قبور الانبیاء واتباعھم لما فی ذلک اھانۃ لھم ۔(چشتی)
ترجمہ : یعنی ماسوا انبیاء علیہم السّلام اور ان کے متبعین کے کیونکہ ان کی قبریں ڈھانے میں ان کی اہانت ہے ۔
دوسری جگہ فرماتے ہیں : وفی الحدیث جواز تصرف فی المقبرۃ المملوکۃ وجواز نبش قبور الدارسۃ اذالم یکن محرمۃ ۔
ترجمہ : اس حدیث میں اس پر دلیل ہے کہ جو قبرستان ملک میں آگیا اس میں تصرف کرنا جائز ہے اور پرانی قبریں اکھاڑ فی جاویں بشرطیکہ محترمہ نہ ہوں ۔

اس حدیث اور اس کی شرح نے آلِ نجد کی پیش کردہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تفسیر کردی کہ مشرک کی قبریں گرائی جاویں ۔ دوسرے اس لیئے کہ اس میں قبر کے ساتھ فوٹو کا کیوں ذکر ہے ۔ مسلمان کی قبر پر فوٹؤ کہاں ہوتا ہے ؟ معلم ہوا کہ کفار کی قبریں ہی مراد ہیں ۔ کیونکہ ان کی قبروں پت میت کا فوٹو بھی ہوتا ہے ۔ تیسرے اس لیے کہ فرماتے ہیں کہ اونچی قبر کو زمین کے برابر کردو اور مسلمان کی قبر کے لیے سنت ہے کہ زمین سے ایک ہاتھ اونچی رہے ۔ اس کو بالکل پیوند زمین کرنا خلاف سنت ہے ۔ ماننا پڑے گا کہ یہ قبور کفار تھیں ورنہ تعجب ہے کہ سیدنا علی تو اونچی قبریں اکھڑوائیں اور ان کے فرزند حضرت محمد ابن حنیفہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قبر پر قبہ بنائیں ۔ اگر کسی مسلمان کی قبر اونچی بن بھی گئی ۔ تب بھی اس کو نہیں اکھیڑ سکتے کیونکہ اس میں مسلمان کی توہین ہے ۔ اولاً اونچی نہ بناؤ مگر جب بن جائے تو نہ مٹاؤ ۔ قرآن پاک چھوٹا سائز چھاپنا منع ہے دیکھو شامی کتاب الکرہیت ۔ مگر جب چھپ گیا تو اس کو پھینکو نہ جلاؤ ۔ کیونکہ اس میں قرآن کی بے ادبی ہے احادیث میں وارد ہے کہ مسلمان کی قبر پر بیٹھنا وہاں پاخانہ کرنا وہاں جوتہ سے چلنا ویسے بھی اس پر چلنا پھرنا منع ہے مگر افسوس کہ نجدیوں نے صحابہ کرام و اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کے مزارات گرائے ۔ معلوم ہوا کہ اب جدہ میں انگریز عیسائیوں کی اونچی اونچی قبریں برابر بن رہی ہیں صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقتلون اھل الاسلام ویترکون اھل الاصنام ، ہر ایک کو اپنی جنس سے محبت ہوتی ہے ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے سند لانا محض بے جا ہے وہ تو خود فرما رہے ہیں کہ میت پر اعمال کا سایہ کافی ہے جس سے معلوم ہوا کہ اگر میت پر سایہ کرنے کےلیے قبہ بنایا تو جائز ہے ۔

عینی شرح بخاری اسی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ماتحت فرماتے ہیں : وھی اشارۃ الی ان ضرب الفسطاط لغرض صحیح لاتشترمن الشمس مثلا للاحیاء لا لا ضلال المیت جاز ۔
ترجمہ : ادھر اشارہ ہے کہ قبر پر صحیح غرض کے لیے خیمہ لگانا جیسے کہ زندوں کو دھوپ سے بچانے کے لیئے نہ کہ میت کو سایہ کرنے کے لیے جائز ہے۔

تفسیر روح البیان پارہ نمبر 26 سورہ فتح زیر آیت اذیبا یعونک تحت الشجرۃ ہے کہ بعض مغرور لوگ کہتے ہیں کہ چونکہ آج کل لوگ اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ کی قبروں کی تعظیم کرتے ہیں لہٰذا ہم ان قبروں کو گرائیں گے تاکہ یہ لوگ دیکھ لیں کہ اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ میں کوئی قدرت نہیں ہے ورنہ وہ اپنی قبروں کر گرنے سے بچا لیتے ۔ فاعلم ان ھذا الصنیع کفر صراح ماخوذ من قول فرعون ذرونی اقتل موسی ولیدع وبہ انی اخاف ان یبدل دینکم اور ان یظھر دی الارض الفساد ۔
ترجمہ : تو جان لو کہ یہ کام خالص کفر ہے فرعون کے اس قول سے ماخوذ ہے کہ چھوڑ دو مجھ کو میں موسٰی کو قتل کردوں وہ اپنے خدا کو بلالے میں خوف کرتا ہوں کہ تمہارا دین بدل دیگا یا زمین میں فساد پھیلا دیگا ۔

مجھ سے ایک بار ایک خارجی نجدی نے کہا کہ اگر اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کچھ طاقت تھی تو نجدی وہابیوں خارجیوں سے اپنی قبروں کو کیوں نہ بچایا ؟ معلوم ہوا کہ یہ محض مردے ہیں پھر ان کی تعظیم و توقیر کیسی ؟ میں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے پہلے کعبہ معظمہ میں تین سو ساٹھ 360 بت تھے اور احادیث میں ہے کہ قریب قیامت ایک شخص کعبہ گرادے گا ۔ انڈیا میں بابری مسجد ۔ بہت سی مساجد ہیں جو کہ برباد کر دی گئیں تو اگر ہندو کہیں کہ اگر خدا میں طاقت تھی تو اس نے اپنا گھر ہمارے ہاتھوں سے کیوں نہ بچالیا ۔ اولیاء اللہ علیہم الرّحمہ یا ان کی مقابر کی تعظیم ان کی محبوبیت کی وجہ سے کی ہے ۔ نہ کہ محض قدرت سے جیسے کہ مساجد اور کعبہ معظمہ کی تعظیم ، ابن سعود نے بہت سی مسجدیں بھی گرادیں جیسے کہ مسجد سیدنا بلال کوہ صفاء پر وغیرہ وغیرہ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

Tuesday, 29 August 2023

کسی کا مذاق اڑانا ، نام بگاڑنا اور برے القابات سے پکارنا حصّہ دوم

کسی کا مذاق اڑانا ، نام بگاڑنا اور برے القابات سے پکارنا حصّہ دوم
افسوس ! آج کل یہ بَلا بھی معاشرے میں عام ہوتی جارہی ہے ، آدمی کا اَصْل نام بہت اچھا ہوتا ہے ، پھر لوگ نہ جانے کیوں دوسروں کو بُرے ناموں سے پُکارتے ہیں ۔ جس کا جو نام ہو ، اس کو اُسی نام سے پُکارنا چاہیے ، اپنی طرف سے کسی کا اُلٹا نام مثلاً لمبو ، ٹھنگو وغیرہ نہ رکھا جائے ، عموماً اس طرح کے ناموں سے سامنے والی کی دِل آزاری ہوتی ہے اور وہ اس سے چِڑتا بھی ہے ، اس کے باوُجُود پُکارنے والا جان بوجھ کر بار بار مزہ لینے کےلیے اسی الٹے نام سے پُکارتا ہے ۔ امام احمد رضا خان قادری رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : کسی مسلمان بلکہ کافِر ذِمّی کو بھی شرعی حاجت کے بغیر ایسے الفاظ سے پُکارنا جس سے اس کی دِل شکنی ہو ، اُسے ایذا پہنچے ، شرعاً ناجائِز و حرام ہے ، اگرچہ بات فِیْ نَفْسِہٖ سچی ہو ۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 204)

مثلاً کسی کا رنگ واقعی کالا ہے ، اس کے باوُجُود اسے کالو کہہ کر پُکارنے سے اس کی دِل آزاری ہوتی ہے تو اسے یُوں پُکارنا ناجائِز و حرام ہی رہے گا ۔

حضرت عُمیر بن سعد رَضِیَ اللہُ عنہ  بیان کرتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے کسی کو اس کے نام کے عِلاوہ نام (یعنی بُرے لقب سے) بُلایا ، اس پر فرشتے لعنت کرتے ہیں ۔ (جامع صغیر صفحہ 525 حدیث نمبر 8666)  

حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدتَرین جھوٹ ہے ۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ، صفحہ:994، حدیث:2563،چشتی)

(1) : جس کے بارے میں بدگمانی کی، اگر اس کے سامنے اس کا اظہار بھی کر دیا تو اس کی دِل آزاری ہو سکتی ہے اور شرعی اجازت کے بغیر مسلمان کی دِل آزاری حرام ہے ۔ (2) : اگر مسلمان کے سامنے اس کے متعلق بدگمانی کا اظہار نہ کیا ، بلکہ اس کی پیٹھ پیچھے کیا تو یہ غیبت ہو جائے گی اور مسلمان کی غیبت کرنا بھی حرام ہے ۔ (3) : بدگمانی کرنے والا محض اپنے گمان پر صبر نہیں کرتا بلکہ وہ سامنے والے کےعیب تلاش کرنے میں لگ جاتا ہے اور کسی مسلمان کے عیب تلاش کرنا بھی گُنَاہ ہے ۔ (4) : بدگمانی کی ہلاکت میں سے یہ بھی ہے کہ بدگمانی کرنے سے بغض اور حسد جیسے خطرناک باطنی امراض پیدا ہوتے ہیں ۔ (5) : بدگمانی کرنے سے دو بھائیوں میں دُشمنی پیدا ہو جاتی ہے ، ساس اور بہو ایک دوسرے کے خلاف ہو جاتی ہیں ، شوہر اور بیوی میں ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہو جاتا ہے ، بدگمانی کی وجہ سے بات بات پر آپس میں لڑائی رہنے لگتی ہے اور بالآخر بعض دفعہ طلاق کی نوبت بھی آجاتی ہے ۔ بدگمانی کی وجہ سے بھائی اور بہن کے درمیان تعلقات ٹوٹ جاتے ہیں اور یوں ایک ہنستا بستا گھر اُجڑ کر رہ جاتا ہے ۔ (6) : دوسروں  کےلیے برے خیالات رکھنے والے افراد پر فالج اور دل کی بیماریوں کا خطرہ زیادہ ہو جاتا ہے جیسا کہ حال ہی میں ایک تحقیقی رپوٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں  کےلیے مخالفانہ سوچ رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار اور غصے میں رہتے ہیں ان میں دل کی بیماریوں اور فالج کا خطرہ 86 فیصد بڑھ جاتا ہے ۔

ایک مومن پر جس طرح دوسرے مسلمان کی جان اور اس کے مال کو نقصان پہنچانا حرام ہے ، اسی طرح اس کی عزت اور آبرو پر حملہ کرنا بھی قطعاً ناجائز ہے ۔ عزت و آبرو کو نقصان پہنچانے کے کئی طریقے ہیں ۔ ان میں ایک مذاق اڑانا ہے ۔ مذاق اڑانے کا عمل دراصل اپنے بھائی کی عزت و آبرو پر براہ راست حملہ اور اسے نفسیاتی طور پر مضطرب کرنے کا ایک اقدام ہے ۔ اس تضحیک آمیز رویے کے دنیا اور آخرت دونوں میں بہت منفی نتائج نکلتے ہیں ۔ چنانچہ باہمی کدورتیں ، رنجشیں ، لڑائی جھگڑا ، انتقامی سوچ ، بد گمانی ، حسد اور سازشیں دنیا کی زندگی کو جہنم بنا دیتے ہیں ۔ دوسری جانب اس رویے کا حامل شخص اللہ عزوجل کی رحمت سے محروم ہو کر ظالموں کی فہرست میں چلا جاتا ہے ۔ اپنی نیکیاں گنوا بیٹھتا اور آخرت میں خود ہی تضحیک کا شکار ہو جاتا ہے ۔

اسلام نے مسلمانوں کوایک دوسرے کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا ہے اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے ، عیب جوئی کرنے ، طعنہ دینے اور برے القاب سے پکارنے سے منع کیا ہے ۔ یہ رویہ اس قدر ناپسندیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے خصوصی احکامات سورة الحجرات میں واضح طور پر بیان فرمائے ہیں ۔ اے ایمان والو ! مردوں کا کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان (مذاق اڑانے والوں) سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ، اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو ، ایمان کے بعد فاسق کہلانا برا نام ہے اور جو لوگ توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر11)

مذاق اڑانے کا مفہوم

امام غزالی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : تمسخر کرنے یا مذاق اڑانے کے معنی ہیں کہ اہانت و تحقیر کے ارادے سے کسی کے حقیقی یا مفروضہ عیب اس طرح بیان کرنا کہ سننے والے کو ہنسی آئے ۔ (احیاءالعلوم جلد 3 صفحہ 207)

مذاق کسی متعین فرد یا گروہ کے متعلق کیا جا رہا ہو یعنی یہ مخصوص ہو اور عام نہ ہو ۔ اگر مذاق کرنے والے کا مقصد کسی مخصوص شخص یا قوم کی توہین کرنا یا اسے کمتر ثابت کرنا یا اسے بدنام کرنا ہو یا پھر یہ مذاق اس متعلقہ شخص کو برا لگے ۔ ان دو میں سے کوئی ایک بات بھی پوری ہو رہی ہو تو بھی یہ مذاق اڑانے ہی کے زمرے میں آئے گا ۔

مذاق اڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : اہانت اور تحقیر کےلیے زبان یا اشارات ، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاءرسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اور دکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ 173)

تحقیر کرنا اور اسے بے عزت کرنا ہے ۔ اسی لیے روایات میں کسی کی آبرو کو نقصان پہچانے کی واضح الفاظ میں مذمت کی گئی ہے ۔

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جو کوئی کسی مسلمان کی آبرو ریزی کرے گا تو اس پر اللہ تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہو گی ۔ (صحیح بخاری / 440)

مذا ق اڑانے کا عمومی مقصد کسی مخصوص شخص کی تحقیر کرنا اور اسے کمتر مشہور کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے پیچھے تکبر کا رویہ کار فرما ہے اور تکبر کے متعلق قرآ ن و حدیث میں سخت الفاظ میں مذمت بیان ہوئی ہے ۔عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔ (صحیح مسلم ، 266)

مذاق اڑانے کا نتیجہ کسی شخص کی دل آزاری اور ایذا رسانی کی شکل میں نکلتا ہے ۔ اس ایذا رسانی کی مذمت ان الفاظ میں کی گئی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان تکلیف نہ اٹھائیں ۔ (صحیح بخاری : 10)

امّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے ۔ (سنن ابی داﺅد، کتاب الادب، حدیث :4875،چشتی)

حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : کسی کو ذلیل کرنے کےلئے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا ، اس کا مذاق اڑانا ، نقل اتارنا ، طعنہ مارنا ، عار دلانا ، اس پر ہنسنا یا اس کو برے برے اَلقاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اڑانا مثلاً آج کل کے بَزَعمِ خود اپنے آپ کو عرفی شرفاء کہلانے والے کچھ قوموں کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں ۔ محض قومِیَّت کی بنا پر ان کا تَمَسخر اور اِستہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں ۔ قِسم قسم کے دل آزار اَلقاب سے یاد کرتے رہتے ہیں ، کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں ، کبھی عار دلاتے ہیں ، یہ سب حرکتیں حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں ۔ لہٰذا ان حرکتوں سے توبہ لازم ہے، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں گے۔ اسی طرح سیٹھوں اور مالداروں کی عادت ہے کہ وہ غریبوں کے ساتھ تَمَسخر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں ۔ جس سے غریبوں کی دل آزاری ہوتی ہے ۔ ان مالدارو ں کو ہوش میں آنا چاہیے کہ اگر وہ اپنی ان حرکتوں سے باز نہ آئے تو یقیناً وہ قہرِ قَہّار و غضبِِ جَبّار میں گرفتار ہو کر جہنم کے سزا وار بنیں گے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ 175 ، 176)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ، اس آیت کا معنی یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی برے کام کو چھوڑ کر اس سے توبہ کر چکا ہو اور حق کی طرف رجوع کر چکا ہو ، اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کے پچھلے کاموں پر عار دلانے سے منع فرمایا ۔ (تفسیر جامع البیان،ج26 ،ص 172)

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے اپنے (مسلمان) بھائی کو اس کے کسی گناہ پر شرمندہ کیا (امام احمد علیہ الرحمہ نے کہا : اس سے مراد ایسا گناہ ہے جس سے وہ توبہ کر چکا ہو) تو وہ شخص اس وقت تک نہیں مرے گا جب تک کہ وہ اس گناہ کا ارتکاب نہ کرے ۔ (سنن ترمذی : 2505)

قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کاارشادہے : اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو ، بیشک بعض گمان گناہ ہیں اور نہ تم (کسی کے متعلق) تجسس کرو، اور نہ ایک دوسرے کی غیبت کرو ، کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے ، سو تم اس کو ناپسند کرو گے، اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو ، بیشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے ، بے حد رحم فرمانے والا ہے ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 12)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : تم گمان کرنے سے بچو کیونکہ گمان کرنا سب سے جھوٹی بات ہے اور تجسس نہ کرو اور (کسی کے حالات جاننے کےلیے) تفتیش نہ کرو اور کسی سے حسد نہ کرو اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو اور نہ کسی سے بغض رکھو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ ۔ ایک روایت میں ہے : اور کسی مسلمان کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی کو چھوڑ رکھے ۔ (صحیح بخاری : 6065)

بعض علماءنے کہا ہے کہ قرآن مجید کی اس آیت میں اور مذکور الصدر حدیث میں گمان کی ممانعت سے مراد بدگمانی سے منع کرنا ہے اور کسی پر تہمت لگانے سے منع کرنا ہے۔ مثلاً کوئی شخص بغیر کسی قوی دلیل کے اور بغیر کسی سبب موجب کے یہ گمان کرے کہ وہ کوئی بے حیائی کا کام کرتا ہے۔ یعنی ایسے ہی کسی کے دل میں خیال آ جائے کہ فلاں شخص فلاں برا کام کرتا ہے تو یہ بدگمانی ہے۔

نیز اس آیت میں فرمایا ہے : اور تجسس نہ کرو یعنی کسی مسلمان کے عیوب اور اس کی کوتاہیوں کو تلاش نہ کرو ۔ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ مسلمان کے ظاہر حال پر عمل کرو اور اس کے عیوب کو تلاش نہ کرو اور اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے جس مسلمان کے عیوب پر پردہ رکھا ہوا ہے اس کے پردہ کو چاک نہ کرو۔ حدیث میں ہے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر تم لوگوں کے عیوب تلاش کروگے تو تم ان کو خراب کردو گے ۔ (سنن ابو داؤد : 4888)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا : جس نے کسی مسلمان کے عیب پردہ رکھا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیوب پر پردہ رکھے گا ۔ (صحیح بخاری : 2442،چشتی)(صحیح مسلم : 695)

عام لوگوں کےلیے لوگوں کے احوال کو تلاش کرنا ممنوع ہے لیکن حکومت داخلی اور خارجی معاملات کی حفاظت کےلیے جاسوسی کا محکمہ قائم کرے تو یہ جائز ہے ۔

ملک کے داخلی معاملات کی اصلاح کےلیے جاسوس مقررکرنے کی اصل یہ حدیث ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ، حضرت زبیر کو اور حضرت مقداد رضی اللہ عنہم کو بھیجا اور فرمایا تم روضہ خاخ (مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک باغ) میں جاؤ ، وہاں ایک مسافرہ ہو گی ، اس کے پاس ایک خط ہو گا وہ اس سے لے کر قبضہ میں کر لو ۔ ہم گھوڑے دوڑاتے ہوئے گئے ، ہم نے اس سے کہا کہ خط نکالو ، پہلے اس نے انکار کیا مگر ہمارے ڈرانے پر اس نے اپنے بالوں کے جوڑے سے خط نکالا ، ہم اس خط کو لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس آئے ۔ (صحیح بخاری: 3007،صحیح مسلم:2494)

علامہ بدر الدین عینی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ اگر مسلمان مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرے تو اس پر تعزیر لگائی جائے گی ، اگر اس کا عذر صحیح ہو تو اس کو معاف کر دیا جائے گا ، اگر کافر مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کرے تو اس کو قتل کر دیا جائے گا ۔ (عمدة القاری جلد 14 صفحہ 356)

دشمن ملک کی طرف جاسوس روانہ کرنے کی اصل یہ حدیث ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وسلم نے 10 جاسوس روانہ کیے اور حضرت عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کوان کا امیر بنایا ۔ (صحیح بخاری، حدیث 3989،چشتی)(صحیح مسلم،حدیث 1776)

حدثنا عبد الله بن إسحاق الجوهري البصري، حدثنا ابو زيد صاحب الهروي، عن شعبة، عن داود بن ابي هند، قال: سمعت الشعبي يحدث، عن ابي جبيرة بن الضحاك، قال: كان الرجل منا يكون له الاسمين والثلاثة فيدعى ببعضها، فعسى ان يكره، قال: فنزلت هذه الآية: ولا تنابزوا بالالقاب سورة الحجرات آية 11 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، ابو جبيرة هو اخو ثابت بن الضحاك بن خليفة انصاري، وابو زيد سعيد بن الربيع صاحب الهروي بصري ثقة ۔
ترجمہ : ابوجبیرہ بن ضحاک کہتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے دو دو تین تین نام ہوا کرتے تھے ، ان میں سے بعض کو بعض نام سے پکارا جاتا تھا ، اور بعض نام سے پکارنا اسے برا لگتا تھا ، اس پر یہ آیت «ولا تنابزوا بالألقاب» لوگوں کو برے القاب (برے ناموں) سے نہ پکارو ۔ (الحجرات: ۱۱) ، نازل ہوئی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں : یہ حدیث حسن صحیح ہے ، ابوجبیرہ ، یہ ثابت بن ضحاک بن خلیفہ انصاری کے بھائی ہیں، اور ابوزید سعید بن الربیع صاحب الہروی بصرہ کے رہنے والے ثقہ (معتبر) شخص ہیں ۔ (سنن ترمذی حدیث نمبر 3268 كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، باب وَمِنْ سُورَةِ الْحُجُرَات)(سنن ابی داود/ الأدب 71 حدیث 4962)

جامع الترمذي 3268 أبو جبيرة بن الضحاك يدعى ببعضها فعسى أن يكره نزلت هذه الآية ولا تنابزوا بالألقاب ۔

سنن أبي داود 4962 أبو جبيرة بن الضحاك يا فلان فيقولون مه يا رسول الله إنه يغضب من هذا الاسم أنزلت هذه الآية ولا تنابزوا بالألقاب ۔

سنن ابن ماجه 3741 أبو جبيرة بن الضحاك دعاهم ببعض تلك الأسماء فيقال يا رسول الله إنه يغضب من هذا نزلت ولا تنابزوا بالألقاب ۔

ابوجبیرہ بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ «ولا تنابزوا بالألقاب» ہم انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب ہمارے پاس (مدینہ) تشریف لائے تو ہم میں سے ہر ایک کے دو دو ، تین تین نام تھے ، بسا اوقات نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم انہیں ان کا کوئی ایک نام لے کر پکارتے ، تو آپ سے عرض کیا جاتا: اللہ کے رسول! فلاں شخص فلاں نام سے غصہ ہوتا ہے ، تو اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی : «ولا تنابزوا بالألقاب» ” کسی کو برے القاب سے نہ پکارو ۔ (سنن ابن ماجه/كتاب الأدب حدیث : 3741،چشتی)

کسی کو ایسے نام یا لقب سے نہیں پکارنا چاہیے جو اسے نا گوار ہو ۔ مسلمان کو دوسرے مسلمان کے جذبات کا خیال رکھنا چاہیے اور بلا وجہ ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے اس کے جذبات مجروح ہوں ۔ معلوم ہوا ہے کہ برے برے لقب یا نام رکھنا حرام اور ناجائز ہے ۔ برے القاب سے منسوب کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ کسی متعین شخص کو ایذا پہنچانے کی نیت سے کوئی لقب دینا یا کسی ایسےلقب سے منسوب کرنا جس سے مخاطب کو ناحق تکلیف پہنچے یا کوئی ایسا نام یا لقب استعمال کرنا جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر اخلاقی ہو ۔ برے لقب سے موسوم کرنے کےلیے درج ذیل میں سے کسی ایک شرط کا پورا ہونا لازمی ہے : لقب کو کسی شخص کو اذیت دینے کی نیت سے موسوم کرنا یا کسی کو اس لقب سے ناحق اذیت ہو یا لقب اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر موزوں ہو ۔ کسی نام سے منسوب کرنے کی تین شرائط میں سے کوئی ایک بھی پوری ہو جائے تو یہ گناہ سرزد ہو جائے گا ۔

پہلی شرط یہ ہے کہ کسی کو نام سے منسوب کیا جائے اور اس کا مقصد اس شخص کی تحقیر و تذلیل کرکے اس کو اذیت دینا ہو ۔ مثال کے طور پر بکر نے زید کو اس کی پست قامتی کا احساس دلانے کےلیے اور اسے اذیت پہنچانے کےلیے جملہ کہا ” اور بونے صاحب ! کہاں چل دیے ۔ یہاں بونے صاحب کہنے کا مقصد چونکہ ایذا رسانی اور تنگ کرنا ہے اس لیے یہ برے لقب سے منسوب کرنے کا عمل ہے ۔

دوسر ی شرط یہ ہے کہ لقب سے کسی کو ناحق اذیت پہنچے ۔ یعنی کہنے والے کی نیت تو اذیت پہنچانے کی نہیں تھی لیکن سننے والے کو یہ لقب جائز طور پر برا لگا ۔ مثلا زید نے بکر سے کہا او ملا جی ! کہاں غائب تھے اتنے دنوں سے ؟ الیاس کا مقصد ایذا پہنچانا نہیں تھا لیکن غفار کو ملا کے نام منسوب ہونا برا لگا تو یہ بھی ممنوع ہے ۔

تیسری شرط یہ ہے لقب اپنی نوعیت کے اعتبار سے غیر موزو ں اور غیر اخلاقی ہو ۔ مثال کے طور پر زید نے بکر سے بے تکلفی میں کہا ” او کمینے ! بات تو مکمل کرنے دے ، پھر اپنی کہنا ۔ یہ سن کر بکر ہنسنے لگا ۔ یہاں زید نے بے تکلفی میں جملہ کہا اور بکر نے بھی مائنڈ نہ کیا یعنی اوپر بیان کی گئی دونوں شرائط پوری نہیں ہو رہی ہیں لیکن کمینہ کہنا ایک غیر اخلاقی لقب ہے جس سے احتراز لازمی ہے ۔

ہر سوسائٹی میں عرفیت کا رواج ہوتا ہے یا پھر لوگوں کو اس کی کسی علامت کی بنا پر مشہور کر دیا جاتا ہے جیسے کسی کو لنگڑا ، چھوٹو ، موٹو ، کانا ، چندا ، کلو ، لمبو وغیرہ کہنا یا پپو ، گڈو ، منا ، چنا ، بے بی ، گڈی ، گڑیا ، چنی وغیرہ کے نام سے منسوب کرنا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان ناموں سے منسوب کرنا کیسا ہے ؟
اگر ان ناموں میں کوئی اخلاقی و شرعی قباحت نہیں اور ان میں ایذا کا کوئی پہلو موجود نہیں تو اس طرح مخاطب کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ لیکن عام طور پر یہ دیکھا یہ گیا ہے کہ ایسے افراد جب بچپن کی حدود سے نکلتے اور پختگی کی جانب مائل ہوتے ہیں تو انہیں ان ناموں سے مخاطب ہونا اچھا نہیں لگتا ۔ خاص طور پر ایسےافراد اجنبی لوگوں کے سامنے ان ناموں کو پسند نہیں کرتے جو ان کی عرفیت سے ناواقف ہوتے ہیں ۔ چنانچہ اس صورت میں انہیں ان کے اصل نام ہی سے پکارنے میں عافیت ہے بلکہ اصل نام سے مخاطب کرنے میں اس قسم کے لوگ بالعموم بڑی عزت محسوس کرتے ہیں ۔ دوسری جانب کچھ القاب ایسے ہوتے ہیں جو کسی شخص کو عزت دینے ، اس کا رتبہ بڑھانے یا بیان کرنے یا اسے عزت و توقیر کےلیے دیے جاتے ہیں ۔ جیسے فاروق ، صدیق ، غنی ، قائد اعظم ، علامہ وغیر ۔ ان میں کسی قسم کا کوئی حرج نہیں ۔

عام طور پر ہمارے معاشرے میں درج ذیل بنیادوں پر القاب استعمال ہوتے ہیں : ⬇

1 ۔ جسمانی بنیادوں پر القاب جیسے چھوٹو ، موٹو ، ٹھنگو ، لمبو ، کلو ، چٹا ، منا ، کبڑا ، لنگڑا ، ٹنٹا ، اندھا ، کانا وغیر کہنا ۔

2 ۔ مذہبی حوالے سے القابات جن میں منافق ، فاسق ، کافر ، بنیاد پرست ، یہودی ، نصرانی ، مشرک ، بدعتی ، وہابی وغیرہ شامل ہیں ۔

3 ۔ قومیت کی بناد پر القاب میں پناہ گیر ، مکڑ ، پینڈو ، چوپایا ، اخروٹ ، ڈھگا ، بھاٶ غیرہ مشہور ہیں ۔

4 ۔ جنسی بے راہروی کی نشاندہی کرنے والے ناموں میں حرافہ ، بدذات ، طوائف ، کال گرل ، لونڈا ، ہیجڑا ، زنخا وغیرہ ہی قابل تحریر ہیں ۔ اس ضمن میں ایک بات یہ جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کچھ الفاظ کے معنی زمانے کے لحاظ سے بدل جاتے ہیں ۔ اس صورت میں اعتبار زمانی معنوں ہی کا ہوگا ۔ مثال کے طور پر بھڑوا در حقیقت مڈل مین کو کہتے ہیں جو کرایہ وصول کرتا ہے ۔ یہ لفظ شاید اپنی ابتدا میں اتنا معیوب نہ تھا لیکن آج یہ معیوب سمجھا جاتا ہے چنانچہ اس لفظ کے استعمال کا فیصلہ آج کے معنوں کے لحاظ سے ہوگا ۔

5 ۔ کسی برے عمل سے منسوب کرنا جیسے شرابی ، زانی ، قاتل ، لٹیرا ، دہشت گرد ، چور وغیرہ ۔
6 ۔ کسی جانور سے منسوب کرنا جیسے کتا ، گدھا ، سور ، الو ، لومڑی ، بھیڑیا وغیرہ کہنا ۔

7 ۔ کسی غیر مرئی مخلوق سے منسلک کرنا جیسے شیطان ، چڑیل ، بھوت ، جن ، بدروح وغیرہ کہنا ۔

8 ۔ کسی برے روئیے سے منسوب کرنا جیسے مغرور ، بدخصلت ، لالچی ، بخیل ، ذلیل ، چمچہ ، کنجوس ، خود غرض ، فضول خرچ ، عیاش وغیرہ کہنا ۔

9 ۔ عمر کی بنیاد پر القاب بنانا جیسے کسی کو انکل ، آنٹی ، چچا ، ماموں ، ابا ، اماں ، باجی وغیرہ کہنا ۔ خاص طور پر خواتین اس معاملے میں زیادہ حساس ہوتی ہیں ۔ چنانچہ لوگوں مخاطب کرتے وقت ایسے القاب سے گریز کیا جائے جو ان کی عمر کی زیادتی کی علامت ہوں اور وہ اس سے چڑتے ہوں ۔

10 ۔ کسی کی چڑ بنالینا اور وقتاً فوقتاً اس چڑ سے اسے تنگ کرنا ۔

11 ۔ پیشے کی بنیاد پر القاب سے نوازنا جیسے کسی کو موچی ، بھنگی ، ڈنگر ڈاکٹر، ماسٹر،ہاری وغیرہ کہنا ۔

​کسی کو عرف یعنی نک نیم سے پکارنا بالکل جائز نہیں ۔ برے لقب سے پکارنے کا گناہ سرزد ہونے کےلیے اوپر بیان کی گئی تینوں شرائط کا بیک وقت پورا ہونا لازمی ہے ۔ برے لقب سے مخاطب کرنے کا مقصد کسی کی عزت افزائی ہوتا ہے ۔ اگر نیت ایذا دینےکی نہ ہو اور سننے والے کو بھی لقب برا نہ لگے تو اس صورت میں کسی بھی لقب سے بلانا جائز ہے ۔ سنن ابو داؤد کی حدیث کے الفاظ ہیں ” مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں ۔ (صحیح بخاری جلد اول حدیث نمبر 9،چشتی)

ایک شخص بہت کالا ہے اور کلو کے لقب سے مشہور ہے ۔ اسے کوئی شخص طنز و تحقیر کی نیت سے مخاطب کرتا ہے ” ابے او کلو ! ذرا ادھر تو آ ۔ اس طرح کلو کہنا برے لقب سے مخاطب کرنا ہے کیونکہ مقصد تحقیر ہے ۔ رفعت نے منورہ کی چالاکی کو بیان کرنے کےلیے اسے لومڑی کہا ۔ یہ برے نام سے منسوب کرنے کا عمل ہے ۔ کسی خاتون نے اپنی کزن کے حسن کی تعریف کرتے ہوئے کہا ” بھئی آج تو تم چاند لگ رہی ہو ۔ وہ سمجھی کہ اس نے چاند کہہ کر اس کا مذاق اڑایا ہے اور وہ برا مان گئی ۔ جبکہ اس کا چاند سے موسوم کرنا برے القاب سے پکارنے میں نہیں آتا کیونکہ نہ تو اس کی نیت تحقیر کی تھی ، نہ چاند کہنے میں کوئی برائی ہے ۔ جبکہ اس کی کزن کا برا ماننا ناحق ہے اور غلط فہمی کی وجہ سے ہے ۔ کسی نے مسلکی فرق کی بنا پر اپنے پڑوسی کو اس کی غیر موجودگی میں غلط طور پر “کافر” کہہ دیا ۔ یہ کلام غیبت بھی ہے اور اس میں برے لقب سے منسوب کرنے کا گناہ بھی شامل ہے ۔ اسکول میں بچوں نے ایک موٹے عینک والی بچی کو ” پروفیسر” کے لقب سے موسوم کر دیا جس سے وہ بچی چڑتی تھی ۔ بچی کو پروفیسر کہنا غلط لقب سے موسوم کرنے کے مترادف نہیں ہے ۔

مذکورہ بالا حصّہ اوّل اور دوم میں قرآن و احادیث کے دلائل اور آئمہ علیہم الرحمہ کی تصریحات سے واضح ہوا کہ کسی بھی مسلمان کا مذاق اڑانا ، عیب جوئی کرنا ، طعنہ زنی کرنا اور برے القاب یا ناموں سے پکارنا شرعاً حرام ہے ۔ لہٰذا موجودہ صورتحال میں پاکستانی سیاستدانوں ، حکمرانوں اور زعماء کو چاہیے کہ وہ زبان و بیان کا استعمال سوچ سمجھ کر کریں ۔ یہ لوگ عوام الناس کےلیے رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ جیسا کہ عربی کا مقولہ ہے : لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں ۔ اس لیے سیاستدانوں ، حکمرانوں اور زعماٸے ملت کو بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

کسی کا مذاق اڑانا ، نام بگاڑنا اور برے القابات سے پکارنا حصّہ اوّل

کسی کا مذاق اڑانا ، نام بگاڑنا اور برے القابات سے پکارنا حصّہ اوّل
محترم قارئینِ کرام : کسی کی تحقیر کرنے اور اذیت پہنچانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے ایسے لقب سے منسوب کیا جائے جس سے اسے تکلیف یا اذیت پہنچے۔ مثال کے طور پر کسی کو لنگڑا یا لولا کہہ کر اسے دکھ پہنچایا جائے ۔ اس روئیے سے تعلقات متاثر ہوتے اور تلخی پیدا ہوجاتی ہے ۔ اگر مخاطب کمزور ہو تو نتیجہ اس کی دل آزاری اور نفسیاتی اذیت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے ۔ دوسری جانب اگر مخاطب طاقتور ہو تو وہ بھی اسی قسم کے القابات سے بولنے والے کو نوازتا ہے اور بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے ۔ اسی بنا پر مہذب معاشروں میں اس قسم کا رویہ قابلِ مذمت ہوتا ہے ۔ اس اخلاقی قباحت کی بنا پر اس روئیے کی قرآن و حدیث میں سختی سے مذمت کی گئی ہے ۔ برے القاب سے کسی کو پکارنا درحقیقت ایک اذیت دینے کا عمل ہے اور اذیت دینے کی احادیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ۔ کسی کا نام بگاڑنا یعنی ایسے نام سے پکارنا جو اسے بُرا لگتا  ہو مثلاً لمبُو ، کالُو ، موٹُو وغیرہ کہنا گناہ ہے ۔ کسی مسلمان کو بُرے لقب سے پکارنا قرآن مجید کی آیت کی رو سے حرام اور سخت گناہ ہے ۔ بلا وجہ شرعی کسی بھی شخص کو بُرا بھلا کہنا جو اس کے دل شکنی کا باعث بنے حرام ہے ۔ اللہ عزوجل نے ہمیں اس سے منع فرمایا ہے قرآنِ کریم میں ہے : وَ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ-وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ ۔ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِۚ-وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ ۔
ترجمہ : اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے دُور نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو کیا ہی بُرا نام ہے مسلمان ہوکر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں تو وہی ظالم ہیں ۔ (سورہ الحجرات آیت نمبر 11)

اس آیت میں واضح طور پر اس روئیے کو برا سمجھا گیا اور اس کی مذمت کی گئی ہے اور جو لوگ اس سے باز نہ آئیں انہیں ظالموں کی صف میں شامل کیا گیا ہے ۔ لہٰذا دوسروں کا نام بگاڑنے سے بچئے! اور جو بگاڑتا ہے اسے نرمی سے منع کیجیے ۔ نقلیں اتارنا : کسی کے چلنے ، بات کرنےیا پھر ہاتھ وغیرہ ہلانے کا طریقہ دیکھ کر بعض بچےاس  کے سامنے اس کی نقل اتارتے ہیں جس سے سامنے والے کا دل دُکھتا اور اسے اذِیّت ہوتی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے مسلمان کو تکلیف دی گویا اس نے مجھے تکلیف دی او رجس نے مجھے تکلیف دی گویا اس نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کوتکلیف دی ۔ (معجمِ اوسط،ج2،ص386 ،حدیث: 3607)

لہٰذا دوسروں کی نقلیں اتارنے سے بچیے ۔ دوسروں سے مانگ کر چیز کھانا : بعض بچوں میں ایک بری عادت یہ بھی پائی جاتی ہے کہ وہ دوسروں سے مانگ کر چیزیں کھاتے ہیں جو کہ اچھی عادت نہیں ہے اس سے ان  کا  وقار (Image) بھی خراب ہوتا ہے اور اس بری عادت کی وجہ سے دوسرے بچے  ان  کے ساتھ بیٹھ کر کھانا  پینا بھی پسند نہیں کرتے ۔ ایسے بچوں کو چاہیے کہ کھانے کی چیزیں اپنے گھر سے لے کر جائیں اور دوسروں سے مانگ کرمت کھائیں ۔

برے القاب سے کسی کو پکارنا درحقیقت ایک اذیت دینے کا عمل ہے اور اذیت دینے کی احادیث میں سختی سے ممانعت کی گئی ہے ۔ جیسا کہ اس حدیث میں بیان ہوتا ہے : مسلمان کو اذیت نہ دو انہیں عار نہ دلاؤ اور ان میں عیوب مت تلاش کرو۔ کیونکہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیب جوئی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی عیب گیری کرتا ہےاور جس کی عیب گیری اللہ تعالیٰ کرنے لگے وہ ذلیل ہو جائے گا ۔ اگرچہ وہ اپنے گھر کے اندر ہی کیوں نہ ہو ۔ (جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2121،چشتی)

تفسیر الطبرى میں ہے کہ " و الذی هو أولى الأقوال فی تأويل ذلك عندی بالصواب أن يقال : إن الله تعالى ذكره نهى المؤمنين أن يتنابزوا بالألقاب و التنابز بالألقاب : هو دعاء المرء صاحبه بما يكرهه من اسم أو صفة ، و عمّ الله بنهية ذلك ، و لم يخصص به بعض الألقاب دون بعض ، فغير جائز لأحد من المسلمين أن ينبز أخاه باسم يكرهه ، أو صفة يكرهها و إذا كان ذلك كذلك صحت الأقوال التی قالها أهل التأويل فی ذلك التی ذكرناها كلها ، و لم يكن بعض ذلك أولى بالصواب من بعض ، لأن كلّ ذلك مما نهى الله المسلمين أن ينبز بعضهم بعضًا " اھ ۔ (تفسیر طبری ج 22 ص 302 ) 

فتاوی رضویہ میں ہے کہ : کسی مسلمان بلکہ کافر ذمی کو بھی بلا حاجت شرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو اسے ایذاء پہنچے شرعاً ناجائز و حرام ہے اگرچہ بار فی نفسہ سچی ہو " فان كل حق صدق و ليس كل صدق حقا " اھ یعنی ہر حق سچ ہے مگر ہر سچ حق نہیں ۔ ابن السنی عمیر بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : من دعا رجلا بغير اسمه لعنته الملائكة فی التيسير أی بلقب يكرها لا بنحو يا عبد الله " اھ یعنی جو شخص کسی کو اس کا نام بدل کر پکارے فرشتے اس پر لعنت کریں تیسیر میں ہے یعنی کسی بد لقب سے جو اسے برا لگے نہ کہ اے بندہ خدا وغیرہ سے " اھ ۔ (التیسیر شرح الجامع الصغیر جلد 2 صفحہ 416 : مکتبہ امام شافعی ریاض،چشتی) 

طبرانی معجم اوسط میں بسند حسن انس رضی اللہ عنہ سے راوی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : من أذا مسلما فقد آذانی و من آذانی فقد آذای الله " اھ یعنی جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ عزوجل کو ایذا دی " اھ ۔ (المعجم الاوسط جلد 4 صفحہ 373 رقم حدیث نمبر 3632 مکتبہ المعارف ریاض) 

بحر الرائق و در مختار میں ہے کہ : فى القنية : قال ليهودى او مجوسى يا كافر ياثم ان شق عليه و مقتضاه ان يعزر لارتكابه الاثم " اھ  ، یعنی جس نے کسی ذمی یہودی یا مجوسی سے کہا اے کافر اور یہ بات اسے گراں گزری تو کہنے والا گہنگار ہوگا اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے تعزیر کی جائے گی " اھ ۔ (در مختار جلد 1 صفحہ 329 کتاب الحدود باب التعزیر مطبوعہ مجتبائی دہلی بحوالہ فتاوی رضویہ جلد 23 صفحہ 204 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں ۔ (صحیح بخاری جلد اول حدیث نمبر 9)

برے القابات سے پکارنا بدگوئی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیث میں بیان ہوتا ہے ۔ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔ (صحیح بخاری جلد سوم حدیث نمبر 977)

برے ناموں سے منسوب کرنا درحقیقت مسلمان کی عزت کی اس قدر حرمت ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے ، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ۔ (صحیح بخاری جلد دوم حدیث نمبر 440،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ : مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان ایذا نہ پائیں ۔ (صحیح بخاری جلد اول حدیث نمبر 9)

برے القابات سے پکارنا بدگوئی کا ایک پہلو ہے جس کے بارے میں حدیثِ مبارکہ میں ہے : جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے ۔ (صحیح بخاری جلد سوم حدیث نمبر 977) 

برے ناموں سے منسوب کرنا درحقیقت مسلمان کی عزت کی اس قدر حرمت ہے کہ جو کوئی اس حرمت کو نقصان پہنچائے ، اس کی نمازیں تک قبول نہیں ہوتیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے : جو کوئی کسی مسلمان کی آبروریزی کرتا ہے تو اس پر اللہ فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہوتی ہے اس کی نفل اور فرض عبادت قبول نہیں ہوتی ۔ (صحیح بخاری جلد دوم حدیث نمبر 440،چشتی)

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں  : حضرت ثابت بن قیس بن شماس رَضِیَ اللہ عَنْہُ اونچا سنتے تھے ، جب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی مجلس شریف میں  حاضر ہوتے تو صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ انہیں  آگے بٹھاتے اور اُن کےلیے جگہ خالی کردیتے تاکہ وہ حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب حاضر رہ کر کلام مبارک سن سکیں  ۔ایک روز انہیں حاضری میں  دیر ہوگئی اور جب مجلس شریف خوب بھر گئی اس وقت آپ تشریف لائے اور قاعدہ یہ تھا کہ جو شخص ایسے وقت آتا اور مجلس میں  جگہ نہ پاتا تو جہاں  ہوتا وہیں کھڑا رہتا ۔ لیکن حضرت ثابت رَضِیَ اللہ عَنْہُ آئے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قریب بیٹھنے کےلیے لوگوں  کو ہٹاتے ہوئے یہ کہتے چلے کہ ’’جگہ دو جگہ‘‘ یہاں  تک کہ حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ اُن کے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے درمیان میں  صرف ایک شخص رہ گیا ، انہوں نے اس سے بھی کہا کہ جگہ دو، اس نے کہا : تمہیں  جگہ مل گئی ہے اس لیے بیٹھ جاٶ ۔حضرت ثابت رَضِیَ اللہ عَنْہُ غصّہ میں  آکر اس کے پیچھے بیٹھ گئے ۔ جب دن خوب روشن ہوا تو حضرت ثابت رَضِیَ اللہ عَنْہُ نے اس کا جسم دبا کر کہا : کون ؟ اس نے کہا : میں  فلاں  شخص ہوں ۔ حضرت ثابت رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی ماں  کا نام لے کر کہا: فلانی کا لڑکا ۔ اس پر اس شخص نے شرم سے سرجھکالیا کیونکہ اس زمانے میں  ایسا کلمہ عار دلانے کے لئے کہا جاتا تھا ، اس پر مذکورہ آیت نازل ہوئی ۔

حضر ت ضحاک رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : یہ آیت بنی تمیم کے ان افراد کے بارے میں  نازل ہوئی جو حضرت عمار ، حضرت خباب ، حضرت بلال ، حضرت صہیب ، حضرت سلمان اور حضرت سالم وغیرہ غریب صحابہ ٔکرام  رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ کی غُربَت دیکھ کر ان کا مذاق اُڑایا کرتے تھے ۔ ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ مرد مَردوں  سے نہ ہنسیں ، یعنی مال دار غریبوں  کا ، بلند نسب والے دوسرے نسب والوں کا،تندرست اپاہج کا اور آنکھ والے اس کا مذاق نہ اُڑائیں  جس کی آنکھ میں  عیب ہو ، ہو سکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں  سے صدق اور اخلاص میں  بہتر ہوں ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ : ۱۱، ۴ / ۱۶۹،چشتی)

آیت کے دوسرے شانِ نزول سے معلوم ہو اکہ اگر کسی شخص میں  فقر، محتاجی اور غریبی کے آثار نظر آئیں  تو ان کی بنا پرا س کا مذاق نہ اڑایا جائے ، ہو سکتا ہے کہ جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے وہ مذاق اڑانے والے کے مقابلے میں  دینداری کے لحاظ سے کہیں  بہتر ہو ۔

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کتنے ہی لوگ ایسے ہیں  جن کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہوتے ہیں ، ان کے پاس دو پُرانی چادریں  ہوتی ہیں اور انہیں کوئی پناہ نہیں دیتا (لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں  ان کا رتبہ ومقام یہ ہوتا ہے کہ) اگروہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھالیں (کہ اللہ تعالیٰ فلاں کام کرے گا) تو اللہ تعالیٰ (وہ کام کر کے) ان کی قسم کو سچا کر دیتا ہے ۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب باب مناقب البراء بن مالک رضی اللّٰہ عنہ ، ۵ / ۴۵۹، الحدیث: ۳۸۸۰)

حضر ت حارث بن وہب خزاعی رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا میں  تمہیں  جنتی لوگوں  کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ یہ ہر وہ شخص ہے جو کمزور اور (لوگوں  کی نگاہوں میں) گرا ہوا ہے ، اگر وہ اللہ تعالیٰ پر قسم کھا لے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی قسم سچی کر دے گا ۔ (جامع ترمذی کتاب صفۃ جہنّم ، ۱۳-باب، ۴ / ۲۷۲، الحدیث: ۲۶۱۴،چشتی)

وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ : اور نہ عورتیں  دوسری عورتوں  پر ہنسیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں  سے بہتر ہوں ۔

شانِ نزول : آیت ِمبارکہ کے اس حصے کے نزول سے متعلق دو رِوایات درج ذیل ہیں  : ⬇

حضر ت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ عَنْہُنَّ کے متعلق نازل ہوئی ہے ، انہوں  نے حضرت ِاُمِّ سلمہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا  کو چھوٹے قد کی وجہ سے شرمندہ کیا تھا ۔

حضرت عبداللہ بن عبا س رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا فرماتے ہیں  : آیت کا یہ حصہ اُمُّ المومنین حضرت صفیہ بنت حُیَی رَضِیَ اللہ عَنْہَا کے حق میں  اس وقت نازل ہوا جب انہیں  حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک زوجۂ مُطَہَّرہ نے یہودی کی بیٹی کہا ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ : ۱۱، ۴ / ۱۶۹)

اس واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں  : اُمُّ المومنین حضرت صفیہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا کو معلوم ہوا کہ حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا نے انہیں  یہودی کی لڑکی کہا ہے ، (اس پر انہیں  رنج ہوا اور) آپ رونے لگیں  ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور انہیں  روتا ہوا پایا تو ارشاد فرمایا ’’ تم کیوں  رو رہی ہو ؟ عرض کی : حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا نے مجھے یہودی کی لڑکی کہا ہے ۔ حضورِ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا ’’ تم نبی زادی ہو ، تیرے چچا نبی ہیں  اور نبی کی بیوی ہو ، تو تم پر وہ کیا فخر کرتی ہیں  اور حضرت حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا سے فرمایا ’’ اے حفصہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا اللہ تعالیٰ سے ڈرو ۔ (جامع ترمذی کتاب المناقب باب فضل ازواج النّبی، ۵ / ۴۷۴، الحدیث: ۳۹۲۰)

آیتِ مبارکہ میں  عورتوں  کا جداگانہ ذکر اس لیے کیا گیا کہ عورتوں میں  ایک دوسرے کامذاق اُڑانے اور اپنے آپ کو بڑاجاننے کی عادت بہت زیادہ ہوتی ہے ،نیز آیت ِمبارکہ کا یہ مطلب نہیں  ہے کہ عورتیں  کسی صورت آپس میں ہنسی مذاق نہیں کر سکتیں بلکہ چند شرائط کے ساتھ ان کا آپس میں ہنسی مذاق کرنا جائز ہے ، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : (عورتوں  کی ایک دوسرے سے) جائز ہنسی جس میں نہ فحش ہو نہ ایذائے مُسلم ، نہ بڑوں کی بے ادبی ، نہ چھوٹوں سے بد لحاظی ، نہ وقت و محل کے نظر سے بے موقع ، نہ اس کی کثرت اپنی ہمسر عورتوں  سے جائز ہے ۔ (فتاوی رضویہ جلد ۲۳ صفحہ ۱۹۴)

مذاق اُڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اہانت اور تحقیر کےلیے زبان یا اشارات ، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اور دکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں  لے جانے والا کام ہے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ ۱۷۳،چشتی)

کثیر اَحادیث میں اس فعل سے ممانعت اور اس کی شدید مذمت اور شناعت بیان کی گئی ہے ، جیسا کہ حضرت عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی سے نہ جھگڑا کرو ، نہ اس کا مذاق اڑاٶ ، نہ اس سے کوئی ایسا وعدہ کرو جس کی خلاف ورزی کرو ۔ (جامع ترمذی کتاب البرّ والصّلۃ باب ما جاء فی المرائ ، ۳ / ۴۰۰، الحدیث: ۲۰۰۲)

اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ عَنْہَا سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا : میں  کسی کی نقل اتارنا پسند نہیں  کرتا اگرچہ اس کے بدلے میں مجھے بہت مال ملے ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الادب باب فی الغیبۃ ، ۴ / ۳۵۳، الحدیث: ۴۸۷۵)

حضرت امام حسن رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن لوگوں  کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آؤ آؤ ، تو وہ بہت ہی بے چینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے سامنے آئے گا مگر جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہو جائے گا ، پھر ایک دوسرا جنت کا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا : آؤ یہاں  آؤ ، چنانچہ یہ بے چینی اور رنج وغم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا ، اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ دروازہ کھلے گا اور پکار پڑے گی تو وہ نا امیدی کی وجہ سے نہیں جائے گا ۔ (اس طرح وہ جنت میں  داخل ہو نے سے محروم رہے گا) ۔ (موسوعۃ ابن ابی دنیا، الصّمت وآداب اللّسان، باب ما نہی عنہ العباد ان یسخر... الخ، ۷ / ۱۸۳، الحدیث: ۲۸۷،چشتی)

حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : کسی کو ذلیل کرنے کےلیے اور اس کی تحقیر کرنے کےلیے اس کی خامیوں کو ظاہر کرنا ، اس کا مذاق اڑانا ، اس کی نقل اتارنایا اس کو طعنہ مارنا یا عار دلانا یا اس پر ہنسنا یا اس کو بُرے بُرے اَلقاب سے یاد کرنا اور اس کی ہنسی اُڑانا مثلاً آج کل کے بَزَعمِ خود اپنے آپ کو عُرفی شُرفاء کہلانے والے کچھ قوموں  کو حقیر و ذلیل سمجھتے ہیں اور محض قومِیَّت کی بنا پر ان کا تَمَسْخُر اور اِستہزاء کرتے اور مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور قِسم قسم کے دل آزار اَلقاب سے یاد کرتے رہتے ہیں ،کبھی طعنہ زنی کرتے ہیں ، کبھی عار دلاتے ہیں ، یہ سب حرکتیں  حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والے کام ہیں ۔ لہٰذا ان حرکتوں  سے توبہ لازم ہے ، ورنہ یہ لوگ فاسق ٹھہریں  گے۔ اسی طرح سیٹھوں  اور مالداروں  کی عادت ہے کہ وہ غریبوں  کے ساتھ تَمَسْخُر اور اہانت آمیز القاب سے ان کو عار دلاتے اور طعنہ زنی کرتے رہتے ہیں اور طرح طرح سے ان کا مذاق اڑایا کرتے ہیں جس سے غریبوں  کی دل آزاری ہوتی رہتی ہے ، مگر وہ اپنی غُربَت اور مُفلسی کی وجہ سے مالداروں  کے سامنے دَم نہیں مار سکتے ۔ ان مالداروں کو ہوش میں آ جانا چاہیے کہ اگر وہ اپنے ان کَرتُوتوں  سے توبہ کر کے باز نہ آئے تو یقیناً وہ قہرِ قَہّار و غضبِ جَبّار میں  گرفتار ہو کر جہنم کے سزاوار بنیں گے اور دنیا میں ان غریبوں  کے آنسو قہرِ خداوندی کا سیلاب بن کر ان مالداروں  کے محلات کو خَس و خاشاک کی طرح بہا لے جائیں  گے ۔ (جہنم کے خطرات صفحہ ۱۷۵-۱۷۶)

یاد رہے کہ کسی شخص سے ایسا مذاق کرنا حرام ہے جس سے اسے اَذِیَّت پہنچے البتہ ایسا مذاق جوا سے خوش کر دے ، جسے خوش طبعی اور خوش مزاجی کہتے ہیں ،جائز ہے، بلکہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنت بھی ہے جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کبھی کبھی خوش طبعی کرنا ثابت ہے ، اسی لیے علماءِ کرام فرماتے ہیں  کہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنتِ مُسْتحبہ ہے ۔ (مراٰۃ المناجیح جلد ۶ صفحہ ۴۹۳-۴۹۴،چشتی)

امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ عَنْہُمْ قادر تھے کہ مزاح (یعنی خوش طبعی) کرتے وقت صرف حق بات کہو ، کسی کے دل کو اَذِیَّت نہ پہنچاؤ ، حد سے نہ بڑھو اور کبھی کبھی مزاح کرو تو تمہارے لیے بھی کوئی حرج نہیں  لیکن مزاح کو پیشہ بنا لینا بہت بڑی غلطی ہے ۔ (احیاء علوم الدین کتاب آفات اللّسان الآفۃ العاشرۃ المزاح جلد ۳ صفحہ ۱۵۹)

مزید فرماتے ہیں : وہ مزاح ممنوع ہے جو حد سے زیادہ کیا جائے اور ہمیشہ اسی میں  مصروف رہا جائے اور جہاں  تک ہمیشہ مزاح کرنے کا تعلق ہے تو اس میں  خرابی یہ ہے کہ یہ کھیل کود اور غیر سنجیدگی ہے ، کھیل اگرچہ (بعض صورتوں  میں) جائز ہے لیکن ہمیشہ اسی کام میں  لگ جانا مذموم ہے اور حد سے زیادہ مزاح کرنے میں خرابی یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زیادہ ہنسی پیدا ہوتی ہے اور زیادہ ہنسنے سے دل مر دہ ہوجاتا ہے ، بعض اوقات دل میں بغض پیدا ہو جاتا ہے اور ہَیبَت و وقار ختم ہو جاتا ہے ، لہٰذا جو مزاح ان اُمور سے خالی ہو وہ قابلِ مذمت نہیں  ، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک میں بھی مزاح کرتا ہوں اور میں (خوش طبعی میں) سچی بات ہی کہتا ہوں ۔ (معجم الاوسط باب الالف من اسمہ احمد جلد ۱ صفحہ ۲۸۳ الحدیث : ۹۹۵)

لیکن یہ بات تو آپ کے ساتھ خاص تھی کہ مزاح بھی فرماتے اور جھوٹ بھی نہ ہوتا لیکن جہاں تک دوسرے لوگوں کا تعلق ہے تو وہ مزاح اسی لیے کرتے ہیں کہ لوگوں کو ہنسائیں خواہ جس طرح بھی ہو ، اور (اس کی وعید بیان کرتے ہوئے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ ایک شخص کوئی بات کہتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے ہم مجلس لوگوں  کو ہنساتا ہے ، اس کی وجہ سے ثُرَیّا ستارے سے بھی زیادہ دور تک جہنم میں  گرتا ہے ۔ (مسند امام احمد ، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ، ۳ / ۳۶۶ ، الحدیث : ۹۲۳۱،چشتی)(احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، الآفۃ العاشرۃ المزاح، ۳ / ۱۵۸)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خوش طبعی

حضرت زید بن اسلم رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : حضرت اُمِّ ایمن رَضِیَ اللہ عَنْہَا نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا : میرے شوہر آپ کو بلا رہے ہیں ۔ ارشاد فرمایا ’’ کون ، وہی جس کی آنکھ میں سفیدی ہے ؟ عرض کی : اللہ تعالیٰ کی قسم ! ان کی آنکھ میں  سفیدی نہیں  ہے ۔ ارشاد فرمایا ’’ کیوں  نہیں ، بے شک اس کی آنکھ میں  سفیدی ہے ۔ عرض کی : اللہ تعالیٰ کی قسم ! ایسا نہیں  ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ کیاکوئی ایسا ہے جس کی آنکھ میں  سفیدی نہ ہو (آپ نے اس سے وہ سفیدی مراد لی تھی جو آنکھ کے سیاہ حلقے کے ارد گرد ہوتی ہے) ۔ (سبل الہدی والرشاد، جماع ابواب صفاتہ المعنویۃ الباب الثانی والعشرون فی مزاحہ... الخ، ۷ / ۱۱۴)

حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہم میں گھلے ملے رہتے ، حتّٰی کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے ’’ ابو عمیر ! چڑیا کا کیا ہوا ۔ (بخاری، کتاب الادب، باب الانبساط الی الناس، ۴ / ۱۳۴، الحدیث: ۶۱۲۹)

حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں  : ایک شخض نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے سواری مانگی تو ارشاد فرمایا ’’ ہم تمہیں اونٹنی کے بچے پر سوار کریں  گے ۔ اس نے عرض کی : میں  اونٹنی کے بچے کا کیا کروں  گا ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشادفرمایا ’’ اونٹ کو اونٹنی ہی تو جنم دیتی ہے ۔ (ترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ، باب ما جاء فی المزاح، ۳ / ۳۹۹، الحدیث: ۱۹۹۹،چشتی)

حضرت انس رَضِیَ اللہ عَنْہُ فرماتے ہیں  : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک بوڑھی عورت سے فرمایا : جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہ جائے گی ۔ انہوں  نے (پریشان ہو کر) عرض کی : تو پھر ان کا کیا بنے گا ؟ (حالانکہ) وہ عورت قرآن پڑھاکرتی تھی ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ کیا تم نے قرآن میں  یہ نہیں  پڑھا کہ : اِنَّاۤ اَنْشَاْنٰهُنَّ اِنْشَآءًۙ(۳۵) فَجَعَلْنٰهُنَّ اَبْكَارًا ۔ (سورہ واقعہ:۳۵،۳۶)
ترجمہ : بیشک ہم نے ان جنتی عورتوں کو ایک خاص انداز سے پیدا کیا ۔ تو ہم نے انہیں  کنواریاں  بنایا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب المزاح، الفصل الثانی، ۲ / ۲۰۰، الحدیث: ۴۸۸۸)

وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ : اورآپس میں  کسی کوطعنہ نہ دو ۔ یعنی قول یا اشارے کے ذریعے ایک دوسرے پر عیب نہ لگاٶ کیونکہ مومن ایک جان کی طرح ہے جب کسی دوسرے مومن پرعیب لگایاجائے گاتوگویااپنے پرہی عیب لگایاجائے گا ۔ (تفسیر روح المعانی، الحجرات الآیۃ : ۱۱ ، ۱۳ / ۴۲۴)

طعنہ دینے کی مذمت

حضرت ابودرداء رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بہت لعن طعن کرنے والے قیامت کے دن نہ گواہ ہوں  گے نہ شفیع ۔ (مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب النّہی عن لعن الدّواب وغیرہا، ص۱۴۰۰، الحدیث: ۸۵(۲۵۹۸))

حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ مومن نہ طعن کرنے والا ہوتا ہے ، نہ لعنت کرنے والا ، نہ فحش بکنے والا بے ہودہ ہوتا ہے ۔ (ترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ، باب ما جاء فی اللّعنۃ، ۳ / ۳۹۳، الحدیث: ۱۹۸۴)

وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ : اور ایک دوسرے کے برے نام نہ رکھو ۔ برے نام رکھنے سے کیا مراد ہے ا س کے بارے میں  مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں  ، ان میں  سے تین قول درج ذیل ہیں : ⬇

حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ عَنْہُمَا نے فرمایا ’’ ایک دوسرے کے برے نام رکھنے سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی آدمی نے کسی برائی سے توبہ کرلی ہو تو اسے توبہ کے بعد اس برائی سے عار دلا ئی جائے ۔ یہاں  آیت میں  اس چیز سے منع کیا گیا ہے ۔ حدیث ِپاک میں اس عمل کی وعید بھی بیان کی گئی ہے ، جیسا کہ حضر ت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے اپنے بھائی کواس کے کسی گناہ پر شرمندہ کیا تووہ شخص اس وقت تک نہیں  مرے گاجب تک کہ وہ اس گناہ کا اِرتکاب نہ کر لے ۔ (ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ...الخ، ۵۳-باب، ۴ / ۲۲۶، الحدیث: ۲۵۱۳،چشتی)

بعض علماء نے فرمایا ’’ برے نام رکھنے سے مراد کسی مسلمان کو کتا ،یا گدھا، یا سور کہنا ہے ۔

بعض علماء نے فرمایا کہ اس سے وہ اَلقاب مراد ہیں جن سے مسلمان کی برائی نکلتی ہو اور اس کو ناگوار ہو (لیکن تعریف کے القاب جو سچے ہوں  ممنوع نہیں ، جیسے کہ حضرت ابوبکر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا لقب عتیق اور حضرت عمر رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا فاروق اور حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا ذوالنُّورَین اور حضرت علی رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا ابوتُراب اور حضرت خالد رَضِیَ اللہ عَنْہُ کا سَیْفُ اللہ تھا) اور جو اَلقاب گویا کہ نام بن گئے اور اَلقاب والے کو ناگوار نہیں  وہ القاب بھی ممنوع نہیں ، جیسے اَعمَش اور اَعرَج وغیرہ ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ: ۱۱، ۴ / ۱۷۰)

بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ : مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے ۔ ارشاد فرمایا : مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا کیا ہی برا نام ہے تو اے مسلمانو ، کسی مسلمان کی ہنسی بنا کر یا اس کو عیب لگا کر یا اس کا نام بگاڑ کر اپنے آپ کو فاسق نہ کہلاؤ اور جو لوگ ان تمام افعال سے توبہ نہ کریں  تو وہی ظالم ہیں ۔ (تفسیر خازن سورہ الحجرات الآیۃ : ۱۱، ۴ / ۱۷۰)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ ‘‘ اس آیت سے تین مسئلے معلوم ہوئے

(1) ۔ مسلمانوں  کی کوئی قوم ذلیل نہیں ،ہر مومن عزت والا ہے ۔

(2) ۔ عظمت کا دار و مدار محض نسب پر نہیں  تقویٰ و پرہیز گاری پر ہے ۔

(3) ۔ مسلمان بھائی کو نسبی طعنہ دینا حرام اور مشرکوں کا طریقہ ہے آج کل یہ بیماری مسلمانوں میں عام پھیلی ہوئی ہے۔ نسبی طعنہ کی بیماری عورتوں میں زیادہ ہے ، انہیں اس آیت سے سبق لینا چاہیے نہ معلوم بارگاہِ الٰہی میں کون کس سے بہتر ہو ۔

بہت سے لوگ زیادہ تر اپنے دوستوں کو برے ناموں سے پکارتے ہے ، اور یقیناً ایسا کرنے سے ہر کسی کا دل دکھتا ہے اپ خود اپنے ساتھ سوچو اگر کوئی آپ کو آپ کے نام کے علاوہ کسی اور نام سے پکارتے ہے تو اپ خود کیسے react کرتے ہیں ، ہر کسی کو برا لگتا ہے ۔ تو ہمیں چاہیے کہ ایسا نہ کرے اور اگر اب تک کرتے آرہے ہیں تو ان دوستوں سے معافی مانگے کیونکہ یہ ایک گنا ہے اور آئندہ سے لوگو کو اچھے اچھے القابات اور ناموں سے پکارے ۔
اللہ ہم کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...