اسلام اور اقلیتوں کے حقوق حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
2۔ قانون کے نفاذ میں مساوات کا حق
اسلامی ریاست میں تعزیرات میں ذمی اور مسلمان کا درجہ مساوی ہے۔ جرائم کی جو سزا مسلمان کو دی جائے گی وہی ذمی کو بھی دی جائے گی۔ ذمی کا مال مسلمان چرائے یا مسلمان کا مال ذمی چرائے دونوں صورتوں میں سزا یکساں ہوگی۔
ابويوسف، کتاب الخراج : 108، 109
دیوانی قانون میں بھی ذمی اور مسلمان کے درمیان کامل مساوات ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد اموالھم کاموالنا (1) کے معنی ہی یہ ہیں کہ ان کے مال کی ویسی ہی حفاظت ہونی چاہیے جیسی مسلمانوں کے مال کی ہوتی ہے۔ اس باب میں ذمیوں کے حقوق کا اتنا لحاظ رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان ان کی شراب یا ان کے خنزیر کو بھی تلف کر دے تو اس پر ضمان لازم آئے گا۔ در المختار میں ہے:
و يضمن المسلم قيمة خمره و خنزيره اذا اتلفه.(2)
’’مسلمان اس کی شراب اور اس کے سور کی قیمت ادا کرے گا اگر وہ اسے تلف کر دے۔‘‘
(1) ابن قدامه، المغني، 9 : 289
(2) 1. حصکفي، الدرالمختار، 2 : 223
2. ابن عابدين شامي، رد المحتار، 3 : 273
ذمی کو زبان یا ہاتھ پاؤں سے تکلیف پہنچانا، اس کو گالی دینا، مارنا پیٹنا یا اس کی غیبت کرنا، اسی طرح ناجائز ہے جس طرح مسلمان کے حق میں ناجائز ہے۔ :
و يجب کف الاذي عنه و تحرم غيبته کالمسلم.
’’غیر مسلم سے اذیت کو روکنا اسی طرح واجب ہے جس طرح مسلمان سے اور اس کی غیبت کرنا بھی اسی طرح حرام ہے۔‘‘
1. حصکفي، الدرالمختار، 2 : 223
2. ابن عابدين شامي، الدالمحتار، 3 : 273. 274
3۔ نجی زندگی اور شخصی رازداری کا حق
مملکت اسلامیہ میں ہر فرد کو نجی زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے کہ کوئی شخص بغیر اس کی اجازت اور رضا مندی کے اس کے گھر میں داخل نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ ہر شخص کا مکان نجی اور پرائیویٹ معاملات کا مرکز اور اس کے بال بچوں کا مستقر ہوتا ہے۔ اس حق پر دست درازی خود فرد کی شخصیت پر دست درازی ہے اور یہ کسی طرح جائز نہیں۔ گھروں میں بغیر اجازت داخل ہونے کی صریح ممانعت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَO فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فِيهَا أَحَدًا فَلَا تَدْخُلُوهَا حَتَّى يُؤْذَنَ لَكُمْ وَإِن قِيلَ لَكُمُ ارْجِعُوا فَارْجِعُوا هُوَ أَزْكَى لَكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌO
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، جب تک کہ گھر والوں کی رضا نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو۔ یہ طریقہ تمہارے لیے بہتر ہے، توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گےo پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو وہاں داخل نہ ہو جب تک کہ تمہیں اجازت نہ دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہےo‘‘
القرآن، النور، 24 : 27، 28
اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی نجی زندگی اور شخصی رازداری کا حق اسی طرح حاصل ہے جس طرح مسلمانوں کو؛ اس لیے کہ اسلامی قانون نے ان کے لیے یہ اُصول طے کیا ہے کہ جو حقوق مسلمانوں کو حاصل ہیں وہ ان کو بھی حاصل ہوں گے اور جو ذمہ داریاں مسلمانوں پر ڈالی گئی ہیں وہ ان پر بھی ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بقول ان سے جزیہ اس لیے لیا جاتا ہے تاکہ ان کے جان و مال کی اسی طرح حفاظت کی جاسکے جس طرح ہمارے جان و مال کی حفاظت ہوتی ہے۔
ابن قدامه، المغنی، 9 : 289
4۔ مذہبی آزادی کا حق
اسلام خدائے واحد کی بندگی کی دعوت دیتا ہے لیکن دوسرے مذاہب کے لوگوں پر اپنے عقائد بدلنے اور اسلام قبول کرنے کے لیے دباؤ نہیں ڈالتا، نہ کسی جبر و اکراہ سے کام لیتا ہے۔ دعوتِ حق اور جبر و اکراہ بالکل الگ حقیقتیں ہیں۔ اسلام کے پیغام حق کے ابلاغ کا قرآنِ حکیم نے یوں بیان کیا :
اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَO
’’(اے رسول معظم!) آپ اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو بے شک آپ کا رب اس شخص کو (بھی) خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہ ہدایت یافتہ لوگوں کو (بھی) خوب جانتا ہےo‘‘
القرآن، النحل، 16 : 125
اسلام نے ایسے طریق دعوت سے منع کیا جس سے کسی فریق کی مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہو، دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ.
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے۔‘‘
القرآن، البقره، 2 : 256
شریعت کی یہ حکمت عملی ہے کہ غیر مسلموں کو ان کے مذہب و مسلک پر برقرار رہنے کی پوری آزادی ہوگی۔ اسلامی مملکت ان کے عقیدہ و عبادت سے تعرض نہ کرے گی۔ اہلِ نجران کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو خط لکھا تھا اس میں یہ جملہ بھی درج تھا :
ولنجران وحاشيتهم جوار اﷲ و ذمة محمد النبي رسول اﷲ علي انفسهم وملتهم و ارضهم و اموالهم و غائبهم و شاهدهم و بيعهم و صلواتهم لا يغيروا اسقفاعن اسقفيته ولا راهبا عن رهبانية ولا و اقفا عن و قفانيته وکل ما تحت ايديهم من قليل اوکثير.
’’نجران اور ان کے حلیفوں کو اللہ اور اُس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پناہ حاصل ہے۔ ان کی جانیں، ان کی شریعت، زمین، اموال، حاضر و غائب اشخاص، ان کی عبادت گاہوں اور ان کے گرجا گھروں کی حفاظت کی جائے گی۔ کسی پادری کو اس کے مذہبی مرتبے، کسی راہب کو اس کی رہبانیت اور کسی صاحب منصب کو اس کے منصب سے ہٹایا نہیں جائے گا اور ان کی زیر ملکیت ہر چیز کی حفاظت کی جائے گی۔‘‘
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 228، 358
2. ابويوسف، کتاب الخراج : 78
مختلف ادوار میں گرجا گھر اور کلیسے اسلامی حکومت میں موجود رہے ہیں۔ کبھی بھی انہیں ادنیٰ گزند تک نہیں پہنچائی گئی بلکہ حکومت نے ان کی حفاظت کی ہے اور غیر مسلموں کو ان میں عبادات کی انجام دہی کے لیے سہولیات فراہم کی ہیں۔
اقلیتوں کے شخصی معاملات بھی ان کی شریعت (personal law) کے مطابق طے کیے جائیں گے، اسلامی قانون ان پر نافذ نہیں کیا جائے گا۔ جن افعال کی حرمت ان کے مذہب میں بھی ثابت ہے ان سے تو وہ ہر حال میں منع کیے جائیں گے، البتہ جو افعال ان کے ہاں جائز اور اسلام میں ممنوع ہیں انہیں وہ اپنی بستیوں میں آزادی کے ساتھ کرسکیں گے اور خالص اسلامی آبادیوں میں حکومت اسلامیہ کو اختیار ہوگا کہ انہیں آزادی دے یا نہ دے :
ولا يمنعون من اظهار شيئ مما ذکرنا من بيع الخمر والخنزير والصليب وضرب الناقوس في قرية او موضع ليس من امصار المسلمين ولو کان فيه عدد کثير من أهل الاسلام وانما يکره ذلک في امصار المسلمين و هي التي يقام فيها الجمع والاعياد و الحدود، و اما اظهار فسق يعتقدون حرمته کا لزنا و سائر الفواحش التي هي حرام في دينهم فانهم يمنعون من ذلک سواء کانوا في امصار المسلمين او في امصارهم.
’’جو بستیاں اور مقامات مسلمانوں کے شہروں میں سے نہیں ہیں ان میں ذمیوں کو شراب و خنزیر بیچنے اور صلیب نکالنے اور ناقوس بجانے سے نہیں روکا جائے گا خواہ وہاں مسلمانوں کی کتنی ہی کثیر تعداد آباد ہو۔ البتہ یہ افعال مسلمان آبادی کے شہر میں مکروہ ہیں جہاں جمعہ وعیدین اور حدود قائم کی جاتی ہوں۔ رہا وہ فسق جس کی حرمت کے وہ بھی قائل ہیں، مثلا زنا اور دوسرے تمام فواحش جو ان کے دین میں بھی حرام ہیں تو اس کے اظہار سے ان کو ہرحال میں روکا جائیگا خواہ مسلمانوں کے شہر میں ہوں یا خود ان کے اپنے شہر میں۔‘‘ کاسانی، بدائع الصنائع، 7 : 113
یعنی اقلیتیں اپنی قدیم عبادت گاہوں کے اندر رہ کر اپنے تمام مذہبی اُمور بجا لا سکتے ہیں، حکومتِ اسلامیہ اس میں دخل دینے کی مجاز نہیں ہے۔ تاہم اس ذیل میں اقلیتوں کو مسلمانوں کے شعائر مذہبی کے احترام کو ملحوظ رکھنا ہو گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ :
أيما مصر مصرته العرب فليس للعجم ان يبنوا فيه بناء بيعة ولا يضربوا فيه ناقوسا ولا يشربوا فيه خمراً ولا يتخذوا فيه خنزيراً أيما مصر کانت العجم مصرته يفتحه اﷲ علي العرب فنزلوا علي حکمهم فللعجم ما في عهدهم وللعجم علي العرب ان يوفوا بعهدهم.
’’جن شہروں کو مسلمانوں نے آباد کیا ہے ان میں ذمیوں کو یہ حق نہیں ہے کہ نئی عبادت گاہیں اور کنائس تعمیر کریں، یا ناقوس بجائیں، شرابیں پئیں اور سور پالیں۔ باقی رہے وہ شہر جو عجمیوں کے آباد کیے ہوئے ہیں اور جن کو اللہ نے عربوں (یعنی مسلمانوں) کے ہاتھ پر فتحیاب کیا اور انہوں نے مسلمانوں کے حکم پر اطاعت قبول کر لی تو عجم کے لیے وہی حقوق ہیں جو ان کے معاہدے میں طے ہو جائیں اور عرب پر ان کا ادا کرنا لازم ہے۔‘‘
1. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 467، رقم : 32982
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 202
3. ابن قدامه، المغني، 9 : 283
4. زرعي، احکام اهل الذمه، 3 : 1181، 1195، 1235
5. ابن ضويان، منار السبيل، 1 : 283
مرتد کی سزا اور آزادیء عقیدہ
وہ مسلمان جو دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے اس کا معاملہ اقلیتوں سے مختلف ہو گا۔ اگر کوئی مسلمان احکام اسلام کا پابند ہونے اور اس کے عقیدہ پر ایمان لانے کے بعد اگر اس سے پلٹتا ہے تو وہ گویا اس ارتداد سے فتنہ کا دروازہ کھول دیتا ہے اور مملکت سے بغاوت کرتا ہے جو موجب سزا ہے اس لیے کہ وفائے عہد سے برگشتگی ملکی قانون سے بغاوت اور بہت بڑا جرم ہے اور یہ امردورِ جدید کے قانون میں بھی معروف و متعین ہے۔ جسکی سزا اکثر ریاستی قوانین میں موت مقررکی گئی ہے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment