Friday 2 October 2015

اسلام اور اقلیتوں کے حقوق حصّہ چہارم

اسلام اور اقلیتوں کے حقوق حصّہ چہارم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 ارتداد کی سزا کے نظائر دنیا کے اکثر آئینی و دساتیری قوانین میں موجود ہیں۔ اسلام نے مرتد کو بھی سزا دینے سے قبل راہ راست کی قبولیت کا موقع پانے کا حق عطا کیا ہے۔ حضرت امام محمد بن حسن شیبانی فرماتے ہیں :

و اذا ارتد المسلم عن الاسلام عرض عليه الاسلام فان اسلم والا قتل مکانه الا ان يطلب ان يوجله، فان طلب ذلک اجل ثلاثة ايام.

’’اگر کوئی مسلمان اسلام سے برگشتہ ہوجائے تو اسے دوبارہ اسلام کی دعوت دی جائے گی۔ اگر وہ اسلام قبول کرلے تو خوب، بصورت دیگر اسے فوراً قتل کردیا جائے گا، تاہم اگر وہ غور و فکر کے لیے کچھ مہلت طلب کرے تو اسے تین دن کی مہلت دی جائے گی۔‘‘

شيباني، السيرالصغير : 38

اگر ارتداد کا ارتکاب عورت نے کیا ہو تو اسے مرد مرتد کی نسبت رجوع الی الحق کے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں گے :

ولا تقتل المرتدة ولکنها تحبس ابدا حتي تسلم بلعنا عن ابن عباس انه قال : اذا ارتدت المرأة عن الاسلام حبست ولم تقتل و بلغنا عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم انه نهي عن قتل نساء المشرکين في الحرب فادر ألقتل عنها بهذا ومالها و کسوتها کله لها. وافعالها في البيع والشريٰ والعتق والهبة کلها جائزة.

’’مرتد ہوجانے والی عورت کو سزائے موت نہیں دی جائے گی بلکہ اسے عمر قید کی سزا دی جائے گی یا اس وقت تک قید رکھا جائے گا جب تک وہ دوبارہ اسلام قبول نہ کرلے۔ ہم تک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ فرماں پہنچا ہے کہ جب کوئی عورت ارتداد اختیار کرے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ قید کیا جائے گا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی میدان جنگ میں مشرکین کی عورتوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔ اس معاملے میں بھی میں انہیں قتل سے بچانا چاہوں گا۔ اس کی املاک و اموال اس کی ملکیت رہیں گے۔ اور اس کے خرید و فروخت، غلاموں کی آزادی، اور ہدیہ سے متعلق معاہدے و افعال معتبر ہوں گے۔‘‘

شيباني، السير الصغير : 41

واذا رفعت المرتدة الي الامام فقالت : ما ارتددت، و انا اشهد ان لا اله الا اﷲ و ان محمد رسول اﷲ کان هذا توبة منها.

’’جب کسی مرتدہ کو حاکم کے سامنے پیش کیا جائے اور وہ اپنے ارتداد کا انکار کرتے ہوئے کہے میں اس کی گواہی دیتی ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد اللہ کے رسول ہیں تو یہ اس کی توبہ تصور کی جائے گی (اور اسے سزا نہیں ہوگی)۔‘‘

شيباني، السير الصغير : 42
5۔ اِقتصادی اور معاشی آزادی کا حق

غیر مسلم پر اسلامی حکومت میں کسب معاش کے سلسلہ میں کسی قسم کی پابندی نہیں ہے، وہ ہر کاروبار کر سکتا ہے جو مسلمان کرتے ہوں۔ سوائے اس کاروبار کے جو ریاست کے لیے اجتماعی طور پر نقصان کا سبب ہو۔ وہ جس طرح مسلمانوں کے لیے ممنوع ہوگا، اُسی طرح ان کے لیے بھی ممنوع ہوگا، مثلاً سودی کاروبار، جو بالآخر پوری سوسائٹی کے لیے ہلاکت کا باعث بنتا ہے یا دیگر اس نوعیت کے کام وغیرہ۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل نجران کو لکھا :

إما أن تذروا الربا و إما أن تأذنوا بحرب من اﷲ ورسوله.

’’سود چھوڑ دو یا اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘

1. جصاص، احکام القرآن، 4 : 89
2. جصاص، الفصول في الاصول، 2 : 37

احکام القرآن میں آیت وأخذهم الربا و قد نهوا عنه و اکلهم اموال الناس بالباطل اور يايها الذين امنوا لا تکلوا اموالکم بينکم بالباطل کے تحت امام جصاص فرماتے ہیں :

فسوي بينهم و بين المسلمين في المنع من الربا.

’’اللہ تعالیٰ نے ان (ذمیوں) اور مسلمانوں کے درمیان سود کی ممانعت کو برابر قرار دیا ہے۔‘‘

جصاص، احکام القرآن، 4 : 89

اس اُصول کے علاوہ جو تجارت ان کو پسند ہوا کریں، یہاں تک کہ وہ اپنے محلوں اور شہروں میں خنزیر اور شراب بھی رکھ سکتے ہیں، ان کی خرید و فروخت کر سکتے ہیں۔ درِ مختار میں ہے :

ويضمن المسلم قيمة خمره و خنزير اذا اتلفه.

’’ یعنی اگر کوئی مسلمان غیر مسلم اقلیتی فرد کی شراب یا خنزیر کو نقصان پہنچائے گا تو اسے اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا۔‘‘

1. علاؤ الدين حصکفي، الدر المختار، 2 : 223
2. ابن عابدين شامي، رد المحتار، 3 : 273

لیکن یہ چیزیں وہ مسلمانوں کے شہروں میں نہ لائیں گے اور نہ ہی مسلمانوں کے ہاتھ بیچیں گے۔

کاساني، بدائع الصنائع، 7 : 113

پیشوں کے اعتبار سے وہ کوئی بھی پیشہ اختیار کر سکتے ہیں اور مسلمانوں کو اُجرت پر ان سے کام کروانے کی کسی قسم کی ممانعت نہیں ہے۔ اسلام میں کسی پیشہ کی وجہ سے کسی غیر مسلم سے کسی بھی نوعیت کی کوئی دوری رکھنے کا ہلکا سا اشارہ بھی نہیں ملتا، تجارتی معاملات میں جو ٹیکس مسلمان دیتے ہیں وہ ان کو بھی دینا ہو گا۔
6۔ اِجتماعی کفالت میں اقلیتوں کا حق

جس طرح اسلامی بیت المال کسی مسلمان کے معذور ہو جانے یا بوجہ عمر رسیدگی اور غربت کے محتاج ہو جانے پر کفالت کی ذمہ داری لیتا ہے اسی طرح اسلامی بیت المال پر ایک غیر مسلم کے معذور ہونے یا عاجز ہونے کی صورت میں اس کی کفالت لازم ہے۔

کتاب الاموال میں ابوعبید نے حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے ایک روایت نقل کی ہے :

أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم تصدق صدقه علي اهل بيت من اليهود فهي تجري عليهم.

’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودیوں کے ایک گھرانہ کو صدقہ دیا اور (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد بھی) وہ انہیں دیا جارہا ہے۔‘‘

1. ابو عبيد، کتاب الاموال : 1992
2. زيلعي، نصب الرايه، 2 : 398
3. سيواسي، شرح فتح القدير، 2 : 267
4. عسقلاني، الدرايه في تخريج احاديث الهدايه، 1 : 266

حضرت زید بن ہاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

إن صفية زوج النبي صلي الله عليه وآله وسلم، تصدقت علي ذوي قرابة لها، فهما يهوديان، فبيع ذلک بثلاثين الفا.

’’بے شک ام المومنین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ مطہرۃ حضرت صفیہ رضی اﷲ عنہا نے اپنے رشتہ داروں کو صدقہ دیا حالانکہ وہ دونوں یہودی تھے جو تیس ہزار (درہم) کے عوض فروخت کیا گیا۔‘‘

ابوعبيد، کتاب الاموال، 1993

عمرو بن میمون، عمرو بن شرجیل اور مرۃ ہمذانی سے روایت کیا گیا ہے کہ :

انهم کانوا يعطون الرهبان من صدقة الفطر.

ابوعبيد، کتاب الاموال : 1996

اسی طرح کتاب الخراج ابو یوسف میں ہے :

وجعلت لهم ايما شيخ ضعف عن العمل او اصابته افة من الافات او کان غنيا فافتقر وصار اهل دينه يتصدقون عليه طرحت جزيته و عيل من بيت مال المسلمين و عياله ما اقام بدار الهجرة و دارالاسلام.

’’وہ راہبوں کو صدقہ فطر میں سے دیتے تھے۔‘‘

’’ اگر ان کے ضعیف العمر اور ناکارہ لوگوں یا آفت رسیدہ یا بعد ازغنی فقیر ہو جانے والوں، کہ ان کے مذہب کے لوگ ان کو خیرات دینے لگیں، سے جزیہ ہٹا لیا جائے گا اور مسلمانوں کے بیت المال سے ان کے نان و نفقہ کا بندوبست کیا جائے گا جب تک وہ اسلامی ملک میں رہیں۔‘‘

1. ابو يوسف، کتاب الخراج : 155
2. محمد حميد الله، الوثائق السياسية : 317، وثيقه : 291

عملی طور پر اس کی تاریخ اسلامی میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ غیر مسلم اقلیتوں کے معذور افراد کو اسلامی بیت المال سے باقاعدہ الاؤنس ملتا رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک یہودی کو دیکھا جو اندھا ہو چکا تھا تو آپ نے اس کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر فرما دیا۔ اجتماعی کفالت کے حق اور حقوق عامہ میں اسلامی حکومت کی نگاہ میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہیں ہے بلکہ وہ بالکل برابر کے شہری ہیں۔

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...