Friday 2 October 2015

اسلام اور اقلیتوں کے حقوق حصّہ پنجم

اسلام اور اقلیتوں کے حقوق حصّہ پنجم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 7۔ روزگار کی آزادی کا حق

اسلام میں ہر جائز ذریعہ روزگار کو مستحسن قرار دیا گیا ہے حدیث مبارکہ ہے :

ما أکل أحد طعاما قط، خيرا من أن يأکل من عمل يديه، و إن نبي اﷲ داؤد عليه السلام کان يأکل من عمل يديه.

’’کوئی بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر اور کوئی کھانا نہیں کھا سکتا اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی کھاتے تھے۔‘‘

محمد حسين هيکل، الفاروق عمر، 2 : 202

اسلامی مملکت میں اقلیتوں سمیت ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ تجارت، صنعت و زراعت غرضیکہ جو کام بھی وہ کرنا چاہے کر سکتا ہے، بشرطیکہ ان چیزوں کے قریب نہ جائے، جنہیں شریعت نے حرام قرار دیا ہے، جیسے سودی معاملات ہیں اور جائز حدود میں بھی اخلاقی قدروں کا لحاظ رکھے، اپنے کام کی وجہ سے کسی دوسرے کی تجارت یا صنعت کے درپے آزار نہ ہو۔ یہ اسلامی شریعت میں ناجائز ہے۔ جب فرد جائز کام کرے گا تو اس کا حاصل اور ثمر اس کا حق ہو گا، اس لیے کہ یہ اس کی محنت اور پسینہ کی کمائی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىO

’’اور یہ کہ انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہےo‘‘

القرآن، النَّجْم، 53 : 39

حکومت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی فرد کو جائز کاموں کے کرنے سے روک دے، البتہ اگر کوئی شرعی ضرورت ہو تو ایسا کر سکتی ہے۔ مثال کے طور پر وہ اپنے ملازمین کو تجارت اور کمائی کرنے سے روک سکتی ہے، تاکہ وہ اپنے اثر و نفوذ اور منصب کا ناجائز فائدہ نہ اُٹھا سکیں۔ اس لیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے گورنروں کی مالیت کا محاسبہ کرتے تھے، اگر ان میں سے کوئی یہ جواز پیش کرتا کہ میں نے تجارت سے نفع کما کر یہ دولت اکٹھی کی ہے تو آپ فرماتے :

نحن انما بعثناکم ولاة ولم نبعثکم تجارا.

’’ہم تمہیں والی بنا کر بھیجتے ہیں تاجر بنا کر نہیں۔‘‘

محمد حسين هيکل، الفاروق عمر، 2 : 202
8۔ تحفظ اور سلامتی کا حق

اسلامی ریاست اقلیتوں کے تحفظ اور سلامتی کی ذمہ دار ہے۔ اگر اسلامی ریاست کا کسی دوسری قوم سے معاہدہ ہو تو اس قوم کے تحفظ و سلامتی کی ذمہ داری بھی اسلامی ریاست پر ہوگی :

وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَى أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ.

’’اور اگر وہ (مقتول) تمہاری دشمن قوم سے ہو اور وہ مومن (بھی) ہو تو (صرف) ایک غلام/ باندی کا آزاد کرنا (ہی لازم) ہے اور اگر وہ (مقتول) اس قوم میں سے ہو کہ تمہارے اور ان کے درمیان (صلح کا) معاہدہ ہے تو خون بہا (بھی) جو اس کے گھر والوں کے سپرد کیا جائے اور اور ایک مسلمان غلام/ باندی کا آزاد کرنا (بھی لازم) ہے۔‘‘

القرآن، النساء، 4 : 92

اقلیتوں کی جان کی حرمت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ سے واضح ہوتی ہے :

دية اليهودي والنصراني وکل ذمي مثل دية المسلم.

’’یہودی، عیسائی اور ہر ذمی کی دیت مسلمان کی دیت کی طرح ہے۔‘‘

1. عبدالرزاق، المصنف، 10 : 97، 98
2. ابن رشد، بداية المجتهد، 2 : 310

خلفائے راشدین کے دور میں اس اصول پر عمل کیا جاتا رہا اور ذمیوں کی دیت مسلمانوں کی دیت کے برابر ادا کی جاتی تھی۔

دورانِ فتوحات غیر مسلم اقوام سے جو معاہدات ہوئے ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ غیر مسلم رعایا کے تحفظ، سلامتی اور بنیادی ضروریات کی حکومت ذمہ دار ہو گی۔ چنانچہ حیرہ کے باشندوں کو جو پروانہ امان دیا گیا اس کا ایک حصہ یہ ہے :

’’جو غیر مسلم بوڑھا ہو جائے اور کام نہ کر سکے یا کوئی ناگہانی آفت اسے ناکارہ بنا دے یا پہلے دولتمند ہو، بعد میں کسی حادثہ کی وجہ سے غریب ہو جائے تو ایسے آفت رسیدہ لوگوں سے نہ صرف یہ کہ حکومت کوئی ٹیکس وصول نہیں کرے گی بلکہ ان کو اور ان کی اہل و عیال کو سرکاری خزانہ سے گزارہ الاؤنس بھی مہیا کیا جائے گا۔‘‘

ابويوسف، کتاب الخراج : 155

تاریخِ اسلام میں اس اُصول کی متعدد عملی مثالیں ملتی ہیں ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک بوڑھے یہودی کو بڑی خستہ حالت میں دیکھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : خدا کی قسم! یہ انصاف کا تقاضا نہیں کہ ہم اس کی جوانی میں تو اس سے فائدہ اُٹھائیں اور اُسے بڑھاپے میں اس طرح رسوا ہونے دیں چنانچہ آپ نے حکم صادر فرمایا کہ اس بوڑھے کو زندگی بھر اس کی ضرورت کے مطابق بیت المال سے وظیفہ دیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے ملک کے گورنروں کو لکھا کہ وہ غیر مسلم کے رعایا کے مستحق اور غریب افراد کو بیت المال سے پابندی اور باقاعدگی کے ساتھ تنخواہیں دیں۔

ابويوسف، کتاب الخراج : 150

اسی طرح غیر مسلموں کو وظائف دینے کی کئی مثالیں تاریخِ اسلام میں موجود ہیں۔ ہر دور میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اسلام کے قوانین پر عمل کیا جاتا رہا اور جب کبھی سرکش امراء نے اس کے خلاف عمل کیا ہے تو علماء و فقہا نے انہیں اس سے باز رکھنے یا کم از کم ان سے اس کی تلافی کرانے کی کوشش کی ہے۔ تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ولید بن عبدالملک اموی نے دمشق کے کنیسہ یوحنا کو زبردستی عیسائیوں سے چھین کر مسجد میں شامل کر لیا۔ بلاذری کے مطابق :

فلما استخلف عمر بن عبدالعزيز شکي النصاري إليه ما فعل الوليد بهم في کنيستهم فکتب الي عامله يامره برد ما زاده في المسجد.

’’جب حضرت عمر بن عبدالعزیز تختِ خلافت پر متمکن ہوئے اور عیسائیوں نے ان سے ولید کے کنیسہ پر کیے گئے ظلم کی شکایت کی تو انہوں نے اپنے عامل کو حکم دیا کہ مسجد کا جتنا حصہ گرجا کی زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اسے منہدم کرکے عیسائیوں کے حوالہ کر دو۔‘‘

بلاذري، فتوح البلدان : 150

جب ولید بن یزید نے رومی حملہ کے خوف سے قبرص کے ذمی باشندوں کو جلا وطن کر کے شام میں آباد کیا تو اس پر فقہائے اسلام اور عام مسلمان سخت ناراض ہوئے اور اسے گناہ عظیم سمجھا۔ پھر جب یزید بن ولید نے ان کو دوبارہ قبرص میں لے جا کر آباد کر دیا تو اسے عوام الناس نے بنظر احسن دیکھا اور کہا کہ یہی انصاف کا تقاضا ہے۔ اسماعیل بن عیاش کا بیان ہے کہ :

فاستقطع ذلک المسلمون واستعظمه الفقهاء فلما ولي يزيد بن الوليد بن عبدالملک ردهم الي قبرس فاستحسن المسلمون ذلک من فعله و رأوه عدلا.

’’اس فعل کو عام مسلمانوں اور فقہا نے غلط قرار دیا اور جب یزید بن الولید بن عبدالملک آیا تو اس نے قبرص کے باشندوں کو واپس کردیا اس کے اس عمل کی عام مسلمانوں نے تعریف کی اور اسے عدل و انصاف پر مبنی قرار دیا۔‘‘

بلاذري، فتوح البلدان : 180

بلاذری کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ جبلِ لبنان کے باشندوں میں سے ایک گروہ نے بغاوت کر دی۔ اس پر صالح بن علی بن عبداللہ نے ان کی سرکوبی کے لیے ایک فوج بھیجی، جس نے ان کے ہتھیار اُٹھانے والے مردوں کو قتل کر دیا اور باقی لوگوں میں سے ایک جماعت کو جلا وطن کیا اور ایک جماعت کو وہیں آباد رہنے دیا۔ امام اَوزاعی رحمۃ اللہ علیہ اس زمانہ میں زندہ تھے۔ اُنہوں نے صالح کو اس ظلم پر سخت تنبیہ کرتے ہوئے بغاوت میں حصہ نہ لینے والوں کو قتل کرنے اور گھروں سے نکالنے کی مذمت کی اور ایک طویل خط لکھا، جس کے چند فقرے یہ ہیں :

ما قدمت علمت فکيف تؤخذ عامة بذنوب خاصة حتي يخرجوا من ديارهم واموالهم. وحکم اﷲ تعالي : ﴿لاتزر وازرة وزر اخري﴾. وأحق الوصايا أن تحفظ و ترعي وصية رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’من ظلم معاهدا وکلفه فوق طاقته فأنا حجيه.‘‘

’’میں نہیں سمجھ سکتا کہ عام لوگوں کو بعض خاص لوگوں کے جرم کی سزا کیوں کر دی جاسکتی ہے۔ اور کس بنا پر انہیں ان کے گھروں اور انکی جائیدادوں سے بے دخل کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ اللہ کا یہ حکم ہے کہ لا تزر وازرۃ وزر اخری اور یہ ایک واجب التعمیل حکم ہے۔ تمہارے لیے بہترین نصیحت یہ ہے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد کو یاد رکھو کہ ’’جو کوئی کسی معاہد پر ظلم کرے گا اور اس کی طاقت سے زیادہ اس پر بار ڈالے گا اس کے خلاف میں خود مدعی بنوں گا۔‘‘

بلاذري، فتوح البلدان : 186
9۔ تمدنی اور معاشرتی آزادی کا حق

اسلامی ریاست میں اقلیتیں اپنی قومی اور تہذیبی روایات کے مطابق رہ سکیں گی یہاں تک کہ ان کے شخصی معاملات یعنی نکاح طلاق بایں حد کہ نکاح محرمات بھی اگر ان کے تہذیبی شعائر میں رائج ہو تو اس سے بھی کوئی تعرض نہ کیا جائے گا۔

ایک دفعہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت فرمایا کہ خلفائے راشدین نے اہل ذمہ کو نکاح محرمات کی کیوں اجازت دے دی تھی اور شاید آپ اس پر پابندی لگانا چاہتے تھے کیونکہ یہ فعل شناعت کے اعتبار اس قدر شنیع ہے کہ فطرت سلیمہ اسے ہرگز قبول نہیں کرتی۔ جواب میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا :

انما بذلوا الجزية ليترکوا علي ما يعتقدون و انما انت متبع ولا مبتدع والسلام.

’’انہوں نے جزیہ اس لیے دیا ہے کہ انہیں ان کے اعتقادات پر چھوڑ دیا جائے اور آپ تو خلفائے راشدین کی پیروی کرنے والے ہیں نہ کہ نئی راہ بنانے والے۔‘‘

1. سيواسي، شرح فتح القدير، 3 : 417
2. سرخسي، المبسوط، 5 : 39

اسلامی ریاست میں اندر سوائے حرم کے وہ جہاں چاہیں سکونت اختیار کر سکتے ہیں اور اسی طرح ترک سکونت کا بھی انہیں اختیار ہے۔ حرم سے مراد مکہ مکرمہ ہے اور اس میں مشرک کے داخلہ پر پابندی نص سے ثابت ہے اس لیے وہ وہاں نہ رہ سکیں گے۔

اسلامی معاشرے میں مسلمانوں پر بھی یہ ذمہ داری تھی کہ وہ اقلیتوں سے نیکی، انصاف اور حسن سلوک پر مبنی رویہ اختیار کریں

لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَO

’’(اے مسلمانو!) اللہ تم کو ان لوگوں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ اور انصاف کرنے سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین کے بارے میں نہ لڑے اور نہ انہوں نے تم کو تمہارے گھروں سے نکالا (بلکہ) اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہےo‘‘

القرآن، الممتحنة، 60 : 8
10۔ اقلیتوں کی حفاظت اِسلامی رِیاست کی ذِمّہ داری ہے

اِسلامی ریاست میں اقلیتوں کو دفاعی ذمہ داریاں ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کا دفاع اِسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے اور اسلامی حکومت غیر مسلموں کے جان و مال اور آبرو کی حفاظت کرے گی۔

1. کاساني، بدائع الصنائع، 7 : 111
2. شربيني، مغني المحتاج، 4 : 243
3. منصور بن يونس، کشاف القناع، 3 : 92
4. زحيلي، الفقه الاسلامي و ادلته، 6 : 446

چونکہ اسلامی ریاست اقلیتوں کو جان و مال اور آبرو کا تحفظ فراہم کرتے ہے اور ان پر کوئی دفاعی ذمہ داری بھی عائد نہیں کرتی لہٰذا اس کے عوض اقلیتیں اسلامی ریاست کو مالیاتی طور پر contribute کرتے ہیں جسے اسلامی قانون میں جزیہ کہا گیا ہے۔ اسلامی ریاست میں اقلیتوں پر جزیہ عائد کرنے کے معاملے میں بھی عدل و انصاف اور حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے امرائے لشکر کو لکھا :

ألا يضربوا الجزية علي النساء ولا علي الصبيان وأن يضربوا الجزية علي من جرت عليه الموسي من الرجال.

’’عورتوں اور بچوں پر جزیہ عاید نہ کریں اور صرف ان مردوں پر جزیہ عاید کریں، جن کے بال اگ آئے ہوں (بالغ ہوگئے ہوں)۔‘‘

1. عبدالرزاق، المصنف، 10 : 331، رقم : 19273
2. عبدالرزاق، المصنف، 6 : 85، رقم : 10090
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 428، 429، رقم : 32636، 32640
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 195، 198
5. ابن حزم، المحلي، 7 : 247
6. ابن قدامه، المغني، 8 : 476، 507
7. عسقلاني، تلخيص الحبير، 4 : 123

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...