Friday 2 October 2015

اسلام اور اقلیتوں کے حقوق حصّہ ششم

اسلام اور اقلیتوں کے حقوق حصّہ ششم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مقام سے گزر ہوا تو آپ نے ایک بوڑھے نابینا یہودی بھیک مانگتے ہوئے دیکھا۔ آپ نے اس سے پوچھا

فما ألجأک الي ما اري؟ قال : أسأل الجزية والحاجة والسن. فأخذ عمر بيده و ذهب به الي منزله فرضخ له بشئ من المنزل. ثم ارسل الي خازن بيت المال فقال : انظر هذا و ضرباء ه، فو اﷲ! ما أنصفناه أن أکلنا شبيبته ثم نخذله عندالهرم.

تمہیں اس پر کس بات نے مجبور کیا؟اس نے کہا کہ بوڑھا ضرورت مند ہوں اور جزیہ بھی دینا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور گھر لائے اور اسے اپنے گھر سے کچھ دیا، پھر اسے بیت المال کے خازن کے پاس بھیجا اور حکم دیا کہ اس کا اور اس جیسے اور لوگوں کا خیال رکھو اور ان سے جزیہ لینا موقوف کردو۔ کیونکہ یہ کوئی انصاف کی بات نہیں ہے کہ ہم نے ان کی جوانی میں ان سے جزیہ وصول کیا اور اب بڑھاپے میں ان کو اس طرح رسوا کریں۔‘‘

1. ابن قدامه، المغني، 8 : 509
2. ابو يوسف، کتاب الخراج : 150

جزیہ کی مقدار مقرر کرنے میں بھی ذمیوں پر تشدد کرنا ممنوع ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وصیت ہے کہ لا یکلفوا فوق طاقتھم جتنا مال دینا ان کی طاقت سے باہر ہو انہیں اس کے ادا کرنے کی تکلیف نہ دو۔

بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 206

جزیہ کے عوض ان کی املاک کا نیلام نہیں کیا جاسکتا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حکم ہے :

لا تبيعن لهم في خراجهم حماراً ولا بقرة ولاکسوة شتاء ولا صيف.

’’خراج میں ان کا گدھا یا ان کی گائے یا ان کے سردی و گرمی سے بچانے والے کپڑے نہ بیچنا۔‘‘

ابن قدامه، المغني، 9 : 291

ایک اور موقع پر اپنے عامل کو بھیجتے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

لا تبيعن لهم کسوة شتاء ولا صيفا، ولا رزقا ياکلونه، ولا دابة يعملون عليها، ولا تضربن أحدا منهم سوطا و احدا في درهم ولا تقمه علي رجله في طلب درهم، ولا تبع لأحد منهم عرضا في شيئ من الخراج، فإنا انما أمرنا أن ناخذ منهم العفو، فإن انت خالفت ما أمرتک به ياخذک اﷲ به دوني، و إن بلغني عنک خلاف ذلک عزلتک.

’’ان کے جاڑے گرمی کے کپڑے اور ان کے کھانے کا سامان اور ان کے جانور جن سے وہ کھیتی باڑی کرتے ہیں خراج وصول کرنے کی خاطر نہ بیچنا نہ کسی کو درہم وصول کرنے کے لیے کوڑے مارنا، نہ کسی کو کھڑا رکھنے کی سزا دینا اورنہ خراج کے عوض کسی چیز کا نیلام کرنا کیوں کہ ہم، جو ان کے حاکم بنائے گئے ہیں، ہمارا کام نرمی سے وصول کرنا ہے۔ اگر تم نے میرے حکم کے خلاف عمل کیا تو اللہ میرے بجائے تمہیں سزا دے گا اور اگر مجھے تمہاری خلاف ورزی کی خبر پہنچی تو میں تمہیں معزول کر دوں گا۔‘‘

ابويوسف، کتاب الخراج : 17

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شام کے گورنر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو جو فرمان لکھا تھا اس میں منجملہ اور احکام کے ایک یہ بھی تھا کہ :

وامنع المسلمين من ظلمهم والإضراربهم واکل اموالهم إلا بحلها.

’’مسلمانوں کو ان پر ظلم کرنے اور انہیں ضرر پہنچانے اور ناجائز طریقہ سے ان کے مال کھانے سے منع کرنا۔‘‘

ابويوسف، کتاب الخراج : 152

شام کے سفر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کے عامل جزیہ وصول کرنے کے لیے ذمیوں کو دھوپ میں کھڑا کر کے اور ان کے سروں پر تیل ڈال کر سزائیں دے رہے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا :

فرعوهم، لا تکلفوهم مالا يطيقون، فاني سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : لا تعذبوا الناس فان الذين يعذبون الناس في الدنيا يعذبهم اﷲ يوم القيامة و أمربهم فخلي سبيلهم.

’’ان کو چھوڑ دو، تم ان کو تکلیف نہ دو جس کی وہ طاقت نہیں رکھتے، میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگوں کو عذاب نہ دو بے شک وہ لوگ جو لوگوں کو دنیا میں عذاب دیتے ہیں اللہ انہیں قیامت کے دن عذاب دے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے حکم پر انہیں چھوڑ دیا گیا۔‘‘

امام ابويوسف، کتاب الخراج : 135

ہشام بن حکم نے حمص کے ایک سرکاری افسر عیاض بن غنم کو دیکھا کہ وہ ایک قبطی کو جزیہ وصول کرنے کے لیے دھوپ میں کھڑا کر رہا ہے۔ اس پر انہوں نے اسے ملامت کی اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے :

ان اﷲ يعذب الذين يعذبون الناس في الدنيا.

’’اﷲ عزوجل ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو عذاب دیتے ہیں۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب البر، باب الوعيد الشديد، 4 : 2018، رقم : 2613
2. ابوداؤد، السنن، کتاب الخراج، باب في التشديد، 3 : 106، رقم : 3045
3. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 236، رقم : 8771
4. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 403، 404، 468
5. ابن حبان، الصحيح، 12 : 426، 427، 429، رقم : 5612، 5613
6. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 171، رقم : 441
7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 205
8. هيثمي، موارد الظمآن : 377، رقم : 1567

فقہائے اسلام نے نادہندگان کے حق میں صرف اتنی اجازت دی ہے کہ انہیں تادیباً قید بے مشقت کی سزا دی جاسکتی ہے۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے :

ولکن يرفق بهم و يحبسون حتي يؤدوا ما عليهم.

’’اور ان سے نرمی سے پیش آیا جائے گا اور ادائیگی جزیہ تک انہیں قید کیا جائے گا۔‘‘

ابويوسف، کتاب الخراج : 133

جو ذمی محتاج اور فقیر ہو جائیں انہیں صرف جزیہ ہی معاف نہیں کیا جائیگا بلکہ ان کے لیے اسلامی خزانہ سے وظائف بھی مقرر کیے جائیں گے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اہل حیرہ کوجو امان نامہ لکھ کر دیا تھا اس میں لکھتے ہیں :

وجعلت لهم ايما شيخ ضعف عن العمل او اصابته آفة من آلآفات اوکان غنياً فافتقروصارا هل دينه يتصدقون عليه طرحت جزيته و عيل من بيت مال المسلمين وعياله.

’’میں نے ان کے لیے یہ حق بھی رکھا ہے کہ جو کوئی شخص بڑھاپے کے سبب ازکار رفتہ ہو جائے یا اس پر کوئی آفت نازل ہو جائے، یا وہ پہلے مال دار تھا پھر فقیر ہو گیا یہاں تک کہ اس کے ہم مذہب لوگ اس کو صدقہ و خیرات دینے لگے، تو اس کاجزیہ معاف کر دیا جائیگا اور اسے اور اس کے بال بچوں کو ریاست کے بیت المال سے خرچ دیا جائے گا۔‘‘

1. محمد حميد الله، الوثائق السياسة : 317، وثيقه : 291
2. ابويوسف، کتاب الخراج : 155

اگرکوئی ذمی مرجائے اور اس کے حساب میں مکمل جزیہ یا جزیہ کا بقایا واجب الادا ہو تو وہ اس کے ترکہ سے وصول نہیں کیا جائے گا اور نہ اس کے ورثا پر اس کا بار ڈالا جائے گا۔ کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

إن وجبت عليه الجزية فمات قبل ان تؤخذ منه اوأخذ بعضها وبقي البعض لم يوخذ بذلک ورثته ولم توخذ من ترکته لإن ذلک ليس بدين عليه.

’’اگر اس پر جذیہ واجب ہو تو اس کی کل یا کچھ ادائیگی سے قبل وہ مرجائے تو اس پر بقیہ واجب الادا جزیہ وارثوں سے وصول نہیں کیا جائیگا کیونکہ یہ اس پر قرض نہیں ہے۔‘‘

ابويوسف، کتاب الخراج : 132
11۔ عسکری خدمات سے اِستثناء کا حق

اسلامی ریاست میں ذمی فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہیں اور دشمن سے ملک کی حفاظت تنہا مسلمانوں کے فرائض میں شامل ہے چونکہ ان سے جزیہ اسی حفاظت کے معاوضہ میں وصول کیا جاتا ہے، اس لیے اسلام نہ تو ان کو فوجی خدمت کی تکلیف دینا جائز سمجھتا ہے اور نہ ان کی حفاظت سے عاجز ہونے کی صورت میں جزیہ وصول کرنا۔ اگر مسلمان ان کی حفاظت نہ کرسکیں توانہیں ذمیوں کے اموال جزیہ سے فائدہ اٹھانے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ جنگ یرموک کے موقع پر رومیوں نے مسلمانوں کے مقابلہ پر ایک زبردست فوج جمع کی اور مسلمانوں کو شام کے تمام مفتوح علاقے چھوڑ کر ایک مرکز پر جمع ہونے کی ضرورت پیش آئی تو حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اپنے امراء کو لکھا کہ :

’’ جو کچھ جزیہ و خراج تم نے ذمیوں سے وصول کیا ہے انہیں واپس کردو اور ان سے کہو کہ اب ہم تمہاری حفاظت سے عاجز ہیں اس لیے تم اپنے معاملے کے لحاظ سے آزاد ہو۔ اس لیے ہم نے جو مال تمہاری حفاظت کے معاوضہ میں وصول کیا تھا اسے واپس کرتے ہیں۔‘‘

اس حکم کے مطابق تمام لشکروں کے امراء نے جمع شدہ رقم واپس کر دی۔

1. ابويوسف، کتاب الخراج : 150
2. بلاذري، فتوح البلدان : 161
12۔ اقلیتوں سے معاہدے کی پاسداری اِسلامی رِیاست کا فرض ہے

اگر اقلیتوں نے اسلامی ریاست سے کوئی معاہدہ کیا ہو تو اسلامی ریاست اسے ہر حال میں پورا کرنے کی پابند ہوگی :

العقد فهو انه لازم في حقنا حتي لايملک المسلمون نقضه بحال من الاحوال واما في حقهم فغير لازم.

’’عقد ذمہ مسلمانوں کی جانب ابدی لزوم رکھتا ہے، یعنی وہ میثاق کرنے کے بعد پھر توڑ دینے کے مختار نہیں ہیں۔ لیکن دوسری جانب ذمیوں کو اختیار ہے کہ جب تک چاہیں اس پر قائم رہیں اور جب چاہیں توڑ دیں۔‘‘

کاسانی، بدائع الصنائع، 7 : 112

ذمی خواہ کیسے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کرے اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا، حتی کہ جزیہ بند کر دینا، مسلمان کو قتل کرنا، یا کسی مسلمان عورت کی آبرو ریزی کرنا بھی اس کے حق میں ناقض ذمہ نہیں ہے البتہ صرف تین صورتیں ایسی ہیں جن میں عقد ذمہ باقی نہیں رہتا، ایک یہ کہ وہ مسلمان ہو جائے دوسری یہ کہ وہ دارالاسلام سے نکل کر دشمنوں سے جا ملے، تیسری یہ کہ حکومتِ اسلامیہ کے خلاف علانیہ بغاوت کر دے۔

کاساني، بدائع الصنائع، 7 : 113
13۔ جنگی قیدیوں کے حقوق

اسلام نے جنگی قیدیوں سے حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔ جنگ بدر کے ایک قیدی کا بیان ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم کرے، یہ اپنے اہل و عیال سے اچھا کھانا ہمیں کھلاتے تھے اور اپنے گھر کے لوگوں سے کہیں زیادہ ہماری آسائش کا خیال رکھتے تھے۔ مخالفین سے یہ سلوک اس لیے کیا جاتا تھا کہ اسلام دُشمن کو بھی تکریم انسانیت کا مستحق سمجھتا ہے اور کسی کے فکر اور عقیدے میں جبر و جور کے ذریعے تبدیلی پسند نہیں کرتا، اس کا واضح ارشاد ہے :

لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ.

’’دین کے معاملہ میں جبر روا نہیں۔‘‘

القرآن، البقرة، 2 : 256

جب دین کے معاملے میں جبر روا نہیں تو یہ کیونکر ممکن ہے کہ غیر مسلموں کو انسانی حقوق سے محروم کر دیا جائے ؟

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...