Friday 2 October 2015

اسلام اور اقلیتوں کے حقوق حصّہ ہفتم آخری حصّہ

اسلام اور اقلیتوں کے حقوق حصّہ ہفتم آخری حصّہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
 14۔ معاہداتِ نبوی اور اقلیتوں کے حقوق

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں جن غیر مسلم قبائل نے غیر مسلم ہوتے ہوئے جزیرۃ العرب میں اسلامی حکومت کی رعایا کے طور پر رہنا پسند کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے کئی معاہدے کیے جو اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کی مختلف جہات کا اظہار کرتے ہیں ان میں سے چند معاہدات حسب ذیل ہیں :

نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۔

یہ معاہدہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اہلِ نجران کے لیے ہے۔

    ان کے پھلوں، سونے چاندی، غلام اور اُن اشیاء کے ساتھ ہر قسم کے مال کے عوض میں ان پر مندرجہ ذیل خراج عائد کیا جاتا ہے۔

    ا) دو ہزار یمنی حلے (دو قسطوں میں) ماہ رجب میں ایک ہزار، ماہ صفر میں ایک ہزار۔
    ب) اور ایک حلہ کے ساتھ ایک اوقیہ چاندی۔

    مقررہ مقدار خراج میں کسی شے کی کمی اور دوسری شے کی بیشی پر جمع و منہا لازم ہو گا۔
    اگر اہلِ نجران عائد شدہ نصاب (حلہ جات اور چاندی) کے عوض میں اجناس داخل کرنا چاہئیں۔ تو بدل مبدل منہ دونوں کی قیمت میں کمی بیشی کا لحاظ ضرور ہو گا۔
    اہلِ نجران پر میرے تحصیلدارو ں کی مہمان نوازی اور تکریم بیس سے لے کر تیس دن تک واجب ہے۔ اس کے بعد اُنہیں اپنے ہاں روکا نہ جائے۔
    ہماری طرف سے یمن اور معرہ پر حملہ کے وقت اُنہیں ہم کو :

    الف۔ تیس گھوڑے
    ب۔ 30 زرہیں عاریتہ دینا ہوں گی۔

جن کے اتلاف پر ان کی قیمت اور شکست و ریخت کے ہمارے تحصیل دار ذمہ دار ہوں گے۔

    اہلِ نجران کے ساتھ ان کے ہمسایہ حلیفوں کے لیے بھی محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی طرف سے مندرجہ ذیل اشیاء میں تلافی کے ذمہ دار ہیں۔

    الف۔ وطن اور وطن کے باہر ہر دو جگہوں میں ان کے اموال و نفوس کے اتلاف پر۔
    ب۔ ان کے مذہب اور ان کے قرابت داروں کی تذلیل و تحقیر پر۔

    ان کے پادری، گوشہ نشینوں اور کاہنوں پر گرفت نہ ہو گی۔
    ان کی ماتحتی کی وجہ سے ان پر کسی قسم کی کہتری عائد نہ ہوگی۔
    وہ قبل از اسلام کے قتل کے مواخذہ سے بری ہیں۔
    وہ ہماری جنگوں میں شرکت سے مستثنیٰ ہیں۔
    ہمارا لشکر ان پر حملہ نہ کرے گا۔
    ہماری عدالت میں دعوے پیش کرنے پر ان سے انصاف کیا جائے گا۔
    ان میں سے جو شخص اپنے خاندان سے سود لے گا وہ ہماری ذمہ داری سے محروم ہے۔
    کسی فرد کی دوسرے فرد کے عوض میں گرفت نہ ہو گی۔

1. بلاذري : فتوح البلدان : 89 - 90
2. محمد حميد اﷲ، الوثائق السياسة : 140، وثيقه : 94

بالکل اسی طرح کا ایک عہد نامہ اہلِ نجران سے ہوا کہ جس میں مذہبی آزادی کی اس سے بھی زیادہ وضاحت کی گئی ہے۔ جس کو بلاذری نے فتوح البلدان میں تحریر کیا ہے۔ جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ لکھ کر دیا :

ولنجران و حاشيتها جوار اﷲ و ذمة محمد النبي رسول اﷲ (صلي الله عليه وآله وسلم) علي انفسهم و ملتهم و ارضهم و اموالهم و غائبهم و شاهدهم و غيرهم و بعثهم و أمثلتهم لا يغير ما کانوا عليه ولا يغير حق من حقوقهم و امثلتهم لا يفتن اسقف من اسقفيته ولا راهب من رهبانيته ولا واقه من وقاهيته علي ما تحت ايديهم من قليل او کثير وليس عليهم رهق.

’’اہلِ نجران اور ان کے حلیفوں کے لیے اللہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جانوں ان کے مذہب ان کی زمینوں ان کے اموال۔ ان کے موجود اور غیر موجود، ان کے مواشی اور قافلے اور اُن کے استہان وغیرہ کے ذمہ دار ہیں اور جس دین پر وہ ہیں اس سے ان کو نہ پھیرا جائے گا۔ ان کے حقوق اور اُن کی عبادت گاہوں کے حقوق میں کوئی تبدیلی نہ کی جائے گی۔ کسی پادری، راہب یا سردار کو اس کے عہدے سے نہ ہٹایا جائے اور ان کو کوئی خوف نہ ہو گا۔‘‘

بلاذري، فتوح البلدان : 90

ان معاہدات سے اقلیتوں کے حقوق کا جو خاکہ سامنے آتا ہے وہ یہ کہ :

    ا) اسلامی حکومت کے ماتحت رہنے والی غیر مسلم رعایا کو مساوی قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں۔
    ب) ان کے مذہب سے کسی قسم کا تعرض نہیں کیا جا سکتا۔
    ج) ان کے اموال، ان کی جان اوران کی عزت و آبرو کی حفاظت اسلامی حکومت کے ذمہ ہوتی ہے۔
    د) اسلامی حکومت کے اندرونی استحکام کی خاطر خلیفہ یا سربراہ مملکت لا یفتن واقہ من واقھیۃ کے ماتحت انہیں انتظامی اُمور کے عہدے جس حد تک مناسب سمجھے تفویض کر سکتا ہے۔
    ہ) اپنے مذہبی عہدے دار وہ خود متعین کرنے کے مجاز ہیں اور ان کی عبادت گاہیں قابلِ احترام ہیں۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ فرمایا کہ لا یغیر حق من حقوقھم و امثلتھم۔ تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ان کی عبادت گاہوں میں کسی قسم کا تغیر نہ کیا جائے اور ان کا احترام بہر حال قائم رکھا جائے گا۔

ان سب چیزوں کے عوض غیر مسلم رعایا اسلامی حکومت کو کیا دے گی؟ وہی کچھ جو مسلم رعایا دیتی ہے۔ جو محاصل مسلم دے گا اس کا نام زکوٰۃ و عشر ہو گا اور جو محاصل غیر مسلم رعایا دے گی وہ جزیہ یا خراج کہلائے گا۔ یہ اسلامی بیت المال میں جمع ہونے والی رقوم کی الگ الگ دو مدوں کے نام ہیں، اس میں کسی کہتری یا برتری کا کوئی تصور نہیں ہے، جزیہ محافظت کی جزا ہے جسے ادا کرنے کے بعد غیر مسلم رعایا جنگی خدمات سے مستثنیٰ ہو جاتی ہے اور اسلامی حکومت ان کے مال، جان اور آبرو کی حفاظت کی ذمہ دار ہوتی ہے۔
15۔ خلافتِ صدیقی اور اقلیتوں کے حقوق

وہ معاہدات جو دورِ صدیقی میں ہوئے اگرچہ ان کی تعداد کثیر ہے۔ یہاں ان میں سے چند ایسے معاہدے نقل کیے جاتے ہیں جن میں تمام کا خلاصہ آجاتا ہے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جب حسبِ فرمان خلیفۂ اوّل دمشق اور شام کی سرحدوں سے عراق اور ایران کی طرف لوٹے تو راستے میں باشندگان عانات کے ساتھ یہ معاہدہ کیا :
(1) اہلِ عانات سے معاہدہ

    ان کے گرجے اور خانقاہیں منہدم نہیں کی جائیں گی۔
    وہ ہماری نماز پنجگانہ کے سوا ہر وقت اپنا ناقوس بجاسکتے ہیں ان پر کوئی پابندی نہیں۔
    وہ اپنی عید پر صلیب نکال سکتے ہیں۔
    مسلمان مسافر کی تین دن ضیافت کریں اور
    وقت پڑنے پر مسلمانوں کی جان و مال کی نگہداشت کریں.

1. محمد حميد اﷲ، الوثائق السياسة، 323، وثيقه : 298
2. امام ابو يوسف، کتاب الخراج : 145
(2) اہلِ حیرہ سے معاہدہ

اہلِ حیرہ سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جو معاہدہ کیا اس کی دفعات حسبِ ذیل ہیں :

    کسی کافر کی مسلمانوں کے خلاف اعانت مت کرو۔
    مسلمانوں کی مخالفت نہ کرو۔
    ہمارے دُشمن کو ہمارے خفیہ راز مت بتاؤ۔
    اگر وہ ان دفعات کی پابندی نہ کریں گے تو ہماری طرف سے بھی ان کی امان دہی کا معاہدہ ختم ہو جائے گا۔
    اور ایفائے عہد کی صورت میں جس میںادائے ٹیکس (جزیہ) بھی شامل ہے۔ ہم ان کی کسی بھی وقت امانت اور حمایت میں سبقت کرنے سے دریغ نہ کریں گے۔
    اگر وہ ہمارے ماتحت رہے تو ان کے لیے جملہ مراعات ہوں گی، جو اہلِ ذمہ کے لیے ہیں۔

درج ذیل اشخاص کا جزیہ (محاصل) معاف ہے :

    ان بوڑھوں کا جو کام کاج نہیں کر سکتے۔
    آسمانی آفات کے ہاتھوں تباہ شدگان کا۔
    اس فقیر کا جو خیرات پر گذر اوقات کرتا ہے۔
    متذکرہ بالا تین قسم کے اشخاص کو اسلامی بیت المال سے وظیفہ ملے گا، بشرطیکہ وہ مفتوحہ علاقے سے کسی غیر جگہ منتقل نہ ہوں (اگرچہ وہ غیر مسلم ہی رہیں)۔
    لباس میں ذمی لوگ فوجی لباس کے سوا جو چاہیں پہنیں۔
    فوجی لباس پہننے کی صورت میں مقدمہ چلے گا اگر وہ عدالت کو مطمئن نہ کر سکے تو جرم کے مطابق ان کو سزا دی جائے گی۔
    اگر وہ مسلمانوں سے کسی قسم کی اعانت کے طلب گار ہوں، خواہ مال ہی ہو اس سے دریغ نہ کیا جائے گا۔

1. محمد حميد اﷲ، الوثائق السياسة، 316، وثيقه : 291
2. ابويوسف، کتاب الخراج : 155
(3) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہدایات

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بہت سی ہدایات ہمیں ملتی ہیں جو آپ نے لشکر اسلام کے سپہ سالاروں کو تحریری طور پر یا زبانی دیں۔ ان میں سب سے جامع ہدایات وہ ہیں جو آپ نے شام بھیجی جانے والی فوج کے سالاروں کو دی تھیں۔ آپ نے فرمایا تھا :

أوصيکم بتقوي اﷲ اغزوا في سبيل اﷲ فقاتلوا من کفر باﷲ فإن اﷲ ناصردينه ولا تغلوا ولا تغدروا ولا تجبنوا ولا تفسدوا في الارض ولا تعصوا ماتؤمرون. . . ولا تغرقن نخلا ولا تحرقنها ولا تعقروا بهيمة ولا شجرة تثمر ولا تهدموا بيعة ولا تقتلوا الولدان ولا الشيوخ ولا النساء وستجدون اقواما حبسوا انفسهم في الصوامع فدعو هم وما حبسوا انفسهم له وستجدون آخرين اتخذ الشيطان في رؤوسهم أفحاصا فإذا وجدتم اولئک فاضربوا اعناقهم.

’’میں تمہیں اللہ عزوجل سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اللہ کے راستے میں جہاد کرو جن لوگوں نے خدا کو ماننے سے انکار کردیا ہے ان سے جنگ کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے دین کی نصرت فرمائے گا غلول (مال غنیمت میں چوری کرنا) نہ کرنا، غداری نہ کرنا، بزدلی نہ دکھانا زمین میں فساد نہ مچانا اور احکامات کی خلاف ورزی نہ کرنا، ۔ ۔ ۔ کھجور کے درخت نہ کاٹنا اور نہ انہیں جلانا چوپایوں کو ہلاک نہ کرنا اور نہ پھلدار درخت کو کاٹنا، کسی عبادت گاہ کو مت گرانا اور نہ ہی بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل کرنا، تمہیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جنہوں نے گرجا گھروں میں اپنے آپ کو محبوس کر رکھا ہے اور دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا۔ ان کے علاوہ تمہیں کچھ دوسرے لوگ ملیں گے جو شیطانی سوچ کے حامل ہیں (یہ لوگ گرجا گھروں کے خدام کہلاتے ہیں لیکن لوگ جنگ میں ان کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں) جب تمہیں ایسے لوگ ملیں تو ان کی گردنیں اڑا دو۔‘‘

1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 85
2. مالک، موطا، 2 : 247
3. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 199
4. سعيد بن منصور، السنن، 2. 3 : 5800
5. حسام الدين، کنزالعمال، 1 : 296
6. ابن قدامه، المغني، 8 : 451. 452، 477
7. ابن حزم : المحلي، 7 : 294، 296، 297

ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :

لا تخربوا عامرا ولا تذبحوا بعيرا ولا بقرة إلا لمأکل.

’’کسی آباد جگہ کو مت اجاڑو اور کسی گائے یا اونٹ کو ہلاک نہ کرو سوائے اسکے کہ اس کے گوشت کی تمہیں ضرورت ہو‘‘۔

1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 90
2. ابن حزم، المحلي، 7 : 294، 296، 297
3. حسام الدين، کنز العمال، 1 : 296
16۔ خلافتِ فاروقی اور اقلیتوں کے حقوق

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں بھی اقلیتوں کے حقوق کا قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق تحفظ کیا گیا۔ آپ کے دور خلافت میں بھی اقلیتوں سے کئی معاہدے ہوئے جن میں سے اہم اہلِ ماہ بہر اذان سے معاہدہ ہے :
اہلِ ماہ بہر اذان سے معاہدہ

حضرت نعمان بن مقرن نے اہلِ ماہ بہر اذان سے سیدنا حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں معاہدہ کیا، جس کی توثیق آپ نے فرمائی۔ اس معاہدے میں اقلیتوں کے متعلق درج ذیل دفعات شامل تھیں :

    ان کے اموال، نفوس اور اراضی ہر ایک پر ان کا قبضہ بدستور تسلیم کیا جاتا ہے۔
    انہیں نہ تو ان کے دین سے ہٹایا جائے گا اور نہ ان کی شریعت سے تعرض کیا جائے گا۔
    اُنہیں ہر سال ایک مرتبہ جزیہ (حکومتی محاصل) ادا کرنا ہو گا، یہ جزیہ ہمارے مقرر کردہ امیر کو دینا ہو گا۔ جزیہ کے عوض ان کی حمایت و حفاظت کی جائے گی۔
    جزیہ ہر شخص کی وسعت مالی کے مطابق ہو گا۔
    جزیہ کے مکلّف صرف بالغ مرد ہوں گے۔
    اُنہیں نووارد مسافروں کی رہنمائی کرنا ہو گی۔
    گذر گاہوں کی حفاظت ان کے ذمہ ہو گی۔
    مسلمان فوجی دستوں کی ایک دن کی مہمانی اور قیام کا انتظام کرنا ہو گا۔
    اگر اُنہوں نے کسی معاملہ میں دھوکا دیا یا اُن شرائط میں کمی کی تو امان کی ذمہ داری ختم ہو جائے گی۔

محمد حميد اﷲ، الوثائق السياسة : 358، وثيقه : 331

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آخری لمحے تک اقلیتوں کا خیال تھا۔ حالانکہ ایک اقلیتی فرقہ ہی کے فرد نے آپ کو شہید کیا۔ اس کے باوجود آخری وقت ارشاد فرمایا :

اوصي الخليفة من بعدي بذمة اﷲ و ذمة رسوله صلي الله عليه وآله وسلم أن يوفي لهم بعهدهم و أن يقاتل من ورائهم و أن لا يکلفوا فوق طاقتهم.

’’یعنی میں اپنے بعد والے خلیفہ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذمہ میں آنیوالوں (اقلیتوں) کے بارے میں یہ وصیت کرتا ہوں کہ وہ ان سے کیے ہوئے وعدے پورے کرے اور ان کی حفاظت کے لیے لڑے اور اُن کو اُن کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب ما جاء في قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 1 : 469، رقم : 1328
2. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب قصة البيعة، 3 : 1356، رقم : 3497
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 436، رقم : 37059
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 150
5. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 206
6. ازدي، الجامع، 11 : 109
7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 339
8. خلال، السنه، 1 : 116، رقم : 62
9. شوکاني، نيل الاوطار، 6 : 159، 160

حضرت عمر رضی اللہ عنہ باہر سے آنے والے لوگوں سے وہاں کی اقلیتوں کے بارے میں برابر پوچھتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ بصرہ سے آنے والے اقلیتوں کے ایک وفد سے دریافت فرمایا :

لعل المسلمين يفضون الي اهل الذمة بأذي. . . فقالوا : ما نعلم الا وفاء.

’’شاید مسلمان اقلیتوں کو کچھ تکالیف دیتے ہیں۔ ۔ ۔ (تو اہلِ ذمہ نے) کہا ہم نے عہد کی پابندی کے علاوہ ان میں کچھ نہیں دیکھا۔‘‘

طبري، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 503

یعنی مسلمانوں نے ہم سے جو معاہدہ کیا ہے اُسے پورا کر رہے ہیں۔
17۔ خلافتِ عثمانی اور اقلیتوں کے حقوق

خلافتِ راشدہ کا تیسرا دور شروع ہی ایک ایسے المناک حادثہ سے ہوا کہ ایک غیر مسلم نے خلیفۂ وقت پر قاتلانہ حملہ کیا اور خلیفہ جانبر نہ ہو سکے، آپ کے صاحبزادے حضرت عبید اللہ نے غصہ میں آ کر قتل کی سازش میں ملوث تین آدمیوں کو قتل کر دیا، جن میں سے ایک مسلمان اور دو غیر مسلم عیسائی تھے، حضرت عبید اللہ کو گرفتار کر لیا گیا۔ خلیفہ ثالث نے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی سب سے پہلے اس معاملہ کے بارے میں صحابہ کرام سے رائے لی، تمام صحابہ کی رائے یہ تھی کہ عبید اللہ کو قتل کر دیا جائے۔ لیکن بعد میں خون بہا پر مصالحت ہو گئی اور خون بہا (دیت) کی رقم تینوں مقتولین کے لیے برابر برابر مقرر کی گئی۔

ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 5 : 17

اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی ریاست میں مسلمانوں اور غیر مسلم اقلیتوں کے خون کی حرمت برابر ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا زمانۂ خلافت بھی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے شاندار ریکارڈ کا حامل ہے۔ آپ کے زمانہ خلافت میں کوفہ کے گورنر ولید بن عقبہ کے دربار میں ایک یہودی شعبدہ بازی کے کرتب دکھا رہا تھا، حضرت جندب بن کعب ازدی بھی تماشائیوں میں تھے، آپ کا شمار کبار تابعین میں ہوتا تھا، آپ نے ان شعبدوں کو شیطانی اثر سمجھا اور یہودی کو قتل کر دیا۔ ولید نے اسی وقت آپ کو گرفتار کر لیا اور قصاص میں قتل کرنے کے لیے جیل بھیج دیا۔ آپ نے داروغہ جیل ابوسنان سے پوچھا کہ کیا تو بھاگنے میں میری مدد کرے گا۔ اس نے کہا : ہاں اور پھر حضرت جندب کو جیل سے بھاگنے میں مدد دیتے ہوئے کہا : یہاں سے بھاگ جا اللہ تعالیٰ تیرے بارے مجھ سے کچھ نہ پوچھے گا۔

جب ولید نے آپ کو قتل کرنے کے لیے طلب کیا تو معلوم ہوا کہ آپ تو بھاگ گئے ہیں۔ ولید نے داروغہ کو نگرانی میں کوتاہی کرنے کے جرم میں قتل کر دیا۔

1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 136
2. مزي، تهذيب الکمال، 5 : 146
18۔ خلافتِ مرتضوی اور اقلیتوں کے حقوق

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ کا دور بہت پر آشوب تھا۔ مگر اس کے باوجود آپ کے دور خلافت میں اقلیتوں کے حقوق کو کوئی گزند نہیں پہنچنے دی گئی۔ ایک دفعہ آپ کے پاس ایک مقدمہ آیا جس میں قاتل مسلمان تھا اور مقتول غیر مسلم تھا۔ آپ نے قاتل کو مقتول کے وارثوں کے سپرد کر دینے کا حکم دیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فتویٰ پر فیصلہ کیا۔ مگر مقتول کے وارثوں نے دیت لے کر قاتل کو چھوڑ دینا چاہا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے مقتول کے ورثاء کو بلا کر پوچھا کہ تمہارے اُوپر کوئی دباؤ تو نہیں ڈالا گیا، تو اُنہوں نے عرض کیا کہ نہیں ہم پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ تب آپ نے وہ دیت دلا دی جو مسلمانوں کی دیت کے برابر تھی اور فرمایا :

من کان له ذمتنا فدمه کدمنا و ديته کديتنا.

’’یعنی جو غیر مسلم ہماری ذمہ داری میں ہے اس کا خون ہمارے خون جیسا ہے اور اس کی دیت بھی ہماری یعنی مسلمانوں کی دیت کے برابر ہے۔‘‘

1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 34
2. شافعي، المسند، 1 : 344
3. شيباني، الحجة، 4 : 355
4. زيلعي، نصب الراية، 4 : 337
5. شافعي، الام، 7 : 321
6. عسقلاني، الدرايه في تخريج احاديث الهدايه، 2 : 263

اقلیتوں کے حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کی عطا کی گئی تعلیمات اور دور نبوت و دور خلافت راشدہ میں اقلیتوں کے حقوق کے احترام و تحفظ کے ان روشن نظائر سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مسلم ریاست میں اقلیتوں کو وہ تحفظ اور حقوق حاصل ہیں جن کا تصور بھی کسی دوسرے معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا۔ معروف مستشرق واٹ اس کا اعتراف یوں کرتا ہے :

The Christian were probably better off as Dhimis under Muslim Arab rulers than they had been under the Byzantine Greek.(1)

’’(مسلمانوں کے دور اقتدار میں) عیسائی، عرب مسلم حکمرانوں کے اقتدار میں بطور ذمی اپنے آپ کو یونانی بازنطینی حکمرانوں کی رعیت میں رہنے سے زیادہ محفوظ اور بہتر سمجھتے تھے۔‘‘

(1) Watt M. Watt, Islamic Political Thought, p. 151.

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...