اسلام اور اقلیتوں کے حقوق حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اقلیتوں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن سلوک کا نتیجہ تھا کہ ان کا برتاؤ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ احترام پر مبنی تھا۔ ایک جنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیف ایک یہودی جب مرنے لگا تو لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تیری بڑی جائیداد ہے اس کا وارث کون ہو گا؟ تو اس یہودی نے کہا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری جائیداد کے وارث ہوں گے۔ اسلامی ریاست میں اقلیتوں سے حسن سلوک کا ایک غیر مسلم کی طرف سے اعتراف تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اہلِ کتاب کے علاوہ مشرکین (بت پرست اقوام) سے بھی جو برتاؤ رہا اس کی بھی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ مشرکین مکہ و طائف نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بے شمار مظالم ڈھائے، لیکن جب مکہ مکرمہ فتح ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک انصاری کمانڈر سعد بن عبادۃ نے ابوسفیان سے کہا :
اليوم يوم الملحمة.
’’آج لڑائی کا دن ہے۔‘‘
یعنی آج کفار سے جی بھر کر انتقام لیا جائے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہو گئے اور ان سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس کے سپرد کر دیا اور ابوسفیان سے فرمایا :
اليوم يوم المرحمة.
’’(آج لڑائی کا نہیں بلکہ) آج رحمت کے عام کرنے (اور معاف کر دینے) کا دن ہے۔‘‘
1. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 8 : 9
2. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 2 : 597
3. حلبي، انسان العيون، 3 : 22
4. خزاعي، تخريج الدلالات السمعيه، 1 : 345
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مخالفین سے پوچھا کہ بتاؤ میں آج تمہارے ساتھ کیا برتاؤ کروں گا؟ تو اُنہوں نے کہا کہ جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے خطا کار بھائیوں کے ساتھ برتاؤ کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی وہی توقع ہے۔ اس جواب پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہی جملہ ارشاد فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے لیے فرمایا تھا :
لا تثريب عليکم اليوم، اذهبوا فانتم الطلقاء
(یعنی تم سے آج کوئی پوچھ گچھ نہیں تم سب آزاد ہو)۔
1. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 220، رقم : 368
2. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 18
3. مناوي، فيض القدير، 5 : 171
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بڑا دُشمن ابوسفیان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا من دخل دار ابی سفیان فہو آمن (جو ابوسفیان کے گھر میں آج داخل ہوا وہ امن میں ہے)۔ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کو اس طرح پورا کیا کہ جو بھی اس دن ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوا اسے امان مل گئی۔
1. مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد، باب فتح مکه3 : 1406، رقم : 1780
2. ابو داؤد، السنن، کتاب الخراج، باب ماجاء في خبر مکه، 3 : 162، رقم : 3021
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 398، رقم : 36900
4. عبدالرزاق، المصنف، 5 : 376
5. دارقطني، السنن، 3 : 60، رقم : 233
6. ابو عوانه، المسند، 4 : 290
7. البزار، المسند، 4 : 122، رقم : 1292
8. طحاوي، شرح معاني الاثار، 3 : 321
9. بيهقي، السنن الکبريٰ، 6 : 34، رقم : 10961
10. طبراني، المعجم الکبير، 8 : 8
11. هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 175
12. عسقلاني، فتح الباري، 8 : 12
13. فاکهي، اخبار مکه، 3 : 277
مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرنے میں سب سے زیادہ دو اشخاص کا دخل تھا وہ ابولہب کے بیٹے تھے جنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذائیں دی تھیں۔ فتح مکہ کے روز یہ دونوں گستاخ کعبۃ اللہ کے پردوں کے پیچھے جا چھپے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو خود کعبۃ اللہ کے پردوں کے پیچھے سے نکالا اور معاف کر دیا۔
زيلعي، نصب الرايه، 3 : 336
1۔ قانون کی نظر میں اقلیتوں کا مساوی مقام
امام ابو یوسف اپنی شہرۂ آفاق تصنیف ’’کتاب الخراج‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عہدِ نبوی اور خلافتِ راشدہ میں تعزیرات اور دیوانی قانون دونوں میں مسلمان اور غیر مسلم اقلیت کا درجہ مساوی تھا۔
ابو يوسف، کتاب الخراج : 187
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد میں ایک دفعہ ایک مسلمان نے ایک غیر مسلم کو قتل کر دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قصاص کے طور پر اس مسلمان کے قتل کیے جانے کا حکم دیا اور فرمایا :
أنا أحق من أوفي بذمته.
’’غیر مسلموں کے حقوق کی حفاظت میرا سب سے اہم فرض ہے۔‘‘
1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 30
2. شافعي، المسند، 1 : 343
3. مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 4 : 557
4. زيلعي، نصب الراية، 4 : 336
5. ابونعيم، مسند ابي حنيفة، 1 : 104
6. ابن رجب، جامع العلوم والحکم، 1 : 126
7. شيباني، المبسوط، 4 : 488
8. شافعي، الام، 7 : 320
9. ابن رشد، بداية المجتهد، 2 : 299
دوسری روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انا اکرم من وفی ذمتہ فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس تعلیم پر عمل درآمد کے بے شمار نظائر دور خلافت راشدہ میں بھی ملتے ہیں :
1۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مسلمان کو پکڑ کر لایا گیا جس نے ایک غیر مسلم کو قتل کیا تھا۔ پورا ثبوت موجود تھا۔ اس لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قصاص میں اس مسلمان کو قتل کیے جانے کا حکم دیا۔ قاتل کے ورثاء نے مقتول کے بھائی کو معاوضہ دے کر معاف کرنے پر راضی کر لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے اسے فرمایا :
لعلهم فزعوک او هددوک.
’’شاید ان لوگوں نے تجھے ڈرا دھمکا کر تجھ سے یہ کہلوایا ہو۔‘‘
1. دار قطني، السنن، 3 : 134
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 30
3. عسقلاني، 2 : 262، رقم : 1009
4. صنعاني، سبل السلام، 3 : 235
5. شوکاني، نيل الاوطار، 7 : 153
اس نے کہا نہیں بات دراصل یہ ہے کہ قتل کیے جانے سے میرا بھائی تو واپس آنے سے رہا اور اب یہ مجھے اس کی دیت دے رہے ہیں، جو پسماندگان کے لیے کسی حد تک کفایت کرے گی۔ اس لیے خود اپنی مرضی سے بغیر کسی دباؤ کے میں معافی دے رہا ہوں۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا تمہاری مرضی۔ تم زیادہ بہتر سمجھتے ہو۔ لیکن بہرحال ہماری حکومت کا اُصول یہی ہے کہ:
من کان له ذمتنا فدمه، کدمنا، و ديته، کديتنا.
’’جو ہماری غیر مسلم رعایا میں سے ہے اس کا خون اور ہمارا خون برابر ہے اور اس کی دیت ہماری دیت ہی کی طرح ہے‘‘
1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 34
2. ابويوسف، کتاب الخراج : 187
3. شافعي، المسند : 344
4. شافعي، الام، 7 : 321
5. شيباني، الحجه، 4 : 355
6. زيلعي، نصب الرايه، 4 : 337
7. عسقلاني، الدرايه، 2 : 263
8. شوکاني، نيل الاوطار، 7 : 154
2۔ ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
إذا قتل المسلم النصراني قتل به.
’’اگر کسی مسلمان نے عیسائی کو قتل کیا تو مسلمان (عوضاً) قتل کیا جائے گا۔‘‘
1. شيباني، الحجة، 4 : 349
2. شافعي، الام، 7 : 320
3۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
دية اليهودي والنصراني والمجوسي مثل دية الحر المسلم.
’’یہودی، عیسائی اور مجوسی کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر ہے۔‘‘
1. شيباني، الحجة، 4 : 322
2. ابن ابي شيبة، المصنف، 5 : 407، رقم : 27448
3. عبدالرزاق، المصنف، 10 : 95، 97، 99
4. ابن رشد، بداية المجتهد، 2 : 310
5. صنعاني، سبل السلام، 3 : 251
6. زيلعي، نصب الراية، 4 : 368
7. عسقلاني، الدراية في تخريج احاديث الهداية، 2 : 276
اسی قول کی بنا پر فقہا نے یہ اصول تشکیل دیا کہ اگر مسلمان کسی ذمی کو بلا ارادہ قتل کر دے تو اس کی دیت بھی وہی ہوگی جو مسلمان کو بلا ارادہ قتل کرنے سے لازم آتی ہے۔
1. حصکفي، در المختار، 2 : 223
2. ابن عابدين شامي، رد المحتار، 3 : 273
4۔ ایک دفعہ حضرت عمرو بن عاص والی مصر کے بیٹے نے ایک غیر مسلم کو ناحق سزا دی۔ خلیفۂ وقت امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جب اس کی شکایت ہوئی تو اُنہوں نے سرعام گورنر مصر کے بیٹے کو اس غیر مسلم مصری سے سزا دلوائی اور ساتھ ہی فرمایا :
متی استعبدتم الناس وقد ولدتهم امهاتهم احرارا.
’’تم نے کب سے لوگوں کو اپنا غلام سمجھ لیا ہے حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد جنا تھا۔‘‘
1. حسام الدين، کنز العمال، 2 : 455
2. اسماعيل محمد ميقا، مبادي اسلام ومنهجه : 27
5۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک ذمی کو قتل کر دیا، اس پر :
فکتب فيه عمر بن الخطاب رضي الله عنه ان يدفع الي اولياء المقتول فان شاؤوا قتلوا و ان شاؤوا اعفوا فدفع الرجل إلي ولي المقتول إلي رجل فقتله.
’’آپ نے حکم دیا کہ قاتل کو مقتول کے وارثوں کے حوالہ کیا جائے۔ اگر وہ چاہیں قتل کر دیں ورنہ معاف کر دیں۔ چنانچہ وہ مقتول کے وارث کو دے دیا گیا اور اس نے اسے قتل کر دیا۔‘‘
1. بيهقي، السنن الکبري، 8 : 32
2. شافعي، الام، 7 : 321
3. شيباني، الحجة، 4 : 335
4. زيلعي، نصب الراية، 4 : 337
6۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں عبیداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کے قتل کا فتویٰ دے دیا گیا تھا، کیونکہ انہوں نے ہر مزان، جفینہ اور ابو لولو کی بیٹی کو اس شبہ میں قتل کر دیا تھا کہ شاید وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قتل کی سازش میں شریک تھے۔
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 5 : 17
2. عسقلاني، الدرايه، 2 : 263
7۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ابن شاس جذامی نے شام کے کسی علاقے میں ایک شخص کو قتل کر دیا، معاملہ حضرت عثمان تک پہنچنے پر آپ نے اس کے قتل کا حکم دے دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی مداخلت پر آپ نے ایک ہزار دینار دیت مقرر کی۔
شافعي، المسند، 1 : 344
8۔ عظیم محدث ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
ان دية المعاهد في عهد ابي بکر و عمر و عثمان رضي اﷲ عنهم مثل دية الحر المسلم.
’’بے شک ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کے دور میں ذمی کی دیت آزاد مسلمان کی دیت کے برابر تھی۔‘‘
1. شيبانی، الحجة، 4 : 351
2. شافعی، الام، 7 : 321
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment