اسلام اور اقلیتوں کے حقوق حصّہ اوّل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اسلام شرفِ اِنسانیت کا علمبردار دین ہے۔ ہر فرد سے حسن سلوک کی تعلیم دینے والے دین میں کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرف انسانیت کے منافی ہو۔ دیگر طبقات معاشرہ کی طرح اسلامی ریاست میں اقلیتوں کو بھی ان تمام حقوق کا مستحق قرار دیا گیا ہے، جن کا ایک مثالی معاشرے میں تصور کیا جاسکتا ہے۔ اقلیتوں کے حقوق کی اساس معاملات دین میں جبر و اکراہ کے عنصر کی نفی کرکے فراہم کی گئی :
لاَ إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌO
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہوچکی ہے، سو جو کوئی معبودانِ باطل کا انکار کردے اور اللہ پر ایمان لے آئے تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا جس کے لیے ٹوٹنا (ممکن) نہیں، اور اللہ خوب جاننے والا ہےo‘‘
القرآن، البقرة، 2 : 256
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا :
لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِO
’’(سو) تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہےo‘‘
القرآن، الکافرون، 109 : 6
اسلامی معاشرے میں اقلیتوں کے حقوق کو کتنی زیادہ اہمیت دی گئی ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان مبارک سے ہوتا ہے :
ألا من ظلم معاهداً او انتقصه او کلفه فوق طاقته او اخذ منه شيئا بغير طيب نفس فانا حجيجه يوم القيامة.
’’خبردار! جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا یا اس کا حق غصب کیا یا اُس کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف دی یا اس کی رضا کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو بروز قیامت میں اس کی طرف سے (مسلمان کے خلاف) جھگڑوں گا۔‘‘
1. ابوداؤد، السنن، کتاب الخراج، باب في تعشير، 3 : 170، رقم : 3052
2. ابن ابي حاتم، الجرح والتعديل، 1 : 201
3. منذري، الترغيب والترهيب، 4 : 7، رقم : 4558
4. قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 8 : 115
5. عجلوني، کشف الخفاء، 2 : 285، رقم : 2341
یہ صرف ایک تنبیہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دورِ مبارک میں اسلامی مملکت میں جاری تھا، جس پر بعد میں بھی عمل درآمد ہوتا رہا اور اب بھی یہ اسلامی دستورِ مملکت کا ایک حصہ ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے:
ان رجلا من المسلمين قتل رجلا من أهل الکتاب، فرفع الي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : أنا أحق من وفي بذمته، ثم أمر به فقتل.
’’ایک مسلمان نے ایک اہل کتاب کو قتل کر دیا اور وہ مقدمہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فیصلہ کے لیے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اہل ذمہ کا حق ادا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہوں چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قاتل کے بارے میں قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے قتل کر دیا گیا۔‘‘
1. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 30
2. شافعي، المسند، 1 : 343
3. ابو نعيم، مسند ابي حنيفه، 1 : 104
4. شافعي، الام، 7 : 320
5. شيباني، المسبوط، 4 : 488
6. ابن رشد، بداية المجتهد، 2 : 299
7. ابن رجب، جامع العلوم والحکم، 1 : 126
8. زيلعي، نصب الرايه، 4 : 336
9. مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 4 : 557
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اقلیتوں کے بارے مسلمانوں کو ہمیشہ متنبہ فرماتے تھے، چنانچہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاہدین کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا :
من قتل معاهدا لم يرح رائحة الجنة وان ريحها توجد من مسيرة اربعين عاما.
’’جس کسی نے کسی معاہد (اقلیتی فرد) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا حالانکہ جنت کی خوشبو چالیس برس کی مسافت تک پھیلی ہوئی ہے۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، کتاب الجزيه، باب إثم من قتل، 3 : 1154، رقم : 2995
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الديات، باب من قتل معاهدا2 : 896، رقم : 2686
3. ربيع، المسند، 1 : 367، رقم : 956
4. بيهقي، السنن الکبريٰ، 8 : 133
5. منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 204، رقم : 3693
6. صنعاني، سبل السلام، 4 : 69
7. شوکاني، نيل الاوطار، 7 : 155
اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ جنت سے بہت دُور رکھا جائے گا دراصل یہ تنبیہات اس قانون پر عمل درآمد کروانے کے لیے ہیں جو اسلام نے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے عطا کیا۔
غیر مسلموں کے جو بیرونی وفود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آتے ان کی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود میزبانی فرماتے چنانچہ جب مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حبشہ کے عیسائیوں کا ایک وفد آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور ان کی مہمان نوازی خود اپنے ذمہ لی اور فرمایا :
انهم کانوا لأصحابنا مکرمين، و اني أحب أن أکافئهم.
’’یہ لوگ ہمارے ساتھیوں کے لیے ممتاز و منفرد حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے میں نے پسند کیا کہ میں بذات خود ان کی تعظیم و تکریم اور مہمان نوازی کروں۔‘‘
1. بيهقي، شعب الايمان، 6 : 518، رقم : 9125
2. صيداوي، معجم الشيوخ، 1 : 97
3. ابن کثير، السيرة النبوية، 2 : 31
ایک دفعہ نجران کے عیسائیوں کا چودہ رکنی وفد مدینہ منورہ آیا۔ آپ نے اس وفد کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا اور اس وفد میں شامل مسیحیوں کو اجازت دی کہ وہ اپنی نماز اپنے طریقہ پر مسجد نبوی میں ادا کریں چنانچہ یہ مسیحی حضرات مسجد نبوی کی ایک جانب مشرق کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے۔
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 357
2. قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 4 : 4
3. ابن قيم، زادالمعاد، 3 : 629
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان تعلیمات کی روشنی میں چودہ سو سال گزرنے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے سے لے کر ہر اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کو حقوق کا تحفظ حاصل رہا۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب
اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment