Friday, 17 December 2021

مسئلہ باغ فدک اور حدیث بخاری کا صحیح مفہوم شیعہ کتب کی روشنی میں

 مسئلہ باغ فدک اور حدیث بخاری کا صحیح مفہوم شیعہ کتب کی روشنی میں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ صحیح بخاری میں حدیث پیش کرتے ہیں : حدثنا عبد الله بن محمد حدثنا هشام أخبرنا معمر عن الزهري عن عروة عن عائشة أن فاطمة والعباس عليهما السلام أتيا أبا بکر يلتمسان ميراثهما من رسول الله صلی الله عليه وسلم وهما حينئذ يطلبان أرضيهما من فدک وسهمهما من خيبر فقال لهما أبو بکر سمعت رسول الله صلی الله عليه وسلم يقول لا نورث ما ترکنا صدقة إنما يأکل آل محمد من هذا المال قال أبو بکر والله لا أدع أمرا رأيت رسول الله صلی الله عليه وسلم يصنعه فيه إلا صنعته قال فهجرته فاطمة فلم تکلمه حتی ماتت ۔(صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 1645 ،- فرائض کی تعلیم کا بیان )

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رسول اللہ کے (ترکہ میں سے) اپنے میراث مانگنے آئے اور وہ دونوں اس وقت فدک کی زمین اور خیبر کی زمین سے اپنا حصہ وصول کر رہے تھے تو ان دونوں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہمارا کوئی وارث نہ ہوگا اور جو کچھ ہم نے چھوڑا وہ صدقہ ہے صرف اس مال سے آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھائیں گے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خدا کی قسم میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو کام کرتے ہوئے دیکھا ہے اس کو نہیں چھوڑتا ہوں چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملنا جلنا چھوڑ دیا اور ان سے گفتگو چھوڑ دی یہاں تک کہ وفات پاگئیں۔


منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں کہ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس فیصلے کو ماننےسے انکار کیوں کیا ؟ اور ساتھ ہی یہ اعتراض بھی نقل کرتے ہیں کہ یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی شان پر بھی چوٹ پڑتی ہے ۔ کیونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مرتے دم تک ابوبکر رضی اللہ عنہ سے گفتگو کی اور نہ ہی ملاقات کی ۔


جواب : دراصل یہاں صرف اور صرف مغالطوں سے کام لینے کی کوشش کی جارہی ہے،کیونکہ اگر تمام طرق احادیث اسی مسئلہ پر جمع کیے جائیں تو یہ سارے اعتراضات کا لعدم ہوجاتے ہیں۔رہی بات اس مسئلے کی کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی پیش کردہ حدیث مانے سے انکار کیوں کیا ؟ تو اس بات کو ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک یہ حدیث نہ پہنچی تھی یا اس وقت ان کے ذہن میں نہ تھی، تب تو انہوں نے وراثت مانگی لیکن جب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ انہیں حدیث سنائی تو انہوں نے کبھی بھی وراثت کا سوال نہیں کیا۔اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں موجود ہے کہ انہوں نے حدیث سننے کے بعد حدیث کی مخالفت کی ہو۔لہذا یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماں رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مکمل طور پر عاملہ تھیں۔


جن احادیث میں یہ ذکر ہو ہے کہ حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا نے کبھی بھی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگواس امر پر محمل ہے کہ وراثت کے مسئلے کے لیے گفتگو نہ فرمائی لیکن ملاقات ترک نہ کی اور نہ اس کی کوئی واضح دلیل ہے۔


حافظ ابن حجر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فھجرتہ فاطمۃ فلم تکلمہ حتیٰ ماتت} ووقع عندبن شبۃ من وجہ اٰخر عن معمر(فلمہ تکلمہ فی ذالک المال}فتح الباری ،ج 6 ،ص164)

ترجمہ : حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات ترک کی اور مرتے دم تک ان سے گفتگو نہ کی}معمر سے بطریق یہ روایت ہے کہ {جس روایت میں یہ ہے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو نہ کی اس سے مراد یہ ہے کہ} فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے وراثت کے مال کے بارے میں گفتگو نہ کی۔


یعنی وراثت کے مسئلے پر گفتگو نہ کی لہذا اگر کوئی ان باتوں سے فاطمہ رضی اللہ عنہا کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مطلق ناراضگی مرادلے گا تو یہ غلط ہے۔کیونکہ دوسری روایت اس بات پر شاہد ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے گفتگو بھی فرمائی اور ان سے ملاقات بھی کی ۔


امام بیہقی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب السنن الکبری میں زکر فرماتے ہیں : امام مرضت فاطمۃ رضی اللہ عنہا اتاھا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ فاستاذن علیھا فقال علیٰ : یافاطمۃ ؛ ھزا ابوبکر یستاذن علیک فقالت : اتحب ان اذن لہ قال نعم فاذنت لہ فدخل علیھا یترضاھا(السنن الکبری ، ج 6 ،ص 491 ،رقم 12735, چشتی)

ترجمہ : جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس تشریف لائے اور آنے کی اجازت طلب کی تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فاطمہ ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں آپ سے ملنے کی اجازت طلب کر رہے ہیں۔ حضرت سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا آپ ان سے ملاقات کی اجازت دیں گے ؟ تو علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں پس وہ تشریف لائے اور ان کو راضی کیا ۔


سبحان اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام اعمال اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لیے ہوا کرتے تھے ۔ الحمدللہ اس حدیث نے واضح کردیا کہ ان میں کو ئی بھی ایک دوسرے سے خفا نہیں تھا اور نہ ہی ناراضی تھی بلکہ احا دیث ہی پر عمل پیرا ہوتے تھے اور اپنی دنیا اور آخرت کی نجات بھی رسول صلی اللہ علیہ وسلم اتباع میں ہی سمجھتے تھے ۔


مسلہ باغ فدک شیعہ کتب کی روشنی


باغ فدک کیا ہے ؟ فدک خیبر کا ایک قصبہ ہے (وہاں ایک باغ ہے جسے باغ فدک کہا جاتا ہے) اور یہ بھی کہا گیا کہ حجاز کا ایک کنارہ ہے جس میں چشمےاور کھجوروں کے درخت ہیں یہ اللہ سبحانہ وتعالی نےاپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا کیا تھا ۔ (لسان العرب جلد2، صفحہ 473)


حضرت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی حدیث سنائی کہ انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال نہیں علم ہے اور یہ بتایا کہ اس جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم اہلبیت کو دیا کرتے تھے وہ میں بھی جاری رکونگا تو حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے اپنے مطالبے سے رجوع کر لیا اور پھر ساری عمراس مسئلے پر کوئی بات نہیں کی بلکہ شیعوں کی اپنی کتاب میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ اس پر راضی ہو گئیں۔اس مسلے کو ہم کتب شیعہ سے لکھ رہے شاید کسی کو ہدایت نصیب ہوجائے اور وہ گستاخیاں چھوڑ دے یاد رہے اس مسلے کو بعض متعصب شیعہ علماء نے من گھڑت کہانیوں کے ذریعے اچھالا آیئے حقائق پڑھتے ہیں ۔


مشہور شیعہ مصنف اس کا نام کمال الدین میثم بن علی میثم البحرانی ہے۔ ساتویں صدی ہجری میں پیدا ہوا۔ ’’عالمِ ربانی، فلسفی، محقق، صاحبِ حکمت اور نہج البلاغۃ کی شرح کا مصنف ہے۔ محقق طوسی سے روایت کرتا ہے… کہا گیا ہے کہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے فقہ کمال الدین میثم سے اور میثم نے حکمت خواجہ سے پڑھی تھی۔ ۶۷۹ھ میں وفات پائی اور ماحوذ کے قریب ایک بستی ہلتا میں دفن ہوا۔(الکنی والالقاب جلد ۱ ، صفحہ ۴۱۹)اسی نے کہا تھا ۔میں نے علوم و فنون اس لیے چاہے تھے کہ اس سے برتری حاصل کروں‘‘’’مجھے بس اسی قدر ملا کہ اسی تھوڑے سے میں بلند ہوگیا‘‘ ’’مجھے معلوم ہوگیا کہ سب کے سب محاسنفرع ہیں اور حقیقت میں مال ہی اصل ہے‘‘ ’’اس کی ایسی ایسی عجیب تصنیفات ہیں جن کے بارے میں زمانے میں سے کسی نے بھی نہیں سنا اور نہ ہی بڑے بڑوں میں سے کوئی اُسے پاسکا ہے ۔ (روضات الجنات ج ۲ ص ۲۱۸ اور مابعد)


شیعہ ابن میثم نہج البلاغہ کی شرح میں یہ روایت لکھتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا جو آپ کے والد محترم کا تھا وہ آپ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فدک میں سے آپ کیلئے کچھ رکھ لیا کرتے تھے باقی اللہ سبحانہ وتعالی کے راستے میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اللہ کی قسم !میں آپ کے ساتھ ویسا ہی کروں گا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا کرتے تھے یہ سُن کر فاطمہ رضی اللہ عنہا خوش ہو گئیں اور اس بات کا آپ سے عہدلے لیا ۔ (شرح نہج البلاغ،جلد 5،صفحہ 7،از ابن میثم البحرانی مطبوعہ تہران)


اسی جیسی ایک روایت شیعہ دنبلی نے اپنی شرح ’’الدرۃ النجفیہ صفحہ 331،332 مطبوعہ ایران‘‘ میں بیان کی ہے۔ (شرح نہج البلاغۃ جلد5 ،صفحہ 331،332ایران)


شیعہ ابن میثم،دنبلی،ابنِ ابی الحدید، اور معاصر شیعہ مصنف فیض الاسلام علی نقی نے یہ روایت نقل کی ہے:’’ابوبکر رضی اللہ عنہ باغِ فدک کے غلہ میں سے اتنا حصہ اہلِ بیت کو دے دیا کرتے تھے جو ان کی ضروریات کے لیئے کافی ہوتا۔ باقی سب تقسیم کردیا کرتے، آپ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے، عثمان رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے اور ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ (شرح نہج البلاغۃ، لابنِ ابی الحدید جلد 4، صفحہ44)(شرح نہج البلاغۃ،لابنِ میثم البحرانی جلد 5، صفحہ 107،چشتی)(الدرۃ النجفیۃ‘‘ صفحہ 332)(شرح النہج البلاغہ،جلد 5،صفحہ 960، فارسی لعلی نقی ،مطبوعہ تہران)


شیعہ کتب گواہ ہں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ویسا ہی کیا جیسا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم نے کیا تو یہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر کیا فتوی لگائیں گے ؟


نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال نہیں ہے اس روایت کو متعصب شیعہ جھٹلاتے ہیں جبکہ یہ روایت خود شیعوں کی اپنی کتب میں موجود ہے، ان کی اپنی کتاب (کافی) میں جسےشیعہ سب سے صحیح کتاب کہتے ہیں اسی کتاب (کافی) میں شیعہ کلینی نےحماد بن عیسی سےاور حماد بن عیسی نےقداح سےجعفر ابو عبداللہ کی روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ’’جو علم کو تلاش کرتے ہوئے علم کے راستے پر چلے، اللہ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے ، اور عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے، جیسے چودھویں کا چاند سارے ستاروں سے افضل ہے۔ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں جو دینار و درہم وراثت میں نہیں چھوڑتے لیکن علم کی میراث چھوڑتے ہیں، جو اس میں سے کچھ حاصل کرلے اس نے بہت کچھ حاصل کرلیا ۔ (الاصول من الکافی کتاب فضل العلم، باب ثواب العالم والمتعلم جلد 1،صفحہ 34)


جعفر ابوعبد اللہ نےایسی ہی ایک اور روایت میں کہا ہے: علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کا مالِ میراث درہم و دینار نہیں ہوتا، انہیں انبیاء علیہم السلام کی احادیث میراث میں ملتی ہیں ۔ (الاصول من الکافی باب صفۃ العلم وفضلہ وفضل العلماء جلد 1، صفحہ 32)


مزید دو روایتیں پیش خدمت ہیں جن سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے، ان روایات کو بھی اس نے روایت کیا ہے جسے شیعہ قوم ’’صدوق‘‘ کے نام سے پکارتی ہے ۔


(1) براہیم بن علی رافعی نے اپنے باپ سے، اس نے اپنی دادی بنت ابی رافع سے روایت کیا ہے وہ کہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں، ان کو اپنی کچھ میراث دے دیجیے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ حسن رضی اللہ عنہ کے لیے میری ہیبت اور بزرگی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کے لیے میری جرأت اور میری سخاوت۔( کتاب الخصال‘‘ از قمی صدوق، صفحہ 77،چشتی)


(2) سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کے دو بیٹے ہیں، انہیں کچھ عطا کیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسن رضی اللہ عنہ کو میں نے اپنا رعب اور بزرگی دی اور حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی سخاوت اور شجاعت۔(کتاب الخصال“ از قمی صفحہ 77)


بعض متعصب شیعہ حضرات یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں نے باغِ فدک آپ کو اس لیئے نہیں دیا تھا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو مفلس و قلاش کردینا چاہتے تھے تاکہ لوگ مال و دولت کے لالچ میں ان کی طرف راغب نہ ہو جائیں ۔ ہمیں ان پر اور ان کی عقلوں پر افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو اس آخری زمانے کے حکمرانوں جیسا سمجھتے ہیں جو دولت کے بل بوتے پر مال اور رشوت دے کر بڑے بڑے عہدے حاصل کرتے ہیں۔ اگر بالفرض یہ بات بھی تھی تو مال کی وافر مقدار ان کے پاس موجود تھی، دیکھئے شیعہ عالم کلینی اس کا ذکر کرتا ہے۔ دسویں امام ابو الحسن سے روایت ہے کہ سات باغات فاطمہ علیہا السلام کے لیے وقف تھے۔ وہ باغات یہ ہیں:(۱)دلال (۲) عوف(۳) حسنی (۴) صافیہ (۵) مالامِ ابراہیم (۶) مثیب (۷) برقہ ۔ (الفروع من الکافی‘‘ ،کتاب الوصایا ،جلد ۷ ،صفحہ ۴۷، ۴۸)


اب یہ بتا ئیں جو سات باغات کا مالک ہو اس کے پاس دولت کی کمی ہوگی ؟


محترم قارئین قابلِ غوریہ بات ہے کہ : اگر باغ فدک اور اس کی زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تھی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اکیلی ہی اس کی وارث تو نہ تھیں، ابوبکر صدیق اور فاروق رضی اللہ عنہما کی بیٹیاں بھی اس کی وراثت میں شریک تھیں، اگر ابوبکر صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس وراثت سے محروم رکھا تو اپنی بیٹیوں کو بھی تو محروم رکھا۔ آخر اُن کی بات کوئی کیوں نہیں کرتا،ان کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ بھی زندہ تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء میں وہ بھی شامل تھے۔


یاد رہے یہ اعتراض کرنے والے شیعہ حضرات اتنا بھی نہیں جانتے کہ ان کے مذہب میں عورت کو غیر منقولہ جائداد اور زمین کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملتا۔ ان کے محدثین نے اس مسئلہ کو مستقل ابواب و عنوانات کے تحت بیان کیا ہے۔ دیکھیے کلینی نے ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے: ’’عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا‘‘ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں۔چوتھے امام ابو جعفر سے روایت ہے کہ : انہوں نے کہا: ’’عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔(الفروع من الکافی‘‘ کتاب المواریث ،جلد7،صفحہ 137)


ابنِ بابویہ قمی صدوق نے اپنی صحیح ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ میں یہ روایت بیان کی ہے : ابو عبداللہ جعفر کی روایت ان کے پانچویں امام کی روایت میسر نے بیان کی ہے کہ میں نے آپ سے (یعنی جعفر سے) عورتوں کی میراث کے بارے میں پوچھا؟ آپ نے کہا: جہاں تک زمین اور غیر منقولہ جائداد کا تعلق ہے، اس میں عورتوں کی میراث نہیں۔(من لا یحضرہ الفقیہ““،کتاب الفرائض والمیراث جلد۴ ،صفحہ ۳۴۷،چشتی)


اسی طرح اور بہت سی روایات بھی بیان کی گئی ہیں جن کی بناء پر اُن کے علماء نے اتفاق کیا ہے کہ زمین اور غیر منقولہ جائداد میں عورتوں کو میراث نہیں دی جاتی ۔


اگر عورتوں کو زمین اور باغات وغیرہ کی جائیداد نہیں دی جاتی تو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے بقول ان کے کس طرح فدک کا مطالبہ کیا تھا۔ کوئی کوڑھ مغز بھی اس سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ یقینا فدک غیر منقولہ جائداد تھی۔


کیا حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مسلہ پر ناراض تھیں کا جواب شیعوں کے سب سے بڑے متعصب عالم مجلسی کے قلم سے پڑھیئے ، باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ:سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے: میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں، اپنی اولاد کے لیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا۔(حق الیقین‘‘ ،صفحہ ۲۰۱، ۲۰۲ ،ترجمہ فارسی)


مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اقتدار پر فائز ہوتے ہی ابن سباء کی نسل کی اس سازش پر ضربِ کاری لگائی ۔ امامِ شیعہ، سید مرتضیٰ علم الہدیٰ لکھتا ہے:جب فدک کے انکار کا معاملہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو آپ نے کہا: مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس چیز کو دے ڈالوں جس کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی حال میں برقرار رکھا۔ (الشافی‘‘ للمرتضیٰ صفحہ ۲۳۱ )( شرح نہج البلاغۃ لابنِ ابی الحدید“، جلد ۴)


حضرت امام ابوجعفر محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے بارے میں کثیر النوال نے پوچھا: ’’میں آپ پر قربان جاؤں۔ کیا آپ کا خیال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا حق روک کر آپ پر ظلم کیا ہے؟‘‘ یا ان الفاظ میں کہا کہ: ’’آپ کا کچھ حق تلف کیا ہے؟‘‘ آپ نے کہا: ’’ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے اپنے اس بندے پر قرآن نازل کیا جو سارے جہانوں کے لیے نذیر (ڈرانے والے) ہیں ، ہم پر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا گیا۔‘‘ میں نے کہا: ’’قربان جاؤں کیا میں بھی ان دونوں سے محبت رکھوں؟‘‘کہنے لگے: ’’ہاں تیرا ستیاناس! تو ان دونوں سے محبت رکھ، پھر اگر کوئی تکلیف تجھے پہنچے تو وہ میرے ذمے۔(شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)


ہم نے شیعہ مذھب کی معتبر کتابوں شیعہ جنہیں اپنا امام مانتے ہیں (آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم) اور دیگر شیعہ نے صاف صاف یہ کہا کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نےاُن پر کوئی ظلم نہیں کیا پھر یہ اجہل متعصب شیعہ کیوں ان مقدس ہستیوں پرتہمتیں لگاتے ہیں ۔؟ یا تو صآف لکھیں شیعہ مذھب کے تمام امام جھوٹے ہیں یا یہ شیعہ خود جھوٹے ہیں فیصلہ خود کیجیئے۔


امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت امام زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے بھی فدک کے مسئلے میں وہی کچھ فرمایا جو آپ کے دادا مولا علی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا پڑھیئے شیعہ مذھب کی معتبر کتاب کے حوالے سے : بحتری بن حسان کے پوچھنے پر حضرت امام زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے کہا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تحقیر و توہین کے طور پر میں نے زید بن علی علیہ السلام سے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فدک فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چھین لیا، یہ سن کر آپ کہنے لگے: ابوبکر رضی اللہ عنہ مہربان آدمی تھے، وہ ناپسند کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیے ہوئے کسی کام میں تغیر و تبدل کریں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فدک دیا تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ہے؟ آپ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئیں ، انہوں نے اس بات کی گواہی دی۔ ان کے بعد ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں: کیا تم دونوں گواہی نہیں دیتے کہ میں اہلِ جنت میں سے ہوں، دونوں کہنے لگے کیوں نہیں، ابو زید نے کہا: یعنی انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، کہنے لگیں: میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک ان (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کو دیا تھا، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی اور آدمی یا عورت کو بھی اس جھگڑے میں فیصلہ کرنے کا حق دار سمجھتی ہیں، اس پر ابو زید کہنے لگے: اللہ کی قسم اگر فیصلہ میرے پاس آتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔(شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲)


الحمد للہ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے مسلہ باغ فدک کے متعلق شیعہ مذھب کی معتبر کتابوں سے اس مسلہ کو علمی اور مہذب انداز میں پیش کر دیا ہے جو کچھ آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم نے فرمایا اور جو کچھ شیعہ مذھب کے معتبر علماء نے لکھا یہی اہلسنت و جماعت کا مؤقف ہے مجھے حیرت ہوتی اجہل قسم کے شیعہ ذاکرین اور سننے پڑھنے والے شیعہ حضرات آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کی تعلیمات و ارشادات کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں اس کی وجہ صاف ہے کہ یہ جھوٹی محبت کے دعویدار ہیں صرف امت مسلمہ میں فتنہ و فساد پھیلانا ان کا کام ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کہ اہل اسلام کو ابن سباء یہودی کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ و شر سے محفوظ فرمائے اور حق کو قبول کرنے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔


باغِ فَدَک اور حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا فیصلہ


محترم قارئینِ کرام : یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تمام کتب تواریخ اس پر شاہد ہیں کہ فدک زمانہ علوی میں بھی اسی طرح رہا جیسے صدیق و فاروق و عثمان رضی ﷲ عنہما کے دور خلافت میں تھا اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے بھی فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو صدیق اکبررضی ﷲ عنہ نے جاری رکھا تھا ۔


آیئے پہلے اس کے متعلق پڑھتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بھی خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی طرح فدک کو استعمال میں لائے :

شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے : جب امر خلافت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ اللہ عنہما) نے نہی کیا ۔ (شیعہ کتاب : حجج النّھج صفحہ نمبر 277)

شیعہ محقق مرتضی علی موسوی لکھتا ہے : جب امر خلافت علی علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام شیرخدا سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ عنہما) نے نہیں کیا ۔ (شیعہ کتاب : الشافی فی الامامت صفحہ نمبر 76،چشتی)

شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے : یہ سن کر سیدہ فاطمہ علیہا السّلام نے کہا کہ فدک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ھبہ کردیا تھا ۔ابو بکر (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا کہ اس بات کا کوئی گواہ تو حضرت علی علیہ السّلام اور ام ایمن بطور گواہ پیش ہوئے ۔ اور اس امر کی گواہی دی ۔ اتنے میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) اور عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) بھی آگئے ۔ ان دونوں نے یہ گواہی دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کو تقسیم فرماتے تھے ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ اے بنت پیغمبر توں نے بھی سچ کہا اے علی علیہ السّلام تم بھی سچے ہو ۔ اس لیے کہ اے فاطمہ علیہا السّلام تیرے لیے وہی کچھ ہے ۔ جو آپ کے والد کا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کی آمدنی سے تمہاری خوراک کا اہتمام فرماتے تھے ۔ اور باقی ماندہ کو تقسیم فرمادیتے اور اس میں سے فی سبیل اللہ سواری بھی لے دیتے ۔ تمہارے بارے میں اللہ سے معاہدہ کرتا ہوں کہ میں اسی طرح تم سے سلوک کروں گا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سلوک فرمایا کرتے تھے ۔ تو یہ سن کر سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے راضی ہوگئیں ۔ اور اسی بات پر ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے عہد لیا ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) فدک کا غلہ وصول کرتے اور اہلبیت کو ان کی ضرورت کے مطابق دے دیتے ۔ ان کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) بھی فدک کواسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد عثمان (رضی اللہ عنہ) بھی فدک اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد علی علیہ السّلام بھی فدک کو اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ۔ (شیعہ کتاب : حجج النھج صفحہ نمبر 266،چشتی)

شیعہ محقق لکھتا ہے : جب امر خلافت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا تو علی شیرخدا رضی اللہ عنہ سے فدک کو اہلبیت رضی اللہ عنہم کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی شیرخدا رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر رضی اللہ عنہما نے نہیں کیا ۔ (شیعہ کتاب : شرح نھج البلاغہ ابن حدید جلد ۱۶ صفحہ ۲۵۲)

اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے اپنے دور حکومت میں فدک غصب کرلیا تھا تو جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا فرض تھا کہ وہ فدک کو تقسیم کرتے اور اس وقت جو اس کے وارث موجود تھے ، ان کو دے دیتے اور جو ناجائز بات چلی آرہی تھی اور جو ظلم روا رکھا گیا تھا ، اس کو اپنے دور خلافت میں ختم کردیتے کیونکہ خود حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے میں کہ امام کے لئے پانچ امر ضروری ہیں :

(1) خوب وعظ کہنا ۔

(2) لوگوں کی خیر خواہی میں خوب قوت صرف کرنا ۔

(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت کو زندہ کرنا ۔

(4) سزاؤں کے حق داروں کو سزا دینا ۔

(5) حق داروں کو ان کے حقوق واپس لوٹا دینا ۔ (نہج البلاغہ مصری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 202)

اسی طرح شیعہ مذھب کی مشہور کتاب رجال کشی میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا یہ ارشاد مذکور ہے : انی اذا بصرت شیئا منکراً او قدت نارا و دعوت قنبراً ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 199،چشتی)


ترجمہ : جب میں خلافِ شریعت کام دیکھتا ہوں تو آگ جلاتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں ۔


اسی بناء پر آپ نے ان لوگوں کو آگ میں جلا دیا تھا ۔ جو آپ کو خدا کہنے لگ گئے تھے پھر فرماتے ہیں : ولا المعطل للسنۃ فیہلک الامۃ ۔ (نہج البلاغہ صفحہ 398)

ترجمہ : امام ایسا نہیں ہونا چاہئے جو پیغمبرکے طریقے کو چھوڑ دے، ورنہ امت ہلاک ہوجائے گی ۔


لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہما کا تھا یہ اس امر کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے نزدیک باغِ فَدک میں صدیقی طرز عمل حق و صواب تھا اور حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ صدیقی طرز عمل کو بالکل شریعت اسلامیہ کے مطابق جانتے تھے ۔

حقیقت یہ ہے کہ شیعہ حضرات کا صدیقی خلافت میں غصبِ فَدک کا قول کرنا حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی امامت و خلافت پر شرمناک حملہ ہے ۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے باغِ فَدک غصب کرلیا تھا تو حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ پر بھی یہ الزام قائم ہوگا ۔ کہ انہوں نے فدک کو صدیقی خلافت کے دستو رپر جاری رکھ کر امت و خلافت کا حق ادا نہیں کیا ۔ حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ اگر غاصب فدک ثابت ہونگے تو حضرت مولا علی مرتضیٰ رضی ﷲ عنہ غصب کے برقرار رکھنے والے ثابت ہونگے ۔ سوچئے کہ غصب کرنے والا زیادہ مجرم ہے یا غصب کو برقرار رکھنے والا ۔ اور غاصبوں کے طرز عمل کی حکومت و سلطنت کے با وجود حمایت کرنے والا ۔ (معاذ ﷲ) ۔ غرضیکہ قضیہ فدک میں جناب حضرت مولا علی الممرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا طرز عمل دنیائے شیعیت پر بہت بھاری حجت ہے ۔ اگر حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر اعتراض ہوگا تو حضرت سیدنا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر بھی حرف آئے گا ۔ پس جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ کا اراضی فدک کو اسی دستور پر رکھنا جس پر کہ جناب صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے رکھا تھا ، حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی حقانیت اور ان کے طرز عمل کی صحت پر دلیل قاہر ہے ۔

نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہؑ کو باغِ فَدَک دینے سے انکار فرمادیا تھا

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ ، قَالَ : جَمَعَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ ، فَقَالَ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ ، وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَمِلَ فِيهَا بِمَا عَمِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ، فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ عُمَرُ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ، ثُمَّ أَقْطَعَهَا مَرْوَانُ ، ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، قَالَ عُمَرُ : يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام لَيْسَ لِي بِحَقٍّ وَأَنَا أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ أَبُو دَاوُد : وَلِيَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الْخِلَافَةَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُونَ أَلْفَ دِينَارٍ ، وَتُوُفِّيَ وَغَلَّتُهُ أَرْبَعُ مِائَةِ دِينَارٍ وَلَوْ بَقِيَ لَكَانَ أَقَلَّ . (سنن ابی داؤد الجزء الثالث حدیث نمبر 2972 صفحہ نمبر 253،چشتی)


ترجمہ اردو : مغیرہ کہتے ہیں` عمر بن عبدالعزیز جب خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مروان بن حکم کے بیٹوں کو اکٹھا کیا پھر ارشاد فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فدک تھا، آپ اس کی آمدنی سے (اہل و عیال، فقراء و مساکین پر) خرچ کرتے تھے، اس سے بنو ہاشم کے چھوٹے بچوں پر احسان فرماتے تھے، ان کی بیوہ عورتوں کے نکاح پر خرچ کرتے تھے، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فدک مانگا تو آپ نے انہیں دینے سے انکار کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک ایسا ہی رہا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے، پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے ویسے ہی عمل کیا جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں کیا تھا، یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ بھی انتقال فرما گئے، پھر مروان نے اسے اپنی جاگیر بنا لیا، پھر وہ عمر بن عبدالعزیز کے قبضہ و تصرف میں آیا، عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں: تو میں نے اس معاملے پر غور و فکر کیا، میں نے اسے ایک ایسا معاملہ جانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فاطمہ علیہا السلام کو دینے سے منع کر دیا تو پھر ہمیں کہاں سے یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم اسے اپنی ملکیت میں رکھیں؟ تو سن لو، میں تم سب کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اسے میں نے پھر اس کی اپنی اسی حالت پر لوٹا دیا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا (یعنی میں نے پھر وقف کر دیا ہے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عمر بن عبدالعزیزخلیفہ مقرر ہوئے تو اس وقت ان کی آمدنی چالیس ہزار دینار تھی، اور انتقال کیا تو (گھٹ کر) چار سو دینار ہو گئی تھی، اور اگر وہ اور زندہ رہتے تو اور بھی کم ہو جاتی ۔


ترجمہ انگلش :


Narrated Umar ibn Abdul Aziz: Al-Mughirah (ibn Shubah) said: Umar ibn Abdul Aziz gathered the family of Marwan when he was made caliph, and he said: Fadak belonged to the Messenger of Allah ﷺ, and he made contributions from it, showing repeated kindness to the poor of the Banu Hashim from it, and supplying from it the cost of marriage for those who were unmarried. Fatimah asked him to give it to her, but he refused. That is how matters stood during the lifetime of the Messenger of Allah ﷺ till he passed on (i. e. died). When Abu Bakr was made ruler he administered it as the Prophet ﷺ had done in his lifetime till he passed on. Then when Umar ibn al-Khattab was made ruler he administered it as they had done till he passed on. Then it was given to Marwan as a fief, and it afterwards came to Umar ibn Abdul Aziz. Umar ibn Abdul Aziz said: I consider I have no right to something which the Messenger of Allah ﷺ refused to Fatimah, and I call you to witness that I have restored it to its former condition; meaning in the time of the Messenger of Allah ﷺ. Abu Dawud said: When Umar bin Abd al-Aziz was made caliph its revenue was forty thousand dinars, and when he died its revenue was four hundred dinars. Had he remained alive, it would have been less than it.(Chishti)


عَن المغيرةِ قَالَ: إِنَّ عمَرَ بنَ عبد العزيزِ جَمَعَ بَنِي مَرْوَانَ حِينَ اسْتُخْلِفَ فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ لَهُ فَدَكُ فَكَانَ يُنْفِقُ مِنْهَا وَيَعُودُ مِنْهَا عَلَى صَغِيرِ بَنِي هَاشِمٍ وَيُزَوِّجُ مِنْهَا أَيِّمَهُمْ وَإِنَّ فَاطِمَةَ سَأَلَتْهُ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهَا فَأَبَى فَكَانَتْ كَذَلِكَ فِي حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لسبيلِه فَلَمَّا وُلّيَ أَبُو بكرٍ علم فِيهَا بِمَا عَمِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَيَاتِهِ حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ فَلَمَّا أَنْ وُلِّيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَمِلَ فِيهَا بِمِثْلِ مَا عَمِلَا حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ ثُمَّ اقْتَطَعَهَا مَرْوَانُ ثُمَّ صَارَتْ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ فَرَأَيْتُ أَمْرًا مَنَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ لَيْسَ لِي بِحَقٍّ وَإِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي رَدَدْتُهَا عَلَى مَا كَانَتْ. يَعْنِي عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وعمَرَ . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد ۔ (حدیث مشکوٰۃ)

ترجمہ : روایت ہے حضرت مغیرہ سے ۱؎ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ابن عبدالعزیز نے مروان کی اولاد کو جمع فرمایا ۲؎ جب آپ خلیفہ ہوئے پھر فرمایا کہ فدک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا تھا جس سے آپ خرچ فرماتے تھے اور اس سے بنی ہاشم کے بچوں پر لوٹاتے تھے اسی میں سے اور اسی سے ان کی بیوگان کا نکاح کرتے تھے۳؎ اور حضرت فاطمہ نے آپ سے سوال کیا تھا کہ یہ انہیں دے دیں تو انکار فرمادیا تھا ۴؎ پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی زندگی شریف میں اسی طرح رہا حتی کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی راہ تشریف لے گئے پھر جب ابوبکر صدیق خلیفہ بنائے گئے تو آپ نے اس میں وہ ہی عمل کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اپنی زندگی شریف میں کرتے تھے حتی کہ آپ بھی اپنی راہ گئے پھر جب حضرت عمر ابن خطاب خلیفہ بنائے گئے تو انہوں نے اس میں وہ ہی کام کیے جو ان دونوں بزرگوں نے کیے تھے ۵؎ حتی کہ وہ بھی اپنی راہ گئے پھر اسے مروان نے بانٹ لیا ۶؎ پھر وہ عمر ابن عبدالعزیز کے پاس پہنچا تو میں سمجھتا ہوں کہ جس چیز کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جناب فاطمہ کو نہ دیا اس میں میرا حق نہیں کہ تم کو گواہ بناتا ہوں کہ میں اسے اسی حال کی طرف لوٹاتا ہوں جہاں پر وہ تھا یعنی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور ابوبکروعمر کے زمانہ میں ۷؎ (ابوداؤد،چشتی)۔(تاریخ الخلفاء مترجم اردو صفحہ نمبر 466 مطبوعہ پرودریسو بکس اردو بازار لاہور)


حکیم الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : ۱؎ خیال رہے کہ مغیرہ تین ہیں : ایک صحابی،دو تابعی مغیرہ ابن شعبہ صحابی ہیں جن کے حالات بارہا بیان ہوچکے اور اکثر صرف مغیرہ کہنے سے یہ ہی مراد ہوتے ہیں۔دوسرے مغیرہ ابن زید موصلی یہ تابعی ہیں۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ منکرالحدیث ہیں۔تیسرے مغیرہ ابن مقسم کوفی نابینا تھے،فقہی ومتقی تھے،۱۳۳ھ؁ میں ان کی وفات ہوئی۔یہاں یہ تیسرے مغیرہ مراد ہیں نہ کہ مغیرہ ابن شعبہ صحابی کیونکہ حضرت مغیرہ صحابی کا انتقال ۵۰ھ؁ پچاس ہجری میں ہوا اور عمر ابن عبدالعزیز ۹۹ ؁ ننانوے ہجری میں والی بنے تو یہ واقعہ حضرت مغیرہ صحابی کیسے بیان کرسکتے ہیں۔(مرقات)مگر حضرت شیخ کو یہاں سخت دھوکا لگا کہ وہ مغیرہ ابن شعبہ فرماگئے،یہاں تیسرے مغیرہ یعنی ابن مقسم کوفی مراد ہیں۔

۲؎ آپ عمر ابن عبدالعزیز ابن مروان ابن حکم ہیں،قرشی ہیں،اموی ہیں،تابعی ہیں،آپ کی کنیت ابوحفص ہے،آپ کی والدہ لیلی بنت عاصم ابن عمرابن خطاب ہیں یعنی حضرت عمرفاروق کی پوتی،سلیمان ابن عبدالملک کے بعد خلیفہ ہوئے، ۹۹ھ؁ میں اور ۱۰۱؁ ایک سو ایک میں وفات پائی،مدت خلافت کل دو سال پانچ مہینہ،عمر شریف چالیس سال ہوئی یا اس سے بھی چند ماہ کم،متقی زاہد شب بیدار،بہت ہی خوفِ خدا رکھنے والے بزرگ تھے،جب آپ کی بیوی فاطمہ بنت عبدالملک سے آپ کے زمانہ خلافت کے حالات پوچھے گئے تو فرمانے لگیں کہ خلیفہ بننے کے بعد کبھی غسل جنابت نہ کیا،رات کا اکثر حصہ آہ وزاری میں گزارتے تھے۔

۳؎ یعنی باغ فدک کی آمدنی سے حضور انور یہ کام کرتے تھے اولًا اپنے گھر بار پر خرچ،پھر فقراءواقارب پر خرچ فرماتے۔یعود کے معنی ہیں باربار ان پر خرچ فرمانا یہ فرق ہے عائدہ اور فائدہ کے درمیان،فائدہ ایک بارنفی اور عائدہ بار بارنفی۔

۴؎ یعنی حضرت فاطمہ زہرا نے حضور کی زندگی پاک میں باغ فدک حضور سے مانگا۔آپ نے تملیک سے انکار فرمادیا،حضور چاہتے تھے کہ باغ میرے بعد وقف رہے کیونکہ حضرات انبیاء کرام کا متروک مال وقف ہوتا ہے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا حتی کہ حضرت علی نے بھی اسے اپنی خلافت میں تقسیم نہ فرمایا۔

۵؎ یعنی حضرت ابوبکرصدیق اور عمر فاروق نے صرف متولی ہونے کی حیثیت سے اس باغ کی آمدنی کا انتظام فرمایا،کسی نے اسے اپنی ملکیت قرار نہ دیا۔حضرات امہات المؤمنین نے عثمان غنی کو حضرت صدیق اکبر کے پاس طلب میراث کے لیے بھیجنا چاہا تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے منع فرمادیا وہ حدیث سنا کر کہ حضرات انبیاءکرام کی میراث تقسیم نہیں ہوتی۔(دیکھو اشعۃ اللمعات میں اس حدیث کی شرح)جناب فاطمہ زہرا نے صدیق اکبر سے میراث مانگی تو آپ نے وہ ہی حدیث سناکر تقسیم میراث سے انکار فرمادیا جسے حضرت زہرا نے قبول فرمایا اور اس کے متعلق کبھی ذکر تک نہ کیا ، کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ سرکار فرمان مصطفی سن کر ناراض ہوتیں۔فغضبت کے معنی ہیں کچھ اور ہیں جو ان شاءاﷲ اپنے مقام پر بیان ہوں گے بہرحال یہ باغ وقف رہا ۔

۶؎ یعنی مروان ابن حکم نے اپنے دور حکومت میں باغ فدک پر اپنے آپ میں تقسیم کرلیا کہ کچھ حصہ اپنے پاس رکھا کچھ اپنے عزیزوں کو دیا یہ ہی صحیح ہے۔مرقات نے فرمایا کہ مروان کی یہ تقسیم خلافت عثمانی میں ہوئی محض غلط ہے۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حضرت عثمان و علی زندہ ہوں اور مروان کی یہ حرکت دیکھ کر خاموش رہیں اور حضرت علی اپنے دور حکومت میں اس کی یہ تقسیم قائم رکھیں مرقات نے یہ سخت غلطی کی ہے۔اشعۃ اللمعات نے یہ ہی فرمایا کہ مروان کی یہ حرکت اپنے دور حکومت میں تھی۔خیال رہے کہ مروان ابن حکم حضرت عمر ابن عبدالعزیز کا دادا ہے،یہ زمانہ نبوی میں پیدا تو ہوا مگر حضور کے دیدار سے محروم رہا کیونکہ حضور انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے باپ حکم کو مدینہ سے طائف نکال دیا تھا،یہ اس وقت بہت کم سن تھا خلافت عثمان میں یہ مدینہ منورہ آیا لہذا مروان صحابی نہیں ۔

8۷؎ یعنی اس باغ میں میرا کچھ حصہ نہیں یہ اسی طرح وقف رہے گا جیسے ان حضرات کے زمانہ میں وقف تھا۔چنانچہ آپ نے تمام بنی امیہ سے وہ باغ واپس لے کر ویسے ہی وقف قرار دے دیا۔یہ عدل و انصاف آپ کے انتہائی تقویٰ،طہارت خوفِ خدا کی دلیل ہے۔ خیال رہے کہ حضرت عمر نے اپنی خلافت میں باغ فدک حضرت علی و عباس کی تولیت میں دے دیا تھا ، یہ دونوں حضرات متولی تھے نہ کہ مالک ، پھر ان دونوں نے اس کی تقسیم چاہی تو جناب فاروق نے فرمایا کہ تقسیم کیسی یہ تمہاری ملکیت نہیں صرف تولیت ہے ، یہ قصہ بخاری شریف وغیرہ میں بہت تفصیل سے مذکور ہے ۔ خیال رہے کہ حضرت علی و عباس نے ملکیت کی تقسیم نہ چاہی تھی بلکہ تولیت کی تقسیم کی خواہش کی تھی حضرت عمر نے اس کو بھی قبول نہ فرمایا تاکہ آگے چل کر یہ تقسیم ملکیت کا ذریعہ نہ بن جائے ، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا متروکہ مال سارے مسلمانوں کے نفع پر خرچ ہوگا مگر اس کا انتظام یا بادشاہ کرے گا یا جسے بادشاہ اسلام مقرر فرمادے ۔ (مراۃ شرح مشکوٰۃ جلد نمبر 5 حدیث نمبر 4063)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...