آزادی اظہارِ رائے اور اسلام حصّہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : والٹئر کے مطابق ”اگر آپ مجھ سے بحث کرنا چاہتے ہیں تو پہلے اپنی اصطلاحات کو واضح کریں!“ معاملہ بالکل قابل فہم ہے کہ یہ اصطلاحات ہی ہیں جو اگر واضح ہوں تو کسی کے نقطہ نظر یا بالفاظ دیگر فلسفے کو سمجھنے میں مدد کرتی ہیں اور اگر گنجلک اور مبہم ہوں تو ذہنی الجھنیں جوں کی توں برقرار رہتی ہیں ۔ اب اگر نظریات پہلے سے ہی باہم برسر پیکار ہوں تو ٹکراؤ ایسی صورت اختیار کرلیتا ہے کہ مختلف نظریات کے حامی ایک دوسرے کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تل جاتے ہیں ۔ البتہ جب نظریات کے حاملین ایک دوسرے کو مادی اور عسکری میدان میں زیر نہیں کر پاتے تو اس صورت میں بھی مختلف اصطلاحات ہی کا سہارا لیا جاتا ہے تاکہ مدِ مقابل کو فکری اعتبار سے نیچا اور کم تر دکھایا جا سکے ۔
جہاں تک اصطلاحات کا تعلق ہے تو جس طرح یہ کسی علمی مسئلے کو سمجھنے کے لئے وجود میں آتی ہیں، اسی طرح یہ کسی فلسفہ حیات یا نظریہ حیات کے لئے بھی وضع کی جاتی ہیں۔ البتہ فلسفہ یا نظریہ کوئی ایسی شے نہیں ہے کہ اس کو صرف ایک یا چند ایک اصطلاحات میں بیان کیا جاسکے۔ یہ بات درست ہے کہ کوئی خاص نظریہ اپنی چند چیدہ چیدہ اصطلاحات کے لئے جانا جاتا ہے جو مجموعی طور پر اسی نظریے کے لئے خاص ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اشتراکیت کے لئے پرولتاریہ (Proletariat، Havenots) اور پورژوا ( Bourgeoisie، Haves) کی اصطلاحات بہت ہی اہم ہیں۔
اسی طرح جمہوریت کے لئے جمہور، رائے دہندگی، آزادیٔ اظہار رائے اور اسی قبیل کی بہت ساری اصطلاحات رائج ہیں۔ لادینیت (Secularism) کی بھی اپنی مخصوص اصطلاحات ہیں جن سے اس نظریے کا مذہب کے تئیں رویے کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ نرم لادینیت (Soft Secularism) مذہب کو معاشرت اور سیاست سے بے دخل تو کرتا ہے لیکن مذہب کے خلاف کسی محاذ آرائی کا قائل نہیں ہے۔ البتہ سخت لادینیت (Hard Secularism) ہر لحاظ سے مذہب کو ناقابل برداشت تصور کرتا ہے۔
آزاد خیالی (Liberalism) بھی اگرچہ مذہب کی تحقیر پر ہی مبنی ہے لیکن یہ مذہب کو برداشت کرتی ہے۔ تکثیریت (Pluralism) کسی حد تک مذہب کے تئیں اعتراف اور احترام کے حق میں ہے۔ یہاں پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ جمہوریت نے بھی بڑی بڑی جمہوریتوں میں Majoritarianism کی شکل اختیار کی ہے۔ ان جمہوریتوں میں، اگر ہم ان کو جمہوریت کہنے میں حق بجانب ہیں، اقلیتوں کو دوسرے درجے کا شہری باور کیا جاتا ہے۔ اب تو بات یہاں تک پہنچی ہے کہ اقلیتوں کو شہریت سے محروم بھی کیا جا رہا ہے۔
مندرجہ صدر اصطلاحات، جو مجموعی طور پر یورپ کی نشات ثانیہ (Renaissance) کی پیداوار ہیں، میں مذہب کو منفی انداز پیش کیا گیا ہے۔ اصل میں مغربی دانشوروں، فلاسفہ اور سائنسدانوں کو کلیسا کی طرف سے جس صورتحال کا سامنا رہا اس کو انہوں نے تمام جنس ادیان پر منطبق کیا۔ مثال کے طور پر جب گلیلیو نے زمین کو نظام شمسی کا مرکز ماننے سے انکار کیا تو پاپائیت ان سے کچھ اس طرح برہم ہوئی کہ ان کو کٹہرے میں پہنچایا گیا۔
چوں کہ مغربی محققین کی ایک جماعت (مشتشرقین، Orientalists) نے پہلے سے مشرقی ثقافت کا مطالعہ شروع کیا تھا، اس لئے انہوں نے مذہب بیزاری کا رخ اسلام کی طرف پھیر دیا۔ چوں کہ یورپی استعمار نے تیسری دنیا پر بالعموم اور دنیائے اسلام پر بالخصوص اپنی حکمرانی قائم کی تھی اس لئے مفتوحین کے اوپر مرعوبیت طاری ہو گئی۔
مغرب کا اسلام اور اسلامی ثقافت کا مطالعہ اگر بدنیتی پر نہیں تو تنگ نظری اور تعصب پر ضرور مبنی تھا۔ اگر مشتشرقین کے مطالعہ اسلام کا تقابل اسلامی مفکرین اور مسلمان حکمرانوں کے مغرب اور مغربی تہذیب کے تئیں رویے سے کیا جائے تو آخرالذکر کا رویہ ناصرف روشن خیالی پر مبنی رہا ہے بلکہ کئی ایک جگہوں پر اس کو آزاد خیالی پر متصور کیا جاسکتا ہے۔ مغرب میں محنہ (Inquisition) کا ادارہ مذہب کو تحفظ دینے کے لئے قائم کیا گیا جبکہ اسلامی دنیا میں، خاصکر دور عباسی میں ایسا ہی ادارہ عقلیت (Rationality) کو تحفظ دینے کے لئے قائم کیا گیا۔
جہاں دنیائے اسلام میں اس ادارے کے شکار مذہب کے راسخ العقیدہ حاملین (جن کی قیادت امام احمد ابن حنبل، رح، کر رہے تھے ) بنے تو مغرب میں اس ادارے نے کئی مشہور سائنسدانوں کو اپنا نشانہ بنایا۔ ہارون اور مامون خود اپنے دربار مین مختلف مذاہب کے دانشوروں کو بلاکر مذہبی اختلاف پر مباحث کی حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ خلافت اسلامیہ کے اسی سنہرے دور (Goden Age) میں مسلمان محققین نے مغرب کے قدیم فلسفے کی بازیافت کی اور مغرب کے اس کھوئے ہوئے سرمائے کو کامل دیانتداری کے ساتھ اسپین ’سسلی اور اٹلی کے واسطے مغرب کو منتقل کیا۔
مسلمانوں نے کبھی بھی ارسطو (Aristotle) کی تحقیر نہیں کی۔ مسلمانوں نے ارسطو کی فلسفیانہ عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو ”الاستاذ الاول“ (The First Teacher) کا خطاب دیا۔ مسلمانوں نے جب ہند سے صفر دریافت کیا تو اسی صفر نے عرب کے ہندسوں (1۔ 9) سے مل کر Hindu۔ Arabic اعداد کا نظام مغرب کو منتقل کیا، جس سے رابرٹ بریفالٹ کے مطابق مغرب میں رومی اعداد کی وجہ سے پیدا شدہ ایک ہزار سالہ جمود ٹوٹ گیا۔ ابوبکر رازی جیسے فلسفی اور ماہر طب، جسے اہل مغرب Rhazes کے نام سے جانتے ہیں، نے مذہب پر کھلی تنقید کی۔ اس کے باوجود اس پر کسی مسلم حکمران نے جبر نہیں کیا اور نا ہی اس کی آزادیٔ اظہار رائے پر کوئی قدغن لگائی!
یہاں پر ہماری غرض و غایت قطعاً یہ واضح کرنا نہیں ہے کہ سائنس میں مسلمانوں کا کتنا حصہ ہے بلکہ ہمارا مقصود صرف اس بات کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ اسلام نے کبھی بھی سائنس مخالف رویہ اختیار نہیں کیا، جس کا مغرب مدعی ہے اور جس کا تجربہ مغرب کو کلیسا سے ہوتا رہا۔ اسی رویے کا نزلہ مغرب دنیائے اسلام پر گراتا رہا ہے۔ یہاں تو معاملہ بالکل برعکس رہا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جب امام غزالی نے ”تہافت الفلاسفہ“ لکھ کر فلسفے کی مبادیات کو آڑے ہاتھوں لیا تو ابن رشد نے، ایک اعلٰی پایہ مجتہد ہونے کے باوجود، ”تہافت التہافت“ لکھ کر اس کا کامل رد کیا۔
اسی وجہ سے ڈانٹے نے Divine Comedy میں ابن رشد کو Great Commentator کا خطاب دیا ہے۔ یہاں پر یہ اشارہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ڈانٹے، جو اٹلی میں یورپ کی نشات ثانیہ کا نقیب تھا، نے ہر غیر عیسائی مفکر کو ”کافر“ (Infidel) قرار دے کر جہنم کا حقدار ہی نہیں بلکہ جہنم میں زیر عتاب دکھایا ہے۔ یہی مغرب اسلامی تعلیمات میں لفظ ”کافر“ کو دیکھنے کا روادار نہیں ہے!
تحقیق و سائنس کے تئیں مسلمانوں کا رویہ دور سلاطین میں بھی تبدیل نہیں ہوا۔ مسلمانوں نے حتی الوسع غیر اسلامی نظریات کا معروضی مطالعہ کرنے کی کوشش کی۔ محمود غزنوی کے دور میں ابو ریحان البیرونی نے ایک سچے محقق کی طرح ہندی تہذیب و ثقافت پر کام کیا۔ یہاں پر یہ بات ہمارے ذہن میں رہنی چاہیے کہ اہل ہند نے اپنے آریائی تفاخر سے مغلوب ہو کر مسلمانوں کو ہمیشہ ”ملیچھا“ اور ”ترشکا“ کے خطابات سے نوازا۔ البیرونی نے ہنود کی اس نفسیات کے علی الرغم ہندومت کو بحیثیت مذہب اس صورت میں سراہا کہ اس کو یونانی مذاہب کے ہم پلہ قرار دیا کہ دونوں تہذیبوں میں شرک کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔
”کتاب الہند“ دراصل اسی معروضی مطالعے کا ایک شاہکار ہے۔ البتہ محمود غزنوی کو سومناتھ کے ساتھ کچھ اس طرح جوڑا گیا ہے کہ وہ ہندو حکمراں جن کی دعوت پر محمود کی مہم جوئی کا انحصار ہوتا تھا اور جن کو محمود فتح کے بعد حکمراں بناکے چھوڑتا تھا، بالکل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ جو بدھ مت اہل ہند کے ہاتھوں اپنی جنم بھومی میں ہی زوال کا شکار ہوئی اس کو بھی محمود کے سر چڑھایا گیا۔ خیر اب تو ہندوستان کی زعفرانی تاریخ بھی لکھی جا رہی ہے۔
البیرونی نے ہنود کے ایک اور رویے کو بھی بیان کیا ہے کہ یہ لوگ اپنے جغرافیائی حدود سے باہر جانا پسند نہیں کرتے۔ ہنود نے دور جدید میں اپنے اس رویے کو بھی اپنی خوبی کے طور پر پیش کیا ہے کہ ”ہم نے اپنی 5000 سالہ تاریخ میں کبھی کسی ملک پر حملہ نہیں کیا ہے!“ حالانکہ حقیقت ظاہر ہے کہ ایک تو ان کو مغلوں نے پہلی بار (اور وہ بھی اورنگزیب عالمگیر نے ) ایک ”اکھنڈ ملک“ کا درجہ دلایا اور دوسرا ان کی ”ہنسا پر مبنی اہنسا“ محتاج تعارف نہیں ہے!
بہرحال مغرب کے وہ نظریات جن کی توضیح اور تشریح کرتے ہوئے مغربی مفکرین اسلامی فکر کو ہدف تنقید بلکہ ہدف تنقیص بناتے ہیں، ارض فرانس سے بالعموم اور فرانسیسی انقلاب سے بالخصوص پھوٹے ہیں۔ فرانس کو مغربی فکر کا امام ہونے اور اسلام کے خلاف محاذ کھلا رکھنے پر فخر بھی ہو سکتا ہے۔ اہالیان فرانس نے یاد رکھا ہوگا کہ انہوں نے ہی 732 ء میں ٹورس (Tours) کے میدان میں صلیب کو سہارا دیا تھا نہیں تو پورپ کے بڑے حصے پر ہلال کی حکمرانی قائم ہو چکی ہوتی۔
البتہ انہیں ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جن یہودیوں کو صلیب کے ماننے والوں نے برسوں تک تختہ مشق بنائے رکھا ان کو اگر کبھی تاریخ میں راحت کی سانس لینے کا موقع ملا ہے تو وہ یا تو مسلم اسپین میں ملا یا پھر سلطنت عثمانیہ کے شہری بن کر۔ یہاں پر یہ بات واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ اہل کلیسا نے ہمیشہ اپنی شکست کا بدلہ اسلامی مقدسات کے خلاف مغلظات سے ہی لیا ہے۔ اسپین میں اہل کلیسا نے ایک باضابطہ تحریک چلائی جس کا طریق کار یہ تھا کہ چند جنونی اسلام، قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی مسلم امراء کے درباروں میں توہین کرتے تاکہ مسلم حکمراں انہیں تیش میں آ کر قتل کریں اور وہ درجہ شہادت حاصل کرسکیں۔ اس کے باوجود یہ حکمراں عدالتی کارروائی کے بغیر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے تھے۔
صلیبی جنگوں کی دوسو سالہ تاریخ پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تو یہاں پر بھی عیسائیوں کی یہی ذہنیت کارفرما نظر آتی ہے۔ ان جنگوں کی ابتداء بھی متحدہ یورپ نے کی۔ جب صلیبیوں کی مشرق وسطٰی پر یورش ہوئی تو انہوں تیروتفنگ کی جا رہیت کے ساتھ ساتھ اپنے مذہبی تعصب کو اسلامی شعائر خاص کر سیدالانبیاء (ﷺ) کی ذات اقدس کے خلاف مغلظات کی صورت میں ظاہر کیا۔ ایک صلیبی کمانڈر، Renigald Chattalion اپنی توہین آمیز زبان کے لئے خاصا مشہور تھا۔
ویسے صلیبی عام طور پر اتنے ناخواندہ تھے کہ وہ مسلمانوں کو اکثر یہ طعنہ دیتے تھے کہ وہ ”کسی Mohamet کی عبادت کرتے ہیں!“ تاہم جب صلاح الدین ایوبی (رح) نے اسے شکست دے کر گرفتار کیا تو صرف اس کو سزا دی۔ اگر وہ طیش میں آتے تو تمام قیدیوں کو قتل کردیتے۔ اور جب بیت المقدس پر صلیبیوں نے قبضہ کیا تو انہوں نے مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا۔ Lane Poole کے مطابق صلیبیوں کے گھوڑے سموں تک خون میں لت پت تھے۔ بچوں تک کو ٹانگوں سے پکڑ پکڑ کر دیواروں سے پٹک کر ہلاک کیا گیا۔
صلیبیوں نے یہودیوں کا بھی قتل عام کیا۔ جی ہاں انہی یہودیوں کا جن کو آگے چل کر Holocaust کے مداوے کے طور پر اہل کلیسا نے مسلمانوں کے سینوں پر سوار کیا۔ اور جب صلاح الدین ایوبی (رح) نے بیت المقدس کو ستاسی سال بعد فتح کیا تو لین پول کے مطابق راہبوں، خواتین، بزرگوں، بچوں اور معذوروں کو بلا فدیہ رہا کیا۔ اور جن کو فدیہ حاصل کر کے آزاد کیا گیا ان میں مفلسین کا فدیہ صلاح الدین اور ان کے بھائی نے اپنے ذاتی سرمائے سے ادا کیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جارج ڈبلیو بش نے عراق پر چڑھائی کو صلیبی جنگ (Crusade) کا نام دیا تھا اور جب امریکی فوجیوں کا ایک خاص دستہ تقریط پہنچا تھا تو صلاح الدین ایوبی (علیہ الرحمہ) کے مزار کے سامنے فخریہ انداز میں کہا تھا :
Sladin! We are back.
حالانکہ صلیبی جنگوں کے بعد مغرب میں جو تاریخی ناول لکھے گئے تھے ان میں صلاح الدین ایوبی (علیہ الرحمہ) کو ایک طلسماتی Hero کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
یہاں ہمارا مدعا ”گڑے مردے اکھاڑنا“ نہیں ہے تاہم یہ تاریخی تقابل اس لئے ضروری ہے کیوں کہ جب 1492 ء میں دنیائے کلیسا سات سو سالہ اسپینی مسلم تہذیب کو تاخت و تاراج کرتا ہے تو اس کو ازابیلہ اور فردنند کی دلیری قرار دے کر Reconquesta کا نام دیا جاتا ہے اور جب افغانی متحدہ مغرب کا مقابلہ کرتے ہیں تو انہیں دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے۔
مغرب کے آزادیٔ رائے کے پیمانے بھی بڑے عجیب ہیں! مسلمان خاتون حجاب پہننے تو خواتین کے حقوق پر یلغار ہوتی ہے اور جب عیسائی راہبہ ”مکمل پردہ“ کرتی ہے تو اسے روحانی دنیا کا ترجمان تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمان کی داڑھی بنیاد پرستی کی علامت ہے جبکہ یہودی کی داڑھی یہودی شناخت کی حفاظت ہے۔ اب تو کئی داڑھیاں ”سیاسی بلوغت“ کی علامت بھی بن گئی ہیں! مسلمان ملکوں میں سے کوئی شریعت کی بات کرے تو مغرب ایک طوفان بدتمیزی کھڑا کرتا ہے کہ انسانی حقوق، حقوق نسواں، ہم جنس پرستوں کے حقوق، اور نہ جانے کون کون سے حقوق ضائع ہونے کا احتمال ہے۔
اور جب اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کی جاتی ہے تو اس کے لئے کوئی دستور وضع نہیں کیا جاتا کیوں کہ یہودیوں کو ”تلمود“ کے ہوتے ہوئے کسی آئین کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اسرائیل کے بانی ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ چند سالوں میں انہیں اس علاقے (فلسطین) میں ایک ”تہذیب“ قائم کرنا ہے جہاں کوئی تہذیب نہیں ہے! اور تو اور اسرائیل وہ واحد ریاست ہے جس کا کوئی واضح نقشہ نہیں ہے اور اس کا نیوکلیائی پروگرام بھی خفیہ ہے!
اس ناجائز ریاست کو دوام اور استحکام بخشنے کے لئے پہلے Holocaust کو نازیوں کے خاتے میں ڈال کر عیسائیت سے الگ کیا جاتا ہے اور پھر اس کو ایک ایسی مسلمہ حقیقت (Universal Fact) بنایا جاتا ہے کہ اس کی تکذیب تو درکنار اس کی تصغیر کرنا بھی گناہ عظیم قرار دیا جاتا ہے۔ ہولوکاسٹ کو ایسی تقدیس بخشی گئی ہے کہ کسی اہل علم یا سیاستدان میں اس کے خلاف بولنے کا یارا نہیں ہے۔ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد شاید پہلے سیاسی راہنما تھے جنہوں نے کئی سال تک اس کی تشکیک کی تھی اور اس پر سوال اٹھائے تھے۔
مغرب میں ہولوکاسٹ کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب حال ہی میں لسانیات کے مشہور عالم، Noam Chomsky نے صدر ٹرمپ کو ہٹلر کے ساتھ مشابہت دی تو ہولوکاسٹ کے بہت سارے نام نہاد ماہرین اور مورخین اس کے خلاف میدان میں آ گئے۔ اور جب ایک بار ایڈورڈ سعید کئی فرانسیسی فلاسفہ، جن میں جین پال ساتر بھی شامل تھے، کی دعوت پر فرانس میں مشرق وسطٰی پر منعقد ہونے والی ایک کانفرنس کے سلسلے میں فرانس وارد ہوئے تو ان کی حیرانی کی انتہا نہ رہی جب کانفرنس میں فلسطین کی جدوجہد آزادی ایجنڈے میں شامل ہی نہ تھی۔ ان کو بعد میں پتا چلا کہ یہودی لابی نے کانفرنس کو یرغمال بنایا تھا۔
فرانس جیسے مغرب کے ترجمان کو ہی لیں جو دور جدید میں جمہوریت اور سیکیولرازم کا ترجمان بنا پھر رہا ہے اور بڑی بے باکی سے عالم اسلام کی نہیں بلکہ اسلام کی حالت کو ہیجان خیز (In Crisis) قرار دیا ہے۔ فرانس کی بے چینی سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے سیکیولرازم کا پورا ڈھانچہ Crisis میں ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ فرانس میں اسلام تمام تر قدغنوں کے باوجود ترقی کر رہا ہے۔ حال ہی میں جب ایک فرانسیسی خاتون، جو مالے میں چار سال تک مغوی تھی، رہا ہوئی تو فرانسیسی صدر میکرون خود اس کے استقبال کے لئے ائرپرٹ پہنچا۔
تاہم جب مذکورہ خاتون نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اپنا نام، جو پہلے صوفی پٹرونن تھا، مریم پٹرونن کے طور پر متعارف کرایا تو فرانسیسی صدر ورطہ حیرت میں آ گیا۔ ساتھ ساتھ اس خاتون نے مالے کے مفلس مسلمانوں کے اخلاق اور روحانیت کی خوب تعریف کی۔ ظاہر سی بات ہے کہ ”دہشتگردوں کا مذہب“ کوئی سمجھدار انسان کیسے قبول کر سکتا ہے!
ملائشا کے سابق وزیر اعظم مہاتر محمد کے بیان میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو فرانسیسیوں سے، ان مظالم کی وجہ سے جو انہوں نے مسلمانوں پر استعماری دور میں ڈھائے ہیں، بدلہ لینے کا حق ہے۔ ایک تو انہوں نے عیسائیوں کے بجائے فرانسیسیوں کا لفظ استعمال کیا اور دوسرا یہ بھی کہا کہ ”مسلمان ایسا نہیں کریں گے“ یعنی بدلہ نہیں لیں گے۔ لہذا فرانس کو بھی بدلے کی نفسیات سے باہر آنا چاہیے۔ مہاتر محمد کے بیان کی صداقت کو صرف الجزائر کی تحریک آزادی کے جانبازوں کی داستان شہادت اور ان پر ڈھائے جانے والے فرانسیسی مظالم میں دیکھا جاسکتا ہے۔
فرانسیسی فوج نے درجنوں مجاہدین کی شہادت کے بعد ان کے سروں کو فرانس بھیجا۔ ماہرین کے مطابق اس بہادری ’جو تاریخ میں صرف منگولوں نے انجام دی ہے، کے تین مقاصد ہوتے تھے۔ پہلا مقصد یہ ہوتا تھا کہ مفتوح قوم پر ہیبت طاری کی جائے۔ دوسرا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اپنی قوم کو فتح کی نوید سنائی جائے۔ تیسرا مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان قوموں کی نفسیات کا سائنسی مطالعہ کیا جائے جنہوں نے کسی صورت فاتحین کا بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا ہو۔ الجزائری تحریک آزادی کے درجنوں عمائدین کے سروں میں سے چوبیس سر پچھلے سال واپس کیے گئے جب الجزائر نے اس کےئے ایک دستخطی مہم چلاکر اٹھارہ ہزار دستخط جمع کیے ۔
یہ بات صحیح ہے کہ مسلمانوں کے پاس مواد (Stuff) ہے لیکن ان کے پاس شاید انداز (Style) نہیں ہے۔ یا عام زبان میں یہی کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان ”گھر کی مرغی دال برابر“ کی نفسیات کے شکار ہیں۔ جہاں جمہوریتوں نے اپنے نسلی تفاخر اور چھوت چھات کی نفسیات سے مغلوب ہو کر مسلمانوں کو Covid۔ 19 کی پہلی لہر کا ذمہ دار ٹھہرا کر ذلت آمیز عتاب کا شکار بنایا وہیں کسی بھی مسلمان ملک سے اس معاملے میں غیر مسلموں کے ساتھ کسی امتیازی رویے کی کوئی خبر نہیں آئی۔
مسلمان ملکوں میں تو اس معاملے میں بالکل برعکس صورتحال دیکھنے کو ملی۔ کئی مسلمان ملکوں میں ان ہی مذہبی جماعتوں نے، جنہیں مغرب رجعت پسند، شدت پسند، انتہا پسند اور بنیاد پرست کے خطابات سے نوازتا آیا ہے، غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو بھی Sanitize کیا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے بے روز ہوئے لوگوں کی بلالحاظ مذہب و ملت خبر گیری کی۔
اس تمام تر تقابل کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان اپنی بنیادی اخلاقیات سے دستبردار ہوجائیں۔ ایک ابدی ’آفاقی اور عالمگیر دین کے حامیوں کو یہ قطعاً زیب نہیں دیتا کہ وہ صرف رد عمل کی نفسیات میں جئیں۔ مسلمانوں کو اللہ تعالٰی نے اس سے بھی روک لیا ہے کہ وہ ان جھوٹے خداؤں کو برا بھلا کہیں جو لوگوں نے خود گھڑ لیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ توہین تو درکنار کئی ایک مسلمان اہل علم نے کئی مذاہب کے بانیان کا نبی ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
بے شک Charlie Hebdo جیسے جریدوں کی اسلام کی مسلمات اور مسلمانوں کی مقدسات خصوصاً شان رسالت کے بارے میں دہائیوں پر مبنی رویہ ناصرف قابل افسوس ہے بلکہ اس سے ایک مومن صادق کا خون کھول جانا بالکل لازمی ہے، لیکن مسلمانوں کے لئے یہ بھی ایک موقعہ ہے کہ جواباً سیدالانبیاء (ﷺ) کی شان رحمت کو اجاگر کیا جائے۔
یہاں پر ہمیں حضرت عمر ابن عبدالعزیز (رضی اللہ عنہ) کا اپنے گورنروں کو دیا ہوا وہ جواب یاد آتا ہے جو انہوں نے اس وقت دیا تھا جب ان کے سامنے ذمیوں کے اسلام لانے کے سبب آمدنی میں کمی کا ذکر کیا گیا تھا۔ ان کا تاریخی جواب تھا کہ ”محمد (ﷺ) کو ہادی برحق بناکر بھیجا گیا تھا نہ کہ تحصیل دار (Tax Collector) بناکر!“ اس تناظر میں ملائشا کی وزارت خارجہ کا فرانس کے سفیر کو دیا گیا ”شمائل ترمذی“ کا تحفہ، جس میں رسول اللہ ﷺ کی روحانی‘ جسمانی اور اخلاقی صفات کو پیش کیا گیا ہے، زیادہ موزوں اور بروقت معلوم ہوتا ہے۔
ایسا کرتے ہوئے مسلمانوں کو مطمئن رہنا چاہیے اسلام میں آزادیٔ اظہار رائے کا اپنا ایک مقام ہے جس کے لئے قرآن نے ببانگ دہل اعلان کیا ہے کہ ”لا اکراہ فی الدین“ اور ”اما شاکرا واما کفورا!“ ساتھ ساتھ انہیں اللہ تعالٰی کی تسبیح و تحمید بھی کرنا چاہیے کہ اللہ تعالٰی نے خود نبی کریم (ﷺ) کا رتبہ بلند فرمایا ہے اور یہ بات شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ آپ (ﷺ) شان ہمیشہ بلند رہے گی ۔ (ورفعنا لک ذکرک ، ﷺ ۔ (مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment