Monday 6 December 2021

من سب نبیا فاقتلوہ حصہ اول

0 comments

 من سب نبیا فاقتلوہ حصہ اول

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارٸینِ کرام : گستاخِ رسول کی سزا قرآن وحدیث اور اقوال ائمہ کے مطابق کیا ہے آٸیے اس بارے پڑھتے ہیں ۔ میرے مخاطب وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ابھی عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی چنگاری زندہ ہے ؟ جن کے جذبے ابھی سرد نہیں پڑے ۔ جو لوگ اب بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو سینے میں سجائے ہوئے ہیں ۔ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے زمانہ میں ہر کس و ناکس دین کے معاملہ میں رائے زنی کرنے لگتا ہے اور منتشر اور بکھری معلومات کو سمیٹنے کے بجائے چند جزئیے دیکھ کر دین کے حساس معاملات میں اپنی رائے ایسے پیش کرتا ہے گویا کہ اس سے بہتر دین کا جاننے والا کوئی دوسرا شخص موجود ہی نہیں ۔ در اصل مسئلہ کچھ یوں ہے کہ گستاخ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قتل کا معاملہ کا ثبوت صرف اس حدیث پر منحصر ہی نہیں جسے ضعیف قرار دیکر خوشی کے شادیانے بجائے جائیں ، بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے گستاخ کو قتل کرنے کے واضح احکامات جاری وساری فرمائے جس کا ثبوت صحیح احادیث میں بکثرت ملتا ہے ۔


امام طبرانی رحمہ الله عليه نے اپنی سند کے ساتھ معجم الصغیر للطبرانی میں یہ حدیث یوں ذکر کی ہے کہ : حدثنا عبيد الله بن محمد العمري القاضي بمدينة طبرية سنة سبع وسبعين ومائتين حدثنا اسماعيل بن أبي أويس ، حدثنا موسی بن جعفر بن محمد، عن أبيه، عن جده علي بن الحسين، عن الحسين بن علي، عن علي رضي اللہ عنہ قال : قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم : من سب الأنبياء قُتل، ومن سب الأصحاب جُلد ۔ (معجم الصغیر للطبرانی جلد 1 صفحہ نمبر 393،چشتی)


الحدیث : من سب نبیا فاقتلوہ 

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا جس نے کسی نبی کو گالی دی اسے قتل کر دو۔

حکم الحدیث : ضعیف

تخریج الحدیث :

1) معجم الصغیر للطبرانی ج 1 ص 136 رقم الحدیث 659 یا 660

2) المعجم الاوسط للطبرانی رقم الحدیث 4602

3) الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ مترجم ج 2 ص 202 شبیر برادرز

4) الشفاء باحوال المصطفیٰ عربی ج 2 ص 136

5) فوائد تمام الرازی رقم الحدیث 740

6) الاربعین المرتبۃ علی طبقات الاربعین لا بن المفضل المقدسی ج1 ص 460

7) تاریخ دمشق لابن عساکر ج 38 ص 103 رقم الحدیث 38854

8) تاریخ بغداد للخطیب ج 18 ص 90

9) مجمع الزوائد و منبع الفوائد ج 6 ص 260

10) جامع الاحادیث ج 20 ص 368

11) الفردوس بماثور الخطاب باب میم ج 3 ص 541

12) شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ ج 7 ص 334

13) سبل الھدی والارشاد فی سیرۃُ خیر العباد ج 12 ص 30

14) احکام اھل لزمۃ ج 3 ص 1455

15) الصارم المسلول علی شاتم الرسول ج 1 ص 93 ، 287 ، 295

16) فتاویٰ السبکی امام تقی الدین سبکی ج 2 ص 582

17) السابق والا حق الخطیب البغدادی ج 1 ص 85 

18) نھایۃ المطلب فی درایۃ المذھب ج 18 ص 47

19) الوسیط فی المذھب ج 7 ص 87

20) الفتاوی الکبریٰ لا بن تیمیۃ ج 5 ص 256


کچھ لوگوں کے بشمول علماء کہ اس حدیث پر شکوک وشبہات دیکھے تھے کچھ نے کہا کہ یہ حدیث سرے سے حدیث کی کتابوں میں سند کے ساتھ درج ہی نہیں اس لیے میں نے اس حدیث کی تخریج کی کوشش کی ہے مجھے کافی کتابوں میں ان ہی الفاظ کے ساتھ اور فقتلو کی جگہ قتل کے الفاظ کے ساتھ بھی بہت جگہ ملی ان میں سے فقیر نے 20 ہی کتابوں کا انتخاب کیا جو سب کی نظر میں معتبر ہیں ۔


اور اسی طرح اس حدیث کو الفاظِ مختلفہ کے ساتھ امام اجل قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ نے اپنی مشہور زمانہ تصنیف لطیف "الشفاء بتعریف حقوق المصطفی" کے اندر اپنی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ : قال حدثنا الشيخ أبو عبد الله أحمد بن غلبون، عن الشيخ أبي ذر الهروي إجازة، قال : حدثنا أبو الحسن الدارقطني ، وأبو عمر بن حيوة، حدثنا محمد بن نوح ، حدثنا عبد العزيز بن محمد بن الحسن بن زباله، حدثنا عبد الله بن موسی بن جعفر ، عن

علي بن موسى، عن أبيه، عن جده، عن محمد بن علي بن الحسين، عن أبيه، عن الحسين

بن علي، عن أبيه أن رسول الله قال : من سب نبیا فاقتلوه، ومن سب أصحابي فاضربوه ۔ (الشفاء بتعریف حقوق المصطفی القسم الرابع، باب الاول، الفصل الثانی صفحہ 171)


اسی طرح اس حدیث کو علامہ عبد الرؤف مناوی نے بھی طبرانی کے حوالے سے فیض القدیر شرح جامع الصغیر میں نقل کیا ہے اور آپ نے بھی اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔ (فیض القدیر جلد 6 صفحہ 190 حدیث نمبر 8735)


اور اسی طرح امامِ وہابیہ ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث کو اپنی کتاب "الصارم المسلول علی شاتم الرسول" میں نقل کیا ہے 


امام طبرانی کی سند میں موجود راوی عبید اللہ بن محمد عمری پر محدثین نے کلام کیا ہے ۔


 ابن حجر لسان المیزان میں اس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : عبیداللہ بن محمد بن عمر بن عبدالعزیز العمری


من شیوخ الطبرانی


رماہ النسائی بالکذب


یروی عن طبقہ اسمعیل بن اویس


ومن مناکیرہ عن اسماعیل بن ابی اویس عن مالک عن الزہری عن حمید بن عبد الرحمن عن ابوھریرہ مرفوعا من قامرمضان احتسابا و ایمان غفر لہ ما تقدم من ذنبہ وما تأخر۔۔


تفرد العمری بقولہ ۔ (وما تأخر)


اخرجہ الدار قطنی فی الغرائب عن علی بن محمدالمصری عن عبیداللہ


وقال الدار قطنی لیس بصحیح تفرد بہ العمری و کان ضعیفا


وایضا من مناکیرہ ما تقدم من روایة الطبرانی


 قلت (ابن حجر): کلھم ثقات الا العمری ۔ (لسان المیزان جلد 5 صفحہ 341)


اور علامہ نور الدین ہیثمی نے انہیں ضعیف جانا جبکہ ابن حجر بھی اسے منکر کہ چکے ہیں ۔


اسی طرح اس حدیث کی دوسری سند جسے قاضی عیاض مالکی رحمة اللہ علیہ نے شفاء شریف میں ذکر کیا ہے جس میں موجود ابو ذر الھروی پر بھی محدثین نے کلام کیا ہے ۔ اور ابن تیمیہ نے اسے نقل کرنے کے بعد لکھا کہ یہ ضعیف ہیں ۔ ان کے بارے میں امام ذہبی سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں کہ : ابو ذر الھروی الحافظ الامام المجودالعلامہ شیخ الحرم ابو ذر عبد بن احمد بن محمد بن عبداللہ المالکی الھروی الخراسانی صاحب التصانیف وراوی الصحیح عن الثلاثة المستملی، والحموی والکشمیھنی ۔


اور ان کے بارے میں ابو خاتم الرازی نے کہا کہ 

وکان ثقة ضابطا دینا


اور پھر امام ذہبی لکھتے ہیں کہ


قلت (ذہبی) : وھّاہ الدار قطنی وقوّاہ ابو خاتم الرازی ۔


ان کے بارے میں امام ذہبی کا موقف مجھ پر یہی ظاہر ہوا کہ یہ ثقاہت کی طرف مائل ہیں اس لیے کہ انہوں نے احتتام پہ وھاہ کو پہلے اور قواہ کو بعد میں ذکر کیا ہے اور آثار س احوال میں بھی کوئی ایسی بات ذکر نہیں کی جو انکے ضعف پر دلالت کرے البتہ ان پہ دار قطنی نے جو جرح کی میں اس پہ مطلع نہیں ہو سکا ۔


اب اس حدیث کی پہلی سند کا راوی متہم بالکذب ہے اس لیے دوسری سند سے پہلی سند تقویت نہیں پائے گی لہٰذا یہ حدیث ضعیف ہے ۔ یہ حدیث سنداً اگرچہ ضعیف ہے مگر اس حدیث کا مفہوم قرآن و حدیث کے دیگر درجنوں دلائل سے ثابت ہے کہ گستاخ کی سزا موت ہے اس کو قتل کیا جائے گا اور اس حدیث کو کئی مصنفین نے بطور شماریات اپنی اپنی کتب میں ذکر کیا ہے لہٰذا اس حدیث کو باب فضائل میں ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔


کعب بن اشرف ، ابورافع عبد اللہ بن ابی حقیق ، عبداللہ بن خطل ، وغیرہ وغیرہ ، ان سب کو قتل کرنے کا حکم حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بذات خود دیا تھا ، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے گستاخی کے جرم میں انہیں واصل جہنم بھی کیا ، بلکہ ان میں سے آخر الذکر عبداللہ بن خطل مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوگیا تھا ، اور اس کا جرم یہ تھا کہ اس نے دو مغنیہ پال رکھی تھیں جو گستاخی پر مبنی گانے گایا کرتی تھیں ، لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اس کی گردن اڑانے کا حکم دیا اس شخص نے کعبہ کا غلاف پکڑ کر معافی کی درخواست کی ، لیکن اس کا معافی نامہ رد کردیا گیا اور بالآخر اسے واصل جہنم کردیا گیا ، ثبوت کے طور پر تینوں روایات ترجمہ کے ساتھ پیش خدمت ہے :


حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ، فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ»، فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ: أَنَا، فَأَتَاهُ، فَقَالَ: أَرَدْنَا أَنْ تُسْلِفَنَا، وَسْقًا أَوْ وَسْقَيْنِ، فَقَالَ: ارْهَنُونِي نِسَاءَكُمْ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْهَنُكَ نِسَاءَنَا وَأَنْتَ أَجْمَلُ العَرَبِ؟ قَالَ: فَارْهَنُونِي أَبْنَاءَكُمْ، قَالُوا: كَيْفَ نَرْهَنُ أَبْنَاءَنَا، فَيُسَبُّ أَحَدُهُمْ، فَيُقَالُ: رُهِنَ بِوَسْقٍ، أَوْ وَسْقَيْنِ؟ هَذَا عَارٌ عَلَيْنَا، وَلَكِنَّا نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ - قَالَ سُفْيَانُ: يَعْنِي السِّلاَحَ - فَوَعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ، فَقَتَلُوهُ، ثُمَّ أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرُوهُ ۔

ترجمہ : کوئی ہے جو کعب بن اشرف کا کام تمام کرے اور اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو تکلیف دی ہے محمد بن مسلمہ نے عرض کیا میں تیار ہوں چنانچہ محمد بن مسلمہ اس کے پاس آئے اور ایک وسق یا دو وسق غلہ قرض لینے کا خیال ظاہر کیا تو اس نے کہا اپنی بیویوں کو میرے پاس گروی رکھ دو ان لوگوں نے کہا ہم کس طرح اپنی بیویوں کو گروی رکھ سکتے ہیں جب کہ تو عرب میں سب سے زیادہ حسین ہے اس نے کہا اپنے بیٹوں کو گروی رکھ دو ان لوگوں نے کہا ہم کس طرح اپنے بیٹوں کو گروی رکھ سکتے ہیں لوگ ان کو طعنہ دیں گے اور کہیں گے کہ ایک وسق یا دو وسق اناج کے عوض گروی رکھے گئے یہ ہمارے لیے شرم کی بات ہے لیکن ہم لامہ یعنی اسلحہ تیرے پاس گروی رکھ سکتے ہیں چنانچہ اس سے دوبارہ آنے کا وعدہ کر گئے پھر اس کے پاس آئے تو اسے قتل کر دیا پھر وہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے (ماجرا) بیان کیا ۔ (صحیح بخاری ج۳ ص۱۴۲، حدیث نمبر: ۲۵۱۰،چشتی)(صحیح مسلم ج۳ ص۱۴۲۵ ، حدیث نمبر:۱۸۰۱)


حضرت برأ بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَبِي رَافِعٍ اليَهُودِيِّ رِجَالًا مِنَ الأَنْصَارِ، فَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَتِيكٍ، وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُؤْذِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُعِينُ عَلَيْهِ، وَكَانَ فِي [صفحہ 92] حِصْنٍ لَهُ بِأَرْضِ الحِجَازِ، فَلَمَّا دَنَوْا مِنْهُ، وَقَدْ غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَرَاحَ النَّاسُ بِسَرْحِهِمْ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ لِأَصْحَابِهِ: اجْلِسُوا مَكَانَكُمْ، فَإِنِّي مُنْطَلِقٌ، وَمُتَلَطِّفٌ لِلْبَوَّابِ، لَعَلِّي أَنْ أَدْخُلَ، فَأَقْبَلَ حَتَّى دَنَا مِنَ البَابِ، ثُمَّ تَقَنَّعَ بِثَوْبِهِ كَأَنَّهُ يَقْضِي حَاجَةً، وَقَدْ دَخَلَ النَّاسُ، فَهَتَفَ بِهِ البَوَّابُ، يَا عَبْدَ اللَّهِ: إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تَدْخُلَ فَادْخُلْ، فَإِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُغْلِقَ البَابَ، فَدَخَلْتُ فَكَمَنْتُ، فَلَمَّا دَخَلَ النَّاسُ أَغْلَقَ البَابَ، ثُمَّ عَلَّقَ الأَغَالِيقَ عَلَى وَتَدٍ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَى الأَقَالِيدِ فَأَخَذْتُهَا، فَفَتَحْتُ البَابَ، وَكَانَ أَبُو رَافِعٍ يُسْمَرُ عِنْدَهُ، وَكَانَ فِي عَلاَلِيَّ لَهُ، فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْهُ أَهْلُ سَمَرِهِ صَعِدْتُ إِلَيْهِ، فَجَعَلْتُ كُلَّمَا فَتَحْتُ بَابًا أَغْلَقْتُ عَلَيَّ مِنْ دَاخِلٍ، قُلْتُ: إِنِ القَوْمُ نَذِرُوا بِي لَمْ يَخْلُصُوا إِلَيَّ حَتَّى أَقْتُلَهُ، فَانْتَهَيْتُ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ فِي بَيْتٍ مُظْلِمٍ وَسْطَ عِيَالِهِ، لاَ أَدْرِي أَيْنَ هُوَ مِنَ البَيْتِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا رَافِعٍ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَأَهْوَيْتُ نَحْوَ الصَّوْتِ فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً بِالسَّيْفِ وَأَنَا دَهِشٌ، فَمَا أَغْنَيْتُ شَيْئًا، وَصَاحَ، فَخَرَجْتُ مِنَ البَيْتِ، فَأَمْكُثُ غَيْرَ بَعِيدٍ، ثُمَّ دَخَلْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا الصَّوْتُ يَا أَبَا رَافِعٍ؟ فَقَالَ: لِأُمِّكَ الوَيْلُ، إِنَّ رَجُلًا فِي البَيْتِ ضَرَبَنِي قَبْلُ بِالسَّيْفِ، قَالَ: فَأَضْرِبُهُ ضَرْبَةً أَثْخَنَتْهُ وَلَمْ أَقْتُلْهُ، ثُمَّ وَضَعْتُ ظِبَةَ السَّيْفِ فِي بَطْنِهِ حَتَّى أَخَذَ فِي ظَهْرِهِ، فَعَرَفْتُ أَنِّي قَتَلْتُهُ، فَجَعَلْتُ أَفْتَحُ الأَبْوَابَ بَابًا بَابًا، حَتَّى انْتَهَيْتُ إِلَى دَرَجَةٍ لَهُ، فَوَضَعْتُ رِجْلِي، وَأَنَا أُرَى أَنِّي قَدِ انْتَهَيْتُ إِلَى الأَرْضِ، فَوَقَعْتُ فِي لَيْلَةٍ مُقْمِرَةٍ، فَانْكَسَرَتْ سَاقِي فَعَصَبْتُهَا بِعِمَامَةٍ، ثُمَّ انْطَلَقْتُ حَتَّى جَلَسْتُ عَلَى البَابِ، فَقُلْتُ: لاَ أَخْرُجُ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَعْلَمَ: أَقَتَلْتُهُ؟ فَلَمَّا صَاحَ الدِّيكُ قَامَ النَّاعِي عَلَى السُّورِ، فَقَالَ: أَنْعَى أَبَا رَافِعٍ تَاجِرَ أَهْلِ الحِجَازِ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى أَصْحَابِي، فَقُلْتُ: النَّجَاءَ، فَقَدْ قَتَلَ اللَّهُ أَبَا رَافِعٍ، فَانْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: «ابْسُطْ رِجْلَكَ» فَبَسَطْتُ رِجْلِي فَمَسَحَهَا، فَكَأَنَّهَا لَمْ أَشْتَكِهَا قَطّ ۔

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ابورافع کے پاس کئی انصاریوں کو بھیجا اور عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سردار مقرر کیا ابورافع دشمن رسول تھا اور مخالفین رسول کی مدد کرتا تھا اس کا قلعہ حجاز میں تھا اور وہ اسی میں رہا کرتا تھا جب یہ لوگ اس کے قلعہ کے قریب پہنچے تو سورج ڈوب گیا تھا اور لوگ اپنے جانوروں کو شام ہونے کی وجہ سے واپس لا رہے تھے عبداللہ بن عتیک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ساتھیوں سے کہا تم یہیں ٹھہرو میں جاتا ہوں اور دربان سے کوئی بہانہ کرکے اندر جانے کی کوشش کروں گا چنانچہ عبداللہ گئے اور دروازہ کے قریب پہنچ گئے پھر خود کو اپنے کپڑوں میں اس طرح چھپایا جیسے کوئی رفع حاجت کے لئے بیٹھتا ہے قلعہ والے اندر جا چکے تھے دربان نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ خیال کرکے کہ ہمارا ہی آدمی ہے آواز دی اور کہا! اے اللہ کے بندے اگر تو اندر آنا چاہتا ہے تو آ جا کیونکہ میں دروازہ بند کرنا چاہتا ہوں عبداللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر اندر گیا اور چھپ رہا اور دربان نے دروازہ بند کرکے چابیاں کیل میں لٹکا دیں جب دربان سو گیا تو میں نے اٹھ کر چابیاں اتارلیں اور قلعہ کا دروازہ کھول دیا تاکہ بھاگنے میں آسانی ہو ادھر ابورافع کے پاس رات کو داستان ہوتی تھی وہ اپنے بالا خانے پر بیٹھا داستان سن رہا تھا جب داستان کہنے والے تمام چلے گئے اور ابورافع سو گیا تو میں بالا خانہ پر چڑھا اور جس دروازہ میں داخل ہوتا تھا اس کو اندر سے بند کرلیتا تھا اور اس سے میری یہ غرض تھی کہ اگر لوگوں کو میری خبر ہوجائے تو ان کے پہنچنے تک میں ابورافع کا کام تمام کردوں غرض میں ابورافع تک پہنچا وہ ایک اندھیرے کمرے میں اپنے بچوں کے ساتھ سو رہا تھا میں اس کی جگہ کو اچھی طرح معلوم نہ کر سکا اور ابورافع کہہ کر پکارا اس نے کہا کون ہے؟ میں نے آواز پر بڑھ کر تلوار کا ہاتھ مارا میرا دل دھڑک رہا تھا مگر یہ وار خالی گیا اور وہ چلایا میں کوٹھڑی سے باہر آ گیا اور پھر فورا ہی اندر جا کر پوچھا کہ اے ابورافع تم کیوں چلائے ؟ اس نے مجھے اپنا آدمی سمجھا اور کہا تیری ماں تجھے روئے ابھی کسی نے مجھ سے تلوار سے وار کیا ہے یہ سنتے ہی میں نے ایک ضرب اور لگائی اور زخم اگرچہ گہرا لگا لیکن مرا نہیں آخر میں نے تلوار کی دھار اس کے پیٹ پر رکھ دی اور زور سے دبائی وہ چیرتی ہوئی پیٹھ تک پہنچ گئی اب مجھے یقین ہوگیا کہ وہ ہلاک ہوگیا پھر میں واپس لوٹا اور ایک ایک دروازہ کھولتا جاتا تھا اور سیڑھیوں سے اترتا جاتا تھا میں سمجھا کہ زمین آگئی ہے چاند نی رات تھی میں گر پڑا اور پنڈلی ٹوٹ گئی میں نے اپنے عمامہ سے پنڈلی کو باندھ لیا اور قلعہ سے باہر آکر دروازہ پر بیٹھ گیا اور دل میں طے کرلیا کہ میں اس وقت تک یہاں سے نہیں جاؤں گا جب تک اس کے مرنے کا یقین نہ ہوجائے آخر صبح ہوئی مرغ نے اذان دی اور قلعہ کے اوپر دیوار پر کھڑے ہو کر ایک شخص نے کہا کہ لوگو! ابورافع حجاز کا سوداگر مر گیا میں یہ سنتے ہی اپنے ساتھیوں کی طرف چل دیا اور ان سے آکر کہا اب جلدی چلو یہاں سے اللہ نے ابورافع کو ہلاک کرا دیا اس کے بعد ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو آکر خوشخبری سنائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے میرے پیر کو دیکھا اور فرمایا کہ اپنا پاؤں پھیلاؤ میں نے پھیلایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم  نے دست مبارک پھیر دیا بس ایسا معلوم ہوا کہ اس پیر کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا ۔ (صحیح بخاری ج۵ ص۹۱، حدیث نمبر: ۴۰۳۹)


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَخَلَ عَامَ الفَتْحِ، وَعَلَى رَأْسِهِ المِغْفَرُ، فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ ابْنَ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الكَعْبَةِ فَقَالَ اقْتُلُوهُ ۔

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فتح مکہ کے سال اس حال میں داخل ہوئے کہ آپ خود پہنے ہوئے تھے جب آپ نے اس کو اتارا تو ایک شخص آیا اور عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردہ سے لٹکا ہوا ہے آپ نے فرمایا کہ اسے قتل کر دو ۔ (صحیح بخاری ج۳ ص۱۷، حدیث نمبر: ۱۸۴۶،چشتی)۔(صحیح مسلم ج۲ ص۹۸۹، حدیث نمبر: ۱۳۵۷)


یہ جتنی روایات آپ کے سامنے پیش کی گئیں یہ بخاری ومسلم کی روایات ہیں، جن سے اس بات کا واضح ثبوت ملتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے نہ صرف گستاخ نبی کے قتل کی تلقین دی، بلکہ متعدد گستاخین کو واصل جہنم کرنے کےلیے ٹیمیں بھی تشکیل دیں ، لہٰذا یہ مسئلہ اتنا واضح اور بین الثبوت ہے کہ اس کے متعلق اگر کوئی ضعیف روایت آبھی جاتی ہے تو اس مسئلہ پر کوئی زد نہیں پڑتا ، بلکہ ان صریح وصحیح احادیث کی روشنی میں وہ ضعیف روایت بھی سند کے ضعف کے باوجود صحیح المتن شمار ہوگی ، لہٰذا اس حدیث کو پھیلانے اور اسے زبان زد عام کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اور اگر کوئی اس کے ضعف کا بہانہ بنائے تو اسے یہ ساری روایتیں دکھاکر اس کی حوصلہ شکنی کی جائے ، کیونکہ گستاخ کی سزا قتل ہی ہے ۔ البتہ ایک گزارش ضرور ہے ، اور وہ یہ کہ گستاخ کو سزا دینے کا حق عوام کو نہیں بلکہ یہ کار سرکار ہے ، اس میں مداخلت کرنا جائز نہیں ، ابھی حال ہی میں جھنگ یا پنجاب کے کسی علاقہ میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا ہے جہاں بینک گارڈ نے ذاتی چپقلش کو بنیاد بنا کر بینک مینیجر کو قتل کردیا اسی طرح سیالکوٹ میں واقعہ پیش آیا ، اور قتل کرنے کے بعد اس پر گستاخی کا الزام لگادیا ، لہٰذا شریعت کا حکم یہی ہے کہ آپ حکومت کی توجہ ضرور مبذول کروائیں پر مداخلت شریعت کی رو سے جائز نہیں کہ مبادا کوئی بھی شخص کسی کو بھی قتل کرکے گستاخی کا الزام لگادے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔