مسلہ رفع یدین مستند دلائل حصہ اول
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت" سے ثابت ہیں ، ان میں عمل خواہ ایک صورت پر ہو مگر تمام صورتوں کو شرعآ درست سمجھنا ضروری ہے ۔ اگر کوئی فرد یا جماعت ان مسائل میں اپنے مسلکِ مختار (اختیار شدہ راستہ) کا اتنا اصرار کرے ، کہ دوسرے مسلک پر طنز و تعریض ، دشنام طرازی اور دست درازی سے بھی باز نہ آۓ تو اس (فتنہ و فساد) کو ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے ۔ باہم ٹکراتی اختلافی سنّتوں کے حکم میں فرق اصول حدیث و فقہ میں صرف ناسخ و منسوخ ، راجح و مرجوح یا اولیٰ اور غیر اولیٰ (افضل و غیرافضل) کا ہوتا ہے ۔
رفع (یعنی بلند کرنا) یدین (یعنی دونوں ہاتھ) ۔ یہ رفع یدین (یعنی دونوں ہاتھ بلند کرنا) ہر مسلمان نماز (کے شروع) میں کرتا ہے ، لہٰذا اختلاف یہ نہیں کہ رفع یدین نہیں کیا جاتا ، بلکہ اختلاف تو صرف نماز میں رفع یدین کتنی بار اور کن کن موقعوں پر کیا جانا چاہیے ، اسی بات کا ہے ۔ مثَلاً : جو لوگ نماز کے اندر رفع یدین کرتے ہیں ، وہ سجدوں میں جاتے اور اٹھتے ہوۓ کیوں نہیں کرتے ؟ جب کہ اس پر صحیح احادیث بھی موجود ہیں جنہیں ہم دوسرے حصے میں پیش کرینگے ان شاء اللہ ۔
نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نماز کس طرح سے ادا فر ماتے تھے اس بارے میں جو اختلاف سب سے زیادہ شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ : نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم رفع یدین کرتے تھے یا نہیں ؟ اور آج رفع یدین کرنا درست ہے یا نہیں؟ ۔ اگر ہم پوری امانت ودیانت کے ساتھ بغیر کسی غیر جانبداری کے نیک نیتی کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین سے نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے طریقہ نماز سے متعلق روایتوں پر غور و فکر کرلیں تو یہ اختلاف ختم ہو سکتا ہے ۔ اس لئے ہم ذیل میں بغیر کسی جانبداری کے اس سے متعلق حقائق پیش کرتے ہیں ۔ آپ پڑھیں اور خود فیصلہ کریں ۔
رفع یدین
نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نماز میں رفع یدین کرتے تھے یا نہیں ۔ اس بارے میں دونوں طرح کی روایتیں مو جود ہیں ۔ اور دونوں طرف اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں ۔ اب رہی بات کہ جب دونوں طرح کی روایتیں ہیں تو امت کس پر عمل کرے ؟ اور کس کو چھوڑے ۔ ایسے مقامات پر آکر امت کا اجماع ہے کہ یہ دیکھا جائے گا کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا آخری عمل کس پر ہے کیونکہ بسا اوقات نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ایک کام کیا پھر وہ کام حکم الہی کے تحت چھوڑ دیا جیسے پہلے نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے مسجد اقصی کی طرف منھ کر کے نماز ادا فر مایا پھر حکم الہی کے تحت اس پر عمل چھوڑ کر خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز ادا فر مایا یہاں تک نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کادنیا سے تشریف لے جانے کے وقت بھی اسی پر عمل رہا ۔ تو جو نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا آخری عمل رہا اسی پر ہمیں بھی عمل کرنا ضروری ہے ۔ اسی طرح نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے کسی ایک کام کو کیا لیکن بعد میں اس سے منع فر مادیا تو اب امت پر ضروری ہے کہ وہ اس کام کو نہ کرے ۔ جیسے پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز میں باتیں کرلیتے تھے اور نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم منع نہ فرماتے لیکن جب آیت کریمہ ،،قوموا للہ قانتین،، نازل ہوئی تو نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے منع فرما دیا ۔ تو اب ضروری ہے کہ نماز میں کوئی بات نہ کرے ۔
اب یہ کیسے معلوم ہو کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا آخری عمل کسی چیز کے بارے میں کیا تھا ؟ یا حضور صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے اس چیز سے منع فرمایا ہے ۔ تو اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ اس کے بہت سارے طریقے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے وصال کے بعد اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل کس پر تھا یہ دیکھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ حضور صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا آخری عمل کیا تھا کیو نکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ وہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے آخری عمل کے اعتبار سے ہی فتوی دیا کرتے تھے اور خود بھی اسی پر عمل کرتے تھے ۔ اسی طرح کوئی صحیح روایت مل جائے کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فلاں کام کرنے سے منع فر مایا ہے تو اس روایت سے معلوم ہو جائے گا کہ اب اس پر عمل کرنا درست نہیں ۔
ان تمام باتوں کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم رفع یدین کے مسئلے پر غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بے شک نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے رفع یدین کیا لیکن نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا آخری عمل رفع یدین نہ کرنا تھا کیو نکہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے وصال کے بعد کا یہ واقعہ ہے کہ : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو نماز میں پہلی صف میں نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے بالکل قریب کھڑے ہوتے تھے اور نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے اتنے قریبی تھے کہ باہر سے آنے والے لوگ آپ کو خاندانَ نبوت سے سمجھتے تھے انہوں نے ایک مرتبہ لوگوں سے کہا کہ : کیا میں تم لوگوں کو نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے نماز پڑ ھنے کی طرح نماز پڑھ کر نہ دکھا دوں ؟ یعنی نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کیسے نماز پڑھا کرتے تھے وہ نہ دکھا دوں ؟ لوگوں کے ہاں میں جواب دینے پر آپ نے نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے نماز پڑھنے کی طرح نماز پڑھ کر دکھلایا اور اس نماز کے اندر آپ نے صرف ایک بار نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھایا پھر دوبارہ رکوع میں جاتے وقت یا رکوع سے اٹھنے کے بعد ہاتھ نہ اٹھا یا ۔ اور اس حدیث کے صحیح ہونے پر تمام محدثین کا اتفاق ہے۔(ترمذی،باب ماجاء ان النبی صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم لم یرفع یدیہ الا مرۃ ،حدیث:۲۵۷؍ص:۷۸،چشتی)
اب آپ غور کریں کہ ! یہ نماز حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضور صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے وصال کے بعد خاص اسی چیز کو دکھانے کے لئے پڑھی کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کیسے نماز پڑھتے تھے ؟اور اس میں رفع یدین نہ کیا تو ہمیں یقینی طور سے معلوم ہوگیا کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا آخری عمل یہی تھا اگر چہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے اپنی زندگی میں رفع یدین بھی فر مایا ہو ۔ کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے آخری عمل کے اعتبار ہی سے فتوی دیتے تھے اور عمل کرتے تھے ۔ (صحیح مسلم،حدیث: ۱۱۱۳)
اس کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے وصال کے بعد سیدنا عمر فاروق سیدنا مولی علی رضی اللہ عنہما اور ان کے علاوہ کثیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں جلیل القدر تابعی حضرت اسود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز ادا کی تو آپ نے صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھایا اور پھر دوبارہ نہ اٹھا یا۔(مصنف ابن ابی شیبہ، حدیث:۲۴۶۹)
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں عاصم بن کلیب سے روایت ہے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے تمام اصحاب صرف نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھا تے تھے پھر دوبارہ نہیں۔امام تر مذی لکھتے ہیں کہ یہی مسلک ہے بہت سارے صحابہ کرام کا۔(ترمذی،باب ماجاء ان النبی صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم لم یرفع یدیہ الا مرۃ ،حدیث:۲۵۷؍ص:۷۸،چشتی)
ان سب کے علاوہ کتب احادیث میں یہ صحیح روایت بھی موجود ہے کہ : نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے رفع یدین کرنے سے منع کیا ۔ چنانچہ امام مسلم اپنی صحیح مسلم میں حضرت جابر بن سمرہ سے روایت کرتے ہیں کہ : نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم باہر تشریف لائے تو ارشاد فر مایا کہ : کیا بات ہے کہ میں تم لوگو ں کو سر کش گھوڑوں کی دموں کی طرح اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں ۔ اسکنوا فی الصلوۃ ۔ نماز میں سکون واطمینان سے رہا کرو ۔ (مسلم،حدیث:۴۳۰)
اس روایت سے یہ سمجھنا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز سے فارغ ہونے کے بعد جو ہاتھ اٹھاتے تھے اس سے نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے منع فر مایا نہ کہ رفع یدین کرنے سے کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا کیونکہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے رفع یدین کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا ’نماز میں سکون سے رہا کرو‘ نماز میں‘ کے لفظ پر غور کریں تو حقیقت خود ظاہر ہو جاتی ہے کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے یہاں یقینا نماز میں رفع یدین کرنے سے منع فر مایا ۔ لہٰذا کوئی ایسی تاویل جو حدیث کے ظاہر لفظ کے بالکل خلاف ہو نہیں سنی جا سکتی ۔ نہیں تو پھر زمین بول کر آسمان مراد لینا بھی درست ہو جائے گا جو کسی بھی عقلمند کے نزدیک درست نہیں ۔
بہر حال جب صحیح روایات سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا آخری عمل رفع یدین نہ کرنا تھا اور یہ بھی کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے رفع یدین کرنے سے خود بھی منع فر مادیا تو اب بھی کوئی نہ مانے تو ہم انہیں کیا کہہ سکتے ہیں ۔فیصلہ آپ خود کر لیں ۔
ایک مزے کی بات یہ بھی ہے کہ : جس صحابی رسول رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے رفع یدین کیا وہ خود رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔ چنانچہ بخاری ومسلم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے رفع یدین کیا مگر خود حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رفع یدین نہیں کرتے تھے چنانچہ حضرت مجا ہد کہتے ہیں کہ : میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو نماز کے شروع کے علاوہ کبھی ہاتھ اٹھاتے نہیں دیکھا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ،حدیث:۲۴۶۷،چشتی)
اب آپ خود سوچ سکتے ہیں جس صحابی رسول رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے رفع یدین کیا وہ خود رفع یدین کیوں نہیں کرتے تھے ؟ ۔ کیا اس لئے کہ وہ جان بوجھ کر نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی مخالفت کرتے تھے (معاذاللہ) ہم کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تو لازماً یہی بات ہوگی کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا یہی آخری عمل تھا، یا کبھی رفع یدین نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے کیا لیکن زیادہ تر نہیں کیا جس کی وجہ سے انہوں نے اس پر عمل کیا جس پر نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو زیادہ عمل کرتے ہوئے دیکھا ۔
ان سب حقائق کے با وجود سارے مسلک کے علماء کا یہ ماننا ہے کہ نماز میں رفع یدین کرنا ضروری نہیں ، یعنی اگر کسی نے نہ کیا تو اس کی نماز میں کوئی کمی نہ ہوگی بلکہ نماز ہو جائے گی ۔ یعنی یہ کوئی ایسی بات نہیں جس سے نماز ہی نہ ہو ۔
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ : پھر اس مسئلے کو لے کر جو کہ ایک غیر ضروری مسئلہ ہے ایک ایسے امام رحمۃ اللہ علیہ کو جنہیں امت کے اکابر اولیاء وعلماء علیہم الرّحمہ نے اپنا پیشوا تسلیم کیا اور جن کے ماننے والے دنیا میں سب سے زیادہ ہیں ۔ گالی دینا ،برا بھلا کہنا ۔ اور جگہ جگہ لوگوں میں فتنہ بر پا کرنا ، امت میں اختلاف اور انتشار پھیلانا ۔یہ کون سا دین ہے اور کون سا اسلام ہے ؟
کیا یہ لوگ امت کے بد خواہ نہیں ؟ کیا ان لوگوں کو اسلام سے کوئی تعلق ہے ؟ کیا واقعی یہ لوگ اہل حدیث ہیں ؟ کیا ان لوگوں کو نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم سے کوئی تعلق ہے ؟
ہر ایک سوال کا جواب ہزاروں بار نفی میں ہوگا ۔ اور ان لوگوں کو بھلا اسلام سے کیا تعلق ہو سکتا جبکہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے جس گروہ کے بارے میں فر مایا کہ : تم ان کی نمازو تلاوت کے سامنے اپنی نماز و تلاوت کو کمتر سمجھو گے وہ قرآن ایسے پڑھیں گے جیسے گٹ گٹ دودھ پی رہے ہو ۔ یعنی کسی بات پر فٹافٹ قرآن کی آیتیں پیش کریں گے ۔ مگر ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا ۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے ۔ اور مختلف مواقع پر ان کی نشانیاں بیان فرمائیں وہ تمام نشانیاں اس جماعت کے اندر موجود ہیں ۔ کہ وہ ساری نشا نیا ں اس جماعت کے لوگوں میں موجود ہے یا نہیں ؟ اگر ہیں اور ضرور ہیں ۔ تو پھر ہمیں ان کی باتوں پر کوئی دھیان نہیں دینا چا ہئے ۔
آخری بات : امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ بھی رفع یدین کے قائل ہیں ۔ تو یاد رکھئے کہ ان کے پاس بھی دلائل یقیناً ہیں مگر امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے جیسے نہیں ۔ پھر بھی ان اہل حدیثوں یعنی غیرمقلدین کا ان سے کوئی مطلب نہیں کیو نکہ اہل حدیث کا عقیدہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے عقائد کے بالکل خلاف ہیں ۔ نیز امام شافعی رحمة اللہ علیہ مجتہد ہونے کی وجہ سے مختلف احادیث کے پیشِ نظر فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں اور بالفرض اگر ان سے خطا یا لغزش بھی ہو جائے تو انہیں گناہ نہیں بلکہ اجتہاد کا ثواب ملے گا جیسا کہ نبی کریم صلی علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فر مایا ہے کہ : جب مجتہد اجتہاد کرے تو اگر صحیح فیصلہ کیا تو انہیں دو ثواب دیا جائے گا اور غلطی ہوئی تو ایک ثواب دیا جائے گا ۔ اسی لئے ہم ان کا احترام دل وجان سے کرتے ہیں اور انہیں حق مانتے ہیں ۔ مگر اہل حدیث (غیر مقلدین ) جو حقیقت میں نو عمر ، کمزور عقل اور جاہل لوگوں کی ایک ٹولی ہے جن کا شعار صحابہ رضی اللہ عنہم ، اولیاء ، ببزرگانِ امت علیہم الرّحمہ کی گستاخی کرنا ہے ۔ ہم ان کی مذمت بسیار کرتے ہیں ۔ اور احادیث طیبہ کی روشنی میں انہیں اسلام سے خارج اور مسلمانوں کا قاتل ، سمجھتے ہیں ۔ مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment