حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہما اور باغِ فَدک
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : شیعہ حضرات کا مشہور محقق ملاّ باقر مجلسی انتہائی تعصب کے باوجود لکھتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بہت سے فضائل و مناقب جنابِ حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا کے بیان کیے اور فرمایا : اموال و احوال خودرا از تو مضائقہ ندارم آنچہ خواہی بگیر ۔ تو سیدہ امت پدرخودی و شجرہ طیبہ از برائے فرزندان خود انکار فضل تو کسے نمے تو اندکرد و حکم تو نافذ است درمال من ۔ امادر گفتہ پدر تو نمے تو انم کرد ۔
ترجمہ : میں اپنا مال جائیداد دینے میں آپ رضی اللہ عنہا سے دریغ نہیں رکھتا ۔ جو کچھ مرضی چاہے لے لجیئے ۔ آپ رضی اللہ عنہا اپنے باپ کی امت کی سیدہ ہیں اور اپنے فرزندوں کے لئے پاکیزہ اصل اور شجرہ طیبہ ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہا کے فضائل کا کوئی انکار نہیں کرتا آپ رضی اللہ عنہا کا حکم میرے ذات مرے مال میں چوں و چرا جاری و منظور ہے ۔ لیکن عام مسلمانوں کے مال میں آپ رضی اللہ عنہا کے والد بزرگوار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے حکم کی مخالفت ہرگز نہیں کرسکتا ۔ (شیعہ مذہب کی مشہور کتاب حق الیقین مترجم جلد اوّل صفحہ نمبر 227 مطبوعہ مجلسِ اسلامی پاکستان،چشتی)
مسلہ باغ فدک شیعہ کتب کی روشنی
باغ فدک کیا ہے ؟ فدک خیبر کا ایک قصبہ ہے (وہاں ایک باغ ہے جسے باغ فدک کہا جاتا ہے) اور یہ بھی کہا گیا کہ حجاز کا ایک کنارہ ہے جس میں چشمےاور کھجوروں کے درخت ہیں یہ اللہ سبحانہ وتعالی نےاپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا کیا تھا ۔ (لسان العرب جلد2، صفحہ 473)
حضرت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی حدیث سنائی کہ انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال نہیں علم ہے اور یہ بتایا کہ اس جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم اہلبیت کو دیا کرتے تھے وہ میں بھی جاری رکونگا تو حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے اپنے مطالبے سے رجوع کر لیا اور پھر ساری عمراس مسئلے پر کوئی بات نہیں کی بلکہ شیعوں کی اپنی کتاب میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ اس پر راضی ہو گئیں۔اس مسلے کو ہم کتب شیعہ سے لکھ رہے شاید کسی کو ہدایت نصیب ہوجائے اور وہ گستاخیاں چھوڑ دے یاد رہے اس مسلے کو بعض متعصب شیعہ علماء نے من گھڑت کہانیوں کے ذریعے اچھالا آیئے حقائق پڑھتے ہیں ۔
باغِ فَدَک اور حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کا فیصلہ
محترم قارئینِ کرام : یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تمام کتب تواریخ اس پر شاہد ہیں کہ فدک زمانہ علوی میں بھی اسی طرح رہا جیسے صدیق و فاروق و عثمان رضی ﷲ عنہما کے دور خلافت میں تھا اور حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے بھی فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو صدیق اکبررضی ﷲ عنہ نے جاری رکھا تھا ۔
آیئے پہلے اس کے متعلق پڑھتے ہیں کہ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ بھی خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی طرح فدک کو استعمال میں لائے : شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے : جب امر خلافت علی بن ابی طالب علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ اللہ عنہما) نے نہی کیا ۔ (شیعہ کتاب : حجج النّھج صفحہ نمبر 277)
شیعہ محقق مرتضی علی موسوی لکھتا ہے : جب امر خلافت علی علیہ السّلام کے سپرد ہوا تو علی علیہ السّلام شیرخدا سے فدک کو اہلبیت کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی علیہ السّلام نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر (رضی اللہ عنہما) نے نہیں کیا ۔ (شیعہ کتاب : الشافی فی الامامت صفحہ نمبر 76،چشتی)
شیعہ عالم الدکتور سعید السَّامرّائی لکھتا ہے : یہ سن کر سیدہ فاطمہ علیہا السّلام نے کہا کہ فدک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجھے ھبہ کردیا تھا ۔ابو بکر (رضی اللہ عنہ) نے پوچھا کہ اس بات کا کوئی گواہ تو حضرت علی علیہ السّلام اور ام ایمن بطور گواہ پیش ہوئے ۔ اور اس امر کی گواہی دی ۔ اتنے میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) اور عبدالرحمن بن عوف (رضی اللہ عنہ) بھی آگئے ۔ ان دونوں نے یہ گواہی دی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کو تقسیم فرماتے تھے ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ اے بنت پیغمبر توں نے بھی سچ کہا اے علی علیہ السّلام تم بھی سچے ہو ۔ اس لیے کہ اے فاطمہ علیہا السّلام تیرے لیے وہی کچھ ہے ۔ جو آپ کے والد کا تھا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فدک کی آمدنی سے تمہاری خوراک کا اہتمام فرماتے تھے ۔ اور باقی ماندہ کو تقسیم فرمادیتے اور اس میں سے فی سبیل اللہ سواری بھی لے دیتے ۔ تمہارے بارے میں اللہ سے معاہدہ کرتا ہوں کہ میں اسی طرح تم سے سلوک کروں گا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سلوک فرمایا کرتے تھے ۔ تو یہ سن کر سیدہ فاطمہ حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) سے راضی ہوگئیں ۔ اور اسی بات پر ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) سے عہد لیا ۔ ابوبکر (رضی اللہ عنہ) فدک کا غلہ وصول کرتے اور اہلبیت کو ان کی ضرورت کے مطابق دے دیتے ۔ ان کے بعد حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) بھی فدک کواسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد عثمان (رضی اللہ عنہ) بھی فدک اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ، اس کے بعد علی علیہ السّلام بھی فدک کو اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے ۔ (شیعہ کتاب : حجج النھج صفحہ نمبر 266،چشتی)
شیعہ محقق لکھتا ہے : جب امر خلافت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوا تو علی شیرخدا رضی اللہ عنہ سے فدک کو اہلبیت رضی اللہ عنہم کی طرف لوٹانے کے بارے میں کہا گیا تو علی شیرخدا رضی اللہ عنہ نے جواب میں فرمایا کہ خدا کی قسم مجھے اس کام کو کرنے میں اللہ سے حیا آتی ہے جس کام کو ابوبکر عمر رضی اللہ عنہما نے نہیں کیا ۔ (شیعہ کتاب : شرح نھج البلاغہ ابن حدید جلد ۱۶ صفحہ ۲۵۲)
اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے اپنے دور حکومت میں فدک غصب کرلیا تھا تو جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا فرض تھا کہ وہ فدک کو تقسیم کرتے اور اس وقت جو اس کے وارث موجود تھے ، ان کو دے دیتے اور جو ناجائز بات چلی آرہی تھی اور جو ظلم روا رکھا گیا تھا ، اس کو اپنے دور خلافت میں ختم کردیتے کیونکہ خود حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے میں کہ امام کے لئے پانچ امر ضروری ہیں :
(1) خوب وعظ کہنا ۔
(2) لوگوں کی خیر خواہی میں خوب قوت صرف کرنا ۔
(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سنت کو زندہ کرنا ۔
(4) سزاؤں کے حق داروں کو سزا دینا ۔
(5) حق داروں کو ان کے حقوق واپس لوٹا دینا ۔ (نہج البلاغہ مصری جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 202)
اسی طرح شیعہ مذھب کی مشہور کتاب رجال کشی میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ کا یہ ارشاد مذکور ہے : انی اذا بصرت شیئا منکراً او قدت نارا و دعوت قنبراً ۔ (رجال کشی صفحہ نمبر 199،چشتی)
ترجمہ : جب میں خلافِ شریعت کام دیکھتا ہوں تو آگ جلاتا ہوں اور قنبر کو بلاتا ہوں ۔
اسی بناء پر آپ نے ان لوگوں کو آگ میں جلا دیا تھا ۔ جو آپ کو خدا کہنے لگ گئے تھے پھر فرماتے ہیں : ولا المعطل للسنۃ فیہلک الامۃ ۔ (نہج البلاغہ صفحہ 398)
ترجمہ : امام ایسا نہیں ہونا چاہئے جو پیغمبرکے طریقے کو چھوڑ دے، ورنہ امت ہلاک ہوجائے گی ۔
لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ نے فدک میں وہی طریقہ جاری رکھا جو حضرت سیدنا صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی ﷲ عنہما کا تھا یہ اس امر کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کے نزدیک باغِ فَدک میں صدیقی طرز عمل حق و صواب تھا اور حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی ﷲ عنہ صدیقی طرز عمل کو بالکل شریعت اسلامیہ کے مطابق جانتے تھے ۔
حقیقت یہ ہے کہ شیعہ حضرات کا صدیقی خلافت میں غصبِ فَدک کا قول کرنا حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ کی امامت و خلافت پر شرمناک حملہ ہے ۔ کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے باغِ فَدک غصب کرلیا تھا تو حضرت مولا علی رضی ﷲ عنہ پر بھی یہ الزام قائم ہوگا ۔ کہ انہوں نے فدک کو صدیقی خلافت کے دستو رپر جاری رکھ کر امت و خلافت کا حق ادا نہیں کیا ۔ حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ اگر غاصب فدک ثابت ہونگے تو حضرت مولا علی مرتضیٰ رضی ﷲ عنہ غصب کے برقرار رکھنے والے ثابت ہونگے ۔ سوچئے کہ غصب کرنے والا زیادہ مجرم ہے یا غصب کو برقرار رکھنے والا ۔ اور غاصبوں کے طرز عمل کی حکومت و سلطنت کے با وجود حمایت کرنے والا ۔ (معاذ ﷲ) ۔ غرضیکہ قضیہ فدک میں جناب حضرت مولا علی الممرتضیٰ رضی ﷲ عنہ کا طرز عمل دنیائے شیعیت پر بہت بھاری حجت ہے ۔ اگر حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر اعتراض ہوگا تو حضرت سیدنا مولا علی رضی ﷲ عنہ کی خلافت پر بھی حرف آئے گا ۔ پس جناب حضرت مولا علی المرتضیٰ کا اراضی فدک کو اسی دستور پر رکھنا جس پر کہ جناب صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ نے رکھا تھا ، حضرت صدیق اکبر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی حقانیت اور ان کے طرز عمل کی صحت پر دلیل قاہر ہے ۔
مشہور شیعہ مصنف اس کا نام کمال الدین میثم بن علی میثم البحرانی ہے۔ ساتویں صدی ہجری میں پیدا ہوا۔ ’’عالمِ ربانی، فلسفی، محقق، صاحبِ حکمت اور نہج البلاغۃ کی شرح کا مصنف ہے۔ محقق طوسی سے روایت کرتا ہے… کہا گیا ہے کہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے فقہ کمال الدین میثم سے اور میثم نے حکمت خواجہ سے پڑھی تھی۔ ۶۷۹ھ میں وفات پائی اور ماحوذ کے قریب ایک بستی ہلتا میں دفن ہوا۔(الکنی والالقاب جلد ۱ ، صفحہ ۴۱۹) ۔ اسی نے کہا تھا ۔ میں نے علوم و فنون اس لیے چاہے تھے کہ اس سے برتری حاصل کروں‘‘’’مجھے بس اسی قدر ملا کہ اسی تھوڑے سے میں بلند ہوگیا‘‘ ’’مجھے معلوم ہوگیا کہ سب کے سب محاسنفرع ہیں اور حقیقت میں مال ہی اصل ہے‘‘ ’’اس کی ایسی ایسی عجیب تصنیفات ہیں جن کے بارے میں زمانے میں سے کسی نے بھی نہیں سنا اور نہ ہی بڑے بڑوں میں سے کوئی اُسے پاسکا ہے ۔‘‘ (روضات الجنات ج ۲ ص ۲۱۸ اور مابعد)
شیعہ ابن میثم نہج البلاغہ کی شرح میں یہ روایت لکھتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا جو آپ کے والد محترم کا تھا وہ آپ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فدک میں سے آپ کیلئے کچھ رکھ لیا کرتے تھے باقی اللہ سبحانہ وتعالی کے راستے میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اللہ کی قسم !میں آپ کے ساتھ ویسا ہی کروں گا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا کرتے تھے یہ سُن کر فاطمہ رضی اللہ عنہا خوش ہو گئیں اور اس بات کا آپ سے عہد لے لیا ۔ (شرح نہج البلاغ،جلد 5،صفحہ 7،از ابن میثم البحرانی مطبوعہ تہران)
اسی جیسی ایک روایت شیعہ دنبلی نے اپنی شرح ’’الدرۃ النجفیہ صفحہ 331،332 مطبوعہ ایران‘‘ میں بیان کی ہے۔ (شرح نہج البلاغۃ جلد5 ،صفحہ 331،332ایران)
شیعہ ابن میثم،دنبلی،ابنِ ابی الحدید، اور معاصر شیعہ مصنف فیض الاسلام علی نقی نے یہ روایت نقل کی ہے:’’ابوبکر رضی اللہ عنہ باغِ فدک کے غلہ میں سے اتنا حصہ اہلِ بیت کو دے دیا کرتے تھے جو ان کی ضروریات کے لیئے کافی ہوتا۔ باقی سب تقسیم کردیا کرتے، آپ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے، عثمان رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے اور ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔‘‘(شرح نہج البلاغۃ، لابنِ ابی الحدید جلد 4، صفحہ44، شرح نہج البلاغۃ،لابنِ میثم البحرانی جلد 5، صفحہ 107،الدرۃ النجفیۃ‘‘ صفحہ 332،شرح النہج البلاغہ،جلد 5،صفحہ 960، فارسی لعلی نقی ،مطبوعہ تہران،چشتی)
شیعہ کتب گواہ ہں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ویسا ہی کیا جیسا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم نے کیا تو یہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر کیا فتوی لگائیں گے ؟
نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال نہیں ہے اس روایت کو متعصب شیعہ جھٹلاتے ہیں جبکہ یہ روایت خود شیعوں کی اپنی کتب میں موجود ہے، ان کی اپنی کتاب (کافی) میں جسےشیعہ سب سے صحیح کتاب کہتے ہیں اسی کتاب (کافی) میں شیعہ کلینی نےحماد بن عیسی سےاور حماد بن عیسی نےقداح سےجعفر ابو عبداللہ کی روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ’’جو علم کو تلاش کرتے ہوئے علم کے راستے پر چلے، اللہ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے ، اور عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے، جیسے چودھویں کا چاند سارے ستاروں سے افضل ہے۔ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں جو دینار و درہم وراثت میں نہیں چھوڑتے لیکن علم کی میراث چھوڑتے ہیں، جو اس میں سے کچھ حاصل کرلے اس نے بہت کچھ حاصل کرلیا ۔ (الاصول من الکافی کتاب فضل العلم، باب ثواب العالم والمتعلم جلد 1،صفحہ 34)
جعفر ابوعبداللہ نےایسی ہی ایک اور روایت میں کہا ہے: علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کا مالِ میراث درہم و دینار نہیں ہوتا، انہیں انبیاء علیہم السلام کی احادیث میراث میں ملتی ہیں ۔(الاصول من الکافی باب صفۃ العلم وفضلہ وفضل العلماء جلد 1، صفحہ 32،چشتی)
مزید دو روایتیں پیش خدمت ہیں جن سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے، ان روایات کو بھی اس نے روایت کیا ہے جسے شیعہ قوم ’’صدوق‘‘ کے نام سے پکارتی ہے ۔
(1) براہیم بن علی رافعی نے اپنے باپ سے، اس نے اپنی دادی بنت ابی رافع سے روایت کیا ہے وہ کہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں، ان کو اپنی کچھ میراث دے دیجیے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ حسن رضی اللہ عنہ کے لیے میری ہیبت اور بزرگی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کے لیے میری جرأت اور میری سخاوت۔( کتاب الخصال‘‘ از قمی صدوق، صفحہ 77)
(2) سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کے دو بیٹے ہیں، انہیں کچھ عطا کیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسن رضی اللہ عنہ کو میں نے اپنا رعب اور بزرگی دی اور حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی سخاوت اور شجاعت۔(کتاب الخصال“ از قمی صفحہ 77)
بعض متعصب شیعہ حضرات یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں نے باغِ فدک آپ کو اس لیئے نہیں دیا تھا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو مفلس و قلاش کردینا چاہتے تھے تاکہ لوگ مال و دولت کے لالچ میں ان کی طرف راغب نہ ہو جائیں ۔ ہمیں ان پر اور ان کی عقلوں پر افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو اس آخری زمانے کے حکمرانوں جیسا سمجھتے ہیں جو دولت کے بل بوتے پر مال اور رشوت دے کر بڑے بڑے عہدے حاصل کرتے ہیں۔ اگر بالفرض یہ بات بھی تھی تو مال کی وافر مقدار ان کے پاس موجود تھی، دیکھئے شیعہ عالم کلینی اس کا ذکر کرتا ہے۔ دسویں امام ابو الحسن سے روایت ہے کہ سات باغات فاطمہ علیہا السلام کے لیے وقف تھے۔ وہ باغات یہ ہیں:(۱)دلال (۲) عوف(۳) حسنی (۴) صافیہ (۵) مالامِ ابراہیم (۶) مثیب (۷) برقہ۔(’’الفروع من الکافی‘‘ ،کتاب الوصایا ،جلد ۷ ،صفحہ ۴۷، ۴۸،چشتی)
اب یہ بتا ئیں جو سات باغات کا مالک ہو اس کے پاس دولت کی کمی ہوگی ؟
محترم قارئین قابلِ غوریہ بات ہے کہ : اگر باغ فدک اور اس کی زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تھی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اکیلی ہی اس کی وارث تو نہ تھیں، ابوبکر صدیق اور فاروق رضی اللہ عنہما کی بیٹیاں بھی اس کی وراثت میں شریک تھیں، اگر ابوبکر صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس وراثت سے محروم رکھا تو اپنی بیٹیوں کو بھی تو محروم رکھا۔ آخر اُن کی بات کوئی کیوں نہیں کرتا،ان کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ بھی زندہ تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء میں وہ بھی شامل تھے۔
یاد رہے یہ اعتراض کرنے والے شیعہ حضرات اتنا بھی نہیں جانتے کہ ان کے مذہب میں عورت کو غیر منقولہ جائداد اور زمین کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملتا۔ ان کے محدثین نے اس مسئلہ کو مستقل ابواب و عنوانات کے تحت بیان کیا ہے۔ دیکھیے کلینی نے ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے: ’’عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا‘‘ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں۔چوتھے امام ابو جعفر سے روایت ہے کہ : انہوں نے کہا: ’’عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔(الفروع من الکافی‘‘ کتاب المواریث ،جلد7،صفحہ 137)
ابنِ بابویہ قمی صدوق نے اپنی صحیح ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ میں یہ روایت بیان کی ہے:ابو عبداللہ جعفر کی روایت ان کے پانچویں امام کی روایت میسر نے بیان کی ہے کہ
میں نے آپ سے (یعنی جعفر سے) عورتوں کی میراث کے بارے میں پوچھا؟ آپ نے کہا: جہاں تک زمین اور غیر منقولہ جائداد کا تعلق ہے، اس میں عورتوں کی میراث نہیں۔(من لا یحضرہ الفقیہ““،کتاب الفرائض والمیراث جلد۴ ،صفحہ ۳۴۷،چشتی)
اسی طرح اور بہت سی روایات بھی بیان کی گئی ہیں جن کی بناء پر اُن کے علماء نے اتفاق کیا ہے کہ زمین اور غیر منقولہ جائداد میں عورتوں کو میراث نہیں دی جاتی۔
اگر عورتوں کو زمین اور باغات وغیرہ کی جائیداد نہیں دی جاتی تو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے بقول ان کے کس طرح فدک کا مطالبہ کیا تھا۔ کوئی کوڑھ مغز بھی اس سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ یقینا فدک غیر منقولہ جائداد تھی۔
کیا حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مسلہ پر ناراض تھیں کا جواب شیعوں کے سب سے بڑے متعصب عالم مجلسی کے قلم سے پڑھیئے ، باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ:سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے: میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں، اپنی اولاد کے لیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا ۔ (حق الیقین‘‘ ،صفحہ ۲۰۱، ۲۰۲ ، ترجمہ فارسی،چشتی)
مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اقتدار پر فائز ہوتے ہی ابن سباء کی نسل کی اس سازش پر ضربِ کاری لگائی ۔ امامِ شیعہ، سید مرتضیٰ علم الہدیٰ لکھتا ہے:جب فدک کے انکار کا معاملہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو آپ نے کہا: مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس چیز کو دے ڈالوں جس کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی حال میں برقرار رکھا ۔ (الشافی‘‘ للمرتضیٰ صفحہ ۲۳۱)( شرح نہج البلاغۃ لابنِ ابی الحدید“، جلد ۴)
حضرت امام ابوجعفر محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے بارے میں کثیر النوال نے پوچھا: ’’میں آپ پر قربان جاؤں۔ کیا آپ کا خیال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا حق روک کر آپ پر ظلم کیا ہے؟‘‘ یا ان الفاظ میں کہا کہ: ’’آپ کا کچھ حق تلف کیا ہے؟‘‘ آپ نے کہا: ’’ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے اپنے اس بندے پر قرآن نازل کیا جو سارے جہانوں کے لیے نذیر (ڈرانے والے) ہیں ، ہم پر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا گیا۔‘‘ میں نے کہا: ’’قربان جاؤں کیا میں بھی ان دونوں سے محبت رکھوں؟‘‘کہنے لگے: ’’ہاں تیرا ستیاناس! تو ان دونوں سے محبت رکھ، پھر اگر کوئی تکلیف تجھے پہنچے تو وہ میرے ذمے۔(شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲،چشتی)
ہم نے شیعہ مذھب کی معتبر کتابوں شیعہ جنہیں اپنا امام مانتے ہیں (آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم) اور دیگر شیعہ نے صاف صاف یہ کہا کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نےاُن پر کوئی ظلم نہیں کیا پھر یہ اجہل متعصب شیعہ کیوں ان مقدس ہستیوں پرتہمتیں لگاتے ہیں ۔؟ یا تو صآف لکھیں شیعہ مذھب کے تمام امام جھوٹے ہیں یا یہ شیعہ خود جھوٹے ہیں فیصلہ خود کیجیئے۔
امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت امام زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے بھی فدک کے مسئلے میں وہی کچھ فرمایا جو آپ کے دادا مولا علی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا پڑھیئے شیعہ مذھب کی معتبر کتاب کے حوالے سے : بحتری بن حسان کے پوچھنے پر حضرت امام زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے کہا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تحقیر و توہین کے طور پر میں نے زید بن علی علیہ السلام سے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فدک فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چھین لیا، یہ سن کر آپ کہنے لگے: ابوبکر رضی اللہ عنہ مہربان آدمی تھے، وہ ناپسند کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیے ہوئے کسی کام میں تغیر و تبدل کریں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فدک دیا تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ہے؟ آپ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئیں ، انہوں نے اس بات کی گواہی دی۔ ان کے بعد ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں: کیا تم دونوں گواہی نہیں دیتے کہ میں اہلِ جنت میں سے ہوں، دونوں کہنے لگے کیوں نہیں، ابو زید نے کہا: یعنی انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، کہنے لگیں: میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک ان (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کو دیا تھا، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی اور آدمی یا عورت کو بھی اس جھگڑے میں فیصلہ کرنے کا حق دار سمجھتی ہیں، اس پر ابو زید کہنے لگے: اللہ کی قسم اگر فیصلہ میرے پاس آتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔(شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲)
الحمد للہ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے مسلہ باغ فدک کے متعلق شیعہ مذھب کی معتبر کتابوں سے اس مسلہ کو علمی اور مہذب انداز میں پیش کر دیا ہے جو کچھ آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم نے فرمایا اور جو کچھ شیعہ مذھب کے معتبر علماء نے لکھا یہی اہلسنت و جماعت کا مؤقف ہے مجھے حیرت ہوتی اجہل قسم کے شیعہ ذاکرین اور سننے پڑھنے والے شیعہ حضرات آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کی تعلیمات و ارشادات کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں اس کی وجہ صاف ہے کہ یہ جھوٹی محبت کے دعویدار ہیں صرف امت مسلمہ میں فتنہ و فساد پھیلانا ان کا کام ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کہ اہل اسلام کو ابن سباء یہودی کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ و شر سے محفوظ فرمائے اور حق کو قبول کرنے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment