Wednesday 15 December 2021

غزوہ ہند احادیث مبارکہ کی روشنی میں

0 comments

غزوہ ہند احادیث مبارکہ کی روشنی میں

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : غزوہ ہند کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے متعدد احادیث مروی ہیں ۔ ان احادیث نبویہ کے راوی جلیل القدر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں ۔ ان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دو احادیث مروی ہیں ۔ حضرت ثوبان اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور تبع تابعین میں سے حضرت صفوان بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ : میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھ سے بیان کیا کہ اس امت میں سندھ و ہند کی طرف لشکروں کی روانگی ہوگی " اگر مجھے کسی ایسی مہم میں شرکت کا موقع ملا اور میں (اس میں شریک ہوکر) شہید ہو گیا تو ٹھیک ، اگر (غازی بن کر) واپس لوٹ آیا تو میں ایک آزاد ابو ہریرہ ہوں ، جسے اللہ تعالیِ نے جہنم سے آزاد کر دیا ہوگا " امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حدیث کو اپنی دو کتابوں میں نقل کیا ہے جس کا مفہوم ہے کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہم سے غزوہ ہند کا وعدہ فرمایا ۔ (آگے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں) " اگر مجھے اس میں شرکت کا موقع مل گیا تو میں اپنی جان و مال اس میں خرچ کردوں گا ۔ اگر قتل ہو گیا تو میں افضل ترین شہداء میں شمار کیا جاٶں گا اور اگر واپس لوٹ آیا تو ایک آزاد ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گا ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا :  میری امت میں دو گروہ ایسے ہوں گے جنہیں اللہ تعالیِ نے آگ سے محفوظ کر دیا ہے ، ایک گروہ ہندوستان پر چڑھائی کرے گا ارو دوسرا گروہ جو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ساتھ ہوگا ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوسری حدیث ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہندوستان کا تذکرہ کیا اور ارشاد فرمایا : ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا ، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا حتیٰ کہ وہ (مجاہدین) ان کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے اور اللہ ان کی مغفرت فرمادے گا ۔ پھر جب وہ مسلمان واپس پلٹیں گے تو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو شام میں پائیں گے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا " اگر میں نے وہ غزوہ پایا تو اپنا نیا اور پرانا سب مال بیچ دوں گا اور اس میں شرکت کروں گا ۔ جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطاء کردی اور ہم واپس پلٹ آئے تو میں ایک آزاد ابوہریرہ ہوں گا جو ملک شام میں اس شان سے آئے گا کہ وہاں عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کو پائے گا ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اس وقت میری شدید خواہش ہوگی کہ میں ان کے پاس پہنچ کر انہیں بتاؤں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا صحابی ہوں ۔(راوی کا بیان ہے) کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مسکرا پڑے اور ہنس کرفرمایا : بہت زیادہ مشکل، بہت ذیادہ مشکل ۔ (مسند احمد : 369/2)(مسند ابوہریرہ رض: 8467)(البدایہ والنہایۃ، الاخبار عن غزوہ الہند: 223/6، از حافظ علامہ عمادالدین ابن کثیر)(السنن المجتبیٰ : 42/6 ، کتاب الجہاد باب غزوہ ہند: 3174 ،3173)(السنن الکبریٰ للنسائ: 28/3، باب غزوہ الہند: 4382۔4383)(مسند احمد : 278/5، حدیث ثوبان رض : 21362،چشتی)(السنن المجتبیٰ للنسائ:668/2، حدیث: 2575)(السنن الکبریٰ للنسائ: 28/3، باب غزوۃ الھند: 4384)(الجہاد : 665/2 فضل غزوۃ البحر حدیث : 228)(السنن الکبریٰ للبھیقی : 76/9، کتاب السیر، باب ماجاء فی قتال الھند : 186)(البدایۃ والنھایۃ، الاخبار عن غزوۃ الھند : 223/6)(الفردوس بما ثور الخطاب : حدیث 4164)(تاریخ الکبیر : 72/6)(تذکرہ عبد الاعلیٰ بن عدیالبھرانی الحمص : 1747)(تاریخ دمشق : 248/52، از ابن عساکر رح کتاب الفتن ، غزوۃ الھند : 409/1۔ 410، حدیث : 1236۔ 1238)

غزوہ ھند صرف جنگ تک ہی محدود نہیں ہے اس میں علمی جہاد بھی شامل ہے اور اس کی تکمیل ھندوستان میں اسلام کے مکمل غلبے پر ہوگی ان شاء اللہ ایک بار ان احادیث مبارکہ کو غور سے پڑھیں :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ وَعَدَنَا رَسُولُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَةِ الْهِنْدِ فَإِنْ اسْتُشْهِدْتُ کُنْتُ مِنْ خَيْرِ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ رَجَعْتُ فَأَنَا أَبُوهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ ۔
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہم سے غزوہ ہند کے بارے میں وعدہ فرمایا تھا ، سو اگر میں شہید ہو گیا تو بہترین شہیدوں میں سے ہوں گا۔ اگر واپس آ گیا تو میں آزاد ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوں گا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 2: 228، رقم: 7128، مؤسسة قرطبة، مصر،چشتی)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3: 588، رقم: 6177، دار الکتب العلمية، بيروت)

عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ وَعَدْنَا رَسُوْلُ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم غَزْوَةُ الْهِنْدِ فَاِنْ اَدْرَکْتُهَا أَنْفِقُ فِيْهَا نَفْسِي وَمَالِي فَاِنْ اُقْتَلُ کُنْتُ مِنْ أَفْضَلِ الشُّهَدَآءِ وَاِنْ أَرْجِعُ فَأَنَا اَبُوْهُرَيْرَةَ الْمُحَرَّرُ.
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا کہ مسلمان ہندوستان میں جہاد کریں گے ، اگر وہ جہاد میری موجودگی میں ہوا تو میں اپنی جان اور مال ﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کروں گا ۔ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میں سب سے افضل ترین شہداء میں سے ہوں گا ۔ اگر میں زندہ رہا تو میں وہ ابو ہرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہوں گا جو عذاب جہنم سے آزاد کر دیا گیا ہے ۔ (نسائي، السنن، 3: 28، رقم: 4382، دار الکتب العلمية بيروت)(بيهقي، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18380، مکتبة دار الباز مکة المکرمة)

عَنْ ثَوْبَانَ مَوْلَی رَسُولِ ﷲِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلیٰ الله عليه وآله وسلم قَالَ عِصَابَتَانِ مِنْ أُمَّتِي أَحْرَزَهُمَا ﷲُ مِنْ النَّارِ عِصَابَةٌ تَغْزُو الْهِنْدَ وَعِصَابَةٌ تَکُونُ مَعَ عِيسَی ابْنِ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلَام ۔
ترجمہ : حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ جو کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے غلام ہیں ، سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : میری امت کے دو گروہوں کو ﷲ تعالیٰ دوزخ کے عذاب سے بچائے گا ان میں سے ایک ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہوگا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 5: 278، رقم: 22449)(نسائي، السنن، 3: 28، رقم: 4384 )(بيهقي، السنن الکبری، 9: 176، رقم: 18381)(طبراني، المعجم الاوسط، 7: 2423، رقم: 6741، دار الحرمين القاهرة)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ہندوستان کا ذکر فرمایا اور ارشاد کیا ’’ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا، اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا فرمائے گا، حتیٰ کہ وہ ان کے بادشاہوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے، اور اللہ ان کی مغفرت فرمائے گا، پھر جب وہ مسلمان لوٹ کر آئیں گے تو عیسیٰ ابنِ مریم کو شام میں پائیں گے ۔

مذکورہ احادیث کا مفہوم درج ذیل ہے : ⬇

(1) ایک زمانہ آئے گا کہ عرب انتہائی غیر مستحکم ہوں گے تو اللہ ایک غیر عرب قوم کو اٹھائے گا جو ہتھیاروں اور لڑائی میں عربوں سے بہتر ہوگی اور ہندوستان پر قبضہ کرے گی ۔

(2) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’میں ہند سے نہیں ہوں مگر ہند مجھ سے ہے ۔‘‘

(3) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا ’’جو لوگ آخری زمانے میں شام میں ہوں، انہیں چاہیے کہ زیر زمین گھر بنائیں ۔‘‘

حضرت نعمت اللہ شاہ ولی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : غزوہ ہند کے دوران دریائے اٹک 3 دفعہ خون سے لال ہوجائے گا، سرحد کے غازیوں سے زمین کانپے گی، دلّی اور کشمیر فتح ہوگا اور امام مہدی کا خیمہ غوطہ میں ہوگا، غزوہ ہند آخری فیصلہ کن معرکہ ہوگا ۔ (پیشین گوٸیاں)

درج بالا فرامین سے غزوۂ ہند کی نوعیت جاننے میں یقیناًمدد ملی ہوگی ۔ سادہ الفاظ میں ’’غزوۂ ہند‘‘ کی تعیف یہ ہے : ⬇

’غزوۂ ہند ایک ایسی جنگ ہے جس میں تمام ہندوستان کو مسلمان ازسرنو فتح کرلیں گے۔ یہ ایک مکمل فتح ہوگی، جس میں ہندوستان کے تمام سردار بیڑیوں میں جکڑے جائیں گے، غالب امکان یہ ہے کہ یہ جنگ حضرت مہدی کی سربراہی میں لڑی جائے گی اور بڑھتے بڑھتے بالآخر تمام دنیا پر حضرت مہدی اسلامی اقتدار قائم کردیں گے، جس کے بعد حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول ہوگا، جو آخری جنگ Armegadon پر منتج ہوگا ۔‘‘

ایک سوال جو غزوہ ہند کے بارے میں پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ غزوہ اُس جنگ کو کہا جاتا ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شریک ہوں ، تو اب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم وصال فرما چکے ہیں ، تو اس جنگ کو غزوہ کیوں کہا گیا ؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم غزوۂ موتہ میں شریک نہیں تھے ، مگر پھر بھی اس کو غزوہ کہا جاتا ہے ۔ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے نائب اور امتی ہیں اور ان کا مقصد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحمت اللعالمین صفت کو تمام عالم پر نافذ کرنا ہے ، لہٰذا ان کی موجودگی کے سبب اس کو غزوہ قرار دیا گیا ، اور تیسرا اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے چونکہ اس غزوے کی تمام معلومات دیں اور عہد لیا کہ جو زندہ رہے وہ اس غزوے میں ضرور شریک ہو ، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس بیعت نے ان کو اس غزوے کا سربراہ بنادیا اور یہ جنگ غزوہ قرار پائی ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے زمانے میں خراسان ایک بہت وسیع علاقے کا نام تھا ، اس میں ایران ، افغانستان ، پاکستان کی ملاکنڈ ایجنسی اور وسط ایشیائی ریاستیں شامل تھیں ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں کہ خراسان سے کالے جھنڈے اٹھیں گے اور غزوہ ہند جیتیں گے تو اس میں کثیرالملکی فوج کا مفہوم بھی ہو سکتا ہے ، جیسا کہ ہم دوسری حدیث میں غیر عرب فوج کی فتح کی نوید سنتے ہیں ۔ پاکستانی فوج بھی ایک غیر عرب فوج ہے ، جس کے ہتھیار اور کارکردگی عربوں سے بہتر ہے، لہٰذا جس فوج کا ذکر ہے وہ پاکستانی فوج اور اس کے ایٹمی ہتھیار بھی ہوسکتے ہیں جو بھارت فتح کرے ۔ جس وقت اسرائیل وجود میں آیا تو ڈیوڈ بن گوریان نے بیان دیا کہ ہمیں کسی عرب ملک سے کوئی خطرہ نہیں ، ہمیں صرف پاکستان سے خطرہ ہے ۔ حالانکہ پاکستان اُس وقت محض ایک سال پرانی نوزائیدہ مملکت تھی جو اپنا وجود بچانے کےلیے ہاتھ پاؤں مار رہی تھی ۔ کافروں کو اندازہ ہے کہ پاکستان خدا کے رازوں میں سے ایک راز ہے، مگر ہمیں پاکستان کی کوئی قدر نہیں ہے۔
ایک بات یہاں قابلِ غور ہے کہ پاکستان کبھی بھی ہندوستان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا، ہندوستان ہی کبھی ہمارا پانی روکتا ہے، کبھی ہمارا مشرقی حصہ جدا کرتا ہے، کبھی بمباری کرتا ہے، کبھی دہشت گردی کرواتا ہے اور کبھی الزامات لگاتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمادیا تو ہم بلاوجہ غزوہ ہند کا محاذ کھول کر مذہبی فریضہ نبھائیں گے ، تو یہ خام خیالی ہے ۔ آپ دیکھ لیجیے گا کہ فساد کا آغاز بھارت کی جانب سے ہی ہوگا ، جو کہ بھارت کا ایک مستقل رویہ ہے، اور پاکستان کی دوستی کی ہر کوشش اور امن کی ہر آشا رائیگاں جائے گی ۔

یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ کالے جھنڈے، پیلے جھنڈے، کالی ٹوپیاں، حضرت عیسیٰ ابن مریم کا حلیہ، حضرت مہدی علیہم السلام کا حلیہ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو احادیث کی روشنی میں کوئی بھی خود تیار کرکے کوئی بھی دعویٰ کر سکتا ہے ۔ یہ سب میک اَپ سے بھی ہوسکتا ہے، ان چیزوں کو حتمی مان کر فیصلہ کرنا بے وقوفی ہے۔ ہمیں جو چیز اصل حضرت عیسیٰ اور اصل حضرت مہدی علیہما السلام کی پہچان کرائے گی، وہ ان کی تعلیمات، ان کا جذبہ اور ان کا ایمان ہوگا۔ یہ قیامت کا آخری دور ہے، اس وقت دھوکا کھانے والوں کے لیے یہ موقع نہیں ہے کہ تمہیں ہٹا کر اوروں کو لے آئیں گے، ہم نے اگر اپنی کسی غلطی سے اللہ کے پلان میں خلل ڈالا تو ہمارے لیے معافی نہیں ہے، اس لیے بڑے ہوش و حواس سے فیصلہ کیجیے۔ قرآن روز اپنی مادری زبان میں پڑھیے تاکہ آپ اس کتابِ الٰہی کی روشنی میں صحیح لوگوں کو پہچان سکیں ۔
بعض لوگ محمد بن قاسم کے ہندوستان پر حملے کو غزوۂ ہند مانتے ہیں، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ یوں تو محمود غزنوی نے بھی جب بھی ہندوستان پر حملہ کیا، ہمیشہ غزوۂ ہندکی ہی نیت باندھی، لیکن وہ سترہ حملے غزوہ ہند نہیں تھے۔ درحقیقت غزوہ ہند وہ ہوگا جس کے اختتام پر تمام ہندوستان پر مکمل قبضہ ہو، اور یہ غزوہ اتنا بڑھے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم بھی شام میں ظاہر ہوجائیں اور پھر مستقل فتوحات کا ایسا سلسلہ چل نکلے کہ تمام دنیا اسلام کے زیر تسلط آجائے۔
غزوہ ہند کے بارے میں جب ہم تمام تر تجزیوں کا معائنہ کرتے ہیں تو یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ ایسی منظم، کامیاب اور متحد جنگ کے لیے ایک متفق علیہ کمانڈر اور ایک مستحکم اقتصادی قوت بہت ضروری ہے، جب کہ جو صورتِ حال ہمیں نظر آرہی ہے، اُس میں مسلم ممالک کے حکمران کسی پالتو جانور کی طرح کافروں کے قدموں میں لوٹ رہے ہیں۔ نہ کوئی حمیت ہے، نہ غیرت، نہ سر اٹھانے کا حوصلہ، نہ مضبوط کمر۔ جب کہ ہمیں نظر آرہا ہے کہ آخری دور شروع ہوچکا ہے، پھر آخر کیسے کمانڈر آئے گا، کس طرح اتحاد ہوگا اور غزوۂ ہند کے وسائل کیسے فراہم ہوں گے، جب کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی اب تک نزول نہیں ہوا۔ شام کے حوالے سے تمام حدیثیں پوری ہوچکی ہیں، پھر آخر غزوۂ ہند کی فتوحات کیسے اور کب ہوں گی ؟

آتی ہے میرِ عرب کو ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے ، میرا وطن وہی ہے

جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فرماتے ہیں کہ میں ہند سے نہیں ہوں، مگر ہند مجھ سے ہے، تو ان کا اشارہ پاکستان کی طرف ہوتا ہے۔ ظاہر ہے بھارت میں رہنے والے ہندوؤں کو تو وہ بیڑیوں میں قید کرنے کا حکم فرما رہے ہیں ۔ مشاٸخ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو اللہ تعالیٰ نے قائداعظم کے خواب میں بھیجا تھا اور انھوں نے قائد اعظم کو حکم دیا تھا کہ لندن سے واپس ہندوستان جاؤ اور پاکستان بنانے کی کوشش کرو ۔ ان کے علاوہ بھی بہت سے روحانی واقعات ہیں جو پاکستان کو وجود میں لانے کا سبب بنے اور ابھی تک پاکستان کو قائم رکھے ہوئے ہیں جب کہ اہلِ پاکستان نے بربادی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی تائید ایزدی کو نظر میں رکھتے ہوئے امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک سپریم کمانڈر بھی پاکستان میں بھیجے گا جو تمام دنیا میں اسلام قائم کرے گا اور غزوۂ ہند کی فتوحات کو بھی اللہ کے حکم سے ممکن بنائے گا ۔

سنن نسائی، صفحہ نمبر 438 حدیث نمبر 3175 میں غزوۂ ہند میں شہید ہونے والوں کو ’’افضل الشہدا‘‘ اور بچ جانے والوں کو جہنم کی آگ سے آزاد قرار دیا گیا ہے ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ حدیث اُس زمانے کی ہے جب غزوات جاری تھے، جھڑپیں بھی ہوتی رہتی تھیں، کثرت سے شہادتیں بھی سامنے کی بات تھیں، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ان جلیل القدر صحابہ کو افضل الشہدا قرار نہیں دیتے، بلکہ فرماتے ہیں کہ قربِ قیامت کے دور میں ہونے والے غزوہ ہند میں جو لوگ شہید ہوں گے، وہ افضل الشہدا ہیں۔ صرف اسی بات سے آپ غزوۂ ہند کی اہمیت کا اندازہ کرلیں اور اس میں شریک ہونے والے مومنوں کے درجات کا اندازہ لگالیں۔ لہٰذا جس کی زندگی میں یہ غزوہ لڑا جائے اُسے اس میں ضرور شرکت کرنی چاہیے ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول غزوہ ہند کے دوران ممکن نہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُس وقت ظاہر ہوں گے جب حضرت مہدی غزوہ ہند کی فتوحات مکمل کرکے شام کی طرف بڑھیں گے، اسرائیل کا خاتمہ کرنے کی تدبیریں کریں گے اور غوطہ میں اپنا خیمہ لگائیں گے، یہی وہ وقت ہے کہ حضرت عیسیٰ ظاہر ہوجائیں گے اور وہ یہودیوں کو شکست دینے میں حضرت مہدی کی مدد فرمائیں گے۔ یہودیوں کو صرف ایک خاص درخت کے پیچھے پناہ ملے گی جس کا ذکر حدیثوں میں ہے اور یہودیوں نے اس درخت کی بڑی تعداد میں کاشت ابھی سے شروع کر رکھی ہے۔
لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ غزوہ ہند ایک On going process ہے جو شاید پاک بھارت جنگ سے شروع ہو، اور اس جنگ میں افغانی، ایرانی اور وسط ایشیائی ریاستوں کے مومن بھی پاکستانیوں کے ساتھ شامل ہوں گے۔ پورے برصغیر پاک و ہند پر مسلمانوں کا مکمل غلبہ ہوجانے کے بعد یہ جنگ اپنا رخ موڑے گی اور عرب علاقوں میں چلی جائے گی، جہاں حضرت عیسیٰ ابن مریم کا نزول ہوگا اور دجال سے جنگیں شروع ہوں گی، ان فیصلہ کن جنگوں کو Armegadon کہا جاتا ہے ۔

محترم قارئینِ کرام : جس قدر ریسرچ کرکے احادیث کی روشنی میں غزوۂ ہند کا تجزیہ پیش کیا جا سکتا تھا ، وہ فقیر نے کر دیا ۔ ہمارا پورا ایمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا ہر فرمان پورا ہوگا، تاہم اس بات کا ادراک بہت ضروری ہے کہ قیامت بے حد نزدیک ہے، یہودی اس لمحے کی مکمل تیاری میں ہیں۔ جہاں وہ اپنے دجال کے لیے راستہ صاف کررہے ہیں، انڈیا کو غزوۂ ہند کےلیے مستحکم کر رہے ہیں، وہیں زور و شور سے گریٹر اسرائیل کا خواب بھی پورا کررہے ہیں۔ کمال کی بات یہ ہے کہ یہودی تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تمام پیش گوئیوں کے مطابق حکمت عملی بنا رہے ہیں مگر ہم خود اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ہدایت کے مطابق کوئی منصوبہ بندی کر رہے ہیں نہ کوئی قیادت ہمارے پاس ہے جو تمام امت کو ساتھ لے کر بصیرت افروز فیصلے کرے ۔ ایسی صورت میں کم از کم ذاتی طور پر ہمیں اللہ کے احکامات کی پابندی کرنی چاہیے تاکہ غزوۂ ہند شروع ہونے پر ہم میں اتنی روحانی قوت ہو کہ غزوہ ہند کے مجاہدین میں شامل ہوسکیں ۔ اللہ ہمیں حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رہبری عطا کرے اور افضل الشہدا میں سے کرے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔