Saturday, 4 December 2021

امام کے پیچھے قرأت کرنا منع ہے حصہ ششم

 امام کے پیچھے قرأت کرنا منع ہے حصہ ششم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھنے کے دلائل اور غیر مقلدین کے اس دھوکے کا جواب کہ سورہ فاتحہ نہیں پڑھو گے تو نماز نہیں ہوگی 


دلیل نمبر ۱ : قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے : واذاقری القراٰن فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون ۔ اور جب پڑھاجائے قرآن پس اس کی طرف کان لگائے رہو اور چپ رہو تاکہ تم رحم کیے جاٶ سورة الانفال /پارہ نمبر ۹/آیت نمبر ۴۰۲ ۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ قرات خلف الامام کو بڑے واضح انداز میں بیان فرمایا،امام اور مقتدی دونوں کے کاموں کو الگ الگ بیان فرمادیا ،کہ جب قرآن کریم پڑھا جائے(امام قرات کرے تو مقتدیوں کاکام صرف اور صرف خاموشی کے ساتھ توجہ کرناہے۔

ہوسکتاہے آپ کے ذہن میں آئے کہ اس آیت میں نماز باجماعت کاتذ کرہ تونہیں ہے پھر کس طرح اسے مسئلہ قراة خلف الامام کے منع کی دلےل بنایا جا رہا ہے ؟ تو اس کے سمجھنے کےلیے اچھی طرح ذہن نشیں فرماویں کہ ہمارے پاس اولًااصحاب رسول رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ جماعت کے اقوال موجودہیں جو ہمیں قرآن کریم کی آیات طیبات کاشان نزول اور احادیث رسول ﷺ کا صحیح محل بتاتے ہیں ۔ثانیاًجمہورعلماءسلف وخلف کے اقوال بھی تعیین مسئلہ میں حجت کادرجہ رکھتے ہیں ۔ کیونکہ صحاح ستہ کی مشہور کتاب ترمذی شریف میں ہے حضرت ﷺ نے فرمایا ان اللہ لایجمع امتی اوقال امة محمد ﷺ علی ضلالة ویداللہ علی الجماعة ومن شذ شذ فی النار ۔ ترمذی /ج۲/ص۹۲/مشکٰوة /ص۰۳

یقینًا اللہ تعالیٰ میری امت کو یافرمایاامت محمد ﷺ کو گمراہی پر جمع نہ کرینگے اللہ تعالی کاہاتھ( حفاظت )جماعت پرہے جوشخص جماعت سے الگ ہو ا آگ میں الگ ہوا۔

نیز صحاح ستہ کی مشہور کتاب ابن ماجہ شریف میں ہے ۔قال رسو ل اللہ ﷺ اتبعو ا سواد الاعظم فانہ من شذ شذفی النار۔ ابن ماجہ بحوالہ مشکٰوة /ص۰۳

حضرت ﷺ نے فرمایابڑی جماعت کی پیروی کرو جو جماعت سے الگ ہوا وہ دوزخ کی آگ میں الگ ہوا ۔

ؑ ان ہر دو احادیث طیبہ سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ جمہور علمائے امت کاقول بھی حجت اور دلیل کادرجہ رکھتاہے ۔

تولےجئے اس آیت کریمہ کے سلسلہ میں اصحاب رسول رضوان اللہ علےہم اجمعین اور تابعین وعلماءکبار کے ارشادات ملاحظہ فرماویں ۔

(۱)م


شہور صحابی رسول ﷺ حضرت عبداللہ بن مسعو د ؓکے متعلق منقول ہے

صلی ابن مسعود ؓ فسمع اناسا یقرو ¿ن مع الامام فلما انصرف قال اما ان لکم ان تفہمو ا اما ان لکم ان تعقلو ا واذاقری ¿ القراٰن فاستمعو ا لہ وانصتو لعلکم ترحمون ۔تفسیر ابن جریر / ج ۹ /ص ۳۰۱

حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ نے ( ایک مرتبہ )نماز پڑھائی اور چند آدمیوں کو انہوں نے امام کے ساتھ قرا ¿ةکرتے سنا جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ اور عقل سے کام لو جب قرآن کریم کی تلاوت ہو رہی ہوتو اس کی طرف کان لگاو ¿ اور خاموش رہو جیسا اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس کا حکم دیا ۔

فائدہ :۔اچھی طرح جان لیں کہ عبداللہ بن مسعود ؓ وہ عظیم المرتبت صحابی ہیں جن کے متعلق صحاح ستہ کی مشہور کتاب ترمذی شریف میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا ابن مسعود ؓ کی ہدایت اور حکم کو مضبوطی سے تھامے رکھو ترمذی شریف /ج ۲ /ص ۳۹۲

اور بخاری شریف ج ۱ /ص۱۳۵ پر بھی ہے کہ تم قرآن کریم ان چار سے سیکھو عبدا للہ بن مسعود ؓ ،سالم مولی ابی حذیفہ ،ابی بن کعب ،معاذ بن جبل ۔

(۲)


رئیس المفسرین حضور اکرم ﷺ کے چچا زاد حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے منقول ہے : ۔

عن ابن عباس فی قولہ تعالی واذ اقری ¿ القران فاستمعوالہ وانصتوا لعلکم ترحمون یعنی فی الصلٰوة المفروضة روح المعانی /ج۹/ص۰۵۱/تفسیر ابن جریر /ج۹/ص۳۰۱/ تفسیر ابن کثیر ج۲/ص۸۲

سیدناعبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں اس آیت کاشان نزول فرضی نماز ہے ۔

فائدہ :


۔حضرت ابن عباس ؓ وہ جلےل القد ر صحابی ہیں جنہیں حضرت عبداللہ بن مسعو دؓ جےسے صحابی رسول بھی ترجمان القرآن کالقب عطافرماتے ہیں ۔ (تفسیر ابن کثیر ج۱/ص۳)


ہم نے قرآن کریم کی آیت سے وہی کچھ سمجھا وہی استدلال کیا وہی تفسیر کی جو اللہ کے نبی ﷺ کے شاگرد کر رہے ہیں کہ امام کا کام قراءة کرنا ہے اور مقتدی کا کام خاموش رہنا ہے ۔

مزید براں درج ذےل کتب میں حضرات صحابہ کرام اورتابعین خصوصاً حضرت عبدا للہ بن مسعود ؓ ،حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ،حضرت مقدام بن اسود ؓ ، حضرت جابر ؓ ،حضرت سفیان ثوری ؒ ،حضرت قتادہ ؒ ،حضرت ابراہیم نخعی ؒ،حضرت شعبی ؒ، حضرت سعیدابن جبیر ؒ،حضرت عطا ءابن ابی رباحؒ، کے اقوال ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ یہ آیت نماز کے سلسلہ میں نازل ہوئی ۔تفسیر ابن جریر /ج ۹/ص ۲۹۱ /تفسیر روح المعانی/ج ۵ /ص ۰۵۱/تفسیر معالم التنزیل /ج ۲/ص۶۲۲/حاشیہ شیخ زادہ علی البیضاوی /ج ۴ /ص ۴۵۳/تفسیر خازن /ج ۲/ ص۲۷۲/تفسیر ابن کثیر /ج ۲/ص۹۷/تفسیر مظہری /ج ۰۱/ص ۹۱۱/حضرت ابی ہریرہ دارقطنی /۶۲۳۔

اجماع ہی اجماع :۔ بلکہ امام احمد بن حنبل ؒ نے تو اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ یہ آیت نماز کے متعلق نازل ہوئی۔ ملاحظہ ہو المغنی لابن قدمہ /ج ۱ /ص ۱۳۲/ نصب الرایہ /ج۲/ص۴۱/ الفتاوی الکبری لابن تیمیہ /ج ۲/ص۸۸۲/خصوصیت کے ساتھ تفسیر نسفی /ج ۲/ ص۷/پر ملاحظہ فرماویں کہ جمہور الصحابة ؓ علی انہ فی استماع الموتم ۔ جمہور صحابہ کرام کا مسلک یہ ہے کہ ا س آیت کا تعلق مقتدی سے ہے ۔

نیز تفسیر قرطبی ج۷/ص۴۵۳پر ہے اجمع اہل التفسیر ان ہذا الا ستماع فی الصلوٰة المکتوبة و غیرہ مفسرین کا اجماع ہے کہ یہ حکم فرضی اور غیر فرضی نمازوں کو شامل ہے : ۔


ان تمام معتبر اور واضح دلائل کے باوجود بھی اگر کوئی شخص قرآنی آیت کے مطلب و تفسیرکا منکر ہو تو اس کی اپنی قسمت ۔


اشکال : بعض احباب یہ کہہ کر مغالطہ دیتے ہیں کہ یہ آیت توخطبہ جمعہ کے متعلق نازل ہوئی تھی نماز سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔


جواب نمبر۱:۔ اصحاب رسول ؓ تابعین عظام جلیل القدر مفسرین اور بقول امام احمد بن حنبل ؒ اجماع امت اور بقول علامہ قرطبی اجماع مفسرین اور بقول علامہ نسفی جمہور صحابہ ؓ اس آیت کو نماز میں تلاوت کے متعلق بتاتے ہیں تو خطبہ سے متعلق کرنے والے خود ہی انصاف کرلیں کہ وزنی بات کس کی ہے۔


جواب نمبر ۲:۔ درج ذیل کتب میں آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں کہ آیت مبارکہ مکی ہے اور جمعہ کا حکم مدینہ طیبہ میں نازل ہوا (لہذا اس آیت میں بحالت نماز مقتدی کو خاموش رہنے کا حکم دیا گیا ہے ) تفسیر معالم التنزیل /ج ۲/ص ۶۲۲/تفسیر مظہری /ص ۷۰۵/سورة الاعراف /تفسیر خازن /ص ۲۷۲/سورة الاعراف/تفسیر قرطبی /ج ۷/ص ۳۵۳/


جواب نمبر ۳ :۔ احکام القرآن /ج ۳/ص۵۶/پر امام ابی بکر احمد الرازی الجصاص متوفی ۰۷۳ھ نے سید نا علی المرتضی ،سیدنا عبداللہ بن مسعود ،حضرت سعد ،حضرت جابر ،حضرت سیدنا عبداللہ ابن عباس ،حضرت ابو الدردا ء،حضرت ابو سعید ،حضرت ابن عمر ،حضرت زید بن ثابت ،حضرت انس رضوان اللہ علیہم اجمعین سے امام کے پیچھے قرات نہ کرنے کی روایات پیش فرمائی ہیں ۔


فرمائیے : اگر قرآن کریم میں امام کے پیچھے تلاوت کرنے کا حکم ہوتا تو یہ جلیل القدر اصحاب رسول ؓ منع کیوں فرماتے ؟


جواب نمبر ۴:۔ اگر بالفرض خطبہ والی بات تسلیم بھی کرلی جائے تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نماز اس کا شان نزول نہیں کیونکہ اسباب نزول میں تعدد جائز ہے

ملاحظہ ہو فتح المجید شرح کتاب التوحید /ص۷۵۱/لشیخ عبد الرحمن بن حسن بحوالہ احسن الفتاوی /ج ۳/ص ۴۳۱/

مثلاً آیت شریفہ لاتجہر بصلاتک ولا تخافت بھا وابتغ بین ذالک سبیلا کا شان نزول صحیح بخاری /ج۲/ص۶۸۶/صحیح مسلم /ج۱/ص۳۸۱/سنن نسائی / ج۱ /ص۶۱۱/ میں نماز بتایا گیا ہے اور اسی مقام پر اس کا شان نزول دعا بھی بیان کیا گیا ہے ۔

بے بسی کی بات : ۔بعض احباب بے بس ہوکر کہہ دیتے ہیں یہ آیت کفار کے متعلق ہے ۔


جواب :۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ کفار تو قرآن کریم کے ادب میں خاموش رہیں مگر مسلمان اس ادب سے محروم رہیں لا حول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم ۔


دلیل نمبر ۲:۔ ولا تجہر بصلاتک ولا تخافت بہا وابتغ بین ذالک سبیلا

اور اپنی نماز میں نہ تو بہت پکار کر پڑھیے اور نہ بالکل ہی چپکے چپکے پڑھیے اور دونوں کے درمیان ایک طریقہ اختیار کرلیجیے ۔

اس آیت کی تفسیر ملاحظہ فرماویں مشہور غیر مقلد عالم جونا گڑھی کی زبانی

اس کے شان نزول میں حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ مکے میں رسول اللہ ﷺ چھپ کر رہتے تھے جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو آواز قدرے بلند فرمالیتے مشرکین قرآن سن کر قرآن کو اور اللہ کو سب و شتم کرتے اللہ تعالی نے فرمایا اپنی آواز کو اتنا اونچا نہ کر کہ مشرکین سن کر قرآن کو بر ابھلا کہیں اور نہ آو از اتنی پست کر وکہ صحابہ بھی نہ سن سکیں (تفسیر قرآن مطبوعہ سعودی عرب سورة بنی اسرائیل )

یہی تفصیل ملاحظہ ہو بخاری شریف /ج ۲/ص ۶۸۶ بلکہ مسلم شریف ج ۱ /ص ۳۸۱ پر تو بات بالکل واضح ہے

عن ابن عباس ؓ فی قولہ تعالی ولا تجہر بصلاتک ولاتخافت بھا قال نزلت و رسول اللہ ﷺ متوار بمکة فکان اذا صلی باصحابہ رفع صوتہ بالقرآن فاذا سمع ذالک المشرکون سبوا القرآن ومن انزلہ ومن جاء بہ فقال اللہ لنبیہ ﷺ ولاتجہر بصلاتک فیسمع المشرکون قرا ¿تک ولا تخافت بہا من اصحابک اسمعہم القرآن

ترجمہ :


۔حضرت ابن عباسؓ اس آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں حضور اکرم ﷺ مکہ میں پوشیدہ رہتے تھے جب اپنے اصحاب کو نماز پڑھاتے تو تلاوت قرآن کرتے وقت آواز بلند فرمالیتے جب مشرکین سنتے تو قرآن کریم اور حضور اکرم ﷺ کوگالیاں بکتے پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ سے فرمایا آپ تلاوت اتنی اونچی نہ کریں کہ مشرکین سنیں اور نہ اتنی پست پڑھیں کہ صحابہ بھی نہ سن پائیں۔اس انداز سے پڑھیں کہ صحابہ (آپ کی اقتداءمیں نماز پڑھنے والے ) تلاوت سنیں

اس مضمون کو درج ذیل مقامات پر بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے

تفسیر خازن /ص ۴۵۱/تفسیر مظہری /ص۶۰۱ /سورة بنی اسرایئل /تفسیر نسفی /ص۶۵۲/سورة بنی اسرائیل /تفسیر قرطبی /ج ۰۱/ص۳۴۳/تنویر المقیاس من تفسیر ابن عباس /ص ۷۰۳/ تفسیر ابن کثیر /ص۵۰۴/تفسیر معالم التنزیل /ج۳ / ص۲۴۱/تفسیر روح المعانی /ج ۸/ص۳۹۱/ الکشاف /ج۲/ص۵۵۶/احکام القرآن /ج ۳ /ص ۱۱۳ /،چشتی،تفسیر ابن جریر /ج ۵۱/ص۲۱۲/ شیخ زادہ /ص ۰۴۴ مسند احمد /ج ۱ /ص ۳۸۲


طرز استدلال : ۔ اس آیت گرامی میں نماز باجماعت کی صورت میں صرف اور صرف حضور اکرم ﷺ کو بہت اونچا نہ پڑھنے اور قدرے آہستہ پڑھنے کا حکم دیا گیا جو اس بات پر صراحت ہے کہ قرات قرآن صرف حضور اکرم ﷺ (ا مام ) ہی فرماتے تھے صحابہ کرام ؓ ( مقتدی ) نہ فرماتے تھے اور یہی بات تو اہل سنت و جماعت حنفی کہتے ہیں ۔

ہم نے خوف طوالت کے پیش نظر آپ کے سامنے قرآن کریم سے صرف دو آیات کریمہ کی تشریح اصحاب رسول تابعین اور جلیل القدر مفسرین سے پیش کی ہے جو ہمارے مدعٰی پر آفتاب نیم روز کی طرح واضح ہے کہ نماز باجماعت میں قراءة قرآن کریم امام کا وظیفہ ہے اور خاموش ہوکر سننا مقتدی کا کام ہے ۔ ان شاءاللہ ثم ان شاءاللہ فریق مخالف اللہ تعالی کے قرآن سے ایک آیت بھی ایسی پیش نہیں کرسکتا جس میں امام کے پیچھے قراءة کرنے کا حکم ہو ۔


دلیل نمبر ۳ :۔ صحاح ستہ کی مشہور زمانہ کتاب مسلم شریف /ج ۱ /ص ۴۴۱/ میں حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ کی مرفوع حدیث ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں نماز کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا : ۔ فاذا کبر فکبر وا ۔ واذا قراء فانصتو ا ۔تم میں سے ایک تمھارا امام بنے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرآن پڑھے تو تم خاموش رہو ۔

امام مسلم اس حدیث کی صحت پر اصرار کرتے ہوئے مشائخ وقت کا اجماع ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں انما وضعت ھہنا مااجمعو اعلیہ میں نے یہاں (صحیح مسلم میں ) وہی حدیث درج کی ہے جس پر مشائخ کا اجماع ہے

یہ روایت ان کتب میں بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں : بیہقی شریف /ج ۱/ص۵۵۱/جامع المسانید لابن کثیر /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/حاشیہ نصب الرایہ /ج ۲ /ص۵۱/ محدث منذری بحوالہ عون المعبود /ج ۱/ص۸۴۱/ابن کثیر/ج ۲/ص۰۸۲/فتح الباری /ج ۲ /ص۱۰۲/مغنی لعلامہ ابن قد ا مہ / ج۱ /ص ۱۳۲ /فتاوی ابن تیمیہ /ج ۲/ص۰۹۲/عون المعبود /ج ۳/ص۸۴۱/معارف السنن /ج ۳/ص۵۸۳/ مسند احمد /ج۴ / ص ۵۱۴ / بحوالہ جامع المسانید /ج ۴۱/ص۷۷۳۴/ابن جریر/ج۹/ص۶۹۱/ فصل الخطاب /ص۷۲/سنن ابن ماجہ /ص۱۶

یہ صحیح اور صریح روایت ہمارے دعوی پر دلیل وحجت ہے کہ امام کی ذمہ داری قراءة کرنا اور مقتدی کی ذمہ داری خاموش رہنا ہے ۔


دلیل نمبر ۴ :۔ عن ابی ھریرة ؓ ان رسول اللہ ﷺ قال اذا قال الامام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا اٰمین بخاری شریف /ج۲ /ص۲۴۶/

حضرت ابو ھریرہ ؓ سے مروی ہے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا جب امام غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو تم (مقتدی ) اٰمین کہو

یہ حدیث درج ذیل مقامات پر بھی دیکھی جاسکتی ہے

صحیح مسلم /ج ۱/ص ۴۴۱/ نسائی شریف /ج ۱/ص۷۰۱/ابوداو ¿د شریف /ج ۱ /ص ۵۳۱ /ابن ماجہ شریف /ج ۱/ص۱۶ /مو ¿طا امام مالک /ص ۰۷


اس حدیث میں اللہ کے نبی ﷺ نے اس بات کی تصریح فرمادی کہ جب امام غیر المغضو ب علیہم ولاالضالین کہے (یعنی سورة فاتحہ پڑھے ) تو تم آمین کہو یعنی فاتحہ پڑھنا امام کا کام ہے اور آمین کہنا مقتدی کا کام ہے ۔


دلیل نمبر ۵:۔ عن ابی بکرة ؓ انہ انتہی الی النبی ﷺ و ہو راکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذالک للنبی ﷺ فقال زادک اللہ حرصاً ولا تعد (ملخصًا) صحابی رسول حضرت ابو بکرہ ؓ خود اپنا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ اس حال میں حضرت ﷺ کی خدمت پہنچے کہ حضور اکرم ﷺ رکوع میں تھے تو انہوں نے بھی صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرلیا (اور پھر صف میں مل گئے) پھر یہی واقعہ حضرت ﷺ کو عرض کیا ( کہ آپ رکوع میں تھے میں نے صف تک پہنچنے سے پہلے پہلے رکوع کرلیا تاکہ میری رکعت ضائع نہ ہوجائے ) اس پر اللہ کے نبی ﷺ نے (تحسین کرتے ہوئے )فرمایا اللہ تعالی آپ کے حرص کو زیادہ کریں دوبارہ نہ کرنا ۔بخاری شریف /ج۱/ص ۸۰۱/ابوداؤد شریف /ج ۱/ص۹۹ ،چشتی،/طحاوی شریف /ج ۱/ص ۳۹۱/بیہقی شریف /ج ۲ /ص۹۸/۰۹/

یہ حدیث مبارک ہمارے دعوی پر نصف نہار کی طرح واضح ہے کہ حضرت ابو بکرہ ؓ صحابی رسول ﷺ رکوع میں شامل ہور ہے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی مگر حضور نبی کریم ﷺ انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں فرماتے بلکہ زاد ک اللہ حرصا ( اللہ آپ کے حرص نماز باجماعت ) کو زیادہ فرمائے کہہ کر اس کی دل جوئی فرما رہے ہیں اگر یہ رکعت امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کے سبب نہ ہوتی تو حضور ﷺ نماز دوبارہ پڑھنے کا ارشاد فرماتے ۔


دلیل نمبر ۶ :۔ باب تاویل قولہ عزوجل واذا قرئ القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمون عن ابی ھریرہ ؓ قال قال رسول اللہ ﷺ انما جعل الامام لیو ¿تم بہ فاذ اکبر فکبرو ا واذا قرا ¿ فانصتوا نسائی شریف /ج ۱/ص۶۰۱/۷۰۱

صحاح ستہ کے مشہور امام امام نسائی ؒ اللہ تعالی کے ارشاد گرامی واذا قری ¿ القران فا ستمعو الہ وانصتو ا لعلکم ترحمونکی تاویل وتفسیر بیان کرتے ہوئے مشہور صحابی رسول ﷺ حضرت ابو ھریرہ ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا امام اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس کی اقتداءکی جائے پس جس وقت ( امام ) اللہ اکبرکہے تم بھی (مقتدی )اللہ اکبرکہواورجب (امام )قراءة کرے پس تم (مقتدی ) خاموش رہو ۔

اسی روایت کی صحت کو امام مسلم ؒ اپنی شہر ہ آفاق کتاب صحیح مسلم /ج ۱/ ص۴۷۱ پر بایں الفاظ بیان فرماتے ہیں فقال ہو صحیح یعنی واذا قراء فانصتو ا

فرمائیے صحاح ستہ میں سے ایک امام ( امام نسائی ) اس حدیث کو قرآن کریم کی تفسیر میں بیان کرتا ہے اور صحاح ستہ کا دوسرا امام ( امام مسلم ) اس حدیث کو صحیح فرما رہا ہے ۔اب بھی امام کے پیچھے قراة نہ کرنے میں شکوک وشبہات رہیں تو پھر اللہ حافظ ۔


دلیل نمبر ۷ :۔ عن ابن عباس ؓ . قال ابن عباس واخذ رسول اللہ ﷺ من القراءة من حیث کان بلغ ابو بکر ؓ

صحابی رسول حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں حضرت ﷺ نے وہیں سے قراءت شروع کی جہاں تک ابو بکر ؓ پہنچ چکے تھے ۔

صحاح ستہ کی شہرہ آفاق کتاب ابن ماجہ شریف /ص ۷۸ /مسند احمد/ ج۱/ص ۹۰۲ /بیہقی /ج۳ /ص۱۸/مسند احمد /ج ۱/ص۵۰۳/طحاوی شریف /ج ۱ ص ۷۹۱ /

فتح الباری شرح بخاری /ج۲/ص۴۴۱پر دنیا تحقیق کے نامور محدث حافظ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں ہذا لفظ ابن ماجہ واسنادہ حسن یعنی سند قوی ہے ۔


پیش کردہ روایت دراصل ایک لمبی حدیث مبارکہ کا حصہ ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کے مرض الموت کا واقعہ ہے کہ آپ نے فرائض امامت سیدنا ابوبکر ؓ کو تفویض فرمادیئے تھے ایک مرتبہ آپ ﷺ نے طبیعت میں قدرے افاقہ محسوس فرمایا تو دو آدمیوں کا سہارا لے کر مسجد نبوی ﷺ میں تشریف لائے جب کہ سیدنا ابو بکر صدیق ؓ نماز باجماعت کی امامت فرمارہے تھے حضرت ﷺ جناب ابو بکر ؓ کے قریب تشریف فرما ہوئے اور نماز پڑھانا شروع فرمائی حضرت ابوبکر ؓ مکبر بن گئے اب حضرت ﷺ نے نئے سرے سے فاتحہ نہیں پڑھی بلکہ وہیں سے قراءة شروع فرمائی جہاں تک ابوبکر ؓ قراءة فرماچکے تھے ۔


یہ اللہ کے نبی ﷺ کی ظاہری زندگی میں آخری با جماعت نماز ہے (فتح الباری /ج۲/ص ۴۴۱)


فرمائیے :۔ جو لوگ امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والوں کو کہتے ہیں تمھاری نماز نہیں ہوتی تو اس واقعہ کی روشنی میں ان کا اللہ کے نبی ﷺ کے متعلق کیا فتوی ہوگا ؟

امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح بخاری میں ابن عمر ؓ کا ارشاد نقل کیا ہے انما یؤخذ بالآخر فالآخر من فعل النبی ﷺ بخاری /ج۱ /ص۶۹ / یعنی حضور اکرم ﷺ کے آخری عمل پر عمل کیا جاتا ہے ۔

ذرا ضد اور تعصب کو دور پھینک کر انصاف فرمائیے کہ اللہ کے نبی ﷺ کا آخری عمل ( امام کے پیچھے از سرنو فاتحہ نہ پڑھنا ) احناف کے مسلک کی تائید ہے یا نہ ؟

آنکھ والا تیری قدرت کا کرشمہ دیکھے

دیدہ کو ر کو کیا نظر آئے کیا دیکھے


فائدہ :۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے قول کے مطابق دین حضور اکرم ﷺ کے آخری عمل وحکم کانام ہے مثلاً

پہلے شراب پی جاتی تھی مگر آخری حکم شراب کی حرمت ہے

پہلے موحد و مشرک کا نکاح جائز تھا مگر آخری عمل حرمت نکاح ہے

پہلے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جاتی تھی آخری عمل بیت اللہ شریف کی طرف رخ کرنا ہے ۔

پہلے نماز میں کلام کرنے کی اجازت تھی آخری عمل منع ہے

جب ہم سب لوگ شراب کی حرمت ،مشرک سے نکاح کی حرمت ، بیت المقدس کی طر ف منہ نہ کرنے نما ز میں کلام نہ کرنے پر اس لیے عمل کرتے ہیں کہ یہی اللہ کے نبی ﷺ کا آخری حکم وعمل ہے تو آخر کیا وجہ ہے اس ضابطہ کو پس پشت ڈال کر امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کو فرض تک کہا جاتا ہے اور نہ پڑھنے والے کی نماز باطل قرار دی جاتی ہے جبکہ اللہ کے نبی ﷺ نے آخری نماز وہیں سے شروع فرمائی جہاں تک ابوبکرؓ قراءة کر چکے تھے ازسر نو فاتحہ نہیں پڑھی ۔


دلیل نمبر ۸:۔ اقوال صحابہؓ


حضرت زید بن ثابت ؓ :۔عن عطاءانہ سا ¿ل زید ابن ثابت عن القرا ¿ة مع الامام فقال لا قرا ¿ة مع الامام فی شیءمن الصلاة ۔

جب حضرت عطائؓ نے سیدنا زید بن ثابت (صحابی ؓ) سے امام کے پیچھے قرا ¿ة کا سوال کیا تو آپ نے فرمایا امام کے ساتھ کسی نماز میں کوئی قرا ¿ة نہیں کی جاسکتی مسلم شریف /ج ۱/ص ۵۱۲/نسائی شریف /ج۱/ص۱۱۱/ طحاوی شریف /ج ۱/ص ۸۰۱ /مو ¿طا امام محمد /ص۰۰۱

دلیل نمبر ۹ :۔

حضرت ابن عمرؓ :۔ عن ابن عمر ؓ قال اذا صلی احدکم خلف الامام فحسبہ قراءة الامام واذا صلی وحدہ فلیقراء وکان عبداللہ لا یقراء خلف الامام

حضرت ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے تو اس کو امام کی قراءة ہی کافی ہے اور جب اکیلا پڑھے تو اسے قراءة کرنی چائیے اور عبداللہ بن عمر ؓ امام کے پیچھے نہیں پڑھا کرتے تھے مؤطاامام مالک /ص۸۶/طحاوی شریف /ج۱/ص۸۰۱/مؤطاامام محمد /ص ۴۹/

دلیل نمبر ۰۱:۔

حضرت جابر ؓ :۔ من صلی رکعة لم یقراء فیھا بام القران فلم یصل الا وراءالامام

جس شخص نے ایک رکعت بغیر فاتحہ کے پڑھی تو اس نے نماز نہیں پڑھی مگر امام کے پیچھے ترمذی شریف /ج۱ /ص ۵۶/۶۶/مؤطا امام مالک /ص۶۶ یعنی امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی ضرورت نہیں

لمحہ فکریہ

میرے نہایت ہی واجب الاحترام بزرگو اور بھائیو آپ کے سامنے قرآن کریم کی دو آیات طیبات نقل کی گئیں جن کی تفسیر اصحاب رسول ﷺ تابعین اور جلیل القدر مفسرین سے بیان کی گئی کہ امام کے پیچھے قراءت نہیں کرنی چاہیے

پھر اللہ کے نبی ﷺ کی پانچ عدد احادیث مبارکہ صحاح ستہ میں سے اور زیادہ تر بخاری شریف اور مسلم شریف سے تحریرکی گئیں جن میں امام کے پیچھے قراءة نہ کرنے کی صراحت موجود ہے

ان کے بعد اتمام حجت کے لئے مسلم شریف ترمذی شریف اور مؤطا امام مالک سے تین عدد اصحاب رسول ﷺ کے اقوال پیش کئے گئے جو اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہیں کہ امام کے پیچھے قراءة نہیں کرنی چاہیے

اب بھی کوئی یہ کہتا پھرے کہ احناف کی نماز اللہ کے نبی ﷺ کی احادیث کے خلاف ہے یا ان کی نما زنہیں ہوتی کیونکہ امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھتے اسے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا پڑے گا ۔

(۱)


جو صحابہ کرام ؓ امام کے پیچھے فاتحہ کے قائل نہ تھے ان کی ساری زندگی کی نمازیں باطل ہونگی ؟

(۲)


خود اللہ کے نبی ﷺ کی آخری باجماعت نماز کا کیا بنے گا جسے پہلے سیدنا ابوبکر ؓ پڑھارہے تھے کیونکہ حضرت ﷺنے نئے سرے سے فاتحہ نہیں پڑھی ؟

(۳)


ان مفسرین کے متعلق کیا فتوی ہوگا جو قرآن کریم کی تفسیر کرتے ہوئے امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کے قائل نہیں ؟

کسی نے میرے چند تنکوں کو جلانے کے لئے

آگ کی زد میں گلستان کا گلستاں رکھ دیا

خدا را سوچئے :۔کہیں احناف کی مخالفت کرتے ہوئے تمھارے فتوے (امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نما زنہیں ہوتی ) کی زد میں اصحاب رسول ﷺ خود اللہ کے رسول ﷺ اور چودہ سوسال کی امت کے مشائخ و بزرگ تو نہیں آرہے ۔

سنبھل کر قدم رکھنا مےکدہ میں مولوی صاحب

یہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں

فریق مخالف کے چند ضروری دلائل اور ان کا حل

دلیل نمبر ۱:۔


لا صلوٰة لمن لم یقراء بفاتحة الکتاب

اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جس شخص نے فاتحہ نہیں پڑھی

جواب نمبر ۱:۔


مشہور صحابی رسول ﷺحضرت جابر ؓمتوفی ۴۷ھ اس حدیث :۔من صلی رکعةلم یقراء فیہابام القران فلم یصل کے متعلق فرماتے ہیں الاان یکون وراءالامام ترمذی ج۱/ص۵۶/۶۶

جس شخص نے اےک رکعت بغیر فاتحہ کے پڑھی اس نے نماز نہیں پڑھی مگر امام کے پیچھے

اس سے معلوم ہوایہ حدیث مقتدی کے بارہ میں نہیں بلکہ اکیلے کے متعلق ہے ۔


جواب نمبر ۲:۔ قال سفیان لمن یصلی وحدہ ابو داؤد /ج۱/ص۶۶۱

مشہو ر تابعی اما م بخاریؒ کے بڑے استاذحضرت سفیان ؒ متوفی ۸۹۱ھ فرماتے ہیں یہ حدیث اکےلے نماز پڑھنے والے کے لےے ہے ۔

جواب نمبر ۳:۔


آئیے اس حدیث کامطلب امام وقت سیدناامام احمد بن حنبل ؒمتوفی ۱۴۲ھ سے پوچھتے ہیں ۔آپ نے فرمایامعنی قول النبی ﷺلاصلٰوة لمن لم یقراء بفاتحة الکتاب اذاکان وحدہ

ترمذ ی شریف /ج۱ /ص۵۶/۶۶

یعنی یہ حدیث اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے ہے ۔


قارئین ذی وقار:آج سے تیرہ سوسال پہلے سلف صالحین نے اس روایت کاصحیح محل بیان فرمادیا ہے ۔جو کہ خیر القرون کازمانہ تھا مگر نامعلوم آج تک بعض احباب سلفی کہلانے کے باوجود سلف کی بات پر یقین کیوں نہیں رکھتے؟

دلیل نمبر ۲:۔ حضرت عبادہ بن صامت ؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول خد اﷺ کے پیچھے نماز فجر میں تھے حضور ﷺ نے قراءت کی پس بھاری ہوئی حضر ت ﷺ پر قراءة جب نماز سے فارغ ہوئے فرمایاشاید تم امام کے پیچھے قراءت کرتے ہو ہم نے عرض کی جی ہاں اے اللہ کے نبی ﷺ آپ ﷺ نے فرمایانہ کیاکرو سوائے فاتحہ کے یقینانہیں نماز اس شخص کی جو فاتحہ نہ پڑھے ۔

طرزاستدلال : حضرت عبادہ ؓ کی روایت سے یہ بات واضح ہو گئی کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی چاہیے ۔

جواب نمبر۱:۔ یہ روایت ابو داؤد شریف میں ج۱/ص۹۱۱پرہے

خداجانے دن رات ہمیں امام ابو حنیفہ ؒکامقلد ہو نے پر کو سنے والے اور بخاری بخاری کی رٹ لگانے والے امام بخاری کے گن گانے والے اوربغیر بخاری کے کسی کی نہ سننے والے اےک ہی سانس میںنو دس مرتبہ صحیح بخاری شریف کاذکر خیر کرنے والوں کو کیوں سانپ سونگھ جاتاہے کہ بخاری شریف سے صحیح صریح غیر معارض روایت کیوں نہیں پیش کرتے جس میں اللہ کے نبیﷺ کاصراحة واضح ارشادہو کہ نماز باجماعت میں امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز باطل ہے ۔


جواب نمبر۲:اس روایت میں اےک راوی محمد بن اسحاق ہے جسکے متعلق یحیٰی بن القطان کہتے ہیں کذاب ہے ،ابن عدی فرماتے ہیں مرغ باز تھا،علی کہتے ہیں منکر تقدیر تھا ، سلےمان التیمی فرماتے ہیں کذاب ہے ،ابو داؤد کہتے ہیں معتزلی تھا ،امام نسائی فرماتے ہیں لیس بالقوی ، دارقطنی فرماتے ہیں کذاب ہے ۔میزان الاعتدال ج۶/ص ۷۵/۸۵

یحیٰی بن معین فرماتے ہیں ضعیف لےس بالقوی ۔

تہذیب التہذیب ج۹/ص۷۳

محمد بن اسحاق رمی بالتشیع والقد ر

یہ بزرگ شیعہ اور منکر تقدیر ہونے میں شہرت رکھتے تھے ۔تقریب التہذیب ص۴۳۴

امام مالک بن انس فرماتے ہیں کذاب ،دجال من الدجاجلة ،فرہانی فرماتے ہیں زندیق ہے ۔الکامل ج۷/ص۵۵۲

سنائیے : اطیعو اللہ واطیعو الرسول کی دعوت دینے والے دجا ل کذاب اور شیعہ کے دروازہ پر کیسے پہنچ گئے ؟


جواب نمبر ۳:حضرت عبادہ بن الصامت ؓ کی روایت بخاری شریف ج۱/ص ۴۰۱پر بھی موجود ہے مگر اسمیں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے نہ پڑھنے کاذکر نہیں یہ ذکر ابو داؤد اوردیگر میں ہے ۔ کبھی اس بات پر بھی توجہ فرمائی دونوں روایات حضرت عبادہ بن الصامت ؓ سے ہیں مگر اما م بخاری اپنی صحیح میں جماعت والی روایت نہیں لےتے اس کی وجہ کیاہے ؟

اس سلسلہ میں گذارش یہ ہے کہ جماعت کے تذ کرہ والی روایت امام بخاری کی شرط پر نہیں ،وہ اسے اس قابل ہی نہیں سمجھتے کہ بخاری شریف میں ذکرکریں ۔اس لیے کہ مشہور غیر مقلد عالم اپنی تصنیف تیسیرا لباری ص ۲۶ پر قرآن مجید و بخاری شریف کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں طالب حق کو یہی دو کتابیں کافی ہیں تمام جہان کی کتابوں کو ان دو کتابوں پر پیش کرنا چاہیئے جو ان کے موافق ہوں وہ صحیح جو مخالف ہوں وہ ان کے مصنفین کو مبارک ۔غیر مقلدوں کو اپنے اس شیخ کا کچھ تو پاس کرنا چاہیئے

دلےل نمبر ۳:۔مسلم شریف میں ہے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے پوچھاگیا ہم امام کے پےچھے ہوتے ہیں توآ پ نے فرمایااقراء بہافی نفسک (ایسی حالت میں)اپنے دل میں پڑھ لیا کرو

طرز استدلال :۔ معلوم ہواامام کے پیچھے فاتحہ پڑھناضروری ہے ۔

جواب :۔ ہمیں سمجھ نہیں آتی مسئلہ تراویح وطلاق ثلاثہ ہویاجمعہ کی پہلی اذان وہاں تو اقوال صحابہ کو حجت نہیں مانا جاتا،بدعت کہاجاتاہے ۔مگر آج حضرت ابو ہریرہ ؓ کی بات حجت بن رہی ہے ۔

میں آپ سے آپ کی زبان میں پوچھتاہوں کےاابو ہریرہ ؓ نبی ہیں ان کی بات وحی ہے ؟

یاد رکھیے : یہ جملہ (دل میں پڑھ لیا کرو ) اللہ کے نبی ﷺ کا قول نہیں صحابی کاقول ہے ۔اور تمھارے مشہور علامہ نے عرف الجادی ص۸۳ پر فرمایا ہے وقول صحابی حجت نہ باشد صحابی کی بات حجت و دلیل نہیں ۔

فائدہ :۔بعض حضرات فی نفسک کا معنی آہستہ پڑھنا بتا کر دھوکہ دیتے ہیں یہ تو یہ درست نہیں کیونکہ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح بخاری ج ۲ /ص۴۹۷پر نقل کیا ہے من طلق فی نفسہ فلیس بشییئٍ جس نے دل میں طلاق دی اس کا اعتبار نہیں تو آہستہ والا معنی کرنا درست نہ ہوگا ۔

فاتحہ خلف الامام کے متعلق غیر مقلدین کا نظریہ

امام کے پیچھے فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوتی کیونکہ اس کا پڑھنا فرض و واجب ہے ۔

حوالہ جات :۔

(َ۱)


الحمد شریف پڑھنے کی کس قدر تاکید ہے جب کہ اس کے بغیر نماز مکمل نہیں ہوتی ........ .... کیونکہ اس کا پڑھنا فرض ہے ۔صلوٰة الرسول ص ۵۷۱ مولانا محمد صادق سیالکوٹی

(۲)


زیر اکہ بے فاتحہ نہ نماز صحیح است نہ ادراک رکعت معتدبہ فاتحہ کے بغیر نہ نماز صحیح ہے نہ رکعت کا اعتبار ہے عرف الجادی ص ۶

(۳)


ومن فرائضہا قراءة الفاتحہ لقادر علیہا فی کل رکعة ........ للامام والما موم فرائض نماز میں سے ہے یہ بات کہ ہر رکعت میں امام و مقتدی سورة فاتحہ پڑھے ۔نزل الابرارص۵۷

(۴)


ان قراءة الفاتحة الکتاب واجبة علی من خلف الامام فی جمیع الصلوٰات امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا تمام نمازوں میں واجب ہے ۔

تحفة الاحوذی ج۲/ص۰۴۲

(۵)


قلت القراءة خلف الامام فیما اسر وفیما جہر ھذا ہو الحق امام کے پیچھے سری وجہری نماز میں قراءت کرنا حق ہے۔ عون المعبود ج ۳ /ص۰۳

تو ان حوالہ جات کی روشنی میں فرمائیے

(۱)


کیا قرآن مجید سے ایک ایسی آیت پیش کی جاسکتی ہے جس کے متعلق اصحاب صحاح ستہ نے اپنی صحاح میں بطور تفسیرصحیح سندسے اللہ کے نبی ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہو کہ امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے والے کی نماز باطل ہے ؟

(۲)


کیا بخاری ومسلم میں حضرت ﷺکا صحیح صریح غیر معارض ارشاد پیش کیا جاسکتا ہے کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا فرض ہے جو نہیں پڑھتا اس کی نماز باطل ہے ؟

(۳)


حضرت ابوبکرہ ؓ جو کہ رکوع میں آکر ملے اور قیام میں فاتحہ نہ پڑھ سکے کیا بتانا پسند فرمائیں گے کہ اگر ان کی نماز نہ ہوئی تو حضور ﷺ نے زاد ک اللہ حرصا فرما کر دعا کیوں دی اور نما ز دوبارہ پڑھنے کا کیوں نہ فرمایا ؟

(۴)


حضرت ﷺ کی وہ نماز باجماعت جس میں حضور ﷺ نے نئے سرے سے فاتحہ نہ پڑھی بلکہ وہیں سے قراءة شروع فرمائی جہاں تک حضرت ابو بکرؓ قراءة کر چکے تھے ....وہ ہوگئی تو کیوں؟

نیز سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مقتدی بن کر فاتحہ پڑھی یا نہ اگر فاتحہ پڑھی تو صحیح سند سے ثبوت چاہیے اگر نہیں پڑھی تو ان کی نماز کا کیا بنا ؟ ۔ (مزید حصّہ ہفتم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...