Friday 10 December 2021

طریقہ تعلیم و امن پسندیِ مصطفیٰ ﷺ

0 comments

 طریقہ تعلیم و امن پسندیِ مصطفیٰ ﷺ

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : امن پسندی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا نمایاں ترین وصف تھا یہی وجہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم طاقت وقوت کے باوجود اپنے سخت سے سخت دشمنوں کو معاف کر دیا کرتے تھے اور حق پر ہونے کے باوجود لڑائی جھگڑے اور ماحول کو کشیدہ بنانے سے کو سوں دور رہا کرتے تھے ۔ اور اپنی امت کو بھی یہی تعلیم دیا کرتے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو قیام امن کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فر مایاکہ : تم میں سے جو کوئی ناحق جھگڑا کرنا چھوڑ دے کیو نکہ وہ باطل ہے (یعنی چھوڑنے کی چیز ہی ہے) تو اس کے لئے جنت کے کنارے میں ایک محل بنایا جائے گا اور جو حق پر ہونے کے باوجود لڑائی جھگڑا کرنا چھوڑ دے تو اس کے لئے جنت کے بیچ میں محل بنایا جائے گا اور جو اپنا اخلاق اچھا بنا لے(یعنی ہر ایک کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے)تو اس کےلیے جنت کے اعلیٰ درجے میں محل بنایا جائے گا ۔ (سنن ابودائود، حدیث:۴۸۰۰)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امن پسندی کی ہمہ گیری کا اندازہ لگانے کے لئے آپ کے اس دین کے احکام کا تجزیہ کرنا ضروری ہے جس نے پورے عرب ہی کو نہیں بلکہ ان تمام ممالک کوجہاں پر آپ کے جانثاروں نے خلق خدا کی خدمت کرنے کا شرف حاصل کیا۔امن و سکون کا ایسا گہوارہ بنایا جس کی نظیر وہاں نہ پہلے دیکھی گئی اور نہ ان کے بعد ۔جس سے وہاں کے کافر و مشرک اور یہودی اور عیسائی باشندے اتنا متاثر ہوئے کہ انہوں نے اپنے اوپراپنے ہم مذہب بھائیوں کے بجائے ان کی حکومت کے زیر سایہ رہنے میں اپنی عافیت سمجھی اور جب کسی وجہ سے منبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دیوانوں کو وہاں سے جانے کی نوبت آئی تووہ لوگ ان کی حکومت کی بقا کے لئے اپنے اپنے انداز میں رو رو کر دعائیں کر نے پر مجبور ہوگئے ۔

چنانچہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ملک شام کے گورنر تھے ۔جب آپ کو معلوم ہوا کہ عیسائی بادشاہ ہرقل ملکِ شام کو مسلمانوں سے چھیننے کے لئے ایک بہت بڑا لشکر تیار کر رہا ہے اس وقت آپ کے پاس صرف ایک چھوٹی سی جماعت تھی جو دمشق شہر کی حفا ظت نہیں کر سکتی تھی تو آپ نے دمشق کے باشندوں کو جمع کر کے ان سے کہا:ہم نے آپ لوگوں سے شہر کی حفاظت کرنے کے بدلے جزیہ(یعنی ٹیکس) لیا تھا ،لیکن اب ہم ہرقل کے مقابلے میں تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے ۔اس لیے ہم جزیے کا مال تمہیں واپس کر رہے ہیں ۔کیو نکہ ہم بلا وجہ یہ مال اپنے پاس نہیں رکھ سکتے ۔ چنانچہ جزیے کی مد میں لئے گئے اموال ان کے مالکوں کو واپس کر دئے گئے۔یہ نا قابل یقین منظر دیکھ کر عیسائیوں کے رہبان اور یہودیوں کے پادری اپنی عبادت گا ہوں کی طرف دوڑ پڑے اور اپنے انداز میں اللہ تعالیٰ سے مسلمانوں کی مدد اور بقا کی گڑگڑا کر دعائیں مانگیں اور مسلمانوں کو الوداع کرتے ہوئے انہوں نے کہا:انشاء اللہ !تم لوگ جلد واپس آئوگے اور ہمیں ہرقل کے ظلم وستم سے نجات دلائوگے ۔ (عمر بن الخطاب:جوانبہ المختلفہ وادارتہ للدولۃ،جلد۱؍ص:۲۱۳۔۲۱۴،بحوالہ:نور سرمدی فخر انسانیت حضرت محمد مصطفی ﷺ، جلد ۱؍ص:۱۷۷۔۱۷۸،چشتی)


 اسی طرح جب بیت المقدس پر عیسائیوں نے۴۹۲ھ؁ میں قبضہ کیا تو وہاں کے مسلمانوں کا اتنا قتل عام کیا کہ ان کے گھوڑوں کے پائوں مسلمانوں کے خون میں ڈوب گئے مگر ٹھیک۹۱؍سال کے بعد ۵۸۳ھ؁ میں جب مسلمانوں کے سالار صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے بیت المقدس پر فتح ونصرت کا پر چم لہرایا تو نہ صرف یہ کہ انہیں اپنے مال ودولت کے ساتھ مکمل حفاظت کے ساتھ جانے دیا بلکہ قانونی اعتبار سے جو فدیے کی رقم ان پر لاگو کی گئی تھی۔ جب ان کا مالدار طبقہ اپنے فدیہ کی رقم ادا کر کے چلا گیا اور اپنے غریب بھائیوں کو بے یار ومددگار اوربے سہارا چھوڑ دیا تو صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں بد بختوں اور درندہ صفت وحشی قسم کے لوگوں کو جنہوں نے مسلمانوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی تھی ۔اپنے جیب خاص سے ان پر لاگو فدیے کو ادا کر کے انہیں با عزت طریقے سے رہا کیا ۔

اس کے علاوہ ہزاروں مثالیں موجود ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فیض یافتہ صحابہ اور بعد کے لوگوں نے امن و امان کا ایسا بے مثال مظا ہرہ کیا کہ جس سے دشمنان اسلام بھی متا ثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے ۔اور جی کھول کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت میں بسے ہوئے لوگوں کی بارگاہ میں ھدیہ تشکر کے گلدستے پیش کرنے سے اپنے آپ کو روک نہ سکے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نہ یہ کہ صرف امن وامان کو پسند فر ماتے تھے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعے ان تمام سر چشموں کو جہاں سے بد امنی کے جراثیم پنپتے ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر دیا۔

آج امن کے جھوٹے دعویدار ایک طرف تو لوگوں کے حقوق کا گلا انتہائی بے رحمی اور سفا کی سے گھونٹتے ہیں اور عوام جب اپنے جائز مطالبات کے حصول کے لئے سڑکوں پر سراپا احتجاج بن کر کھڑے نظر آتے ہیں تو ان سے امن قائم رکھنے کی درخواست کی جاتی ہے ۔


کوئی ہمیں بتا ئے کہ : کیا اس طر ح سے قیامت تک کوئی امن و امان قائم کر سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں ۔ اسی لئے رحمت عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امن وامان قائم رکھنے کے لئے ہر شخص کو اپنے اوپر عائد حقوق کو ادا کرنے کی تر غیب دیا اور حقوق کے ادا نہ کرنے کے انجام سے ڈرایا اورخود بھی سب کے حقوق ادا فر مائے۔ کیو نکہ ایک گھر کے اندرونی امن کا مسئلہ ہو یا ملکی اور عالمی امن کا مسئلہ ہر سطح پربد امنی اور انتشار اسی وقت اپنے مہلک پر نکا لتے ہیں جب کہ لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کیا جاتا ہے ۔


مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا طریقہ تعلیم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

ایک معلم کا یہ فر ض ہوتا ہے کہ وہ اپنے چشمہ علم سے ہر تشنہ لب کو اس کے ظرف اور استعداد کے مطابق ایسے عمدہ اسلوب اور دلکش انداز میں سیراب کرے جومتعلم کے لئے دلچسپی کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ اوقع فی النفس بھی ہو۔اس بابت اس ذات گرامی وقار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا اسوہ حسنہ جسے اللہ نے پوری دنیا کے لئے معلم بنا کر مبعوث فر مایا ہمارے لئے بہترین نمونہ عمل ہے۔اس لئے ذیل میں آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے طر یقہ تعلیم کے کچھ نکات باذوق افراد کی نذر ہیں ۔ گر قبول افتد زہے عز وشرف ۔

مضامین کا انتخاب و ترتیب: ایک معلم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے مناسب حال پہلے مضامین کا انتخاب کرے پھر اسے عمدہ ترتیب کے ساتھ تدریجا مدارج کمال تک پہونچائے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے والاہر قا ری بخوبی جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنے ابتدائی دور میں زیادہ تر عقائد کے موضوع پر توجہ دلائی اور جب صحابہ کرام عقائد میں پختہ ہوگئے تو انہیں عبادات و معاملات اور حسن اخلاق وغیرہ کی تعلیم حسب حال عطا فر مائی ۔یہاں تک کہ خود نہ تھے جو راہ پہ اوروں کے ہادی بن گئے۔اللہ اللہ کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا۔

آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے اس حسن انتخاب اور تر تیب کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ۔عقائد کی پختگی کے بغیر عبادات میں خشوع وخضوع اور دلجمعی ،معاملات میں صفائی اور اخلاق میں پاکیزگی ممکن ہی نہیں۔ اسی وجہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اس طرح اپنے مضامین کو ترتیب دیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے طب ،سائنس، نفسیات ،ارضیات،حیاتیات،نباتیات ،فلکیات اور اس کے علاوہ دیگر علوم وفنون کے حصول سے کبھی منع نہ فر مایا بلکہ ان سب کی ترغیب دلائی ۔مگر ان سب سے پہلے ایک انسان کو انسان ہونا سیکھنے کی طرف توجہ دلائی ۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو معلوم تھا کہ اگر انسانیت سے عاری شخص ایٹم بم ایجاد کرے گا تو وہ ظالموں پر بر سانے کے بجائے مظلوموں کے آشیانے پر گرانے سے دریغ نہ کرے گا۔اس لئے سائنسداں بنا نے سے پہلے انسانیت کے راز سے آشنا انسان بنا نا ضروری سمجھا اور اسی کے مطابق اپنے شاگردوں کو تعلیم دیا۔

قولی اور عملی طریقہ:حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جس طرح اپنی من موہنی باتوں کے ذریعے تعلیم دیا کرتے تھے اسی طرح بسا اوقات عملی طر یقے سے بھی تعلیم دیا کرتے تھے۔چنانچہ روایت ہے کہ ایک صحابی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوکر نماز کے اوقات کے متعلق دریا فت فر مایا:تو آقائے کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے دودن نماز اس طر ح پڑھائی کہ پہلے دن ہر نماز کو اس کے اول وقت میں ادا فر مایااور دوسرے دن اس کے آخر وقت میں ۔پھر آپ نے دریافت کیا کہ:نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھنے والا شخص کہا ں ہے ؟وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا ان دونوں اوقات کے بیچ کا وقت تمہاری نماز کا وقت ہے۔(بخاری،مسلم)


انداز تفہیم 


رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اپنی بات کو سمجھانے کے لئے متعدد طر یقے اپنا تے تھے ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :


صاف لب ولہجے میں بات کہنا اور حسب ضرورت کسی بات کو دہرانا: آقائے کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جب بھی کوئی بات کرتے تو صاف اور واضح انداز میں کہتے اور کسی خاص بات کی اہمیت کے سبب یا محض سمجھانے کی غرض سے مکرر ارشاد فر ماتے۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جب گفتگو فر ماتے تو آہستہ آہستہ ،ہر لفظ الگ الگ کرکے تلفظ فر ماتے بسا اوقات ایک لفظ کو یا جملہ کو تین بار دہراتے تاکہ سننے والے اس کو پوری طرح سن بھی لیں اور اس کا مفہوم بھی سمجھ لیں ۔ (ترمذی،حدیث:۳۶۳۹،۳۶۴۰،چشتی)


حقائق کو مثالوں کے ذریعے ذہن نشین کرانا: معلم کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم جب اپنے صحابہ کو وعظ ونصیحت فر ماتے تو بعض دفعہ مثالیں دیتے تاکہ ان کو حقیقت حال سے پوری آگاہی ہوجائے اور بات خوب ذہن نشیں ہوجائے۔ چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: سردیوں کے موسم میں ایک روز حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم چل رہے تھے اور درختوں کے زرد پتے نیچے گر رہے تھے ۔حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:اے ابو ذر! میں نے عرض کیا:لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم! حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:جب بندئہ مسلم محض اللہ کی رضا کے لئے نماز ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح اس درخت کے پتے جھڑ رہے ہیں ۔(بخاری)


نماز کے ذریعے گناہوں کے ختم ہونے کی ایک دوسری مثال بیان فر ماتے ہوئے آقائے کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ:بھلا بتائو کہ اگر کسی کے دروازے پر نہرہو اور اس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ نہاتا ہو تو کیا اس کے بدن پر کچھ میل باقی رہ جائے گا۔صحابہ کرام نے عرض کیا :اس کے جسم پر کچھ بھی میل باقی نہیں رہ جائے گا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایاکہ:یہی مثال پانچوں نمازوں کی ہے ۔اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔(بخاری،حدیث:۵۲۸)


حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ہادی برحق صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے رزق کے حاصل کرنے کے طریقے کے بارے میں مثال بیان فر مائی ۔فرمایا کہ:رزق ایسے ہے جس طرح ایک باغ ہو جس کے ارد گرد فصیل ہو ۔اس فصیل میں ایک جگہ دروازہ ہے اس دروازے کے سامنے کا علاقہ ہموار ہے اور دیوار کے ارد گرد کا راستہ بڑا پتھریلا اور دشوار گزار ہے ۔پس جو آدمی اس باغ کی طرف اس کے دروازے والے راستے سے آتا ہے تو باغیچہ میں داخل ہوتا ہے پھل کھاتا ہے اور ہر قسم کی رکاوٹوں سے محفوظ رہتا ہے ۔ اور جو اس کی فصیل کی طرف سے داخل ہونا چا ہتا ہے وہاں دشوار گزار راستے ہیں ۔ گرم ریتیلا علاقہ ہے جس میں پائوں دھنس جاتے ہیں وہ جب ان مشکل راستوں کو طے کرکے اس باغ تک پہنچتا ہے تو اسے وہی ملتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے مقدر کر رکھا ہوتا ہے ۔ (طبرانی،چشتی)


حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ:ایک دن حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ایک کلی زمین میں گاڑی پھر اس کے ایک طرف ایک اور کلی گاڑی پھر دوسری طرف بہت دور تیسری کلی گاڑی ۔پوچھا تم سمجھتے ہو کہ یہ کیا ہے؟صحابہ نے عرض کیا:اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے بیچ والی کلی کی طرف اشارہ کر کے فر مایا:یہ انسان ہے اور دائیں ہاتھ والی کلی جو نزدیک تھی ،فر مایا کہ:یہ اس کی موت ہے۔بائیں ہاتھ والی جو دور تھی،یہ اس کی امید ہے ۔پھر انسان اپنی امید کو پوری کرنے کے لئے دوڑ دھوپ کرتا رہتاہے راستہ میں موت کی کلی آجاتی ہے اور اس کے سارے پروگرام دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔(ضیاء النبی،جلد۵؍ص:۴۳۵)


حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم مدینہ شریف کے بالائی علاقوں میں سے کسی علاقے سے آتے ہوئے بازار سے گزرے ۔آپ کے دونوں طرف لوگ تھے ۔آپ ایک چھوٹے کان والے مرے ہوئے بکری کے بچے کے پاس سے گزرے ،آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اس کاکان پکڑ کر فر مایا:تم میں سے کوئی اس کو ایک درہم کے بدلے لینا پسند کرے گا ؟صحابہ نے کہا کہ ہم اس کو کسی چیز کے بدلے لینا پسند نہ کریں گے،ہم اس کا کیا کریں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فرمایا :کیا تم یہ چاہتے ہو کہ تم کو یہ مل جائے ؟ صحابہ نے کہا: بخدا اگر یہ زندہ ہوتا تب بھی اس میں عیب تھا کیونکہ اس کا ایک کان چھوٹا ہے اور اب تو یہ مر دہ ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے فر مایا:جس طرح تمہارے نزدیک یہ ایکدم حقیر ہے ،اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا اس بھی زیادہ حقیر ہے۔(مسلم،کتاب الزھد،چشتی)


ہاتھ کے اشارہ کے ذریعے سمجھانا : آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کبھی کسی بات کو سمجھانے کے لئے اپنے ہاتھ کے ذریعے اشارہ بھی فر مایا کرتے تھے: چنانچہ یتیم بچوں کی پرورش کرنے والے کے درجے کو بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ارشاد فر مایا کہ:میں اور یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں اس طر ح سے داخل ہوں گا۔یہ بیان کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اپنی شہادت اور بیچ والی انگلی کو ملا کر دکھایا۔(ترمذی)


خطوط اور نقشے وغیرہ کے ذریعے سمجھانا : آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نقشے وغیرہ بنا کر بھی اپنی باتیں صحابہ کے ذہن و دماغ میں جاگزیں فر ماتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے ایک مربع خط کھینچا ،پھر اس کے بیچ میں ایک خط کھینچا ،ایک اور خط کھینچا جو اس دائرے سے باہر نکلا ہوا تھا۔پھر اس بیچ والے خط کے دونوں طرف بہت سے چھوٹے چھوٹے خطوط کھینچے(جو دائرے کے اندر ہی تھا)پھر فر مایا: یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت ہے جو اسے گھیرے ہوئی ہے ۔اور وہ خط جو اس سے باہر نکلی ہوئی ہے اس کی امید ہے(کہ انسان مرجاتا ہے اور اس کی امیدیں باقی رہ جاتی ہیں)اور یہ چھوٹے چھوٹے خطوط اس کے مشکلات ہیں۔پس انسان جب ایک مشکل سے نکل جاتا ہے تو دوسری میں پھنس جاتا ہے اور دوسری سے نکلتا ہے تو تیسری میں پھنس جاتاہے۔ (بخاری،حدیث:۶۴۷۱)


اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم بظاہر تعارض کی صورت میں اس کا دفع بھی بیان فر مادیتے تھے تاکہ کسی قسم کا کوئی خلجان ذہن میںنہ رہ جائے ۔ان سارے کاموں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم انتہائی نرمی اور شفقت کا مظاہرہ فر ماتے تھے جس کے سبب ہر ایک پر خوشگوار اثر پڑ تا تھا اور سیکھنے کے بعد اس پر عمل کرنے میں ایک لذت محسوس کرتاتھا۔


ایک کامیاب استاذ کے لئے ان طریقوں کو اپنانے کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ وہ خود مختلف خوبیوں اور پاکیزہ سیرت وکردارکے حامل ہوں تاکہ ان کی شخصیت کا پرتو منعکس ہوکر طالب علموں کی زندگی میں انقلاب برپا کر سکے اور ساتھ ہی وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ نرمی اور محبت کا رویہ اپنائے ،غلط حر کتوں کے صادر ہونے پر مار پیٹ ،گدھا،بیوقوف،گھامڑ،ناہنجار وغیرہ نازیبا کلمات کہنے کے بجائے نرمی اور محبت سے سمجھائے ۔ ان کے لایعنی اعتراضات پر مذاق اڑانا اور گہرے اعتراضات پر جھنجھلاہٹ کی کیفیت کا طاری کر لینا سیرت نبوی کے سراسر خلاف ہے۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم سے ایک شخص نے کہا کہ : مجھے زنا کی اجازت دی جائے ۔ ایسے لغو تر مطالبے پر بھی آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے برا بھلا کہنے کے بجائے ایسے من موہنے انداز سے سمجھایا کہ وہ عفت وپارسائی کے پیکر بن گئے ۔

نیز خود غرضی اور مال و دولت کے حصول کو مقصد اصلی بنانے کے بجائے اس کی خیر خواہی اور اچھے مستقبل کو اپنا مطمح نظر بنائیں۔آج استاذ وشاگرد کے درمیان احترام ومحبت کا جو فقدان نظر آتا ہے اس میں اس کا بہت بڑا رول ہے ۔


اللہ تعالی ہم سب کوسیرت مصطفی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اپنا نےکی تو فیق عطافر مائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔