Sunday 19 December 2021

بے ریش کی طرف دیکھنے کا حکم

0 comments

 بے ریش کی طرف دیکھنے کا حکم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : کسی نوجوان لڑکی یا بے ریش لڑکے کو شہوت کے ساتھ دیکھنا یا اس سے ہاتھ ملانا ناجائز وحرام ہے ، بلکہ اگر شہوت کا گمان یا شک ہو تو بھی دیکھنا جائز نہیں اور احتیاط اس میں ہے کہ ان کی طرف بالکل نہ دیکھا جائے اور ہاتھ ملانا اور چھونا تو بہر حال ناجائز ہے ۔ توجہ فرماٸیں وہ حضرات جو بے ریش خوبصورت بچوں کو نعت کے نام پر تکتے اور نوٹ نچھاور کرتے ہیں یا پھر کسی کا گدی نشین بنا کر بٹھاتے اور چوما چاٹی کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے : قُلۡ لِّلْمُؤْمِنِیۡنَ یَغُضُّوۡا مِنْ اَبْصَارِہِمْ ۔

ترجمہ : مسلما ن مر دوں کو حکم دو اپنی نگا ہیں کچھ نیچی رکھیں ۔ (پ18،النور:30)


حضرت شعبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں عبد القیس کا وفد آیا ، اُن میں ایک بے ریش خوبصورت لڑکا بھی تھا ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اُسے اپنے پیچھے کی جانب بٹھایا ۔قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِيهِمْ غُلامٌ أَمْرَدُ ظَاهِرُ الْوَضَاءَةِ فَأَجْلَسَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَاءَ ظَهْرِه ۔ (ذمّ الہویٰ لابن الجوزی:106)


حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اِس بات سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی کسی بےرِیش لڑکے کو تاک کردیکھے ۔ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُحِدَّ الرَّجُلُ النَّظَرَ إِلَى الْغُلامِ الأَمْرَدِ ۔ (ذمّ الہویٰ لابن الجوزی:106)


بعض تابعین رض اللہ عنہم فرماتے ہیں : میں کسی نوجوان عابد پر نقصان پہنچانے والے درندے سے بھی زیادہ اِس بات کو سمجھتا ہوں کہ کسی أمرَد لڑکے کو اُس کے پاس بٹھادیا جائے ۔ مَا أَنَا بِأَخْوَفَ عَلَى الشَّابِّ النَّاسِكِ مِنْ سَبْعٍ ضَارٍّ مِنَ الْغُلَامِ الْأَمْرَدِ يَقْعُدُ إِلَيْهِ ۔ (شعب الایمان:5013) ۔ (ذمّ الہویٰ لابن الجوزی:107)


مالداروں کے لڑکوں کے ساتھ مت بیٹھا کرو اِس لئے کہ اُن کی صورت عورتوں کی طرح ہوتی ہے اور وہ فتنہ ہونے میں کنواری لڑکیوں سے بھی زیادہ شدید ہوتے ہیں ۔ لَا تُجَالِسُوا أَوْلَادَ الْأَغْنِيَاءِ، فَإِنَّ لَهُمْ صُوَرًا كَصُوَرِ النِّسَاءِ، وَهُمْ أَشَدُّ فِتْنَةً مِنَ الْعَذَارَى ۔ (شعب الایمان:5014،چشتی)


حضرت نجیب بن سری رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں : کوئی شخص کسی گھر میں أمرَد (بے رِیش) کے ساتھ رات بسر نہ کرے۔لَا يَبِيتُ الرَّجُلُ فِي بَيْتٍ مَعَ الْمُرْدِ ۔ (شعب الایمان:5015)


حضرت ابوسہل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : عنقریب اِس اُمّت میں ایسے لوگ ہوں گے جن کو (بدفعلی کی وجہ سے) لُوطی کہا جائے گا ۔ اور وہ تین قسموں کے ہوں گے : ایک قسم وہ ہوگی جو صرف (أمرد کو) دیکھیں گے ، دوسری قسم وہ ہوگی جوہاتھ ملائیں گےاور تیسری قسم وہ ہوگی جو (العیاذ باللہ) اِس کام کو کریں گے ۔سَيَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ قَوْمٌ يُقَالُ لَهُمُ اللُّوطِيُّونَ ، عَلَى ثَلَاثَةِ أَصْنَافٍ:صِنْفٌ يَنْظُرُونَ، وَصِنْفٌ يُصَافِحُونَ، وَصِنْفٌ يَعْمَلُونَ ذَلِكَ الْعَمَلَ ۔ (شعب الایمان:5019،چشتی)


حضرت عبد اللہ بن مُبارک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ایک دفعہ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ حمّام میں داخل ہوئے تو ساتھ میں ایک خوبصورت لڑکا بھی داخل ہوا ، حضرت سفیان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : اسے نکالو،کیونکہ میں ہر عورت کے ساتھ ایک شیطان دیکھتا ہوں اور ہر لڑکے کے ساتھ دس سے بھی زیادہ شیاطین نظر آتے ہیں ۔ دَخَلَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ الْحَمَّامَ فَدَخَلَ عَلَيْهِ غُلَامٌ صَبِيحٌ، فَقَالَ:أَخْرِجُوهُ، فَإِنِّي أَرَى مَعَ كُلِّ امْرَأَةٍ شَيْطَانًا ، وَمَعَ كُلِّ غُلَامٍ بِضْعَةَ عَشَرَ شَيْطَانًا ۔ (شعب الایمان:5021)


حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اَسلاف کا طرزِ عمل یہ تھا کہ وہ بادشاہوں کے بیٹوں کے ساتھ بیٹھنے سے منع فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اُن کے ساتھ بیٹھنا فتنہ ہے اور وہ عورتوں ہی کے درجہ میں ہیں (یعنی عورتوں ہی کی طرح اُن سے بچنا چاہیئے) ۔ كَانُوا يَكْرَهُونَ مُجَالَسَةَ أَبْنَاءِ الْمُلُوكِ وَقَالَ مُجَالَسَتُهُمْ فِتْنَةٌ وَإِنَّمَا هُمْ بِمَنْزِلَةِ النِّسَاءِ ۔ (ذمّ الہویٰ لابن الجوزی:108)


حضرت عبد العزیز بن السائب رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے نقل فرماتے ہیں کہ میں ستر کنواری لڑکیوں (کے فتنے) سے بھی زیادہ کسی عابد کے بارے میں بے رِیش لڑکے (کے فتنہ) کا خوف رکھتا ہوں ۔ لأَنَا أَخْوَفُ عَلَى عَابِدٍ مِنْ غُلامٍ مِنْ سَبْعِينَ عَذْرَاءَ ۔ (ذمّ الہویٰ لابن الجوزی : 108)


حضرت عطاء بن مُسلم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کسی بے رِیش لڑکے کو اپنے پاس بیٹھنے کیلئے نہیں چھوڑا کرتے تھے ۔ كَانَ سُفْيَان الثَّوْريّ لَا يدع أَمْرَد يُجَالِسُهُ ۔ (ذمّ الہویٰ لابن الجوزی:109،چشتی)


حضرت فتح الموصلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں تیس ایسے شیوخ کی صحبت میں رہا ہوں جو اَبدال میں شمار کیے جاتے تھے ، اُن سب ہی نے مجھے رخصت کرتے ہوئے یہ وصیت فرمائی کہ نوخیز (بےرِیش) لڑکوں کے ساتھ رہنے سے پرہیز کرو ۔ صَاحَبْتُ ثَلاثِينَ شَيْخًا كَانُوا يُعَدُّونَ مِنَ الأَبْدَالِ كُلُّهُمْ أَوْصَوْنِي عِنْدَ فِرَاقِي إِيَّاهُمُ اتَّقُوا مُعَاشَرَةَ الأَحْدَاثِ۔(ذمّ الہویٰ لابن الجوزی:112،چشتی)


قال في الدر مع الرد کتاب، کتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس: ۹/۵۳۲، ط: زکریا دیوبند: فحل النظر مقید بعدم الشہوة وإلا فحرام وہذا في زمانہم وأما في زماننا فمنع عن الشابة قہستاني وغیرہ إھ وفي الرد: قولہ: ”وإلا فحرام“ أي: إن کان عن شہوة فحرام إھ وقال في الرد: ۹/۵۲۴-۵۲۵: قال في الہندیة: والغلام إذا بلغ مبلغ الرجال ولم یکن صبیحا فحکمہ حکم الرجال وإن کان صبیحا فحکمہ حکم النساء وہو عورة من قرنہ إلی قدمہ لا یحل النظر إلیہ عن شہوة․․․ إھ وقال القہستاني في ہذا الفصل: وشرط لحل النظر إلیہا وإلیہ الأمن بطریق الیقین من شہوة․․․ ولذا قال السلف: اللوطیون أصناف: صنف ینظرون وصنف یصافحون وصنف یعملون وفیہ إشارة إلی أنہ لو علم منہ الشہوة أو ظن أو شک حرم النظر کما في المحیط وغیرہ إھ ․․․ ولا یخفی أن الأحوط عدم النظر مطلقاً إھ وفي الدر مع الرد: ۹/۵۲۸: ․․․ إلا من أجنبیة فلا یحل مس وجہہا وکفہا وإن أمن الشہوة لأنہ أغلظ ولذا تثبت بہ حرمة المصاہرة وہذا في الشابة․․․ إھ ۔


حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن احمد مؤذن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں طواف ِکعبہ میں مشغول تھا کہ ایک شخص پر نظر پڑی جو غلافِ کعبہ سے لپٹ کرایک ہی دعا کا تکرا رکر رہا تھا: ”یااللہ عَزَّوَجَلَّ !مجھے دنیا سے مسلمان ہی رخصت کرنا”میں نے اس سے پوچھا: تم اس کے علاوہ کوئی اور دعاکیوں نہیں مانگتے؟ اس نے کہا: ”کاش! آپ کو میرے واقعہ کا علم ہوتا۔” میں نے دریافت کیا: ”تمہارا کیا واقعہ ہے؟ تو اس نے بتایا:”میرے دو بھائی تھے، بڑے بھائی نے چالیس سال تک مسجد میں بلامعاوضہ اذان دی، جب اس کی موت کاوقت آیا تو اس نے قرآنِ پاک مانگا۔ ہم نے اسے دیا تاکہ اس سے برکتیں حاصل کرے مگر قرآن شریف ہاتھ میں لے کر کہنے لگا: تم سب گواہ ہوجاؤکہ میں قرآن کے تمام اعتقادات واحکامات سے بے زاری اور نصرانی (عیسائی) مذہب اختیار کرتا ہوں پھر وہ مر گیا۔ اس کے بعد دوسرے بھائی نے تیس برس تک مسجد میں فِیْ سَبِیْلِ اللہ اذان دی مگر اس نے بھی آخری وقت نصرانی ہونے کا اعتراف کیا اور مر گیا۔ لہٰذا میں اپنے خاتمہ کے بارے میں بے حد فکر مند ہوں اور ہر وقت خاتمہ بالخیر کی دعا مانگتا رہتا ہوں توحضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن احمد مؤذن رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے استفسار فرمایا: ”تمہارے دونوں بھائی ایسا کون سا گناہ کرتے تھے؟اس نے بتایا: ”وہ غیر عورتوں میں دلچسپی لیتے تھے اور امردوں(بے ریش لڑکوں) کو (شہوت سے ) دیکھا کرتے تھے ۔


اے اپنی نظر کو شہوتوں میں مستغرق رکھنے وا لے ! اے محرمات کے چاہنے والے ! اے فنا ہونے والی لذتوں سے دھوکا کھانے والے ! تو نے ان قوموں سے نصیحت حاصل کیوں نہ کی جن کو ان کے گھروں سے نکالا گیااور انہوں نے غفلت کی رسی کو پکڑے رکھا ۔ پس ان کا یہ عذر قبو ل نہیں کیا جا ئے گا کہ ہمیں تو کسی نے ڈرایا نہ تھا ۔


حضرتِ سیِّدُنا ابویزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ ”آپ رحمۃ اللہ علیہ جب وضو فرماتے تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے اعضاء پر ایک کپکپی سی طاری ہو جاتی یہاں تک کہ جب نماز کےلیے کھڑے ہوکر تکبیر کہتے تو کپکپی ختم ہوتی ۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ سے اس کے متعلق عرض کی گئی توارشاد فرمایا: ”میں اس با ت سے خوف کھاتا ہوں کہ کہیں مجھے بدبختی نہ گھیرلے اور میں یہود ونصاریٰ کے گرجوں میں نہ جا پڑوں۔ ” نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ مَکْرِاللہِ یعنی ہم اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خفیہ تدبیر سے اس کی پناہ مانگتے ہیں ۔


حضرتِ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق منقول ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ حج کے ارادے سے مکۂ مکرمہ روانہ ہوئے، اور پوری رات کجاوے میں روتے رہے، حضرتِ شیبان راعی رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کی : ”اے سفیان ! آپ کے رونے کی وجہ کیا ہے؟ اگر معصیت کی وجہ سے ہے توآپ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نافرمان نہیں۔” حضرتِ سفیان رحمۃ اللہ علیہ نے یہ سن کر فرمایا: ”اے شیبان! گناہ چھوٹے ہوں یا بڑے، وہ تو کبھی میرے دل میں نہیں کھٹکے، میرا رونا معصیت کے سبب نہیں بلکہ میں تو برے خاتمے کے خوف سے رو رہا ہوں کیونکہ میں نے ایک بہت ہی نیک بزرگ کو دیکھا، جس سے ہم نے علم حاصل کیا، اس نے لوگوں کوچالیس سال تک علم سکھایا، بیتُ اللہ شریف کی کئی سال مجاورت کرتا اوربرکتیں لوٹتا رہا، اس شخص کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی،مگروہ کافرہوکرمرااور اس کا چہرہ قبلہ سے پِھرکر مشرق کی طرف ہوگیا ۔لہٰذا مجھے برے خاتمے کے سوا کسی چیز کا خوف نہیں۔” حضرتِ سیِّدُنا شیبان نے عرض کی: ”اگر ایسا نافرمانی اور گناہوں پر اصرار کی نحوست کی وجہ سے ہے تو آپ ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہ کیجئے گا ۔


حضرتِ حمزہ بن عبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ”میں حضرتِ ابوبکر شا شی علیہ رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے وقت ان کے پاس حاضر ہوا اور پوچھا : ” اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہیں؟” توانہوں نے جواباً ارشاد فرمایا: ”اس کشتی کی طرح جو غرق ہونے سے پہلے چکرا رہی ہوتی ہے۔ میں نہیں جا نتا کہ کیا میری نجات ہو گی؟ کیاملائکہ یہ خوشخبری لے کر آئیں گے: ”اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا ترجمۂ کنزالایمان:کہ نہ ڈرواور نہ غم کر و۔”(پ۲۴،حم السجدۃ:۳0) یا کشتی غرق ہو جائے گی اور فرشتے یہ کہتے ہوئے آئيں گے: ”لَا بُشْرٰی یَوْمَئِذٍ لِّلْمُجْرِمِیۡنَ وَ یَقُوۡلُوۡنَ حِجْرًا مَّحْجُوۡرًا ﴿۲۲﴾ ترجمۂ کنزالایمان :وہ دن مجرموں کی کوئی خوشی کا نہ ہو گا اور کہیں گے الٰہی! ہم میں اُن میں کوئی آڑ کر دے رُکی ہو ئی۔” (پ۱۹،الفرقان:۲۲) یعنی دور ہو جا، توہم سے صلح کے قا بل نہیں ۔


اے نافرمان اپنے دل کی تاریکی پر رو تاکہ وہ روشن ہو جائے کیونکہ جب بادل ٹیلے پر برستے ہیں تووہ چمک جاتا ہے، ہلاکت ہے تیرے لئے! تو کہتا ہے: میں توبہ کرنے والا اور حق کو پورا کرنے والا ہوں۔ کھڑا ہو اور جلدی کر، نیکیوں کو ضائع نہ کر، پھر موقع نہ ملے گا۔ جب بندہ اپنی توبہ میں سچا ہوتا ہے تو اللہ عزَّوَجَلَّ! کِرَاماً کَاتِبِیْن (یعنی بندے کے اعمال لکھنے والے فرشتوں) کوان کے لکھے ہوئے اعمال بھلا دیتا ہے اور زمین کو حکم فرماتا ہے کہ میرے بندے پر وسیع ہوجا ۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا خُذُوۡا حِذْرَکُمْ ۔

ترجمہ : اے ایما ن وا لو! ہو شیا ر ی سے کا م لو۔(پ5،النسآء: 71)

تو تم اس کی با ت نہ سننا اس لیے کہ وہ جھو ٹااور شریر ہے اور اس کی نصیحت قبول نہ کرنا کیونکہ وہ دھوکے باز ہے ۔

اِنَّمَا یَدْعُوۡا حِزْبَہٗ لِیَکُوۡنُوۡا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیۡرِ ۔

ترجمہ : وہ تو اپنے گروہ کواسی لئے بلاتاہے کہ دوزخیوں میں ہوں ۔ (پ22،فاطر:6)

ابن آدم پر تعجب ہے کہ (جب شیطان نے اس کے باپ کو سجدہ کرنے سے انکار کیااس وقت) وہ اپنے باپ کی پشت میں تھا،تو وہ کیسے اس جہنم میں داخل ہوجائے گاجس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اے ابنِ آدم! ہم نے ابلیس کو دھتکارا اس لیے کہ اس نے تیرے باپ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا، تجھ پر تعجب ہے کہ تو نے اس سے صلح کیسے کرلی اور ہمیں چھوڑ دیا ۔


اَمْرَد (بے ریش لڑکے) کا قُرب ، اُس کی دوستی اُس کے ساتھ مذاق مسخری، آپس میں کُشتی ، کھینچا تانی اور لپٹا لِپٹی جہنَّم میں جھونک سکتی ہے۔ اَمرَد سے دُور رہنے ہی میں عافیَّت ہے اگرچِہ اُس بے چار ے کا کوئی قُصُور نہیں، اَمرَد ہونے کے سبب اُس کی دل آزاری بھی مت کیجئے ۔ مگر اُس سے اپنے آپ کو بچانا بے حد ضَروری ہے ۔ ہرگز اَمرَد کو اسکوٹر پر اپنے پیچھے مت بٹھایئے ، خود بھی اُس کے پیچھے مت بیٹھئے کہ آگ آگے ہو یا پیچھے اُس کی تَپَش ہر صورت میں پہنچے گی۔شہوَت نہ ہو جب بھی اَمرَد سے گلے ملنا مَحَلِّ فِتنہ (یعنی فِتنے کی جگہ) ہے، اورشَہوت ہونے کی صورت میں گلے ملنا بلکہ ہاتھ مِلانا بلکہ فُقہائے کرام علیہم الرحمہ فرماتے ہیں : اَمرَد کی طرف شَہوت کے ساتھ دیکھنا بھی حرام ہے ۔ (تفسیراتِ احمدیہ صفحہ ۵۵۹،چشتی)


اُس کے بدن کے ہر حصّے حتّٰی کہ لباس سے بھی نگاہوں کو بچایئے ۔ اِس کے تصوُّر سے اگر شَہوت آتی ہو تواس سے بھی بچئے، اُس کی تحریر یا کسی چیز سے شَہوت بھڑکتی ہو تو اُس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے نظر کی حفاظت کیجئے، حتّٰی کہ اُس کے مکان کو بھی مت دیکھئے۔ اگر اس کے والد یا بڑے بھائی وغیرہ کو دیکھنے سے اس کا تصوُّر قائم ہوتا ہے اور شَہوت چڑھتی ہے تو ان کو بھی مت دیکھئے ۔ اَمرَد کے ذَرِیعے کئے جانے والے شیطانِ عیّار ومکّار کے تباہ کاروار سے خبردار کرتے ہوئے میرے آقا، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں: منقول ہے، عورت کے ساتھ دو شیطان ہوتے ہیں اور اَمْرَد کے ساتھ ستَّر ۔ (فتاویٰ رضویہ ج۲۳ ص۷۲۱)


اجنبيہ عورت (یعنی جس سے شادی جائز ہو) اُس سے اور اَمْرَد سے اپنی آنکھوں اور اپنے وُجود کو دُور رکھنا سخت ضَروری ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔