Wednesday 8 December 2021

بد مذھب امام کے پیچھے نماز پڑھنا

0 comments

 بد مذھب امام کے پیچھے نماز پڑھنا

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : تمام اہلِ اسلام کے نزدیک یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ کسی امام کے پیچھے صحتِ اقتداء کے بغیر نماز درست نہیں ہوسکتی ۔ جس کے لئے مقتدی و امام کے مابین ایک مخصوص رابطہ قائم ہوجانا ضروری ہے ۔ اس مخصوص رابطہ کے بغیر صحتِ اقتداء متصور نہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ یہ رابطہ ظاہری ، مادی اور جسمانی نہیں بلکہ یہ رابطہ صرف باطنی ، روحانی اور اعتقادی ہے جس کا وجود امام اور مقتدی کے درمیان اصولی اعتقاد میں موافقت کے بغیر ناممکن ہے ۔ شرک توحید کے منافی ہے اور کفر و جاہلیت اسلام اور ایمان سے قطعاً متضاد ہے ۔ اگر مقتدی جانتا ہے کہ میرا کوئی عقیدہ امام کے نزدیک شرک جلی یا کفر و جاہلیت ہے تو دونوں کے درمیان اعتقادی موافقت نہ رہی اور اس عدم موافقت کے باعث صحت اقتداء کی بنیاد منہدم ہوگئی ۔ ایسی صورت میں اس امام کے پیچھے اس کی نماز کا صحیح ہونا کیوں کر متصور ہو سکتا ہے ؟ اس دعویٰ کی دلیل یہ ہے کہ مثلاً کسی منکر ختم نبوت کے پیچھے کسی مسلمان کی نماز نہیں ہوتی کیونکہ مقتدی ختم نبوت کا اعتقاد رکھتا ہے اور امام ختم نبوت کا منکر ہے ۔ دونوں کے درمیان اعتقادی موافقت نہ ہونے کی وجہ سے صحتِ اقتداء کی بنیاد باقی نہ رہی ۔ لہٰذا نماز نہ ہوئی توضیح مدعا کے لئے ہدایہ سے ایک جزئیہ کا خلاصہ پیش کرتا ہوں کہ اگر امام کی جہت تحری مقتدی کی جہت تحری سے مختلف ہو اور تاریکی یا کسی اور وجہ سے مقتدی کو اس اختلاف کا علم نہ ہوسکے تو اس کی نماز درست ہے اگر مقتدی امام کی جہتِ تحری کا علم رکھتے ہوئے اس کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہے تو اس کی نماز فاسد ہوگی ۔ صاحبِ ہدایہ نے اس فساد کی دلیل دیتے ہوئے فرمایا لِاَنَّہٗ اِعْتَقَدَ اِمَامَہٗ عَلَی الْخَطَائِ یعنی فسادِ صلوٰۃ کی دلیل یہ ہے کہ مقتدی نے اپنے امام کے خطاء پر ہونے کا اعتقاد کیا ۔ اس سے واضح ہوا کہ نماز درست ہونے کیلئے ضروری ہے کہ مقتدی امام کے خطاء پر ہونے کا معتقد نہ ہو یعنی مطابقتِ اعتقادی ضروری ہے بشرطیکہ مقتدی امام کی خطاء سے باخبر ہو اگر وہ امام کی خطاء سے لا علم ہے تو ایسی صورت میں اس کی نماز ہوجاتی ہے۔

اس مختصر تمہید پر غور کرنے سے یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے کہ مقتدی جب یہ جانتا ہو کہ امام کے اعتقاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے لئے علم غیب ماننا کفر و شرک ہے اور امام کے عقیدے میں انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے استمداد بلکہ توسّل تک شرک ہے اور امام مزاراتِ انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام و مزاراتِ اولیائے عظام علیہم الرحمۃ والرضوان کے لئے سفر کرنے بلکہ مزارات کی تعظیم تکریم کو بھی شرک قرار دیتا ہے اور مقتدی ان تمام امور کو توحید اور اسلام کے عین مطابق سمجھتا ہے تو ایسی صورت میں عدم موافقت کی وجہ سے صحتِ اقتداء کی بنیاد مفقود ہے پھر نماز کیوں کر درست ہوسکتی ہے ۔


مقتدی کی تین قسمیں : رہا یہ امر کہ ایامِ حج وغیرہ میں ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کی نمازوں کا کیا حکم ہوگا تو میں عرض کروں گا کہ ہزاروں لاکھوں مسلمان جن کے اصولی عقائد امام سے مختلف ہیں۔ ان کی تین قسمیں ہیں :


اول وہ جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان اصولی عقائد میں امام کا عقیدہ ہم سے مختلف ہے ۔ ان کا حکم تمہید کے ضمن میں واضح ہوگیا ایسے لوگ اپنے علم کے متقضاء کے مطابق یقینا مجتنب رہیں گے ۔


دوم وہ مسلمان جو یہ جانتے ہیں کہ امام کے بعض عقائد ہمارے عقائد سے مختلف ہیں مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ اختلاف اصولی عقائد میں ہے اور ہمارے عقائد امام کے نزدیک کفر و شرک، معصیت و جاہلیت کا حکم رکھتے ہیں ۔ یہ مسلمان محض حرمِ مکہ و حرم مدینہ اور مسجد حرام و مسجد نبوی کی عظمتوں اور عشق و محبت الہٰی و رسالت پناہی کے جذبات سے متاثر ہو کر اپنی غلط فہمی کی بناء پر اس امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ان کی اس خطا کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت ورأفت کے پیشِ نظر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ رب کریم ان کی نمازوں کو رائیگاں نہیں فرمائے گا ۔


سوم وہ مسلمان جنہیں سرے سے امام کے ساتھ اختلاف عقائد ہی نہیں وہ محض سادہ لوح ہیں۔ عشق و محبت سے سرشار ہوکر حرم مکہ اور حرم مدینہ میں حاضر ہوئے اور انہوں نے بحالتِ لا علمی اس امام کے پیچھے نمازیں پڑھیں ان کے متعلق بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عفو و کرم سے ان کی نمازوں کو ضائع نہ ہونے دے گا ۔


دوم اور سوم قسم کے مسلمانوں کی خطاء قابل عفو ہے ۔ طبرانی میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے صحیح مرفوع حدیث مروی ہے : رُفِعَ عَنْ اُمَّتِیْ الخَطَائُ وَ النِّسْیَانُِ وَمَا اسْتُکْرِ ہُوْا عَلَیْہِ ، اٹھالیا گیا میری امت سے خطاء اور نسیان کو اور اس چیز کو جس پر وہ مجبور کئے گئے یعنی ان تینوں حالتوں میں ان کا مواخذہ نہ ہوگا ۔


مثنوی شریف میں مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور بکریاں چرانے والے ایک گڈریے کا واقعہ بطور تمثیل لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک بکریاں چرانے والا گڈریا اللہ تعالیٰ سے محبت میں کہہ رہا تھا کہ ’’اے اللہ اگر تو میرے پاس آئے تو تجھے نہلاؤں۔ تیرے بالوں میں کنگھی کروں۔ تجھے دودھ پلاؤں، تیرے پاؤں دباؤں۔‘‘

سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اسے سختی سے ڈانٹا اور ایسی باتوں سے منع فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو وحی فرمائی کہ اے موسیٰ! میرا بندہ میری محبت میں مجھ سے مخاطب تھا۔ آپ نے اسے کیوں روکا ؟


مولانا روم علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :


وحی آمد سوئے موسیٰ از خدا

بندۂ مارا چرا کردی جُدا؟

تو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی


میرا مقصد اس واقعہ کی طرف اشارہ کرنے سے صرف یہ ہے کہ سچی محبت اور سچا عشق اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمتوں کا موجب ہوتا ہے اس لئے اگر سچی محبت اور عشق والے مسلمان نے غلط فہمی یا بے خبری میں ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لی تو رحمتِ خداوندی سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ بے نمازی قرار نہیں پائے گا اور اللہ اس کا مواخذہ نہ فرمائے گا۔ مزید وضاحت کے لئے عرض ہے کہ وہ ہزاروں لاکھوں مسلمان جن کا ذِکر سطور بالا میں ہوچکا ہے اور ان کی تین قسمیں بھی بیان کی جاچکی ہیں اور ان تینوں قسموں کا حکم بھی مذکور ہوچکا ہے۔ ان تین نمازیوں کی طرح ہیں جن کے پاس نجاست لگا ہوا کپڑا ہے اور اس پر جو نجاست لگی ہوئی ہے وہ مقدار اتنی زیادہ ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے اس کپڑے سے نماز جائز نہیں ۔ (چشتی)


ایک نمازی وہ ہے جس نے جان لیا کہ کپڑے پر نجاست ہے اور یہ بھی جان لیا کہ اتنی نجاست کے ہوتے ہوئے نماز نہیں ہوسکتی ظاہر ہے کہ وہ اپنے اس علم کی بناء پر ایسے کپڑے کے ساتھ نماز پڑھنے سے اجتناب کرے گا۔ دوسرا نمازی وہ ہے جو اس کپڑے کی نجاست کو جانتا ہے مگر غلط فہمی کی بناء پر یہ نہیں جانتا کہ اس نجاست سے نماز نہیں ہوسکتی اب اگر وہ شخص نماز کی محبت اور کمالِ شوق الی الصلوٰۃ کی بناء پر اس کپڑے کے ساتھ نماز پڑھ لے تو رحمتِ الٰہیہ سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا مواخذہ نہ فرمائے گا اور اس کے شوق و محبت کی بناء پر اس کی نماز کو ضائع نہ ہونے دے گا۔ تیسرا نمازی وہ ہے جو سرے سے کپڑے کی نجاست کا علم ہی نہیں رکھتا اور کمال شوقِ عبادت اور نماز کی محبت میں اس کپڑے کے ساتھ نماز پڑھ لیتا ہے فضل ایزدی اور کرمِ خداوندی سے اس کے بارے میں بھی یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے دامنِ عفوو کرم میں چھپا لے گا اور اس کی نماز مردود نہ ہوگی۔ یہ صحیح ہے کہ جاننے والے ایسے لوگوں کو صحیح بات ضرور بتائیں گے لیکن اس کے باوجود بھی اگر کسی کو صحیح بات نہ پہنچ سکے تو حکم مذکور مجروح نہ ہوگا ۔


تاریخ سے نا بلد انسان اپنے مذھب کی تائید و حمایت میں اکثر یہی دلیل پیش کرتا ہے کہ : کعبہ الله کا گھر ہے وہاں باطل کا قبضہ نہیں ہو سکتا، کعبے کا امام غلط نہیں ہو سکتا، امام کعبہ کا عقیدہ و عمل عین اسلامی تعلیمات پر مبنی ہے ۔ یہ ایک ایسی بات ہے جسے کم پڑھا لکھا انسان اپنے کم علمی کی بنیاد پر اسے سچ مان لیتا ہے ۔ کعبہ کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی دنیا کی تاریخ بلکہ اس سے بھی پرانی ہے ۔


مکہ مکرمہ کا ایک نام ام القری بھی ہے یعنی بستیوں کی ماں سب سے پہلے الله نے مقدس سرزمین مکہ مکرمہ کو پیدا فرمایا اور پھر اسی سے زمین کو پھیلا دیا،یہی وجہ ہے کہ اس کا نام ام القری ہے گویا زمین کی اصل مکہ مکرمہ باقی زمینی حصہ اس کی فرع ہے ۔


اہلِ حق ہوں یا اہلِ باطل ہر فریق نے اسے مقدس جانا اور باعث نجات مانا - صبح قیامت تک لوگ طواف کرتے رہیں گے- البتہ اتنا ضرور ہے طواف کے طریقے مختلف تھے - جو جس مذھب کا پیرو کار تھا اسی کے مطابق طواف کا عمل کیا - کفار مکہ ننگے ہو کر طواف کرتے تھے، اور اس کی توضیح یہ کرتے کہ جن کپڑوں میں ہم گناہ کرتے ہیں ، انہیں پہن کر ہم طواف کیسے کریں ۔ طواف بھی کرتے تھے اور بتوں کی پرستش بھی کرتے تھے ۔ اہلِ باطل کا مکہ پر قابض ہونا اس کی حقانیت کی دلیل ہر گز نہیں بن سکتی ۔ ایمان کا معیار قران و حدیث سے ہے نہ کہ تخت و تاج و امامت و خطابت سے ۔ اگر آپ کے نزدیک مکہ کا حاکم یا امام ہونا مومن مسلم ہونے یا حق پر ہونے کی دلیل ہے بلفظ دیگر صاحب ایمان ہونے کا معیار مکہ کی حکومت و سلطنت و امامت و کلید بردار کعبہ کو تسلیم کرتے ہیں تو تاریخی حقائق سے نا واقفیت کی دلیل ہے ۔ ایسے لوگں کے بقول مکہ مدینہ کا حاکم یا امام ہونا ، مومن و مسلم اور جنتی ہونے کی دلیل ہے تو ابو جہل و ابو لہب و کفار مکہ کو بھی جنتی اور اہل حق ماننا پڑیگا - کیونکہ نبی علیہ السلام کے مکی دور میں کفار مکہ ہی مکہ مکرمہ کے حاکم و کلید بردار کعبہ تھے ، حاکم ہونے کے سبب انہیں بھی آپ جنتی مسلمان کہئیے حالانکہ ان کے جہنمی ہونے کی گواھی قران و حدیث دے رہا ہے -


آئیے تاریخ مکہ پر ایک نظر ڈالیں


(1) ۔ نبی علیہ السلام کے حیات طیبہ میں مکہ میں کافروں کی حکومت تھی کفار مکہ تین سو ساٹھ بتوں کی پرستش کرتے تھے اور کعبہ کا طواف بھی کرتے تھے ۔ نبی علیہ السلام کافروں کے ظلم و ستم کو دیکھ کر اور الله کے حکم سے مدینہ منورہ ہجرت فرمایا - نبی صلی الله علیہ وسلم کے اس عمل اور الله کے حکم سے یہ سبق ملا کہ مقدس سرزمین پر جب اہل باطل کا قبضہ ہو جائے اور تمہارے اندر اتنی طاقت نہیں کہ باطل مقابلہ کر سکو تو اس سرزمین کو چھوڑ دو -


(2) ۔ یزید مکہ و مدینہ میں قتل و غارت کیا تین دن تک مسجد نبوی میں اذان نہیں ہوئی ، صحابہ ، تابعین کو شہید کیا ، اپنی فوج پر مدینہ کی عورتوں کو حلال کیا ، کعبۃ الله میں آگ کے گولے برسائے ، غلاف کعبہ کو جلایا ۔


(3) ۔ تین سو ساٹھ 360 ھجری کو منکرین زکوۃ نے مکہ مدینہ پر قبضہ جمایا اور مرتد ابوطاہر قرمتی کی وجہ سے حج بند ہوگیا ۔ حاجیوں کو شہید کیا گیا بیس سال تک حجر اسود کعبہ سے غائب رہا - (حجۃ الله علی العلمین،چشتی)


(4) 654 ھجری خلیفہ معتصم بالله کے دور میں شیعہ رافضیوں نے مکہ و مدینہ پے قبضہ جمایا مکہ مدینہ کے حاکم وامام بھی شیعہ تھے ۔


(5) ۔ ایک ڈیڑھ صدی پہلے محمد بن عبد الوہاب نجدی ایک نیا مذھب لے کر ظاہر ہوا اہل اسلام پر کفر و شرک کا فتوی لگایا ، اپنے مذھب کے پیرو کاروں کو چھوڑ کر سب کو وہ کافر مشرک کہتا تھا اور واجب القتل جانتا تھااور اس نے اپنے فتوی پر سختی سے عمل بھی کیا ھزاروں علماء و صلحاء کو شہید کر دیا - 1925عیسوی شاہ عبد العزیز نے محمد بن عبدالوھاب نجدی کے فتوے کے مطابق تمام مزارات کو توڑ دیا - شاہ عبد العزیز اور محمد بن عبد الوھاب نجدی ایک ہی سکے کا دو رخ ہے ، دونوں نے ایک دوسرے کی خوب حمایت کی آج بھی سعودی سلطنت میں دو خاندانوں کا قبضہ ہے - امور شرعیہ محمد بن عبد الوھاب نجدی کے نئے دین و مسلک کے علماء کے ہاتھوں میں ہے - اور امور سلطنت کی ذمہ داری ال سعود کے پاس ہے -


مذکورہ بالا تاریخی حقائق کے انکشاف سے یہ صاف ہو گیا کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ مکہ و مدینہ کا حاکم یا امام حق پر ہو اور مومن و مسلم ہو - انکار کی صورت میں آپ کو ، کافر و مشرک ، مرتد ، شیعہ رافضی ، ابو جہل ، ابولہب ، ابو طاہر ، شیعہ امام کعبہ کو ، مومن مسلم ماننا پڑے گا - کیونکہ مذکورہ اشخاص بھی مکہ کے حاکم تھے ۔ اور یہ قرآن و حدیث اور اجماع کے خلاف ہے ۔ چلے تھے دوسرے کا دفاع کرنے خود کافر مشرک ہو گئے ۔ آخر اہلحدیث ، دیوبندیوں کی نماز شیعہ رافضی کے پیچھے کیوں نہیں ہوتی ؟

جو جواب آپ کا ہوگا وہی جواب اہلسنت کا ہوگا ۔ وھابی امام کے پیچھے اہلسنت کی نماز نہیں ہوتی ہے ۔ ان کے کفریہ عقائد کی وجہ سے ۔ زمانہ ماضی کی طرح آج بھی مکہ و مدینہ پر نجدی گستاخوں کا قبضہ ہے ان کے پیچھے نماز ان کے گستاخانہ عقائد کی وجہ سے نہیں ہوتی ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔