Friday, 10 December 2021

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا خُلقِ عَظیم حصّہ دوم

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا خُلقِ عَظیم حصّہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے ہمیں حلم، بردباری، تحمل، عفو و درگزر اور صبر و استقلال کی تعلیم دی۔ ان رویوں سے انفرادی و اجتماعی سطح پر سوسائٹی میں تحمل و برداشت جنم لیتا ہے۔ اسی تحمل و برداشت کے ذریعے سوسائٹی کے اندر Moderation اعتدال و توازن آتا ہے۔ یہ رویہ انسانوں اور معاشروں کو پرامن بناتا اور انتہا پسندی سے روکتا ہے۔ ایسا معاشرہ ہی عالم انسانیت کے لئے خیر اور فلاح کا باعث ہوتا ہے۔ وہی معاشرے مستحکم، پرامن، متوازن اور ترقی یافتہ ہوتے ہیں جو اخلاقی اقدار پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ میں سب سے اعلیٰ ترین پہلو ایک طرف حلم، تحمل، عفو و درگزر اختیار کرنا ہے اور دوسری طرف ناپسندیدہ اور شدید مصائب و آلام کے حالات میں صبرو استقامت اختیار کرنا ہے ۔


اللہ رب العزت نے آقا علیہ السلام کو آداب و اخلاق خود سکھائے۔ ارشاد فرمایا : خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ۔ (الاعراف : 199)

ترجمہ :  آپ (صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم) درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں ۔


یعنی اگر بداعمال، بداخلاق اور ناروا سلوک کرنے والے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادتی کریں تو آپ ان سے اعراض کریں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبرائیل امین علیہ السلام سے پوچھا کہ جبرائیل علیہ السلام ! اللہ رب العزت کے اس حکم کی کیا منشاء ہے؟ اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خود کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک میں پیغام بھیجنے والے مولا کے پاس جاکر اس کا معنی دریافت نہ کروں۔ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام واپس گئے۔ اللہ رب العزت سے اس آیت کریمہ کا معنی پوچھ کر واپس آئے اور عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : يامحمد (صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم) ان الله تعالیٰ يامرک ان تعفو عمن ظلمک وتعطی من حرمک وتصل من قطعک ۔ (قرطبی، تفسير قرطبی،7 : 345،چشتی)

ترجمہ : (یارسول اللہ!) اللہ تعالیٰ نے (اس آیت میں) آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ اس شخص کوجو آپ پر زیادتی کرے، معاف فرمادیں اور جو شخص آپ کو محروم رکھے، آپ اس کو عطا فرمائیں۔ جو شخص آپ سے رشتہ منقطع کرے آپ اس سے صلہ رحمی فرمائیں ۔


یعنی اگر کوئی خونی رشتہ دار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ زیادتی کرے، رشتے کو کاٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کٹے ہوئے خونی رشتے کو حسن اخلاق سے جوڑ دیں، سوسائٹی کا کوئی شخص اگر کسی زیادتی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ کے حق سے محروم کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بھی اپنی سخاوت کے باعث اسے عطا کرنے سے گریز نہ کریں اور اگر کوئی شخص صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے ظلم و زیادتی کا مرتکب ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے درگزر کرتے ہوئے معاف کردیں، انتقام نہ لیں ۔


قرآن مجید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انبیاء کرام کے صبر کی مثال دیتے ہوئے اخلاق حسنہ کے اس پہلو کی طرف متوجہ کیا جارہا ہے کہ اللہ رب العزت نے فرمایا : فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ.

ترجمہ :  پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبر کیے جائیں جس طرح (دوسرے) عالی ہمّت پیغمبروں نے صبر کیا تھا ۔ (الاحقاف : 35)


آیئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہِ مبارکہ اور اخلاقِ حسنہ کے عملی نمونہ کا مطالعہ کرتے ہیں جس میں مسلم قوم اور معاشرے کے لئے ایک واضح پیغام ہے ۔


غزوہ احد کے موقع پر آقا علیہ السلام کے دانت مبارک کا ایک کونہ شہید ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ اقدس زخمی ہوگیا، خون مبارک بہہ نکلا اور ایک وقت کے لئے بے ہوشی کی کیفیت طاری ہوگئی۔ صحابہ کرام کے لئے یہ ناقابل برداشت لمحات اور ناقابل تصور کیفیات تھیں۔ ان لمحات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : لودعوت عليهم ۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ پر ان لوگوں نے ظلم، مصائب و آلام اور جفاکاری کی انتہاء کردی ہے، اگر آپ چاہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لئے بددعا کریں۔ اس پر آقا علیہ السلام نے جواب دیا : انی لم ابعث لعانا ولکنی بعثت داعياً ورحمة ۔ یعنی میں اپنے اوپر ظلم اور زیادتی کرنے والوں کے لئے بد دعا نہیں کروں گا، اس لئے کہ میں لوگوں کو رحمت سے محروم کرنے والا بن کر مبعوث نہیں ہوا بلکہ میں تو خیر، فلاح اور نیکی و احسان کی طرف ایک ایسا دعوت دینے والا بن کر مبعوث ہوا ہوں کہ جو سر تاپا ہر اپنے پرائے کے لئے رحمت ہی رحمت ہے ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دست اقدس اٹھائے اور عرض کیا : اَللّٰهُمَّ اهْدِ قَوْمِيْ فَاِنَّهُمْ لَايَعْلَمُوْن ۔ باری تعالیٰ میری قوم کو ہدایت دے یہ مجھے پہنچانتے نہیں ہیں ۔ (صحيح مسلم، 4 : 2006، الرقم : 2599،چشتی)

یعنی یہ لوگ میری حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں۔ میں ان کا کتنا ہمدرد اور خیر خواہ ہوں، اس سے یہ واقف نہیں ہیں۔ میں ان کی خیرو فلاح کا متمنی ہوں لیکن یہ اس حقیقت سے آشنا نہیں، ناسمجھ لوگ ہیں تو انہیں معاف کردے ۔


قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے الشفاء میں ایک روایت کا ذکر کیا ہے کہ اس مقام پر سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بابی انت وامی یارسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ آپ کی عظمت، اخلاق، شفقت، رحمت اور اسوہ حسنہ پر قربان ہوجائیں۔۔۔ اپنی بے وفا و جفاکار قوم پر بھی رحمت و شفقت کے اس خوبصورت انداز پر قربان ہوجائیں۔۔۔ لقد دعا نوح علی قومه. ایسی مشکل کی گھڑیاں حضرت نوح علیہ السلام پر بھی آئی تھیں۔ جب وہ کشتی بناکر قوم کو چھوڑ کر روانہ ہوگئے تھے۔ جب قوم نوح کے آلام اور جفاکاری انتہاء پر پہنچے تو انہوں نے بھی اپنی قوم کے لئے بددعا کی، حالانکہ ان پر حملے نہ ہوئے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس پر حملے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخمی بھی ہوئے۔ نوح علیہ السلام نے عرض کیا تھا : رَّبِّ لَا تََذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰـفِرِيْنَ دَيَّارًا ۔ اے میرے رب! زمین پر کافروں میں سے کوئی بسنے والا باقی نہ چھوڑ ۔ (نوح : 26) ۔ یعنی باری تعالیٰ ان ظالموں، کافروں نے ظلم اور جفاکاری کی حد کردی ہے، اب ان پر وہ عذاب بھیج کہ کافروں میں سے ایک جان بھی زمین پر زندہ نہ بچے ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بھی تو بددعا کی تھی لیکن یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ کی عظمت اور رحمت و شفقت پر ہم قربان جائیں۔۔۔ آپ کی عظمت، صبر و استقامت، وسعت ظرفی اور وسعت رحمت پر قربان جائیں۔۔۔ ولو دعوت علينا مثلها لهلکنا من عند آخرنا. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت نوح علیہ السلام سے بھی زیادہ کڑا وقت آیا ہے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بددعا کردیتے تو اس دنیا کے آخری زمانے تک بھی ہماری نسلوں میں سے کوئی فرد نہ بچتا، تمام ہلاک اور تباہ و برباد ہوجاتے۔ فابيت ان تقول الاخيرا. مگر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے حق میں خیر، محبت، رحمت اور شفقت کے کلمہ کے سوا کوئی کلمہ زبان پر نہ لائے اور یہی کہتے رہے : اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِيْ فَاِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْن ۔ مولا! میری اس قوم کو معاف کردے، یہ میری حقیقت، میری رحمت، میری خیر خواہی، میری شفقت اور میری عظمت کو نہیں پہچانتے، انہیں معاف کردے ۔ (کتاب الشفاء، قاضی عياض، 1 : 171،چشتی)


ہمیں آج اس امر پر غور کرنا ہوگا کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ کیا تھا۔۔۔؟ ان کا اخلاق، سیرت، زندگی، طرز عمل، طرز معاشرت اور رویہ کیا تھا۔۔۔؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور غلامی کا حق ادا کرتے ہوئے ہمیں یہ کوشش کرنا ہوگی کہ آقا علیہ السلام کے طرز عمل اور اسوہِ حسنہ کا یہ عکس ہم اپنی زندگیوں میں پیدا کریں۔ اگر اس کا ہلکا سا عکس بھی ہماری زندگیوں میں آجائے تو اس ملک سے شر کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور خیر کے چشمے پھوٹ سکتے ہیں ۔ مذکورہ حدیث مبارکہ میں درج ذیل نکات توجہ طلب ہیں کہ ظلم و ستم کے مقابلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شفقت و محبت کا کتنا وسیع اظہار فرمایا۔

    آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اتنے مظالم اور مصائب پر صبر کرتے ہوئے خاموش رہتے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی اختیار نہ فرمائی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لئے بددعا بھی کرسکتے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بددعا نہیں کی بلکہ ان کی ہدایت اور مغفرت کی دعا کی۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف دعا ہی کردیتے کہ باری تعالیٰ انہیں معاف کردے، انہیں ہدایت دے دے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بھی بڑھ کر ایسا اظہار فرمایا کہ انسانی عقل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفقت و رحمت اور محبت کا تصور کرنے سے بھی قاصر ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف ہدایت اور مغفرت کی دعا کی بلکہ یہ کہہ کر دعا کی اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِی فَاِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ. وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کے درپے ہیں، ان کو ان سارے مظالم کے باوجود یہ کہہ کر دعا دے رہے ہیں کہ باری تعالیٰ یہ میری قوم ہے، ان کو معاف کردے، ان کو ہدایت دے دے اور پھر کفار کی طرف سے معذرت کے اظہار کے بغیر از خود اللہ کے حضور عرض کرتے ہیں : اِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْن. باری تعالیٰ انہیں اس لئے معاف کردے کہ یہ مجھے پہچانتے نہیں ہیں۔ یہ مغالطے، بدگمانی اور بدعقیدگی میں ہیں، اس لئے بد زبان و بد عمل اور بدعقیدہ ہیں۔ اگر مجھے پہچانتے تو ایسا نہ کہتے اور نہ ایسا کرتے۔ پس آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی معذرت بھی اپنی طرف سے بیان فرمارہے ہیں۔ ایسا اخلاق انسانی تاریخ میں کسی شخص میں ہوا اور نہ ہوگا۔


حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نجد کے غزوہ سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں دوپہر کا وقت ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھوڑی دیر آرام کرلیں۔ آقا علیہ السلام خود بھی ایک درخت کے نیچے آرام فرما ہوگئے۔ اتنے میں غورث بن حارث نامی ایک شخص آیا اور اس نے درخت کے ساتھ لٹکتی ہوئی آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلوار اتار لی اور پوچھا کہ : من یمنعک منی۔ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو اب مجھ سے کون بچا سکتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی استقامت، جرات اور شجاعت و بہادری کا اس لمحہ بھی یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے تین بار کہا : ’’اللہ‘‘۔ اس پر وہ کانپ اٹھا اور اس کے ہاتھوں سے تلوار گرگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ تلوار اٹھالی۔ وہ کانپنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسکرا کر اس کو معاف کردیا ۔(البخاری الصحيح کتاب الجهاد، باب، من علق سيفه، بالشجر فی السفر عند القائلة 3 : 1065، رقم : 2753)


آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن کردار، حسن اخلاق اور حسن شفقت دیکھ کر وہ شخص جب اپنے قبیلے میں واپس لوٹا تو اس نے اپنی کافرو مشرک قبیلہ سے کہا : جئتکم من عند خير الناس ۔ لوگو! سنو آج میں ایک ایسے شخص کو دیکھ کر آرہا ہوں کہ کائنات انسانی میں اس سے بہتر اخلاق و کردار کا کوئی اور شخص نہیں ہے۔ اسے خیر کی طرف، اسلام کی طرف جس چیز نے راغب کیا وہ کوئی دعوت و تبلیغ کا عمل نہ تھا، وہ کوئی توحید ورسالت اور آخرت کی دلیل نہ تھی، فقط آقا علیہ السلام کا معاف کردینا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسن اخلاق اس شخص کی قلبی ہیت کے بدلنے کا باعث بن جاتا ہے ۔ (المستدرک علی الصحيحين، 3 : 31، الرقم : 1322)


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ زینب نامی ایک یہودیہ خاتون نے خیبر کے دن زہر آلود گوشت بھون کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا۔ آقا علیہ السلام نے تناول فرمالیا۔ یہاں توجہ طلب بات یہ ہے کہ آقا علیہ السلام کی خدمت میں یہودیہ خاتون نے گوشت بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تو انکار کردیتے کہ جس عورت نے بھیجا ہے وہ یہودیہ ہے، میں نہیں کھاتا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا نہ فرمایا۔ آج ہماری تنگ نظری اور تنگ فکری بھی ہر ایک کے سامنے ہے کہ غیر مسلم تو بڑی دور کی بات ہم دوسرے مسلک اور کسی نچلے درجے کے پیشے سے وابستہ لوگوں سے بھی تعلقات رکھنا گوارا نہیں کرتے۔ ہم نے اپنی سوچ اور اسلام کو تنگ نظر بنادیا ہے۔ اپنی طبیعت، فکر، نظریے اور اپنے مزاج کی تنگی کو ہم نے اسلام پر مسلط کردیا ہے۔ اسلام تو اتنا وسیع ہے جتنی رب العالمین کی ربوبیت وسیع ہے۔ اسلام میں تو اتنی وسعت ہے، جتنی رحمۃ للعالمین کی رحمت میں وسعت ہے۔ جس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہم کلمہ پڑھتے اور غلامی کا دم بھرتے ہیں، ان کی وسعت نظری اور وسعت فکری سے اسلام کے تشخص کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اندازہ کریں کہ خیبر میں محاذ آرائی یہودیوں سے ہے اور یہ لوگ مخالف اور محارب ہیں۔ جنگ ختم ہوجانے کے بعد ان مخالف و محارب یہودیوں میں سے ایک گھر سے زینب یہودیہ وہ گوشت بھون کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بطور دعوت بھیجتی ہے۔ عام انسانی عقل یہ کہتی ہے کہ آقا علیہ السلام رد فرمادیتے کہ یہ ہمارے دشمن ہیں اور یہودی ہیں، نہ کھاتے، فرمادیتے کہ یہ ہرگز جائز نہیں ہے ۔ مگر آقا علیہ السلام کے عظیم حسن کردار، حسن اخلاق اور وسعت قلب و نظر کا عالم دیکھئے کہ یہ جانتے ہوئے کہ یہ کھانا یہودیوں کے گھر سے آیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر بھی تناول فرمایا۔ وہ زہر آلود تھا، چند لقمے کھائے تھے کہ گوشت کی بوٹیاں بول پڑیں کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے نہ کھایئے، میرے اندر زہر ہے۔ جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس خاتون کو پکڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا کیونکہ اب نہ صرف ارادہِ قتل تھا بلکہ فعلِ قتل تھا، جو معجزانہ طور پر ناکام ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت بشیر بن برائ رضی اللہ عنہ نے بھی وہ گوشت کھایا لیکن موقع پر شہید ہوگئے۔ آقا علیہ السلام شہید نہ ہوئے کیونکہ فرمان باری تعالیٰ والله يعصمک من الناس کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے لے رکھی تھی۔اس عورت کو پکڑ کر لایا گیا کہ سزا دیں لیکن آقا علیہ السلام نے اس کو معاف کر دیا ۔ (اخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب المغازی، باب الشاة التی سمت النبی بخيبر، 4 : 1551، رقم : 4003،چشتی)


حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں آقا علیہ السلام ایک مقام پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گلے میں ایک کھردری سی سخت قسم کی چادر لپیٹی ہوئی تھی۔ ایک اعرابی آیا، اسے کچھ طلب تھی۔ اس نے اپنی نادانی و جہالت کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادرکو پکڑ کر اس شدت سے کھینچا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن مبارک پر اس کا زخم آگیا، چادر کھینچ کر کہنے لگا! یامحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں محتاج ہوں۔ میرے گھر والے بھی بھوکے ہیں، پریشان ہیں، میں دو اونٹ لایا ہوں، میرے دونوں اونٹوں کو غلے اور اناج سے بھرکر مجھے واپس بھیجئے۔ اُس کے اس اندازِ طلب کے باوجود آقا علیہ السلام کے چہرہ انور پر ملال اور رنجیدگی کے اثرات نہیں آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے بندے سب مال اللہ کا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں ۔ فَضَحِکَ ثُمَّ اَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ ۔ اور مسکرا پڑے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے مال عطا کرنے کا حکم فرمایا ۔ (البخاری، الصحيح، کتاب الوضوء، باب صب الماء علی البول فی المسجد، 1 / 89، رقم : 219) ۔ اس کی حاجت پوری کرنے کے بعد اس سے سوال کیا کہ یہ بتا : ويقاد منک يااعرابی مافعلت بی ۔ جو کچھ تم نے میرے ساتھ کیا ہے؟ کیا خیال ہے اس کا بدلہ لیا جانا چاہئے یا نہیں؟ اس نے کہا : نہیں ہونا چاہئے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا : کیوں نہیں ہونا چاہئے؟ اس نے کہا : لانک لا تکافی بالسيئة السيئة .(کتاب الشفاء، 1 : 86) ۔ بدلہ نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور اخلاق یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم برے کاموں کا بدلہ برے کاموں سے نہیں دیتے، برائی کو برائی سے رد نہیں کرتے بلکہ برائی کو اچھائی کے ساتھ رد فرمانے والے ہیں۔ یہ آقا علیہ السلام کی وسعتِ اخلاق، وسعتِ ظرف، عظمتِ شفقت اور عظمت رحمت کا ایک اظہار ہے جس سے روشنی لینے کی ضرورت ہے ۔


ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حالات جتنے بھی غصہ دلانے والی ہی کیوں نہ ہوں مگر میں نے پوری عمر یہ ہی دیکھا کہ ہر کیفیت میں آقا علیہ السلام نے عفو و درگزر اور بردباری کا اظہار فرمایا حتی کہ : ماضرب بيده شيئا قط الا ان يحاهد فی سبيل الله وما ضرب خادما قط ولا امراة ۔  کبھی بھی کسی کو ہاتھ سے نہیں مارا، سوائے جہاد کی صورت میں اپنے دفاع پر اور نہ عمر بھر کسی خادم اور نہ ہی کسی زوجہ کو مارا ۔ (صحيح مسلم، 4 : 1814، الرقم : 2328)


لوگ عورتوں کو زمانہ جاہلیت میں بھی مارتے تھے اور آج بھی مارتے ہیں ۔ Domestic violence عورتوں پر تشدد ہماری سوسائٹی پر بہت بڑا داغ ہے ۔ یہ بہت بڑی بدخلقی ہے ۔ ہمارے ہاں بسبب جہالت لوگ عورتوں کو مارتے ہیں۔ یاد رکھیں عورتوں کی تذلیل وہی شخص کرتا ہے جو خود ذلیل اور کمینہ ہے اور اپنی بیوی اور عورتوں کو عزت وہی شخص دیتا ہے جو خود باعزت اور کریم ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اُن کا حیا کریں جن کے ساتھ پہلو بہ پہلو رہتے اور زندگی گزارتے ہیں۔ ہم بسا اوقات یہ قربتیں بھول کر ان کو ہاتھوں سے مارتے ہیں۔ یہ باعثِ شرم ہے۔ آقا علیہ السلام نےDomestic Violence کو کلیتاً رد کردیا۔ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پندرہ صدیاں قبل جب سارا معاشرہ ہر طرح کے استحصال سے لبریز تھا، جب غلاموں پر ظلم ہوتے تھے، زنجیروں میں باندھ کر کوڑے مارے جاتے تھے ا س وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلاموں اور عورتوں پر تشدد سے منع فرمایا جبکہ مغربی دنیا انسانی حقوق کے تحت خواتین پر عدم تشدد کی باتیں آج کررہی ہے۔


حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے دس سال حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی، اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے کبھی اف تک نہیں کہا۔ کسی کام کرنے میں یہ نہیں فرمایا کہ کیوں کیا اور نہ کرنے پر یہ نہیں فرمایا کہ کیوں نہیں کیا ۔ (صحيح بخاری، کتاب الادب، باب حسن الخلق، 5 : 2245، الرقم : 5691،چشتی)


فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاتح کی شان کے ساتھ مکہ شہر میں داخل ہوئے تو وہ کفار مکہ جنہوں نے تلواروں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کرکے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت پر مجبور کیا، مدینہ کے سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعاقب کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مدینہ میں جنگیں مسلط کی تھیں اور لمحہ بہ لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پریشان اور دکھی کیا تھا، سکون اور راحت کی زندگی بسر کرنے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ ان کفار و مشرکین کے شہر میں جب فاتح بن کر پہنچے تو وہ لوگ کانپ رہے تھے، انہیں ڈر تھا کہ انتقام لیا جائے گا، ہماری گردنیں کاٹ دی جائیں گی، سزا دی جائے گی، ہمارے مظالم کا بدلہ لیا جائے گا۔ لیکن صورت حال اُن کی سوچوں کے برعکس ہوئی۔ آقا علیہ السلام فتح مکہ کا خطبہ دے رہے ہیں اور اجتماع سے پوچھتے ہیں : ماتقولون انی فاعل بکم ۔ اے اہل مکہ! مجھ پر اکیس سال تک ظلم اور جفا کرنے والو! مصائب و آلام کے پہاڑ گرانے والو! آج تم کیا سوچ رہے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ اس پر وہ جواب دیتے ہیں : خيراً اخ کريم ابن اخ کريم ۔ ہم خیر کی توقع کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیک اعلیٰ اخلاق والے، شفقت و محبت والے بھائی ہیں اور شفقت و محبت اور بزرگی والے باپ کے بیٹے ہیں۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا جاؤ میں تمہیں وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا : لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْکُمُ الْيَوْمَط يَغْفِرُ اﷲُ لَکُمْ ۔ جاؤ آج تم پر کوئی گرفت نہیں ہوگی اللہ تمہیں معاف کردے گا ۔ (يوسف : 92) ۔ اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اِذْهَبُوْا فَاَنْتُمُ الطَّلَقَاء ۔ اپنے گھروں کو چلے جاؤ آج میں نے تم سب کو معاف کردیا ۔ (البيهقی، السنن الکبریٰ، 9،118، رقم : 18055)

اکیس سال دشمنی مسلط کرنے والی قوم پر جب فتح یاب ہوئے تو آقا علیہ السلام نے ایک کلمہ بھی سخت اور ایک عمل بھی شدت کا اختیار نہیں کیا اور انہیں معاف کردیا ۔


حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آقا علیہ السلام ایک مقام پر فجر کی نماز کے بعد بیٹھے تھے کہ کفارو مشرکین کے 80 افراد کا مسلح گروپ آقا علیہ السلام اور صحابہ پر حملہ آور ہوگیا۔ صحابہ کرام نے دفاع کیا، ان سب کو پکڑ لیا اور گرفتار کرکے آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں لے آئے۔ فاعتقہم رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں معاف فرماتے ہوئے رہا کردیا ۔ (مسلم الصحيح کتاب الجهاد والسير، باب قول الله تعالیٰ وهوالذی کف ايدی، 3 : 1442، رقم : ٌ1808)(مزید حصّہ سوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...