Friday, 10 December 2021

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا خُلقِ عَظیم حصّہ اول

 نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا خُلقِ عَظیم حصّہ اول

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : اسلام میں اخلاقیات کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ ایمان و عقائد کی درستی کے بعد نیک اعمال و افعال کرتے ہوئے جب تک ایک مسلمان حُسنِ اخلاق جیسی صفت سے متصف نہ ہوجائے اس کی زندگی دوسروں کے لیے نمونۂ عمل نہیں بن سکتی ۔ جب کہ ہر مسلمان دین کا داعی ہے ۔ اس لحاظ سے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اخلاقِ حسنہ سے آراستہ و پیراستہ کرے ۔ ابتداے اسلام میں جہاں مجاہدینِ اسلام کی کوششوں سے اسلام کی ترویج و اشاعت ہوئی وہیں زمانۂ خیرالقرون کے نیک سیرت داعیانِ اسلام کے اخلاقِ حسنہ کی تلوار سے بھی اسلام خوب خوب پھیلا ۔ نبی کریم رؤف و رحیم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک اخلاق کا اتمام بھی ہے ۔ آقاے کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم مکارمِ اخلاق کی تکمیل کےلیے اس کائناتِ گیتی میں مبعوث ہوئے ۔ آپ کی حیاتِ تابندہ کا ایک ایک ورق آپ کے خُلقِ عظیم کا اجلا نقش ہے ۔ قرآن کریم میں رب کریم جل جلالہٗ نے اپنے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے اخلاقِ حسنہ کی عظمت کو بیان فرمایا ہے ۔ قرآن کے علاوہ آقاے کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے اخلاق سے متعلق نیز اخلاقِ حسنہ کی عملی زندگی میں اہمیت و ضرورت کے بارے میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں ۔ انسانی معاشرے ہمیشہ تعلیم و تربیت اور اخلاق حسنہ سے عروج اور استحکام حاصل کرتے ہیں ۔ معاشرہ کے امن، خوشحالی اور استحکام کا راز علم، عمل اور اخلاق میں پوشیدہ ہے ۔ اسی طرح قیادتیں بھی علم، عمل اور اخلاق حسنہ سے تشکیل پاتیں اور ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ اخلاق حسنہ کی اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ رب العزت نے اپنے محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلق عظیم کے اعلیٰ درجہ پر فائز کیا ۔ ارشاد فرمایا : اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيْمٍ.(القلم : 4)

ترجمہ : بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں) ۔


عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ صَالِحَ الْأَخْلَاقِ۔ 

ترجمہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا: میں  اچھے اخلاق کو اُن کے اتمام تک پہنچانے کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں ۔ (احمد، رقم ٨٩٥٢)


ہر صاحبِ ایمان و اسلام  سے دین کے اہم ترین مطالبات میں سے ایک  تزکیۂ  اخلاق بھی ہے۔دنیو ی و اُخروی  کامیابی وسرفرازی کے لیے یہ لازم ہے کہ انسان خالق اور مخلوق دونوں  کے ساتھ اپنے عمل کو خلوص و للہیت کے ساتھ طہارت و پاکیزگی کا مظہر  بنائے۔ پاکیزہ عمل ہی’’ عملِ صالح ‘‘کہلاتا ہے۔نبیِ کریم رؤف و رحیم  صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی بعثت کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ اعلیٰ اخلاق کی تکمیل فرمادیں ۔


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضرت سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آقا علیہ السلام کے اخلاق حسنہ جن کی تعریف قرآن مجید میں انک لعلی خلق عظیم کہہ کر کی گئی۔ وہ کیا ہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا : أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ ؟ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ؟ ۔ انہوں نے عرض کیا کہ پڑھتا ہوں ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ الْقُرْآن.’’حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا خلق قرآن ہی تو ہے۔‘‘(صحيح، مسلم، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، 1 / 512، الرقم : 746،چشتی)


یعنی قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اخلاق حسنہ، خصائل حمیدہ، فضائل کریمہ اور انسان کی عادات شریفہ کا جو جو ذکر، جز، گوشہ اور پہلو بیان کیا ہے، ان ساری خوبیوں کے عملی پیکر اتم کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اللہ رب العزت کے بیان کردہ اخلاق کو اگر تعلیمات کی شکل میں دیکھنا ہو تو اس وجود کا نام قرآن ہے اور اللہ رب العزت کے تعلیم کردہ اخلاق اور خصائل حمیدہ کو اگر ایک انسانی پیکر اور شخصی اسوہ و ماڈل کی صورت میں دیکھنا ہو تو ان کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اخلاق کی ترویج و فروغ کو اپنی منصبی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الأَخَلَاقِ ۔ مجھے مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے ۔ (أخرجه البيهقي في السنن الکبري، 10 / 191، الرقم : 20571)


یعنی میری بعثت اس لئے کی گئی ہے کہ میں کائنات انسانی میں اخلاقی فضائل کو کمال اور عروج پر پہنچادوں۔ اخلاق (Morality) انسان کی خوبیوں اور اعلیٰ فضائل و خصائل میں سے ایک ایسا اعلیٰ مرتبہ، اعلیٰ رویہ، اعلیٰ طرز فکر، طرز عمل اور ایک ایسا عظیم خزانہ ہے جو دنیا کے تمام انسانی معاشروں میں بغیر انقطاع قائم و دائم رہا اور اس پر ہمیشہ سب کا عمل رہا۔ ہر دور میں اخلاق کی نہ صرف پذیرائی ہوئی بلکہ ہر دور کا انسان اخلاق کی عظمت سے متاثر ہوتے ہوئے اس کا معترف بھی ہوا۔ جوں جوں انسانی معاشرے، انسانی عقل، ادراک، نظریات اور تصورات ترقی کرتے جارہے ہیں، اسی طرح معاشرے کی ارتقاء پذیری کے ساتھ ساتھ اخلاقی اقدار بھی بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی ہیں۔ بلاشک و شبہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی دعوت جہاں توحید، رسالت اور آخرت کی بنیادی تعلیمات پر مشتمل تھی وہاں ہر پیغمبر کی دعوت کا مرکزی نقطہ اخلاق حسنہ بھی تھا۔ ہر پیغمبر کی اپنی شخصیت اور اسوہِ مبارکہ کا مرکز و محور اخلاق حسنہ اور اعلیٰ اخلاقی اقدار تھے۔ جن سے انسانیت کو حسن کاملیت اور اپنے مراتب میں بلندی ملی۔


جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ چیز واضح نظر آتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اخلاق حسنہ کے ہزارہا گوشوں کی تعلیم دی، انہیں اپنی عملی زندگی میں سمویا اور ان کے ذریعے اپنے اسوہِ حسنہ اور شخصیت مقدسہ کو فکری، علمی اور عملی طور پر انسانیت کے سامنے رکھا۔ الغرض اخلاقِ حسنہ کا نمونہ کامل اور پیکر اتم بن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کائنات خلق اور افق انسانیت پر ظہور پذیر ہوئے۔


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اخلاق حسنہ پاکستان کے لئے بالخصوص اور پورے عالم اسلام و عالم انسانیت کے لئے بالعموم ناگزیر ہیں ۔


ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی انفرادی، اجتماعی، معاشرتی، سماجی، سیاسی، تہذیبی، ثقافتی، روحانی اور قومی زندگی حتی کہ بین الاقوامی تعلقات میں بھی اعلیٰ اخلاقی اقدار پیدا کریں، انہیں مضبوط و مستحکم کریں اور ہمیشہ فروغ دیں۔ اسی میں پاکستان، امت مسلمہ اور تمام انسانی معاشروں کی ترقی کا راز مضمر ہے۔ ذیل میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے انہی گوشوں کا تذکرہ کیاجارہا ہے جن کے ذریعے ہم نہ صرف انفرادی سطح پر امن و سکون حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی تحمل و برداشت اور عفو و درگزر کے رویے تشکیل پاسکتے ہیں ۔


اخلاقِ نبوی اور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا معیارِ فضیلت


خالقِ کائنات کی جملہ مخلوقات میں ہر لحاظ سے سب سے افضل و اشرف اور اعظم و اکرم ذات نبیِ کونین صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم ہی ہیں ۔ آپ کی ذاتِ ستودہ صفات کو اللہ کریم جل جلالہٗ نے جملہ عیوب سے پاک و منزہ بناکر اس دنیا میں مبعوث فرمایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کو اللہ کریم جل جلالہٗ نے اخلاقِ حسنہ کا پیکرِ حسین بنایا اورآپ کی ذات کو جمیل اور اخلاق کو عظیم قرار دیا ۔  قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ  ’’اور بے شک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے‘‘ (سورۃ القلم آیت ۴)


امام احمد رضا قادری برکاتی رحمۃ اللہ علیہ یوں نغمہ سرا ہوتے ہیں 


ترے خُلق کو حق نے عظیم کہا ، تری خَلق کو حق نے جمیل کیا

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا، ترے خالقِ حُسن و اداد کی قسم


نبیِ کریم مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے خطبات کے اخلاقِ کریمانہ بڑے عظیم تھے آپ ہر ایک سے بڑی خوش اخلاقی سے پیش آتے ، کسی سے بد زبانی نہ کرتے نہ ہی کبھی بد گوئی ۔ رحمتِ عالم مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے خطبات اُسی انسان کو سب سے اچھا قرار دیتے جس کے اخلاق اچھے ہوتے ۔


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ لَمْ يَکُنْ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَکَانَ يَقُولُ: إِنَّ مِنْ خِيَارِکُمْ أَحْسَنَکُمْ أَخْلَاقًا ۔

ترجمہ : عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے خطبات بد گوئی کرنے والے تھے نہ بد زبانی۔ آپ فرمایا کرتے تھے : تم میں  سے بہترین لوگ وہی ہیں  جو اپنے اخلاق میں  دوسروں  سے اچھے ہیں ۔ (صحيح بخاری، رقم ٣٥٥٩،چشتی)


عَنْ مَسْرُوقٍ قَالَ دَخَلْنَا عَلَی عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حِينَ قَدِمَ مُعَاوِيَةُ إِلَی الْکُوفَةِ فَذَکَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَمْ يَکُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَقَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِنْ خِيَارِکُمْ أَحَاسِنَکُمْ أَخْلَاقًا ۔

ترجمہ : مسروق سے روایت ہے کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ کوفہ آئے تو ہم (ان کے ساتھ آنے والے صحابی) عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ملنے گئے۔ انھوں  نے دورانِ گفتگو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کا ذکر چھیڑا اور یہ بتایا کہ آپ نہ بد گوئی کرنے والے تھے نہ بد زبانی اور یہ بھی بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: ”تم میں  سے بہترین لوگ وہی ہیں  جو اپنے اخلاق میں  دوسروں  سے اچھے ہیں ۔ (صحيح مسلم، رقم ٦٠٣٣)


(٤) قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَکُنْ فَاحِشًا وَلَا مُتَفَحِّشًا وَقَالَ:إِنَّ مِنْ أَحَبِّکُمْ إِلَیَّ أَحْسَنَکُمْ أَخْلَاقًا ۔

ترجمہ : عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نہ بد گوئی کرنے والے تھے نہ بد زبانی۔ آپ کا ارشادہے : مجھے تم میں  سے وہی لوگ سب سے زیادہ محبوب ہیں  جو دوسروں  سے بہتر اخلاق والے ہیں ۔ (بخاری، رقم ٣٧٥٩)


درج بالا  احادیث آقاے کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے اخلاق عالیہ کے پہلوؤں  کو بیان کرتی ہیں  کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم تلخ و شیریں ، غصہ و محبت، اچھے اور برے کسی حال میں  بھی بد گوئی اور بد زبانی کرنے والے نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم خود بھی اعلیٰ اخلاق کے حامل تھے اور آپ کے نزدیک وہی لوگ زیادہ پسندیدہ تھے جو اخلاق میں  دوسروں  سے بہتر ہوتے تھے۔


اخلاقِ حسنہ کی حیثیت


ایمان و عقیدے کی پختگی اور فرائض و واجبات کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اخلاقِ حسنہ کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنانا ہر مسلمان پر ضروری ہے ۔ اخلاقِ حسنہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ احادیث طیبہ میں واردہوا ہے کہ میزانِ عمل پر اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی کوئی چیز نہ ہوگی ۔اور یہ کہ اللہ کریم جل جلالہٗ بد گو اور بے حیا شخص کو پسند نہیں فرماتا ۔ چناں اللہ کریم جل جلالہٗ کی قربت و محبوبیت کے ساتھ دنیوی و اخروی اطمینان و سکون کے لیے بے حیائی اور بدگوئی سے پرہیز کرتے ہوئے اخلاقیات سے اپنے آپ کو مزین کریں ۔


عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ شَیْء ٍ أَثْقَلُ فِی الْمِيزَانِ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ ۔ (ابوداؤد، رقم٤٧٩٩)

ترجمہ : ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا: قیامت کے دن میزان میں  کوئی چیز بھی اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی نہ ہو گی ۔


عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا شَیْء ٌ أَثْقَلُ فِی مِيزَانِ الْمُؤْمِنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ وَإِنَّ اللَّهَ لَيُبْغِضُ الْفَاحِشَ الْبَذِيئَ ۔ (ترمذی، رقم ٢٠٠٢،چشتی)

ترجمہ : ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : قیامت کے دن مؤمن کی میزان میں  کوئی چیز بھی اُس کے اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی نہ ہو گی اور بے شک اللہ تعالیٰ بے حیا بد گو شخص کو دشمن رکھتا ہے ۔


 درج بالا احادیث طیبہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آخرت میں نجات کے لیے وہ بہترین اور عمدہ عمل جس  کا انسان تصور کر سکتا ہے، وہ اس کا اچھا اخلاق ہی ہے، چناں  چہ یہی عمل میدانِ محشر میں  میزان عمل پر   سب سے زیادہ وزنی ہو گا۔ بے حیائی اور بد گوئی، ان دونوں  صفات کو وہی شخص اپنا سکتا ہے جو اخلاق سے اصلاًعاری ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں  مبغوض اور ناپسندیدہ ہے ۔


اخلاق حسنہ کا درجہ


اخلاقِ حسنہ سے مسلمان کو بلند رتبہ حاصل ہوتا ہے۔ ایمان و عقائد کی درستگی اور فرائض و واجبات کی ادایگی کے بعد جب تک مسلمان اخلاقِ حسنہ کا پیکر نہیں بن جاتا اس کے درجات میں بلندی نہیں ہوتی۔ اللہ کریم جل جلالہٗ اُس بندۂ مومن کو درجوں بلند فرماتا ہے جس کا اخلاق اچھا ہوتا ہے ۔


عَنْ عَائِشَةَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِكُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِم ۔ (ابو داؤد، رقم ٤٧٩٨)

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں  نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بندہ مومن حسن اخلاق سے وہی درجہ حاصل کر لیتا ہے جو دن کے روزوں  اور رات کی نمازوں  سے حاصل ہوتا ہے ۔


عَنْ أَبِی الدَّرْدَاء ِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَا مِنْ شَیْء ٍ يُوضَعُ فِی الْمِيزَانِ أَثْقَلُ مِنْ حُسْنِ الْخُلُقِ وَإِنَّ صَاحِبَ حُسْنِ الْخُلُقِ لَيَبْلُغُ بِهِ دَرَجَةَ صَاحِبِ الصَّوْمِ وَالصَّلَاةِ ۔ (ترمذی، رقم٢٠٠٣)

ترجمہ : ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں  نے نبی ﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میزان میں  کوئی بھی ایسی چیز نہ رکھی جائے گی جو حسن خلق سے بھی زیادہ وزنی ہو۔ انسان اپنے اچھے اخلاق سے دن بھر روزے رکھنے اور رات بھر نماز پڑھنے والے شخص کا درجہ حاصل کر لیتا ہے ۔


درج بالا احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ  اللہ کی رضا و خوش نودی کے لیے دن بھر روزے رکھنا اور رات بھر نماز پڑھنا یقیناً یہ دونوں  بہت بڑے اعمال ہیں  اور انسان ان سے بہت بلند درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن آقاے کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے  اخلاق عالیہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہی درجہ انسان اچھے اخلاق سے بھی حاصل کر سکتا ہے۔اس سے اخلاقِ حسنہ کی عظمت کو بآسانی فہم کیا جاسکتا ہے ۔


صراط مستقیم کی مثال


عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْکِلَابِیِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ ضَرَبَ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا عَلَی کَنَفَیْ الصِّرَاطِ زُورَانِ لَهُمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ عَلَی الْأَبْوَابِ سُتُورٌ وَدَاعٍ يَدْعُو عَلَی رَأْسِ الصِّرَاطِ وَدَاعٍ يَدْعُو فَوْقَه (وَاللَّهُ يَدْعُوا إِلَی دَارِ السَّلَامِ وَيَهْدِی مَنْ يَشَاء ُ إِلَی صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ) وَالْأَبْوَابُ الَّتِی عَلَی کَنَفَیْ الصِّرَاطِ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا يَقَعُ أَحَدٌ فِی حُدُودِ اللّهِ حَتَّی يُکْشَفَ السِّتْرُ وَالَّذِی يَدْعُو مِنْ فَوْقِهِ وَاعِظُ رَبِّهِ۔ (ترمذی، رقم٢٨٥٩)

ترجمہ : نواس بن سمعان کلابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے صراطِ مستقیم کی مثال بیان کی ہے کہ وہ ایسا راستہ ہے جس کے دونوں  طرف دو دیواریں  ہیں ، جن میں  جا بجا دروازے کھلے ہوئے ہیں  اور اُن پر پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ ایک بلانے والا اس راستے کے سرے پر بلا رہا ہے اور دوسرا اس کے اوپر سے بلا رہا ہے۔ (اللہ دارالسلام (جنت) کی طرف بلاتا ہے اور وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دیتا ہے)۔ یہ دروازے جو صراط مستقیم کی دونوں  اطراف پر ہیں ، یہ اللہ کی حدود ہیں ، کوئی شخص بھی ان حدود میں  داخل نہیں  ہو سکتا جب تک کہ پردہ نہ اٹھایا جائے اور وہ جو اس راستے کے اوپر سے بلا رہا ہے وہ اس کے رب کا ایک واعظ ہے ۔


عَنْ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ الْأَنْصَارِیِّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا وَعَلَی جَنْبَتَیْ الصِّرَاطِ سُورَانِ فِيهِمَا أَبْوَابٌ مُفَتَّحَةٌ وَعَلَی الْأَبْوَابِ سُتُورٌ مُرْخَاةٌ وَعَلَی بَابِ الصِّرَاطِ دَاعٍ يَقُولُ أَيُّهَا النَّاسُ ادْخُلُوا الصِّرَاطَ جَمِيعًا وَلَا تَتَفَرَّجُوا وَدَاعٍ يَدْعُو مِنْ جَوْفِ الصِّرَاطِ فَإِذَا أَرَادَ يَفْتَحُ شَيْئًا مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ قَالَ وَيْحَكَ لَا تَفْتَحْهُ فَإِنَّكَ إِنْ تَفْتَحْهُ تَلِجْهُ وَالصِّرَاطُ الْإِسْلَامُ وَالسُّورَانِ حُدُودُ اللَّهِ تَعَالَی وَالْأَبْوَابُ الْمُفَتَّحَةُ مَحَارِمُ اللَّهِ تَعَالَی وَذَلِكَ الدَّاعِی عَلَی رَأْسِ الصِّرَاطِ کِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَالدَّاعِی فَوْقَ الصِّرَاطِ وَاعِظُ اللَّهِ فِی قَلْبِ کُلِّ مُسْلِمٍ۔ (مسند احمد، رقم ١٧١٨٢،چشتی)

ترجمہ : نواس بن سمعان انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے صراطِ مستقیم کی مثال بیان کی ہے کہ اس (راستے) کے دونوں  طرف دو دیواریں  کھنچی ہوئی ہیں ، ان میں  جا بجا کھلے ہوئے دروازے ہیں ، جن پر پردے پڑے ہوئے ہیں ۔ راستے کے سرے پر ایک پکارنے والا پکار رہا ہے کہ اے لوگو سب اس راستے پر آ جاؤ اور اس سے نہ ہٹو اور ایک پکارنے والا اس کے اندر سے پکار رہا ہے، چنانچہ جب کوئی شخص ان دروازوں  میں  سے کسی کا پردہ اٹھانا چاہتا ہے تو وہ پکار کر کہتا ہے : خبردار ، پردہ نہ اٹھانا۔ اٹھاؤ گے تو اندر چلے جاؤ گے۔ (آپ نے فرمایا:) یہ راستہ اسلام ہے ، دیواریں  اللہ کے حدود ہیں ، دروازے اُس کی قائم کردہ حرمتیں  ہیں ، راستے کے سرے پر پکارنے والا منادی قرآن مجید ہے اور راستے کے اوپر سے پکار نے والا منادی خدا کا وہ واعظ ہے جو ہر بندہ مومن کے دل میں  موجود ہے ۔


ان احادیث میں  صراط مستقیم، اس کے ارد گرد موجود دنیوی ترغیبات، اِن ترغیبات کا انسان کیسے شکار ہوتا ہے، قرآن مجید کی دعوت کیا ہے اور ضمیر انسان کی زندگی میں  کیا کردار ادا کرتا ہے، اس سب کچھ کو بہت عمدہ اور بڑی واضح تمثیل میں  بیان کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس دنیا کو بڑی متوازن صورت میں  آزمائش بنایا ہے۔ اس میں  اگر ایک طرف نافرمانی کی ترغیبات موجود ہیں  تو اُس کے مقابل میں  اس سے روکنے کے لیے تنبیہات بھی موجود ہیں ، چنانچہ یہاں  اگر کوئی شخص جرم کرتا ہے تو وہ صرف اپنے فیصلے اور اپنے ارادے ہی سے کرتا ہے۔ وہ کسی دوسرے کو اپنی بد عملی کا ذمہ دار نہیں  ٹھہرا سکتا۔


اعمالِ صالحہ کا دارو مدار


عَلْقَمَةَ بْنَ وَقَّاصٍ اللَّيْثِیَّ يَقُولُ سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَی الْمِنْبَرِ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِکُلِّ امْرِءٍ مَا نَوَی فَمَنْ کَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَی دُنْيَا يُصِيبُهَا أَوْ إِلَی امْرَأَةٍ يَنْکِحُهَا فَهِجْرَتُهُ إِلَی مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ۔ (بخاری، رقم١)، (مسلم، رقم ٤٩٢٧)

ترجمہ : علقمہ بن وقاص لیثی کہتے ہیں  کہ میں  نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: اعمال کا دارو مدار تو بس نیتوں  پر ہے۔ ہر آدمی کے لیے وہی کچھ ہو گا جس کی اُس نے نیت کی ہو گی۔ چنانچہ جس کی ہجرت دنیا کی کسی چیز کے لیے ہوئی جسے وہ پانا چاہتا تھا یا کسی عورت کی خاطر ہوئی جس سے وہ نکاح کرنا چاہتا تھا تو اُس کی ہجرت (خدا اور اُس کے رسول کے لیے نہیں  بلکہ) اسی چیز کے لیے شمار ہو گی جس کی خاطر اُس نے ہجرت کی ہو گی ۔


عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ – سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ أَوَّلَ النَّاسِ يُقْضَی يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَيْهِ رَجُلٌ اسْتُشْهِدَ فَأُتِیَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ قَاتَلْتُ فِيكَ حَتَّی اسْتُشْهِدْتُ قَالَ کَذَبْتَ وَلَکِنَّكَ قَاتَلْتَ لِأَنْ يُقَالَ جَرِیء ٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَی وَجْهِهِ حَتَّی أُلْقِیَ فِی النَّارِ وَرَجُلٌ تَعَلَّمَ الْعِلْمَ وَعَلَّمَهُ وَقَرَأَ الْقُرْآنَ فَأُتِیَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ وَعَلَّمْتُهُ وَقَرَأْتُ فِيكَ الْقُرْآنَ قَالَ کَذَبْتَ وَلَکِنَّكَ تَعَلَّمْتَ الْعِلْمَ لِيُقَالَ عَالِمٌ وَقَرَأْتَ الْقُرْآنَ لِيُقَالَ هُوَ قَارِءٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَی وَجْهِهِ حَتَّی أُلْقِیَ فِی النَّارِ وَرَجُلٌ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَعْطَاهُ مِنْ أَصْنَافِ الْمَالِ کُلِّهِ فَأُتِیَ بِهِ فَعَرَّفَهُ نِعَمَهُ فَعَرَفَهَا قَالَ فَمَا عَمِلْتَ فِيهَا قَالَ مَا تَرَکْتُ مِنْ سَبِيلٍ تُحِبُّ أَنْ يُنْفَقَ فِيهَا إِلَّا أَنْفَقْتُ فِيهَا لَكَ قَالَ کَذَبْتَ وَلَکِنَّكَ فَعَلْتَ لِيُقَالَ هُوَ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ ثُمَّ أُمِرَ بِهِ فَسُحِبَ عَلَی وَجْهِهِ ثُمَّ أُلْقِیَ فِی النَّارِ۔ (مسلم، رقم ٤٩٢٣،چشتی)

ترجمہ : ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : قیامت کے دن سب سے پہلے اُس شخص کا فیصلہ کیا جائے گا جو دنیا میں  شہید ہوا تھا۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں  لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نعمتیں  یاد دلائے گا، وہ ان سب کو تسلیم کرے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو نے اِن نعمتوں  کو پا کر کیا اعمال کیے۔وہ کہے گا: اے باری تعالیٰ میں  تیری راہ میں لڑا، یہاں  تک کہ میں  شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: تو جھوٹ بولتا ہے تو میری راہ میں  نہیں ، بلکہ اِس لیے لڑا تھا کہ تُو بہادر کہلائے اور وہ تُو کہلا چکا۔ پھر اُسے جہنم میں  پھینکنے کا حکم ہو گا، چنانچہ وہ اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں  ڈال دیا جائے گا۔

دوسرا وہ شخص ہو گا جس نے علم سیکھا اور سکھایا اور قرآن پڑھا (اور پڑھایا) تھا۔ اُسے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں  لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نعمتیں  یاد دلائے گا، وہ اُن سب کو تسلیم کرے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو نے اِن نعمتوں  کو پا کر کیا اعمال کیے۔وہ کہے گا: اے باری تعالیٰ میں  نے علم سیکھا اور سکھایا اور تیری خوشنودی کے لیے قرآن پڑھا (اور پڑھایا)۔ پروردگار کہے گا: تو جھوٹ کہتا ہے، تو نے میری خوشنودی کے لیے نہیں ، بلکہ اس لیے علم سیکھا اور سکھایا تھا تا کہ لوگ تجھے عالم کہیں  اور اس لیے قرآن پڑھا (اور پڑھایا) تاکہ یہ کہا جائے کہ فلاں  شخص قاری (قرآن کا معلم) ہے، اور یہ تجھے کہا جا چکا۔ پھر اُسے جہنم میں  پھینکنے کا حکم ہو گا، چنانچہ وہ اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں  ڈال دیا جائے گا۔

تیسرا وہ شخص ہو گا جسے اللہ نے کشادگی عطا فرمائی اور ہر طرح کا مال دیا تھا۔ اُسے بھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں  لایا جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نعمتیں  یاد دلائے گا، وہ اُن سب کو تسلیم کرے گا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے اِن نعمتوں  کو پا کر کیا اعمال کیے۔ وہ کہے گا: اے باری تعالیٰ میں نے تیری رضا کی خاطر ہر اُس موقع پر انفاق کیا ہے، جہاں  انفاق کرنا تجھے پسند تھا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: تو جھوٹ کہتا ہے تو نے میری رضا کے لیے نہیں ، بلکہ اِس لیے مال خرچا تھا کہ لوگ تجھے سخی کہیں  اور وہ تجھے کہا جا چکا۔ پھر اُسے بھی جہنم میں  پھینکنے کا حکم ہو گا، چنانچہ وہ بھی اوندھے منہ گھسیٹتے ہوئے جہنم میں  ڈال دیا جائے گا۔‘‘


کسی عمل کے بارے میں  جو دعویٰ کیا جا رہا ہے کیا وہ عمل اپنی حقیقت میں  بھی ویسا ہی ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب اگر ‘ہاں ‘ میں  ہو تو اس عمل کو ہم خالص عمل قرار دیتے ہیں  اور اگر اس کا جواب ‘نہ’ میں  ہو تو پھر اس عمل کو نا خالص عمل قرار دیا جاتا ہے۔ ان احادیث میں  یہ بتایا گیا ہے کہ جن اعمال کے بارے میں  یہ دعویٰ کیا گیا کہ وہ خدا کی رضا کے لیے کیے گئے ہیں ، اگر وہ حقیقت میں  کسی اور غرض سے کیے گئے تھے تو وہ انسان کو جہنم کا مستحق بنا دیں  گے، کیونکہ خدا کسی نا خالص عمل کو ہرگز قبول نہیں  کرے گا۔


ایک سچے مسلمان کو چاہیے کہ وہ ایمان و عقیدے کی درستگی کے ساتھ فرائض و واجبات اور نوافل کا اہتمام کرے۔ لیکن یاد رکھے کہ حقو ق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی ادا کرے اور اپنے آپ کو حُسنِ اخلاق سے مکمل طور پر اس طرح آراستہ و پیراستہ کرے کہ لوگ اُس کی عادات و اطوار کو دیکھ کر اسلام کی طرف راغب ہوں ۔(مزید حصّہ دوم میں)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...