وہ بھی سُنی ہم بھی سُنی تو پہچان کیسے ؟
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئین کرام : جب داڑھی والوں نے گستاخی کرنا شروع کی ، جب ٹوپی والوں نے گستاخی کرنا شروع کی ، جب نماز پڑھنے والوں نے گستاخی شروع کی ، جب روزہ رکھنے والوں نے گستاخی شروع کی ، جب پیروں نے گستاخی شروع کی ، جب خطیبوں نے گستاخی شروع کی ، جب مریدوں نے گستاخی شروع کی ، جب نقیبوں نے گستاخی شروع کی ، جب قادری ، چشتی ، نقشبندی اور سہروردی کہلانے والوں نے گستاخی کرنا شروع کی ، تو پہچان کیسے کی جائے ؟
داڑھی سنیوں کی بھی ہے ، داڑھی اُن کی بھی ہے ، ٹوپی سنی بھی لگاتا ہے ، ٹوپی وہ بھی لگاتے ہیں ، نماز وہ بھی پڑھتے ہیں ۔ بظاہر ہم سے زیادہ پڑھتے ہیں ۔ اب شناخت کیسے کی جائے کہ وفادارِ رسول کون ہیں ؟ وہ بھی اہلسنت کہتے ہیں ، ہم بھی اہلسنت کہتے ہیں ، وہ بھی سُنی کہتے ہیں ، ہم بھی اپنے آپ کو سُنی کہتے ہیں ، تو بزرگوں نے کہا کہ اس کی شناخت ایسے کی جائے گی کہ نعرہ لگایا جائے گا ، مسلک اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگایا جائے گا ، مسلک اعلیٰ حضرت (زندہ باد) مسلک اعلیٰ حضرت (زندہ باد) ۔ مسلک اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگایا جائے گا تو شناخت ہوجائے گی کہ یہ وفادارِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہیں ، یہ غدار رسول نہیں ہیں ۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ کے غدار نہیں ہیں ۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی بارگاہ کے وفادار ہیں ۔ اللہ سے یہی دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ! جب ہمارا خاتمہ ہو، جب ہم دنیا سے جائیں تو ہم مسلک اعلیٰ حضرت پر جائیں ۔ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے مسلک کا دامن چُھوٹا تو جنت کا راستہ چُھوٹا ۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے جو مسلکِ اعلیٰ حضرت کا نعرہ لگانے سے منع کرتے ہیں آمین ۔
عرف ناس شاہد ہے کہ اعلی حضرت کا لفظ اس زمانے میں” اہل سنت و جماعت” سے کنایہ ہوتا ہے ، جیسے حاتم کا لفظ سخاوت سے ،موسی کا لفظ حق، اور فرعون کا لفظ مبطل سے کنایہ ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ لفظ اہل سنت و جماعت کی شناخت اور پہچان بن چکا ہے ۔کسی بھی مقام پر کوئی شخص اگر لفظ "اعلی حضرت بول دیتا ہے تو سننے والے بلاتامل یقین کر لیتے ہیں اور ہر شخص سمجھ جاتا ہے یہ اہل سنت و جماعت سے ہے ۔
اجل علمائے مکہ معظمہ حضرت مولانا سید محمد مغربی رحمۃ اللہ علیہ شیخ الحدیث حرم مکہ فرماتے ہیں : جب ہندوستان سے کوئی آتا ہے تو ہم اس سے مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب کے بارے میں پوچھتے ہیں اگر وہ ان کی تعریف کرتا ہے تو ہم جان لیتے ہیں کہ اہل سنت سے ہے اور اگر ان کی برائی کرتا ہے تو ہم جان لیتے ہیں کہ بدمذہب ہے ۔ یہی ہماری کسوٹی ہے پہچاننے کا ۔
حضرت علامہ سید محمد علوی مالکی رحمۃ اللہ علیہ قاضی القضاۃمکہ معظمہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں فرماتے ہیں :کہ ہم اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کو ان کی تصنیفات و تالیفات سے پہچانتے ہیں ان کی محبت سنیت کی علامت ہے اور بغض رکھنا بد مذہبی کی پہچان ہے ۔
الحاصل اعلی حضرت کا لفظ سنیت کی شناخت اور پہچان ہے ۔ عرف عام میں اہلسنت کا مترادف ہے اس لیے مسلک اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا معنی ہے مسلک اہل سنت جس کا اطلاق بلاشبہ جائز ہے ۔ ممکن ہے کسی کے دل میں یہ شبہ گزرے کہ جب اس کا معنی مسلک اہل سنت ہے تو پھر لفظ اعلی حضرت کے ذکر سے کیا فائدہ ہے ؟
اس کا جواب کسی ذی ہوش سے پوشیدہ نہیں آج حالت یہ ہے کہ سنی کا لفظ شیعہ کے مقابلے میں بولا جاتا ہے ۔ اس لیے سنی کا لفظ آج وہابیوں دیوبندیوں ، ندویوں وغیرہ سے امتیاز کےلیے کافی نہ رہا ، یہی حال آج لفظ اہل سنت کا بھی ہے ۔ وہابی اپنےکو وہابی اور دیوبندی اپنے کو دیوبندی نہیں کہتے بلکہ وہ بھی اپنے آپ کو اہل سنت ہی کہتے ہیں اور اپنے علماء کو حامی سنت اور امام اہل سنت کا خطاب دیتے ہیں ۔ اس لیے یہ لفظ بھی آج اہل سنت اور اہل بدعات وہابیہ و دیابنہ غیروں کے درمیان امتیاز کےلیے کافی نہ رہا ۔
اب وہ احباب جو کسی ذاتی رنجش اور باہمی چپقلش کی وجہ سے اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی شان گھٹانے میں لگے ہوئے ہیں تھوڑی دیر کےلیے خالی الذہن ہوکر ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ بدمذہبوں سے امتیاز کےلیے کونسا جامع مختصر لفظ انتخاب کیا جائے ، ہمیں یقین ہے کہ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ مسلکِ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے لفظ سے زیادہ موضوع کوئی لفظ نہیں ، کیونکہ سنیت کا شعار یہی لفظ ہے ۔ اہل سنت کی شناخت یہی کلمہ ہے ، بدمذہبوں سے امتیاز اسی کا خاصہ ہے ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ باہمی اختلاف کے نتیجے میں کچھ کرم فرماؤں نے اسے سوالیہ نشان بنانے کی کوشش کی جو بے دلیل ہونے کی وجہ سے سابقہ اتفاق میں رخنہ انداز نہیں ہو سکتا ۔ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جسے مسلمان اچھا جانے وہ اللہ تعالی کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ مسند احمد بن حنبل ۔
صحابی رسول حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کہ قبر میں دو فرشتے آتے ہیں اور اسے بٹھا کر یہ سوال کرتے ہیں کہ مادینک یعنی تیرا دین کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے دینی الاسلام یعنی میرا دین اسلام ہے ۔ (مشکوۃ شریف صفحہ 25،چشتی)
اس حدیث میں ایک فردخاص کی طرف دین کی نسبت ہے تو اعلی حضرت کی طرف مسلک کی نسبت میں کیا قباحت ہے ، جبکہ لفظ اعلی حضرت معیار حق ہے ۔ اس تمہید کو ذہن میں رکھنے کے بعد ترتیب وار ہر سوال کا جواب ملاحظہ فرمائیے ۔
(1) مسلک اعلی حضرت ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ کا انعام ہوا ۔ قرآن شریف کی پہلی سورہ ،سورہ فاتحہ میں ہے صراط الذین انعمت علیہم” ان لوگوں کا راستہ جن پر اللہ تبارک و تعالی نے انعام فرمایا ۔
صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صراط مستقیم طریقہ اہل سنت ہے جو اہل بیت و اصحاب اور سنت و قرآن و سوادِ اعظم سب کو مانتے ہیں ۔
یہ وہ مسلک ہے جس پر حضور سید عالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم رہے ۔ حدیث میں ہے صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ملت ناجیہ کون ہے ؟ سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا جس پر میں ہوں اور میرے صحابہ ہیں ۔بعض روایتوں میں ہے یعنی جماعت اہلسنت ہے ۔ (مشکوۃشریف صفحہ30)
یہ مسلک سوادِ اعظم ہے ۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا : سواد اعظم کی پیروی کرو ۔
مبلغ اسلام حضرت علامہ شاہ عبدالعلیم صدیقی میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ نے آخری وقت مدینہ منورہ میں یہ وصیت تحریر فرمائی تھی ۔” الحمدللہ میں مسلک اہل سنت پر زندہ رہا اور مسلک حق اہلسنت وہی ہے جو اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں میں مرقوم ہیں ، اور الحمداللہ آخری وقت اسی مسلک پر حضور پر نور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے قدم مبارک میں خاتمہ بالخیر ہو رہا ہے ۔ (ماہنامہ رضائے مصطفی گوجرانوالہ شمارہ صفر 1416ھجری صفحہ 10 بحوالہ ماہنامہ ترجمان اہلسنت کراچی شمارہ ذی الحجہ 1397 ہجر ی،چشتی)
مسلک اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا ابھی جو تعارف کرایا گیا اس کے ثبوت کےلیے کھلے ذہن سے آپ کی تصانیف مبارکہ جیسے : ⬇
حسام الحرمین ،فتاوی الحرمین الدولۃ المکيہ، الکوکبۃالشہابيۃ، سبحان الصبوح، النہی الاکيد ،ازالۃ الاثار،اطائب الصیب، رسالہ في علم العقائد والکلام ،تمہيدايمان، الامن والعلا ،تجلی اليقين ،الصمصام ،رد الرفضہ ،جزاء الله يعجبه ،خالص الاعتقاء، انباء المصطفى، الزبده الزكيه،شمائم العنبر، دوام العيش، انفس الفكر،الفضل الموہبی ۔ ان ساری کتابوں کا مطالعہ کرنا کافی ہے ۔
جب یہ حقیقت بخوبی واضح اور عیاں ہوگئی کہ مسلک اعلی حضرت کا معنی مسلک حق اہلسنت و جماعت ہے ، تو ان امور میں جو موقف اور جو حکم اہل سنت کے نزدیک لفظ” اہل سنت و جماعت کا ہے وہی حکم مسلک اعلی حضرت کا بھی ہے ۔ اب ہر شخص اپنے طور پر انصاف اور دیانت کے ساتھ خود فیصلہ کرے اور عناد سے باز رہے ۔
ہم ان احباب سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ذرا یہ بھی سوچیں کہ وہ کس روش پرچل رہے ہیں ؟ کیا ٹھیک اس طرح کی باتیں ایک بدبودار غیر مقلد نہیں کرتا ہے ، کہ مسلمانوں کا مذہب تو صرف ایک اسلام ہے یہ چار مذاہب کہاں سے پیدا کیے گئے ۔ کیا حنفی ، مالکی ، شافعی ، حنبلی مذاہب اسلام کے زمانے میں تھے وغیرہ وغیرہ ۔ ٹھیک اسی طرح کی باتیں کیا تصوف کے دشمن مشرب قادری ، چشتی ، نقشبندی ، سہروردی پھر ان کے گوناگوں شاخوں کے بارے میں نہیں کرتے ؟ ذرا اور قریب آئیے کیا رضوی ، بریلوی اور اشرفی کہنا شدت پسندی ہے ؟ کیا اسلاف نے اپنے آپ کو رضوی کہا ہے ؟ یہ سب عامیانہ باتیں ہیں جو جاہل عوام کو فقہا ، صوفیا ، علماسے برگشتہ کرنے کےلیے ان کے معاند کہا کرتے ہیں ۔ تو ہمارے بعض احباب کو تو کم از کم ان کی روش پر نہ چلنا چاہیے جو لوگ عرف و عادت اور حالتِ زمانہ سے آنکھیں بند رکھتے ہیں ، انہیں یہی سب سوجھتا رہتا ہے ۔ فقہا فرماتے ہیں : جو زمانہ کے حالات سے واقف نہیں ہے تو وہ جاہل ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment