Wednesday, 8 December 2021

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل حصہ نہم

 مسئلہ رفع یدین مستند دلائل حصہ نہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : کوفہ کے جمہور فقھاء و محدثین علیہم الرحمہ کا رفع الیدین نہ کرنا   امام ابو نعیم اپنی کتاب الحلیہ میں یک روایت بیان کرتےہیں : حدثنا أبو بكر بن مالك، ثنا عبد الله بن أحمد، حدثني الأشج قال : سمعت أبا بكر بن عياش، يقول: «رأيت منصور بن المعتمر إذا قام في الصلاة وقد عقد لحيته في صدره»

امام ابو بکر ابن عیاش فرماتے ہیں : امام منصور بن معتمر نماز میں جب قیام کرتے تو سر جھکا کر داڑھی کو سینے پر جما لیتے ۔

[حلیہ الاولیاء جلد 5 صفحہ 40 سند صحیح]


اس کے بعد ایک روایت امام سفیان الثوری سے بیان کرتے ہیں : حدثنا أحمد بن جعفر بن حمدان ، ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، حدثني أبي، ثنا أبو معاوية الغلابي، ثنا يحيى بن سعيد، عن الثوري قال: لو رأيت منصورا يصلي لقلت: يموت الساعة “

امام سفیان الثوریؒ امام یحییٰ بن سعید سے فرماتے ہیں : اگر امام منصور بن معتمر کو نماز پڑھتا دیکھ لیتے تو کہتے بس یہ ابھی انتقال کر جائیں گے ۔ [حلیہ الاولیاء جلد5 ، ص 40و سند صحیح]


امام منصور بن معتبر کوفہ کے جید محدثین اور فقھاء میں سے ایک تھے

جیسا کہ امام ذھبی سیر اعلام میں فرماتے ہیں : منصور بن المعتمر أبو عتاب السلمي


الحافظ، الثبت، القدوة، أبو عتاب السلمي، الكوفي، أحد الأعلام.


ان کے شیوخ کے بارے ذکر کرتے ہوئے امام ذھبی فرماتے ہیں : قلت: يروي عن: أبي وائل، وربعي بن حراش، وإبراهيم النخعي، وخيثمة بن عبد الرحمن، وهلال بن يساف، وزيد بن وهب، وذر بن عبد الله، وكريب، وأبي الضحى، وأبي صالح باذام، وأبي حازم الأشجعي، وسعيد بن جبير، وعامر الشعبي، ومجاهد، وعبد الله بن مرة، وطبقتهم.

میں کہتا ہوں انہوں نے


حضرت ابی وائل ، ربیع بن خراش


حضرت ابراہیم النعی


حضرت امام خثیمہ


حضرت ابی حازم


حضرت سعید بن جبیر


امام شعبی


امام مجاہد وغیرہم سے بیان کیا ہے


یعنی کبیر تابعین ان کے شیوخ تھے اور حضرت امام معتمر کی نماز کے بارے میں ذکر کرنے والے امام ابو بکر بن عیاش فرماتے ہیں :

حدثني ابن أبي داود قال: ثنا أحمد بن يونس , قال: ثنا أبو بكر بن عياش قال: ما رأيت فقيها قط يفعله , يرفع يديه في غير التكبيرة الأولى

امام ابو بکر بن عیاش فرماتے ہیں : میں نے کسی عالم فقیہ کو کبھی بھی تکبیر افتتاح کے علاوہ رفع الیدین کرتے نہیں پایا ۔ [شرح معانی الاثار برقم : 1367 وسند صحیح،چشتی]


اور یہی امام حضرت ابن عمر کی روایت بیان کرتے تھے : حدثنا ابن أبي داود، قال: ثنا أحمد بن يونس، قال: ثنا أبو بكر بن عياش، عن حصين، عن مجاهد، قال: «صليت خلف ابن عمر رضي الله عنهما فلم يكن يرفع يديه إلا في التكبيرة الأولى من الصلاة»

امام ابو بکر بن عیاش فرماتے ہیں حصین کے طریق سے امام مجاہد سے : وہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابن عمر کے پیچھے نماز پڑھی وہ رفع الیدین نہیں کرتے تھے سوائے تکبیر افتتاح کے نماز میں ۔ [شرح معانی الاثار ، برقم : 1357]


ان دلائل سے ان محدثین کا رد ہوتا ہے جنہوں نے ابو بکر بن عیاش پر جرح کی ہے کہ ابن عمر سے بیان کرنے میں ابو بکر بن عیاش کو خطاء ہوئی ہے انکو اختلاط ہو گیا تھا ۔ جبکہ دلائل سے ثابت ہے کہ ابو بکر بن عیاش کا مذہب اور تدبر تھا اس مسلے پر کہ انہوں نے کسی کو رفع الیدین کرتے نہیں پایا اور وہ ابن عمر سے ترک رفع الیدین کی روایت میں کیسے وھم کھا سکتے ہیں جبکہ انکا عمل اپنی بیان کردہ روایت پر تھا اور خود امام بخاری نے اپنی صحیح میں ابن ابی داود سے ابو بکر بن عیاش کی روایات کو بطور احتجاج نقل کیا ہے روزہ کے باب میں ۔ نہ کہ متابعت میں ۔ اور حضرت ابن عمر سے ترک رفع الیدین بیان کرنے میں امام ابو بکر بن عیاش منفرد بھی نہیں ہیں

جیسا کہ ابن عمر سے ایک روایت امام محمد نے بیان کی ہے اپنی سند سے موطا میں :

قَالَ مُحَمَّدٌ , أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ حَكِيمٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حِذَاءَ أُذُنَيْهِ فِي أَوَّلِ تَكْبِيرَةِ افْتِتَاحِ الصَّلاةِ، وَلَمْ يَرْفَعْهُمَا فِيمَا سِوَى ذَلِكَ ۔

امام محمد فرماتے ہیں : مجھے خبر دی محمد بن ابان بن صالح انہوں نے عبدالعزیز بن حکیم سے کہ میں نے ابن عمر کو دیکھا وہ نماز میں سوائے شروع کے رفع الیدین کرنے کے بعد اسکی طرف نہ لوٹتے ۔ [موطأ مالك برواية محمد بن الحسن الشيباني برقم : 108]


اب اس روایت میں مجاہد کا متابع عبدالعزیز بن حکیم ہے


اور ان سے بیان کرنے والا محمد بن ابان صالح ہے


جو ضعیف راوی ہے لیکن متابعت و شواہد میں اسکی روایت قبول ہوتی ہے


جیسا کہ متشدد امام ابی حاتم فرماتے ہیں : نا عبد الرحمن قال سألت ابى عن محمد بن أبان بن صالح فقال ليس هو بقوى الحديث يكتب حديثه على المجاز ولا يحتج به بابة حماد بن شعيب الحمانى ۔

امام ابن ابی حاتم فرماتے ہیں میں نے اپنے والد سے محمد بن ابان بن صالح کے بارے پوچھا تو فرمایا کہ یہ قوی ضبط والا نہ تھا لیکن اسکی روایت لکھی جائے (متابعت و شواہد میں ) لیکن اس سے (منفرد ہونے میں ) احتجاج نہیں کیا جائے گا ۔ [الجرح والتعدیل ]


امام بخاری کہتے ہیں کہ یہ قوی نہیں تھا

محمد بن أبان بن صالح بن عمير الجعفي: عن أبي إسحاق، وحماد بن أبي سليمان، وليس بالقوي.[الضعفاء، بخاری برقم : 326]

امام ابن عدی الکامل میں اسکے بارے فرماتے ہیں کہ : محمد بن أبان بن صالح كوفي قال الشيخ : ومحمد بن أبان له غير ما ذكرت من الحديث وفي بعض ما يرويه نكره، لا يتابع عليه ومع ضعفه يكتب حديثه.

محمد بن صالح کی میں نے روایت ذکر کی ہے اور بعض روایات میں اسکی نکارت ہے اسکے علاوہ کوئی اسکی متابعت نہیں کرتا لیکن یہ ضعیف ہے اس کی روایت لکھی جائے گی (شواہد و متابعت میں) ۔ [الکامل فی الضعفاء1631]

تو اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ امام محمد بن الحسن کا شیخ محمد بن صالح کی روایت شواہد و متابعت میں قبول ہوتی ہے


حضرت بن عمر ؓ سے ترک رفع الیدین کا عمل بیان کرنے میں نہ ہی


امام مجاہد منفرد ہیں


اور نہ ہی ہی ابو بکر بن عیا ش منفرد ہے بلکہ ایک معمولی ضعیف روایت سے ابو بکر بن عیاش کی روایت کو تقویت حاصل ہے جس سے ابو بکر بن عیاش کا تفرد ختم ہو گیا اثر ابن عمر کو بیان کرنے میں اور یہ بات اصولا اب ثابت ہو گئی کہ ابو بکر بن عیاش کو نہ وہم ہو ا اور نہ ہی خطاء ہوئی ہے اس روایت کو بیان کرنے میں


اور موطا امام محمد امام محمد کی مشہور و معرروف کتاب ہے اس پر وہابیہ کا اعتراض باطل ہے


اور امام محمد بن الشیبانی ثقہ ہیں جیسا کہ امام شافعی نے ان سے مسلسل احتجاج کیا ہے


اور وہابیہ یہ بات کبھی تسلیم نہیں کرنے والے لیکن


متشدد ناقد دارقطنی کہتا ہے کہ میرے نزدیک محمد بن الحسن الشیبانی لائق ترک نہیں یعنی اس کی روایت سے احتجاج کیا جائے گا


اب وہابی اس قول کو احتجاج پر محمول کریں یا شواہد و متابعت میں دونوں صورتوں میں ان کے ہاتھ کچھ نہں لگے گا


حضرت ابن عمر سے صرف شروع میں رفع الیدین کا تیسرا اثر سند حسن و صحیح سے :


حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، ثنا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مُقِيمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” تُرْفَعُ الأَيْدِي فِي سَبْعِ مَوَاطِنَ: افْتِتَاحِ الصَّلاةِ، وَاسْتِقْبَالِ الْبَيْتِ، وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَالْمَوْقِفَيْنِ، وَعِنْدَ الْحَجَرِ “. [كشف الأستار عن زوائد البزار برقم: 519، امام ہیثمی]

وَقَالَ الْبَزَّارُ فِي مُسْنَدِهِ: حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٌ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ ثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى عَنْ الْحَكَمِ عَنْ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ نَافِعٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: “تُرْفَعُ الْأَيْدِي فِي سَبْعَةِ مَوَاطِنَ: افْتِتَاحِ الصَّلَاةِ. وَاسْتِقْبَالِ الْبَيْتِ. وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ. وَالْمَوْقِفَيْنِ. وَعِنْدَ الْحَجَرِ” ۔ [مسند البزار بحوالہ نصب الرائیہ] ۔ (سند حسن )

حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن عمر سے مروی ہے : کہ نبی کریم نے فرمایا ۔ رفع الیدین سات مقامات پر کیا جائے گا نماز کے شروع میں بیت اللہ کی زیارت کے وقت صفاءو مروہ پر ، عرفات اور مزدلفہ میں وقوف کے وقت اور رمی جمار کے وقت بھی

حَدَّثَنَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تُرْفَعُ الْأَيْدِي فِي سَبْعَةِ مَوَاطِنٍ، وَفِي الْخَبَرِ وَعِنْدَ اسْتِقْبَالِ الْبَيْتِ ۔

ابن خزیمہ متن میں اضافہ بھی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر و ابن عباس سے مروی ہے رفع الیدین سات مقامات پر ہے اورایک روایت میں یہ بھی ہے کہ بیت اللہ کے وقت بھی ۔ [صحيح ابن خزيمة برقم : 2703وسند حسن کل رجال ثقات،چشتی]


اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بخاری میں جو حضرت ابن عمر سے ترک رفع الیدین کی روایت ہے ایک تو وہ موقوف ہے اور دوسری بات کہ ابن عمر جب نبی اکرم ﷺ کی ترک رفع الیدین کی روایات پر مطلع ہوئے تو وہ بھی رفع الیدین ترک فرماگئے تھے ۔ جیسا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فَهَذَا ابْنُ عُمَرَ قَدْ رَأَى النَّبِيَّ يَرْفَعُ، ثُمَّ قَدْ تَرَكَ هُوَ الرَّفْعَ بَعْدَ النَّبِيِّ فَلاَ يَكُونُ ذَلِكَ إلَّا وَقَدْ ثَبَتَ عِنْدَهُ نَسْخُ مَا قَدْ رَأَى النَّبِيُّ فِعْلَهُ وَقَامَتْ الْحُجَّةُ عَلَيْهِ بِذَلِكَ۔ فَإِنْ قَالَ: قَائِلٌ هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ” قِيلَ لَهُ “وَمَا دَلَّك عَلَى ذَلِكَ؟ فَلَنْ تَجِدَ إلَى ذَلِكَ سَبِيلًا”۔ فَإِنْ قَالَ: فَإِنْ طَاوُسًا قَدْ ذَكَرَ أَنَّهُ رَأَى ابْنَ عُمَرَ يَفْعَلُ مَا يُوَافِقُ مَا رُوِيَ عَنْهُ، عَنْ النَّبِيِّ، مِنْ ذَلِكَ۔ قِيلَ لَهُمْ: فَقَدْ ذَكَرَ ذَلِكَ طَاوُسٌ، وَقَدْ خَالَفَهُ مُجَاهِدٌ۔ فَقَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ ابْنُ عُمَرَ فَعَلَ مَا رَآهُ طَاوُسٌ مَا يَفْعَلُهُ قَبْلَ أَنْ تَقُومَ عِنْدَهُ الْحُجَّةُ بِنَسْخِهِ، ثُمَّ قَامَتْ عِنْدَهُ الْحُجَّةُ بِنَسْخِهِ فَتَرَكَهُ وَفَعَلَ مَا ذَكَرَهُ عَنْهُ مُجَاهِدٌ۔ هَكَذَا يَنْبَغِي أَنْ يُحْمَلَ مَا رُوِيَ عَنْهُمْ، وَيُنْفَى عَنْهُ الْوَهْم، حَتَّى يَتَحَقَّقَ ذَلِكَ، وَإِلَّا سَقَطَ أَكْثَرُ الرِّوَايَاتِ ۔

ابن عمر رضی ﷲ عنہما جنہوں نے جناب رسول ﷲ ﷺ کو رفع الیدین کرتے دیکھا پھر انہوں نے ہاتھوں کااٹھانا آپ ﷺ کے بعد چھوڑ دیا ۔ اور اس کے خلاف عمل کیایہ اس صورت میں درست ہے جبکہ ان کے ہاں اس کا نسخ ثابت ہوچکاہو، جس کو انہوں نے جناب نبی کریم ﷺ سے دیکھاتھا۔ اور ان کے ہاں اس کےنسخ کی دلیل ثابت نہ ہوگئی ہے۔ اگرکوئی یہ اعتراض کرے کہ یہ روایت سرے سے منکرہے تو اس کے جواب میں کہاجائے گا، آپ کوکس نے بتلایا؟ آپ کے لئے اس کے منکرقرار دینے کی کوئی صورت نہیں۔ اگرکوئی یہ کہےکہ طاؤس نےابن عمررضی ﷲعنہ کووہ فعل کرتے دیکھاجواس روایت کے موافق ہے جو انہوں نے جناب نبی اکرم ﷺ سے روایت کی، تو جواب میں یہ کہاجائے گاکہ طاؤس نے یہ بات ذکرکی ہے مگرمجاہدنے ان کی مخالفت کی ہے۔ تو اب یہ کہنا درست ہواکہ طاؤس نے ابن عمررضی ﷲ عنہما کے اس وقت کے عمل کو دیکھاجب ان کے سامنے نسخ کے دلائل نہ آئےتھے، پھرجب ان کے ہاں نسخ کے دلائل قائم ہوگئے تو انہوں نے رفع الیدین کوترک کردیااور وہی کیاجو ان سےمجاہدنے دیکھا ۔ اسی طرح مناسب یہ ہے کہ جوان سےمروی ہے وہ اس پرمحمول کیا جائے اور وہم کی نفی کی جائےتاکہ یہ بات ثابت ہو جائے ورنہ اکثرروایات کو ساقط الاعتبار قرار دینا پڑےگا ۔ [معانی الاثار ، برقم : 1323] ۔ [مزید حصّہ دہم میں ان شاء اللہ]

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...