Saturday 25 December 2021

آزادی اظہارِ رائے اور اسلام حصّہ اوّل

0 comments

 آزادی اظہارِ رائے اور اسلام حصّہ اوّل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : آزادی رائے کے اظہار کا جہاں تک تعلق ہے اسلام نے حدود و قیود کی مذکورہ پابندی کے ساتھ اجازت دی ہے ، تبھی تو تاریخ اسلام کے سنہرے اوراق ایسے واقعات سے بھرے پڑے ہیں ، ملک عرب میں کھجوروں کے بہت باغات ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے عہد مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کے غذائی اسباب میں کھجوروں کو بنیادی حیثیت حاصل تھی ۔ عربوں کے ہاں ’‘تابیر’‘ کا رواج تھا یعنی کھجور کے درختوں میں جو نر و مادہ ہوتے ہیں ان کے درمیان ایک خاص عمل کے ذریعہ سے اتصال قائم کیا جاتا تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ایک مرتبہ اس سے منع فرما دیا تھا جس کی وجہ کھجور کی فصل جیسی ہونی چاہئے تھی نہیں ہوسکی تھی ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب اس کی شکایت کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ان کے کیے جانے والے تابیر کے عمل کی اجازت مرحمت فرمادی اور فرمایا انتم اعلم بامور دنیاکم ۔ (مسلم ۲۱۴۵رقم الحدیث ۸۴۳۴)


اسلام اور شعائر اسلام اور اس کے کتاب و سنت سے منصوص احکامات کے سوا دیگر امور میں اسلام کے دیے گئے آزادی رائے کے حق کی وجہ رعایا کے ایک عام آدمی کو بھی یہ اجازت حاصل ہے کہ وہ خلیفہ وقت کے آگے بھی پوری آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت فاروق اعظم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نماز جمعہ کا خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے یہ فرما رہے تھے ’‘اسمعوا واطیعوا’‘ یعنی سنو اور اطاعت کرو ۔ اس وقت ایک صحابی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ نہ ہم آپ کی بات سنیں گے ، نہ عمل کریںگے جب تک کہ آپ ان دو چادروں کے بارے میں وضاحت نہ فرما دیں جو آپ نے اوڑھ رکھی ہیں کیونکہ بیت المال سے سب کو ایک ایک چادر تقسیم ہوئی ہے پھر آپ کے بدن پر دو چادریں کہاں سے آگئیں ، اعتراض معقول تھا، خلیفہ وقت ہونے کے باوجود آپ نے اس کا نہ صرف برا نہیں مانا اور نہ ہی کوئی غم و غصہ کا اظہار کیا بلکہ فاروقی جلال رکھنے والی ہستی نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق کے آگے سر تسلیم خم کر کے بڑی نرمی کے ساتھ وضاحت کیلئے اپنے بیٹے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو طلب کیا اور ان سے خواہش کہ وہ اس کا جواب دیں جس پر ابن عمررضی اللہ عنہما نے وضاحت کی کہ خلیفة المسلمین چونکہ طویل القامت ہیں ایک چادر ان کے لئے ناکافی تھی اس لیے میں نے اپنے حصہ کی چادر ان کو بطور تحفہ دی ہے ۔ (اخرجہ البیہقی السنن الکبری ۷۳۳۲،چشتی)


اور ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ مہرپر تحدید عائد کرنا چاہتے تھے لیکن ایک بڑھیا نے آپ کے آگے صدائے حق بلند کی اور کہا کہ اے عمر (رضی اللہ عنہ) اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے جس پر کوئی تحدید عائد نہیں کی تو پھر آپ کو کیسے حق پہنچتا ہے کہ اس پر کوئی تحدید عائد کریں ، اس خاتون نے قرآن پاک کی یہ آیت ’‘تم نے بیوی کو مہر کے عوض خزانہ دے رکھا ہو تو اس میں سے کچھ نہ لو ۔ (النساء۰۲)’‘ کی تلاوت کی ۔ ایک عورت کی فقہی بصیرت سے متاثر ہو کر انہوں نے بے ساختہ یہ کہا ’‘کل احد افقہ من عمر’‘ یعنی یہ بات خوش آئند ہے کہ یہاں تو ہر ایک عمر سے بھی زیادہ فقیہہ ہے اور یہ جملہ بطور اظہار مسرت دو یا تین مرتبہ دہرایا ۔ (تاریخ الخلفاء الراشدین ۱۷۶۱ بحوالہ عیون الاخبار۱۵۵،چشتی)


دنیا کی موجودہ تصویر امت مسلمہ کے سامنے ہے ، ان جیسے حالات میں مسلمانوں کو رد عمل کے طور پر کیا کرنا چاہئے ، اس پر سر جوڑ کر غور کرنے کی ضرورت ہے ، وقتی عمل کے طور پر مسلمانوں کو متحدہ طور پر اسلام دشمن واقعات کے خلاف قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پرزور احتجاج کرنا چاہیے اور موجودہ وسائل کو اختیار کر کے اپنے جذبات و احساسات کو سارے سربراہان مملکت اور خاص طور پر اقوام متحدہ کے ذمہ داروں تک پہنچانا چاہیے ، دائمی طور پر ان خرابیوں اور جرائم کے سدباب کےلیے اسلام کے پیغام کو ہر ہر جہت سے دنیا بھر میں عام کرنے کی سعی کرنا چاہئے ۔ اس کام کےلیے اس وقت شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلک و مشرب کے جھگڑوں سے اونچے اٹھ کر تمام مکاتب فکر کے مقتدر علماء و مشائخ سب ایک ہوں اور بیک آواز سب مل کر اس کام کو انجام دیں ، اس موقعہ پر یہ نکتہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ مسلک و مشرب کے اختلافات اسلام میں ہیں نہ کہ اسلام مسلک و مشرب میں ، یہ امت خیر امت ہے دعوت دین اس کی ذمہ داری ہے ، اس ذمہ داری سے کماحقہ عہدہ برآ نہ ہونے کی وجہ دنیا میں اس طرح کے واقعات کا بار بار اعادہ ہے ۔


اللہ نے اسلام کی فطرت میں لچک دی ہے اس کو جتنا دبایا جائے وہ اتنا ابھر کر رہے گا ، اس طرح کے واقعات جہاں دل شکن اور قابل مذمت ہیں وہیں اللہ کی ذات سے یہ یقین بھی ہے کہ اس شر سے ان شاءاللہ العزیز خیر ظاہر ہوگا اور اسلام کے نور ہدایت سے انسانی سینوں کے روشن ہونے کا یہ ذریعہ بنے گا ۔ ذرائع ابلاغ سے ملنے والی بعض اطلاعات یہ بھی ہیں کہ ۹۱۱ کے واقعہ کے بعد امت مسلمہ کو جن مظالم کا شکار بنایا گیا اور جن حالات سے امت مسلمہ کو گذارا گیا وہ ایک غم ناک باب ہے لیکن اس واقعہ کے بعد مغربی ممالک کے رہنے والوں کا اسلام کی طرف رجوع بڑھ گیا ہے ۔ فطری بات ہے کہ جب حق کی مخالفت کی جاتی ہے توسادہ لوح افراد کے ساتھ مخالفین کے اندر بھی یہ تجسس پیدا ہوجاتا ہے کہ آیا جس کی مخالفت کی جارہی ہے وہ کس حد تک مبنی بر صداقت ہے اور وہ کیا عوامل ہیں جو کچھ طاقتوں کو مخالفت پر اُکسا رہے ہیں ۔


چنانچہ اسلام کی تعلیمات جاننے کےلیے کتاب و سنت و سیرت النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے واقفیت حاصل کرنے کےلیے ایک بہت بڑا طبقہ خود بخود مائل ہوا ، دشمنوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی زہر افشانیوں کی صداقت تو کچھ بھی ان کے ہاتھ نہیں لگی البتہ یہ ہوا کہ ان کے سینے مبنی بر حق و صداقت ان حقائق سے ایسے معمور ہوگئے کہ جنہوں نے ان کو اسلام کی دہلیز تک پہنچا دیا اور اب وہ اسلام کے سایہ رحمت میں پناہ حاصل کر کے مطمئن بھی ہیں اور دوسروں کو اسلام کے سائبانِ رحمت میں پہنچانے کی جدو جہد میں مصروف عمل ہیں ۔


آزادی اظہار رائےدنیا کا ایک اہم موضوع ہے۔آزادی تقریروتحریر انسانی حقوق کا ایک اہم جزُ ہے ۔ (General Assembly of the United Nations (1948-12-10). "Universal Declaration of Human Rights'' )pdf) (in English and French). pp. 4–5. Retrieved ,16-09-2017)


انسان کے جذبات اور احساسات کو اگر کوئی ٹھیس پہنچی ہے تو وہ  احتجاج کاحق رکھتا ہے ۔ (Ernest William Hocking,"Freedom of the Press: A Framework of Principle"( A Report from the Commission on Freedom of the Press, 1977, 88-89) 


وہ اپنی مظلومیت کا اظہار کرسکتا ہےتاکہ اُس کو انصاف حاصل ہوسکے ۔ (Johan Milton, Aeropagitica and Other Tracts, 27 (1644))


دنیا کے مفکر متفق ہیں کہ انسان اپنی زندگی کے سلسلے میں آزادہے البتہ یہ ـضروری ہے کہ  اس طرز عمل سے دوسروں پر زیادتی نہ ہو۔ اگر کسی قوم یا شخص کے سیاسی،مذہبی اور اقتصادی و سماجی حقوق پامال کئے جاتے ہیں تو وہ اس کے خلاف آواز اُٹھا نے کا بھر پور حق رکھتے ہیں  ۔(Lon L. Fuller, "The morality of Law'' 184-186 (1963](.Cited in Dr. Madhabhusi Sridhar, The Law of Expression, An Analytical Commentary on Law for Media 20 (Asia Law House, Hyderabad (2007))


یورپ میں اس طرزِ فکر کی ابتدا وسطی دور میں ہوئی ۔برطانیہ میں اظہار رائے کی تاریخ کا آغاز سولہویں صدی سے ہوتا ہے۔  انسان کی انفرادی آزادی اور جمہوری حقوق کے لیے کوشش ہوئی ۔ (A.V. Dicey, “Introduction to the Study of Law of the Constitution” Macmillan, New York, 1959, 10th edi,. p. 238ff, 247ff)


امریکہ میں اس  رجحان کا آغاز اٹھارویں صدی کے وسطی دور سے ہوا۔  اقوام متحدہ کی  جنرل اسمبلی میں آزادی اظہار رائے کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا  گیا ۔ (Subhash C. Gupta, “Right to Information Act, 2005: A New Approach to Public Accountability” in Law in India Emerging Trends, Publications Bureau, Punjabi University, Patiala (eds.) 2007, p. 291)


انسانی حقوق کے عالمی اعلانیہ کی دفعہ ۱۹ میں  اسے انسانی حق مانا گیا ۔ (United Nations General Assembly Resolution No. 217A (III), 10th December, 1948)


دنیا میں ہر انسان آزاد رہنا چاہتا ہے اُس کی آزادی پر روک اُس کو گوارا نہیں ہوتی ۔ کیونکہ آزادی انسانی فطرت کا ایک انمول پہلو ہے اوراسلام نے بھی اس کا احترام برقرار رکھا ہے ۔


جدید معاشرے میں آزادی رائےایک بنیاد ی حق ہے ، اورآئینی جمہوری عمل میں اس کارول مسلّم ہے ۔  (BEATSON and CRIPPS, Freedom of expression and freedom of information: essays in honour of Sir A. Mason (Oxford University Press, Oxford 2000) 17)


یورپی عدالت نے یہ ا لفاظ درج کیے ہیں : اظہارکی آزادی ایک جمہوری معاشرے کی لازمی بنیادوں میں سےایک ہے ، اس کی ترقی کی بنیادی شرائط میںشامل ہے اورہرفردکی تکمیل ذات کےلئے ضروری ہے ۔ (P. VAN DIJK and others, Theory and practice of the European Convention on Human Rights (4th EdnIntersentia, Antwerpen 2006) 774)


آزادی کی اہمیت کا صحیح ادراک وہی کر سکتا ہے  جوانسانوں کی غلامی سے آزاد ہو ناروا انسانی قانون کا پابند نہ ہو اور  اپنے حقوق  بلا رکاوٹ حاصل کر سکے ،  اسلام نے آزادی پر بہت زور دیا۔ انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلانا اسلام کے مقا صد میں شامل ہے۔ یورپ میں زور دے کر کہا گیا کہ ’’ اظہار کی آزادی کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن (معلومات حاصل کرنے کا حق) بھی آزادی کاتقاضا ہےان لوگو ںکوبھی یہ حق دیا گیا ہے جنہوںنےکوئی ناشا ئستہ حرکت کی ہو وہ بھی یہ حق رکھتے ہیں کہ انفار میشن یعنی معلومات حاصل کرسکیں،کیونکہ اس کےبغیرجمہوری معاشرہ اپنے وجود پر قائم نہیںرہ سکتا ۔ (LAWSON and SCHERMERS, Leading cases of the European Court of Human Rights (ArsAequiLibri, Nijmegen 1997) 28،Chishti)


لفظ رائے کے معنی اور تعریف کو دانشور حضرات نے سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ رائے کا پس منظر انسان کی ذہنی کاوش ہے ہر انسان اپنی ذہنی صلاحیت کے مطابق اظہار رائے کرتا ہے۔ ابن قیم ’’اعلام الموقیعن‘‘ میں لکھتے ہیں’’ غور و فکر اور تحقیق کے بعد مجتہد جو نظریہ قائم کرتا ہے اسے رائے کہتے ہیں ۔ (اعلام الموقعین عن رب العالمین، تخقیق طہ عبد الرؤف سعد، دارالجیل، ١٩٧٣۔جلد، ۲، ص۔۱۴۳،چشتی)


علامہ ابن حزم نے بھی اس موضوع پر گفتگو کی ہے ۔  (المحلی بلآثار، دار الآفاق الجدیدہ، بیروت)


مغرب کا رویہ


مغرب میں مقبول نعرے یہ ہیں : آزادی اظہار رائے،امن و آشتی، روشن خیالی، علم و شعور، وسعت نظر، مذہبی رواداری، شہری آزادی، لیکن مسلمانوں کے ساتھ معاملہ کرتے وقت اہلِ مغرب کا تعصب پر مبنی رویہ سامنے آ جاتا ہے ۔ (آزادی اظہار کے نام پر ، علم و عرفان پبلیشرز، لاہور، ۲۰۱۳، ص:۲،چشتی)


عصر حاضر میں آزادی اظہار رائے ایک توجہ طلب معاملہ اور حساس موضوع  ہے۔ یہ مشرق و مغرب میں انسانیت کےاہم مسئلے کی حیثیت اختیار کر چکاہے۔ یہ حقیقت عیاں ہے کہ عصر حاضر میں  آزادی اظہار رائے کو مبہم انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کی اصلیت پر پردہ ڈال کراس کو مطلق آزادی کا نام دیا جاتا ہے آزادی اظہار رائے حقیقت میں انسان کے اساسی تصورات  سے مربوط ہے ۔


بعض اہل مغرب نے اسلا م کا مطالعہ اس لیے کیا کہ مختلف اعتراضات کرکےمغربی عوام کو اس سے دوررکھا جائے عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ اسلام عیسائیت کے مقابلے میں کم تر مذہب ہے۔ قرآن کا انگریزی ترجمہ کیا گیا تو اس کے پہلے صفحے پر عبارت لکھی گئی کہ عوام کو القرآن کے خطرات سے آگا ہ کیا جاتاہے اس طرح انہوں نے اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کی ۔ (بنیاد پرستی اور تہذیبی کشمکش، حرا پبلی کیشنز، لاہور،۱۹۹۴، ص۔۱۷۵)


ایسی خیانت انسانیت کے  خلاف کاری ضرب ہے کیونکہ علمی تحقیق کا کام سچ اور حق کو عوام کے سامنے لانا ہے نہ کہ تحقیق کے پردے میں گمراہ کر نا ہے ۔ کثیرالجہت سماج میں  ایک دوسرے کے عقائد اوراصولوں کا احترام ضروری ہے ۔ اظہار رائےکی آزادی حقیقت کوعوام الناس کے سامنے ظاہر کرنے میں مدد گار ہوتی ہے۔ آزادی کی موجودگی ترقی کاپیمانہ ہے ۔ آزادی کا مدعا یہ ہے کہ انسان فکر، نظریہ اور سوچ میں حق کو دریافت کرسکے، عمل اور نظام کے بارے میں درست نقطۂ نظر تک پہنچ سکے ۔ فکر ، سوچ یانظریہ کی ترویج کر سکے ۔ اور غلط فکرو عمل پر تنقید کر سکے ۔ (اصلاح معاشرہ ابو الاعلیٰ مودودی)


عالمی ضوابط


آزادیٔ رائے انسان کا بنیادی اور اخلاقی حق ہے، جس سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہو تے ہیں ۔ یہ حق شعورکو پروان چڑھا کر گتھیوں کو سلجھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ تحقیق کے نئے ابواب سے روشناس کرواتا ہے۔ اجتماعی شعور سے اخذ کی گئی متنوع آراء جب باہم ملتی ہیں تو وہ اجتماعی مفاد کے لیے موزوں ہوتی ہیں۔ انسانی حقوق کاعالمی منشور بھی انسان کی آزادی کا قائل ہے اور انسانی آزادی کا اعلان کرتا ہے اس کی دفعات میں جن اصولوں کی وضاحت کی گئی وہ یہ ہیں۔   


ہر انسان چاہےوہ کہیں بھی رہتا ہو اپنی آزادی، جان اور ذات کے تحفظ کا حق رکھتا ہے وہ انسانی غلامی سے آزادہے اور آزاد زندگی گزارنے کا حقدار ہے اُس کو کسی بھی  صورت میں غلام نہیں بنا یا جا سکتا  ہر صورت اور ہر مقام پر قانون اس کی آزاد شخصیت کو تسلیم کرنے کاذمہ دار ہے وہ اپنی تہذیبی شناخت کا بھر پور اظہار کرنے کا حق رکھتا ہے اس کو کسی بھی قسم کی  جسمانی اذیّت نہیں دی جاسکتی۔ قانون کی نظر میں سب بغیر کسی تفریق کے امان پانے کے برابر حقدار ہیں، کسی شخص کوقانون کے تقاضے پورے کیے بغیر  محض حاکم کی مرضی پر گرفتارو نظربند نہیں کیا جا سکتا ، فردجرم  عاید نہیں کی جا سکتی اور جلاوطن نہیں کیا جا سکتا ۔ علاوہ ازیں کسی بھی شخص کو اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کرنے کا پوراحق ہے کسی کواختیار نہیں کہ وہ دوسرے کی عزت اور نیک نامی پر حملہ کرے ۔ ہر شخص کا حق ہے کہ قانون اسے حملے یا مداخلت سے محفوظ رکھے۔ہر شخص کا حق ہے کہ اسے  ریاست کی حدود کے اندر نقل و حرکت کی اور سکونت اختیار کرنے کی آزادی ہو۔ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی ملک سے چلا جائے چاہے یہ ملک اس کا اپنا ہوویسے ہی واپس آجانے کا بھی حق ہے ۔ (Published by the Office of Public Information, United Nations Universal Declaration of Human Rights (Urdu),Reprinted inU.N. OPI/15–15377-June 1965-5M)


اِن تمام بین الاقوامی ضـوابط کے باوجود مغربی تعصب نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے کہیں وہ دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو داخلہ  سے روکتے ہیں تو کہیںناروا امتیاز  برتتے ہیں ۔ قرآن کریم نے ہر معاملے میں انصاف کی تلقین کی ہے اور صاف واضح گفتگو کی ہدایت کی ہے ۔ (القرآن ؛ ۱۷:۷۰)


حدود کا احترام


اظہارِ رائے کی آزادی کا منشا یہ ہے کہ کسی کو بھی اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کی اجازت ہے، البتہ  دوسرے کی تذلیل وکردار کشی کی اور تہمتیں لگا کر نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہے۔ اظہار رائے کی آزادی میں تنقید کا حق شامل ہے، اسلام ہر انسان کو یہ حق عطا کرتا ہے کہ وہ ریاست کے معاملات میں اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدود کو پامال کرے۔ آزادی اظہار رائے کو حدود  میں رہ کر استعمال کرنا چاہئے ۔ قرآن مجیدمومنوں کی صفت پیش کرتا ہے۔ مومنین کا طرز عمل  یہ ہے کہ حق بات کو لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔


’’وہ بھلائی کا حکم دیتے ہیں اوربُرائی سے روکتے ہیں‘‘(آل عمران آیت: ۱۱۰) 


عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی لکھتے ہیں کہ :  اسلامی تصور انسانی حقوق کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے ۔ دنیا میں بہت سے اختلافات اس لئے ہوتے ہیںکہ حقوق کے بارے میں ضروری علم کی کمی ہوتی ہے۔ اسلام اور اسلامی حکومت  کے بارے میں کمتر واقفیت  بگاڑ کی ذمہ دار ہے ۔ (Dr. Abdullah bin Abdul-Mushin at-Turki, Islam and Human Rights/25/7/12.Chishti)


اسلام آزادی رائے پر ناروا  پابندی نہیں لگاتا بلکہ حدود اور اصول بیان کرتا ہے اِن حدود اور اصو لو ں کی بنیادپراسلام،  انسان کوغلط فکر، طرز عمل اور غلط راہ اختیار کرنے سے روکتا ہے کیونکہ غلط راہ اور رویہ سماجی زندگی کو اجیرن بنا دیتا ہے’’تو بتوں کی ناپاکی سے بچو اور جھوٹ بات بیان کرنےسے بھی بچو ‘‘ ۔ (القرآن ؛ ۲۲:۳۰)


قانونی لغت کےمطابق آزادی اظہار رائے کا مطلب ہے:’’ بغیرکسی رکاوٹ کے اپنے خیالات کا زبانی،تحریری یادیگر زرائع کے ذریعہ اظہار کرنا ۔ (http://www.duhaime.org/Legal Dictionary / F/ Freedom of Expression.aspx /30/7/12)


انسان اپنی رائے کے اظہارمیں آزاد ہے  وہ دوسروںکاپابند نہیں ۔ (Al-Eili, Dr. Abdul Hakeem Hassan , Al-Hurrayat Al-Ammah,Darulfikr Al-Arabi, Beirut , 1983, Pp. 466)


قاہرہ کےانسانی حقوق کےاعلانیہ کےمطابق’’ ہر فرد کو اس طرح آزادانہ طورپر اپنی رائے کا اظہار کرنےکاحق ہوناچاہیےجوشرعی اصولوںکےخلاف نہ ہو ۔ (http://www.oic-oci.org/english/article/human.htm/29/7/12)


لوگوں کو صحیح طرز کی طرف دعوت اور بُرائی سے روکنا آزادی  اظہار رائے کے بغیر ممکن نہیں ، محمد صلاح الدین صاحب لکھتے ہیں کہ قرآن سے نہ صرف آزادی اظہار رائے کا بھرپور حق ملتا ہے بلکہ آزادیِ اظہار کاصحیح رخ بھی متعین ہو تا ہے ۔ اس طرح انسانیت ٹھیک ڈگر پر آ سکتی ہے ۔(آزادی اظہار کے نام پر ، علم و عرفان پبلیشرز، لاہور، ۲۰۱۳، صفحہ نمبر ۲۵،چشتی)


قرآن کریم میں تدبر ، عقل کے استعمال اور غور وفکر کی ترغیب دی گئی ہے ۔ انسانی ضمیر جس چیز کو بُرا سمجھتا ہے اس سے روکنے  کی اجازت دین نے دی ہے ۔  (اسلام کا تصور آزادی ، ایفا پبلیکیشنز، نئی دہلی،۲۰۱۴، ص۔ ۸)


اسلام نے تنقید کو اخلاقی حد میں رکھنے کا اصول فراہم کیا ہے کیونکہ حدود کے احترام  سے شعور جنم لیتا ہے ۔ جہاں صحت مند تنقید کی حد ختم ہوتی ہے، وہاں سے نا مطلوب تنقیص شروع  ہو جاتی ہے ۔ اِس پر قد غن کی ضرورت پڑتی ہے ۔


اخلاقی حدود


مذہب  سے انسانوں کو اخلاقی حدود معلوم ہوتی ہیں ۔ وہ اخلاقی قدروں کے احترام کی جانب مائل ہوتے ہیں ۔ لوگ  دوسروں کے جذبات و احساسات کا لحاظ کئے بغیر بے جا تنقید شروع کرتے ہیں وہاں  قانون کی حد بندی ضروری ہے۔ کچھ لوگ بےجا تنقید کرتے کرتے تمام حدیں عبور کرجاتے ہیں ۔ نفرت انگیز تقاریر سے ، شرانگیز بیانات سے انسانوں کی، عزت کو داغدارکرتے ہیں، کسی کی توہین و تحقیر کرتے ہیں۔  مذہب، مسلک ، فرقے اورکسی محترم شخصیت کے بارے میںناشائستہ گفتگو کو رائے کی آزادی سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ آزادی رائے کاغلط استعمال ہے۔  اخلاقی تعلیم کی خلاف ورزی ہے ۔آزادی اظہار رائے کا مقصود یہ ہے کہ انسان حق کا متلاشی ہو اور حق کے فروغ کےلیے اپنے خیالات کا اظہار کرے اس بارے میں قرآنی آیات اور احادیث انسان کی رہنمائی کرتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ہمارا یہ نوشتہ تم پر حق بولتا ہے ہم لکھتے رہتے تھے جو تم کرتے تھے‘‘ ۔ (القرآن ؛ ۴۵:۲۹)


 ’’مگر وہ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اور حق کی تاکید کی اورایک دوسرے کو صبر کی وصیت کی‘‘۔ (القرآن؛ ۱۰۳:۳)


 حدیث میں ہے کہ ؛’’سب سے افضل جہاد ،ایک ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا ہے‘‘۔ (سُنن ابو داود، شیخ اشرف پبلیشرز لاہور ۲۰۰۴، حدیث نمبر:۴۳۸)


علامہ اقبال نے ضرب کلیم کی نظموں میں اس اہم موضوع پر کلام کیا ہے۔مغرب میں رائج فکر پر علامہ اقبال تنقید کرتے ہیں۔ یہ بات واضح کرتے  ہیں کہ اُن کا تصور آزادی ناقص ہے۔


آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی                                                        رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ


ہوفکر اگر خام تو آزادی افکار!                                                                       انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ  (آزادی فکر، ضرب کلیم ،کلیات اقبال)


محمد ہاشم کاملی لکھتے ہیں : ’’اظہار کی آزادی انسانی عظمت کی مظہر ہے اظہار رائے انسان کے وقار، کردار اور شخصیت کو سامنے لاتا ہے ‘‘۔ (Kamali, Muhammad Hashim, Freedom of Expression in IslamBerita publishing SDN.BHD Kualalumpur,1994,pp.12)


ڈاکٹر طاہر القادری لکھتے ہیںکہ’’آزادی اظہاررائے انسانی حقوق کے زمرے میں آتی ہے اسلا م میںانسانی حقوق کاتصورانسانی وقاراس کی عزت اورمساوات سےمتعلق ہے ۔ (اسلام میں انسانی حقوق، منہاج القرآن پبلیکیشنز، لاہور، ص۔۳۳)۔(مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔