Saturday 11 December 2021

اہلِ اسلام کے قاتل آلِ نجد و آلِ سعود

0 comments

 اہلِ اسلام کے قاتل آلِ نجد و آلِ سعود

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارٸینِ کرام : فتنوں کی زمین نجد اور ابن وھاب نجدی احادیث کی روشنی میں پہچانیے اس فتنے کو : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔ اس پر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد کےلیے بھی بر کت کی دعا کیجیے لیکن آپ نے پھر وہی کہا ”اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما“پھر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد میں؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہی سے طلوع ہو گا ۔ (صحیح بخاری کتاب استسقاء باب: بھونچال اور قیامت کی نشانیوں کے بیان میں حدیث نمبر : 1037)


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کیا اور ہمارے نجد میں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ میرا گمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہو گا ۔ (صحیح بخاری کتاب الفتن باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ فتنہ مشرق کی طرف سے اٹھے گا حدیث نمبر : 7094)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر کے ایک طرف کھڑے ہوئے اور فرمایا فتنہ ادھر ہے، فتنہ ادھر ہے جدھر سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے یا ”سورج کا سینگ“ فرمایا ۔ (صحیح بخاری کتاب الفتن باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ فتنہ مشرق کی طرف سے اٹھے گا حدیث نمبر : 7092،چشتی)


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشرق کی طرف رخ کئے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے آگاہ ہو جاؤ، فتنہ اس طرف ہے جدھر سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔(صحیح بخاری کتاب الفتن باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ فتنہ مشرق کی طرف سے اٹھے گا حدیث نمبر : 7093)


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ مشرق کی طرف اشارہ کر کے فرما رہے تھے کہ ہاں! فتنہ اسی طرف سے نکلے گا جہاں سے شیطان کے سر کا کونا نکلتا ہے ۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب: ابلیس اور اس کی فوج کا بیان ۔ حدیث نمبر : 3279)


ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ فتنہ ادھر سے اٹھے گا اور آپ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا ۔ (صحیح بخاری کتاب الطلاق باب: اگر طلاق وغیرہ اشارے سے دے مثلاً کوئی گونگا ہو تو کیا حکم ہے؟ حدیث نمبر : 5296)


بخاری شریف کی ان احادیث کی روشنی میں نجد اور مشرق کی سمت ایک ہی بنتی ہے اب مشرق کی سمت کے تعین کے لیے قرآن حکیم سے معلوم کرتے ہیں کہ مشرق کی سمت کون سی ہے : اللہ تبارک تعالٰی سورۃ بقر کی آیات نمبر 258 میں ارشاد فرماتا ہے:(اے حبیب ﷺ!) کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس وجہ سے کہ ﷲ نے اسے سلطنت دی تھی ابراہیم (علیہ السلام) سے (خود) اپنے رب (ہی) کے بارے میں جھگڑا کرنے لگا، جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا: میرا رب وہ ہے جو زندہ (بھی) کرتا ہے اور مارتا (بھی) ہے، تو (جواباً) کہنے لگا: میں (بھی) زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں، ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : بیشک ﷲ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے تُو اسے مغرب کی طرف سے نکال لا! سو وہ کافر دہشت زدہ ہو گیا، اور ﷲ ظالم قوم کو حق کی راہ نہیں دکھاتا ۔


قرآن مجید کی اس آیت سے یہ بات کنفرم ہو گئی کہ سورج مشرق سے نکلتا ھے اور مغرب میں غروب ہوتا ھے، پوری دنیا میں شمال سے جنوب کسی بھی جگہ کسی بھی سمت کھڑے ہو کر کمپاس ہاتھ میں پکڑ لیں سورج مشرق سے ہی نکلتا ھے اور مشرق سے نکلتا ہوا نظر بھی آئے گا اور مغرب میں غروب ہوتا ھے اور غروب ہوتا ہوا نظر بھی آئے گا، اس آیت سے دوسری یہ بھی بات کنفرم ہو گئی کہ سورج ازل سے حکم الہی مشرق سے نکلے کی ڈیوٹی پر ھے اور مغرب سے غروب ہونے کی ڈیوٹی پر بھی، اور یہ ڈیوٹی حکم الہی اسی طرح جاری رہے گی جب تک اللہ چاہے گا ۔


بخاری شریف کی اس حدیث میں تو شیطان کا سینگ نکلنے کا مقام نجد ہی کو بتایا گیا ہے کیا اب بھی کوئی شک باقی رہ جاتا کہ نجد ہی فتنوں کی سرزمین ہے ؟


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازل فرما۔ اس پر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد کے لیے بھی بر کت کی دعا کیجئے لیکن آپ نے پھر وہی کہا ”اے اللہ! ہمارے شام اور یمن پر برکت نازک فرما“پھر لوگوں نے کہا اور ہمارے نجد میں؟ تو آپ نے فرمایا کہ وہاں تو زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ وہی سے طلوع ہو گا۔(صحیح بخاری کتاب استسقاء باب: بھونچال اور قیامت کی نشانیوں کے بیان میں حدیث نمبر : 1037،چشتی)


بخاری شریف میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری شریف میں ایک باب باندھا ہے جس کانام " نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ فتنہ مشرق کی طرف سے اٹھے گا"اس باب کے تحت جو حدیث شریف بیان فرمائی ہے وہ بھی نجد والی ہی حدیث ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امام بخاری بھی اس بات کے ہی قائل ہیں کہ نجد مدینہ شریف سے مشرق کی سمت ہے ویسے تو ہر بات میں لوگ بخاری بخاری کرتے ہیں لیکن جب ان کے عقائد کے خلاف بخاری شریف کی حدیث پیش کی جاتی ہے تو پھر جغرافیہ اور دیگر دنیاوی علوم کا سہارا لیکر بخاری شریف کے معنٰی ہی بدل دیتے ہیں ۔


حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے ملک شام میں ہمیں برکت دے، ہمارے یمن میں ہمیں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کیا اور ہمارے نجد میں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے اللہ ہمارے شام میں برکت دے، ہمیں ہمارے یمن میں برکت دے۔ صحابہ نے عرض کی اور ہمارے نجد میں؟ میرا گمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ فرمایا وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور وہاں شیطان کا سینگ طلوع ہو گا ۔ (صحیح بخاریٓ کتاب الفتن باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا کہ فتنہ مشرق کی طرف سے اٹھے گا حدیث نمبر : 7094،چشتی)


حدثنا عبد الله بن يوسف: أخبرنا مالك،‏‏‏‏ عن زيد بن أسلم،‏‏‏‏ عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: أنه قدم رجلان من المشرق فخطبا،‏‏‏‏ فعجب الناس لبيانهما،‏‏‏‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إن من البيان لسحرا،‏‏‏‏ أو: إن بعض البيان لسحر).

ترجمہ : ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں زید بن اسلم نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ دو آدمی مشرق کی طرف سے مدینہ آئے اور لوگوں کو خطاب کیا لوگ ان کی تقریر سے بہت متاثر ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بعض تقریریں بھی جادو بھری ہوتی ہیں یا یہ فرمایا کہ بعض تقریر جادو ہوتی ہیں۔(صحیح بخاری کتاب الطب باب: اس بیان میں کہ بعض تقریریں بھی جادو بھری ہوتی ہیں حدیث نمبر: 5767)اسی حدیث کو امام بخاری نے صحیح بخاری میں کتاب النکاح میں بھی بیان کیا حدیث نمبر : 5146) آئیں اس حدیث پر بھی غور کرتے ہیں : یہ واقعہ سن 9 ہجری کا جیسے تاریخ اسلامی میں وفود کا سال کہا جاتا ہے اس حدیث میں جن دو آدمیوں کا ذکر ہے جو مشرق سے آئے تھے یہ دونوں آدمی قبیلہ بنو تمیم کے وفد کے ساتھ آئے تھے۔(تاریخ ابن کثیر جلد پنجم صفحہ 74)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں قبیلہ بنی تمیم مشرق یعنی نجد میں آباد تھا یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عبدالوھاب نجدی التمیمی کا تعلق بھی قبیلہ بنو تمیم سے ہے اس سے ثابت ہوا کہ مدینہ کے مشرق میں نجد ہی ہے ۔ سب سے پہلے تو قبیلہ بنو تمیم کے وفد نے مدینہ آتے ہی یہ گستاخی بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دولت خانے میں آرام فرمارہے تھے انھوں نے باہر کھڑے ہوکر چلا چلا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بلانے لگے جس پر اللہ تعا لیٰ نے سورۃ الحجرات کی آیت 4 میں انھیں اس طرح مخاطب کیا : یشک وہ جو تمہیں حُجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔


اللہ نے انھیں بے عقل کہا اور پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے اور اس وفد کو ملاقات کا شرف بخشا تو اس واقعہ کو امام بخاری نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے صحیح بخاری میں : حدثنا أبو نعيم،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حدثنا سفيان،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن أبي صخرة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن صفوان بن محرز المازني،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ عن عمران بن حصين ـ رضى الله عنهما ـ قال أتى نفر من بني تميم النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ اقبلوا البشرى يا بني تميم ‏"‏‏.‏ قالوا يا رسول الله قد بشرتنا فأعطنا‏.‏ فريء ذلك في وجهه فجاء نفر من اليمن فقال ‏"‏ اقبلوا البشرى إذ لم يقبلها بنو تميم ‏"‏‏.‏ قالوا قد قبلنا يا رسول الله‏.‏

ترجمہ : ہم سے ابونعیم نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ان سے ابو صخرہ نے ، ان سے صفوان بن محرز مازنی نے اور ان سے عمران بن حصین نے بیان کیاکہ بنوتمیم کے چند لوگوں کا (ایک وفد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایااے بنوتمیم! بشارت قبول کرو۔ وہ کہنے لگے کہ بشارت تو آپ ہمیں دے چکے، کچھ مال بھی دیجئیے۔ ان کے اس جواب پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پرناگواری کا اثر دیکھا گیا، پھر یمن کے چند لوگوں کا ایک (وفد) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا کہ بنو تمیم نے بشارت نہیں قبول کی، تم قبول کر لو۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم کو بشارت قبول ہے۔(صحیح بخاری : کتاب المغازی: باب: بنی تمیم کے وفد کا بیان حدیث نمبر : 4365 کتاب التوحید والرد علی الجہیمۃ : حدیث نمبر : 7418،چشتی)

پہلے تو بنو تمیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جناب میں گستاخی کی جس پر اللہ تعالٰی نے ناراض ہوکر انھیں بے عقل کہا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بشارت کے جواب میں مال طلب کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناراض کیا ۔


امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی صحیح میں قبیلہ بنی تمیم کے ایک آدمی کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے : ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص نے جو کہ قبیلہ بنی تمیم سے تھا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا تھا اور وہ اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہلِ زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ جب وہ جانے کے لئے پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے اگر میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ضرور انہیں قتل کر دوں۔عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو نوعمر اور عقل سے کورے ہوں گے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا ۔ (صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 4351)(صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6163)(صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3610)(صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 7432)(صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3344)(صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 3611)(صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 6930)(صحيح البخاري - الصفحة أو الرقم: 5057) (صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1064،چشتی)(صحيح مسلم - الصفحة أو الرقم: 1066)


یاد رہے محمد بن عبدالوھاب نجدی التمیمی کا تعلق بھی قبیلہ بنی تمیم سے تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس گستاخ خبیث کے بارے میں فرمایا ہے کہ : اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔


محمد بن عبد الوھاب نجدی کے پیروکار کہتے ہیں مدینۃ المنورہ سے مشرق کی جانب عراق ہے اور عراق ہی فتنوں کی زمین ہے نجد نہیں چلیں ہم فرض کرتے ہیں کہ عراق مدینہ شریف کے مشرق میں ہے اس حساب سے مکہ شریف مدینہ شریف کے مغرب میں ہوا ۔

آئیں قرآن کےبعد سب سے مستند کتاب صحیح بخاری کی احادیث شریف پڑھتے ہیں :

ليس في المشرق ولا في المغرب قبلة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ لقول النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تستقبلوا القبلة بغائط أو بول ولكن شرقوا أو غربوا ‏"‏‏.‏(صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ باب: مدینہ اور شام والوں کے قبلہ کا بیان اور مشرق کا بیان)


اور (مدینہ اور شام والوں کا) قبلہ مشرق و مغرب کی طرف نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (خاص اہل مدینہ سے متعلق اور اہل شام بھی اسی میں داخل ہیں) کہ پاخانہ پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف رخ نہ کرو، البتہ مشرق کی طرف اپنا منہ کر لو، یا مغرب کی طرف۔


حدثنا آدم،‏‏‏‏ قال حدثنا ابن أبي ذئب،‏‏‏‏ قال حدثنا الزهري،‏‏‏‏ عن عطاء بن يزيد الليثي،‏‏‏‏ عن أبي أيوب الأنصاري،‏‏‏‏ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا أتى أحدكم الغائط فلا يستقبل القبلة ولا يولها ظهره،‏‏‏‏ شرقوا أو غربوا ‏"‏‏.‏

ترجمہ : ہم سے آدم نے بیان کیا ، کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے ، کہا کہ ہم سے زہری نے عطاء بن یزید اللیثی کے واسطے سے نقل کیا ، وہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرے نہ اس کی طرف پشت کرے (بلکہ) مشرق کی طرف منہ کر لو یا مغرب کی طرف۔(صحیح بخاری کتاب الوضو باب: اس مسئلہ میں کہ پیشاب اور پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن جب کسی عمارت یا دیوار وغیرہ کی آڑ ہو تو کچھ حرج نہیں ۔ حدیث نمبر : 144)


ان احادیث سے معلوم ہوا کہ رفع حاجت کے وقت نہ قبلہ کی طرف منہ ہونا چاھئے نہ پشت بلکہ رفع حاجت کے وقت مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرلو یعنی مدینہ شریف سے قبلہ نہ مشرق کی جانب ہے نہ مغرب کیطرف اس سے معلوم ہوا کہ عراق مدینہ شریف کے مشرق میں نہیں ہے ۔


بانی نجدی وہابی مذہب محمد بن عبد الوہاب نجدی خارجی لکھتا ہے : میں جانتا ہوں کہ یہ لوگ توحید کا اقرار کرکے اسلام میں داخل نہیں ہو سکتے یہ لوگ ملائکہ اور اولیاء سے شفاعت کے خواستگار ہیں اور اس طرح اللہ کا قرب چاہتے ہیں اسی وجہ سے ان کو قتل کرنا جائز اور ان کا مال لوٹنا حلال ہے ۔ (کشف الشبہات محمد بن عبدالوہاب صفحہ نمبر 7۔چشتی)


شیخ الاسلام دیوبند علاّمہ حسین احمد مدنی دیوبندی لکھتے ہیں : محمد بن عبدالوھاب نجدی ابتدا تیرھویں صدی نجد عرب سے ظاھر ہوا اور چونکہ یہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا اس لئے اس نے اھل سنت والجماعت سے قتل و قتال کی ان کو بالجبر اپنے خیالات کی تکلیف دیتا رہا ان کے اموال کہ غنیمت کا مال اور حلال سمجھا گیا ان کے قتل کرنے کو باعث ثواب و رحمت شمار کرتا رہا اھل حرمین کو خصوصا اور اھل حجاز کو عموما اس نے تکلیف شاقہ پہنچائیں سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت گستاخی اور بے ادبی کے الفاظ استعمال کئے بہت سے لوگوں کو بوجہ اس کی تکلیف شدیدہ کے مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ چھوڑنا پڑا اور ہزاروں آدمی اس کے اور اس کی فوج کے ہاتھوں شھید ہو گئے-الحاصل وہ ایک ظالم و باغی خونخوار فاسق شخص تھا اس وفہ سے اھل عرب کو خصوصا اس کے اتباع سے دلی بغض تھا اور ہے اور اس قدر ہے لہ اتنا قوم یہود سے ہے نہ نصاری سے نہ مجوس سے نہ ہنود سے ۔ (الشہاب الثاقب ص221 دارالکتاب غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور،چشتی)


شیخ الاسلام دیوبند علاّمہ حسین احمد مدنی دیوبندی لکھے ہیں : محمدبن عبد الوہاب نجدی کا عقیدہ تھا جملہ اہلِ عالم و مسلمانانِ دیار کافر ہیں انہیں قتل کرنا اور اُن کے مال لوٹنا حلال بلکہ واجب ہیں ۔ (الشہاب الثاقب صفحہ نمبر 222 شیخ الاسلام دیوبند علاّمہ حسین احمد مدنی دیوبندی)


ابن سعود نے وہابی افکار و نظریات کی توسیع میں سب سے پہلا معرکہ سعودی عرب کے موجودہ دار السلطنت ریاض کے والی امیر دہم بن دواس کے خلاف قائم کیا جو کہ سعودی وہابی اشتراک کے سخت خلاف تھا ، مسلسل تیس سال تک جنگی کشمکش جاری رہی حتیٰ کہ 1773ء میں عبد العزیز بن محمد بن سعود نے ریاض کو فتح کر لیا ۔ اس تیس سالہ جنگ میں 1700 نام نہاد موحدین مارے گئے اور 2300 مظلوم مسلمان تہہ تیغ ہوئے ۔ ( سید سردار محمد حسنی سوانح حیات سلطان عبد العزیز آل سعود صفحہ نمبر 42 ، 43۔چشتی)


شاہ سعود کے ہاتھوں اسلامی وراثتوں کی تباہی اور مسلمانوں کا قتل عام


جب اہل حساء پر شاہ سعود کی فوج کے مظالم کی انتہاء ہو گئی تو اہل حساء کے دلوں میں ان کا زبر دست رعب بیٹھ گیا اور وہ انتہائی خوف زدہ ہو گئے اور شاہ سعود نے مقام طف میں احساء کے پانی کے ذخیرہ پر قبضہ کر لیا اور کافی طویل مدت تک اہل حساء پر پانی بند رکھا یہاں تک کہ اہل حساء کے سردار نے مجبور ہو با دل ناخواستہ اہل حسا کی جانب سے سعود کے ہاتھوں پر بیعت کی پیشکش کی تو سعود شہر سے باہر ایک چشمہ پر جا کر بیٹھ گیا اور لوگوں نے وہاں جا کر اس کے ہاتھوں پر بیعت کی ۔ اس کے بعد انہوں نے احساء کا رخ کیا اور وہاں مزارات پر جتنے بھی گنبد بنے ہوئے تھے ان سب کو منہدم کر دیا اور ان کے تمام آثار و باقیات کو مٹا دیا ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ ریاض جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 98،چشتی)


 شاہ سعود نے نواسہ رسول حضرت امام حسن ، حضرت طلحہ اور دیگر صحابہ کرام و اہلبیت رضی اللہ عنہم کے مزارات اور آثار و باقیات کو بھی مٹایا اور بے شمار مسلمانوں کا بے دریغ خون ناحق بھی بہایا :


عثمان بن بشیر نجدی لکھتا ہے : اس کے بعد سعود نے جامعہ زبیر پر حملہ کیا اور جامع مسجد کے قرب و جوار میں اور شہر کے باہر مزارات پر جس قدر گنبد اور آثار موجود تھے ان سب کو توڑ دیا یہاں تک کہ حضرت امام حسن اور حضرت طلحہ (رضی اللہ عنہما) کے مزارات پر بنے گنبد کو بھی منہدم کر دیا اور ان کی قبروں کا نام و نشان تک مٹا دیا ۔ سقوط درعیہ کے بعد حضرت امام حسن اور حضرت طلحہ (رضی اللہ عنہما) کے مزارات پر دوبارہ گنبد بنا دئے گئے تھے ۔ لہٰذا سعود نے نجدی فوج کو دوبارہ بہیمہ کے قصر پر دھاوا بول دینے کا حکم دیا اور انہوں نے دوبارہ تمام قبروں کو زمین بوس کر دیا اور اس کے حامیوں کو تہہ تیغ کر ڈالا ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ ریاض ج1، ص 132)


سرزمین کربلا پر وہابی نجدی افواج کے انسانیت سوز مظالم


مسعود عالم ندوی لکھتا ہے : اور اس سال 1214 ھ میں سعود نے نجد، حجاز اور تہامہ سے ایک لشکر جرار لیکر سرزمین کربلا کا رخ کیا اور بلد الحسین کے باشندوں پر پوری شدت کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ یہ واقعہ ذی قعدہ کا ہے۔ مسلمانوں (وہابی نجدی فوج) نے اس شہر پر دھاوا بول دیا۔ فوجی اس کی دیواروں پر چڑھ گئے اور جبراً اس میں داخل ہو گئے اور کثرت کے ساتھ وہاں کے باشندوں کو گھروں اور بازاروں میں تہہ تیغ کر دیا اور اس قبہ کو منہدم کر دیا جو ان کے اعتقاد کے مطابق حسین رضی اللہ عنہ کی قبر پر بنایا گیا تھا۔ قبہ اور اس کے آس پاس موجود چڑھاوے کی تمام چیزوں کو ضبط کر لیا۔ قبہ زمرد، یاقوت اور جواہر سے آراستہ تھا۔ اور اس کے علاوہ شہر کے اندر جو بھی مال و متاع تھا سب کو اپنے قبضے میں لے لیا اور وہ شہر میں ایک پہر سے زیادہ نہیں ٹھہرے بلکہ ظہر کے وقت تمام مال و اسباب لیکر وہاں سے نکل آئے، اس حملےمیں اس شہر کے تقریباً دو ہزار آدمی قتل کئے گئے ۔ ( مسعود عالم ندوی محمد بن عبد الوہاب صفحہ نمبر 77،چشتی)


عثمان بن بشیر نجدی لکھتا ہے : 1216ھ میں سعود اپنی طاقتور فوج اور گھڑ سوار لشکر جرار اور تمام نجدی غارت گروں کو لیکر بہ قوت تمام سرزمین کربلا پر حملہ آور ہوا اور ذی قعدہ میں نجدی سورماؤں نے بلد حسین کا محاصرہ کر لیا اور شہر کی تمام گلیاں اور بازار اہلیان شہر کی لاشوں سے بھرے پڑے تھے ، قتل عام سے فارغ ہو کر انہوں نے امام حسین (رضی اللہ عنہ) کی قبر مبارک کے قبہ کو منہدم کر دیا ۔ روضہ کے اوپر زمرد ، ہیرے اور یاقوت کے جو نقش و نگار بنے ہوئے تھے ، وہ سب لوٹ لیئے ۔ اس کے علاوہ شہر کے اندر لوگوں کے گھروں میں جو مال و متاع ، اسلحہ ، کپڑے حتیٰ کہ چارپائیوں سے بستر تک لوٹ لیئے ۔ اور یہ سب مال و متاع لوٹ کر تقریباً دو ہزار مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد وہ نجد واپس لوٹ گئے ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ، ریاض ج1، ص 121-122)


طائف میں شاہ سعود کی قتل و غارت گری


عثمان بن بشیر نجدی لکھتا ہے : سعود نے اپنے ایک کمانڈر عثمان کو سرزمین طائف کو لوٹنے پر مامور کیا ۔ طائف کا امیر غالب شریف قلعہ بند ہو گیا ۔ نجدیوں نے اس پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ۔ یہاں تک کہ وہ جان بچا کر مکہ کی طرف نکل بھاگا ۔ عثمان نے طائف کی گلیوں اور بازاروں کو مسلمانوں کی لاشوں سے بھر دیا اور دو سو سے زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا اور طائف کے گھروں سے مال و متاع ، سونا چاندی ، اسلحہ اور تمام قیمتی اشیاء جن کا شمار حد بیان سے باہر ہے ، لوٹ کر نجدیوں میں تقسیم کیا اور اس کا پانچواں حصہ عبد العزیز کے پاس بھیجا جس کے صلہ میں اس کو طائف اور حجاز کا امیر مقرر کر دیا گیا ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ، ریاض ج1، ص 123)


مکہ اور طائف کی فتح کے بعد سعود کے مزید مظالم


عثمان بن بشیر نجدی لکھتا ہے : ثم ان سعوداً و المسلمین رحلو من العقیق و نزلوا المفاصل فاحرموا منھا بعمرۃ و دخل سعود مکۃ و استولی علیھا و اعطیٰ اھلھا الامان و بذل فیھا من الصدقات و العطاء الاھلھا شیئا کثیراً فلما فرغ سعود و المسلمون من الطواف و السعی فوق اھل النواحی یھدمون القباب التی بنیت علی القبور و المشاھد الشرکیۃ ۔

ترجمہ : پھر سعود اپنے ساتھیوں کو لیکر مقام عقیق سے روانہ ہوا اور مفاصل پہنچ کر عمرہ کے لئے احرام باندھا ۔ مکہ پہنچ کر اہل مکہ کو امان دی اور زر کثیر خرچ کیا ۔ عمرہ سے فارغ ہو کر سعود اور اس کے تمام نجدی ساتھیوں نے مکہ کے تمام مزارات کے گنبد گرا دیئےاور متبرک مقامات کی تمام علامات کو مٹا دیا ۔ (عثمان بن بشیر نجدی متوفی 1288 ھجری عنوان المجد فی تاریخ نجد مطبوعہ ، ریاض ج1، ص 123)


مسلمانو خدا را نجدی وہابی خارجیوں ، مسلمانوں کے قاتلوں اِن دھشت گردوں کو پہچانو ۔ یا اللہ مسلمانوں کو نجدی فتنہ کے شر سے بچا آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔