Tuesday 21 December 2021

پیچھے اِس امام کے اور منصبِ امامت حصہ دوم

0 comments

 پیچھے اِس امام کے اور منصبِ امامت حصہ دوم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئین کرام : منصبِ امامت ایک جلیل القدر منصب ہے جو گویا کہ نیابتِ رسالت (یعنی انبیاء علیہم السلام کے نائب) ہیں ، جس کی بناء پر ائمہ حضرات کا کرام و احترام لازم ہے ۔ امامت ، مٶذنی اور علمِ دین کی تدریس اللہ تعالٰی کے نزدیک نہایت مؤقر عمل ہے ، اور ان لوگوں کےلیے اللہ تعالٰی کی خاص رحمت و انعام مقدرہے ۔ ان فضائل کو جان لینے کے بعد ایک مسلمان کے دل میں بلاشبہ یہ حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش وہ بھی امام ، مؤذن یا مدرس ہوتا لیکن دوسری جانب جب ہم موجودہ دور میں اپنے معاشرے کے ائمہ اور مٶذنین ، و مدرسین کے حالات اور ان کے ساتھ لوگوں کے سلوک و رویّوں کا جائزہ لیں تو بہت افسوس اور تکلیف ہوتی ہے ، آج حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ دیندار اور باشعور سمجھے جانے والے مسلمان بھی امامت بالخصوص مٶذنی اور مکاتب کی مدرسی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ بعض مساجد و مدارس کے ذمہ داران مختلف طریقوں سے ان حضرات کو ہراساں کرتے رہتے ہیں ، جھوٹے الزامات لگانا ، چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سخت رویہ اختیار کیا جاتا ہے ، خصوصاً مؤذنین کو بالکل بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا ، بلاشبہ ان سے غلطیاں و کوتاہیاں بھی ہوتی ہوں گی ، لیکن ایسے وقت میں ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں تنہائی میں تنبیہ کی جائے ، لوگوں کے سامنے ان سے سخت کلامی کرنا بالکل بھی جائز نہیں ہے ، ذمہ داران کے علاوہ اکثر نمازی حضرات بھی مؤذنین سے الجھ جاتے ہیں ، ایسے لوگوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جن کی گھر میں نہیں چلتی وہ مسجد میں آکر اپنی چلاتے ہیں ، چنانچہ یہ سب دیکھنے کے بعد ایک عام مسلمان ، امام باالخصوص موٴذن اور مکتب کا مدرس بننے کی حسرت اور خواہش کو دل میں ہی دبا دیتا ہے ۔ اور دیگر دنیاوی مشاغل کے ذریعے اپنی روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے ۔


لہٰذا ایسے لوگوں کو اپنے اِس غیر شرعی فعل سے باز آجانا چاہیے ، ورنہ ان سے بروزِ حشر سخت مؤاخذہ ہوگا ، جہاں ان کی ایک ایک زیادتی کا حساب چُکتا کیا جائے گا ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : تمہارے امام تمہارے سفارشی ہیں ،، یا یوں فرمایا : تمہارے امام الله تعالٰی کے یہاں تمہارے نمائندہ ہیں ۔ (اتحاف السادة المتقین،چشتی)


ذخیرہ احادیث میں مؤذن کی بہت فضیلت آئی ہے ، مثال کےلیے دو حدیثیں پیشِ خدمت ہیں :


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : اگر تمہیں اذان دینے کی فضیلت اور خیروبرکت کا علم ہو جائے تو تم مؤذن بننے کےلیے قرعہ اندازی کرنے لگو ۔ (صحیح بخاری)


یعنی ہر ایک اذان دینے کا اتنا شوقین ہو جائے گا کہ جھگڑے کو ختم کرنے کےلیے قرعہ کی ضرورت پیش آئے گی ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : مؤذن کو الله کے راستہ میں شہید کی طرح ثواب ملتا ہے اور دفن کے بعد اس کا جسم کیڑوں کی غذا نہیں بنتا ۔ (طبرانی کبیر)


امام اور مؤذن صاحبان کو نوکر سمجھنا یا نوکروں جیسا برتاؤ ان کے ساتھ کرنا بہت غلط بات ہے اور ان کی حق تلفی ہے ۔ یہ خیال تکبر سے پیدا ہوتا ہے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا ، جب تک اس کو دوزخ میں جلا کر نکال نہ دیا جائے گا، وہ جنت میں نہیں جا سکتا ۔ (صحیح مسلم)


اس لیے جو حضرات ایسا کرتے ہیں ان کےلیے ضروری ہے کہ وہ اس سے باز آئیں اور اپنی اصلاح کریں اور آئندہ امام و مؤذن صاحبان کا اکرام و احترام کریں ی۔


فقہائے کرام رحمہم الله علیہم نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ :

مسجد کے متولی اور مدرسہ کے مہتمم کو لازم ہے کہ خادمانِ مساجد اور مدارس کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ و صلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں ۔ باوجود گنجائش کے کم دینا بُری بات ہے اور متولی خدا کے یہاں جواب دہ ہوں گے ۔ (درمختار و شامی،چشتی)


صرف امامت کی تنخواہ دے کر امام پر اذان کی ذمہ داری ڈالنا ، ان سے جھاڑو دینے ، نالیاں صاف کرنے وغیرہ امور کی خدمت لینا ظلم شدید اور توہین ہے ۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : حاملین قرآن (یعنی حفاظ و قراء و علمائے کرام) کی تعظیم کرو ، بےشک جس نے ان کی تکریم کی اس نے میری تکریم کی ۔ (الجامع الصغیر)


نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : حاملین قرآن (یعنی حفاظ و قراء و علمائے کرام) اسلام کے علمبردار ہیں اور اسلام کا جھنڈا اُٹھانے والے ہیں ۔ جس نے ان کی تعظیم کی اس نے الله کی تعظیم کی اور جس نے ان کی تذلیل کی اس پر الله کی لعنت ہے ۔ (کنز العمال و مشکواة،چشتی)


مسجد کی انتظامیہ کو اس کا بھی خیال رکھا چاہیئے کہ امام و مؤذن کی شکل و صورت مسنون ہو اور ان کا تلفظ بھی تجوید کے مطابق درست ہو ۔


آٸمہ و مٶذننین کا تنخواہوں کے ذریعے بھی استحصال کیا جارہا ہے ، خطیر رقم مسجد و مدرسے میں جمع ہونے اور آمدنی کے متعدد ذرائع ہونے کے باوجود قلیل تنخواہیں دی جارہی ہیں ، بعض ذمہ داران اس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ تنخواہ کم دے کر ہم مسجد ، مدرسہ کا پیسہ بچا رہے ہیں ، جب کہ یہ حضرات سخت غلطی پر ہیں، اس طرح وہ ان حضرات کا استحصال کرکے مسجد کا پیسہ نہیں بچا رہے ہیں بلکہ اپنے لیے آخرت کی مصیبت مول لے رہے ہیں ، ان حضرات کو احمقوں کی جنت سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔ چندہ دہندگان چندہ مسجد کے اخراجات کو پورا کرنے کےلیے دیتے ہیں جن میں سرِ فہرست امام و مؤذن کی تنخواہ ہوتی ہے ، اور اکثر چندہ دہندگان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ امام و مؤذن کی تنخواہ بہتر سے بہتر ہو ، چنانچہ ان رقومات پر ذمہ داران کا سانپ بن کر بیٹھ جانا اور غیر معقول تنخواہ دینا قطعاً ناجائز ہے ، انہیں اپنی اس روِش کو ترک کرنا ضروری ہے ۔


فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے لاہو شہر میں دیکھا ہے کہ ایسے بھی ذمہ دارانِ مساجد ہیں جو خود امام و مؤذن کی مکمل اور معقول تنخواہ کا نظم کرتے ہیں ، یا تنخواہ کا ایک حصہ اپنی جیبِ خاص سے ادا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ، اور دیگر ذمہ داران کےلیے انہیں مشعلِ راہ بنائے آمین ۔ (چشتی)


لیکن فقیر نے دیگر مختلف شہروں و قصبوں  کی تمام مساجد اور مکاتب کا پروگرانوں کے سلسلے میں جا جا کر مشاہدہ کیا ہے تو وہاں ائمہ و مؤذنین کی ہفتہ واری تنخواہیں بارہ سو سے دو ہزار کے درمیان ہیں ، چند مساجد ہوں گی جہاں معقول یعنی دو ہزار سے پچیس سو تک تنخواہ دی جاتی ہیں ۔ اکثر مضافاتی شہروں اور گاٶں کی مساجد کی حالت اس سے بھی زیادہ بدتر ہے ، وہاں اب تک ائمہ و مؤذنین کی تنخواہیں ماہانہ تین ہزار تا پانچ ہزار ہیں ۔ وہاں کے لوگوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔


مدارس و مکاتب میں پانچ سے سات گھنٹہ پڑھانے والے مدرسین کی تنخواہیں عموماً تین ہزار تا پانچ ہزار دی جارہی ہیں ۔ حیرت اور درد کا ایک جھٹکا آپ کو اس وقت بھی لگے گا جب آپ دینی مکاتب و مدارس میں خدمات انجام دینے والی معلمات یہاں تک کہ فقہ اور حدیث شریف کا درس دینے والی جید عالمات کی تنخواہوں کے متعلق معلومات حاصل کریں گے ، پانچ سے سات گھنٹہ تعلیم دینے والی ان معلمات کی تنخواہیں ماہانہ دو ہزار سے چار ہزار کے درمیان ہیں ۔


کیا اسے استحصال نہیں کہا جائے گا ؟


اب آپ خود موازنہ کرلیں کہ ایک مزدور بھی کم از کم بیس سے تیس ہزار ماہانہ کمالیتا ہے ، جبکہ دینِ متین کی حفاظت اور اس کی ترویج و اشاعت اور امت کی آخرت سنور جائے اس کوشش میں اپنا بچپن اور جوانی کے ایام جھونک دینے والے ان سعادت مند نفوس کے ساتھ امت کا کیا سلوک ہے ؟ ۔ (چشتی)


اس امت کے بعض افراد نے آج اسے ایک مزدور کے مقام سے بھی نچلے مقام پر کھڑا کر دیا ہے ۔


لہٰذا ذمہ دارانِ مساجد و مدارس کو اس پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے ، اسی طرح نوجوانانِ ملت کو بھی محلہ کی مسجد کے امام و مؤذن و مدرسین کی خبر گیری کرتے رہنا چاہیے ، اور مسجد مدرسے کی آمدنی کے سلسلے میں ذمہ داران کا تعاون بھی کرتے رہنا چاہیے ، تب جاکر یہ معاملہ قابو میں آئے گا ، اور ان حضرات کی تنخواہوں کا معیار بلند ہوگا ان شاءاللہ ۔ اللہ تعالٰی ہم سب اہلِ اسلام کو ان نفوس قدسیہ کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے ، اور بقدر استطاعت ان حضرات کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) ۔ حصّہ اوّل اس لنک میں پڑھیں : https://www.facebook.com/1563205053975439/posts/2699044443724822/

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔