پیچھے اِس امام کے اور منصبِ امامت حصہ دوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئین کرام : منصبِ امامت ایک جلیل القدر منصب ہے جو گویا کہ نیابتِ رسالت (یعنی انبیاء علیہم السلام کے نائب) ہیں ، جس کی بناء پر ائمہ حضرات کا کرام و احترام لازم ہے ۔ امامت ، مٶذنی اور علمِ دین کی تدریس اللہ تعالٰی کے نزدیک نہایت مؤقر عمل ہے ، اور ان لوگوں کےلیے اللہ تعالٰی کی خاص رحمت و انعام مقدرہے ۔ ان فضائل کو جان لینے کے بعد ایک مسلمان کے دل میں بلاشبہ یہ حسرت پیدا ہوتی ہے کہ کاش وہ بھی امام ، مؤذن یا مدرس ہوتا لیکن دوسری جانب جب ہم موجودہ دور میں اپنے معاشرے کے ائمہ اور مٶذنین ، و مدرسین کے حالات اور ان کے ساتھ لوگوں کے سلوک و رویّوں کا جائزہ لیں تو بہت افسوس اور تکلیف ہوتی ہے ، آج حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ دیندار اور باشعور سمجھے جانے والے مسلمان بھی امامت بالخصوص مٶذنی اور مکاتب کی مدرسی کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ بعض مساجد و مدارس کے ذمہ داران مختلف طریقوں سے ان حضرات کو ہراساں کرتے رہتے ہیں ، جھوٹے الزامات لگانا ، چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر سخت رویہ اختیار کیا جاتا ہے ، خصوصاً مؤذنین کو بالکل بھی خاطر میں نہیں لایا جاتا ، بلاشبہ ان سے غلطیاں و کوتاہیاں بھی ہوتی ہوں گی ، لیکن ایسے وقت میں ان کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں تنہائی میں تنبیہ کی جائے ، لوگوں کے سامنے ان سے سخت کلامی کرنا بالکل بھی جائز نہیں ہے ، ذمہ داران کے علاوہ اکثر نمازی حضرات بھی مؤذنین سے الجھ جاتے ہیں ، ایسے لوگوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جن کی گھر میں نہیں چلتی وہ مسجد میں آکر اپنی چلاتے ہیں ، چنانچہ یہ سب دیکھنے کے بعد ایک عام مسلمان ، امام باالخصوص موٴذن اور مکتب کا مدرس بننے کی حسرت اور خواہش کو دل میں ہی دبا دیتا ہے ۔ اور دیگر دنیاوی مشاغل کے ذریعے اپنی روزی روٹی کا انتظام کرتا ہے ۔
لہٰذا ایسے لوگوں کو اپنے اِس غیر شرعی فعل سے باز آجانا چاہیے ، ورنہ ان سے بروزِ حشر سخت مؤاخذہ ہوگا ، جہاں ان کی ایک ایک زیادتی کا حساب چُکتا کیا جائے گا ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : تمہارے امام تمہارے سفارشی ہیں ،، یا یوں فرمایا : تمہارے امام الله تعالٰی کے یہاں تمہارے نمائندہ ہیں ۔ (اتحاف السادة المتقین،چشتی)
ذخیرہ احادیث میں مؤذن کی بہت فضیلت آئی ہے ، مثال کےلیے دو حدیثیں پیشِ خدمت ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : اگر تمہیں اذان دینے کی فضیلت اور خیروبرکت کا علم ہو جائے تو تم مؤذن بننے کےلیے قرعہ اندازی کرنے لگو ۔ (صحیح بخاری)
یعنی ہر ایک اذان دینے کا اتنا شوقین ہو جائے گا کہ جھگڑے کو ختم کرنے کےلیے قرعہ کی ضرورت پیش آئے گی ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : مؤذن کو الله کے راستہ میں شہید کی طرح ثواب ملتا ہے اور دفن کے بعد اس کا جسم کیڑوں کی غذا نہیں بنتا ۔ (طبرانی کبیر)
امام اور مؤذن صاحبان کو نوکر سمجھنا یا نوکروں جیسا برتاؤ ان کے ساتھ کرنا بہت غلط بات ہے اور ان کی حق تلفی ہے ۔ یہ خیال تکبر سے پیدا ہوتا ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : جس کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا ، جب تک اس کو دوزخ میں جلا کر نکال نہ دیا جائے گا، وہ جنت میں نہیں جا سکتا ۔ (صحیح مسلم)
اس لیے جو حضرات ایسا کرتے ہیں ان کےلیے ضروری ہے کہ وہ اس سے باز آئیں اور اپنی اصلاح کریں اور آئندہ امام و مؤذن صاحبان کا اکرام و احترام کریں ی۔
فقہائے کرام رحمہم الله علیہم نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ :
مسجد کے متولی اور مدرسہ کے مہتمم کو لازم ہے کہ خادمانِ مساجد اور مدارس کو ان کی حاجت کے مطابق اور ان کی علمی قابلیت اور تقویٰ و صلاح کو ملحوظ رکھتے ہوئے وظیفہ و مشاہرہ (تنخواہ) دیتے رہیں ۔ باوجود گنجائش کے کم دینا بُری بات ہے اور متولی خدا کے یہاں جواب دہ ہوں گے ۔ (درمختار و شامی،چشتی)
صرف امامت کی تنخواہ دے کر امام پر اذان کی ذمہ داری ڈالنا ، ان سے جھاڑو دینے ، نالیاں صاف کرنے وغیرہ امور کی خدمت لینا ظلم شدید اور توہین ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : حاملین قرآن (یعنی حفاظ و قراء و علمائے کرام) کی تعظیم کرو ، بےشک جس نے ان کی تکریم کی اس نے میری تکریم کی ۔ (الجامع الصغیر)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نےفرمایا : حاملین قرآن (یعنی حفاظ و قراء و علمائے کرام) اسلام کے علمبردار ہیں اور اسلام کا جھنڈا اُٹھانے والے ہیں ۔ جس نے ان کی تعظیم کی اس نے الله کی تعظیم کی اور جس نے ان کی تذلیل کی اس پر الله کی لعنت ہے ۔ (کنز العمال و مشکواة،چشتی)
مسجد کی انتظامیہ کو اس کا بھی خیال رکھا چاہیئے کہ امام و مؤذن کی شکل و صورت مسنون ہو اور ان کا تلفظ بھی تجوید کے مطابق درست ہو ۔
آٸمہ و مٶذننین کا تنخواہوں کے ذریعے بھی استحصال کیا جارہا ہے ، خطیر رقم مسجد و مدرسے میں جمع ہونے اور آمدنی کے متعدد ذرائع ہونے کے باوجود قلیل تنخواہیں دی جارہی ہیں ، بعض ذمہ داران اس غلط فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ تنخواہ کم دے کر ہم مسجد ، مدرسہ کا پیسہ بچا رہے ہیں ، جب کہ یہ حضرات سخت غلطی پر ہیں، اس طرح وہ ان حضرات کا استحصال کرکے مسجد کا پیسہ نہیں بچا رہے ہیں بلکہ اپنے لیے آخرت کی مصیبت مول لے رہے ہیں ، ان حضرات کو احمقوں کی جنت سے نکلنے کی ضرورت ہے ۔ چندہ دہندگان چندہ مسجد کے اخراجات کو پورا کرنے کےلیے دیتے ہیں جن میں سرِ فہرست امام و مؤذن کی تنخواہ ہوتی ہے ، اور اکثر چندہ دہندگان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ امام و مؤذن کی تنخواہ بہتر سے بہتر ہو ، چنانچہ ان رقومات پر ذمہ داران کا سانپ بن کر بیٹھ جانا اور غیر معقول تنخواہ دینا قطعاً ناجائز ہے ، انہیں اپنی اس روِش کو ترک کرنا ضروری ہے ۔
فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے لاہو شہر میں دیکھا ہے کہ ایسے بھی ذمہ دارانِ مساجد ہیں جو خود امام و مؤذن کی مکمل اور معقول تنخواہ کا نظم کرتے ہیں ، یا تنخواہ کا ایک حصہ اپنی جیبِ خاص سے ادا کرتے ہیں ۔ اللہ تعالٰی انہیں جزائے خیر عطا فرمائے ، اور دیگر ذمہ داران کےلیے انہیں مشعلِ راہ بنائے آمین ۔ (چشتی)
لیکن فقیر نے دیگر مختلف شہروں و قصبوں کی تمام مساجد اور مکاتب کا پروگرانوں کے سلسلے میں جا جا کر مشاہدہ کیا ہے تو وہاں ائمہ و مؤذنین کی ہفتہ واری تنخواہیں بارہ سو سے دو ہزار کے درمیان ہیں ، چند مساجد ہوں گی جہاں معقول یعنی دو ہزار سے پچیس سو تک تنخواہ دی جاتی ہیں ۔ اکثر مضافاتی شہروں اور گاٶں کی مساجد کی حالت اس سے بھی زیادہ بدتر ہے ، وہاں اب تک ائمہ و مؤذنین کی تنخواہیں ماہانہ تین ہزار تا پانچ ہزار ہیں ۔ وہاں کے لوگوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
مدارس و مکاتب میں پانچ سے سات گھنٹہ پڑھانے والے مدرسین کی تنخواہیں عموماً تین ہزار تا پانچ ہزار دی جارہی ہیں ۔ حیرت اور درد کا ایک جھٹکا آپ کو اس وقت بھی لگے گا جب آپ دینی مکاتب و مدارس میں خدمات انجام دینے والی معلمات یہاں تک کہ فقہ اور حدیث شریف کا درس دینے والی جید عالمات کی تنخواہوں کے متعلق معلومات حاصل کریں گے ، پانچ سے سات گھنٹہ تعلیم دینے والی ان معلمات کی تنخواہیں ماہانہ دو ہزار سے چار ہزار کے درمیان ہیں ۔
کیا اسے استحصال نہیں کہا جائے گا ؟
اب آپ خود موازنہ کرلیں کہ ایک مزدور بھی کم از کم بیس سے تیس ہزار ماہانہ کمالیتا ہے ، جبکہ دینِ متین کی حفاظت اور اس کی ترویج و اشاعت اور امت کی آخرت سنور جائے اس کوشش میں اپنا بچپن اور جوانی کے ایام جھونک دینے والے ان سعادت مند نفوس کے ساتھ امت کا کیا سلوک ہے ؟ ۔ (چشتی)
اس امت کے بعض افراد نے آج اسے ایک مزدور کے مقام سے بھی نچلے مقام پر کھڑا کر دیا ہے ۔
لہٰذا ذمہ دارانِ مساجد و مدارس کو اس پر توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے ، اسی طرح نوجوانانِ ملت کو بھی محلہ کی مسجد کے امام و مؤذن و مدرسین کی خبر گیری کرتے رہنا چاہیے ، اور مسجد مدرسے کی آمدنی کے سلسلے میں ذمہ داران کا تعاون بھی کرتے رہنا چاہیے ، تب جاکر یہ معاملہ قابو میں آئے گا ، اور ان حضرات کی تنخواہوں کا معیار بلند ہوگا ان شاءاللہ ۔ اللہ تعالٰی ہم سب اہلِ اسلام کو ان نفوس قدسیہ کی قدردانی کی توفیق عطا فرمائے ، اور بقدر استطاعت ان حضرات کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی) ۔ حصّہ اوّل اس لنک میں پڑھیں : https://www.facebook.com/1563205053975439/posts/2699044443724822/
No comments:
Post a Comment