امام کے پیچھے قرأت کرنا منع ہے حصہ پنجم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
امام کے پیچھے مقتدی نماز میں فاتحہ یا قرآن مجید کی کوئی سورت یا آیت نہ پڑھے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے، صحابہ و ائمہ کبار کا معمول ہے ۔ یہ قاعدہ یاد رکھ لیں کہ اللہ سب سے بڑا ہے ، اس کا فرمان سب سے بڑا ہے، جو بات قرآن سے ثابت ہو اس پر اعتراض مسلمان کا کام نہیں ۔ قرآن مجید کے مقابلہ میں نہ کوئی روایت پیش ہو سکتی ہے نہ کسی بزرگ کا قول۔ مسئلہ مسؤلہ میں ہم پہلے قرآن کریم سے ہدایت لیں گے ، پھر حدیث پاک سے ۔ ابتداء میں امام ومقتدی سب کےلیے کافی سورہ فاتحہ پڑھنا ضروری تھا بعد میں حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امام کی قرأت کو مقتدی کےلیے کافی قرار دیا یعنی اب کوئی امام کے پیچھے نہ سورہ فاتحہ پڑھے نہ کوئی اور سورہ غیر مقلدین اس مسئلے میں کچھ حدیثیں پیش کرتے ہیں اور بھولے بھالے سنی مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ جس نے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز ہی نہیں ہوئی ۔ یاد رہے نماز میں قرأت کرنا فرض ہے چاہے پورے قرآن میں سے کوئی سورہ یا کسی سورہ کی تین آیات پڑھے اور سورہ فاتحہ ہر نماز کے شروع میں پڑھنا واجب ہے فرض نہیں ہے اگر کوئ بھول سے سورہ فاتحہ نہ پڑھے اور اس کی جگہ کوئ سورہ تین آیت کے برابر پڑھ لے تو وہ آخر میں سجدہ سہو کرے اس کی نماز ہوگئی ہمارے امام اعظم سرکار ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے نزدیک مقتدی کو جہری وہ نماز جس میں امام زور سے قرآن پڑھتا ہے اور سری جس میں امام آہستہ قرآن پڑھتا ہو جیسے ظہر اور عصر امام کے پیچھے قرآت سورہ فاتحہ یا قرآن کی کوئی سورہ پڑھنا جائز نہیں ہے اس مسئلے پر قرآن وحدیث سے چند دلیلیں حاضر ہیں قرآن مجید میں ہے : ⬇
واذا قرئ القرآن فاستمعو لہ وانصتو لعلکم ترحمون ۔
ترجعہ) : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم ہو ۔ (پارہ نمبر 9 رکوع نمبر 14 سورہ اعراف آیت نمبر 204)
اس آیت میں صاف ہے کہ،قرآن پڑھا جائے تو چپ رہو مگر غیر مقلدین امام کا قرآن پڑھنا نہیں سنتے بلکہ پیچھے خود بھی سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں کیا ان کا یہ عمل،قرآن کے خلاف نہیں ۔ جو آیت ہم نے پیش کی اس کے بارے میں علامہ فخر الدین رازی علیہ الرحمہ اپنی کتاب تفسیر کبیر میں اور ابن کثیر نے اپنی تفسیر کثیر میں اور ابن قدامہ حنبلی نے المغنی میں اور خود غیر مقلدین کے شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اپنے فتوی میں لکھا ہے یہ آیت نماز میں امام کے قرآن پڑھنے کے بارے میں نازل ہوئ ہے ۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرض نماز میں قرأت کی اور آپ کے پیچھے آپ کے صحابہ نے بھی بلند آواز سے قرأت کی جس سے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو قرأت میں خلط (آگے پیچھے) ہوا پھر یہ آیت نازل ہوئی ۔ (تفسیر کبیر جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 500)
مذکورہ بالا تصریحات سے صاف ظاہر وباہر ہوگیا کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا قرأت کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ آیت کریمہ سے ظاہر ہوگیا اور سورۂ فاتحہ پڑھنا ابتداء میں سب کے لئے ضروری تھا بعد میں سرکار صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے منع فرمادیا -
یہ قرآن حکیم کا حکم ہے جس میں کوئی شک نہیں، واضح ہے کوئی ابہام نہیں کہ جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور چپ رہو۔ پورے قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں فرمایا گیا کہ جب قرآن پڑھا جائے تو مت سنو اور مت خاموش رہو، بلکہ تم بھی پڑھا کرو جب امام فاتحہ پڑھتا ہے تم بھی پڑھو، نہیں بلکہ فاتحہ بھی قرآن مجید کی ایک سورت ہے۔ لہٰذا قرآن ہے اور امام چونکہ تلاوت کر رہا ہے، لہٰذا سب کو غور سے سننے اور چپ رہنے کا حکم ہے، اب جو صاحب یہ فرمائیں کہ امام کے پیچھے مقتدی بھی فاتحہ پڑھے، اس سے قرآن مجید کی آیت پوچھیں۔ قرآن کا مقابلہ حدیث سے نہیں ہو سکتا نہ روایت قرآن کی آیت کو منسوخ کرتی ہے۔
ظہر اور عصر میں نماز میں قرات آہستہ ہوتی ہے جو سنی نہیں جاتی، فجر، مغرب اور عشا کی نمازوں میں قرات با آواز بلند ہوتی ہے جو سنی جاتی ہے، گویا قرآن مجید کی دو صورتیں ہوئیں۔
1۔ جہری، یعنی بلند آواز کے ساتھ، جیسے فجر، مغرب اور عشا
2۔ سری، یعنی آہستہ، جیسے ظہر و عصر۔
لہٰذا ایک ہی آیت میں دو حکم فرمائے گئے، ایک یہ کہ کان لگا کر سنو، یعنی جب آواز آئے، جیسے جہری نمازوں میں۔ دوسرا چپ رہو، یعنی جب آواز نہ آئے، جیسے سری نمازوں میں۔
حدیث پاک کی توضیح : حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة.
جو فاتحہ نہ پڑھے اس کی کوئی نماز نہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من صلی صلوة لم يقرا فيها بام القرآن فهی خداج ثلاثا غير تام . (صحيح مسلم، 1 : 149،چشتی)
جس نے ایسی نماز پڑھی جس میں فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے۔ تین بار فرمایا مکمل نہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم نماز کے لیے آؤ اس وقت ہم سجدے میں ہوں۔
فاسجدوا و لا تعدوه شياء و من ادرک رکعة فقد ادرک الصلوٰة . (سنن ابی داؤد، 1 : 136،چشتی)
ترجمہ : تو تم بھی سجدہ کرو اور اس کا شمار نہ کرنا، اور جس نے رکوع پا لیا اس نے (رکعت) پا لی۔
کیا سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ؟
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، حدیث پاک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان، فعل یا تقریر ہے، قرآن مجید میں کمی بیشی جائز نہیں۔ حدیث پاک میں کسی راوی سے غلطی سے کمی بیشی ہو سکتی ہے، اس لیے صحت حدیث کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے خلاف نہ ہو۔ قرآن مجید نے فاتحہ پڑھنے کی قید نہیں لگائی بلکہ جو بھی قرآن مجید جہاں سے آسان ہو پڑھنا فرض قرار دیا، تو اب فاتحہ کی تخصیص بطور فرض قرآن کے عموم و اطلاق کے خلاف ہوگا۔ ہاں مطلق قرآن پڑھنا، قرآن مجید کی رو سے فرض ہے اور فاتحہ پڑھنا بحکم حدیث واجب۔
اگر فاتحہ کے علاوہ قرآن پڑھنا تو فرض ادا ہو جائے گا۔ لیکن واجب رہ گیا۔ غلطی سے ایسا کیا تو سجدہ سہو کرنے سے نماز درست ہو جائے گی۔ دانستہ کیا تو دوبارہ ادا کرے کہ واجب الاعادہ ہے، فھی خداج کا مفہوم یہی ہے۔ نماز نہ ہوئی کا مفہوم یہی ہے کہ ناقص ہوئی۔ جس نے امام کے پیچھے رکوع پا لیا اس نے پوری رکعت پا لی، اگر فاتحہ پڑھنا فرض ہو تو رکعت کیسے مل سکتی ہے؟ حالانکہ بالاتفاق رکوع میں ملنے والا رکعت پا لیتا ہے۔ پتہ چلا کہ فاتحہ پڑھنا فرض نہیں۔
امام کے پیچھے فاتحہ یا دیگر قرآن نہ پڑھنے کا حکم حدیث پاک سے :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہری قراءت والی نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : هل قرا معی احد منکم انفا فقال رجل نعم يا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم، قال انی اقول مالی انازع القرآن قال فانتهی الناس عن القراة مع رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم فيما جهر فيه، بالقراة عن الصلوة حين سمعوا ذلک من رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم.
ترجمہ : ابھی ابھی تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرآن پڑھا؟ ایک شخص نے عرض کی جی ہاں، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فرمایا میں کہہ رہا تھا میرے ساتھ قرآن میں جھگڑا کیوں ہو رہا ہے؟ کہا اس کے بعد جب لوگوں نے یہ بات جہری نمازوں کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سن لی تو قراءت خلف الامام ترک کر دی ۔ (مالک، احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجه، بحواله مشکوٰة : 81)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان المصلی يناجی ربه و لا يجهر بعضکم علی بعض بالقرآن.
ترجمہ : نمازی اپنے رب سے سرگوشی کرتاہے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں کوئی آواز سے قرآن نہ پڑھے ۔ (احمد بن حنبل، بحواله مشکوٰٰة : 81)
سو اسے دیکھنا چاہیے کہ کیسی سرگوشی کر رہا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انما جعل الامام ليوتم به فاذا کبر فکبروا و اذا قرا فانصتوا.
ترجمہ : امام صرف اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ پھر جب تکبیر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو، اور جب قرآن پڑھے تو خاموش رہو۔ (ابو داؤد، نسائی، ابن ماجه، بحواله مشکوٰة : 81،چشتی)
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صبح کی نماز پڑھ رہے تھے، فثقلت عليه القراءة، فلما فرغ قال لعلکم تقرؤن خلف امامکم قلنا نعم يا رسول الله صلی الله عليه وآله وسلم، قال لا تفعلوا الا بفاتحة الکتاب فانه لا صلوة لمن لم يقرا بها.
ترجمہ : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرآن پڑھنا دشوار ہوگیا، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا، شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرآن پڑھتے ہو؟ ہم نے عرض کی جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فرمایا ایسا مت کرو۔ ہاں فاتحہ، کہ جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ اس کی وضاحت اوپر آ چکی ہے۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نماز پڑھنے لگو تو صفیں سیدھی کرو پھر تم میں سے ایک امامت کروائے، جب تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب غير المغضوب عليهم ولا الضالين کہے تم آمین کہو۔ اللہ تمہاری دعا قبول فرمائے گا۔ فاذا کبر و رکع فکبروا وارکعوا. واذا قراً فانصتوا.
ترجمہ : جب تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تکبیر کہو اور رکوع کرو، اور جب قرآن پڑھے تم خاموش رہو ۔ (مشکوٰة، بحواله صحيح مسلم : 79)
حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں : اذا انت قمت فی صلوتک فکبر الله عزوجل ثم اقراء ما تيسر عليک من القرآن.
ترجمہ : جب نماز میں کھڑے ہو تو اللہ اکبر کہو، پھر جو قرآن میں سے آسان لگے پڑھو ۔ (ابو داؤد، 1 : 132)
شروع اسلام میں نماز میں گفتگو بھی کر لیتے تھے
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : کنا نتکلم فی الصلوٰة يکلم احدنا اخاه فی حاجته حتی نزلت هذه الا به حافظوا علی الصلوٰت و الصلوة و الوسطی و قوموا لله قانتين فامرنا بالسکوت.
ترجمہ : ہم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے کام اور حاجت سے متعلق پوچھتا، یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ اتری تمام نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیان والی نماز کی (بھی) اور اللہ کے لیے عاجزی سے کھڑا ہوا کرو۔ پھر ہمیں خاموش رہنے کا حکم ہوا ، فامرنا بالسکوت . ترجمہ : پھر ہمیں خاموشی کا حکم ملا ۔۔ (صحيح بخاری، 2 : 250، جامع ترمذی، 1 : 123)
ابتدائے اسلام میں وہ پابندیاں نہیں تھیں جو بعد میں آئیں نماز میں گفتگو تک ہوتی تھی نماز میں بات چیت کر لیتے تھے ۔
پس پہلے کوئی صاحب حکم واضح نہ ہونے کی وجہ سے فاتحہ خلف الامام بھی پڑھتا تھا تو خاموشی کے حکم سے وہ بھی خاموش ہو گیا، قرآن کریم کے حکم فاستمعوا لہ وانصتوا، سنو اور چپ رہو، کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد خاموشی ہمارے اطمینان کے لیے کافی ہے۔ پس ہم امام کے پیچھے مطلق قرآن پڑھنے کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ قعدے میں جو قرآنی دعائیں پڑھی جاتی ہیں، ہم ان کو بطور قراءت نہیں بطور دعا پڑھتے ہیں۔ نیز مقام قراءت قیام ہے، قعدہ نہیں۔ سیدنا جابر بن عبداللہ ضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من صلیٰ خلف الامام فان قراة الامام له قراة ۔
ترجمہ : جو شخص امام کے پیچھے نماز ادا کر تو امام کا پڑھنا ہی اس کا پڑھنا ہے۔
(امام محمد، المؤطا، 1: 96)(البيهقی، السنن الکبریٰ، 2: 160)(الطبرانی، المعجم الاوسط، 8: 43) ۔ (مزید حصّہ ششم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment