سنّت داڑھی اور شرعی حیثیت حصّہ سوم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
از فتاویٰ رضویہ : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ : (۱) ریش ایک مشت سے زیادہ رکھنا سنت ہے یامکروہ ؟ ۔ (۲) اور فخر عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ریش مبارک اپنی کو کبھی زیادہ ایک مشت سے ترشوایا ہے یانہیں ؟ ۔ (۳) اور دیگر سوال یہ ہے کہ زید کہتاہے کہ سید الموجودات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ریش مبارک ایک مشت سے زیادہ کبھی نہ ہوئی یعنی پیدائشی آپ کی ایک ہی مشت تھی ۔ (۴) اور حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زیادہ ایک مشت سے تھی یا ایک ہی مشت ؟ بینوا توجروا (بیان کروا اور اجر پاؤ ۔ ت)
الجواب
جواب سوال اول : ریش ایک مشت یعنی چار انگلی تک رکھنا واجب ہے اس سے کمی ناجائز ۔ شرح مشکوٰۃ شریف میں ہے:گذاشتن آں بقدر قبضہ واجب ست وآنکہ آنرا سنت گویند بمعنی طریقہ مسلوک دین ست یا بجہت آنکہ ثبوت آن بسنت ست چنانچہ نماز عید راسنت گفتہ اند ۱؎۔داڑھی بمقدار ایک مشت رکھنا واجب ہے اور جو اسے سنت قرار دیتے ہیں وہ اس معنی میں ہے کہ یہ دین میں آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جاری کردہ طریقہ ہے یا اس وجہ سے کہ اس کا ثبوت سنت نبوی سے ہے جیسا کہ نماز عید کو سنت کہاجاتا ہے حالانکہ وہ واجب ہے۔ (ت)(۱؎ اشعۃ اللمعات شرح المشکوٰۃ کتاب الطہارۃ باب السواک مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۲۱۲)
فتح القدیر میں ہے:الاخذ منھا وھی دون ذٰلک کما یفعلہ بعض المغاربۃ ومخنثۃ الرجال ۲؎۔داڑھی تراشنا یا کترنا کہ وہ مشت کی مقدار سے کم ہوجائے ناجائز ہے جیسا کہ بعض مغربیت زدہ لوگ اور ہیجڑے کرتے ہیں۔ (ت)
(۲؎ فتح القدیر باب الصیام باب مایوجب القضاۃ والکفارۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/ ۲۷۰)
غرض لحیہ سے کچھ لینا بھی اسی حالت سے مشروط ہے جبکہ طول میں حد شرع تک پہنچ جائے۔فی الھندیہ من الملتقط لاباس اذا طالت لحیتہ طولا وعرضا لکنہ مقید بما اذا زاد علی القبضۃ ۳؎۔فتاوٰی ہندیہ میں بحوالہ ''الملتقط'' منقول ہے کہ جب داڑھی طول اور عرض میں بڑھ جائے تو ایک مشت مقدار سے زائد کاٹ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(ت)(۳؎ فتاوٰی ہندیہ کتاب الکراہیۃ الباب التاسع عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۵۸)
اور پر ظاہر کہ مقدار ٹھوڑی کے نیچے سے لی جائے گی یعنی چھوٹے ہوئے بال اس قدر ہوں وہ جو بعض بیباک جہال لب زیریں کے نیچے سے ہاتھ رکھ کر چار انگل ناپتے ہیں کہ ٹھوڑی سے نیچے ایک ہی انگل رہے یہ محض جہالت اور شرع مطہر میں بیباکی ہے غرض اس قدر میں تو علمائے سنت کا اتفاق ہے۔ اس سے زائد اگر طول فاحش حد اعتدال سے خارج بے موقع بدنما ہو تو بلا شبہہ خلاف سنت مکروہ کہ صورت بد نما بنانا اپنے منہ پر دروازہ طعن مسخر یہ کھولنا مسلمانوں کو استہزاء وغیبت کی آفت میں ڈالنا ہر گز مرضی شرع مطہر نہیں، نہ معاذا للہ زنہار کہ ریش اقدس حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عیاذا باللہ کبھی حد بدنمائی تک پہنچی سنت ہونا اس کامعقول نہیں۔
وان ذھب بعض العلماء من غیر اصحابنا الی اعفاء اللحی جملۃ واحدۃ وکراھۃ اخذ شیئ منھا مطلقا وھو الذی اختارہ الامام الاجل النووی والعجب من ابن ملک حیث تابعہ علی ذٰلک مستدرکا بہ علی قول نفسہ ان الاخذ من اطراف اللحیۃ طولھا وعرضھا للتناسب حسن کما نقل عنہ المولی علی القاری فی کتاب الطھارۃ من المرقاۃ ۱؎ والعجب انہ ایضا سکت علیہ ھھنا مع انہ خلاف ماعلیہ ائمتنا الکرام کما ترٰی۔
اگر چہ ہمارے اصحاب علم کے سوا کچھ دوسرے علماء کا خیال ہے کہ داڑھی کو یک لخت مجموعی طو ر پر بڑھنے دیا جائے اور محدود نہ کیا جائے وہ داڑھی کو تراشنے کے حق میں مطلقا نہیں اور وہ تراشنے کو مکروہ خیال کرتے ہیں جلیل القدر امام نووی نے اسی چیز کو پسند کیا ہے لیکن ابن ملک پر تعجب ہے کہ اس نے اس مسئلہ میں امام نووی کی متابعت کرتے ہوئے اپنے قول پر استدراک کیا کہ داڑھی کی اطراف طول وعرض سے تناسب قائم رکھنے کے لئے کچھ تراش خراش کرنامستحسن یعنی اچھا ہے جیسا کہ اس سے محدث ملا علی قاری نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ کی بحث طہارت میں نقل کیا ہے اور ان پر بھی تعجب ہے کہ وہ یہاں خاموش رہے حالانکہ یہ اس کے خلاف ہے جس پر ہمارے ائمہ کرام قائم ہیں جیسا کہ تم دیکھتے ہو۔ (ت)(۱؎ مرقاۃ المفاتیح کتاب الطہارۃ باب السواک الفصل الاول المکتبۃ الحبیبہ کوئٹہ ۲/ ۹۱)
ولہذا حدیث میں آیا حضور والا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:من سعادۃ المرء خفۃ لحیتہ ۲؎۔ اخرجہ الطبرانی فی الکبیر وابن عدی فی الکامل عن ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما۔آدمی کی سعادت سے ہے داڑھی کا ہلکا ہونا یعنی یہ کہ بیحد دراز نہ ہو۔ (امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں اور ابن عدی نے الکامل میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے حوالے سے تخریج فرمائی۔ ت)(۲؎ المعجم الکبیر حدیث ۱۲۸۲۰ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت ۱۲/ ۲۱۱)(الکامل لابن عدی ترجمہ یوسف بن فرق بن لمازۃ قاضی الاھواز دارالفکر بیروت ۷/ ۲۶۲۴، ۲۶۲۵)
علامہ خفاجی نسیم الریاض میں فرماتے ہیں : المراد من ذٰلک عدم طولھا جدا لما ورد فی ذمہ ۱؎۔یقینا اس سے مراد غیر طویل ہے کیونکہ اس کی مذمت میں حدیث واردہوئی ہے۔ (ت)
(۱؎ نسیم الریاض الباب لثانی فصل الثالث ادارۃ تالیف اشرفیہ ملتان ۱/ ۳۳۱)
امام حجۃ الاسلام غزالی احیاء العلوم پھر مولانا علی قاری مرقاۃ میں فرماتے ہیں:قد اختلفوا فیما طال من اللحیۃ فقیل ان قبض الرجل علی لحیتہ واخذ ماتحت القبضۃ فلا باس بہ وقد فعلہ ابن عمر و جماعۃ من التابعین واستحسنہ الشعبی و ابن سیرین وکرھہ الحسن وقتادۃ ومن تبعھما وقالواترکھا عافیۃ احب لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام اعفوا اللحی لکن الظاھر ھوالقول الاول فان الطول المفرط یشوہ الخلقۃ ویطلق السنۃ المغتابین بالنسبۃ الیہ فلا باس للاحتراز عنہ علی ہذہ النیۃ، قال النخعی عجبت لرجل عاقل طویل اللحیۃ کیف لایاخذ من لحیتہ فیجعلھا بین لحیتین ای طویل وقصیر فان التوسط من کل شیئ احسن ومنہ قیل خیر الامور اوسطھا ومن ثم قیل کلما طالت اللحیۃ نقص العقل ۲؎۔
بے شک داڑھی کے دراز حصہ میں (یعنی اس کی درازی کے بارے میں) اہل علم نے اختلاف کیا ہے پس یہ کہا گیا ہے کہ اگر کوئی مرد اپنی مشت بھر داڑھی کو پکڑ کر مشت سے زائدبالوں کو کاٹ ڈالے تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اور حضرات تابعین کے ایک گروہ نے اس طرح کیا تھا اور امام شعبی اور محمد بن سیرین نے اس کو اچھا سمجھا البتہ حضرت حسن بصری اور امام قتادہ اور ان کے ہمنوا لوگوں نے اس کو مکروہ کہا اور انھوں نے فرمایا کہ اسے بڑھتے ہوئے چھوڑ دینا زیادہ مناسب اور پسندیدہ بات ہے ، حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد کی وجہ سے کہ داڑھیاں بڑھاؤ، لیکن ظاہر وہی پہلی بات ہے کیونکہ فحش درازی صورت کوبد نمابنادے گی اور اس کی نسبت (لوگوں کی) زبانیں درازہوجائیں گی پھر اس نیت سے اس سے بچنے میں کوئی حرج نہیں پھر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ اگر کوئی عقلمند آدمی لمبی داڑھی والا ہو یعنی اس کی داڑھی زیادہ لمبی ہونے لگے تو وہ کیونکر داڑھی نہ تراشے گا، پھروہ لمبی اور چھوٹی دوقسم کی داڑھیوں کے درمیان کردے گا اس لئے کہ ہر چیزمیں میانہ روی اچھی ہوتی ہے اسی لئے فرمایا گیا کہ بہترین کام درمیانہ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے یہ بھی کہا گیا کہ جب بھی داڑھی لمبی ہو تو عقل کم ہوگی۔ (ت)(۲؎ مرقاۃ المفاتیح کتاب اللباس باب الترجل الفصل الثانی المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۸/ ۲۲۳)
ردالمحتار میں ہے:اشتھر ان طول اللحیۃ دلیل علی خفۃ العقل ۱؎۔مشہور ہے کہ لمبی داڑھی بے وقوف ہونے کی علامت ہے۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۶۱)
اور اگر حد سے زائد نہ ہو تو بعض ائمہ سلف رضی اللہ تعالٰی عنہم سے منقول امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کی ریش مبارککما نص علیہ الامام ابن حجر فی الاصابۃ وکذالک نقل الفاضل ابن عبدﷲ الشافعی نزیل المدینۃ الطیبۃ فی کتابہ الاکتفاء فی فضل الاربعۃ الخلفاء عن الامام البغوی ۔
(جیسا کہ امام ابن حجر نے ''اصابہ'' میں تصریح فرمائی ہے اور اسی طرح امام بغوی کے حوالے سے فاضل بن عبداللہ شافعی جو مدینہ طیبہ کے باسی ہیں، نے اپنی کتاب''الاکتفاء'' فی فضل الاربعۃ الخلفاء''میں نقل کیا ہے۔ ت)
امام موفق الدین ابن قدامہ حنبلی قدس سرہ الشریف فرماتے ہیں:کان شیخنا شیخ الاسلام محی الدین ابو محمد عبدالقادر الجیلی نحیف البدن ربع القامۃ عریض الصدر عریض اللحیۃ طویلھا الخ۔ اخرجہ الامام الثقۃ الفقیہ امام القراء سیدی ابوالحسن نور الدین علی الشطنوفی فی قدس سرہ فی بھجۃ الاسرار ۲؎۔ہمارے مرشد حضور شیخ الاسلام محی الدین ابو محمد عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بدن مبارک دبلا تھا اور قامت شریف میانہ، سینہ مقدس چوڑا، ریش منور پہن ودراز الخ ۔(مستند امام ، علم فقہ کے ماہر، قاریوں کے پیشوا سیدی ابوالحسن نورالدین علی شطنوفی قدس سرہ نے بہجۃ الاسرار میں اس کی تخریج فرمائی ہے۔ (ت)(۲؎ بہجۃ الاسرار نسبہ وصفتہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ مصطفی البابی مصر ص۹۰،چشتی)
شیخ محقق رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں:عادت سلف دریں باب مختلف بود آوردہ اند کہ لحیہ امیر المومنین علی پرمی کرد سینہ اُورا وہمچنیں عمر وعثمان رضی ﷲ تعالٰی عنہم اجمعین و نوشتہ اند کان الشیخ محی الدین رضی ﷲ تعالٰی عنہ طویل اللحیۃ وعریضھا ۱؎۔اسلاف کی عادت اس بارے میں مختلف تھی چنانچہ منقول ہے کہ امیر المومنین حضر ت علی رضی اللہ عنہ کی داڑھی ان کے سینے کو بھردیتی تھی اس طرح حضرت فاروق اعظم اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہماکی مبارک داڑھیاں تھیں، اور لکھتے ہیں کہ شیخ محی الدین سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ لمبی داڑھی اور چوڑی داڑھی والے تھے۔ (ت)(۱؎ مدارج النبوت باب اول بیان لحیۃ شریف مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۱۵)
شاید انھیں آثار کی بنا پر شیخ محقق نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا:مشہور قدر یک مشت ست چنانکہ کمتر ازیں نباید و اگر زیادہ براں بگزارد نیز جائز ست بشرطیکہ از حد اعتدال نگزرد ۲؎۔
مشہور مقدار ایک مشت ہے پس اس مقدار سے کم نہیں ہونی چاہئے اور اگر اس سے زیادہ چھوڑدے تو بھی جائز ہے بشرطیکہ اعتدال برتا جائے۔ (ت)(۲؎ اشعۃ اللمعات کتاب الطہارۃ باب السواک فصل اول مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۲۱۲،چشتی)
اور مدارج میں ایک قول یہ نقل فرمایا کہ علماء ومشائخ کو ایک مشت سے زیادہ رکھنا بھی درست ہے،حیث قال مشہور در مذہب حنفی چہار انگشت و ظاہر آنست کہ مراد آں باشد کہ کم ازیں نمی باید و لیکن در روایت آمدہ است کہ واجب ست قطع زیادہ برآں وگفتہ اند کہ اگر علماء ومشائخ زیادہ براں بگزارند نیز درست ست ۳؎۔جیسا کہ فرمایا مذہب حنفی میں مشہور یہ ہے کہ مقدار داڑھی چار انگشت ہو اور ظاہر یہ ہے کہ اس سے کم نہیں ہونی چاہئے لیکن حدیث شریف میں آیا ہے کہ اس سے زائد کو قطع کرنا واجب ہے اور فرماتے ہیں اگر علماء اور مشائخ اس سے زائد رکھیں تو بھی جائز ہے۔ (ت)(۳؎ مدارج النبوۃ باب اول مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۱۵)
مگر سیدنا عبداللہ بن عمر و ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہم اپنی ریش مبارک مٹھی میں لے کر جس قدر زیادہ ہوتی کم فرمادیتے ۔ بلکہ یہ کم فرمانا خود حضور پر نور صلوات اللہ تعالٰی وسلامہ علیہ سے ماثور امام محمد کتاب الآثار میں فرماتے ہیں:اخبرنا ابوحنیفہ عن الھیثم عن ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنھما انہ کان یقبض علی لحیتہ ثم یقص ماتحت القبضہ ۱؎۔ہم سے امام ابوحنیفہ نے ارشاد فرمایا ان سے ابوالہیثم نے ان سے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے کہ حضرت عبداللہ اپنی داڑھی مٹھی میں پکڑ کر زائد حصہ کو کترڈالتے تھے۔ (ت) ۔ (۱؎ کتاب الآثار باب خف الشعر من الوجہ روایۃ ۹۰۰ ادارۃ القرآن کراچی ص۱۹۸)
ابوداؤد ونسائی مروان بن سالم سے راوی :رأیت ابن عمر رضی ﷲ تعالٰی عنہما یقبض علی لحیتہ فیقطع مازاد علی الکف ۲؎۔میں نے عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کو دیکھا کہ اپنی داڑھی مٹھی میں لے کر زائد بالوں کو کاٹ ڈالا کرتے تھے۔ (ت)(۲؎ سنن ابی داؤد کتاب الصوم باب القول عند الافطار آفتاب عالم پریس لاہور ۱/ ۳۲۱)
مصنف ابوبکر بن ابی شیبہ میں ہے:کان ابوھریرہ رضی ﷲ تعالٰی عنہ یقبض علی لحیتہ ثم یأخذ مافضل عن القبضہ ۳؎۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں پکڑ کر مٹھی سے زائد حصہ کو کتر ڈالتے تھے۔ (ت)(۳؎ المصنف ابن ابی شیبہ کتاب الحظروالاباحۃ باب ماقالوا من الاخذمن اللحیۃ ادارۃ القرآن کراچی ۸/ ۳۷۴،چشتی)
فتح القدیر میں ان آثار کو نقل کرکے فرمایا:انہ روی عن النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۴؎۔باوجود اس کے کہ یہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے راویت کی گئی ۔ (ت)
(۴؎ فتح القدیر کتاب الصوم باب مایوجب القضاء والکفارۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/ ۲۷۰)
ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم نے اسی کو اختیار فرمایا اور عامہ کتب مذہب میں تصریح فرمائی کہ داڑھی میں سنت یہی ہے کہ جب ایک مشت سے زائد ہو کم کردی جائے بلکہ بعض اکابر نے اسے واجب فرمایا اگر چہ ظاہر یہی ہے کہ یہاں وجوب سے مراد ثبوت ہے نہ کہ وجوب مصطلح، امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی بعد روایت حدیث مذکور فرماتے ہیں:بہ ناخذ وھو قول ابی حنیفۃ ۵؎۔ہم اسی کو لیتے ہیں اور حضرت امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ (ت)
(۵؎کتاب الآثار باب خف الشعر من الوجہ روایۃ ۹۰۰ ادارۃ القرآن کراچی ص۱۹۸،چشتی)
نہایۃ سے منقول:بہ اخذ ابوحنیفۃ وابویوسف ومحمد ۱؎کذا ذکرا بوالیسر فی جامعہ الصغیر۔اسی کو حضرت امام ابوحنیفہ، قاضی ابویوسف، اورامام محمد نے اختیار کیا ہے۔ اسی طرح ابوالیسر نے اس کو جامع صغیر میں ذکر کیا ہے۔ (ت)(۱؎ العنایۃ علی ہامش فتح القدیر کتا ب الصوم باب مایوجب القضاء الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲/ ۲۶۹)
مرقاۃ باب الترجل میں ہے:مقدار قبضہ علی ماھوا لسنۃ والاعتدال المتعارف ۲؎۔مقدار مشت ہی سنت ہے اور مشہور مبنی برمیانہ روی ہے اور یہی راہ اعتدال ہے۔ (ت)(۲؎ مرقات المفاتیح کتاب اللباس باب الترجل الفصل الاول المکتبہ الحبیبیہ کوئٹہ ۸/ ۲۱۱)
درمختار میں ہے:صرح فی النہایۃ بوجوب قطع مازاد علی القبضۃ بالضم ومقتضاہ الاثم بترکہ الاان یحمل الوجوب علی الثبوت ۳؎۔نہایہ میں تصریح کی گئی ہے کہ داڑھی کے جو بال مقدار مشت سے زیادہ ہوں انھیں کترڈالنا واجب ہے (القبضہ میں ''ق'' حرکت پیش کے ساتھ ہے) اس کا مقتضٰی یہ ہے کہ اس کا ترک یعنی ایسا نہ کرنا گناہ ہے مگر یہ کہ یہاں وجوب سے ثبوت مرادلیا جائے۔ (ت)(۳؎ درمختار کتاب الصوم باب مایفسد الصوم مطبع مجتبائی دہلی ۱/ ۱۵۲)
ردالمحتار میں ہے:قولہ صرح فی النھایۃ ومثلہ فی المعراج وقد نقلہ عنہا فی الفتح و اقرہ قال فی النھر وسمعت من بعض اعزاء الموالی ان قول النھایۃ یحب بالحاء المھملۃ ولا باس بہ اھ قال الشیخ اسمٰعیل ولکنہ خلاف الظاھر واستعمالھم فی مثلہ یستحب قولہ الا ان یحمل یؤیدہ ان مااستدل صاحب النھایۃ لایدل علی الوجوب لما صرح بہ فی البحر وغیرہ ان کان یفعل لایقتضی التکرار والدوام ولذا حذف الزیلعی لفظ یجب وقال ومازاد یقص۔ وفی شرح الشیخ اسمعیل لا باس بان یقبض علی لحیتہ فاذا زاد علی قبضہ شیئ جنرہ کما فی المنیۃ وھی سنۃ کما فی المبتغی ۱؎۔
مصنف کا قول ''صرح فی النھایۃ'' اور یونہی معراج الدرایہ میں بھی ہے، اور محقق ابن الہمام نے اسی نہایہ سے نقل کرکے اس کو برقرار رکھا ہے، النہر میں فرمایا میں نے ( بعض موالی کی نسبت کرنے سے) سنا ہے کہ النہایۃ کا یحب کہنا صرف حابے نقطہ کے ساتھ ہے اور اس میں کچھ حرج نہیں اھ شیخ اسمعیل نے فرمایا لیکن یہ ظاہر کے خلاف ہے کیونکہ لوگ اس قسم پر لفظ یستحب استعمال کرتے ہیں مصنف کے قول ''الاان یحمل'' سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ صاحب نہایہ نے جو استدلال کیا ہے وہ وجوب پر دلالت نہیں کرتا، چنانچہ البحرالرائق وغیرہ میں اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اگر وہ ایسا کرتے تھے تو یہ تکرار اور دوام نہیں چاہتا اس لیے علامہ زیلعی نے اس کلمہ یجب کو حذف کردیا اور فرمایا جو کوئی مشت سے زیادہ ہو اسے کتروائے اور شیخ اسمعیل کی شرح میں ہے کہ اس میں کچھ مضائقہ نہیں کہ آدمی اپنی داڑھی مٹھی میں پکڑے اور جو بال مٹھی سے زائد ہوں انھیں کتر دے۔ جیسا کہ المنیہ میں ہے اور یہ سنت ہے جیسا کہ المبتغٰی میں ہے۔ (ت)(۱؎ ردالمحتار کتاب الصوم باب مایفسد الصوم داراحیاء التراث العربی بیروت ۲/ ۱۱۳)
مرقاۃ میں قول نہایہ نقل کرکے فرمایا:قولہ یحب بمعنٰی ینبغی اوالمراد بہ انہ سنۃ مؤکدۃ قریبۃ الی الوجوب والا فلا یصح علی اطلاقہ ۲؎۔صاحب نہایہ کا یحب کہنا ینبغی کے معنی میں ہے یعنی مناسب ہے یا اس سے ایسی سنت مؤکدہ مر اد ہے جو وجوب کے قریب ہے ورنہ یہ علی الاطلاق صحیح نہیں۔ (ت)(۲؎ مرقاۃ المفاتیح کتاب اللباس باب الترجیل المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۸/ ۲۲۳)
ردالمحتار میں ہے:ھو ان یقبض الرجل لحیتہ فمازاد منہا علی قبضۃ قطعہ کذا ذکر محمد فی کتاب الآثار عن الامام قال وبہ ناخذ محیط اھ ط ۱؎۔مرد اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں لے کر زائد حصہ کو کاٹ دے، امام محمد رحمہ اللہ تعالٰی نے کتا ب الآثار میں امام صاحب کے حوالہ سے یہی ذکر فرمایا ہے اور مزید فرمایا ہم اسی مؤقف کے قائل ہیں محیط اھ ط (ت)
(۱؎ ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۶۱،چشتی)
ہندیہ میں محیط امام سرخسی سے ہے:القص سنۃ فیہا وھو ان یقبض الی آخر مامر ۲؎۔داڑھی کے زائد حصہ کو کتردینا سنت ہے اور وہ یہ ہے کہ بقدر ایک مشت داڑھی چھوڑ کر باقی زائد کو کتر ڈالے (ت)(۲؎ فتاوی ہندیہ کتاب الحظروالاباحۃ الباب التاسع عشر نورانی کتب خانہ پشاور ۵/ ۳۵۸)
اختیار شرح مختار سے منقول ہے۔التقصیر فیھا سنۃ وھو ان یقبض ۳؎ الخ۔ایک مٹھی بھر داڑھی سے زائد بالوں کا کتردینا سنت ہے اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ داڑھی کو مٹھی بھر میں پکڑ کر زائد حصہ کتر ڈالا جائے الخ (ت)
(۳؎ الاختیار لتعلیل المختار کتاب الکراہیۃ فصل فی آداب ینبغی للمؤمن دارالمعرفۃ بیروت ۴/ ۱۶۷)
اسی طرح اور کتب مذہب میں ہے تو ہمارے علما کے نزدیک ایک مشت سے زائد کی سنت ہر گز ثابت نہیں بلکہ وہ زائد کے تراشنے کو سنت فرماتے ہیں۔ تو اس کا زیادہ بڑھانا خلاف سنت مکروہ تنزیہی ہوگا۔ لاجرم مولانا علی قاری نے جمع الوسائل شرح شمائل ترمذی شریف میں فرمایا:ان کان الطول الزائد بان تکون زیادۃ علی القبضۃ فغیر ممدوح شرعا ۴؎۔اگر داڑھی زیادہ لمبی ہو یعنی ایک مشت سے زائد ہو تو ایسا ہو ناشریعت میں قابل تعریف اور مستحسن ہے۔ (ت) ۔ (۴؎ جمع الوسائل فی شرح الشمائل باب ماجاء فی خلق رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالمعرفۃ بیروت ۱/ ۳۷)
رہاشیخ محقق کا اسے جائز فرمانا وہ کچھ اس کے منافی نہیں کہ خلاف اولٰی بھی ناجائزنہیں، بالجملہ ہمارے علماء رحمہم اللہ تعالٰی کا حاصل مسلک یہ ہے کہ ایک مشت تک بڑھانا واجب اور اس سے زائد رکھنا خلاف افضل ہے اور اس کا ترشوانا سنت ہاں تھوڑی زیادت جو خط سے خط تک ہو جاتی ہے اس خلاف اولٰی سے بالضرورۃ مستثنٰی ہونا چاہئے ورنہ کس چیز کا تراشنا سنت ہوگا۔ھذا ماظھرلی وﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم (یہ تحقیق مجھ پر ظاہر ہوئی۔اور اللہ تعالٰی پاک بلند وبالا اور بڑاہے۔)
جواب سوال دوم : جامع الترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی:ان النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان یاخذ من لحیتہ من عرضھا وطولھا ۱؎۔یعنی حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اپنی ریش مبارک کے بال عرض وطول سے لیتے تھے۔(۱؎ جامع الترمذی ابواب الآداب باب ماجاء فی الاخذ من اللحیۃ امین کمپنی دہلی ۲/ ۱۰۰)
علماء فرماتے ہیں یہ اس وقت ہوتا تھا جب ریش اقدس ایک مشت سے تجاوز فرماتی۔ بلکہ بعض نے یہ قید نفس حدیث میں ذکر کیکما نقل عن التنویر والمفاتیح والغرائب (جیسا کہ تنویر ، مفاتیح اور غرائب سے نقل کیا گیا ہے۔ ت) مرقاۃ شریف میں ہے:قید الحدیث فی شرح الشرعۃ بقولہ اذا زاد علی قدرا القبضۃ وجعلہ فی التنویر من نفس الحدیث وزاد فی الشرعۃ وکان یفعل ذٰلک فی الخمیس والجمعۃ ولایترکہ مدۃ طویلۃ ۲؎۔حدیث میں قید ''الشرعۃ'' کی شرح میں اس قول سے مذکور ہے جب آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کے بال قدر مشت سے زائد ہوجاتے تو آپ زائد بالوں کو کتروادیتے تھے، اور ''تنویر'' میں قید مذکور کو نفس حدیث قرار دیا گیاہے۔ اور ''الشرعۃ'' میں اتنا اضافہ ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بروز جمعہ یا جمعرات کوایسا کرتے تھے اور زیادہ عرصہ نہیں چھوڑتے تھے۔ (ت) ۔ (۲؎ مرقاۃ المفاتیح کتاب اللباس باب الترجل الفصل الثانی المکتبہ الحبیبیہ کوئٹہ ۸/ ۲۲۳)
ہمارے علماء کے اقوال گزرے کہ قبضہ سے زیادہ کا تراشنا سنت ہے۔ واللہ تعالٰی اعلم (ا ور اللہ تعالٰی سب سے زیادہ علم رکھتاہے ۔ ت)
جواب سوال سوم : یہ امر محض بے اصل ہے ۔ حدیث مذکور ترمذی اس کا صریح رد ہے کہ اگرقبضہ سے کبھی زائد نہ ہوتی تو عرض وطول سے لینا کیونکر متصور تھا۔
مدارج النبوۃ میں ہے:درلحیۃ شریف در طول قدرے معین در کتب بنظر نمی آید ودر وظائف النبی گفتہ کہ لحیہ آن حضرت صلی تعالٰی علیہ وسلم چہار انگشت بود طبعا یعنی ہمیں مقدار بود از روئے خلقت ودراز وکم نمی شد بریں یافتہ نمی شود ۱؎۔حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی داڑھی مبارک کی کسی معین مقدار پر درازی کا ذکر مشہور کتابوں میں سے کسی ایک میں بھی نظر سے نہیں گزرا البتہ وظائف النبی میں کہا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ریش مبارک چار انگشت کے بقدر تھی یعنی قدرتی طور پر ہی مٹھی بھر تھی۔ اور گھٹتی بڑھتی نہ تھی پس اس کا حوالہ نہیں پایا گیا۔ (ت) ۔ (۱؎ مدارج النبوۃ باب اول بیان لحیہ شریف مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۱۴،چشتی)
ہاں ظاہر کلمات مذکورہ علمایہ ہے کہ ریش انور مقدار قبضہ پر رہتی تھی جب زیادہ ہوتی کم فرمادیتے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، اور شفا شریف میں امام قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کا ارشادکث اللحیۃ تملؤ صدرہ ۲؎ (حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی داڑھی مبارک گنجان تھی جو سینہ مبارک پر چھائی ہوتی تھی۔ ت) اس کے منافی نہیں جبکہ صدر سے نحر یعنی اعلائے صدر مراد ہو۔
نسیم الریاض میں زیر قول مذکور متن ہے:مثلہ قولھم قد ملأت نحرہ ونحر الصدر اعلاہ اوموضع القلادۃ منہ فمراد المصنف رحمہ ﷲ تعالٰی اعلی الصدر والا لطالت وقد ثبت قصرھا ۳؎ الخ فاحفظہ فانہ مھم وﷲ تعالٰی اعلم۔اس کی دلیل ان کا یہ قول ہے ملأت نحرہ یعنی اس سے ان کا نحر بھر جاتا تھا اور سینے کا نحر اس کا بالائی حصہ ہوتا ہے یا سینے کی جگہ ہے لہذا مصنف رحمۃ اللہ علیہ کی مراد سینے کا اوپر والاحصہ ہے ورنہ آپ کی مقدس داڑھی کہ طویل ماننا پڑے گا جو خلاف واقعہ ہے اور اس کا کترنا بھی ثابت ہے الخ، لہذا یہ نکتہ ذہن نشین رہنا چاہئے اس لئے کہ یہ ضروری ہے، اور اللہ تعالٰی سب سے بڑا عالم ہے۔ (ت)(۲؎ الشفاء بتعریف المصطفٰی الباب الثانی فصل الثالث المطبعۃ الشرکۃ الصحافۃ ۱/ ۵۰)(۳؎ نسیم الریاض الباب الثانی مبحث شمائلۃ الشریفۃ ادارۃ تالیفات اشرفیہ ملتان ۱/ ۳۳۱)
جواب سوال چہارم: ریش مبارک امیر المومنین مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم کی نسبت مدارج سے گزرا:پر می کرد سینہ اُورا ۴؎ (ان کے سینے کو بھردیتی تھی۔ ت) مگر اس میں وہی احتمال قائم کہ سینہ سے مراد سینہ کا بالائی حصہ متصل گلو ہوتو ایک مشت سے زیادت پر دلیل نہ ہوگی۔(۴؎ مدارج النبوۃ باب اول بیان لحیہ شریف مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱/ ۱۵)
ہاں تہذیب الاسماء امام نووی سے اتنا منقول کانت کثۃ طویلۃ حضرت مولٰی کی ریش مبارک گھنی دراز تھی اس سے ظاہر قبضہ پر دلالت ہے کہ قبضہ تو اصل مقدار لحیہ شرعیہ ہے جس سے کمی جائز نہیں تو اتنی مقدار سے جب تک زائد نہ ہو طویل نہ کہیں گے ۔ ولہذا علامہ خفاجی نے ریش اطہر انور حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے تابسینہ ہونے کے انکار کی یہی وجہ لکھی کہ ایسا ہوتا تو ریش اقدس طویل ہوتی حالانکہ اس کا قصیر ہونا ثابت ہوا ہے اس تقدیر پر ریش مبارک امیر المومنین علی رضی اللہ تعالٰی عنہ میں وہ لفظ کہپرمی کرد سینہاورا (ان کے یسنے کو بھردیتی تھی۔ ت) اپنے معنی ظاہر پر محمول رہنا چاہئےاقول: وباللہ التوفیق (میں اللہ کی توفیق سے کے ساتھ کہتاہوں۔ ت) حضرات حسنین رضی اللہ تعالٰی عنہما کا یہ قول شاید بخیال جہاد ہو کہ بسیاری مو چشم عدو میں مورث زیادت ہیبت ہے ولہذا مجاہدین کو لبیں بڑھانے کی اجازت ہوئی حالانکہ اوروں کو بالاتفاق مکروہ۔
کما علی ذٰلک حمل ما عن بعض الصحابۃ الکرام کامیرا لمومنین عثمن الغنی و سیدنا الامام الحسن المجتبٰی رضی ﷲ تعالٰی عنہما من الاختضاب بالسواد مع صحۃ الحدیث بتحریم لغیر اھل الجھاد ۔جیسا کہ اسی پر محمول کیا گیا جو بعض صحابہ کرام سے ثابت ہوا ہے جیسے امیر المومنین سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور سیدنا حسن مجتبٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ بالوں کو سیاہ خضاب لگایا کرتے تھے حالانکہ غیر مجاہدین کےلیے حدیث صحیح سے اس کی حرمت ثابت ہے۔ (ت)
بنظر اطلاق ارشاد اقدساعفوا اللحٰی ۱؎ (داڑھیاں بڑھاؤ۔ ت) ان کا اجتہاد اس طرف مودی ہواکما ذھب الیہ الحسن البصری وغیرہ (جیسا کہ حسن بصری وغیرہ اس طرف گئے ہیں۔ ت) تویہ آثار ہمیں اس امر سے عدول پرباعث نہیں ہوسکتے جو ہمارے ائمہ کرام کے نزدیک سنت ثابت ہو اور حقیقت امریہ کہ ہم پر اتباع مذہب لازم۔ دلائل میں نظر ائمہ مجتہدین فرماچکےوﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم (اور اللہ تعالٰی پاک وبرتر ہے اور خوب جانتاہے اور اس عظمت وشان والے کا علم کامل اور پختہ ہے۔ ت)
(۱؎ تہذیب الاسماء واللغات ترجمہ امیر المومنین علی کرم اللہ وجہہ ۴۲۹ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۳۴۸)(۲؎ صحیح البخاری کتاب اللباس باب اعفاء اللحی قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۸۷۵) ۔ (فتاویٰ رضویہ مترجم جلد 22 صفحہ 580 تا 591)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment