Thursday 16 December 2021

سجدہ سہو کے مسائل و احکام

0 comments

 سجدہ سہو کے مسائل و احکام

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : سجدہ سہو کسے کہتے ہیں : سجدہ سَہو کا لُغوی معنی ہے ، بھولنے کا سجدہ ۔


اصطلاحی معنی : یَجِبُ سَجْدَتَانِ بِتَشُّھِدِِ وَ تَسْلِیْمِِ لِتَرْکِ وَاجِبِِ سَھْوًا وَاِنْ تَکَرَّرَ ۔ یعنی بھول کسی واجب کو چھوڑنے پر تشہد اور سلام کے ساتھ دو سجدے واجب ہیں ، اگرچہ بار بار واجب چھوٹے ۔


قاعدہ کلیہ : ایک قاعدہ کلیہ اگر ذہن میں ہوگا تو سجدہ سہو کب واجب ہوگا ، اس کو سمجھنے میں کافی آسانی ہوگی ، کہ : بُھول کر (بُھول کر ہونا سجدہ سَہو کےلیے ضروری ہے، جان بوجھ کر واجب چھوڑنے کی صورت میں سجدہ سہو کافی نہ ہوگا ، بلکہ نماز دُہرانا لازم ہوگا) واجب کی تقدیم و تاخیر ، کمی ، زیادتی اور ترک سے سجدہ سہو واجب ہو جاتا ہے اور فرض میں تقدیم و تاخیر ہو جائے تو بھی سجدہ سہو واجب ہو جاتا ہے ۔


جب نماز کا کوئی واجب بھولے سے چھوٹ جائے یا کسی فرض کو مکرر کیا جائے ۔ مثلاً رکوع دو مرتبہ کرے ، نماز کے فرض یا واجب میں زیادتی ہوجائے مثلاً قعدہ اوّل میں تشہد کے بعد درود شریف پڑھ لے تو سجدہ سہو لازم ہے۔ امام کے سہوسے مقتدی کو بھی سجدہ سہو کرنا ہوگا ، لیکن اگر مقتدی سے سہو ہوجائے تو مقتدی کو سجدہ سہو لازم نہیں کیوں کہ وہ امام کے تابع ہے ۔ امام سہو کرنے لگے تو مقتدی ﷲُ اَکْبَرُ یا سُبْحَانَ ﷲ کہہ کر امام کو یاد دلائے اور اس کی اِصلاح کرے ۔ لیکن اگر عورت مقتدی ہو اور امام سہو کرنے لگے تو اگر امام سہو سے لوٹ آئے تو بہتر ورنہ مقتدیہ عورت ﷲُ اَکْبَرُ یا سُبْحَانَ ﷲ کہنے کی بجائے تفسیق (یعنی اپنے دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر مارنے کی آواز) کے ذریعے امام کی اِصلاح کرے گی ۔


سجدئہ سہو کا طریقہ : قعدہ اخیرہ میں تشہد پڑھنے کے بعد دائیں طرف سلام پھیر کر دو سجدے کرے ، اس کے بعد پھر تشہد ، درودِ اِبراہیمی اور دعا پڑھ کر دونوں طرف سلام پھیر دے ۔ التحیّات پڑھ کر بلکہ افضل یہ ہے کہ دُرود شریف بھی پڑھ لے ، سیدھی طرف سلام پھیر کر دو سجدے کرے پھر تشہّد ، دُرود شریف اور دُعا پڑھ کر سلام پھیر دے ۔ (فتاوٰی قاضی خان معہ عالمگیری، ج1، ص 121 ، نماز کے احکام، ص210،چشتی)


سجدہ سَہو کرنا تھا اور بُھول کر سلام پھیرا ، تو جب تک مسجد سے باہر نہ ہوا کر لے ۔ (دُرِ مختار معہ ردالمختار، ج2 ، ص 556)


میدان میں ہو تو جب تک صفوں سے مُتجاوز نہ ہو یا آگے کو سجدہ کی جگہ سے نہ گزرا کر لے، جو چیز مانِع بنا ہے، مثلاً کلام وغیرہ منافی نماز اگر سلام کے بعد پائی گئی تو اب سجدہ سہو نہیں ہو سکتا ۔ (در مختار معہ ردالمختار، ج2، ص556 ،نماز کے احکام، ص281)


اگر نماز میں امام سے سہو ہوا اور سجدہ ٔ سہو واجب ہوا تو مقتدی پر بھی سجدہ ٔ سہو واجب ہے اگرچہ کوئی مقتدی امام کو سہو واقع ہونے کے بعد جماعت میں شامل ہوا ہو ۔ مثال کے طور پر عشاء کی نماز کے فرض کے قعدہ ٔ اولیٰ میں امام نے التحیات کے بعد درود شریف پڑھ لیا لہٰذا سجدہ ٔ سہو واجب ہوگیا ۔ اب اگر کوئی مقتدی تیسری رکعت میں یعنی امام کی غلطی واقع ہونے کے بعد جماعت میں شامل ہوا جب بھی مقتدی پر سجدہ سہو واجب ہے ۔ وہ مقتدی بھی امام کے ساتھ سجدہ ٔ سہو کرے بعدہٗ اپنی نماز پوری کرے ۔ (ردالمحتار ، بہار شریعت ، حصہ ۴ ، ص۵۴)


مسبوق مقتدی نے امام کے ساتھ سجدہ ٔ سہو کیا پھر جب اپنی فوت شدہ رکعتیں پڑھنے کھڑا ہوا تو اس میں بھی اگر سہو واقع ہوا تو اپنی نماز کے آخر میں سجدہ ٔ سہو کرے ۔ (درمختار ، بہار شریعت ، حصہ ۴ ، ص ۵۴)


اگر مقتدی سے بحالت اقتدا سہو واقع ہوا تو مقتدی کو سجدہ ٔ سہو کرنا واجب نہیں اور نماز کا اعادہ بھی اس کے ذمہ نہیں ۔ ( (۱) درمختار ، (۲) تبیین الحقائق ، جلد ۱ ص ۱۹۵،ا (۳) بحرا لرائق ، جلد ۲ ، ص ۱۰۸ ،(۴) فتاوٰی ہندیہ ، جلد ۱ ص ۱۲۸ ، (۵) معانی الآثار ، جلد ۱ ، ص ۲۳۸ ، (۶) بدائع الصنائع ، جلد ۱ ، ص ۱۷۵ ،(۷) بہار شریعت ، حصہ ۴ ص ۵۴، (۸) فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ص ۶۴۲،چشتی)


مسبوق مقتدی جب تک اپنی فوت شدہ نماز ادا نہ کرلے اس وقت تک اسے سلام پھیرنا ممنوع ہے۔ امام نے سجدہ ٔ سہوکے لئے ایک طرف سلام پھیرا تو اس سلام میں مسبوق مقتدی امام کی متابعت نہیں کرسکتا ۔ علاوہ ازیں سجدہ سہو کرنے کے بعد امام نے نماز ختم کرنے کے لئے سلام پھیرا ا س میں بھی مسبوق مقتدی امام کے ساتھ سلام نہیں پھیر سکتا ۔ المختصر ! امام سجدہ سہو سے پہلے اور سجدہ ٔ سہو کے بعد میںجو سلام پھیرتا ہے ان دونوں سلام میں مسبوق مقتدی نے اگر قصداً شرکت کی تو اس کی نماز جاتی رہے گی کیونکہ یہ سلام عمدی ( جان بوجھکر) ہے اور اسکے سبب سے نماز میں خلل واقع ہوا ۔ اور … اگر مسبوق نے سہواً ( بھول کر) امام کے ساتھ سلام پھیرا تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی بلکہ اگر مسبوق نے امام کے سجدہ ٔ سہو کے پہلے والے یا بعد والے کسی بھی سلام میں سہواً ( بھول کر) امام سے پہلے یا امام کے ساتھ معاً بلا وقفہ یعنی امام کے ساتھ ساتھ سلام پھیرا تو مقتدی پر سجدہ ٔ سہو بھی لازم نہیں کیونکہ وہ ابھی تک (ہنوز) مقتدی ہے اور مقتدی پر خود اپنے سہو کی وجہ سے سجدہ ٔسہو لازم نہیں ۔


البتہ اگر مسبوق نے امام کے سجدہ سہو کے بعد والے یعنی نماز ختم کرنے کے لئے آخری سلام کے بعد یعنی امام کے سلام پھیرنے کے کچھ وقفہ کے بعد سہواً ( بھول کر) سلام پھیرا تو اس پر دوبارہ سجدہ ٔ سہو واجب ہے ۔ اگرچہ وہ امام کے ساتھ سجدہ ٔ سہو کرچکاہے ۔ لہٰذامسبوق اپنی نماز کے آخر میں سجدہ ٔ سہو کرے کیونکہ تب وہ منفرد ہوچکا تھا ۔ ایک اہم جزیہ یاد رکھیں کہ مسبوق مقتدی امام کے سجدہ ٔ سہو میں امام کی پیروی کرے گا مگر سجدہ ٔ سہو کے سلام میں امام کی پیروی نہیںکرسکتا ۔ ( خزانۃ المفتین ،حلیہ شرح منیہ ، بحر الرائق ، حاشیہ مراقی الفلاح اور فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۶۳۴)


امام پر سجدہ سہو واجب نہ تھا اور اس نے بھول کر سجدہ سہو کیا تو امام اور ان مقتدیوں کی نماز ہو جائے گی جن کی کوئی رکعت نہیں چھوٹی لیکن مسبوق یعنی جس کی کچھ رکعت چھوٹی اور وہ مقتدی جو سجدہ ٔ سہو میں جانے کے بعد جماعت میں شامل ہوئے ان کی نماز نہ ہوئی ۔ ( درمختار ، ردالمحتار، خزانۃ المفتین ، فتاوٰی امام قاضی خان ، طحطاوی علی مراقی الفلاح ،محیط اور فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۶۳۴)


قعدہ اخیرہ میں گمان ہوا کہ یہ قعدہ ٔ اولیٰ ہے اور کھڑا ہوگیا اور قبل سجدہ یاد آگیا تو فوراً قعدہ کی طرف لوٹے اور قعدہ میں بیٹھ جائے او رمعاً سجدہ ٔ سہو میں چلاجائے ۔ دوبارہ التحیات نہ پڑھے ۔ سجدہ ٔ سہو کرنے کے بعد التحیات ، درود ، دعا وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرے ۔ (درمختار ، ردالمحتار ، فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۶۳۳،چشتی)


فرض ، وتر اور سنت مؤکدہ کے قعدہ ٔ اولیٰ میں تشہد ( التحیات) کے بعد اگر صرف ’’ اللہم صل علی محمد ‘‘ یا ’’ اللہم صل علی سیدنا ‘‘ کہہ لیا تو اگریہ کہنا سہواً (بھول کر) ہے تو سجدہ ٔ سہو واجب ہے اور اگر عمداً ( جان بوجھ کر) ہے تو نماز کا اعادہ کرے اور یہ اس وجہ سے نہیں کہ درود پڑھا بلکہ اس وجہ سے ہے کہ تیسری رکعت کاقیام جو فرض ہے ، اس میں تاخیر ہوئی اور فرض میں تاخیر ہونے کی وجہ سے سجدہ ٔ سہو لازم ہوتاہے لہٰذا اگر کسی نے قعدہ ٔ اولی میں التحیات کے بعد کچھ بھی پڑھا نہیں بلکہ ’’اللہم صل علی محمد ‘‘ پڑھنے کے وقت کی مقدر چپ بیٹھا رہا توبھی سجدہ ٔ سہو واجب ہے۔ ( درمختار ، ردالمحتار ، بہار شریعت ، حصہ ۴ ، ص ۵۳ اور فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۶۳۶)


نوافل اور سنت غیر مؤکدہ (عصر اور عشاء کے فرض کے پہلے کی سنتیں) میں قعدہ ٔ اولیٰ میں التحیات کے بعد درود شریف اور دعائے ماثورہ پڑھنے سے بھی سجدہ ٔ سہو واجب نہیں ہوگا بلکہ التحیات کے بعد درود شریف وغیرہ پڑھنامسنون ہے ۔ (درمختار ، سراجیہ ، عالمگیری، فتاوٰی قاضی خان ، فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۴۶۹)


اگر قعدہ ٔ اولیٰ میں ایک سے زیادہ یعنی چند مرتبہ تشہید ( التحیات) پڑھا تو سجدہ ٔ سہو واجب ہے ۔ ( عالمگیری ، بہار شریعت ، حصہ ۴ ، ص ۵۳)


ہر قعدہ میں پورا تشہد ( التحیات) پڑھنا واجب ہے ۔اگر ایک لفظ بھی چھوٹا تو ترک واجب ہونے کی وجہ سے سجدہ ٔ سہو واجب ہوگا ۔ چاہے نفل نماز ہو یا فرض نماز ہو ۔ (عالمگیری ، درمختار ، بہار شریعت ، حصہ ۴ ص ۵۳)


اگر قعدہ میں تشہد کی جگہ بھول کر سورہ ٔ فاتحہ پڑھی تو سجدہ ٔ سہو واجب ہے ۔(عالمگیری ، بہار شریعت ، حصہ ۴ ص ۵۳،اور فتاوی رضویہ ، جلد ۳، ص ۱۳۴، اور الملفوظ، حصہ ۳، ص۴۳،چشتی)


فرض ، وتر یا سنت مؤکدہ کا قعدہ ٔ اولیٰ بھول گیا اور تیسری رکعت کےلیے کھڑا ہوگیا ۔ اگر سیدھا کھڑا ہوگیا ہے تو اب قعدہ کے لئے نہ لوٹے بلکہ نماز پوری کرے اور آخر میں سجدہ ٔسہو کرے ۔ (درمختار ، غنیہ ، بہار شریعت ، حصہ ۴ ، ص ۵۱)(فتاوٰی رضویہ ، جلد ۳ ، ص ۶۳۴)


نفل نماز کا ہر قعدہ قعدہ ٔ اخیرہے یعنی فرض ہے ۔ اگر قعدہ نہ کیا اور بھول کرکھڑا ہوگیا اگرچہ بالکل سیدھا کھڑاہوگیا ہے تو جب تک اس رکعت کا سجدہ نہ کیا ہو لوٹ آئے اور سجدہ ٔ سہو کرے ۔ (درمختار ، بہار شریعت ، حصہ ۴ ص ۵۲)


امام کے ساتھ جماعت سے نمازپڑھنے والا مقتدی قعدہ ٔ اولیٰ میں بیٹھنا بھول گیا اور تیسری رکعت کے لئے سیدھاکھڑا ہوگیا تو ضروری ہے کہ وہ قعدہ میں واپس لوٹ آئے اور امام کی متابعت کرے تاکہ امام کی مخالفت کا ارتکاب نہ ہو ۔ (درمختار ، بہار شریعت ، حصہ۴،ص ۵۱)


فرض نماز میں اگر قعدہ ٔ اخیرہ بھول گیا اور کھڑا ہوگیا تو جب تک اس رکعت کا سجدہ نہیں کیا قعدہ میں واپس لوٹ آئے اور سجدہ ٔ سہوکرے اور اگر اس رکعت کاسجدہ کرلیا تو سجدہ سے سر اٹھاتے ہی وہ فرض اب نفل میںمنتقل ہوگیا لہٰذا مغرب کے علاوہ اورنمازوں میں ایک رکعت ملائے تاکہ رکعتوں کی تعداد طاق (Odd) نہ رہے بلکہ تعداد رکعت شفع یعنی جفت (Even) ہوجائے ۔ مثال کے طور پر ظہر کی نماز کے فرض کے قعدہ ٔ اخیرہ میں بیٹھنا بھول گیا اور پانچویں رکعت کے لئے کھڑاہوگیا اور پانچویں رکعت کا سجدہ کرلیا تو اب ایک رکعت مزید ملائے یعنی چھٹی رکعت بھی پڑھے اب یہ تمام رکعتیں نفل ہوجائیںگی ۔ چھ رکعت پوری کرکے سجدہ ٔ سہو کرے لیکن اگر مغرب کی نماز میں قعدہ ٔ اخیرہ بھول گیا اور چوتھی رکعت کے لئے کھڑا ہوگیا تو چار رکعت پر اکتفا کرے اور پانچویں نہ ملائے ۔ (درمختار ، ردالمحتار ، بہار شریعت ، حصہ ۴ ، ص ۵۲)


اگر امام قعدہ ٔ اخیرہ تشہد کی مقدار کرنے کے بعد بھول کر سیدھاکھڑا ہوگیا تو مقتدی اس کا ساتھ نہ دیں بلکہ بیٹھے ہوئے انتظار کریں کہ ا مام قعدہ میں لوٹ آئے ۔ اگر امام قعدہ میں واپس لوٹ آیا تو مقتدی اس کا ساتھ دیں اور اگر امام لوٹا نہیں اور مزید رکعت کاسجدہ کرلیا تو مقتدی سلام پھیر کر اپنی نماز پوری کردیں ۔( درمختار ، ردالمحتار ، بہار شریعت ، حصہ ۴ ، ص۵۲،چشتی)


وہ اُمور جن کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہوتا ہے ، وہ دس صورتیں یہاں بیان کی جاتی ہیں ۔


(1) واجبات نماز میں جب کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو اس کی تلافی کے لیے سجدہ سہو واجب ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ التحیات کے بعد دہنی طرف سلام پھیر کردو سجدے کرے پھر تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیرے ۔


(2) فرض و نفل دونوں کا ایک حکم ہے یعنی نوافل میں بھی واجب ترک ہونے سے سجدہ سہو واجب ہے ۔


(3) فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور نوافل و وترکی کسی رکعت میں سورہ الحمد کی آیت بھی رہ گئی یاسورت سے بیشتر دوبارہ الحمد پڑھی یا سورت ملانا بھول گیا یا سورت کو فاتحہ پر مقدم کیا یا الحمد کے بعد ایک یا دو چھوٹی آیتیں پڑھ کر رکوع میں چلا گیا پھر یاد آیا اور لوٹا اور تین آیات پڑھ کر رکوع کیا تو ان سب صورتحال میں سجدہ سہو واجب ہے ۔


(4) الحمد کے بعد سورت پڑھی اس کے بعد پھر الحمد پڑھی تو سجدہ سہو واجب نہیں یونہی فرض کی پچھلی رکعتوں میں فاتحہ کی تکرار سے مطلقا سجدہ سہو واجب نہیں اور اگر پہلی رکعتوں میں الحمد کا زیادہ حصہ پڑھ لیا تھا پھر اعادہ کیا تو سجدہ سہو واجب ہے ۔


(5) الحمد پڑھنا بھول گیا اور سورت شروع کر دی اور بقدر ایک آیت پڑھ لی اب یاد آیا تو الحمد پڑھ کر سورت پڑھے تو سجدہ سہو واجب ہے ۔


(6) فرض کی پچھلی رکعتوں میں سورت ملائی تو سجدہ سہو نہیں تو قصدا ملائی تو بھی حرج نہیں مگر امام کو نا چاہیے. یونہی اگر پچھلی رکعتوں میں ا لحمد نا پڑھی تو بھی سجدہ سہو نہیں اور رکوع و سجودو قعدہ میں قرآن پڑھا تو سجدہ سہو واجب ہے ۔


(7) رکوع کی جگہ سجدہ کیا یا سجدہ کی جگہ رکوع کیا یا کسی ایسے رکن کو دوبارہ کیا جو نماز میں مکرر مشروع نا تھا یا کسی رکن کو مقدم یا موخر کیا تو ان سب صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہے ۔


(8) قرات وغیرہ کسی موقع پر سوچنے لگا کہ بقدر ایک رکن یعنی تین بار سبحان اللہ کہنےکا وقفہ ہوا تو سجدہ سہو واجب ہے ۔


(9) تشهد کے بعد یہ شک ہوا کہ تین ہویں یا چار اور ایک رکن کی قدر خاموش رها اور سوچتا رہا پھر یقین ہوا کہ چار ہو گیں۔تو سجده سهو واجب ہےاور اگر ایک طرف سلام پھیرنے کے بعد ایسا ہوا تو کچھ نهیں اور اگر اسے حدث ہوا اور وضو کرنے گیا تھا کہ شک واقع ہوا اور سوچنے میں وضو سے کچھ دیر تک رک رہا تو سجد سہو واجب ہے ۔


(10) قعده اولی میں تشهد کے بعد اتنا پڑھا الھم صلی علی محمد تو سجده سهو واجب هے۔اس وجہ سے نهیں کہ درود شریف پڑھا بلکہ اس وجہ سے کہ تیسری کے قیام میں تاخیر ہوی۔تو اگر اتنی دیر تک سکوت کیاجب بھی سجده سہو واجب ہے۔جسے قعده و رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے سے سجده سهو واجب هے۔حالانکہ وه کلام الہی ہے۔امام اعظم رضی الله تعالی عنہ نے نبی صلی الله علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔درود پڑھنے والے پرتم پر کیوں سجده واجب بتایا ۔ عرض کی اس لیے کہ اس نے بھول کر پڑھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تحسین فرمائی ۔


اِسلام ہمارا دینِ فطرت ہے، ہمارے دینِ اِسلام میں دیگر مذاہب کی نسبت بہت آسانی رکھی گئی ہے، جس طرح دیگر عبادات کے اندر آسانی رکھی گئی ہے، اِسی طرح اُمّتِ مسلمہ کی کمزوری کو مدِّنظر رکھتے ہوئے نماز میں کافی حد تک ہم کو آسانی مُیّسر ہے، اِنہی میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب ہم سے نماز میں سے کوئی واجب بھولے سے ترک ہوجائے، تو آخر میں سجدہ سہو ہے، آئیے اب ہم سجدہ سہو کے واجب ہونے کی صورتیں :


(1) نماز میں جب کوئی واجب بُھولے سے رہ جائے تو اِس کی تلافی کے لیے سجدہ سہو واجب ہے۔( بہارِشریعت، ج 1، ص708)


(2) سجدہ سہو اس وقت واجب ہے، جب کہ وقت میں گنجائش ہو اور اگر نہ ہو تو سجدہ سہو ساقط ہوگیا۔(بہارِشریعت، ص709)


(3) نفل کی دو رکعتیں پڑھیں اور ان میں سَہو ہوا (یعنی بھولا)، پھر اِس پہ بنا کر کے (یعنی اس کے ساتھ ملا کر) دو رکعتیں پڑھیں، سجدہ سہو کرے۔(بہارِشریعت، ص 710)


(4) فرض کی پہلی دو رکعتوں میں یا نفل و وِتر کی کسی رکعت میں الحمد کی ایک آیت بھی رہ گئی تو سجدہ سہو واجب ہے۔(بہارِشریعت، ص 710)


(5) مذکورہ بالا نمازوں میں اگر سورت سے پہلے دوبارہ الحمد پڑھی یا سورت ملانا بھول گیا، سورت کو فاتحہ یر مُقدّم کیا، پھر بھی سجدہ سہو واجب ہے۔(بہارِشریعت، ص 710)


(6)آیتِ سجدہ پڑھی اور سجدہ بھول گیا، تو سجدہ تلاوت ادا کرے اور سجدہ سہو کرے۔(بہارِشریعت، ص 710)


(7) جو فعل نماز میں مُکرر ہیں، ان میں ترتیب واجب ہے، لہذا خلافِ ترتیب واقع ہو تو سجدہ سہو واجب ہے۔(بہارِشریعت، ص 710)


(8) کسی رکعت کا سجدہ رہ گیا، آخر میں یاد آیا تو سجدہ کرے پھر التحیات پڑھ کر سجدہ سہو کرے۔(بہارِشریعت، ص 710)


(9) تعدیلِ اَرکان بھول گیا تو سجدہ سہو واجب ہے۔(بہارِشریعت، ص 710)


(10)مُسافر نے سجدہ سہو کے بعد اِقامت (یعنی مُقیم ہونے)کی نیّت کی، تو چار پڑھنا فرض ہے اور آخر میں سجدہ سہو کا اِعادہ کرے ۔ (بہارِشریعت، ص 710،چشتی)


سجدہ سہو کے مسائل کو سمجھنے اور انہیں یاد ر کھنے کےلیے ایک اُصول ذہن نشین کر لینا مفید ر ہے گا ۔ واجبات ِ نماز میں سے اگر کو ئی واجب بھو لے سے رہ جائے تو سجدہ سہو واجب ہے ۔ (در مختار ، در المختار ، کتاب الصلوۃ ، باب سجودالسہو ، ج 2 ، ص651۔655)


(اِسی طرح) واجب کی تاخیر رُکن (یعنی فرض) کی تقدیم یا (فر ض کی) تا خیر یا اس کو مُکرر کر نا یا واجب میں تغیّر (یعنی تبدیلی کر نا) یہ سب بھی تر ک ِ واجب ہیں ۔ (بہار ِ شریعت حصہ4، 710/10)


(یعنی) حقیقتاً سجدہ سہو کا وُجوب صرف ایک چیز سے ہو تا ہےاور وہ ہے (نماز کے) واجب کا (بھو لے سے) چھوٹ جانا۔(فتاویٰ ھند یہ، ج 1 ، ص 139)


1۔ قراءَت وغیرہ کسی مو قع پر سو چنے میں تین مر تبہ " سبحان اللہ"کہنے کا وقفہ گز ر گیا سجدہ سہو واجب ہو گیا۔(رد المختار ج 2 ، ص 655)


2۔قیام کے علاوہ د یگر اَرکان میں قرآن مجید پڑ ھنے سے سجدہ سہو واجب ہو تا ہے۔(ردالمختار ، کتاب الصلوۃ ، باب سجودالسہو ، ج 2 ، ص 657، دلچسپ معلومات، ج1)


3۔جو سورت ملانا بھو ل گیا اگر اسے ر کوع میں یاد آیا ، تو فوراً کھڑے ہو کر سورت پڑھے ، پھر رُکوع دوبارہ کرے، پھر نماز تمام کر کے سجدہ سہو کر ے اور اگر رُکوع کے بعد سجدے میں یاد آیا تو صرف اَخِیر میں سجدہ سہو کر لے، نماز ہو جائے گی۔(فتاویٰ رضویہ، ج 8 ، ص 196)


4۔فرض کی پہلی دو ر کعتوں میں اور نفل و وِ تر کی کسی رکعت میں سورت سے پہلے دو بار سورہ فاتحہ پڑ ھی تو سجدہ سہو واجب ہے۔ (فتاویٰ ھند یہ، کتاب الصلوۃ ، الباب الثا نی عشرفی سجود السہو ، 139/1)


5۔کسی رکعت کا کوئی سجدہ رہ گیا آ خر میں یاد آیا، تو سجدہ کر لے پھر التحیات پڑ ھ کر سجدہ سہو کرے۔(بہارِ شریعت ، حصّہ 4، ص 711)


6۔ اگر قعدہ اولیٰ میں چند بار تشہد پڑ ھا، سجدہ سہو واجب ہو گیا۔(بہارِ شریعت ، حصہ 4،ص 713)


7۔اِمام نے جَہری نماز میں بقدرِ جواز ِ نماز یعنی ایک آیت آ ہستہ پڑھی یا سِرّی میں جَہر سے تو سجدہ سہو واجب ہے اور ایک کلمہ آہستہ یا جہر سے پڑ ھا تو معاف ہے۔(بہارِ شر یعت حصہ 4 ، ص 714)


8۔مُنفرد نے سِرّی نماز میں جہر سے پڑ ھا تو سجدہ سہو واجب ہے اور جہر ی میں آہستہ تو نہیں۔(بہارِ شر یعت حصّہ 4 ، ص 714)


9۔مَسبوق نے امام کے سہو میں امام کے ساتھ سجدہ سہو کیا، پھر جب اپنی پڑ ھنے کھڑا ہوا اور اس میں بھی سہو ہوا تو اس میں بھی سجدہ سہو کر ے۔(بہارِ شر یعت حصہ 4 ، ص 715)


10۔وِتر میں شک ہو ا کہ دوسری ہے یا تیسری تو اِس میں قُنوت پڑھ کر قعدہ کے بعد ایک رکعت اور پڑ ھے اور اس میں بھی قُنوت پڑھے اور سجدہ سہو کرے ۔ (بہارِ شر یعت حصّہ 4 ، صفحہ 719،چشتی)


1. واجباتِ نماز میں سے اگرکوئی واجب بھولےسے رہ جائے یا فرائض و واجباتِ نماز میں بھولے سے تاخیر ہوجائے تو سَجْدَہ سَہْو واجب ہے۔


2. تعدیلِ ارکان (مثلاً رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا یا دوسجدوں کے درمیان ایک بار سبحٰن اللہ کہنے کی مقدار بیٹھنا) بھول گئے سجدہ سہو واجب ہے۔


3. قنوت یا تکبیرِ قنوت بھول گئے سجدہ سہو واجب ہے۔


4. قِرَاءَتْ وغیرہ کسی موقع پر سوچنے میں تین مرتبہ " سبحٰن اللہ" کہنے کا وقفہ گزر گیا سجدہ سہو واجب ہوگیا.


5. امام سے سہو ہوا اور سجدہ سہو کیا تو مقتدی پر بھی واجب ہے.


6. قَعْدَہ اُولیٰ میں تشہد کے بعد اتنا پڑھا "اللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ" تو سجدہ سہو واجب ہے اس کی وجہ یہ نہیں کہ درود شریف پڑھا بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ تیسری رکعت کے قیام میں تاخیر ہوئی، لہٰذا اگر اتنی دیر تک خاموش رہا جب بھی سجدہ سہو واجب ہے.


7. کسی قَعدہ میں تشہد سے کچھ رہ گیا تو سجدہ سہو واجب ہے۔


8. آیتِ سجدہ پڑھی اور سجدہ میں سہواً تین آیت یا زیادہ کی تاخیر ہوئی تو سجدہ سہو کرے.


9. "الحمد" کا ایک لفظ بھی رہ گیا تو سجدہ سہو کرے.


10. ایک رکعت میں تین سجدے کیے یا دو رکوع یا قَعْدَہ اولی بھول گیا تو سجدہ سہو کرے۔(بہارِ شریعت، ج اول، حصہ سوم، واجباتِ نماز، ص 519 تا 520،مکتبۃ المدینہ)


رکوع،سجود، قعدہ میں قرآن پڑھا تو سجدہ سہو واجب ہے۔(فتاوی ھندیہ ،کتاب الصلاتہ، جلد 1 ،صفحہ 126)


2۔تعدیل ارکان یعنی رکوع سجود قومہ جلسہ،بھول گیا سجدہ سہو واجب ہوگا۔(فتاوی ھندیہ جلد 1 صفحہ 127)


3۔اگر قعدہ اولی میں چند بار تشہد پڑھا سجدہ سہو واجب ہوگیا۔(فتاوی ھندیہ جلد 1 صفحہ 127)


4۔تشہد کی جگہ الحمد پڑھی سجدہ سہو واجب ہوگیا۔


5۔عید ین کی سب تکبیریں یا بعض بھول گیا یا زائد کہیں یا غیر محل میں کہیں ان سب صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہے۔ (فتاوی ھندیہ جلد 1 صفحہ 128 6)


منفرد نے سری نماز میں جہر سے پڑھا تو سجدہ واجب ہے اور جہری میں آہستہ تو نہیں ۔(ردالمحتار جلد 2صفحہ 657)


7۔قرأت وغیرہ کسی موقع پر سوچنے لگا کہ بقدر ایک رکن یعنی تین بار سبحان اللہ کہنے کے وقفہ ہوا تو سجدہ سہو واجب ہے۔


8۔ شک کی سب صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہے اور غلبہ ظن میں نہیں مگر جب کہ سوچنے میں ایک رکن کا وقفہ ہو گیا تو واجب ہوگیا۔(الدر المختار جلد 2 صفحہ 678)


9۔کسی قعدہ میں تشہد سے کچھ رہ گیا تو سجدہ سہو واجب ہے نفل ہو یا فرض۔(فتاوی ھندیہ ج 1ص 128،چشتی)


10۔واجبات نماز سے اگر کوئی واجب بھولے سے رہ جائے یا فرائض و واجبات نماز میں بھولے سے تاخیر ہو جائے تو سجدہ سہو واجب ہے۔(در مختار)


سجدہ سہو کیوں ہوتا ہے اس بارے میں چند احکام :


اولاً یہ کہ سجدہ سہو کس طرح ہوتا ہے اس کے کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟


سجدہ سہو اس وقت ہوتا ہے جب نماز میں بھولے سے کوئی واجب چھوٹ جائے تو اس کے ازالہ کیلئے سجدہ سہو کیا جاتا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ قعدہ اخیرہ میں تشہد کے بعد دائیں جانب سلام پھیر کر دو سجدہ کرنا پھر التحیات وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر دینا ۔اس کی چند صورتیں ملاحظہ ہوں کہ کن کن صورتوں میں سجدہ سہو واجب ہوتا ہے ۔


1. اگر نماز میں کوئی واجب بھولے سے رہ گیا مثلا سورت ملانا بھول گیا تو سجدہ سہو کرنا واجب ہے ۔


2. تعدیل ارکان میں سے کوئی چیز بھول گیا تو سجدہ سہو واجب ہے ۔


3. عید ین کی سب تکبیریں یا بعض بھول گیا یا زیادہ تکبیریں کہہ دیں تب بھی سجدہ سہو واجب ہوگیا ۔


4. اگر ایسا واجب ترک ہوا جو واجبات نماز سے نہیں بلکہ اس کا تعلق خارج نماز امور سے ہے تو سجدہ سہو واجب نہیں ہو گا مثلا خلاف ترتیب قرائت کر لی تو سجدہ واجب نہیں ہو گا کیونکہ یہ واجبات تلاوت سے ہے نا کہ واجبات نماز سے۔


5. سجدہ سہو واجب ہوا مگر بھول گیا اور سلام پھیر دیا تو جب تک مسجد سے باہر نہیں نکلا سجدہ کرلے۔


6. اگر سجدہ سہو نہ کیا بعد میں یاد آیا کہ سجدہ سہو نہیں کیا ہے تو جب تک مانع نماز کوئی کام نہیں کیا سجدہ کرلے۔ اگر مانع نماز کوئی فعل کر لیا ہے اب سجدہ کافی نہیں بلکہ نماز کا لوٹانا واجب ہے۔


7. سجدہ سہو اس وقت واجب ہے جبکہ وقت میں گنجائش ہو، اگر گنجائش نہ ہو تو واجب نہیں۔ مثلا نماز فجر میں سہو واقع ہوا ،سلام پھیرا ،ابھی سجدہ نہ کیا تھا کہ آفتاب طلوع کر آیا تو سجدہ سہو ساقط ہوگیا۔


8. اگر مقتدی سے بحالت اقتداء (یعنی امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے) سہو واقع ہوا تو سجدہ سہو نہیں ہوگا۔


9. سجدہ سہو کے بعد بھی التحیات پڑھنا واجب ہے التحیات پڑھ کر سلام پھیرے۔


حدیث شریف میں ارشاد ہے: ایک بار حضور صلی ﷲ علیہ و آلہ وسلم دو رکعت پڑھ کر کھڑے ہو گئے بیٹھے نہیں پھر سلام کے بعد سجدۂ سہو کیا۔(سنن الترمذی‘‘،ابواب الصلاۃ،باب ماجاء فی الامام ینہض فی الرکعتین ناسیا، الحدیث۳۶۵ ، ج ۱ص ۳ ۸۰)

اس حدیث کو ترمذی نے مغیرہ بن شعبہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔


واجبات نماز میں جب کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو اس کی تلافی کے لیے سجدۂ سہو واجب ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ التحیات کے بعد دہنی طرف سلام پھیر کر دو سجدے کرے پھر تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر ے۔(شرح الوقایۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو، ج۱، ص۲۲۰۔ و ’’الدرالمختار‘‘ و ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو، ج۲، ص۶۵۱، ۶۵۵)


واجب کی تاخیر رکن کی تقدیم یا تاخیر یا اس کو مکرر کرنا یا واجب میں تغییر یہ سب بھی ترک واجب ہیں ۔ (بہار شریعت، باب سجود السھو، ج۱ ، ص۷۱۰، م ۱۳،چشتی)


1۔ فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور نفل و وتر کی کسی رکعت میں سورۂ الحمد کی ایک آیت بھی رہ گئی یا سورت سے پیشتر دو بار الحمد پڑھی یا سورت ملانا بھول گیا یا سورت کو فاتحہ پر مقدم کیا یا الحمد کے بعد ایک یا دو چھوٹی آیتیں پڑھ کر رکوع میں چلا گیا پھر یاد آیا اور لوٹا اور تین آیتیں پڑھ کر رکوع کیا تو ان سب صورتوں میں سجدۂ سہو واجب ہے۔(الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب سجود السہو، ج۲، ص۶۵۶۔و ’’الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر في سجود السھو، ج۱، ص۱۲۶)


2۔ فرض و نفل دونوں کا ایک حکم ہے یعنی نوافل میں بھی واجب ترک ہونے سے سجدۂ سہو واجب ہے۔ (الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر في سجود السھو، ج۱، ص۱۲۶)


3۔ الحمد پڑھنا بھول گیا اور سورت شروع کر دی اور بقدر ایک آیت کے پڑھ لی اب یاد آیا تو الحمد پڑھ کر سورت پڑھے اور سجدہ واجب ہے۔ یوہیں اگر سورت کے پڑھنے کے بعد یا رکوع میں یا رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد یاد آیا تو پھر الحمد پڑھ کر سورت پڑھے اور رکوع کا اعادہ کرے اور سجدۂ سہو کرے۔(الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر في سجود السھو، ج۱، ص۱۲۶)


4۔ تعدیل ارکان بھول گیا سجدۂ سہو واجب ہے۔(الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر في سجود السھو، ج۱، ص۱۲۷)


5۔ کسی قعدہ میں اگر تشہد میں سے کچھ رہ گیا، سجدۂ سہو واجب ہے، نماز نفل ہو یا فرض۔

(الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر في سجود السھو، ج۱، ص۱۲۷)


6 ۔ تشہد پڑھنا بھول گیا اورسلام پھیر دیا پھر یاد آیا تو لوٹ آئے تشہد پڑھے اور سجدۂ سہو کرے۔ یوہیں اگر تشہد کی جگہ الحمد پڑھی سجدہ سہو واجب ہوگیا۔(الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر في سجود السھو، ج۱، ص۱۲۷)


7۔ قنوت یا تکبیر قنوت یعنی قراء ت کے بعد قنوت کے لیے جو تکبیر کہی جاتی ہے بھول گیا سجدۂ سہو کرے۔ (الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر في سجود السھو، ج۱، صفحہ ۱۲۸،چشتی)


8۔ رکوع کی جگہ سجدہ کیا یا سجدہ کی جگہ رکوع یا کسی ایسے رُکن کو دوبارہ کیا جو نماز میں مکرر مشروع نہ تھا یا کسی رُکن کو مقدم یا مؤخر کیا تو ان سب صورتوں میں سجدۂ سہو واجب ہے۔(الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر في سجود السھو، ج۱، صفحہ ۱۲۷)


9۔ قراء ت وغیرہ کسی موقع پر سوچنے لگا کہ بقدر ایک رکن یعنی تین بار سبحان اﷲ کہنے کے وقفہ ہوا سجدۂ سہو واجب ہے۔ (ردالمحتار ‘‘، کتاب الصلاۃ، باب سجود السھو، ج۲، ص۶۵۸)


10۔ وتر میں شک ہوا کہ دوسری ہے یا تیسری تو اس میں قنوت پڑھ کر قعدہ کے بعد ایک رکعت اور پڑھے اور اس میں بھی قنوت پڑھے اور سجدۂ سہو کرے۔(الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب الثاني عشر في سجود السھو، ج۱، ص۱۳۱)


1۔کسی قعدہ میں تشہّد کا کوئی بھی حصّہ بھول گیا تو سجدہ سہو واجب ہے۔


2۔ آیتِ سجدہ پڑھی اور سجدہ میں سہواً تین آیات یا زیادہ کی تاخیر ہوئی تو سجدہ سہو کرے۔


3۔ سورت پہلے پڑھ لی اور الحمد شریف بعد میں، تو سجدہ سہو واجب ہو گیا ۔


4۔ الحمد اور سورت کے درمیان دیر تک یعنی تین بار سبحان اللہ کہنے کی مقدار چُپ کیا رہا تو سجدہ سہو واجب ہے۔


5۔ الحمد کا ایک لفظ بھی رہ گیا تو سجدہ سہو کرے۔


6۔ایک سجدہ کسی رکعت کا بھول گیا تو جب یاد آئے کرلے، اگرچہ سلام کے بعد ہو، بشرطیکہ کوئی فعل منافئ صلٰوۃ نہ صادر ہوا ہو اور سجدہ سہو کرے۔


7۔ ایک رکعت میں تین سجدے کر لیے تو سجدہ سہو لازم ہوگیا۔


8 ۔قعدہ اولٰی بھول گیا یا ایک رکعت میں دو رُکوع کر لئے تو سجدہ سہوکرے۔


9۔فرض، وتر اور سُننِ رواتب کے قعدہ اولیٰ میں اگر تشہد کے بعد اِتنا کہہ لیا"اللھم صلی علی محمد یا اللھم صلی علی سیّدنا" تو اگر بھولے سے کہہ دیا تو سجدہ سہوکرے اور عمداً کہا تو اِعادہ صلوۃ( نماز کا دہرانا) واجب ہے۔

(بہار شریعت، جلد اوّل، حصّہ سوم مکتبہ المدینہ، باب نماز پڑھنے کا طریقہ، عنوان واجباتِ نماز، ص519)


10۔مُقتدی پر اِمام کی اطاعت واجب ہے، لہذا اِمام پر سجدہ سہو لازم ہونے کی صورت میں مقتدی پر بھی لازم ہوگا، چا ہے مقتدی کسی بھی حالت (لاحق، مَسبوق وغیرہ) میں ہو۔(بہار شریعت، جلد اوّل، حصّہ سوم مکتبہ المدینہ، باب نماز پڑھنے کا طریقہ، عنوان واجباتِ نماز، ص519)


نماز اوّلین فرائض میں سے ایک اہم ترین فریضہ ہے، دنیا کا نظام سیکھنے سکھانے سے چلتا ہے، لہذا ایک مسلمان کو اپنا فریضۂ نماز بھی سیکھ کر ہی ادا کرنا چاہیے۔


سجدہ سہو کب واجب ہوتا ہے: واجباتِ نماز میں جب کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو اس کی تلافی کے لیے سجدۂ سہو واجب ہے۔ (بہار شریعت، ج 1، ح 4، ص 711)


سجدہ سہو کا طریقہ : اس کا طریقہ یہ ہے کہ التحیات کے بعد دہنی طرف سلام پھیر کر دو سجدے کرے پھر تشہد وغیرہ پڑھ کر سلام پھیر ے۔ (بہار شریعت، ج 1، ح 4، ص 711)


درج ذیل (نیچے) 10 واجباتِ نماز بیان ہو ں گے لہذا اگر کوئی واجب چھوٹ جائے تو سجدہ سہو واجب ہو گا، سجدۂ سہو واجب ہونے کی 10 صورتیں ملاحظہ فرمائیں۔


1۔ تکبیر تحریمہ میں لفظ ا ﷲ اکبر ہونا نماز کا واجب ہے، لہذا ا ﷲ اکبر کے علاوہ کوئی دوسرا لفظ کہنے سے سجدہ سہو واجب ہو گا۔


2۔ الحمد (سورہ فاتحہ) پڑھنا یعنی اسکی ساتوں آیتیں کہ ہر ایک آیت مستقل واجب ہے، ان میں ایک آیت بلکہ ایک لفظ کا ترک بھی ترک واجب ہے۔ لہذا ایک لفظ بھی چھوٹا تو سجدہ سہو واجب ہو گا۔


3۔۔ نمازِ فرض میں پہلی دو رکعتوں میں قراءت واجب ہے۔ لہذا اگر کوئی پہلی دو رکعتوں میں بقدرِ واجب قراءت نا کرے تو سجدہ سہو واجب ہو گا۔


4۔ الحمد (سورہ فاتحہ) کا سورت (سورہ اخلاص وغیرہ) سے پہلے ہونا واجب ہے، لہذا اگر کوئی سورہ فاتحہ اور سورۃ اخلاص وغیرہ ترتیب سے نا پڑھے تو سجدہ سہو واجب ہو گا۔


5۔ ہر رکعت میں سورت سے پہلے ایک ہی بار الحمد (سورۃ فاتحہ) پڑھنا واجب ہے، لہذا اگر کوئی ایک سے زائد بار سورہ فاتحہ پڑھے تو سجدہ سہو واجب ہو گا۔


6۔ قراء ت کے بعد متصلاً (فوری بعد) رکوع کرنا واجب ہے، لہذا اگر تاخیر کی تو سجدہ سہو واجب ہو گا۔


7۔ قومہ یعنی رکوع سے سیدھا کھڑا ہونا واجب ہے، لہذا اگر کوئی سیدھا کھڑا نا ہوا تو سجدہ سہو واجب ہو گا۔


8۔ جلسہ یعنی دو سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھنا واجب ہے، لہذا اگر کوئی سیدھا نا بیٹھے تو سجدہ سہو واجب ہو گا۔


9۔ لفظ اَلسَّلَامُ 2 بار پڑھنا واجب ہے، لہذا اگر کوئی 2 بار نا پڑھے تو سجدہ سہو واجب ہو گا۔


10۔ وتر میں دعائے قنوت پڑھنا واجب ہے، لہذا اگر کوئی دعائے قنوت نا پڑھے تو سجدہ سہو واجب ہو گا۔ (بہار شریعت، ج 1، ح 3، ص 520 ،519)


تاخیرِ فرض : نماز کے کسی بھی فرض کو ادا کرنے میں تین مرتبہ سبحٰن اللہ کی مقدار دیر ہو جانا۔ مثلًا:


١۔ ایک رکعت کا دوسرا سجدہ رہ گیا ہو اور اسے نماز کی اگلی کسی بھی رکعت یا آخر میں ادا کرنا


٢۔قعدہ اولٰی کے بعد درود شریف پڑھنا یہاں تک کہ صرف ” اللھم صلی علی محمد “تک ہی پڑھا ہو اور پھر کھڑا ہو جانا ۔


تاخیرِ واجب : نماز کے کسی بھی واجب کو ادا کرنے میں تین مرتبہ سبحٰن اللہ کی مقدار دیر ہو جانا ۔ مثلًا:


١۔قعدہ میں بیٹھ کر پہلے قرأت کرنا پھر تشھد پڑھنا۔


٢۔وتر کی آخری رکعت میں تکبیرِ قنوت کے بعد قرأت کرنا اور پھر دعائے قنوت پڑھنا ۔


تکرارِ فرض : نماز کے کسی بھی فرض کو ایک سے زائد مرتبہ دہرانا ۔ مثلًا:


١۔ ایک ہی رکعت میں دو رکوع ادا کرنا ۔


٢۔ ایک ہی رکعت میں دو سے زائدسجدے کرنا ۔


تکرارِ واجب : نماز کے کسی بھی واجب کو ایک سے زائد مرتبہ پھیرنا ۔ مثلًا:


١۔سورة الفاتحہ پڑھنے کے بعد بغیر کسی سورت یا تین آیات یا ایک بڑی آیت ملائے دوبارہ سورة الفاتحہ پڑھنا ۔


٢۔ قعدہ میں تشھد پڑھتے ہوئے آدھی سے زیادہ پڑھنے کے بعد دوبارہ تشھد پڑھنا ۔


ترکِ واجب : نماز کے کسی بھی واجب کو ادا نہ کرنا۔مثلًا :


١۔ تعدیلِ ارکان (یعنی رکوع،سجود،قومہ اورجلسہ میں ایک مرتبہ سبحٰن اللہ کی مقدار ٹھہرنا ) کو ادا نہ کرنا ۔


٢۔ وتر نماز کی تیسری رکعت کے قیام میں دعائے قنوت پڑھنے سے پہلے تکبیرِ قنوت نہ پڑھنا ۔


ان تمام صورتوں یا ان کی مثل کوئی دوسری صورت اگر جان بوجھ کر پائی گئی تو نماز مکروہِ تحریمی اور واجب الاعادہ ہوگی ۔ جبکہ اگر بھولے سے ہوا تو آخر میں سجدہ سہو کر کے نماز مکمل کی جاۓ اگر چہ بھولے سے کئی سارے واجب چھوٹ جائیں تو سب کا ازالہ کرنے کےلیے صرف ایک سجدہ سہو کافی ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔