Friday, 17 December 2021

مسلہ باغِ فَدک و معصوم عنِ الخطاء تاجدار گولڑہ اکابرینِ اسلام اور شیعہ کتب سے

 مسلہ باغِ فَدک و معصوم عنِ الخطاء تاجدار گولڑہ اکابرینِ اسلام اور شیعہ کتب سے

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : تاجدار گولڑہ حضرت سیّدنا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الحاصل آیتِ تطہیر کا مورد خواہ اُمّہاتُ المومنین ہوں فقط یا آل کساء ہوں یا صرف آلِ کساء ہوں ، ایسا ہی تطہیر در رنگ انزالِ شرعیہ ہو یا در صورت عفو و مغفرت ، بہر کیف خطاء کا صدور مطہرین سے ممکن ہے ۔ علاوہ خلفائے ثلاثہ کے اہلبیت پاک علیہم السّلام نے باغِ فَدک کے غیر مورث ہونے کو اپنی طرز سے ثابت کر دکھایا ۔ (فتاویٰ مہریہ صفحہ نمبر 217 مطبوعہ گولڑپ شریف)


تاجدار گولڑہ حضرت سیّدنا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : خطا کا صدور بہر کیف مطہّرین سے ممکن ہے ۔ البتہ حشر اُن کا آخرت میں مغفرت کاملہ کی صورت میں ہوگا ۔ (تصفیہ مابین سنی و شیعہ صفحہ نمبر 58 مطبوعہ گولڑہ شریف)


تاجدار گولڑہ حضرت حضرت سیّدنا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت سیّدہ فاطمۃُ الزہرا رضی اللہ عنہا باغِ فدک کا مطالبہ کرتے ہوئے کسی ناجائز امر کی مرتکب نہیں ہو سکتیں ۔۔۔ اور آیت تطہیر کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ پاک گروہ معصوم ہیں اور اِن سے کسی قسم کی خطا سرزد ہونا نا ممکن ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر بمقتضائے بشریت اُن سے کوئی خطا سرزد بھی ہو تو وہ عفو و تطہیر اِلہٰی میں داخل ہوگی ۔ (تصفیہ مابین سنی و شیعہ صفحہ نمبر 46 مطبوعہ گولڑہ شریف،چشتی)


شریعت کی اصطلاح میں”معصوم“ صرف انبیائے کرام اور فرشتے علیہم السّلام ہیں ان کے سوا کوئی معصوم نہیں ہوتا اور معصوم ہونے کا مطلب شریعت میں یہ ہے کہ ان کے لئے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہوچکا جس کے سبب ان سے گناہ ہونا شرعاً محال ہے ۔ اس لحاظ سے انبیائے کرام اور فرشتوں کے سوا کسی کو بھی معصوم کہنا ہرگز جائز نہیں بلاشبہ گمراہی و بددینی ہے ۔ یاد رہے کہ اکابر اولیائے کرام سے بھی اگرچہ گناہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ انہیں محفوظ رکھتا ہے مگر ان سے گناہ ہونا شرعاً محال بھی نہیں ہوتا لہٰذا اس حوالہ سے بھی کسی قسم کی غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے ۔


انبیاء اور ملائکہ علیہم السّلام کے علاوہ کوئی بھی معصوم نہیں عقیدہ اہلسنّت

علامہ سعدالدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : ان الانبیاء علیھم السلام معصومون ۔ یعنی تمام انبیاء معصوم ہیں ۔ (شرح العقائد النسفیہ صفحہ نمبر 306)


جامع المعقول والمنقول علامہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الملائکة عباد اللہ تعالی العاملون بامرہ ۔ یرید انھم معصومون ۔

ترجمہ : ملائکہ بھی اللہ کے بندے ہیں اور اس کے حکم کے مطابق تمام امور سرانجام دیتے ہیں اور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ معصوم ہیں ۔ (شرح العقائد کی شرح النبراس صفحہ نمبر 287)


امام ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الانبیاء علیہم السلام کلھم منزھون ۔ ای معصومون ۔ یعنی تمام انبیاء علیہم السلام معصوم ہیں ۔ (منح الروض الازھر صفحہ نمبر 56،چشتی)


امام اہلسنت امام احمد رضا خان قادری ماتریدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بشر میں انبیاء علیہم السلام کے سوا کوئی معصوم نہیں ۔ (فتاوی رضویہ جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 187)


صدرالافاضل استاذ العلماء حضرت مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : انبیاء اور فرشتوں علیہم السّلام کے سوا معصوم کوئی بھی نہیں ہوتا ، اولیاء (کو اللہ تَعَالٰی اپنے کرم سے گناہوں سے بچاتا ہے مگر معصوم صرف انبیاء اور فرشتے علیہم السّلام ہی ہیں ۔ (کتاب العقائد صفحہ نمبر 21،چشتی)


صدرالشریعہ حضرت علاّمہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : نبی کا معصوم ہونا ضروری ہے اور یہ عصمت نبی اور مَلَک کا خاصہ ہے ، کہ نبی اور فرشتہ کے سوا کوئی معصوم نہیں ۔ اماموں کو انبیا کی طرح معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے ۔ عصمتِ انبیا (علیہم السّلام) کے یہ معنیٰ ہیں کہ اُن کے لیے حفظِ الٰہی کا وعدہ ہولیا ، جس کے سبب اُن سے صدورِ گناہ شرعاً محال ہے بخلاف ائمہ و اکابر اولیا، کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اُنہیں محفوظ رکھتا ہے ، اُن سے گناہ ہوتا نہیں ، مگر ہو تو شرعاً محال بھی نہیں ۔ (بہار شریعت عقیدہ نمبر 16 جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 38 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،چشتی)


عصمت انبیاء و ملائکہ علیہم السّلام کا معنی یہ ہے کہ ان کے لیے حفظ الہی کا وعدہ ہو چکا ہے جس کے سبب ان سے صدور گناہ محال ہے ۔ انبیاء و ملائکہ علیہم السّلام کی طرح کسی دوسرے کو معصوم سمجھنا گمراہی و بد دینی ہے ۔ اور رہی بات بچوں کو معصوم کہنے والی تو اس کا جواب یہ ہے کہ بچوں کو معصوم کہنا اس معنی میں نہیں ہوتا جس معنی میں شرعی اصطلاح ہے اس لیئے بچوں کو معصوم کہنے والے پر کوئی حکم نہیں ۔ عرفِ حادِث میں بچوں کو بھی ”معصوم“ کہہ دیا جاتا ہے لیکن شرعی اصطلاحی معنیٰ جو اوپر بیان کئے گئے اس سے وہ مراد نہیں ہوتے بلکہ لغوی معنیٰ یعنی بھولا ، سادہ دل ، سیدھا سادھا ، چھوٹا بچہ ، نا سمجھ بچہ ، کم سن ، والے معنیٰ میں کہا جاتا ہے ۔ اس لئے اس معنیٰ میں بچوں کو معصوم کہنے پر کوئی گرفت نہیں اسے ناجائز بھی نہیں کہہ سکتے ۔


مسلہ باغ فدک شیعہ کتب کی روشنی


باغ فدک کیا ہے ؟ فدک خیبر کا ایک قصبہ ہے (وہاں ایک باغ ہے جسے باغ فدک کہا جاتا ہے) اور یہ بھی کہا گیا کہ حجاز کا ایک کنارہ ہے جس میں چشمےاور کھجوروں کے درخت ہیں یہ اللہ سبحانہ وتعالی نےاپنے محبوب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عطا کیا تھا ۔ (لسان العرب جلد2، صفحہ 473)


حضرت سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی حدیث سنائی کہ انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال نہیں علم ہے اور یہ بتایا کہ اس جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم اہلبیت کو دیا کرتے تھے وہ میں بھی جاری رکونگا تو حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے اپنے مطالبے سے رجوع کر لیا اور پھر ساری عمراس مسئلے پر کوئی بات نہیں کی بلکہ شیعوں کی اپنی کتاب میں ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ اس پر راضی ہو گئیں۔اس مسلے کو ہم کتب شیعہ سے لکھ رہے شاید کسی کو ہدایت نصیب ہوجائے اور وہ گستاخیاں چھوڑ دے یاد رہے اس مسلے کو بعض متعصب شیعہ علماء نے من گھڑت کہانیوں کے ذریعے اچھالا آیئے حقائق پڑھتے ہیں ۔


مشہور شیعہ مصنف اس کا نام کمال الدین میثم بن علی میثم البحرانی ہے۔ ساتویں صدی ہجری میں پیدا ہوا۔ ’’عالمِ ربانی، فلسفی، محقق، صاحبِ حکمت اور نہج البلاغۃ کی شرح کا مصنف ہے۔ محقق طوسی سے روایت کرتا ہے… کہا گیا ہے کہ خواجہ نصیر الدین طوسی نے فقہ کمال الدین میثم سے اور میثم نے حکمت خواجہ سے پڑھی تھی۔ ۶۷۹ھ میں وفات پائی اور ماحوذ کے قریب ایک بستی ہلتا میں دفن ہوا۔(الکنی والالقاب جلد ۱ ، صفحہ ۴۱۹)اسی نے کہا تھا ۔میں نے علوم و فنون اس لیے چاہے تھے کہ اس سے برتری حاصل کروں‘‘’’مجھے بس اسی قدر ملا کہ اسی تھوڑے سے میں بلند ہوگیا‘‘ ’’مجھے معلوم ہوگیا کہ سب کے سب محاسنفرع ہیں اور حقیقت میں مال ہی اصل ہے‘‘ ’’اس کی ایسی ایسی عجیب تصنیفات ہیں جن کے بارے میں زمانے میں سے کسی نے بھی نہیں سنا اور نہ ہی بڑے بڑوں میں سے کوئی اُسے پاسکا ہے۔‘‘ (روضات الجنات ج ۲ ص ۲۱۸ اور مابعد)

شیعہ ابن میثم نہج البلاغہ کی شرح میں یہ روایت لکھتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کہا جو آپ کے والد محترم کا تھا وہ آپ کا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فدک میں سے آپ کیلئے کچھ رکھ لیا کرتے تھے باقی اللہ سبحانہ وتعالی کے راستے میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اللہ کی قسم !میں آپ کے ساتھ ویسا ہی کروں گا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا کرتے تھے یہ سُن کر فاطمہ رضی اللہ عنہا خوش ہو گئیں اور اس بات کا آپ سے عہدلے لیا۔(شرح نہج البلاغ،جلد 5،صفحہ 7،از ابن میثم البحرانی مطبوعہ تہران) ، اسی جیسی ایک روایت شیعہ دنبلی نے اپنی شرح ’’الدرۃ النجفیہ صفحہ 331،332 مطبوعہ ایران‘‘ میں بیان کی ہے۔ (شرح نہج البلاغۃ جلد5 ،صفحہ 331،332ایران)


شیعہ ابن میثم،دنبلی،ابنِ ابی الحدید، اور معاصر شیعہ مصنف فیض الاسلام علی نقی نے یہ روایت نقل کی ہے:’’ابوبکر رضی اللہ عنہ باغِ فدک کے غلہ میں سے اتنا حصہ اہلِ بیت کو دے دیا کرتے تھے جو ان کی ضروریات کے لیئے کافی ہوتا۔ باقی سب تقسیم کردیا کرتے، آپ کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے، عثمان رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے اور ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ (شرح نہج البلاغۃ، لابنِ ابی الحدید جلد 4، صفحہ44، شرح نہج البلاغۃ،لابنِ میثم البحرانی جلد 5، صفحہ 107،الدرۃ النجفیۃ‘‘ صفحہ 332،چشتی)(شرح النہج البلاغہ،جلد 5،صفحہ 960، فارسی لعلی نقی ،مطبوعہ تہران)


شیعہ کتب گواہ ہں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی ویسا ہی کیا جیسا خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم نے کیا تو یہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر کیا فتوی لگائیں گے ؟


نبی کریم اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم انبیاء علیہم السّلام کی وراثت مال نہیں ہے اس روایت کو متعصب شیعہ جھٹلاتے ہیں جبکہ یہ روایت خود شیعوں کی اپنی کتب میں موجود ہے، ان کی اپنی کتاب (کافی) میں جسےشیعہ سب سے صحیح کتاب کہتے ہیں اسی کتاب (کافی) میں شیعہ کلینی نےحماد بن عیسی سےاور حماد بن عیسی نےقداح سےجعفر ابو عبداللہ کی روایت نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ’’جو علم کو تلاش کرتے ہوئے علم کے راستے پر چلے، اللہ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے ، اور عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے، جیسے چودھویں کا چاند سارے ستاروں سے افضل ہے۔ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں جو دینار و درہم وراثت میں نہیں چھوڑتے لیکن علم کی میراث چھوڑتے ہیں، جو اس میں سے کچھ حاصل کرلے اس نے بہت کچھ حاصل کرلیا ۔ (الاصول من الکافی کتاب فضل العلم، باب ثواب العالم والمتعلم جلد 1،صفحہ 34)

جعفر ابوعبداللہ نےایسی ہی ایک اور روایت میں کہا ہے: علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان کا مالِ میراث درہم و دینار نہیں ہوتا، انہیں انبیاء علیہم السلام کی احادیث میراث میں ملتی ہیں۔(الاصول من الکافی باب صفۃ العلم وفضلہ وفضل العلماء جلد 1، صفحہ 32،چشتی)


مزید دو روایتیں پیش خدمت ہیں جن سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے، ان روایات کو بھی اس نے روایت کیا ہے جسے شیعہ قوم ’’صدوق‘‘ کے نام سے پکارتی ہے ۔


(1) براہیم بن علی رافعی نے اپنے باپ سے، اس نے اپنی دادی بنت ابی رافع سے روایت کیا ہے وہ کہتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرضِ وفات میں فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں بیٹوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہنے لگیں”یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دونوں آپ کے بیٹے ہیں، ان کو اپنی کچھ میراث دے دیجیے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ حسن رضی اللہ عنہ کے لیے میری ہیبت اور بزرگی ہے اور حسین رضی اللہ عنہ کے لیے میری جرأت اور میری سخاوت۔( کتاب الخصال‘‘ از قمی صدوق، صفحہ 77)


(2) سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کے دو بیٹے ہیں، انہیں کچھ عطا کیجیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حسن رضی اللہ عنہ کو میں نے اپنا رعب اور بزرگی دی اور حسین رضی اللہ عنہ کو اپنی سخاوت اور شجاعت۔(کتاب الخصال“ از قمی صفحہ 77)


بعض متعصب شیعہ حضرات یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں نے باغِ فدک آپ کو اس لیئے نہیں دیا تھا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو مفلس و قلاش کردینا چاہتے تھے تاکہ لوگ مال و دولت کے لالچ میں ان کی طرف راغب نہ ہو جائیں ۔ ہمیں ان پر اور ان کی عقلوں پر افسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کو اس آخری زمانے کے حکمرانوں جیسا سمجھتے ہیں جو دولت کے بل بوتے پر مال اور رشوت دے کر بڑے بڑے عہدے حاصل کرتے ہیں۔ اگر بالفرض یہ بات بھی تھی تو مال کی وافر مقدار ان کے پاس موجود تھی، دیکھئے شیعہ عالم کلینی اس کا ذکر کرتا ہے۔ دسویں امام ابو الحسن سے روایت ہے کہ سات باغات فاطمہ علیہا السلام کے لیے وقف تھے۔ وہ باغات یہ ہیں:(۱)دلال (۲) عوف(۳) حسنی (۴) صافیہ (۵) مالامِ ابراہیم (۶) مثیب (۷) برقہ ۔ (الفروع من الکافی‘‘ ،کتاب الوصایا ،جلد ۷ ،صفحہ ۴۷، ۴۸)

اب یہ بتا ئیں جو سات باغات کا مالک ہو اس کے پاس دولت کی کمی ہوگی ؟


محترم قارئین قابلِ غوریہ بات ہے کہ : اگر باغ فدک اور اس کی زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث تھی تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اکیلی ہی اس کی وارث تو نہ تھیں، ابوبکر صدیق اور فاروق رضی اللہ عنہما کی بیٹیاں بھی اس کی وراثت میں شریک تھیں، اگر ابوبکر صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس وراثت سے محروم رکھا تو اپنی بیٹیوں کو بھی تو محروم رکھا۔ آخر اُن کی بات کوئی کیوں نہیں کرتا،ان کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ بھی زندہ تھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثاء میں وہ بھی شامل تھے۔

یاد رہے یہ اعتراض کرنے والے شیعہ حضرات اتنا بھی نہیں جانتے کہ ان کے مذہب میں عورت کو غیر منقولہ جائداد اور زمین کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ملتا۔ ان کے محدثین نے اس مسئلہ کو مستقل ابواب و عنوانات کے تحت بیان کیا ہے۔ دیکھیے کلینی نے ایک مستقل باب اس عنوان سے لکھا ہے: ’’عورتوں کو غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملتا‘‘ اس عنوان کے تحت اس نے متعدد روایات بیان کی ہیں۔چوتھے امام ابو جعفر سے روایت ہے کہ : انہوں نے کہا: ’’عورتوں کو زمین اور غیر منقولہ مالِ وراثت میں سے کچھ بھی نہیں ملے گا۔(الفروع من الکافی‘‘ کتاب المواریث ،جلد7،صفحہ 137)


ابنِ بابویہ قمی صدوق نے اپنی صحیح ’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘ میں یہ روایت بیان کی ہے:ابو عبداللہ جعفر کی روایت ان کے پانچویں امام کی روایت میسر نے بیان کی ہے کہ

میں نے آپ سے (یعنی جعفر سے) عورتوں کی میراث کے بارے میں پوچھا؟ آپ نے کہا: جہاں تک زمین اور غیر منقولہ جائداد کا تعلق ہے، اس میں عورتوں کی میراث نہیں۔(من لا یحضرہ الفقیہ““،کتاب الفرائض والمیراث جلد۴ ،صفحہ ۳۴۷)

اسی طرح اور بہت سی روایات بھی بیان کی گئی ہیں جن کی بناء پر اُن کے علماء نے اتفاق کیا ہے کہ زمین اور غیر منقولہ جائداد میں عورتوں کو میراث نہیں دی جاتی۔

اگر عورتوں کو زمین اور باغات وغیرہ کی جائیداد نہیں دی جاتی تو فاطمہ رضی اللہ عنہ نے بقول ان کے کس طرح فدک کا مطالبہ کیا تھا۔ کوئی کوڑھ مغز بھی اس سے اختلاف نہیں کرسکتا کہ یقینا فدک غیر منقولہ جائداد تھی۔


کیا حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس مسلہ پر ناراض تھیں کا جواب شیعوں کے سب سے بڑے متعصب عالم مجلسی کے قلم سے پڑھیئے ، باوجود شدید نفرت و کراہت کے یہ بات کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ:سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا خفا ہوگئیں تو ان سے کہنے لگے: میں آپ کے فضل اور رسول اللہ علیہ السلام سے آپ کی قرابت کا منکر نہیں۔ میں نے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل میں فدک آپ کو نہیں دیا۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ علیہ السلام کو یہ کہتے سنا ہے: ہم انبیاء کا گروہ، مالِ وراثت نہیں چھوڑتے۔ ہمارا ترکہ کتاب و حکمت اور علم ہے۔ اس مسئلے میں میں تنہا نہیں، میں نے یہ کام مسلمانوں کے اتفاق سے کیا ہے۔ اگر آپ مال و دولت ہی چاہتی ہیں تو میرے مال سے جتنا چاہیں لے لیں، آپ اپنے والد کی طرف سے عورتوں کی سردار ہیں، اپنی اولاد کے لیے شجرۂ طیبہ ہیں، کوئی آدمی بھی آپ کے فضل کا انکار نہیں کرسکتا۔(حق الیقین‘‘ ،صفحہ ۲۰۱، ۲۰۲ ،ترجمہ فارسی)


مولائے کائنات حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اقتدار پر فائز ہوتے ہی ابن سباء کی نسل کی اس سازش پر ضربِ کاری لگائی ۔ امامِ شیعہ، سید مرتضیٰ علم الہدیٰ لکھتا ہے:جب فدک کے انکار کا معاملہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو آپ نے کہا: مجھے شرم آتی ہے کہ میں اس چیز کو دے ڈالوں جس کو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روک لیا تھا اور عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اسی حال میں برقرار رکھا۔ (الشافی‘‘ للمرتضیٰ صفحہ ۲۳۱ ،چشتی) ، (شرح نہج البلاغۃ لابنِ ابی الحدید“، جلد ۴)


حضرت امام ابوجعفر محمد باقر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے بارے میں کثیر النوال نے پوچھا: ’’میں آپ پر قربان جاؤں۔ کیا آپ کا خیال ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا حق روک کر آپ پر ظلم کیا ہے؟‘‘ یا ان الفاظ میں کہا کہ: ’’آپ کا کچھ حق تلف کیا ہے؟‘‘ آپ نے کہا: ’’ہرگز نہیں، اس ذات کی قسم جس نے اپنے اس بندے پر قرآن نازل کیا جو سارے جہانوں کے لیے نذیر (ڈرانے والے) ہیں ، ہم پر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی ظلم نہیں کیا گیا۔‘‘ میں نے کہا: ’’قربان جاؤں کیا میں بھی ان دونوں سے محبت رکھوں؟‘‘کہنے لگے: ’’ہاں تیرا ستیاناس! تو ان دونوں سے محبت رکھ، پھر اگر کوئی تکلیف تجھے پہنچے تو وہ میرے ذمے۔(شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲،چشتی)


ہم نے شیعہ مذھب کی معتبر کتابوں شیعہ جنہیں اپنا امام مانتے ہیں (آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم) اور دیگر شیعہ نے صاف صاف یہ کہا کہ : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نےاُن پر کوئی ظلم نہیں کیا پھر یہ اجہل متعصب شیعہ کیوں ان مقدس ہستیوں پرتہمتیں لگاتے ہیں ۔؟ یا تو صآف لکھیں شیعہ مذھب کے تمام امام جھوٹے ہیں یا یہ شیعہ خود جھوٹے ہیں فیصلہ خود کیجیئے۔


امام محمد باقر رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت امام زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے بھی فدک کے مسئلے میں وہی کچھ فرمایا جو آپ کے دادا مولا علی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا پڑھیئے شیعہ مذھب کی معتبر کتاب کے حوالے سے : بحتری بن حسان کے پوچھنے پر حضرت امام زید بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم نے کہا: ’’ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تحقیر و توہین کے طور پر میں نے زید بن علی علیہ السلام سے کہا: ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فدک فاطمہ رضی اللہ عنہا سے چھین لیا، یہ سن کر آپ کہنے لگے: ابوبکر رضی اللہ عنہ مہربان آدمی تھے، وہ ناپسند کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیے ہوئے کسی کام میں تغیر و تبدل کریں۔ فاطمہ رضی اللہ عنہا ان کے پاس آئیں اور کہنے لگیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فدک دیا تھا، آپ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ہے؟ آپ علی رضی اللہ عنہ کو لے آئیں ، انہوں نے اس بات کی گواہی دی۔ ان کے بعد ام ایمن رضی اللہ عنہا آئیں اور کہنے لگیں: کیا تم دونوں گواہی نہیں دیتے کہ میں اہلِ جنت میں سے ہوں، دونوں کہنے لگے کیوں نہیں، ابو زید نے کہا: یعنی انہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، کہنے لگیں: میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فدک ان (فاطمہ رضی اللہ عنہا) کو دیا تھا، اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی اور آدمی یا عورت کو بھی اس جھگڑے میں فیصلہ کرنے کا حق دار سمجھتی ہیں، اس پر ابو زید کہنے لگے: اللہ کی قسم اگر فیصلہ میرے پاس آتا تو میں بھی وہی فیصلہ کرتا جو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا ہے۔(شرح نہج البلاغۃ‘‘ لابنِ ابی الحدید، جلد ۴ ،صفحہ ۸۲)

الحمد للہ فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی نے مسلہ باغ فدک کے متعلق شیعہ مذھب کی معتبر کتابوں سے اس مسلہ کو علمی اور مہذب انداز میں پیش کر دیا ہے جو کچھ آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم نے فرمایا اور جو کچھ شیعہ مذھب کے معتبر علماء نے لکھا یہی اہلسنت و جماعت کا مؤقف ہے مجھے حیرت ہوتی اجہل قسم کے شیعہ ذاکرین اور سننے پڑھنے والے شیعہ حضرات آئمہ اہلبیت رضی اللہ عنہم کی تعلیمات و ارشادات کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں اس کی وجہ صاف ہے کہ یہ جھوٹی محبت کے دعویدار ہیں صرف امت مسلمہ میں فتنہ و فساد پھیلانا ان کا کام ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کہ اہل اسلام کو ابن سباء یہودی کے پھیلائے ہوئے اس فتنہ و شر سے محفوظ فرمائے اور حق کو قبول کرنے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...