مشتی زنی کیا ہے اور اس کا شرعی حکم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئین کرام : مشت زنی کیا ہے ؟ اور اس کا اسلام میں حکم مشت زنی کو عربی میں جلق (ہاتھ کی مدد سے منی خارج کرنا ، مشت زنی، ہتلس ، مٹھولے لگانا یا استمناء بالید جلق، ہتھ رس) کہتے ہیں جب کہ مٹھ مارنا ، اردو میں مستعمل ہے ۔ (انگریزی : Mastrubation) ایک انسانی شہوانی عمل ہوتا ہے ، جس میں ایک مرد یا عورت بغیر کسی دوسرے انسان کےاپنی شرمگاہ کو ہاتھ ، انگلیاں یا کسی اور چیز کی مدد سے متحرک رکھے اور جس میں انسان کی شرمگاہ سے منی نکل آئے ۔ اس کا ارتکاب انسان عام طور پر اس وقت کرتا ہے جب وہ اپنی شہوت کے دباؤ کو نہ سنبہال سکے ۔ كئی احادیث میں اس فعل ِ بد (مشت زنی (Musterbation) ، ہینڈ پریکٹس) پر وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، ایک حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : سات لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی ٰ قیامت کے دن نہ گفتگو فرمائے گا اور نہ ان کی طرف نظرِکرم فرمائے گا ۔ اُن میں سے ایک وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ سے نکاح کرتا ہے (یعنی مشت زنی کرتا ہے ) ، اور ایک حدیث میں ارشاد فرمایاگیا ہے کہ اپنے ہاتھ سے نکاح کرنے والا قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اُس کے ہاتھ حاملہ ہوں گے ۔
اوراس کی حرمت قرآن کریم سے ثابت ہے ، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ (5) إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (6) فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ (7) ۔ (سورہ المؤمنون)
ترجمہ :اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ تو جو ان دو کے سوا کچھ اور چاہے وہی حد سے بڑھنے والے ہیں ۔
ہم جنس پرستی ، مشت زنی اور مُتعہ حرام ہے
اس سے معلوم ہو اکہ شریعت میں صرف بیویوں اور شرعی باندیوں سے جائز طریقے کے ساتھ شہوت پوری کرنے کی اجاز ت ہے ، اس کے علاوہ شہوت پوری کرنے کی دیگر صورتیں جیسے مرد کا مرد سے ، عورت کا عورت سے ، شوہر کا بیوی یاشرعی باندی کے پچھلے مقام سے ، اپنے ہاتھ سے شہوت پوری کرنا حرام ہے یونہی کسی عورت سے متعہ کرنا بھی حرام ہے ۔
علامہ علی بن محمد خازن رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت سے ثابت ہوا کہ اپنے ہاتھ سے قضائے شہوت کرنا حرام ہے۔حضرت سعید بن جبیر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا’’ اللّٰہ تعالیٰ نے ایک اُمت کو عذاب کیا جو اپنی شرمگاہوں سے کھیل کرتے تھے ۔ (تفسیر خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷، ۳/۳۲۱)
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں : اس آیت سے ثابت ہو اکہ متعہ حرام ہے کیونکہ جس عورت سے متعہ کیا جاتا ہے وہ مرد کی بیوی نہیں کیونکہ اگر ان دونوں میں سے کوئی مر جائے تو دوسرا اس کا وارث نہیں بنتا ، اگر وہ عورت بیوی ہوتی تو مرد کے انتقال کے بعد اس کی وارث بھی بنتی کیونکہ بیوی کی وراثت قرآن سے ثابت ہے ۔ لہٰذا جب واضح ہو گیا کہ متعہ کروانے والی عورت مرد کی بیوی نہیں تو ضروری ہے کہ وہ مرد کے لئے حلال نہ ہو ۔ (تفسیر کبیر، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۷، ۸/۲۶۲،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے نوجوانوں کی جماعت : تم میں سے جوبھی شادی کرنے کی استطاعت رکھے اسے شادی کرنی چاہیے ، اورجوطاقت نہيں رکھتا وہ روزے رکھے اس لیے کہ یہ اس کے لیے ڈھال ہیں ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1400،چشتی)
اگر مشت زنی جائز ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی راہنمائی فرماتے ، اس لیئے مکلف کےلیئے ایسا کرنا آسان ہے ، لیکن روزے میں مشقت ہے ، توجب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کی راہنمائی فرمائي تویہ اس بات کی دلیل ہے کہ مشت زنی کرنا حرام ہے اورجائز نہيں ۔
حدثني علي بن ثابت الجزري، عن مسلمة بن جعفر، عن حسان بن حميد، عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " سبعة لا ينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم، ولا يجمعهم مع العالمين، يدخلون النار أول الداخلين، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا ممن تاب الله عليه: الناكح يده، والفاعل , والمفعول به، ومدمن الخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره ۔
مفہوم حدیث : سات شخص ایسے ہیں جنہیں اللہ پاک روز محشر نہ نظر کرم سے دیکھیں گے، نہ پاک کریں گے اور نہ لوگوں کے ساتھ جمع کریں گے اور وہ جہنم میں سب سے پہلے داخل ہوں گے۔ ان میں سے ایک ناکح ید ہے۔(جزء ابن العرفہ 1۔64 ط دار الاقصی)
اسی مفہوم کی ایک اور حدیث : وأخبرنا محمد بن الحسين قال: حدثنا الفريابي , قال: حدثنا قتيبة بن سعيد , قال: حدثنا عبد الله بن لهيعة , عن عبد الرحمن بن زياد بن أنعم , عن أبي عبد الرحمن الحبلي , عن عبد الله بن عمر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " سبعة لا ينظر الله إليهم يوم القيامة , ولا يزكيهم , ويقول ادخلوا النار مع الداخلين: الفاعل والمفعول به , والناكح يده , وناكح البهيمة , وناكح المرأة في دبرها , وجامع بين المرأة وابنتها , والزاني بحليلة جاره , والمؤذي لجاره حتى يلعنه "(ذم اللواط 1۔72 ط مکتبۃ القرآن)
سئل ابن عباس رضی الله عنه عن رجل يبعث بذکره حتی ينزل فقال ابن عباس ان نکاح الامة خير من هذا و هذا خير من الزنا.
ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص اپنے آلہ تناسل سے کھیلتا ہے، حتی کہ اس کو انزال ہو جاتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ باندی سے نکاح کرنا اس سے بہتر ہے اور یہ زنا سے بہتر ہے ۔ ناکح اليد ملعون . ترجمہ : ہاتھ سے جماع کرنے والا ملعون ہے ۔ (ردالمختار، 2 : 137-136،چشتی)
علامہ علاء الدین حنفی لکھتے ہیں کہ استمناء بالید مکروہ تحریمی ہے۔
امام شافعی کا قول یہ ہے کہ یہ حرام ہے۔ البتہ بیوی یا باندی کے ہاتھ سے استمناء کرانا جائز ہے۔
صاحب در مختار یہ نقل کرتے ہیں کہ یہ مکروہ ہے۔
انسان اگر حصول شہوت کے لیے یہ عمل کرے گا تو گنہگار ہوگا ۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ ہاتھ سے جماع کرنے والا ملعون ہے اور پانی کو بہانا اور شہوت کو غیر محل میں پورا کرنا حرام ہے ۔
علامہ ابو للیث نے کہا ہے کہ شہوت کی توجہ، حصول اور تجسس کی خاطر استمناء گناہ ہے ۔
علامہ ذیلعی نے استمناء بالکف کے عدم جواز پر اس سے استدلال کیا ۔
انسان کو اجازت نہیں دی گئی کہ وہ اپنے عضو خاص کو رگڑے، کیونکہ اسے اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ اپنے عضو کا علی الاطلاق مالک بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اپنے وجود کا، جسم کا، حتی کہ اپنے اعضاء کا مالک ہی نہیں تو وہ ان اعضاء کو شہوت، غلط کاری یا گناہ کے لیے استعمال نہیں کر سکتا ۔
علامہ ابن قدامہ حنبلی فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے استمناء بالکف کیا تو اس نے حرام کام کیا اور اس کا یہ فعل حرام تصور ہوگا۔ ہاں اگر اس کا انزال ہوگیا تو اس کا روزہ بھی فاسد ہو جائے گا ۔ (المغنی، جلد 3)
جمہور کے نزدیک استمناء بالید یعنی اپنے ہاتھ سے منی خارج کرلینا بھی اس میں داخل ہے’’،یعنی مشت زنی ناجائز اور حرام ہے ۔ لہٰذا اس بناء پر جمہور علماء ِ کرام کے نزدیک لذت حاصل کرنے کے لئے مشت زنی کرنا ناجائز اور گناہ ہے ، البتہ اگر کسی غیر شادی شدہ شخص پر یا بیوی سے دور شخص پر شہوت کا اس قدر غلبہ ہو کہ کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا شدید خطرہ ہو تو درج ذیل صورتوں پر عمل کرے ۔
(1) غلط ماحول اور خیالات سے بچنے کی حتی المقدور کوشش کرے ، اگر شادی شدہ ہے اور بیوی سے کہیں دور ہے تو بیوی کے پاس آنے کی فوری کوئی صورت اختیار کرے ، اور اگر رخصتی نہیں ہوئی تو رخصتی کا انتظام کرے ، لیکن واضح رہے کہ نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے بیوی کے ساتھ تعلق رکھنا شرعا ً جائز ہے ۔
(2) روزہ رکھے ،کیونکہ روزہ رکھنے سے شہوت مغلوب ہوتی ہے ۔
(3) تسکین بخش دوائی اور غذا استعمال کرے ،جب ان مذکورہ صورتوں پر عمل کرنے سے بھی شہوت مغلوب نہ ہو، اوربیوی کے پاس آنے یا رخصتی کا فوری کوئی انتظام بھی نہ ہورہا ہو،اور زنا میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہو ، تو اگر ایسا شخص زنا سے بچنے کی غرض سے مشت زنی کرے تو ان شاء اللہ تعالیٰ توقع ہے کہ ا س پر اس کا کوئی وبال نہ ہوگا ،کیونکہ اس کا مقصد زنا سے بچنا ہے ، نہ کہ لذت حاصل کرنا ،لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار بھی کرے ۔ (مأخذہٗ تبویب۷۴؍۱۲۴)
(شعب الإيمان 7/ 329) ۔ عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ” سبعة لا ينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة، ولا يزكيهم، ولا يجمعهم مع العالمين، يدخلهم النار أول [ص:330] الداخلين إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، إلا أن يتوبوا، فمن تاب تاب الله عليه الناكح يده، والفاعل والمفعول به، والمدمن بالخمر، والضارب أبويه حتى يستغيثا، والمؤذي جيرانه حتى يلعنوه، والناكح حليلة جاره ۔
شعب الإيمان (7/ 330) ۔ عن أنس بن مالك قال: ” يجيء الناكح يده يوم القيامة ويده حبلى ” ۔
التفسير المظهري (10/ 68) ۔ وفيه دليل على ان الاستمناء باليد حرام وهو قول العلماء قال ابن جريح سالت عطاء عنه فقال مكروه سمعت ان قوما يحشرون وأيديهم حبالى فاظن انهم هؤلاء وعن سعيد بن جبير قال عذب الله امة كانوا يعبثون بمذاكيرهم قلت وفى الباب حديث انس رض قال قال رسول الله – صلى الله عليه وسلم – ملعون من نكح يده رواه الأزدي فى الضعفاء وابن الجوزي من طريق الحسن بن عرفة فى جزئية المشهور بلفظ سبعة لا ينظر الله إليهم فذكر الناكح يده ۔
تفسير ابن كثير (5/ 404) ۔ وقد استدل الإمام الشافعي رحمه الله ومن وافقه على تحريم الاستمناء باليد بهذه الآية الكريمة والذين هم لفروجهم حافظون إلا على أزواجهم أو ما ملكت أيمانهم قال: فهذا الصنيع خارج عن هذين القسمين، وقد قال الله تعالى: فمن ابتغى وراء ذلك فأولئك هم العادون ۔
زکاوت ِ حس و مشت زنی آخر ہیں کیا ؟
آجکل جسے دیکھو زکاوتِ حس کا شکار نظر آتا ہے ۔ کسی بھی طبی پینل میں دیکھیں، سب سے زیادہ پوسٹیں زکاوتِ حس۔جریان ۔ احتلام ۔ سرعت انزال اور مردانہ کمزوری سے متعلق نظر آئیں گی ۔ آخر ، یہ زکاوت ِ حس ھے کیا بیماری، اسکے اسباب کیا ھیں، علاج کیا ہے ؟ دوستو ! الله کریم نے جسم ِانسانی جہاں پانچ مخصوص قسم کی حسیں رکھی ھیں (حواسِ خمسہ) ، وہیں پر کچھ اور حسیں بھی رکھ دی گئی ہیں ۔ جو کہ موقع مناسبت سے اپنا فرض نبھاتی ہیں ۔
حواس خمسہ سے ہمیں جسم کی دفاعی ضروریات اور دیگر ایسے عوامل جو کہ ھمارے لیئے باعث شر ھو سکتے ھیں،کی بر وقت اطلاع ملتی ھے، یہ وہ حسیں ھیں جن ميں سے اگر کسی کے فعل اگر خرابی واقع ھو جائے تو اسان پریشان ھو جاتا ھے۔اپنے آپکو بیمار تصور کرنے لگتا ھے۔
جس طرح انسان چاھتا ھے کہ اس کی ان حسوں میں کوئ خرابی پیدا نہ ھو اور ان کی حفاظت کرتا ھے مگر افسوس کہ جو حس اسکی زندگی کی ضامن ھے اسکو برباد کرنے میں کوئ عار محسوس نہیں کرتا اور اس کو ھوش اس وقت آتا ھے جب پانی سر سے بلند ھو جاتا ھے۔پھر حیکموں کے در کے چکر لگاتے نہیں تھکتا اور طبیب اسے لُوٹتے نہیں تھکتے۔
آیئے، جائزہ لیتے ھیں کہ یہ بیماری کیا ھے، کیسے شروع ھوتی ھے اس سے بچنے کا طریقہ اور علاج کیا ھے!
محترم قارئین : یاد رکھیں، ھر چیز کا نقطئہ ِ آغاز اور انجام ھوتا ھے۔اور اس نامراد بیماری کا بھی ایک نقطہء آغاز ھے، جسے عرفِ عام میں" مُشت زنی۔ھتھ رس۔خود لزتی۔مُٹھ مارنا ۔ استمنابالید " وغیرہ کے نام دئیے جاتے ھیں ۔
آدم کی جنسی تسکین کے لیئے، الله پاک نے، عورت کو خلق کیا۔
عورت کو خلق کرنے کی آخر وجہ کیا تھی۔ جبکہ عورت کے بغیر بھی تو کام چل سکتا تھا؟
مختصراً، اسکے دو مقاصد سمجھ لیں،
ایک تو یہ کہ اس سے مقصود نسل ِ انسانی کی میں اضافہ،
دوسرا، مرد کی جنسی تسکین، مردانگی، جُرات، بہادری، شجاعت کی بقاء اور آگے آنے والی نسل میں منتقلی ۔
اللہُ بصیر نے، عورت کے خدوخال، چال ڈھال اور آواز میں وہ شیرینی اور جمال رکھ دیا ھے کہ مرد( صحتمند) اسکی جانب کچھا چلا جاتا ھے۔اور جب دوسری جانب سے بھی نظر ِ التفات ملتی ھے تو تو مرد اور عورت، دونوں کی جنسی حسیں متحرک ھو جاتی ھیں۔۔۔
مرد کے دماغ سے فوراً اشارے (سگنل) آنا شروع ھو جاتے ھیں، ساتھ ھی آلہء مجہول کی طرف دوران ِ خون کی روانی بڑھ جاتی ھے اور طبیعت جماع کی طرف مائل ھو جاتی ھے۔
طبعیت ، مرد کی پیشاب کی نالی کو تر کرنے کے کے لیئے، غدہ قدامیہ میں رطوبت پیدا کرکے نالی کو تر کر دیتی ھے، تا کہ دوران ِ انزال، مرد کی منی تیزی سے اس رطوبت پر پھسلتی ھوئ عورت کے رحم میں داخل ھو جائے، دوسرا یہ کہ منی کی تیز رفتاری کے باعث نالی میں کوئ خراش نہ پڑ جائے۔ یہی وجہ ھے کہ انزال کے وقت مرد کی منی اچھل اچھل کر نکلتی ھے تاکہ وہ چھلانگیں لگاتی ھوئی رحم میں داخل ھو جائے ۔ جو کہ مرد کی لزت کا باعث بنتی ھے۔
مرد کی منی اچھل کر کیوں نکلتی ھے، یہ ایک الگ موضوع ھے۔
( یہاں پر یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ، ایک غلط خیال آجکل نوجوانوں کے زھن میں پختہ ھو گیا ھے کہ مرد کا آلہء تناسل جتنا لمبا ھوگا عورت کے لیئے باعث لزت ھو گا۔
یہ خیال بلکل غلط اور لغو ھے، اسکا حقیقت سے دور دور تک کوئ تعلق واسطہ نہیں ۔۔
دراصل، قدرت نے پہلے ھی انسان کو احسنِ تقویم پیدا فرمایا ھے۔یہ الگ بات ھے ھم ان رموز کو اپنی کم علمی کیوجہ سے صحیح طور سمجھ نہیں پائے۔دوسری بات یہ کہ جب ایک کامل اور تندرست شخص، عورت سے ملاپ کرتا ھے، تو عورت کی بچہ دانی فرط ِجذبات میں خود بخود مرد کی کے تناسل کی طرف آگے آ کر اس سے مل جاتی ھے، اھلِ فن اس عمل کی حقیقت سے بخوبی واقف ھیں۔ایسے کہاں گیا آلہ کےلمبے ھونے کا تصور؟ بات دراصل یہ ھے کہ ڈرائیور اگر مشاق ھوگا تو وہ ھر قسم کی گاڑی کو اچھی طریقے سے چلا سکتا ھے، لیکن اگر، گاڑی چاھے نئی BMW ھی کیوں نہ ھو، ایک اناڑی ڈرائیور اس کو صحیح طور پر چلا نہیں پائے گا۔اور انہی نادان کھلاڑیوں کے لیئے طب ِ قدیم کے حکماء نے ملززات بنائے جنکو اب اصل مقصد سے ھٹ کر تفریح طبع کے لیے استعمال کیا جاتا ھے ۔ ہر قسم ک زنانہ مردانہ امراض اور علاج کےلیے ہمارے ان نمبرز پر رابطہ فرمائیں : 0321،03085555970 ۔03037555506 ۔03458018584 ۔ اور مجرب تیار شدہ نسخہ جات گھر بیٹھے منگوائیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment