Saturday, 4 December 2021

امام کے پیچھے قرأت کرنا منع ہے حصہ اوّل

 امام کے پیچھے قرأت کرنا منع ہے حصہ اوّل

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

محترم قارئینِ کرام : قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلسنّت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ ہم نماز میں امام کے پیچھے سورہ فاتحہ نہیں پڑھتے کیونکہ امام کی قرأت ہی مقتدی کی قرأت ہوتی ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنی مقدس کتاب ’’قرآن عظیم‘‘ جس کی صرف ایک آیت کا انکار مسلمان کو کافر بنانے کےلیے کافی ہے ، میں ارشاد فرماتا ہے : وَ اِذَا قُرِیَِ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ ۔

ترجمہ : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو ۔ (سورہ اَلْاَعْرَاف، آیت:204)


اس آیت مبارکہ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ ابن کثیر اپنی تفسیر ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں رقم پرداز ہیں:وقال أبو حنیفۃ وأحمد بن حنبل: لا یجب علی المأموم قراء ۃ أصلاً فی السریۃ ولا الجہریۃ بما ورد فی الحدیث: (من کان لہ إمام فقرائتہ قرائۃ لہ) ”ہذا الحدیث رواہ أحمد عن جابر مرفوعاً وہو فی الموطأ عن جابر موقوفاً قال ابن کثیر: وہذا أصح۔

ترجمہ : امام ابو حنیفہ اور امام احمد ابن حنبل رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ مقتدی پر قرأت بالکل واجب نہیں، نہ سری نمازوں میں اور نہ جہری نمازوں میں، کیونکہ حدیث میں آتا ہے : ’’جس کا امام ہو اس کی قرأت ہی اس(مقتدی) کی قرأت ہے۔‘‘یہ حدیث مسند احمد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً اور موطا امام مالک میں موقوفاً مروی ہے (عل؛علامہ ابن کثیر لکھتے)اور یہی مذہب زیادہ صحیح ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر، ج2، ص485)


حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایاکہ امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے تو جب امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم چپ رہو ۔(نسائی ج ١ص١٤٦ ، ابن ماجہ ص٦١، مشکوٰۃ ص٨١)

حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ''جس شخص کا امام ہو تو امام کی قرأت (ہی) مقتدی کی قرأت ہے ۔ (ابن ماجہ ص٦١،مصنف ابن شیبہ ج١ص٤١٤)

حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ''جو شخص امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قرأت اسے کافی ہے ''۔ (موطا امام مالک ص٦٨،چشتی)

حضرت سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس نے رکعت پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو اس کی نماز نہ ہوئی مگر امام کے پیچھے ہو تو (بغیر فاتحہ) ہو جائے گی ۔ (موطا امام مالک ، ترمذی ، طحاوی)


حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ یَحْیَی، وَیَحْیَی بْنُ أَیُّوبَ، وَقُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، وَابْنُ حُجْرٍ – قَالَ یَحْیَی بْنُ یَحْیَی: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: – حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ وَہُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ یَزِیدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ، عَنِ ابْنِ قُسَیْطٍ، عَنْ عَطَاء بْنِ یَسَارٍ، أَنَّہُ أَخْبَرَہُ أَنَّہُ سَأَلَ زَیْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنِ الْقِرَاء ۃِ مَعَ الْإِمَامِ، فَقَالَ: لَا، قِرَاء ۃَ مَعَ الْإِمَامِ فِی شَیْء ٍ۔

ترجمہ : حضرت عطا بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے امام کے ساتھ قرأت کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ امام کی اقتدا میں کوئی قرأت نہیں۔(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:سُجُوْدِ التِّلَاوَت، ص454، حدیث:1199)


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ الْمِصِّیصِیُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِی صَالِحٍ، عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّمَا جُعِلَ الْإِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہِ بِہَذَا الْخَبَرِ زَادَ وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا۔

ترجمہ :ح ضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ امام اسی لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ لہٰذا جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔(سنن ابن ماجہ، ج1کتاب اقامۃ الصلوٰۃ، باب :اِذَا قَرَأَ الْاِمَامُ فَاَنْصِتُوْ، ص255، حدیث:892)(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:الْإِمَامِ یُصَلِّی مِنْ قُعُودٍ، ص263، حدیث:600)


فَقَالَ لَہُ أَبُو بَکْرٍ: فَحَدِیثُ أَبِی ہُرَیْرَۃَ؟ فَقَالَ: ہُوَ صَحِیحٌ یَعْنِی وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا فَقَالَ: ہُوَ عِنْدِی صَحِیحٌ فَقَالَ: لِمَ لَمْ تَضَعْہُ ہَا ہُنَا؟ قَالَ: لَیْسَ کُلُّ شَیْء ٍ عِنْدِی صَحِیحٌ وَضَعْتُہُ ہَا ہُنَا۔

ترجمہ : ابو بکر (نامی محدث) نے حضرت امام مسلم رحمۃُاللہ علیہ سے پوچھا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی {حدیث 27} کے بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟ تو امام مسلم رحمۃُاللہ علیہ نے فرمایا:وہ روایت صحیح ہے یعنی جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔ یہ روایت میرے نزدیک بھی صحیح ہے۔ ابو بکر نے سوال کیا تو آپ نے اس روایت کو اپنی کتاب میں درج کیوں نہیں کیا؟ تو امام مسلم نے فرمایا :ایسا نہیں کہ جس حدیث کو میں صحیح سمجھتا ہوں اسے لازمی طور پر اس کتاب میں نقل کروں۔(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:التَّشہُّدِ فِی الصَّلَاۃِ، ص338-39 حدیث:809،چشتی)


حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَۃُ، عَنْ قَتَادَۃَ، قَالَ: سَمِعْتُ زُرَارَۃَ بْنَ أَوْفَی، یُحَدِّثُ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ، أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَّی الظُّہْرَ، فَجَعَلَ رَجُلٌ یَقْرَأُ خَلْفَہُ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی، فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ: أَیُّکُمْ قَرَأَ – أَوْ أَیُّکُمُ الْقَارِئُ – فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا، فَقَالَ: قَدْ ظَنَنْتُ أَنَّ بَعْضَکُمْ خَالَجَنِیہَا۔

ترجمہ : حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ظہر کی نماز پڑھا رہے تھے کہ مقتدیوں میں سے کسی نے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلیٰ کی قرأت شروع کی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کون قرأت کر رہا تھا؟ ایک صاحب نے عرض کی :میں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا میں نے یوں محسوس کیا کہ تم میری قرأت میں خلل پیدا کر رہے ہو۔(صحیح مسلم، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:نَہْیِ الْمَأْمُومِ عَنْ جَہْرِہِ بِالْقِرَاء ۃِ خَلْفَ إِمَامِہِ، ص332، حدیث:792)

اس حدیث پاک میں ظہر کی نماز کا ذکر ہے جو سری پڑھی جاتی ہے لہٰذا نماز جہری ہو یا سری مقتدی قرأت نہیں کر سکتا۔


حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ عَبْدِ اللَّہِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّہْرِیُّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لاَ صَلاَۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ۔

ترجمہ : حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :اس کی نماز نہیں جس نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی۔(صحیح بخاری، ج1، کتاب الاذان، باب:وُجُوبِ القِرَاء ۃِ لِلْإِمَامِ وَالمَأْمُومِ، ص334، حدیث:717)


حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مُوسَی الأَنْصَارِیُّ قَالَ:حَدَّثَنَا مَعْنٌ قَالَ:حَدَّثَنَا مَالِکٌ، عَنْ أَبِی نُعَیْمٍ وَہْبِ بْنِ کَیْسَانَ، أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّہِ یَقُولُ:مَنْ صَلَّی رَکْعَۃً لَمْ یَقْرَأْ فِیہَا بِأُمِّ القُرْآنِ فَلَمْ یُصَلِّ، إِلَّا أَنْ یَکُونَ وَرَاء الإِمَامِ :ہَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ صَحِیحٌ۔

ترجمہ : حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ امام کے پیچھے نماز پڑھنے والوں کے علاوہ جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھیا س کی نماز مکمل نہیں۔(جامع ترمذی، ج1، ابو اب الصلوٰۃ، باب:مَا جَاء فِی تَرْکِ القِرَاء ۃِ خَلْفَ الإِمَامِ، ص217، حدیث:297)(موطا امام مالک، کتاب الصلوٰۃ، باب:مَاجَائَ فِیْ اُمِّ الْقُرْاَن، ص95، حدیث:38،چشتی)


حَدَّثَنَا قُتَیْبَۃُ بْنُ سَعِیدٍ، وَابْنُ السَّرْحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْیَانُ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِیعِ، عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ، یَبْلُغُ بِہِ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَصَاعِدًا، قَالَ سُفْیَانُ: لِمَنْ یُصَلِّی وَحْدَہُ۔

ترجمہ : حضرت عبادہ بن صامت رضٰ اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس بات کی تبلیغ فرماتے کہ جو سورۃ فاتحہ یا اس سے زائد نہ پڑھے اس کی نماز مکمل نہیں۔ حضرت امام سفیان ثوری رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا یعنی جو منفرد نماز پڑھ رہا ہو۔(سنن ابو داؤد، ج1، کتاب الصلوٰۃ، باب:مَنْ تَرَکَ الْقِرَاء ۃَ فِی صَلَاتِہِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، ص324-25، حدیث:813)


اَخْبَرْنَامُحَمَّدُ بْنُ اَبَانَ بْنِ صَالِحٍ الْقُرَشِیُّ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ الْنَخْعِیْ عَنْ عَلْقَمَۃَ بْنِ قَیْسٍ اَنَّ عَبْدَ اللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ کَانَ لَا یَقْرَأُ خَلْفَ الْاِمَامِ فِیْمَا یَجْھَرُ فِیْہِ وَ فِیْمَا یُخَافَتُ فِیْہِ فِیْ الْاُوْلَیَیْنِ وَلَا فِی الْاُخْرَیَیْنِ وَاِذَا صَلّیٰ وَحْدَہٗ قَرَأَ فِی الْاُوْلَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسُوْرَۃٍ وَ لَمْ یَقْرَأْ فِی الْاُخْرَیَیْنِ شَیْئًا۔

ترجمہ : علقمہ بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ امام کے پیچھے قرأت نہیں کرتے نہ جہری میں، نہ سری میں، نہ پہلی دو رکعتوں میں نہ آخری دو رکعتوں میں۔ اور جب تنہا نماز پڑھتے تو( فرض کی) پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورۃ پڑھتے اور آخری دو رکعتوں میں کچھ نہیں پڑھتے۔(موطا امام محمد، کتاب الصلوٰۃ، باب:اَلْقِرَأَۃِ فِی الصَّلوٰۃِ خَلْفَ الْاِمَام، ص95-96، حدیث:121)


اب آخر میں علامہ ابن تیمیہ کا فتویٰ پیش کرنا کافی ہو گا علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں:ولہذا روی فی الحدیث مثل الذی یتکلم و الامام یخطب کمثل الحمار یحمل اسفارا فھٰکذا اذا کان یقرأ و الامام یقرأ علیہ۔

ترجمہ:حدیث پاک میں اس شخص کی مثال بیان کی گئی جو امام کے خطبہ دینے کے دوران کلام کرے اس کی مثال گدھے جیسی ہے جو بوجھ اٹھائے پھرتا ہے۔ ایسے ہی جو شخص قرأت کر رہا ہو جب امام قرأت کر رہا ہو ۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ، ج23، ص279)


کثیراحادیث طیبہ میں بھی اس بات کا بیان ملتاہے کہ امام کے پیچھے کسی طرح کی قراء ت نہ کی جائے کچھ احادیثِ مبارکہ حصّہ اوّل میں پڑھ چکے ہیں مزید پیش خدمت ہیں کہیں کہیں حدیث مکرر بھی آئے گی جو کہ ضرورتے کے تحت ہے :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثناابن ابی داود قال حدثناالحسین بن عبدالاول الاحول قال حدثناابوخالدبن سلیمان بن حیان قال حدثناابن عجلان عن زیدبن اسلم عن ابی صالح عن ابی ھریرۃرضی اللہ تعالی عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انماجعل الامام لیؤتم بہ فاذاقرء فانصتوا ۔

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی ابویہ وآلہ وصحبہ وبارک وکرم وسلم نے فرمایاکہ امام تواسی لیے مقررکیاگیاہے کہ تم اس کی اقتداء کروپس جب وہ قراء ت کرے توتم خاموش رہو ۔ اس حدیث کوامام نسائی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۲۱۹،۳۱۹)اورالسنن الکبری میں (جلد۱ص۰۲۳)اورامام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۷۳۸)امام احمدبن حنبل نے اپنی مسندمیں (حدیث نمبر۴۳۵۸،۹۶۰۹) امام ابن ابی شیبۃنے اپنی مصنف میں (جلد۱ص۴۱۴، جلد۲ص۴۲۲، جلد۸ص۸۷۳) امام بیہقی نے السنن الکبری میں (جلد۲ص۶۵۱)امام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۷۵۲۱،۸۵۲۱،۹۵۲۱، ۰۶۲۱)اورامام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں (جلد۱ص۲۷۳پر)روایت فرمایا)

حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثنااحمدبن عبدالرحمن حدثناعمی عبداللہ بن وھب قال اخبرنی اللیث عن یعقوب عن النعمان عن موسی بن ابی عائشۃعن عبداللہ بن شدادعن جابربن عبداللہ ان النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال من کان لہ امام فقراء ۃ الامام لہ قراء ۃ ۔

ترجمہ : کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس کے لیے امام ہو(یعنی جوامام کی اقتداء میں نمازاداکررہاہو)توامام کی قراء ت اس کی قراء ت ہے یعنی وہ الگ سے قراء ت نہ کرے ۔ اس حدیث کوامام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں (جلد۱ص۲۷۳پر)امام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۶۴۲۱،۷۴۲۱ ،۹۴۲۱ ،۰۵۲۱ ،۷۶۲۱، ۸۶۲۱، ۹۶۲۱) امام ابن ابی شیبۃنے اپنی مصنف میں (جلد۱ص۴۱۴ روایت فرمایا)

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہ سے بھی یہ حدیث مروی ہے یعنی نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس کے لیے امام ہو(یعنی جوامام کی اقتداء میں نمازاداکررہاہو)توامام کی قراء ت اس کی قراء ت ہے یعنی وہ الگ سے قراء ت نہ کرے ۔ اس حدیث کوامام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح معانی الآثارمیں (جلد۱ص۳۷۳پر ،امام دارقطنی نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۱۵۲۱ روایت فرمایا)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے بھی یہ حدیث مروی ہے یعنی نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس کے لیے امام ہو(یعنی جوامام کی اقتداء میں نمازاداکررہاہو)توامام کی قراء ت اس کی قراء ت ہے یعنی وہ الگ سے قراء ت نہ کرے ۔ اس حدیث کوامام دارقطنی نے اپنی سنن میں حدیث نمبر۹۷۲۱ روایت فرمایا،چشتی)

جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے ایک دوسری حدیث بھی مروی ہے : حدثنا بحربن نصرحدثنایحیی بن سلام قال حدثنامالک عن وھب بن کیسان عن جابر بن عبداللہ عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انہ قال من صلی رکعۃفلم یقرء فیھابام القرآن فلم یصل الاوراء الامام ۔

ترجمہ : وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایاجس نے کوئی رکعت نمازاداکی تواس میں ام الکتاب یعنی سورہ فاتحہ کی تلاوت نہ کی تواس نے نمازنہ پڑھی سوائے اس کے کہ امام کے پیچھے ہویعنی اب اسے سورہئ فاتحہ پڑھنے کی حاجت نہیں ۔ اس حدیث کوامام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں (جلد۱ص۳۷۳پر)امام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۴۵۲۱)امام ابن عدی نے الکامل میں (جلد۷ ص۳۵۲)روایت فرمایا)

حضرت انس بن مالک سے مروی ہے کہ : حدثنااحمدبن داودقال حدثنایوسف بن عدی قال حدثناعبیداللہ بن عمروعن ایوب عن ابی قلابۃعن انس رضی اللہ عنہ قال صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم اقبل بوجھہ فقال اتقرء ون والامام یقرء فقالواانالنفعل قال فلاتفعلوا ۔

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نمازادافرمائی پس اپنا رخ انور صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف پھیر کر فرمایا : کیا امام کے قراء ت کرتے وقت تم بھی قراء ت کرتے ہو ؟ پس صحابہ رضی اللہ عنہم خاموش ہوگئے ۔ تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ان سے تین با رسوال فرمایا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی ”جی ہاں ہم ایساکرتے ہیں“ تورسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : ایسامت کیاکرو۔یعنی امام کے پیچھے قراء ت نہ کیاکرو ۔ اس حدیث کوامام طحاوی نے شرح معانی الآثارمیں جلد۱ص۳۷۳ پر روایت فرمایا)

حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثنایوسف بن موسی القطان حدثناجریرعن سلیمان التیمی عن قتادۃعن ابی غلاب عن حطان بن عبداللہ الرقاشی عن ابی موسی الاشعری قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اذاقراء الامام فانصتوا ۔

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایاجب امام قراء ت کرے توتم خاموش رہو ۔ اس حدیث کوامام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۸۳۸)امام احمدبن حنبل نے اپنی مسندمیں (حدیث نمبر۱۹۸۸۱)امام بیہقی نے السنن الکبری میں (جلد۲ ص۶۵۱)امام ابوعوانۃنے اپنی مستخرج میں (حدیث نمبر۹۳۳۱ ،۰۴۳۱ ،۱۴۳۱) امام ابویعلی موصلی نے اپنی مسندمیں (حدیث نمبر۴۶۱۷) اورامام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۳۶۲۱،۴۶۲۱)روایت فرمایا،چشتی)

جناب عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثنااحمدبن نصربن سندویہ حدثنایوسف بن موسی حدثناسلمۃبن الفضل حدثناالحجاج ابن ارطاۃ عن قتادۃعن زرارۃبن اوفی عن عمران بن حصین قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی بالناس ورجل یقرء خلفہ فلمافرغ قال من ذاالذی یخالجنی سورتی فنھاھم عن القراء ۃخلف الامام ۔

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ نمازادافرمارہے تھے اورایک شخص آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پیچھے قراء ت کررہاتھا ۔ پس جب آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نمازسے فارغ ہوئے توفرمایا : کونسا شخص میری سورۃ میں مجھ سے جھگڑا کرتا ہے ؟ پس آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے صحابہ کوامام کے پیچھے قراء ت کرنے سے منع فرمادیا ۔ اس حدیث کوامام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۳۵۲۱)روایت کیا)

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ : حدثنا محمد بن مخلد حدثنا علی بن حرب واحمدبن یوسف التغلبی ومحمدبن غالب وجماعۃقالواحدثناغسان ح وقریئ علی ابی محمدبن صاعد وانااسمع حدثکم علی بن حرب واحمدبن یوسف قالاحدثناغسان بن الربیع عن قیس بن الربیع عن محمدبن سالم عن الشعبی عن الحارث عن علی قال قال رجل للنبی صلی اللہ علیہ وسلم اقرء خلف الامام اوانصت قال بل انصت فانہ یکفیک ۔

ترجمہ : ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی : میں امام کے پیچھے قراء ت کروں یا خاموش رہوں ؟ تونبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : بلکہ توخاموش رہ!کیونکہ امام تیرے لیے کافی ہے ۔ اس حدیث کوامام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۲۶۲۱)روایت کیا)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ : حدثنا محمد بن مخلد حدثنا علی بن زکریا التمارحدثناابوموسی الانصاری حدثناعاصم بن عبدالعزیزعن ابی سھیل عن عون عن ابن عباس عن النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم قال یکفیک قراء ۃالامام خافت اوجھر۔

ترجمہ : آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : امام کی قراء ت تیرے لیے کافی ہے۔چاہے امام پست آوازسے قراء ت کرے یابلندآوازسے ۔ اس حدیث کوامام دارقطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۶۶۲۱،۱۸۲۱) روایت فرمایا)

جناب شعبی سے مروی ہے کہ : حدثنامحمدبن مخلد حدثنا محمد بن اسماعیل الحسانی حدثناعلی بن عاصم عن محمد بن سالم عن الشعبی قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم لاقراء ۃ خلف الامام ۔

ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وعلی ابویہ وآلہ وصحبہ واولادہ وازواجہ وبارک وکرم وسلم نے فرمایا : امام کے پیچھے کسی طرح کی قراءت جائز نہیں ہے ۔ اس حدیث کو امام دار قطنی نے اپنی سنن میں (حدیث نمبر۱۶۲۱ روایت کیا)


ان احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ امام کے پیچھے کسی طرح کی قراء ت نہیں کرنی چاہیئے ۔ اس کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعود،حضرت علی،حضرت زیدبن ثابت،حضرت عمرفاروق،حضرت عبداللہ بن عمر،حضرت جابر،حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہم کئی ایک صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سے امام کے پیچھے قراءت کی ممانعت مروی ہے ۔


قرآن و احادیث مبارکہ سے یہ ثابت ہوا کہ جب مقتدی امام کے پیچھے نماز ادا کرے تو کسی نماز کی کسی رکعت میں مقتدی نے سورۃ فاتحہ (الحمد شریف) نہیں پڑھنی بلکہ خاموش کھڑے رہنا ہے ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...