Wednesday, 8 December 2021

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل حصہ یازدہم

 مسئلہ رفع یدین مستند دلائل حصہ یازدہم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ترک رفع یدین کا تحقیقی جائزہ ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی نماز میں ابتداءً رفع یدین کرتے پھر پوری نماز میں کسی مقام پر رفع یدین نہ فرماتے ۔ محدث ابن ابی شیبہ رحمة اللہ علیہ روایت نقل فرماتے ہیں : حدثنا وکیع ، عن ابی بکر بن عبد اللہ بن قطاف النہشلی ، عن عاصم بن کلیب ، عن ابیہ ان علیاً کان یرفع یدیہ اذا افتتح الصلاۃ ثم لا یعود ۔

ترجمہ : سیدنا عاصم بن کلیب اپنے والد کلیب بن شہاب سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نماز میں پہلی تکبیر کے ساتھ رفع یدین کیا کرتے تھے پھر اس کے بعد رفع یدین نہیں کرتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ حدیث 2457 )(الاوسط لابن المنذر حدیث 1343 ، سند الگ ہے)(شرح معانی الآثار حدیث 1252 ، دو سندوں سے نقل کی ہے)(مؤطا امام محمد حدیث 105)(النفع الشذی شرح الترمذی 4/398،چشتی)(البدر المنیر 3/484)(تخریج احادیث الاحیاء للعراقی 1/349)(فتح الباری لابن رجب 6/331)(اتحاف المہرہ 11/599)


اس حدیثِ مبارکہ کے راوی


امام ابن ابی شیبہ رحمة اللہ علیہ نے جس سند سے اس روایت کو نقل کیا ہے اس کی سند میں موجود راویوں کا حال ملاحظہ کیجیے :


پہلا راوی :  وکیع بن الجراح


امام عجلی نے کہا ثقہ عابد ہے ۔ (معرفۃ الثقات رقم 1938)


امام احمد نے کہا مطبوع الحفظ ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 168)


یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 168)


علامہ ذھبی نے حافظ الثبت محدث کہا ہے ۔  (تذکرۃ الحفاظ 1/223)


ابن حجر نے ثقہ حافظ کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 7414)

الخزرمی نے الحافظ کہا ہے ۔ (خلاصہ تذھیب تہذیب الکمال 1/415)


الکلاباذی نے فی رجال البخاری میں شمار کیا ہے ۔ (رجال البخاری الرقم 1288،چشتی)


ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 1767)


ابن حبان نے من الحفاظ المتقین کہا ہے ۔ (مشاھیر علماء الامصار 1/272)


ابراہیم بن شماس نے احفظ الناس کہا ہے ۔ (شرح علل الترمذی 1/170)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسرا راوی : ابی بکر بن عبد اللہ بن قطاف النہشلی 


یحیی بن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (تاریخ ابن معین 1/47)


امام احمد نے ثقہ کہا ہے ۔ (العلل و المعرفۃ الرقم 4371)


امام ذہبی نے ثقہ کہا ہے ۔ (الکاشف الرقم 6548)


امام ابوداؤد نے ثقہ کہا ہے ۔ (تہذیب التہذیب الرقم 8329)


امام عجلی نے ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 2102)


ابن حجر نے صدوق کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 8001)


ابن العماد نے صدوق کہا ہے ۔ (شذرات الذھب 1/252)


ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 1961)


ابن مھدی نے ثقات مشیخۃ الکوفۃ کہا ہے ۔ (تہذیب التہذیب الرقم 8329)


امام ابوحاتم نے شیخ صالح کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1536،چشتی)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تیسرا راوی : عاصم بن کلیب


امام عجلی نے ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 815)


ابن شاہین نے ثقہ کہا ہے ۔ (تاریخ اسماء الثقات الرقم 833)


حافظ ذہبی نے ثقہ کہا ہے ۔ (ذکر من تکلم الرقم 170)


ابن معین نے ثقہ کہا ہے ۔ (من کلام ابی زکریا الرقم 63)


ابوحاتم نے صالح کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1929)


احمد بن حجر نے صدوق کہا ہے ۔ (تقریب التہذیب الرقم 3705)


احمد بن صالح نے من الثقات لکھا ہے ۔ (تاریخ اسماء الثقات الرقم 833)


ابن منجویہ نے رجال مسلم میں شمار کیا ہے ۔ (رجال مسلم الرقم 170)


ابن حبان نے متقنی الکوفیین کہا ہے ۔ (مشاہیر علماء الامصار الرقم 1305)


امام احمد نے لا باس بہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 1929)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چوتھا راوی : کلیب بن شہاب


امام ابوزرعہ نے ثقہ کہا ہے ۔ (الجرح و التعدیل الرقم 946)


 ابن سعد نے ثقہ کہا ہے ۔ (الطبقات الکبری 6/123)


امام عجلی نے تابعی ثقہ کہا ہے ۔ (معرفۃ الثقات الرقم 1555،چشتی)


ابن حجر نے صدوق لکھا ہے ۔ ( تقریب التہذیب الرقم 5660)


ابن حبان نے کتاب الثقات میں رکھا ہے ۔ (الثقات الرقم 5111)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پانچویں راوی : خلیفۃ الراشد حضرت سیدنا و مولانا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ تعالی عنہ جلیل القدر صحابی رسول امیر المؤمنین ہیں ۔


درج بالا تحقیق سے معلوم ہوا کہ اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں لہٰذا اس کی سند بالکل صحیح اور بے غبار ہے اور اس پر کسی قسم کا اعتراض باطل و مردود ہے اس حدیث کی دیگر اسناد بھی کتب احادیث میں موجود ہیں جن کے حوالہ جات ابتداء پیش کیے جا چکے ہیں ۔


ائمہ محدثین علیہم الرّحمہ سے بھی حدیث مذکورہ کی تصحیح پیش خدمت ہے:


امام ابوجعفر الطحاوی فرماتے ہیں فحدیث علی اذا صح ۔ (شرح معانی الآثار 1/155)


امام ابن ترکمانی نے کہا رجالہ ثقات ۔ (الجواہر الننقی علی سنن البیہقی 2/78،چشتی)


امام ابن دقیق العید الشافعی مائل بہ تصحیح ہیں ۔ (نصب الرایہ 1/413)


حافظ الحدیث علامہ عینی نے کہا صحیح علی شرط مسلم ۔ (عمدۃ القاری فی شرح البخاری 5/273،چشتی)


دوسری کتاب میں فرمایا ھو اثر صحیح و صحیح علی شرط مسلم ۔ (شرح سنن ابی داؤد 3/301)


محدث مغلطائی مائل بہ تصحیح ہیں ۔ (شرح ابن ماجہ 1/1473)


محقق الحدیث علامہ زیلعی نے کہا وھو اثر صحیح ۔ (نصب الرایہ 1/406)


محدث شافعیہ حافظ الحدیث ابن حجر عسقلانی نے بھی کہا ھے رجالہ ثقات ۔ (الدرایہ 1/152،چشتی)


حافظ الحدیث امام دارقطنی محدث شافعیہ نے بھی کہا ہے موقوفا صواب ۔ (العلل الدارقطنی 4/106)


مفتی حرم محدث حنفیہ ملا علی قاری مائل بہ تصحیح ۔ (الاسرار المرفوعہ 1/494)


محدث قاسم بن قطلوبغا نے کہا سندہ ثقات ۔ (التعریف و الاخبار 309)


محدث نیموی نے کہا اسنادہ صحیح ۔ (آثار السنن)


ترکِ رفع پر غیر مقلدین کے گھر کی گواہیاں مدعی لاکھ پہ بھاری گواہی تیری


غیرمقلدین جو ہر وقت یہ شور مچاتے ہیں کہ جو رفع یدین نہ کرے اس کی نماز نہیں ہوتی آیے دیکھتے ہیں کہ ان کے بڑے اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔


شیخ الکل غیرمقلدین جناب نذیر حسین صاحب دہلوی اپنے فتاویٰ نذیریہ میں لکھتے ہیں : رفع یدین میں جھگڑاکرنا تعصب اور جہالت کی بات ہے ، کیونکہ آنحضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے دونوں ثابت ہیں ، دلایل دونوں طرف ہیں ۔ (فتاویٰ نذیریہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 441)​


شیخ الاسلام غیرمقلدین جناب ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں : ہمارا مذہب ہے کہ رفع یدین کرنا مستحب امر ہے جس کے کرنے سے ثواب ملتا ہے اور نہ کرنے سے نماز میں کوئی خلل نہیں ہوتا ۔ (فتاوی ثنائیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 579) ۔ اسی کتاب میں نزید لکھتے ہیں کہ ترک رفع ترک ثواب ہے ترک فعل سنت نہیں ۔ (فتاوی ثنائیہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 608​)


مجدد غیرمقلدین جناب نواب صدیق حسن خان صاحب بھوپالی ، ان کی کتاب روضۃ الندیۃ غیرمقلدین کے یہاں بڑی معتبر کتاب ہے ، نواب صاحب اس کتاب میں حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہوے لکھتے ہیں : رفع یدین و عدم رفع یدین نماز کے ان افعال میں سے ہے جن کو آنحضور صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے کبھی کیا ہے اور کبھی نہیں کیا ہے ، اور سب سنت ہے ، دونوں بات کی دلیل ہے ، حق میرے نزدیک یہ ہے کہ دونوں سنت ہیں ۔ (روضۃ الندیۃ  صفحہ  نمبر148،چشتی)

اور اسی کتاب میں اسماعیل دہلوی کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں : ولا یلام تارکہ و ان ترکہ مد عمرہ ۔ (صفحہ نمبر 150) ۔ یعنی رفع یدین کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جاے گی اگرچہ پوری زندگی وہ رفع یدین نہ کرے ۔


غیر مقلدین کے بڑے اکابر بزرگوں کی ان باتوں سے پتا چلا کہ ان لوگوں کے نزدیک رفع یدین کرنا وار نہ کرنا دونوں نبی کریم کریم صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے ثابت ہیں اور دونوں سنت ہیں ، اب سچے اہلحدیث ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ یہ حضرات دونوں سنتوں پر عامل ہوتے مگر ان کا عمل یہ ہے کہ ایک سنت پر تو اصرار ہے اور دوسری سنت سے انکار ہے ، بلکہ دوسری سنت پر جو عمل کرتا ہے اس کو برا بھلا کہا جاتا ہے ، سنت پر عمل کرنے والوں کو برا بھلا کہنا کتنی بڑی گمراہی ہے ، آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کسی حنفی نے رفع یدین کرنے والوں کو اس کے رفع یدین کرنے پر برا بھلا کہا ہو ۔


دعاء قنوت میں رفع یدین کرنا


دعاء قنوت میں رفع یدین کرنا صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے چنانچہ اسود سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ دعائے قنوت میں سینہ تک اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے تھے اور ابوعثمان نہدی سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ صبح کی نماز میں ہمارے ساتھ دعاء قنوت پڑھتے اور اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے یہاں تک کہ آپ کے دونوں بازو ظاہر ہو جاتے اور خلاص سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ نماز فجر کی دعاء قنوت میں اپنے بازو آسمان کی طرف لمبے کرتے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ماہِ رمضان میںدعاء قنوت کے وقت اپنے دونوں ہاتھ اُٹھاتے اور ابو قلابہ اور مکحول بھی رمضان شریف کے قنوت میں اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے اورابراہیم سے قنوت وتر سے مروی ہے کہ وہ قرأۃ سے فارغ ہو کر تکبیر کہتے اور ہاتھ اٹھاتے پھر دعائے قنوت پڑھتے پھر تکبیر کہہ کر رکوع کرتے اور روایت ہے وکیع سے وہ روایت کرتا ہے محل سے وہ ابراہیم سے کہ ابراہیم نے محل کو کہا کہ قنوت وتر میں یوں کہا کرو اور وکیع نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں کے قریب تک اٹھا کربتلایا اور کہا کہ پھر چھوڑ دیوے ہاتھ اپنے عمر بن عبدالعزیز نے نماز صبح میں دعاء قنوت کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اتھائے اور سفیان سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس بات کو دوست رکھتے تھے کہ وتر کی تیسری رکعت میں قل ھو اللہ احد پڑھ کر پھر تکبیر کہے اور دونوں ہاتھ اٹھائے پھر دعائے قنوت پڑھے امام احمد رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ قنوت میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے کہا ہاں مجھے یہ پسند آتا ہے ۔ ابوداؤد نے کہا کہ میں نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اسی طرح شیخ احمد بن علی المقریزی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مختصر قیام اللیل میں ہے اور حضرت ابو مسعود ، ابوہریرہ اور انس رضی اللہ عنہم  سے بھی ان قاریوں کے بارے میں جو معونہ کے کنوئیں میں شہید ہوئے قنوتِ وتر میں دونوں ہاتھوں کا اٹھانا مروی ہے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تحقیق میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ان لوگوں پر جنہوں نے قاریوں کو شہید کیا تھا ہاتھ اٹھا کر بد دعاء کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ ایسے ہی بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مسمیٰ معرفت میں ہے ۔ حررہ عبدالجبار العزنوی عفی عنہ ۔ (فتاویٰ غزنویہ ص 51)۔(فتاویٰ علمائے حدیث : جلد نمبر 4 صفحہ نمبر 283)۔(مزید حصّہ دوازدہم میں ان شاء اللہ)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...