حضرت غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی سوانح حیات پر لکھی جانے والی کتاب ’’بہجۃ الاسرار‘‘ میں آپ کی سوانح حیات اور خوابوں اور بشارات کا تذکرہ ہے جنہیں ان خصوصی مجالس میں جو کہ سینکڑوں، ہزاروں افراد پر مشتمل تھیں آپ نے اپنے اہل عقیدت و محبت اور اہل ارادت و نسبت افراد کے سامنے بیان کیا۔ آپ فرماتے ہیں کہ مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی، آپ نے ارشاد فرمایا : بیٹا عبدالقادر میری امت کو وعظ کیا کر اور انہیں اللہ کے دین کی طرف ہدایت کا راستہ بتایا کر، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عجمی ہوں ان عربی دانوں کے سامنے کیسے بولوں؟ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : منہ کھولو، میں نے منہ کھولا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات مرتبہ لعاب دہن میرے منہ میں ڈالا۔ سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ کے لعاب دہن کے منہ میں پڑنے کی دیر تھی کہ پھر میری زبان سے حقائق و معارف، اسرار و حکمتیں جاری ہو گئیں۔
امام ابوالحسن شاذلی رحمۃ اللہ علیہ نے کثرت کے ساتھ اپنی خوابوں اور روحانی مبشرات کا ذکر کیا ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان پر بے پایاں عنایت و شفقت تھی، اکثر انہیں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت و دیدار نصیب ہوتا۔
حضرت شیخ ابوالعباس مرسی رحمۃ اللہ علیہ کو چالیس سال سے اللہ تعالیٰ نے بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ مقام قرب عطا کیا ہے کہ ہر وقت نگاہ میں چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رہتا ہے، فرماتے ہیں اگر ایک لمحے کے لیے ہی چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری آنکھوں سے اوجھل ہو جائے تو وہ اس لمحے میں خود کو مسلمان تصور ہی نہیں کرتا۔ بارگاہ نبوت میں دائمی حضوری، جلوہ دیدار کا یہ عالم ہے کہ ہر وقت بیداری میں ہی دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو رہا ہے، چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظروں سے اوجھل ہی نہیں ہو رہا، گویا آج بعد از وصال بھی آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی زیارت جسے بھی کروانا چاہیں تو خواب تو درکنار عالم بیداری میں سفید دن کے اندر کرا سکتے ہیں۔ اگر اولیاء و صلحاء و اکابرین امت ان چیزوں کو بیان نہ کرتے تو آج امت کا یہ عقیدہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کبھی نہ ہوتا۔
عالم بیداری میں دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
امام شعرانی اپنی کتاب طبقات میں اور علامہ انور شاہ کشمیری دیوبندی فیض الباری میں ذکر کرتے ہیں، امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے خواب تو درکنار عالم بیداری میں ستر مرتبہ اپنی زندگی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار کیا اور جس کسی چیز کے سمجھنے میں مشکل و دشواری پیش آتی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہوتے۔
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضوری ہو جاتی، عرض کرتے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! فلاں مسئلے کی سمجھ نہیں آ رہی، دشواری پیش آ رہی ہے، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرم کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ’’جلال الدین ایسے کر لو‘‘ چنانچہ مشکل حل ہو جاتی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس طرح پتہ چلا کہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کو عالم بیداری میں دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوا اور علماء نے اپنی کتابوں میں اسے کیسے درج کر لیا۔ صاف ظاہر ہے انہوں نے اپنے ان احوال کو بیان کیا ہی ہے تو کتابوں اور سینوں کی زینت بنے ہیں۔
حضرت شیخ محمد ابو المواہب شاذلی رحمۃ اللہ علیہ پر ہمہ وقت بارگاہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضوری کی کیفیت طاری رہتی تھی، کثرت زیارت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوتی، شیخ ابوالمواہب نے نہ صرف اپنی خوابوں و بشارات کو بیان کیا ہے بلکہ خود کتابی صورت میں اپنی خوابوں کو مرتب بھی کیا ہے۔
حضرت شیخ عبدالعزیز دباغ رحمۃ اللہ علیہ جن کی کتاب الابریز ہے، جابجا اپنی رؤیات و بشارات کو بیان کرتے ہیں، اگر خواب بیان کرنے پر فتوے لگاتے ہو تو خدا کا خوف کرو اس طرح تو جملہ مکاتب فکر کے اکابرین و اسلاف میں سے کوئی بھی تمہارے فتویٰ سے نہیں بچے گا، مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا مطالعہ کریں جہاں آپ نے ضرورت محسوس فرمائی بلاتامل اپنی رویات، مبشرات و مکاشفات کا ذکر کیا۔
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی سیرت کا مطالعہ کریں، حرمین شریفین حاضری کے وقت جو خواب، بشارات، مکاشفات اور کیفیات وارد ہوئیں انہیں بذات خود کتاب کی صورت میں مرتب فرمایا، اسی موضوع پر آپ نے مستقل ایک کتابچہ ’’الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین‘‘ رقم کیا ہے جس میں اپنے والد گرامی، مشائخ اور خود اپنے چالیس خوابوں کو جمع کیا ہے۔اور فیوض الحرمین پڑھیں ۔
موئے مبارک کی عطاء : الدر الثمین اور انفاس العارفین میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد گرامی حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ بیمار ہو گئے اس وقت آپ کے سسر حضرت شاہ عبدالعزیز بھی ہمارے گھر تشریف لائے ہوئے تھے، فرمانے لگے بیٹا جس رخ پر تمہاری چارپائی بچھی ہوئی ہے اور جس طرف تمہارے قدم ہیں اس سمت سے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری عیادت کے لیے تشریف لا رہے ہیں، ابھی تو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف ہی نہیں لائے لیکن خبر والوں کو پہلے ہی خبر ہو گئی کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔چارپائی کا رخ بدلا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا کیف حالک یا انبی؟ میرے بیٹے کیسا حال ہے؟ اپنا دست اقدس پھیرا تو حضرت شاہ عبدالرحیم شفاء یاب ہو گئے، دل میں خیال آیا کہ پتہ نہیں خواب ہے یا بیداری کاش آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی نشانی دے جائیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریش مبارک پر ہاتھ پھیرا۔ دو موئے مبارک ہاتھ میں آئے تکیے کے نیچے رکھ کر عطا کر دیئے فرمایا بیٹا ہم تمہیں دو موئے مبارک بطور نشانی دیے جا رہے ہیں، صبح بیدار ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک موجود تھے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ان میں سے ایک موئے مبارک میرے پاس موجود ہے۔ اس وقت اگر تم جیسے لوگ ہوتے تو حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ پر فتوی جڑ دیتے کہ دیکھو جی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کا اپنے پاس موجود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، یہ گستاخی بے ادبی ہے۔ لیکن یہ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا ہے جسے نوازیں خالی ظرف والے تو اعتراضات و فتنے پیدا کرتے ہی رہتے ہیں۔(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ کی فالج سے شفایابی اور چادر کی عطا:علامہ اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب نشرالطیب میں لکھتے ہیں کہ : حضرت امام شرف الدین بوصیری رحمۃ اللہ علیہ چودہ سال سے فالج زدہ تھے، چلنے پھرنے سے عاری ہو گئے، مرض لا علاج ہو گیا، رات کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خواب میں تشریف لائے، امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سو پینسٹھ اشعار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ قصیدے کی صورت میں تحریر کیے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بوصیری رحمۃ اللہ علیہ اٹھ وہ نعتیہ اشعار تو سنا جو تو نے میری شان میں لکھے ہیں، عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے تو فالج ہے میں کیسے اٹھوں، آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس پھیرا تو چودہ سال کا فالج ختم ہو گیا، روبصحت ہو گئے اٹھ کر بیٹھ گئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قصیدہ سنایا تو آپ جھوم جھوم کر سنتے رہے، خوش ہو کر اپنی چادر عطا کی، چادر کو عربی زبان میں ’’بردہ‘‘ کہتے ہیں، اسی بنا پر قصیدے کا نام ’’قصیدہ بردہ‘‘ رکھا، باہر نکلے تو دنیا دنگ رہ گئی کہ فالج زدہ بیمار تھے چودہ سال بعد صحت یاب کیسے ہو گئے راستے میں ایک مجذوب عشق مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پروانہ آ رہا تھا آہستہ سے آواز دی بوصیری ایک بات تو سن، آپ رک گئے قریب آئے تو وہ درویش، مجذوب کہنے لگا رات والا قصیدہ مجھے بھی تو سناؤ، امام بوصیری چونک اٹھے کونسا قصیدہ، اس نے پہلا شعر سنا دیا امن تذکر جیران۔ ۔ ۔ وہ قصیدہ جو اس شعر سے شروع ہوتا ہے آپ حیران رہ گئے کہ ابھی تو میں نے کسی کو سنایا ہی نہیں پوچھا تمہیں کیسے خبر ہوئی؟ فرمانے لگے جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جھوم جھوم کر سن رہے تھے تو دور کھڑا میں بھی سن رہا تھا، اس کے بعد تھانوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ قصیدے کی شہرت ہو گئی بادشاہ وقت کو خبر ہوئی اس نے اپنے پاس لکھ کر رکھ لیا نوبت یہاں تک پہنچی کہ کوئی نابینا و بیمار ہوتا تو قصیدہ بردہ شریف کے کاغذ مبارک اس کی آنکھوں پر رکھنے سے بینا اور شفایاب ہو جاتا۔
ملکوتِ ارض و سما میں تصرف : امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ الحاوی للفتاوی میں نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ کی روح اقدس کو ملکوت ارض و سما میں تصرف وسیع عطا کر دیا ہے، دن ہو یا رات، عالم خواب ہو یا عالم بیداری، جس وقت اور جب بھی آقا چاہیں کسی بھی غلام کو اپنے دیدار اور زیارت سے نواز سکتے ہیں، جسے چاہیں چادر مبارک عطا کر جائیں اور جسے چاہیں موئے مبارک دیں۔
بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : من رأني في المنام فقد رأني فان الشيطان لا يتمثل في صورتي. ومن کذب عليَّ متعمدا فليتبوأ مقعده من النار.
ترجمہ : جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے (واقعی) مجھے دیکھا، کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا اور جو جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں سمجھے۔(بخاري، الصحيح، کتاب الادب، باب من سمي باسماء الانبياء، 5 : 2290، رقم : 5844)(دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
سیرت النبی بعد از وصال النبی‘‘ یہ کتاب محترم عبدالمجید صاحب صدیقی جو مسلک دیوبند سے تعلق رکھتے ہیں اور ہائیکورٹ کے ایڈووکیٹ ہیں، انہوں نے اس میں ان شخصیات کا تذکرہ کیا ہے جن کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد زیارت کی سعادت نصیب ہوئی، اس کتاب کو چھپے ہوئے 15 پندرہ سال گزر چکے ہیں لیکن اس پر کسی نے گرفت نہیں کی اور نہ فتوے لگائے ۔
’’زیارت نبی بحالت بیداری‘‘ یہ بھی صدیقی صاحب کی تصنیف ہے جس میں انہوں نے ان شخصیات کے احوال و واقعات کا ذکر کیا ہے جنہیں وصال مبارک کے بعد حالت بیداری میں دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوا۔ اس کتاب کو بھی چھپے ہوئے گیارہ بارہ سال ہو گزرے لیکن کسی نے بھی کوئی زبان نہیں کھولی بلکہ ان میں سے اول الذکر کتاب پر نامور دیوبندی علماء کی تصدیقات موجود ہیں جن میں مولانا قاری محمد طیب مہتمم دار العلوم دیوبند، علامہ علاؤ الدین صدیقی سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی اور مولانا عبدالماجد دریا آبادی تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’کام نہایت ہی اہم ہے بشرطیکہ احتیاط سے کیا جائے‘‘ علماء کے علاوہ بڑے بڑے معروف صحافیوں نے بھی تقاریظ کی صورت میں اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود نہ کسی نے اس کو اچھالا اور نہ اعتراض کیا ہے۔ اور انہیں دونوں کتابوں میں دیوبندی مکتبہ فکر علماء وغیرہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی زیارت ھوئی خواب اور بیداری ھونے کا تذکرہ ھے آج تک کسی نے اس کے خلاف فتوے دیئے مذاق اڑایا نہیں آخر یہ منافقت کیوں ؟
چنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے : ’’الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین‘‘ میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد گرامی حضرت شاہ عبدالرحیم رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آپ ہر سال میلاد شریف مناتے کھانا پکا کر لوگوں میں تقسیم کرتے اور صدقہ و خیرات کرتے لیکن ایک سال آیا کہ گھر میں کچھ نہ تھا دل پر بڑا بوجھ تھا کہ میلاد شریف بغیر صدقہ خیرات کے گزر جائے گی تو بالآخر کیا کیا تھوڑے سے پیسوں سے چنے لے لیے وہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد مبارک کی خوشی میں تقسیم کر دیئے۔ اسی رات آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے وہی چنے پڑے ہوئے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھ کر مسکرا رہے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیوبند کی ریل گاڑی میں : علمائے دیوبند ’’مبشرات دار العلوم دیوبند صفحہ نمبر 67)‘‘ پہ لکھتے ہیں کہ قصبہ سردھنہ ضلح میرٹھ میں ایک عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا۔ جلسے کے صدر حضرت مولانا حبیب الرحمن عثمانی قرار پائے۔ بندہ راقم کی ایک شب تقدیر جاگ اٹھی خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ میں اپنے وطن کو چھوٹے اسٹیشن پر ہوں مگر ریلوے اسٹیشن اپنی وسعت میں غازی آباد جنکشن کے برابر ہے اسٹیشن پر بہت زیادہ روشنی ہے رات کا وقت ہے یہ روشنی بجلی کی روشنی کو مات کر رہی ہے اتنے میں معلوم ہوا کہ عنقریب دیوبند یا سہارنپور کی طرف سے جو گاڑی آنے والی ہے اس میں آقائے نامدار سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔ تھوڑی دیر گزری تھی۔ گاڑی پلیٹ فارم پر آ کر ٹھہری اور حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ڈبے میں جو انجن کے قریب تھا، تشریف فرما نظر آئے۔
دیوبندیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا باورچی بنا ڈالا : تذکرۃ الرشید کے صفحہ 46 پر ہے کہ حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی بھاوج ان کے مہمانوں کے لئے کھانا پکاتی تھی اسے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوئی۔ آپ نے فرمایا ’’تم ہٹ جاؤ امداد اللہ کے مہمان علماء ہیں ان کے مہمانوں کا کھانا میں خود پکاؤں گا‘‘ چند دنوں کے بعد مولانا اشرف علی تھانوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی حاجی امداد اللہ کے مرید بنے یہی ان کے مہمان تھے۔
اشرف السوانح میں مولانا نور الحسن بیان کرتے ہیں۔ کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حضور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر علالت پر آرام فرما ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانوی قریب بیٹھے تیمار داری کر رہے ہیں اور دور ایک معالج بھی بیٹھا ہوا ہے۔ اسے پہچان نہیں سکتا۔
مولانا نور الحسن یہ خواب مولانا اشرف علی تھانوی کو بیان کرتے ہیں پھر وہ خود اس کی تعبیر بتاتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری علالت و بیماری کی جو حالت خواب میں دکھائی گئی ہے اس سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بیمار ہونا مراد نہیں بلکہ اس کی تعبیر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کا بیمار ہونا مراد ہے۔ اور تھانوی صاحب قریب بیٹھے جو تیمار داری کر رہے ہیں اس کی تعبیر امت کی اصلاح کر رہے ہیں امت کے احوالِ حیات بدل رہے ہیں جبکہ دور بیٹھا ہوا جو معالج ہے اس سے مراد و تعبیر امام مہدی علیہ السلام ہیں۔
ایک بار پھر سوال ہے موجودہ متعصب اور وھابیت کی راہ پر چلنے والے دیوبندیوں سے اہلسنت کے اکابرین اور اہلسنت کا مذاق اڑانے والو اور فتوے لگانے والو ایک نظر اپنے اکابرین کی طرف بھی کر لو اور دیگر جو مستند حوالہ جات فقیر نے دونوں حصّوں میں پیش کیئے ہیں وہ آپ جیسے متعصب لوگوں اور وھابیہ کےلیئے کافی ہیں ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانان اہلسنت کو فتنہ نجد کے شر و فساد اور گستاخانہ عقائد و نظریاتٓ سے محفوظ رکھے آمین ۔ دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی ۔
No comments:
Post a Comment