صحابہ رضی اللہ عنہم میلاد النی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم مناتے تھے
صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی حضور پرنور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا میلاد منایا اور سرور کونین صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے سامنے منعقد کیا ۔ میرے رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے منع کرنے کے بجائے خوشی کا اظہار فرمایا ۔ صحابہ کرام کا میلاد بیان کرنے پر حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں : غزوہ تبوک سے جب سب لوگ واپس آئے تو حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی تعریف کروں۔ حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: بیان کرو اللہ تمہارے منہ کو ہر آفت سے بچائے۔اس پر انہوں نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی پیدائش کا حال بیان کیا ۔ ( دلائل النبوہ جلد 5، صفحہ 47، 48)
آپ غور نہیں فرماتے کیا کہ یہاں حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا بیان کرو۔ حکم ہوا ۔۔۔ اور دعا فرمائی کہ منہ کو ہر آفت سے بچائے۔ اور اللہ عزوجل نے دعا قبول فرما کر حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالی عنہ کی زبان پر ذکرِ خیر جاری فرمایا میلاد یعنی پیدائش/ولادت کے بیان کو جاری فرما دیا۔ تو مقصد بیان کرنے والے کون ہیں؟ صحابی ہوئے یا تابعی؟ اور جیسے میں نے گزشتہ پوسٹ میں عرض کی تھی کہ ہمارے میلاد منانے میں وہی طریقہ رائج ہے بس فرق آپ نہیں دیکھ پا رہے کیوں کہ اس دور میں صحابہ کرام ہر وقت ہے جھرمٹ کی طرح جمع رہا کرتے جیسے ہم آج صرف ۱۲ ربیع الاول اور جمعہ و نماز کے وقت جمع ہوتے ہیں اور ہر وقت درود و سلام و تعریف کیا کرتے تھے۔ ولادت کے دن پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوموار شریف کا روزہ رکھ کر اضافی عمل پیش کیا وگرنہ روزانہ کی طرح حمد و ثناء، تعریف، درود و سلام ۱۲ ربیع الاول کو بھی جاری رہا کرتیں ۔
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے میلاد کا ذکر میرے پاس ہوا ۔ (المعجم الکبیر مترجم اردو جلد اوّل صفحہ 96،چشتی) ۔ معلوم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میلاد کی محافل سجایا کرتے تھے اور ذکرِ میلاد النبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کرتے تھے ۔
جلیل القدر صحابی حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں قصیدہ پڑھ کر جشن ولادت منایا کرتے تھے۔
حدیث: سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم خود حضرت حسان رضی اﷲ عنہ کے لئے منبر رکھا کرتے تھے تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تعریف میں فخریہ اشعارپڑھیں۔ سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم حضرت حسان رضی اﷲ عنہ کے فرماتے اﷲ تعالیٰ روح القدس (حضرت جبرائیل علیہ السلام) کے ذریعہ حسان کی مدد فرمائے (بحوالہ: بخاری شریف جلد اول صفحہ نمبر 65،چشتی)
حدیث: حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ میں سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ساتھ حضرت عامر انصاری رضی اﷲ عنہ کے گھر گیا۔ وہ اپنی اولاد کوحضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کے واقعات سکھلا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آج کا دن ہے۔ سرکار صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے اس وقت فرمایا اﷲ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے رحمت کا دروازہ کھول دیا اور سب فرشتے تم لوگوں کے لئے دعائے مغفرت کررہے ہیں جو شخص تمہاری طرح واقعہ میلاد بیان کرے اس کو نجات ملے گی ۔ (رضیہ التنویر فی مولد سراج المنیر)
میلاد کے لغوی اور اصطلاحی معنی محافل منعقد کرکے میلاد کا تذکرہ کرنا ہے جو ہم نے دو حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔ آپ لوگ میلاد کی نفی میں ایک حدیث لاکر دکھادو، جس میں واضح طور پر یہ لکھا ہو کہ میلاد نہ منایا جائے۔ حالانکہ کئی ایسے کام ہیں جوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کئے مگر ہم اسے کرتے ہیں کیونکہ اس کام کے کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے لہذا وہ کام جائز ہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment