Tuesday 13 November 2018

وہابی کی حقیقت وہابیوں نے اہلحدیث نام انگریز سے منظور کرایا

0 comments
وہابی کی حقیقت وہابیوں نے اہلحدیث نام انگریز سے منظور کرایا

وہابیوں نے انگریز کی منت کر کے فرقہ اہلحدیث نام اگریز سے منظور کرایا

محمد حسین بٹالوی وہابی کی درخواست پر انگریز سرکار نے وہابی سے اہلحدیث نام منظور کیا اور وہابیوں کےلیئے اہلحدیث نام کا اجراء ہوا ۔ (تاریخ اہلحدیث جلد 1 صفحہ 124 بہاء الدین)

مشہور غیر مقلد وہابی عبد المجید سوہدروی لکھتا ہے : وہابی نام سے اہلحدیث نام محمد حسین بٹالوی وہابی کی اپیل پر انگریز سرکار نے منظور کیا دفاتر سے وہابی نام منسوخ ہو اور جماعتِ وہابیہ کو اہلحدیث سے موسوم کیا گیا ۔ (سیرۃ ثنائی صفحہ نمبر 452 عبد المجید سوہدروی غیرمقلد)

محقق العصر اہلحدیث وہابی حجرات عبد القادر حصاروی لکھتا ہے : انگریز گورنمنٹ نے وہابی سے اہلحدیث نام منظور کیا ۔ (فتاویٰ حصاریّہ جلد اول صفحہ نمبر 567 محقق العصر اہلحدیث عبد القادر حصاروی)

نواب صدیق حسن خان غیر مقلد وہابی لکھتا ہے : انگریز سرکار نے مہربانی فرمائی وہابی سے اہلحدیث نام جماعت کا منظور کیا ۔ (مآثر صدیقی حصّہ اول صفحہ نمبر 162 نواب صدیق حسن خان غیر مقلد)

مشہور غیر مقلد شیخ الحدیث وہابیہ اسماعیل سلفی لکھتا ہے : جماعت نے اپنا مقصد اسی دن کھو دیا تھا جِس دن سرکار انگلشیہ (انگریز) سے نیا نام اہلحدیث لیا اور تصدیق کرادی تھی ۔ (نگارشات جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 382)

وہابی نام سے اہلحدیث نام محمد حسین بٹالوی کی کوششوں سے انگریز سرکار نے منظور کیا اور یوں دفاتر میں وہابی کی جگہ اہلحدیث لکھا جانے لگا ۔ (سیرۃ ثنائی صفحہ 452 ثناء اللہ امرتسری غیر مقلد وہابی)

ثناء اللہ امرتسری وہابی لکھتا ہے:وہابیوں نے وہابی نام انگریز کو درخواست دے کر لکھا چھٹی گورنر ہند انگریز سرکار تین (3) دسمبر 1879 چھٹی نمبر 1758 )۔(رسائل ثنائیہ صفحہ نمبر 102 مکتبہ محمدیہ اردو بازار لاہور)

وہابی فرقہ محمد بن عبد الوہاب نجدی کی طرف منسوب ہے اور آل سعود نے ابن وہاب نجدی اور عیسائیوں کے ساتھ مل کر حرمین پر قبضہ کیا ، اور آل سعود نے ابن وہاب نجدی کی وہابی تعلیمات کو پھیلایا 1760 میں پہلے مسیحی مین (یعنی عیسائی ) حاکم ہوا اس کے بعد عبد العزیز بن سعود حاکم ہوا ۔ (ترجمان وہابیہ صفحہ 57 ، 58 نواب صدیق حسن خان غیر مقلد وہابی) پہچانیئے انہیں ؟؟

شیخ الاسلام دیوبند حسین احمد ٹانڈوی دیوبندی صدر مدرس دارلعلوم دیوبند اپنی کتاب الشہاب الثاقب اور نقش حیات میں لکھتا ہے : صاحبو! محمد بن عبدالوہاب نجدی ابتداء تیرھویں صدی بحد عرب سے ظاہر ہوا۔ اور چونکہ خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا ، اس لئے اس نے اہلسنت والجماعت میں قتل و قتال کیا، اُن کے قتل کرنے کو ثواب و رحمت شمار کرتا رہا۔سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت ہی گستاخی کے الفاظ استعال کئے۔ محمد بن عبدالوہاب کا عقیدہ یہ تھا کہ تمام جملہ اہل عالم و تمام مسلمنان مشرک و کافر ہیں اور ان سے قتل و قتال کرنا جائز بلکہ واجب ہے۔ ابن عبدالوہاب نجدی اور اس کا گروہ زیارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و حضوری آستانہ شریفہ و ملاحظہ روضہ مطہرہ کو بدعت حرام لکھتا ہے۔ بعض ان میں کے سفر و زیارت کو معاذ اللہ زنا کے درجے میں پہنچاتے ہیں۔شان نبوت اور حضرت رسالت میں وہابیہ نہایت گستاخی کے کلمات استعمال کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مماثل ذات سرور کائنات خیال کرتے ہیں ۔
وہابیہ ، تمام مسلمانوں کو ادنی شبہ خیالی سے کافر و مشرک کہتے ہیں اور ان کے اموال و دماء‌کو حلال جانتے ہیں ۔
تبرکات کا ادب وہابیہ کے نزدیک شرک و کفر اور حرام ہے۔ اکابر امت کی شان میں گستاخانہ کلمات استعمال کرنا وہابیہ کا معمول ہے۔ وہابی، مسلمانوں کو ذراذرا سی بات میں مشرک و کافر قرار دیتے ہیں اور ان کے مال و خون کو مباح جانتے ہیں اور جانتے تھے۔ وہابیہ بارگاہ نبوت میں گستاخانہ کلمات استعمال کرتے رہتے ہیں۔
(الشہاب الثاقب، ص ، 42 تا 47، ص 52 ، 54، 63، نقش حیات، ص 120، 122، 123، 126، 432)
علمائے دیوبند کی متفقہ کتاب المھند میں لکھا ہے ۔ ان (وہابیوں) کا عقیدہ ہے کہ بس وہی مسلمان ہے جو ان کے عقیدے پر ہو جو ان کے عقیدے کے خلاف ہے وہ مشرک ہے ۔ اور ان کے عقیدہ کے خلاف اہلسنت تھے اسلئے ان کا قتل مباح قرار دیا ۔
دیوبندیوں کے شیخ الاسلام کا فتویٰ آپ نے پڑھ لیا ۔ اب ذرا کچھ لطیفے بھی پڑھئے۔
دیوبندیوں کے شیخ الکل رشید احمد‌ گنگوہی فتویٰ رشیدیہ میں لکھتا ہے ۔ ان کے عقائد عمدہ تھے ۔ (فتاویٰ رشیدیہ)
معلوم ہوا کے گنگوہی صاحب کے نزدیک تمام اہلسنت کو مشرک سمجھنا اور ان کا قتل جائز و حلال جاننا یہ عمدہ عقیدہ ہے ۔
گنگوہی مزید لکھتا ہے ۔ وہ (عبدالوہاب نجدی) اور اُن کے مقتدی اچھے ہیں ۔
اور دیگر سب علمائے دیوبند کہتے ہیں وہ خارجی اور باغی تھے ۔ معلوم ہوا کہ گنگوہی صاحب کے نزدیک خارجی اور باغی اچھے ہوتے ہیں ۔
اب اگر گنگوہی صاحب کو سچا کہا جائے تو حسین احمد ٹانڈوی صاحب جھوٹے اور اگر حسین احمد ٹانڈوی صاحب کو سچا کہا جائے تو گنگوہی صاحب جھوٹے ۔ فیصلہ ان دونوں کے ماننے والوں پر ہے ۔

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں‌کا خرد
جو چاہے آپ کا حُسن کرشمہ ساز کرے

وہابی کی حقیقت

حسین احمد مدنی ٹانڈوی الشہاب الثاقب ص 62،63 پر مزید لکھتا ہے : وہابیہ کسی خاص امام کی تقلید کو شرک فی الرسالۃ جانتے ہیں‌اور ائمہ اربعہ اور ان کے مقلدین کی شان میں الفاظ وہیہ خبیثہ استعمال کرتے ہیں اور اس کی وجہ سے مسائل میں وہ گروہ اہل سنت والجماعت کے مخالف ہوگئے ہیں، چنانچہ غیر مقلدین ہند اسی طائفہ شنیعہ کے پیرو ہیں۔ وہابیہ نجد عرب اگرچہ بوقت اظہار دعویٰ حنبلی ہونے کا اقرار کرتے ہیں۔ لیکن عمل درآمد ان کا ہرگز جملہ مسائل میں امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مزہب پر نہیں ہے ۔

اب ذرا دیوبندیوں کے وہابی ہونے کا اعتراف بھی پڑھئے

اشرف السوانح جلد نمبر 1 صٖحہ نمبر 45 پر ہے ۔ جن دنوں اشرف علی تھانوی صاحب مدرسہ جامع العلوم کان پور میں مدرس تھے انہی دنوں کا واقعہ ہے کہ مدرسہ کے پڑوس کی کچھ خواتین شیرینی لائیں تاکہ کلام پاک پڑھ کر ایصال ثواب کردیا جائے۔ مدرسے کے طلباء نے ایصال ثواب نہ کیا اور مٹھائی ہڑپ کر گئے۔ اس پر خوب ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ تھانوی صاحب کو ہنگامے کی خبر ہوئی اور وہ آئے اور با آواز بلند کہا۔ بھائی یہاں وہابی رہتے ہیں ۔ یہاں فاتحہ نیاز کےلئے کچھ نہ لایا کرو ۔

سوانح یوسف کاندھلوی صفحہ نمبر 192 پر ہے ۔ ہم بڑے سخت وہابی ہیں ۔

دیوبندی تبلیغی گروپ کے بڑے شیخ محمد زکریا صاحب لکھتے ہیں ۔ میں خود تم سے بڑا وہابی ہوں ۔ (سوانح محمد یوسف کاندھلوی، ص 193، مصنف، محمد ثانی حسنی و منظور نعمانی)

آپ نے پڑھا کہ مدرسہ دیوبند کے صدر مدرس جناب حسین احمد مدنی ٹانڈوی نے وہابیوں کو طائفہ شنیعہ اور خبیثہ (برے اور پلید گندے لوگوں کا گروہ) اور گستاخ لکھا ہے اور جناب اشرف علی تھانوی و شیخ‌محمد زکریا وغیرہ خود کو بڑے فخر سے وہابی لکھ رہے ہیں، ان کے اعتراف سے ان کی اصلیت و حقیقت کا اندازہ کریں ۔

عبدالوہاب نجدی خیالات باطلہ اور عقائد فاسدہ رکھتا تھا ۔

سلف صالحین اور اتباع کی شان میں نہایت ہی گستاخی کے الفاظ استعمال کئے ۔

تمام جملہ اہل عالم و تمام مسلمنان دیار مشرک و کافرجانتا تھا ۔

وہابیہ بارگاہ نبوت میں گستخانہ کلمات استعمال کرتے رہتے ہیں ۔

غیر مقلدین ہند اسی طائفہ شنیعہ کے پیرو ہیں ۔

اور دیوبندی علماء وہابی کہلانے کے دعوایدار بھی ہیں ۔

الجھا ہے پاوں یار کا ذلف دراز میں
لو! آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

وہابی یعنی وہاب عزوجل سے نکلا کا جواب وہابی عبدالوہاب نجدی سے نکلا ہے ۔ اور نجدی کے تمام عقائد دیوبندیوں ، غیرمقلدوں میں پائے جاتے ہیں ۔

اور اللہ کے نام پر وہابی کہلانے کا جواب : قادیانی ، احمدی بھی کہلاتے ہیں ۔ چنانچہ اس طرح تو وہ کہہ سکتے ہیں کہ احمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم یعنی اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا نام ہے ۔ اس لئے ہمیں یہ نام پکارا جاتا ہے ۔ تو پھر اس کا تم کیا جواب دو گے ؟
وہابی کا لفظ ، کبھی تو آپ لوگ گالی سمجھ کر انگریز حکومت کو درخواست دیتے ہو کہ ہمیں وہابی نہ کہا جائے اور ہمیں اہلحدیث کہا جائے ، اور جب موڈ بدلتا ہے اور طبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے تو کہتے ہو کہ وہابی کا معنی ہے وہاب والا ، ﷲ والا ۔

دیوبندی وہابی ہی ہیں زباں میری ہے بات اُن کی

1. دیوبندیوں کے امام ربانی غوث اعظم رشید احمد گنگوہی فرماتے ھیں:
"محمد بن عبدالوہاب کے مقتدیوں کو وہابی کہتے ہیں ان کے عقائد عمدہ تھے "
[ فتاوی رشیدیہ جلد 11/1]

2. دیوبندی دھرم کے حکیم الامت اور ساتھ ہی مجدد فرماتے ہیں : "بھائی یہاں وہابی رہتے ہیں یہاں فاتحہ نیاز کے لئے کچھ مت لایا کرو"
[ اشرف السوانح جلد 1/ ص45 ]

3. دوسری بار شہادت دیتے ہوئے دیوبندی دھرم کے مجدد فرماتے ہیں:"اگر میرے پاس دس ہزار روپیہ ہو تو سب کی تنخواہ کردوں پھر لوگ خود ہی وہابی بن جائیں "[ الافاضات الیومیہ جلد 5/ 67, 2/ 221 ]

4. اور ایک جگہ دیوبندی مجدد فرماتے ہیں:"بدعتی کے معنی ہیں با ادب بے ایمان اور وہابی کے معنی ہیں بے ادب با ایمان "[ الافاضات الیومیہ جلد326/2]

5. دیوبندی وہابی دھرم کے برج کے طور پر کام کرنے والے ندوہ کے بڑے ادیب و مورخ مسعود عالم ندوی لکھتے ہیں:" ہندوستان کی تحریک وہابیت یعنی سید صاحب کی تحریک تجدید و امامت, نجد کی ہابی تحریک ہی کی ایک شاخ ہے اس میں شک نہیں دونوں تحریکوں کا ماخذ ایک قصد ایک اور دونوں کو چلانے والے کتاب و سنت کے علمدار یکساں سر گرم مجاہد تھے"[ محمد بن عبدالوہاب /7,8 ]

6. دیوبندی دھرم کے صوفی و حکیم اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:
" ایک صاحب بصیرت و تجربہ کہا کرتے تھے کہ ان دیوبندیوں وہابیوں کو اپنی قوت معلوم نہیں"(الافاضات الیومیہ 9/249،چشتی)

7. دیوبندیوں کے قطب ارشاد و مجدد رشید گنگوہی فرماتے ہیں:" اس وقت اور اطراف میں وہابی متبع سنت اور دیندار کو کہتے ہیں "[فتاوی رشیدیہ/ 96]

8. دیوبندی دھرم کی معتبر لغت میں وہابی کے یہ معنی لکھے ہیں:"وہابی کے معنی - محمد ابن عبدالوہاب کا پیرو فرقہ جو صوفیوں کا مد مقابل خیال کیا جاتا ہے "[ فیروزاللغات /548 ]

9. دیوبندی دھرم کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب کے مصنف ذکریا کاندھلوی کا شہادت نامہ :"مولوی صاحب ! میں خود تم سے بڑا وہابی ہوں "
(سوانح یوسف کاندھلوی / 193،چشتی)

10. دیوبندی دھرم کے سب سے بڑے مناظر منظور نعمانی کا قبول نامہ:
"ہم خود اپنے بارے میں بڑی صفائی سے عرض کرتے ہیں کہ ہم بڑے سخت وہابی ہیں"[سوانح یوسف کاندھلوی, ص 192]

دیوبندی دھرم کے مجدد, شیخ الحدیث, حکیم الامت, مناظر اعظم, غوث اور قطب الارشاد کی شہادتوں سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ:دیوبندی خالص وہابی جماعت ہے اور ان کا اپنے آپ کو اہلسنت کہنے سراسر جھوٹ اور اپنے نسب کو بدلنے کے مترادف ہے-

اشرف علی تھانوی کہتا ہے : ہم گستاخ ہیں ۔ (افاضات الیومیہ ج6 ص 316)

خضر حیات دیوبندی کہتا ہے : قاضی مظہر (دیوبندی) نے حیات انبیا کو گدھے کی حیات سے مثال دی ہے،،جو کہ بدترین گستاخی ہے(المسلک المنصورص 170) ، ایسے ہی امین صفدر اوکاڑی کی ایک عبارت "آپ صلی علیہ واسلم نماز پڑھتے رہے،کتیا سامنے کھیلتی رہی ساتھ گدھی بھی تھی،دونوں کی شرم گاہوں پر بھی نظر پڑتی رہی َ"نقل کر کے لکھا :نقل کفر کفر ناباشد(المسلک المنصور ص173) ، ایک جگہ اوکاڑی کمپنی کے بارے میں لکھتا ہے : ان کی کوئی تقریر اہل اللہ کی بے ادبی اور گستاخی سے خالی نہیں (المسلک المنصور ص 164،چشتی)

اشرف علی تھانوی کہتا ہے : وہابی بے ادب کو کہتے ہیں ۔ (افاضات الیومیہ ج 4 ص 89)

مودویوں نے لکھا کہ : کوئی دیوبندی مودودی ،،ارتکاب توہین،،سے نہیں بچا(جائزہ40)

تقویۃالایمان اور گستاخی : دیوبندی حضرات نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ تقویۃالایمان کا لہجہ گستاخانہ ہے ۔ حوالا جات ملاحظہ ہوں

مولوی اشرف علی تھانوی لکھتا ہے : آج کل بلا ضرورت تقویۃ الایمان کے الفاظ کا استعمال گستاخی ہے (امداد الفتاوی ج5)
ایسے ہی خود اسماعیل کہتا ہے کہ : میں جانتا ہوں کہ اس میں بعض جگہ ذارا تیز الفاظ آگئے ہیں (ارواح ثلاثہ ص 89،چشتی)

تحذیرالناس اور اقرار جرم محمد حسین نیلوی کہتا ہے : قاسم نانوتوی کے نظریات قرآن و سنت کے خلاف ہیں۔(ندائے حق636) ، مزید کہتا ہے : کہ نانوتوی نے ختم بنوت کا قادیانی معنی کیا ہے (ایضا 575)

اشرف علی تھانوی کہتا ہے کہ : جب قاسم نانوتوی نے تحذیرالناس لکھی تو ہندوستان بھر میں کسی نے موافقت نہیں کی سوائے عبدالحی کے ۔ (افاضات الیومیہ ج 5 296) ، مگر بعد میں یہ بھی مخالف ہوگئے تھے دیکھیے ابطال اغلاط قاسمیہ39)
پھر انور شاہ کاشمیری نے اثر ابن عباس کو خلاف قرآن ظاہر کیا ۔ (فیض الباری ج 3 ص 333)

حفظ الایمان اور اقرار جرم

جب تھانوی نے حضور کے علم کو جانوروں اور پاگلوں سے تشبیہ دی تو خود اس کے مریدوں نے کہا کہ یہ عبارت ظاہری طور پر بے ادبی پر مشتمل ہے (بسط البنان صفحہ 28) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)















0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔