Saturday 3 November 2018

درس قرآن موضوع آیت : وَیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمْ شَہِیۡدًا

0 comments
درس قرآن موضوع آیت : وَیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمْ شَہِیۡدًا

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمْ شَہِیۡدًاؕ وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیۡ کُنۡتَ عَلَیۡہَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنۡ یَّتَّبِعُ الرَّسُوۡلَ مِمَّنۡ یَّنۡقَلِبُ عَلٰی عَقِبَیۡہِؕ وَ اِنۡ کَانَتْ لَکَبِیۡرَۃً اِلَّا عَلَی الَّذِیۡنَ ہَدَی اللہُ ؕ وَمَا کَانَ اللہُ لِیُضِیۡعَ اِیۡمٰنَکُمْؕ اِنَّ اللہَ بِالنَّاسِ لَرَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۴۳﴾
ترجمہ : اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہواور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ اور اے محبوب تم پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹے پاؤں پھر جاتا ہے اور بیشک یہ بھاری تھی مگر ان پرجنہیں اللہ نے ہدایت کی اور اللہ کی شان نہیں کہ تمہارا ایمان اکارت کرے، بیشک اللہ آدمیوں پر بہت مہربان، مہر والا ہے ۔

وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا : اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا ۔ یعنی اے مسلمانو! جس طرح ہم نے تمہیں ہدایت دی اور خانہ کعبہ کو تمہارا قبلہ بنایا اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا ۔ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی امت زمانہ کے لحاظ سے سب سے پیچھے ہے اور مرتبہ کے لحاظ سے سب سے آگے یعنی افضل ہے۔ افضل کیلئے یہاں ’’وسط‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور عربی میں ’’ بہترین ‘‘کیلئے بھی ’’وسط‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔

لِتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ: تاکہ تم گواہ ہوجاؤ ۔ مسلمان دنیا و آخرت میں گواہ ہیں ،دنیا میں تو اس طرح کہ مسلمان کی گواہی مومن و کافر سب کے بارے میں شرعاً معتبر ہے اور کافر کی گواہی مسلمان کے خلاف معتبر نہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ کے فضل سے مُردوں کے حق میں بھی اس امت کی گواہی معتبر ہے اوررحمت و عذاب کے فرشتے اس کے مطابق عمل کرتے ہیں ، چنانچہ بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو انہوں نے اس کی تعریف کی ۔نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا ’’ واجب ہوگئی ۔پھر دوسرا جنازہ گزرا تو صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اس کی برائی بیان کی۔ حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ واجب ہوگئی۔ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دریافت کیا : یا رسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا چیز واجب ہو گئی ؟ارشاد فرمایا: پہلے جنازے کی تم نے تعریف کی ،اُس کے لیے جنت واجب ہوگئی اور دوسرے کی تم نے برائی بیان کی، اُس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی۔ تم زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو ۔ (بخاری، کتاب الجنائز، باب ثناء الناس علی المیت، ۱/۴۶۰، الحدیث: ۱۳۶۷،چشتی)

اورآخرت میں اس امت کی گواہی یہ ہے کہ جب تمام اولین و آخرین جمع ہوں گے اور کفار سے فرمایا جائے گا کہ کیا تمہارے پاس میری طرف سے ڈرانے او راحکام پہنچانے والے نہیں آئے؟ تو وہ انکار کریں گے اور کہیں گے کہ کوئی نہیں آیا۔ حضراتِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے دریافت فرمایا جائے گا تووہ عرض کریں گے کہ یہ جھوٹے ہیں ، ہم نے انہیں تبلیغ کی ہے ۔ اس بات پر انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کافروں پرحجت قائم کرنے کیلئے دلیل طلب کی جائے گی، وہ عرض کریں گے کہ امت ِمحمدِیَّہ ہماری گواہ ہے ۔ چنانچہ یہ امت پیغمبروں کے حق میں گواہی دے گی کہ ان حضرات نے تبلیغ فرمائی۔ اس پر گزشتہ امت کے کفار کہیں گے، امت محمدیہ کو کیا معلوم ؟ یہ توہم سے بعدمیں آئے تھے ۔ چنانچہ امت محمدیہ سے دریافت فرمایا جائے گا کہ’’ تم کیسے جانتے ہو ؟ وہ عرض کریں گے ، یارب ! عَزَّوَجَلَّ،تو نے ہماری طرف اپنے رسول محمد مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھیجا ، قرآن پاک نازل فرمایا، ان کے ذریعے سے ہم قطعی ویقینی طور پر جانتے ہیں کہ حضراتِ انبیاءعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے کامل طریقے سے فرضِ تبلیغ ادا کیا ، پھر سید الانبیاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے آپ کی امت کے متعلق دریافت فرمایا جائے گا تو نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ ان کی تصدیق فرمائیں گے ۔ (بغوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱/۳۸)

یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ تمام گواہیاں امت کے صالحین اور اہلِ صدق حضرات کے ساتھ خاص ہیں اور ان کے معتبر ہونے کے لیے زبان کی نگہداشت شرط ہے ،جو لوگ زبان کی احتیاط نہیں کرتے اور بے جا خلاف ِشرع کلمات ان کی زبان سے نکلتے ہیں اور ناحق لعنت کرتے ہیں صحیح حدیثوں کے مطابق روزِ قیامت نہ وہ شفاعت کریں گے اور نہ وہ گواہ ہوں گے ۔ (مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب النہی عن لعن الدواب وغیرہا، ص ۱۴۰۰، الحدیث : ۸۵(۲۵۹۸،چشتی)

وَیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمْ شَہِیۡدًا : رسول تم پر گواہ ہوں گے ۔ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گواہی یہ ہے کہ آپ ہر ایک کے دینی رتبے اور اس کے دین کی حقیقت پر مطلع ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس چیز سے واقف ہیں جو کسی کا دینی رتبہ بڑھنے میں رکاوٹ ہے ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو لوگوں کے گناہ معلوم ہیں ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے ایمان کی حقیقت،اعمال، نیکیاں ، برائیاں ،اخلاص اورنفاق وغیرہ کو نورِ حق سے جانتے ہیں ۔ (روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۳، ۱/۲۴۸)
ایسا ہی کلام شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی تفسیر ’’فَتْحُ الْعَزِیْز‘‘ میں بھی ذکر فرمایا ہے ۔ (تفسیر عزیزی مترجم اردو جلد اوّل پارہ نمبر 2 صفحہ نمبر 405)

یاد رہے کہ ہر نبی عَلَیْہِ السَّلَام کو ان کی امت کے اعمال پر مطلع کیا جاتا ہے تاکہ روزِ قیامت ان پر گواہی دے سکیں اور چونکہ ہمارے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی شہادت سب امتوں کوعام ہوگی اس لیے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہیں ۔

نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی قطعی و حتمی ہے

یہ بات حقیقت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی قطعی و حتمی ہے۔ ہمارے پاس قرآن کے کلام الٰہی ہونے کی سب سے بڑی دلیل حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی ہے اور جیسے یہ گواہی قطعی طور پر مقبول ہے اسی طرح حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی گواہی دنیا میں اپنی امت کے حق میں مقبول ہے ، لہٰذا حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے اپنے زمانہ کے حاضرین کے متعلق جو کچھ فرمایا مثلاً : صحابۂ کرام ، ازواجِ مطہرات اور اہلِ بیت ِکرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے فضائل و مناقب یا غیر موجود لوگوں جیسے حضرت اویس قرنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ یا بعد والوں کے لیے جیسے حضرت امام مہدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ وغیرہ کیلئے جو کچھ فرمایا ان سب کو تسلیم کرنا لازم ہے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔