صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، جامع ترمذی اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم
ترمذی شریف میں باب "باب ماجاء في ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم"
الجامع ترمذی شریف میں ایک باب ہے "باب ماجاء في ميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم" جو امام ترمذی نے باندھا ہے۔ تب تک میلاد النبی منانا بدعت نہیں سمجھا جاتا تھا۔ بدعت کا بہتان بہت بعد کی ایجاد ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ 604 ہجری کے بعد میلادالنبی منانے کا رواج پڑا ۔ جبکہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ 209 ہجری میں پیدا ہوئے اور 279 میں فوت ہوئے ۔
مشکوٰۃ میں ترمذی اور دارمی کے حوالے سے حدیث پاک موجود ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعض انبیاء کرام علیہم السّلام کے فضائل کا ذکر کر رہے تھے کہ اس محفل میں آقا تشریف لائے اور آپ نے اپنے فضائل خود بیان فرمائے جن میں سے کچھ یہ ہیں "خبردار میں اللہ کا حبیب ہوں " اور آپ ہی کے زمانے میں ایک اور محفل میلاد مسجدِ نبوی میں منعقد ہوئی جس میں آپ نے منبر پر بیٹھ کر اپنے فضائل اور ولادت کے تذکرے فرمائے ۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201)
صحیح مسلم شریف جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 7، مشکوٰۃ شریف صفحہ نمبر 179 میں یہ حدیث درج ہے کہ : حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی کہ ’’یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جواب دیا ’’اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی‘‘ ۔
امام حافظ بن حجر رحمتہ اﷲ علیہ (المتوفی 852ھ) نے ایک سوال کے جواب میں لکھا ’’میرے لئے اس (محفل میلاد) کی تخریج ایک اصل ثابت سے ظاہر ہوئی ، دراصل وہ ہے جو بخاری و مسلم میں موجود ہے : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو دسویں محرم کا روزہ رکھتے دیکھا ۔ ان سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ یہ وہ دن ہے، جس دن اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا تھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی، ہم اس دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھتے تھے ۔(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب صوم یوم عاشوراء ، رقم الحدیث 2004، صفحہ نمبر 321)۔(صحیح المسلم، کتاب الصیام، باب صوم یوم عاشوراء رقم الحدیث 2656، صفحہ نمبر
462،چشتی)
اس کرہ ارض پر بسنے والے کسی بھی عالم دین (اگرچہ وہ صحیح عالم ہو) سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے پیر کے روزے کے متعلق دریافت کیجئے ، اس کا جواب یہی ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنی ولادت کی خوشی میں روزہ رکھا ۔ نبی علیہ السلام اپنی آمد کی خوشی منائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے غلام اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا جشن نہ منائیں ۔ یہ کیسی محبت ہے ؟ اسی لئے تو مسلمان ہر سال زمانے کی روایات کے مطابق جشن ولادت مناتے ہیں ۔ کوئی روزہ رکھ کر مناتا ہے تو کوئی قرآن کی تلاوت کر کے ، کوئی نعت پڑھ کر ، کوئی درود شریف پڑھ کر ، کوئی نیک اعمال کا ثواب اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی بارگاہ میں پہنچا کر تو کوئی شیرینی بانٹ کر ، دیگیں پکوا کر غریبوں اور تمام مسلمانوں کوکھلا کر اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کا جشن مناتاہے ۔ یعنی زمانے کی روایات کے مطابق اچھے سے اچھا عمل کرکے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کا جشن منایا جاتا ہے ۔ پس جو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو مانتا ہے تو وہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سمجھ کر اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کا جشن منائے گا اور جو شخص نبی کو نہیں مانتا ، وہ اس عمل سے دور بھاگے گا ۔
بخاری شریف جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 764 میں ہے : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا چچا ابولہب جوکہ پکا کافر تھا ۔ جب اسے اس کے بھائی حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کے یہاں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری ملی تو بھتیجے کی آمد کی خوشخبری لانے والی کنیز ’’ثویبہ‘‘ کو اس نے انگلی کا اشارہ کرکے آزاد کردیا ۔ ابولہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑے برے حال میں ہے تو اس سے پوچھا کیا گذری ؟ ابولہب نے جواب دیا ’’مرنے کے بعد کوئی بہتری نہ مل سکی ہاں مجھے اس انگلی سے پانی ملتا ہے کیونکہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزاد کیا تھا ۔
اسی روایت کے مطابق ہمارے اسلاف جوکہ اپنے دور کے مستند مفسر ، محدث اور محقق رہے ہیں ان کے خیالات پڑھئے اور سوچئے کہ اس سے بڑھ کر جشن ولادت منانے کے اور کیا دلائل ہوں گے ؟
(1) ابولہب وہ بدبخت انسان ہے جس کی مذمت میں قرآن کی ایک پوری سورۃ نازل ہوئی ہے لیکن محض اس وجہ سے کہ اس کی آزاد کردہ باندی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو دودھ پلایا تو اس کا فائدہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کو کچھ نہ کچھ ملتا رہا۔ سہیلی وغیرہ نے اس خواب کا اتنا حصہ اور بیان کیا ہے ۔ ابولہب نے حضرت عباس سے یہ بھی کہا کہ دوشنبہ پیر) کو میرے عذاب میں کچھ کمی کردی جاتی ہے ۔ علماء کرام نے فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی تشریف آوری کی بشارت سنانے پر ثویبہ کو جس وقت ابولہب نے آزاد کیا تھا اسی وقت اس کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے ۔ (تذکرہ میلاد رسول صفحہ نمبر 18،چشتی)
(2) شیخ محقق حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کا فرمان مبارک : میلاد شریف کرنے والوں کے لئے اس میں سند ہے جوشب میلاد خوشیاں مناتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں۔ یعنی ابولہب کافر تھا اور قرآن پاک اس کی مذمت میں نازل ہوا۔ جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے ۔ (مدارج النبوۃ جلد دوم صفحہ نمبر 26)
(3) حضرت علامہ مولانا حافظ الحدیث ابن الجزری رحمتہ اﷲ علیہ کا فرمان مبارک : جب ابولہب کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک نازل ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی میں جزا نیک مل گئی (عذاب میں تخفیف) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی امت کے مسلمان موحد کا کیا حال ہوگا ۔ جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کی خوشی مناتا ہو اور حضور کی محبت میں حسب طاقت خرچ کرتا ہو ۔ مجھے اپنی جان کی قسم اﷲ کریم سے اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو اپنے فضل عمیم سے جنت نعیم میں داخل فرمائے گا ۔ (مواہب لدنیہ جلد 1ص 27،چشتی)
(4) جلیل القدر محدث حضرت علامہ ابن جوزی رحمتہ اﷲعلیہ کا فرمان مبارک : جب ابولہب کافر (جس کی قرآن میں مذمت بیان کی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت پر خوش ہونے کی وجہ سے یہ حال ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی امت کے اس موحد مسلمان کا کیا کہنا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت پر مسرور اور خوش ہے ۔ (بیان المولد النبوی صفحہ نمبر 70 بحوالہ مختصر سیرۃ الرسول صفحہ نمبر 23)
ان محدثین کرام اور اسلاف علیہم الرّحمہ کے خیالات سے ثابت ہے کہ جشن ولادت منانا اسلاف کا بھی محبوب فعل رہا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جب کافر محمد بن عبداﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آمد کی خوشی مناکر فائدہ حاصل کرسکتا ہے تو مسلمان محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی آمد کا جشن مناکر کیوں فائدہ حاصل نہیں کرسکتا ؟ بلکہ ابن الجزری نے تو قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ میلاد منانے والوں کی جزا یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں جنت میں داخل فرمادے گا ۔
جہاں تک مروجہ طریقے سے میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم منانے کا سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا رہا ، لوگ ہر چیز احسن سے احسن طریقے سے کرتے رہے۔ پہلے مسجدیں بالکل سادہ ہوتی تھیں ، اب اس میں فانوس اور دیگر چراغاں کرکے اس کو مزین کرکے بنایا جاتا ہے ۔ پہلے قرآن مجید سادہ طباعت میں ہوتے تھے ، اب خوبصورت سے خوبصورت طباعت میں آتے ہیں وغیرہ اسی طرح پہلے میلاد سادہ انداز میں ہوتا تھا، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین اور تابعین اپنے گھروں پر محافلیں منعقد کرتے تھے اور صدقہ و خیرات کرتے تھے ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment