Sunday, 11 November 2018

اے رب یہ کس دنیا کے لوگ ہیں جو ذکر میلاد سے روکتے ہیں

اے رب یہ کس دنیا کے لوگ ہیں جو ذکر میلاد سے روکتے ہیں

انصاف کریں، جس آقائے کائنات کی تعریف و توصیف ہر آسمانی کتاب میں موجود ہے۔ جن کا ذکر ہر نبی نے اپنی امت کے سامنے کیا۔ جن کا ذکر اللہ نے ہر ذکر سے بلند تر کردیا۔ جن کا نام اپنے نام کے ساتھ ساتھ رکھا۔ جن کی اطاعت اپنی اطاعت، جن کی محبت اپنی محبت اور جن سے دشمنی اپنی دشمنی قرار دی ۔ جس کی آمد پر خوشیاں منانے کا حکم دیا اور اس خوشی کو ہر چیز سے بہتر قرار دیا ۔ کیا منشاء قدرت یہی تھا کہ ان کا ذکر نہ ہو ؟ یقینا ایسا نہیں ان کی آمد پر خوشی کا اظہار اس نے تمام آسمانی کتابوں میں کردیا ہے ۔

بعض علم و تقویٰ کے مدعی اور دین کے خادم ، دین کا نام لے کر اپنے من پسند پروگرام کرتے ہیں ۔ اپنے بڑوں کی برسیاں اپنے مدرسوں کے سالانہ جلسے بلکہ صد سالہ جشن مناتے ہیں ۔ مختلف بزرگوں کے ایام دھوم دھام سے مناتے ہیں ، قرآن و حدیث کے نام پر سیمینار منعقد کرتے ۔ جلوس نکالتے اور چراغاں کرتے ، ریلیاں کرتے اور ان پر آتش بازی کے مظاہرے کرتے ہیں ۔ لاکھوں روپے ان اللوں تللوں پر پھونک دیتے ہیں ۔ صدقات و خیرات کے طور پر جمع کی گئی دولت کو رنگین پروگراموں کی نذر کرتے ہیں اور یہ سب کچھ دین کے نام پر کر رہے ہیں ۔ جو اپنے آپ کو موحد ، پابند شریعت اور نہ جانے کیا کیا کہتے تھکتے نہیں ۔

پوچھئے ان پروگراموں کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، ائمہ مجتہدین علیہم الرّحمہ اور خیرالقرون میں کس کس نے کیا تھا ؟

اگر اس کا ثبوت کہیں بھی نہیں ، پھر آپ کے یہ تمام افعال بدعت و حرام کیوں نہیں؟

جبکہ اسی دلیل سے آپ ذکر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محافل کو بدعت کہتے ہیں ۔

آپ جو چاہیں دین میں اختراعات کریں ، آپ کو اجازت ہے اور مسلمان اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد پر جشن مناکر قرآن و سنت کے تقاضے پورے کریں ، آپ اسے بدعت و ناجائز کہیں ۔ آخر کیوں ؟

جائز کہنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ۔ ناجائز کہنے کے لئے دلیل درکار ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم میلاد منانا بدعت اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ایام سرکاری طور پر منانے کا مطالبہ ، دلیل شرعی پیش کیجئے ۔ دونوں میں کیا فرق ہے ۔ کس دلیل سے ایک جائز بلکہ لازم اور دوسرا بدعت ہوگیا ؟

براہ کرم ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئے ، لوگوں کے سامنے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میلاد ، سیرت طیبہ اور تعلیمات مقدسہ کو بیان کریں تاکہ سچی عقیدت ان کے دلوں میں پیدا ہو اور وہ اپنی زندگی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس زندگی کے رنگ میں ڈھال سکیں ۔ دین کا بول بالا ہو ، سچے فضائل و کمالات اتنی کثرت سے بیان کریں کہ غلط و موضوع روایات ختم ہوجائیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت پر اتنا زور دیں کہ نوجوانوں کے دلوں سے ہر جھوٹی محبت ختم ہوجائے ۔ صدقہ و خیرات ، قرآن خوانی و نعت خوانی اور سیرت و صورت محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر جگہ اتنا زور و شور سے تذکرہ کریں کہ شیطانی آوازیں پست ہوکر ختم ہوجائیں ۔ گھروں کو ، دکانوں کو ، بازاروں اور کارخانوں کو ، اداروں و راستوں کو اتنا سجائیں کہ ہر ایک پر عظمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم واضح ہو ۔ کھانے کھلائیں ، مشروب پلائیں ، ناداروں کو کپڑے پہنائیں ، نادار طلبہ کو کتب اور فیس دیں اور اس سب کا ثواب صاحب میلاد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں نذر کریں ۔ یاد رکھیں اگر محبوب کی آمد پر خوشی منانا گوارا نہیں تو کوئی خوشی نہ منائیں اگر یہ جشن منع ہے تو ہر جشن حرام ہے ۔ اگر آمد محبوب پر اظہار خوشی نہیں کرتے تو کسی تقریب پر خوشی زیب نہیں دیتی ۔

اے اہل اسلام : عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے لئے سب سے بڑی مذہبی و سیاسی تقریب ہے ۔ خوشیاں منانے کا یہ سب سے بڑا موقع ہے ۔ چراغاں کرنے ، جھنڈیاں لگانے اور تقریبات منعقد کرنے کا اس سے بڑا اور مقدس کوئی دوسرا موقع نہیں و بذالک فليفرحوا خوشیاں منانی ہیں تو بس اسی پر مناؤ ۔ جشن منانے ہیں تو اس پر مناؤ هو خير مما يجمعون ۔ (سورہ یونس : 58) یہ اظہار مسرت ہر اس چیز سے بہتر ہے جسے لوگ جمع کرتے ہیں ۔ خواہ نماز ، روزہ ، خواہ دنیا کا مال و اسباب ہو ، خواہ دیگر نیکیاں ہوں ۔ اس نیکی سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں کہ ہر نیکی اس کے وسیلہ سے ملی ہے ۔ اسی نیکی کی برکت سے کافر تک فیضیاب ہوئے ۔ مسلمان تو ان کے اپنے ہیں، وہ کیسے محروم رہ سکتے ہیں ۔ (طالب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب

اہلسنت پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تکفیر کے الزام کا جواب محترم قارئین کرام : دیابنہ اور وہابیہ اہل سنت و جماعت پر وہی پرانے بے بنیادی ...