کیوں جناب بوہریرہ (رضی اللہ عنہ) تھا وہ کیسا جام شیر
اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کی اک خاص بات یہ بھی ہے کہ آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بڑے بڑے خوبصورت واقعات کو دو مصرعوں میں بیان فرما دیا اور بڑا خوبصورت انداز اختیار فرمایا ۔ ایک مثال ملاحظہ فرمائیں :
کیوں جناب بوہریرہ تھا وہ کیسا جام شیر
جس سے ستر صاحبوں کا دودھ سے منہ پھر گیا
یہ مکمل واقعہ کچھ اس طرح : حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بیان کرتے تھے قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں! کہ میں بسا اوقات بھوک کی شدت کے باعث اپنا شکم اور سینہ زمین پر لگا دیتا (تاکہ زمین کی نمی اور ٹھنڈک سے بھوک کی حرارت میں کچھ کمی آجائے) اور بعض اوقات پیٹ پر پتھر باندھ لیتا تاکہ سیدھا کھڑا ہوسکوں ۔
ایک روز سرراہ جاکر بیٹھ گیا ۔ اتنے میں حضرت ابوبکر صدیق(رضی اللہ عنہ) کا ادھر سے گزر ہوا۔ میں نے ان سے ایک آیت قرآنی کا مطلب دریافت کیا۔ غرض تو یہ تھی کہ وہ میری صورت اور ہیئت دیکھ کر کھانا کھلانے کے لیئے اپنے پمراہ لے جائیں گے لیکن وہ چلے گئے اسی طرح حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) گزرے ان سے بھی ایک آیت کا مطلب دریافت کیا مگر وہ بھی گزر گئے ، کچھ دیر بعد رحمت اللعالمین آقائے دوجہاں ابو القاسم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تشریف فرما ہوئے اور میرے چہرہ کو دیکھتے ہی پہچان گئے اور دلربا مسکراہٹ کے ساتھ شگفتہ دہن ہوئے '' اے ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ)'' میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں حاضر ہوں ۔ ارشاد ہوا میرے ساتھ چلیں ۔ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ ہولیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم گھر تشریف فرما ہوئے تو ایک پیالہ دودھ رکھا دیکھا ، دریافت فرمایا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ' گھر والوں نے کہا فلاں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو ہدیہ بھیجا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے ارشاد فرمایا ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) اصحاب صفہ کو بلالاؤ ۔
سیدنا ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں : واھل الصفۃ اضیاف السلام ۔
ترجمہ : اور اصحاب صفہ اسلام کے مہمان تھے ۔
رحمت کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے پاس جب کہیں سے صدقہ آتا تو اصحاب صفہ کے پاس بھیج دیتے اور خود اس میں سے کچھ بھی نہیں لیتے تھے (اس لیئے آپ پر صدقہ حرام تھا) اور اگر ہدیہ آتا تو خود بھی اس میں سے تناول فرماتے تھے اور اصحاب صفہ کو بھی اس میں شریک کرتے ۔
اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کا یہ حکم کہ اصحاب صفہ کو بلا لاؤ، میرے نفس کو کچھ شاق گزرا اور اپنے دل سے کہہ رہا تھا کہ یہ اتنا سا دودھ اصحاب صفہ کے لیئے کیسے کافی ہوگا ؟؟؟ اس دودھ کا تو سب سے زیادہ حقدار میں تھا کہ کچھ پی کر طاقت اور توانائی حاصل کرتا، پھر یہ کہ اصحاب صفہ کے آنے کے بعد مجھ ہی کو اس کی تقسیم کا حکم دیں گے اور تقسیم کے بعد یہ امید نہیں کہ میرے لیئے اس میں سے کچھ بچ جائے لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اطاعت کے سوا چارہ نہ تھا ، چنانچہ اصحاب صفہ کو بلا لایا اور پھر آپ کے ارشاد کے مطابق ایک ایک کو پلانا شروع کیا ، جب سب نے سیراب ہوکر پی لیا ، تو میری طرف دیکھ کر آپ مسکرائے اور فرمایا: کہ اب صرف میں اور تم باقی رہ گئے ہیں ، میں نے عرض کیا بالکل درست ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور پینا شروع کرو میں نے پینا شروع کیا اور آپ برابر یہ فرماتے رہے '' اور پیو اور پیو '' یہاں تک میں بول اٹھا قسم اس ذات پاک کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کو حق دے کر بھیجا۔ اب بالکل گنجائش نہیں ۔ اس پر آپ نے میرے ہاتھ سے پیالہ لے لیا اور اللہ تعالٰی کی حمد و ثناء بیان فرمائی اور بسم اللہ شریف پڑھ کر باقی ماندہ سب نوش فرما لیا ۔ (صحیح البخاری عربی کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم و اصحابہ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 955- 956) ۔ (صحیح بخاری جلد سوم مترجم اردو صفحہ نمبر 820 ، 821 ، 822 مطبوعہ پروگریسو بکس اردو بازار لاہور)۔(طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment