عرس بزرگانِ دین کا جواز و شرعی حیثیت
کسی بزرگ کی یاد منانے کے لئے اور ان کو ایصالِ ثواب کرنے کے لئے ان کے مُحبّین ومریدین وغیرہ کا ان کی یومِ وفات پر سالانہ اجتماع ’’عُرس‘‘کہلاتا ہے ۔
بزرگانِ دین اولیاءِ کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی کا عُرس منانے سے مقصود ان کی یاد منانا اور ان کو ایصالِ ثواب کرنا ہوتا ہے اس لئے ان کے عُرس کا انعقاد کرنا شرعاً جائز و مستحسن اور اجروثواب کا ذریعہ ہے ۔
بزرگانِ دین کے اعراس میں ذکرُاللّٰہ ، نعت خوانی اورقرآنِ پاک کی تلاوت اور اس کے علاوہ دیگر نیک کام کر کے ان کو ایصالِ ثواب کیا جاتاہے اور ایصالِ ثواب کے جائز اور مستحسن ہونے کے دلائل اوپر ذکر کئے جاچکے ہیں ۔
حکیم الامت دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : بزرگانِ دین کے یومِ وِصال کو عرس اِس لیئے کہا جاتا ہے کہ یہ محبوب سے ملاقات کا دِن ہے دلیل حدیث نم کنومۃ العروس ہے ۔ (شرح احادیث خیر الانام صفحہ 60 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی،چشتی)
عرس بزرگانِ دین اور سماع قوالی سننا جائز ہے بزرگانِ دین عرس مناتے اور سماع سنتے تھےاور اعراس کے دن کی تخصیص کا سبب یہ ہے کہ اُس دن اُن اللہ والوں کا وِصال ہوا۔(بوادر النوادر صفحہ 400 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)
اعراس بزرگانِ دین خلاف شرع نہیں ہیں جس طرح مدارسِ دینیہ میں اسباق کےلیئے گھنٹے مقرر کرنا مباح امر اور جائز ہے اسی طرح تعین یوم عرس بھی جائز ہے۔(بوادر النوادر صفحہ نمبر 401 حکیم الامت دیوبند اشرف علی تھانوی)
حکیم الامتِ دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں : حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ شاہ عبد الرّحیم اور شاہ ولی اللہ علیہما الرّحمہ کے مزرارت پر جاتے اور فاتحہ پڑھتے لنگر تقسیم کرتے ۔ (ارواحِ ثلاثہ صفحہ 38 حکایت 29 حکیم الامتِ دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی مطبوعہ مکتبہ عمر فاروق کراچی،چشتی)
حکیم الامتِ دیوبند علاّمہ اشرف علی تھانوی حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر حاضر ہوتے اور محفلِ سماع و قوالی ۔(اشرف السوانح جلد اول ،دوم صفحہ نمبر 226)۔مزید پڑھیں ۔
مزارات پر حاضری دینا زمانہ قدیم سے مسلمانوں میں رائج ہے بلکہ خود رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ہر سال شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر برکات لُٹانے کیلئے تشریف لاتے تھے ۔ علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ابنِ ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ حضور سیّدِ دوعالَم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم شُہداءِ اُحُد کے مزارات پر ہر سال کے شروع میں تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ (رد المحتار، کتاب الصلاة، مطلب فی زیارة القبور،3/177،چشتی)
اولیاء اللّٰہ رَحِمَھُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی کے مزارات پر جانا باعثِ برکت اوررفعِ حاجات کا ذریعہ ہے ۔ اس لیے بزرگانِ دین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اولیاءِ کرام کی قبورپرجاتے اوراللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں اپنی حاجات کیلئے دعا کرتے جیسا کہ علامہ ابنِ عابدین شامی رَحْمَۃُ ﷲِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اس بارے میں مقدمۂ ردُّ المحتار میں امام شافعی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے نقل فرماتے ہیں :’’میں امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے برکت حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر آتا ہوں اگر مجھے کوئی حاجت درپیش ہوتی ہے تو دورکعت پڑھتا ہوں اورانکی قبر کے پاس جاکراللّٰہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں تو جلد حاجت پوری ہوجاتی ہے ۔ (ردالمحتار ، مقدمة الکتاب، مطلب یجوز تقلید المفضول مع وجود الافضل،1/135)
عُرس کا مسئلہ قرآن وحدیث ، صحابۂ کرام اور اولیاء صالحین کے عمل سے واضح ہوچکا ہے اور ہماری مُراد بھی وہی عُرس ہیں جو شریعتِ مطہرہ کے مطابق منائے جاتے ہیں ۔ ہاں غیرشرعی اُمور تو وہ ہر جگہ ناجائز ہیں اور یہ ناجائز کام عُرس کے علاوہ بھی ہوں تو ناجائز ہیں اور شریعت کے احکام کی معمولی سی سمجھ بوجھ رکھنے والا مسلمان انہیں جائز نہیں کہہ سکتا،ان خُرافات سے دور رہنا چاہیے اور حتّی المقدور دوسرے مسلمانوں کو بھی اس سے بچانا چاہیے ۔
کسی بزرگ کے نام کا جانور ذبح کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں جبکہ ذبح کرتے وقت اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا نام لیکر ذبح کیا جائے ۔ کیونکہ اگر ذبح کے وقت اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کا نام لیا تو وہ جانور حرام ہوجائے گا لیکن کوئی مسلمان اس طرح نہیں کرتا ، ہمارے یہاں لوگ عموماً جانور خریدتے یا پالتے وقت کہہ دیتے ہیں کہ یہ گیارہویں شریف کا بکرا ہے یا فلاں بزرگ کا بکرا ہے یا گائے ہے جسے بعد میں اس موقع پر ذبح کردیاجاتا ہے، اورذبح کے وقت اس پر اللّٰہ تعالیٰ کا نام ہی لیا جاتا ہے اور اس ذبح سے مقصود اس بزرگ کے لئے ایصالِ ثواب ہی ہوتا ہے اس میں حرج نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment