اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے
ابو لہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کی خوشی میں لونڈی آزاد کی تو اس کے عذاب میں کمی کردی گئی یہ کمی نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تعظیم میں تھی ۔ (فتح الباری شرح بخاری کتاب النکاح باب 20 جلد نمبر 9 صفحہ نمبر 181 ، 182امام ابن حجر عسقلانی رحمۃُ اللہ علیہ)
کیوں جی منکر وہابیو میلاد منانے والوں کو ابو لہب کی پیروی کے طعنے دینے سے پہلے بات مکمل کیا کرو جھوٹ مت بولا کرو امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ علیہ نے یہ لکھ کر یہ عذاب میں تخفیف یعنی کمی نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی تعظیم میں تھی اگر کہیں سے شرم و حیاء ادھار ملتی ہو تو ادھار لے لو اور کچھ شرم و حیاء کرو ۔
شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ابولہب کی باندیوں میں سے ثویبہ لونڈی نے ابولہب کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کی خوشخبری دی جسے سن کر ابولہب نے اپنی باندی ثویبہ کو آزاد کردیا۔ ابولہب کے مرنے کے بعد اس کے کسی ساتھی نے اسے خواب میں دیکھ کر اس کاحال پوچھا تو جواب دیا جہنم میں پڑا ہوں البتہ اتنا ضرور ہے کہ ہر پیر کی رات کو عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے اور اپنی ان دو انگلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ان انگلیوں سے میں نے اپنی لونڈی ثویبہ کو اس لئے آزاد کیا تھا کہ اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کی خوشخبری دی تھی ۔ اس صلہ میں ان دونوں انگلیوں سے کچھ پانی پی لیتاہوں ۔ (مومن کے ماہ و سال صفحہ 84-85)
میلاد شریف کرنے والوں کے لئے اس میں سند ہے جوشب میلاد خوشیاں مناتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں ۔ یعنی ابولہب کافر تھا اور قرآن پاک اس کی مذمت میں نازل ہوا ۔ جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے ۔ (مدارج النبوۃ مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 35)
جب کافر کو فائدہ ہوتا ہے تو اہل ایمان کا کیا حال ہوگا ۔ لگاؤ شیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ پر فتویٰ کہ یہ بھی ابو لہب کی نسل تھے شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔
اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیان کردہ روایت کی تشریح جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے ایک کافر چچا ابولہب کا ذکر ہے کہ اُسے بھی ﷲ تعالیٰ نے آمدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خوشی منانے پر اَجر سے محروم نہیں رکھا، حالاں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالفین میں سرِفہرست تھا ۔ یہ ایسا بدبخت شخص تھا کہ ﷲ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں اس کی مذمت میں پوری سورت نازل فرمائی۔ اِرشاد فرمایا : تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ٭ مَا أَغْنَى عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ ٭ سَيَصْلَى نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ ۔
ترجمہ : ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ ہو جائے (اُس نے ہمارے حبیب پر ہاتھ اُٹھانے کی کوشش کی ہے) اُسے اُس کے (موروثی) مال نے کچھ فائدہ نہ پہنچایا اور نہ ہی اُس کی کمائی نے عنقریب وہ شعلوں والی آگ میں جا پڑے گا ۔
(سورہ لہب، 111 : 1 - 3)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادتِ مبارکہ کے حوالہ سے مشہور واقعہ کتبِ اَحادیث میں مذکور ہے کہ ابو لہب نے اپنی ایک لونڈی ثویبہ کو وقتِ ولادت حضرت سیدہ آمنہ رضی ﷲ عنہا کی خدمت کے لیے بھیجا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو ثویبہ دوڑتے ہوئے ابولہب کے پاس پہنچی اور اسے بھتیجا پیدا ہونے کی خوش خبری سنائی۔ بھتیجے کی پیدائش کی خبر سن کر ابولہب اتنا خوش ہوا کہ اُس نے وہیں اپنے ہاتھ کی دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے کہا : ثویبہ! جا میں نے تجھے نومولود (صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم) کی پیدائش کی خوشی میں آزاد کیا ۔
ابولہب جب حالت کفر پر ہی مر گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ مرنے کے بعد تجھ پر کیا گزر رہی ہے ؟
اس نے جواب دیا کہ میں دن رات سخت عذاب میں جلتا ہوں لیکن جب پیر کا دن آتا ہے تو میرے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے اور میری انگلیوں سے پانی جاری ہو جاتا ہے جسے پی کر مجھے سکون ملتا ہے ۔ اِس تخفیف کا باعث یہ ہے کہ میں نے پیر کے دن اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم) کی ولادت کی خوش خبری سن کر اپنی خادمہ ثویبہ کو ان انگلیوں کا اشارہ کرتے ہوئے آزاد کر دیا تھا ۔
یہ واقعہ حضرت زینب بنت اَبی سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے جسے محدثین علیہم الرّحمہ کی کثیر تعدادنے واقعہ میلاد کے تناظر میں نقل کیا ہے ۔ اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (194۔ 256ھ) کی الصحیح میں مروی حدیث کے الفاظ یہ ہیں فلما مات أبولهب أريه بعض أهله بشرّ حيبة، قال له : ما ذا لقيت؟ قال أبولهب : لم ألق بعدکم غير أني سقيت في هذه بعتاقتي ثويبة ۔
ترجمہ : جب ابولہب مر گیا تو اس کے اہل خانہ میں سے کسی کو اُسے خواب میں دکھایا گیا ۔ وہ برے حال میں تھا ۔ (دیکھنے والے نے) اس سے پوچھا : کیسے ہو ؟
ابولہب نے کہا : میں بہت سخت عذاب میں ہوں ، اس سے کبھی چھٹکارا نہیں ملتا ۔ ہاں مجھے (اس عمل کی جزا کے طور پر) اس (انگلی) سے قدرے سیراب کر دیا جاتا ہے جس سے میں نے (محمد صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادت کی خوشی میں) ثویبہ کو آزاد کیا تھا ۔ (بخاري، الصحيح، کتاب النکاح، باب وأمهاتکم اللاتي أرضعنکم، 5 : 1961، رقم : 4813)(عبد الرزاق، المصنف، 7 : 478، رقم : 13955)(عبد الرزاق، المصنف، 9 : 26، رقم : 16350)(مروزي، السنة : 82، رقم : 290)(بيهقي، السنن الکبري، 7 : 162، رقم : 13701)(بيهقي، شعب الإيمان، 1 : 261، رقم : 281)(بيهقي، دلائل النبوة و معرفة أحوال صاحب الشريعة، 1 : 149) (ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 108،چشتی)(ابن ابی دنیا نے ’’کتاب المنامات (ص : 154، رقم : 263)‘‘ میں اسے حسن اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے )(بغوي، شرح السنة، 9 : 76، رقم : 2282)(ابن جوزي، صفوة الصفوة، 1 : 62 12)(سهيلي، الروض الأنف في تفسير السيرة النبوية لابن هشام، 3 : 98، 99 13)(زيلعي، نصب الراية لأحاديث الهداية، 3 : 168 14)(ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 67 : 171، 172 15)(ابن کثير، البداية والنهاية، 2 : 229، 230 16)(عسقلاني، فتح الباري، 9 : 145 17) (عيني، عمدة القاري شرح صحيح البخاري، 20 : 95 18)(شيباني، حدائق الأنوار، 1 : 134 19. عامري، شرح بهجة المحافل، 1 : 41 20)(انور شاه کشميري، فيض الباري علي صحيح البخاري، 4 :278،چشتی)
یہ روایت اگرچہ مُرسَل ہے لیکن مقبول ہے ، اِس لیے کہ اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ (194۔ 256ھ) نے اسے اپنی ’’الصحیح‘‘ میں نقل کیا ہے اور اَجل علماء و حفاظِ حدیث علیہم الرّحمہ نے اِس پر اِعتماد کرتے ہوئے اِس سے اِستشہاد و اِستناد کیا ہے ۔ ثانیاً یہ روایت فضائل و مناقب کے باب میں ہے نہ کہ حلال و حرام میں ؛ اور مناقب و اَحکام کے مابین حدیث کے اِستدلال میں فرق کو علماء خوب جانتے ہیں ۔
(1) اُصولِ حدیث میں مرسل اُس حدیث کو کہا جاتا ہے جس کی سند کا آخری حصہ یعنی تابعی سے اوپر کا کوئی راوی ساقط ہو ۔
(2) اِس کا حکم یہ ہے کہ جب اَجل تابعی تک یہ روایت صحیح ثابت ہوجائے تو قابلِ حجت ہوگی ۔
(3) تین فقہی مذاہب کے بانیان . اِمام اَعظم ابو حنیفہ (80۔ 150ھ)، اِمام مالک (93۔ 179ھ) اور اِمام اَحمد بن حنبل (164۔ 241ھ) علیہم الرّحمہ ۔ اور محدّثین کی کثیر جماعت کے نزدیک مرسل روایت قابلِ حجت ہوتی ہے بشرطیکہ ارسال کرنے والا ثقہ ہو اور وہ ثقہ ہی سے ارسال کرتا ہو ۔
(4) ان کی دلیل یہ ہے کہ ثقہ تابعی کے متعلق یقینی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے متعلق ’’قال رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کذا او فعل کذا او فعل بحضرتہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے یہ فرمایا ، یا یہ کیا یا آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے سامنے یہ کیا گیا) ‘‘ تب ہی کہے گا جب وہ ثقہ راوی سے سنے گا ۔
(ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 38)(ذهبي، الموقظة في علم مصطلح الحديث : 39)(سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 273)(ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48)(ابن حجر عسقلاني، نزهة النظر بشرح نخبة الفکر في مصطلح حديث أهل الأثر : 36، 37)(سخاوي، کتاب الغاية في شرح الهداية في علم الرواية، 1 : 272 2)(ابن کثير، الباعث الحثيث شرح اختصار علوم الحديث : 48 3)(عبد الحق محدث دهلوي، مقدمة في أصول الحديث : 42، 43)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (773۔ 852ھ) ’’نزھۃ النظر بشرح نخبۃ الفکر فی مصطلح حدیث اھل الاثر صفحہ نمبر 37 میں لکھتے ہیں : اِمام اَحمد کے ایک قول اور مالکی و حنفی فقہاء کے مطابق حدیثِ مرسل مطلقاً مقبول ہوتی ہے، اور امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی اور سند (خواہ وہ سند متصل ہو یا مرسل) سے مرسل روایت کی تائید ہو جائے تو وہ مقبول ہے ورنہ نہیں ۔
ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (م 1014ھ) شرح شرح نخبۃ الفکر میں لکھتے ہیں کہ ابن جریر نے یہ تصریح کی ہے کہ حدیث مرسل قبول کرنے پر تمام تابعین رضی اللہ عنہم کا اِجماع ہے اور کسی تابعی سے اس کا انکار منقول نہیں ۔ اور نہ اس کے بعد دو سو (200) سال تک اَئمہ میں سے کسی نے اس کا انکار کیا اور یہی وہ قرونِ فاضلہ ہیں جن کے خیر پر برقرار رہنے کی رسول ﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم نے شہادت دی ۔
ذیل میں ہم اِس روایت کے بارے میں چند ائمہ کرام کے ملفوظات نقل کریں گے ، جنہوں نے اِس واقعہ سے جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا اِستشہاد و اِستناد کیا ہے :
حافظ شمس الدین محمد بن عبد ﷲ جزری (م 660ھ) اپنی تصنیف ’’عرف التعریف بالمولد الشریف‘‘ میں لکھتے ہیں : فإذا کان أبولهب الکافر الذي نزل القران بذمه جوزيَ في النار بفرحه ليلة مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم به، فما حال المسلم الموحد من أمة النبي صلي الله عليه وآله وسلم يسر بمولده، وبذل ما تصل إليه قدرته في محبته صلي الله عليه وآله وسلم ؟ لعمري إنما يکون جزاؤه من ﷲ الکريم أن يدخله بفضله جنات النعيم ۔
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی ولادتِ باسعادت کے موقع پر خوشی منانے کے اَجر میں اُس ابولہب کے عذاب میں بھی تخفیف کر دی جاتی ہے جس کی مذمت میں قرآن حکیم میں ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے ۔ تو اُمتِ محمدیہ کے اُس مسلمان کو ملنے والے اَجر و ثواب کا کیا عالم ہوگا جو آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے میلاد کی خوشی مناتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی محبت و عشق میں حسبِ اِستطاعت خرچ کرتا ہے؟ خدا کی قسم ! میرے نزدیک ﷲ تعالیٰ ایسے مسلمان کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی خوشی منانے کے طفیل اپنی نعمتوں بھری جنت عطا فرمائے گا ۔ (سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206)(سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 65، 66)(قسطلاني، المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 147)(زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 260، 261)(يوسف صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366، 367 6)(نبهاني، حجة ﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237، 238،چشتی)
حافظ شمس الدین محمد بن ناصر الدین دمشقی (777۔ 842ھ) ’’مورد الصادی فی مولد الہادی‘‘ میں فرماتے ہیں : قد صح أن أبالهب يخفّف عنه عذاب النار في مثل يوم الإثنين لإعتاقه ثويبة سرورًا بميلاد النبي صلي الله عليه وآله وسلم ۔
ترجمہ : یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشی میں ثویبہ کو آزاد کرنے کے صلہ میں ہر پیر کے روز ابولہب کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے ۔
اِس کے بعد محمد بن ناصر الدین دمشقی نے درج ذیل اَشعار پڑھے :
إذا کان هذا کافر جاء ذمه
وتبت يداه في الجحيم مخلَّدا
أتي أنه في يوم الاثنين دائما
يخفّف عنه للسّرور بأحمدا
فما الظن بالعبد الذي طولُ عمره
بأحمد مسروراً ومات موحدا
ترجمہ : جب ابولہب جیسے کافر کے لیے۔ جس کی مذمت قرآن حکیم میں کی گئی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں اُس کے ہاتھ ٹوٹتے رہیں گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی خوشی منانے کی وجہ سے ہر سوموار کو اُس کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے۔ تو کتنا خوش نصیب ہوگا وہ مسلمان جس کی ساری زندگی عبادتِ الٰہی اور میلاد کی خوشیوں میں بسر ہوئی اور وہ حالتِ اِیمان پر فوت ہوا ۔ (سيوطي، الحاوي للفتاوي : 206)(سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 66)(نبهاني، حجة ﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 238) ۔ (صحیح بخاری ، کتاب النکاح) یہ حدیث کہیں مختصر اً اور کہیں مطولاً کتاب النکاح کے علاوہ بھی وارد ہوئی ہے، رقم احادیث اس طرح ہیں ۔ ۵۱۰۶، ۵۱۰۷، ۵۱۳۳ اور ۵۳۷۲) ۔
کب تک انکار کروگے نادانو جب ایک کافر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ولادت کی خوشی منانے پر عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے یہ سب تعظیم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم میں ہے تو جب مسلمان اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ولادت کی خوشی منائے گا اسے کتنا اجر و فائدہ ملے گا امام عسقلانی ، شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور امام جزری علیہم الرّحمہ جیسے جلیل القدر محدثین فرماتے ہیں اللہ کی قسم جس کے قبضے میں ہمارے جان ہے اللہ مسلمان کو اجر عطاء فرمائے گا ۔ یہ تم لوگوں کی بد نصیبی و بغض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی زندہ مثال ہے کبھی احادیث کو ضعیف کہہ کر انکار ، کبھی کافر کے طعنے دے کر انکار ظالمو یہ خواب صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلّم نے بیان کیا ہے اور کبھی سادہ لوح لوگوں کو گمراہ کرنے کےلیئے خود حدیث و روایت کا انکار کردیتے ہیں اللہ تعالیٰ ہدایت عطاء فرمائے آمین ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment